خلیفہ اسے کہتے ہیں جو احکامات جاری کرنے اور دیگر اختیارات میں اصل کا نائب ہو۔

خلیفہ بنانے کی حکمت:علامہ احمد صاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:خلیفہ بنانے کی وجہ یہ نہیں کہ اللہ پاک کو اس کی حاجت ہے،بلکہ خلیفہ بنانے کی حکمت بندوں پر رحمت فرمانا ہے۔لہٰذا انسانوں میں سے رسولوں (اور نبیوں ) کو خلیفہ بنا کر بھیجنا اللہ پاک کی رحمت،لطف اور احسان ہے۔ (سیرت الانبیاء )

آیتِ مبارکہ:اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(۵۹) (پ3،ال عمرٰن:59)ترجمۂ کنزالعرفان:بےشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے۔ اُسے مٹی سے پیدا کیا پھر اسے فرمایا”ہوجا“تو وہ ہوگیا۔

حدیثِ مبارک:حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا اور ان کے قد کی لمبائی 60 گز تھی۔

اہلِ جنت کا قد حضرت آدم علیہ السلام کے قد برابر ہوگا:مذکورہ بالا حدیث کے اخرمیں ہے:جو بھی جنت میں آجائے وہ حضرت آدم علیہ السلام کی صورت پر ہوگا اور اس کا قد 60گز ہوگا۔پھر حضرت آدم علیہ السلام کے بعد اب تک مخلوق (قد و قامت) میں کم ہوتی رہی ہے۔ (سیرت الانبیاء)

یومِ جمعہ کی حضرت آدم علیہ السلام سے نسبت:حضور ﷺ نےفرمایا :بہترین دن جس میں سورج نکلے وہ جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا، اسی دن انہیں (جنت سے زمین پر) اتارا گیا، اسی دن ان کی توبہ قبول فرمائی گئی، اسی دن ان کی وفات ہوئی اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔( سیرت الانبیاء )

حضرت آدم علیہ السلام کا اشیا کے نام بتانا:اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا:اے آدم!تم فرشتوں کو ان چیزوں کے نام بتادو۔چنانچہ آپ علیہ السلام نے ہر چیز کا نام بتانے کے ساتھ ساتھ ان کی پیدائش کی حکمت بھی بیان کردی۔ اس کے بعد الله پاک نے فرشتوں سے فرمایا: قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲)(پ1،البقرۃ:32)ترجمہ کنز العرفان: (فرشتوں نے)عرض کی: (اے اللہ!)تو پاک ہے۔ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا دیا ،بے شک تو ہی علم والا، حکمت والا ہے۔ (سیرت الانبیاء )

حضرت آدم علیہ السلام کی فضلیت :حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے انسان اور تمام انسانوں کے باپ ہیں، اس لئے آپ کا لقب ابوالبشر ہے۔ انہیں کائنات کی تمام اشیا کے ناموں ، ان کی صفات اور ان کی حکمتوں کا علم عطا فرمایا۔ فرشتوں نے ان کی علمی فضیلت کا اقرار کر کے انہیں سجدہ کیا۔ ابلیس انہیں سجدہ کرنے سے انکار پر مردور ہوا۔

حضرت آدم علیہ السلام کثیر فضائل سے مشرف ہیں اور قرآن و حدیث میں آپ کا کثرت سے ذکر موجود ہے۔اللہ پاک ہمیں حضرت آدم علیہ السلام کی سیرت سے علم و عمل کی برکتیں حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 


1-فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍۚ-فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِؕ-وَ نَادٰىهُمَا رَبُّهُمَاۤ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَ اَقُلْ لَّكُمَاۤ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۲۲)(پ8،الاعراف: 22) ترجمہ کنزالایمان: تو اتار لایا انہیں فریب سے پھر جب انہوں نے وہ پیڑ چکھا تو ان پر ان کی شرم کی چیزیں کھل گئیں اور بدن پر جنت کے پتے چپٹانے لگے اور انہیں ان کے رب نے فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے ۔

حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا کے لباس جدا ہوتے ہی ان دونوں کا پتوں کے ساتھ اپنے بدن کو چھپانا اس بات کی دلیل ہے کہ پوشیدہ اعضاء کا چھپانا انسانی فطرت میں داخل ہے ۔لہٰذا جو شخص ننگے ہونے کو فطرت سمجھتا ہے جیسے مغربی ممالک میں ایک طبقے کا رجحان ہے تو وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی فطرتیں مسخ ہو چکی ہیں۔(صراط الجنان ، ص 286)

2- وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجمہ: اور اللہ پاک نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1،البقرۃ: 31 )اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام پر تمام اشیا پیش فرمائیں اور بطور الہام کے آپ کو ان تمام چیزوں کے نام ،کام، صفات، خصوصیات ،اصولی علوم اور صفتیں سکھا دیں۔ (تفسیر بیضاوی،1 / 285-286)تمام چیزیں فرشتوں کے سامنے پیش کر کے ان سے فرمایا گیا کہ اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو کہ تم سے زیادہ علم والی مخلوقِ نہیں اور خلافت کے تمام ہی حق دار ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ کیونکہ خلیفہ کا کام اختیار استعمال کرنا، کاموں کی تدبیر کرنا اور عدل و انصاف کرنا ہے اور یہ بغیر اس کے ممکن نہیں کہ خلیفہ کو ان تمام چیزوں کا علم ہو جن پر اسے اختیار دیا گیا ہے اور جن کا اسے فیصلہ کرنا ہے ۔

اس آیت میں اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کے فرشتوں پر افضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا۔اس سے ظاہر ہوا کہ علم تنہائیوں کی عبادتوں سے بہتر ہے ۔(صراط الجنان،1/107)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:اے ابوذر!تمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے اللہ کی کتاب سے ایک آیت سیکھی ہو ۔یہ تمہارے لیے سو 100 رکعات نفل پڑھنے سے بہتر ہے اور تمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب سیکھا ہو جس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو یہ تمہارے لیے ہزار 1000 رکعتیں نوافل پڑھنے سے بہتر ہے ۔(ابن ماجہ،1/ 142،حدیث:219)لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ علمِ دین حاصل کریں اور اس کو سیکھ کر دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں ۔

3- وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) (پ1،البقرۃ :34)ترجمہ کنز العرفان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا۔ اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافر ہو گیا۔

الله پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام موجودات کا نمونہ اور عالمِ روحانی و جسمانی کا مجموعہ بنایا،نیز فرشتوں کے لئے حصولِ کمالات کا وسیلہ بنایا تو انہیں حکم فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں کیونکہ اس میں حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کا اعتراف اور اپنی بات اَتَجْعَلُ فِیْهَاکی معذرت ہے۔بہر حال تمام فرشتوں نے سجدہ کیا اور شیطان تکبر کے طور پر یہ سمجھتارہا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام سے افضل ہے۔اس جیسے انتہائی عبادت گزار ،فرشتوں کے استاد اور مقربِ بارگاہِ الٰہی کو سجدہ کا حکم دینا حکمت کے خلاف ہے۔اپنے اس باطل عقیدے اور حکمِ الٰہی سے انکار اور تعظیمِ نبی سے تکبر کی بنا پر کافر ہو گیا۔اس واقعہ سے معلوم ہوا تکبر ایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض اوقات بندے کو کفر تک پہنچا دیتا ہے۔اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ تکبرسے بچے ۔(صراط الجنان، 1 /113)

حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:تکبر سے بچتے رہو کیونکہ اسی تکبر نے شیطان کو اس بات پرابھارا تھا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کوسجده نہ کرے۔(تاریخ ابنِ عساكر، 40/49)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔(مسلم،ص 61 ،حدیث:147)

4-وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا۪-وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۳۵)(پ1،البقرۃ: 35)ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بی بی اس جنت میں رہواور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے ۔

یہاں ایک اہم مسئلہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ مذہبی معاملات اور اہم عقائد میں بھی زبان کی بے احتیاطیاں شمار سے باہر ہیں۔اس میں سب سے زیادہ بے باکی جس مسئلہ میں دیکھنے میں آتی ہے وہ حضرت آدم علیہ السلام کا جنتی ممنوعہ درخت سے پھل کھانا ہے۔ ( صراط الجنان ،1/115)

سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:غیر تلاوت میں اپنی طرف سے حضرت آدم علیہ السلام کی طرف نافرمانی گناہ کی نسبت حرام ہے۔ائمۂ دین نے اس کی تصریح فرمائی، بلکہ ایک جماعتِ علمائے کرام نے اسے کفر بتایا ہے۔( فتاویٰ رضویہ ،1/823)لہٰذا اپنے ایمان و قبر وآخرت پر ترس کھاتے ہوئے ان معاملات میں خاص طور پر اپنی زبان پر قابو رکھنی چاہیے ۔

5-فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) (پ1،البقرۃ: 37)ترجمہ کنزالایمان: پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔

حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کئے: قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۲۳) (پ8،الاعراف :23)ترجمہ کنز العرفان:دونوں نے عرض کی:اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہو جائیں گے ۔

آیت میں توبہ کا لفظ ہے ۔یہ لفظ جب اللہ پاک کے لیے آئے تو اس کا معنی اللہ پاک کا اپنی رحمت سے بندے پر رجوع کرنا یا بندے کی توبہ قبول کرنا ہے۔اور جب بندے کے ساتھ آئے تو دوسرے مفہوم میں ہے۔توبہ کا اصل مفہوم اللہ پاک کی طرف رجوع کرنا ہے۔ (صراط الