راولپنڈی شہر میں گزشتہ روز شعبہ رابطہ برائے تاجران دعوتِ اسلامی کے تحت استقبالِ رمضان ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں تاجران اور مختلف سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔

معلومات کے مطابق اس ورکشاپ میں ماہرِ امورِ تجارت مفتی علی اصغر عطاری مدظلہ العالی نے روزے کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اسلامی بھائیوں کی تربیت کی اور انہیں زکوٰۃ کے چند ضروری مسائل بتائے۔

علاوہ ازیں مفتی علی اصغر عطاری مدظلہ العالی نےشرکا کی جانب سے ہونے والے مختلف سوالات کے جوابات ارشاد فرمائے۔(کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کے سلسلے میں پچھلے دنوں ماہرِ امورِ تجارت مفتی علی اصغر عطاری مدظلہ العالی کی دورۂ پنجاب کے دوران گجرات چیمبر آف کامرس (Gujarat Chamber of Commerce)میں آمد ہوئی جہاں اُن کی ملاقات چیمبر ممبران سمیت دیگرتاجر حضرات سے ہوئی۔

اس موقع پر ایک نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں مفتی علی اصغر عطاری مدظلہ العالی نے ”احکامِ تجارت، تجارت کے شرعی مسائل اور ایک تاجر کو کیسا ہونا چاہیئے؟“ کے موضوع پر بیان کیا اور وہاں موجود تاجران سمیت دیگر ممبران کو دینِ اسلام کے مطابق اپنے تجارتی معاملات کو کرنے کی ترغیب دلائی۔بعدازاں مفتی علی اصغر عطاری مدظلہ العالی نے حاضرین کی جانب سے ہونے والے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیئے۔(کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


ماہِ رمضان کی آمد آمد ہے، عنقریب مسلمانوں کے درمیان  نیکیوں، رحمتوں، برکتوں اور رب کریم کو راضی کرنے والا مہینہ جلوہ گر ہونے والا ہے۔ اس کی مناسبت سے شیخ طریقت امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے اس ہفتے 30 صفحات کا رسالہ یادِ رَمضان پڑھنے/ سننے کی ترغیب دلائی ہے اور پڑھنے/ سننے والوں کو اپنی دعاؤں سے بھی نوازا ہے۔

دعائے عطار

یاربُّ المصطفٰے! جوکوئی 30 صفحات کا رسالہیادِ رَمضانپڑھ یا سُن لے اور کم از کم ایک رسالہ خرید کر کسی کو تحفے میں دےاُسے ماہِ رمضان کا حقیقی قدردان بنا اور اُس کا رمضان المبارک کے صدقے خاتمہ بالخیر فرماکر اسے بے حساب مغفرت سے نواز دے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتمِ النّبیِّین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ رسالہ دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے ابھی مفت ڈاؤن لوڈ کیجئے

Download


پچھلے دنوں افریقی ملک ملاوی اور موزمبیق میں آنے والے سمندری طوفان ”فریڈی“ نے مختلف علاقوں میں تباہی مچادی۔ سمندری طوفان اور بارشوں کے باعث انتقال کرجانے والے افراد کی تعداد 200 سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ زخمی اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد ہزاروں کے قریب ہے۔اس طوفان اور بارشوں کی وجہ سے کئی مکانات تباہ ہوئے تو کئی دیواریں گرگئیں اور کچھ گھروں کی چھتیں بھی اُڑگئیں۔

ہنگامی اقدام کرتے ہوئے دعوت اسلامی کا شعبہ FGRFکے تحت نگران ملاوی کابینہ مولانا محمد عثمان عطاری اور دیگر ذمہ داران نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور امدادی کام کرنے کے لئے حالات کا جائزہ لیا۔

حالات کا جائزہ لینے کے بعد FGRF کے ذمہ داران نے متأثرہ علاقوں میں امدادی کاموں کا آغاز کردیاجہاں متأثرین میں اشیائے خوردونوش، خشک راشن سمیت استعمال و ضرورت کی اشیاء، پلاسٹک شیٹ اور دیگر چیزوں کی تقسیم کا سلسلہ رہا۔ان امدادی کاموں میں نگران ملاوی کابینہ مولانا محمد عثمان عطاری مدنی، FGRF کے ذمہ داران اور پرائیویٹ ایسوسی ایشن کے عہدیداران نے حصہ لیا۔

اس موقع پر ذمہ داران دعوت اسلامی مقامی افراد میں نیکی کی دعوت بھی دیتے رہے جس کی بدولت قبولِ اسلام کی بہاریں بھی دیکھنے آئی اور کچھ غیر مسلموں نے اسلام قبول کرلیا۔ نگران ملاوی کابینہ مولانا محمد عثمان عطاری مدنی نے غیر مسلموں کو کلمہ طیبہ پڑھاکر دائرہ اسلام میں داخل کرلیااور ان کے اسلامی نام بھی رکھے۔


16 مارچ 2023ء کوریا میں مبلغ دعوت اسلامی ڈاکٹر سہیل عطاری نے افریقی ملک روانڈا (Rwanda) سے تعلق رکھنے والے ایک غیر مسلم شخص پر انفرادی کوشش کی جس کے نتیجے میں اس شخص نے اسلام کی دعوت سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔

ایسٹ ریجن مشاورت کے رکن مولانا فراز عطاری مدنی نے جنوبی کوریا کے شہر انچون (Inchon) میں قائم مدنی مرکز فیضان مدینہ میں انہیں کلمہ طیبہ پڑھاتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل کرلیا ۔ نیو مسلم شخص کا اسلامی نام ”سلیمان“ رکھا گیا۔


اہل بیت میں کون شامل: لفظ اہل کے لغوی معنی ہیں "والا" جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل علم یعنی (علم والا) اہل معرفت یعنی (معرفت والا) وغیرہ ۔تو اہلِ بیت کا معنی ہوا گھر والے ۔اور اہل بیت نبی کے معنی ہوئے ۔"نبی کے گھر والے۔ مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی (رحمۃُ اللہ علیہ) نے تحریر فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور (علیہ السّلام) کی تمام اولاد صاحبزادے صاحبزادیاں اور تمام ازواج حضور کے اہل بیت ہیں۔ (امیر معاویہ پر ایک نظر ،ص 34)

اللہ پاک قراٰن کریم میں اہل بیت کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے۔( پ 22 ، الاحزاب : 33)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں تم میں وہ چیز چھوڑتا ہوں کہ اگر تم اسے تھامے رہو تو میرے بعد گمراہ نہ ہو گے ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے ۱؎ الله کی کتاب جو آسمان سے زمین تک دراز رسی ہے۲؎ اور میری عترت یعنی میرے اہل بیت یہ دونوں جدا نہ ہوں گے حتی کہ میرے پاس حوض پر آجاویں۳؎ تو غور کرو تم ان دونوں سے میرے بعد کیا معاملہ کرتے ہو۔

قراٰن و حدیث کی روشنی میں ہمیں اہل بیت کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے آئیے اب ہم اہل بیت کے حقوق سنتے ہیں۔ حق نمبر 1: ہمیں اپنی ذات اہل بیت اطہار کو مقدم کریں۔ یعنی کہ اگر ایک طرف ہماری عقل میں کوئی بات آرہی ہو اور دوسری جانب اہل بیت کی بات ہو تو ہمیں ان کو ترجیح دینی چاہیے۔

حق نمبر 2: ان کے حق میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی محبت میں اس حد تک نہ بڑھ جائیں کہ ان کی محبت میں معاذ اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض و عداوت کی بو آنے لگ جائے۔ حق نمبر3 : ان کے محبت کرنے والوں سے محبت کریں اور ان سے دشمنی رکھنے والوں سے قطع تعلق کریں۔ حق نمبر4 : ان کے حقوق میں سے سب سے اہم حق یہ ہے کہ ہم ان کی مبارک سیرت کا ناصرف مطالعہ کریں بلکہ مطالعہ کر کے اُس پر عمل پیرا ہونے کی بھی کوشش کریں۔

ہم اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں اللہ پاک ہمیں اہل بیت کا حق پہنچاننے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حضور تاجدارِ مدینہ کے نسب اور قرابت کے لوگوں کو اہل بیت کہا جاتا ہے۔ اہل بیت میں پیارے آقا کی ازواجِ مطہرات، آپ کے شہزادے اور شہزادیاں، حضرت علی اور امام حسن اور حسین سب داخل ہیں۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا خاندان یعنی اہل بیت نجابت اور شرافت میں دنیا کے تمام خاندانوں سے اشرف اور اعلی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دشمن بھی نہ کر سکے۔ ابو سفیان نے جب وہ کفر کی حالت میں تھے۔ بادشاہ ہرقل کے بھرے دربار میں اس حقیقت کا اقرار کیا۔ ھو فینا ذو نسب یعنی نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم سب میں سے عالی خاندان ہیں۔ ان سے محبت ہم کو عذاب جہنم سے بچا سکتی ہے۔ تو جس طرح حقوقِ رسول ہیں اس طرح معزز قارئین ! رسول کے گھر والوں کے بھی حقوق ہیں۔

اہل بیت کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ان سے محبت کی جائے کیونکہ اس فانی اور زوال پذیر دنیا میں فنا ہونے والی ہماری اس زندگی کی بقا و تحفظ کے لئے جس طرح پانی ضروری ہے اور بغیر اس کے ہماری زندگی باقی نہیں ہو سکتی ۔ بالکل اسی طرح ہمارے ایمان کی بقا اور تحفظ کے لئے بھی حضور فخر کائنات تابدار انبیا، حضرت سیدنا محمد مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ان کے اہل بیت کی محبت اور الفت اس سے بھی کئی گنا زیادہ اہم اور ضروری ہے اہل بیت سے عقیدت اور محبت جزو ایمان اور مدار شفاعت و نجات ہے۔ تاریخ اسلام میں اہل بیت کا احترام ہمیشہ علمائے حق اور صوفیا ، کا شعور رہا ہے ۔

اہل بیت کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ان کو جہنم کی آگ سے پاک مانا جائے ۔قرطبی نے سید المفسرین حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سے آیت وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ(۵) کی تفسیر میں نقل کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ حضورِ انور سیدِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس بات پر راضی ہوئے کہ ان کے اہل بیت میں سے کوئی جہنم میں نہ جائے گا۔ حاکم نے ایک حدیث روایت کی اور اس کو صحیح بتایا۔ اس کا مضمون یہ ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرما یا: مجھ سے میرے رب نے میرے اہل بیت کے حق میں فرمایا ان میں سے جو توحید اور رسالت کا مقر ہوا ان کو عذاب نہ فرمائے گا۔

اہل بیت کے حقوق سے یہ بھی ہے کہ ان کے درمیان ہونے والے اختلاف پر سکوت کیا جائے کیونکہ یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ امت میں سے جس کو کوئی بھی فضلیت یا شرف ملا وہ الله کے پیارے حبیب کے تصدق اور نسبت سے ملا۔ اہل بیت اطہار کی مقدس ہستیاں ہوں یا صحابۂ کرام، سبھی نے جو بھی عزتیں پائیں ہیں وہ حضور کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہونے کے سبب سے ۔ بعض نادان لوگ جو اہل بیت اور صحابۂ کرام کو مد مقابل لاتے ہیں اور فاسد اغراض کیلئے ان کے افراط و تفریط سے کام لیتے ہیں۔ جب منبع فیض اور جود و کرم ایک ہے تو اختلاف کیسا۔ تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان کے اختلاف میں سکوت اختیار کریں۔

اہل بیت کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ نہ ان کی گستاخی کی جائے اور نہ ہی ان سے بغض رکھا جائے کیونکہ اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی کی طرح ہیں جو اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جو اس سے کترایا ہلاک و برباد ہو گیا۔ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: خبردار ! جو شخص اہل بیت کی بغض اور عددات پر مرا ،وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوا ہوگا یہ اللہ پاک کی رحمت سے ناامید ہے۔(الشرف المؤبد ص 79) تو ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ نہ تو اہل بیت کی گستاخی کرے اور نہ ہی ان کے گستاخوں کے ساتھ دوستی رکھے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اہل بیت کے طفیل ہمارے گناہوں کو معاف فرما کر درجات بلند فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے مخلوق کو پیدا کیا ،ان میں بعض کو بعض پر فضلیت ‏بخشی ۔ خاص انسانوں کو عام انسانوں پر ۔اسی طرح بعض خاندانوں ‏کو بعض خاندانوں پر لیکن اگر تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھ لیاجائے ‏تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جو فضلیت خاندانِ اہلِ بیت کو ہوئی ہے وہ ‏آج تک کسی کو بھی نہیں ہوئی ہے ،تاریخ کے کسی بھی پہلو سے ‏دیکھیں تو اہلِ بیت اطہار سب خوبیوں میں نمایاں اور ممتاز ہیں ‏۔آئیے آج شان ِاہلِ بیت پڑھتے ہیں ۔

اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں اہلِ بیت کی شان بیان کرتے ہوئے ‏ارشاد فرماتا ہے :‏ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے۔( پ 22 ، الاحزاب : 33)

ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہل بیت

‏( ذوق نعت ص100) ‏

اہل بیت میں کون شامل: لفظ اہل کے لغوی معنی ہیں "والا" جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل علم یعنی (علم والا) اہل معرفت یعنی (معرفت والا) وغیرہ ۔تو اہلِ بیت کا معنی ہوا گھر والے ۔اور اہل بیت نبی کے معنی ہوئے ۔"نبی کے گھر والے۔ مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی (رحمۃُ اللہ علیہ) نے تحریر فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور (علیہ السّلام) کی تمام اولاد صاحبزادے صاحبزادیاں اور تمام ازواج حضور کے اہل بیت ہیں۔ (امیر معاویہ پر ایک نظر ،ص 34)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :‏

اہلِ سنّت کا ہے بیڑا پار اصحابِ حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عِترت رسولُ اللہ کی

‏(حدائق بخشش ص153)‏

ایک انسان کے دوسرے انسان پر مختلف حقوق ہوتے ہیں ‏،ہر ایک کے مقام و مرتبے کے اعتبار سے حقوق مختلف ہوتے ہیں ‏جن کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے ، والدین کے حقوق الگ ہوتے ہیں ‏تو میاں بیوی کے آپس میں حقوق الگ ہوتے ہیں ، حضور جان ِ ‏عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بھی حقوق ہیں ۔اسی طرح اہلِ بیت کے بھی حقوق ‏ہیں جن کا معلوم ہونا ، ان کو ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ حضرت ‏علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ‏فرمایا: جس نے میرے گھر والوں ، انصار اور عرب کے حقوق نہ ‏جانے تو وہ ان تین میں سے ایک ہوگا: ‏(1)منافق(2)زنا کی پیداروار ہوگی (3)یا اس کا غیر ۔ (شعب الایمان باب فی تعظیم النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، فصل فی الصلاۃ علیہ ،2/ ‏‏232)‏

اہلِ بیت کے حقوق :‏‏(1،2،3)احسان، شفقت، رعایت:‏ حضرت زید بن ارقم سے بالاسناد مروی ہے کہ رسولُ اللہ ‏صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میں تم کو اپنی اہلِ بیت کے بارے میں اللہ کی ‏قسم دیتا ہوں ۔ یہ تین مرتبہ فرمایا( یعنی اہلِ بیت کی تعظیم و توقیر ‏کرو )‏۔(شفاء شریف، 2/ 47)‏

اس حدیث میں تین حقوق بیان کئے گئے ہیں: میں تم سے اللہ ‏پاک کا اہلِ بیت کے حق کے بارے میں ان پر احسان کرنے کا ‏سوال کرتا ہوں، ان پر شفقت کرنے کا ، یا میں تم سے اللہ پاک ‏کی قسم لیتا ہوں کہ تم میرے اہلِ بیت کی رعایت کرو۔(شرح شفا، ‏2/82)‏

‏ (4)درود اہلِ بیت :‏دیلمی نے ایک حدیث روایت کی کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ‏فرمایا: دعا رکی رہتی ہے جب تک کہ مجھ پر اور میرے اہلِ بیت ‏پر درود نہ پڑھا جائے ۔( سوانح کربلا، ص83)‏‏(5،6) اہلِ بیت سے محبت، ان کو ایذا نہ دینے کا :‏ اللہ پاک قراٰن میں ارشاد فرماتا ہے :ترجَمۂ کنزُالایمان:‏ یہ ہے وہ جس کی خوش خبری دیتا ہے اللہ اپنے بندوں کو جو ‏ایمان لائے اور اچھے کام کیے تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ ‏اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت ۔(پ25،الشوریٰ:23)

‏"مگر قرابت کی محبت " کے تحت مفتی نعیم الدین مراد آبادی ‏علیہ رحمۃ اللہ الہادی خزائن العرفان میں فرماتے ہیں :‏ تم پر لازم ہے کیونکہ مسلمانوں کے درمیان مودّت ، محبّت واجب ‏ہے جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا: وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ ۔ اور حدیث شریف میں ہے کہ مسلمان مثل ایک عمارت ‏کے ہیں جس کا ہر ایک حِصّہ دوسرے حصّہ کو قوّت اور مدد پہنچاتا ‏ہے ، جب مسلمانوں میں باہم ایک دوسرے کے ساتھ محبّت ‏واجب ہوئی تو سیدِ عالَمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ کس قدر ‏محبّت فرض ہوگی ، معنی یہ ہیں کہ میں ہدایت و ارشاد پر کچھ ‏اجرت نہیں چاہتا لیکن قرابت کے حقوق تو تم پر واجب ہیں ، ان کا ‏لحاظ کرو اور میرے قرابت والے تمہارے بھی قرابتی ہیں ، انہیں ‏ایذا نہ دو ۔ حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ قرابت والوں ‏سے مراد حضور سیدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آلِ پاک ہے ۔ ‏

ہمیں چاہئے کہ اہلِ بیت سے خوب محبت کریں ، ان کے حقوق ادا ‏کریں ، دوسروں تک ان کے حقوق کا علم پہنچائیں ،حقوق کو ادا ‏کرنے کی ترغیب دلائیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان باتوں ‏پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے۔( پ 22 ، الاحزاب : 33)

اہل بیت میں کون شامل: لفظ اہل کے لغوی معنی ہیں "والا" جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل علم یعنی (علم والا) اہل معرفت یعنی (معرفت والا) وغیرہ ۔تو اہلِ بیت کا معنی ہوا گھر والے ۔اور اہل بیت نبی کے معنی ہوئے ۔"نبی کے گھر والے۔

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی (رحمۃُ اللہ علیہ) نے تحریر فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور (علیہ السّلام) کی تمام اولاد صاحبزادے صاحبزادیاں اور تمام ازواج حضور کے اہل بیت ہیں۔ (امیر معاویہ پر ایک نظر ،ص 34)

مذکورہ آیت کریمہ سے اہلِ بیت اطہار کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور چونکہ ان تمام نفوسِ قدسیہ کا تعلّق سرکارِ دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ہے اسی وجہ سے ہم پر بھی ان کے حقوق ہیں جن کو ادا کرنا بہت ضروری ہے۔

(1) اہلِ بیت اطہار سے مَحَبَّت: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی بندہ مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک میرے گھر والے اسے اپنے گھر والوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائیں۔(شعب الایمان،حدیث:1505، دار الکتب العلمیہ)(2)اہلِ بیت اطہار سے اچھا سلوک: نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان بَرَکت نشان ہے: جسے پسند ہو کہ اس کی عُمْر میں بَرَکت ہو اور اللہ پاک اسے دی ہوئی نعمتوں سے نَفْعَ دے تو اسے چاہیے کہ میرے اہلِ بیت سے اچھا سلوک کرے.(کنز العمّال، حدیث:34166، مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ)

(3)اہلِ بیت کے ساتھ نیکی کرنا: پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: جو شخص اولادِ عبد المطلب میں سے کسی کے ساتھ نیکی کرے، جب وہ بروزِ قیامت مجھ سے ملے گا تو میں اس کا صلہ دوں گا۔ (جامع صغیر، حدیث:8822، مطبوعہ:دار الکتب العلمیہ)(4)اہلِ بیت اطہار پر درود پڑھنا: اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مجھ پر نامکمل درود نہ پڑھا کرو ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا: یَا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! نامکمل درود کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ کہ تم اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ تک پڑھ کر رُک جاؤ۔پھر ارشاد فرمایا: اس کے بجائے یوں پڑھا کرو: اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَ عَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ(یعنی میری اٰلِ پاک پر بھی درود بھیجا کرو) (الصواعق المحرقہ، ص 183،مطبوعہ: مکتبۃ العصریہ)

(5)اہلِ بیت اطہار کی معرِفت: علامہ قاضی عیاض رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: آلِ محمد کی معرفت دوزخ سے نَجات، ان سے مَحَبَّت پُلِ صراط پر آسانی اور ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا عذابِ الٰہی سے امان ہے۔(الشفا بتعریف حقوق المصطفی، 2/41،مطبوعہ: دار الغد الجدید)

اُن کے گھر بے اجازت جبرآئیل آتے نہیں قَدْر والے جانتے ہیں قدر و شانِ اہل بیت


اہل بیت میں کون شامل: لفظ اہل کے لغوی معنی ہیں "والا" جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل علم یعنی (علم والا) اہل معرفت یعنی (معرفت والا) وغیرہ ۔تو اہلِ بیت کا معنی ہوا گھر والے ۔اور اہل بیت نبی کے معنی ہوئے ۔"نبی کے گھر والے۔

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی (رحمۃُ اللہ علیہ) نے تحریر فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور (علیہ السّلام) کی تمام اولاد صاحبزادے صاحبزادیاں اور تمام ازواج حضور کے اہل بیت ہیں۔ (امیر معاویہ پر ایک نظر ،ص 34)

جس طرح اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق مؤمنین پر ادا کرنا فرض ہیں اسی طرح حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اہلِ بیت کے بھی کچھ حقوق مسلمانوں پر لازم ہیں۔ کیونکہ یہ وہ کشتی نوح ہیں جن پر سوار ہو کر ہم گمراہیت کے سمندر کو پار کرنے میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں، انہیں حقوقِ اہلِ بیت اطہار میں سے 5 حقوق مندرجہ ذیل ہیں : (1)محبت کرنا: پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ہم اہلِ بیت کی محبت کو خود پر لازم کرو کیونکہ جو ( بروز قیامت) اللہ سے اس حال میں ملے کہ وہ ہم سے محبت رکھتا ہو، تو وہ ہماری شفاعت کے سبب جنت میں داخل ہو گا۔ ( معجم الاوسط،1/606، حدیث:2230)

(2)فرمانبرداری کرنا : فرمانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : اے لوگوں! میں نے تم میں وہ چیز چھوڑی ہے کہ جب تک تم ان کو تھامے رہو گے گمراہ نہ ہوگے، اللہ کی کتاب اور میری عترت یعنی اہلِ بیت۔(مشکوٰة المصابیح ،ج2، حدیث:6152) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: قراٰن پکڑنے سے مراد ہے اس پر عمل کرنا ، عترت کو پکڑنے سے مراد ہے ان کا احترام کرنا ان کی روایات پر اعتماد کرنا ان کے فرمانوں پر عمل کرنا۔(مراة المناجیح،8/ 397)

(3) اچھا سلوک کرنا: ایک مقام پر ارشاد فرمایا: جس نے میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو میں قیامت کے دن اسے اس کا صلہ دوں گا۔ (الکامل لابن عدی ، 6 / 425) (4)بے ادبی سے بچنا : رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میں تم کو اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ سے ڈراتا ہوں۔(مشکوٰة المصابیح، کتاب المناقب، حدیث:6140) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: یعنی ان کی نافرمانی اور بے ادبی بھول کر بھی نہ کرنا ورنہ دین کھو بیٹھو گے۔(مراة المناجیح، 8/389)

(5)درود و سلام بھیجنا: حضرت کعب بن عجرة رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا کہ: ہم آپ پر اور آپ کے اہلِ بیت پر کس طرح درود بھیجا کریں ؟ اللہ پاک نے سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں خود ہی سکھا دیا ہے ۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ یوں کہا کرو : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ۔ (صحیح بخاری، کتاب انبیا ٕ علیھم السلام، حدیث:3370) یعنی جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر درود پڑھا جائے تو اہل بیتِ اطہار پر بھی پڑھا جائے کہ یہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کا بھی عمل ہے۔

الغرض اہلِ بیت اطہار میں سب کا خوب خوب دل و جان سے ادب و احترام، محبت، پیروی، فرمانبرداری، ناموس پر پہرا، ذکرِ خیر، اور ایصالِ ثواب کرتے رہنا چاہیے تا کہ ہمارا ظاہر و باطن سنور جائے اور ہماری نسلیں بھی اہل بیتِ اطہار کے عاشق ہوں۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ اہلِ بیت کی آڑ میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کی گستاخیاں نہ کی جائیں۔ کیونکہ دونوں میں سے کسی ایک کو چھوڑ کر ہمارا گزارہ نہیں کہ اہلِ بیت اطہار کشتی نوح ہے اور صحابہ کرام ستارے ہیں اور ان دونوں کی مدد سے ہم نے سمندر پار کرنا ہے۔ اسی لئے کوئی کچھ بھی کہے ہم نے بس صحابہ کرام اور اہلِ بیت عظام کا دامن اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دینا۔ ایسا نہ ہو کہ کل بروزِ قیامت دونوں حضرات کی طرف سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے اور اپنا بیڑا دنیا اور آخرت دونوں میں غرق ہو جائے۔

اہلِ سنّت کا ہے بیڑا پار اَصحابِ حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسولُ اللہ کی

اللہ پاک ہمیں اہلِ بیت اطہار اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کا پکّا شچا عاشق بنائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دین اسلام میں اہلِ بیت کرام کو بہت اعلی مقام و مرتبہ حاصل ہے ۔اور کیوں حاصل نا ہو کہ جس مصطفیٰ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے میں ایمان ملا جس مصطفی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے میں کائنات کو وجود ہوا ۔جس مصطفی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے میں ہمیں اللہ کی وحدانیت کا پتا چلا ۔اس مصطفی کریم کے اہل کو اسی کے دین میں مقام و مرتبہ نا ملے ۔یہ تو نا ممکن بات ہے ۔اہل بیت کرام (علیھم الرضوان) کی محبت کامل ایمان کی نشانی ہے ۔اہلِ بیت کی محبت جنت میں لے جانا اور جہنم سے بچانے کا سبب ہے ۔اہل بیت کی محبت اللہ و رسول کی محبت پانے کا ذریعہ ہے ۔الغرض اہل بیت کی محبت دنیا و آخرت کی بے شمار بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔یہاں تک کہ اہلِ بیت کی محبت شفاعت مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حاصل ہونے کا ذریعہ ہے ۔جیسا کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جو شخص وسیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی کوئی خدمت ہو ، جس کے سبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں، اسے چاہئے کہ میرے اہلِ بیت کی خدمت کرے اور انہیں خوش کرے ۔(برکاتِ آل رسول ، ص 110)

اہل بیت میں کون شامل: لفظ اہل کے لغوی معنی ہیں "والا" جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل علم یعنی (علم والا) اہل معرفت یعنی (معرفت والا) وغیرہ ۔تو اہلِ بیت کا معنی ہوا گھر والے ۔اور اہل بیت نبی کے معنی ہوئے ۔"نبی کے گھر والے۔

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی (رحمۃُ اللہ علیہ) نے تحریر فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور (علیہ السّلام) کی تمام اولاد صاحبزادے صاحبزادیاں اور تمام ازواج حضور کے اہل بیت ہیں۔ (امیر معاویہ پر ایک نظر ،ص 34)

حقوق: نُور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَروَر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرْشاد فرمایا: جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچّھا سُلوک کرے گا،میں روزِ قِیامت اِس کا صِلہ(بَدْلَہ) اُسے عطا فرماؤں گا۔(جامع صغیر، ص533، حدیث:8821)ایک اور مَقام پر اِرْشاد فرمایا: جو شخص اَوْلادِ عَبْدُ الْمُطَّلِب میں سے کسی کے ساتھ دُنیا میں نیکی(بھلائی)کرے اُس کا صِلہ(بَدْلَہ) دینا مجھ پر لازِم ہے جب وہ روزِ قِیامت مجھ سے مِلے گا۔(تاریخ بغداد،10/ 102،حدیث:5221)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے بنو عبدالمطلب! بے شک میں نے تمہارے لئے اللہ پاک سے دس چیزیں مانگی ہیں، پہلی یہ کہ وہ تمہارے قیام کرنے والے کو ثابت قدم رکھے اور دوسری یہ کہ وہ تمہارے گمراہ کو ہدایت دے اور تیسری یہ کہ وہ تمہارے جاہل کو علم عطاء کرے اور میں نے تمہارے لئے اللہ پاک سے یہ بھی مانگا ہے کہ وہ تمہیں سخی، بہادر اور دوسروں پر رحم کرنے والا بنائے، پس اگر کوئی رکن اور مقام کے درمیان کھڑا ہوجائے اور نماز پڑھے اور روزہ رکھے اور پھر (موت کے بعد) اللہ سے ملے، اس حال میں کہ وہ اہلِ بیت سے بغض رکھنے والا ہو تو وہ جہنم میں داخل ہو گا۔(المعجم الکبیر،11/176،حدیث:11412، دار إحياء التراث العربی)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! اہلِ بیت کی محبت کے دنیاوی و دینی بے شمار فضائل ہیں کیونکہ انکی دو جہاں کے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نسبت ہے ۔اور اہلِ بیت کرام کے فضائل کون بندہ کیسے کماحقہ بیان کر سکتا ہے کہ جن کے فضائل و اہمیت خود قراٰن نے بیان کی ہے ۔اور بلامبالغہ کثیر احادیث میں اہلِ بیت کرام سے محبت کرنے اور ان سے بغض رکھنے پر وعیدیں بیان کی گئیں ہیں ۔اللہ کریم ہمیں اور ہمارے اہل و عیال کو بھی اہلِ بیت کرام سے محبت کرنے ان کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


مسلمانوں کے دلوں میں جہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت دینِ اسلام کے لئے ضروری ہے، وہیں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھرانے اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے محبت و عقیدت بھی دین اسلام کا حصہ ہے۔ آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جہاں اپنے اصحاب کے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی اقتدا کروگے ہدایت پاؤگے وہیں اپنے آل عیال کے لئے بھی فرمایا: میرے اہل ِ بیت کی مثال کشتی نوح کی طرح ہے ،جو اس میں سوار ہوا ،وہ نجات پا گیا اور جو پیچھے رہا وہ ہلاک ہو گیا ۔

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اہل و عیال تو وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کی فضیلت و تطہیر کی گواہی تو خود ربِّ کعبہ اپنے پاک کلام مجید میں کرتا ہے چنانچہ اللہ پاک ارشا د فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے۔( پ 22 ، الاحزاب : 33)

اولاً اس بات کو جاننا ضروری ہے کہ اہلِ بیت سے کون سے افراد مراد ہیں ۔

مذکورہ آیت میں اہلِ بیت سے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ازواجِ مُطَہَّرات سب سے پہلے مراد ہیں کیونکہ آگے پیچھے سارا کلام ہی اُن کے متعلق ہو رہا ہے۔ بقیہ نُفوسِ قُدسیہ یعنی خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرا، حضرت علی المرتضیٰ اور حسنین کریمَین کا اہلِ بیت میں داخل ہونا بھی دلائل سے ثابت ہے۔

اہل بیت میں کون شامل: لفظ اہل کے لغوی معنی ہیں "والا" جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل علم یعنی (علم والا) اہل معرفت یعنی (معرفت والا) وغیرہ ۔تو اہلِ بیت کا معنی ہوا گھر والے ۔اور اہل بیت نبی کے معنی ہوئے ۔"نبی کے گھر والے۔

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی (رحمۃُ اللہ علیہ) نے تحریر فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور (علیہ السّلام) کی تمام اولاد صاحبزادے صاحبزادیاں اور تمام ازواج حضور کے اہل بیت ہیں۔ (امیر معاویہ پر ایک نظر ،ص 34)

اہلِ بیت اطہار علیھم الرضوان کے 5 حقوق: (1)ازواج مطہرات سے پردے کا حکم : اَزواجِ مُطَہَّرات رضی اللہُ عنہنَّ امت کی مائیں ہیں اور ان کے بارے میں کوئی شخص اپنے دل میں بُرا خیال لانے کا تَصَوُّر تک نہیں کر سکتا، اس کے باوجود مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ ان سے کوئی چیز مانگنی ہے تو پردے کے پیچھے سے مانگو تاکہ کسی کے دل میں کوئی شیطانی خیال پیدا نہ ہو۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْــٴَـلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جب تم اُن سے برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو۔(پ22، الاحزاب : 53)

(2)اہل بیت سے محبت کا حکم: اہلِ بیت اطہار کی محبت کا اہل ایمان کے لئے لازم ہونا کتاب وسنت سے ثابت ہے ۔ عَنِ ابْنٍ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْه قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: { قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ } [الشورى: 23] قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، وَمَنْ قَرَابَتُكَ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: «عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا»

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا:يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هٰؤُلاَءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَوَلَدَاهَا.یعنی آپ کی قرابت والے وہ کون لوگ ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: علی، فاطمہ، اور اس کے دونوں بیٹے (حسن اور حسین)۔ (المعجم الكبير)

ایک اور حدیث میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: أَحِبُّوا اﷲَ لِمَا يَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِہ۔ وَأَحِبُّوْنِي بِحُبِّ اﷲ۔وَأَحِبُّوْا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي یعنی اللہ سے محبت کرو اِس وجہ سے کہ اُس نے تمہیں بے شمار نعمتوں سے مالا مال کیا، اور مجھ سے محبت کرو اللہ کی محبت کی وجہ سے، اور میرے اہلِ بیت سے محبت کرو میری محبت کی وجہ سے۔(جامع ترمذی، ابواب المناقب، 5/ 664، حدیث: 3789)

سیّدوں کی محبتشفاعتِ مُصْطَفٰے حاصل ہونے کا بھی ذریعہ ہےجیساکہ مُصْطَفٰے جانِ رحمت، شمعِ بزمِ ہدایت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ شفاعت نشان ہے : جو شخص وَسِیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی کوئی خدمت ہو، جس کے سبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں، اُسے چاہئے کہ میرے اہلِ بیت کی خدمت کرے اور اُنہیں خُوش کرے۔ ( برکاتِ آل رسول، ص 110)

(3)اہلِ بیت اطہار کا ادب و احترام کرنا: کیونکہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔ چنانچہ صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان حضرت سیّدُنا عباس رضی اللہ عنہ کی تعظیم و توقیر بجا لاتے، آپ کے لئے کھڑے ہو جاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مُشاوَرت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے۔(تہذیب الاسماء،1/244، تاریخ ابنِ عساکر،26/372)

ایک موقع پر حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ کے سامنے اہلِ بیت کا ذِکر ہوا تو آپ نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدْرت میں میری جان ہے! رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قَرابَت داروں کے ساتھ حُسنِ سُلوک کرنا مجھے اپنے قَرابَت داروں سے صِلۂ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے۔ (بخاری،2/438،حدیث:3712)

(4)اہلِ بیت اطہار کی اطاعت کرنا: عربی کا مقولہ ہے:ان المحب لمن یحب مطیع(بلاشبہ محبت کرنے والا جس سے اسکی محبت ہوتی ہے اسکی اطاعت کرتا ہے)۔ إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا، كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَهْلَ بَيْتِى عِتْرَتِى أَيُّهَا النَّاسُ اِسْمَعُوا وَقَدْ بَلَّغْتُ إِنَّكُمْ سَتَرِدُونَ عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُكُمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِى الثَّقَلَيْنِ وَالثَّقَلَانِ كِتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَأَهْلُ بَيْتِى۔ ترجمہ: میں تمہارے درمیان میں دو امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں، تم ان کا دامن تھامے رکھوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگےکتاب خدا اور میری عترت جو اہلِ بیت اور میرے خاندان والے ہیں۔ اے لوگو! سنو، میں نے تمہیں یہ پیغام پہنچا دیا کہ تمہیں حوض کے کنارے میرے سامنے لایا جائے گا؛ چنانچہ میں تم سے پوچھوں گا کہ تم نے ان دو امانتوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؛ یعنی کتاب خدا اور میرے اہلِ بیت۔( مسند احمد، 5/ 181)

(5)اہلِ بیت اطہار کے خلاف کسی بات کو گوارا نہ کرنا: وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «حُبُّكَ الشَّيْءَ يُعْمِي وَيُصِمُّ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد ترجمہ: ابودرداء رضی اللہ عنہ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کسی چیز سے تیری محبت اندھا اور بہرہ بنا دیتی ہے ۔

اہل بیت اطہار سے محبت کا تقاضہ اور حق یہی ہے کہ ان کے خلا ف بات کرنے والوں کی بات کو نہ سنا جائے۔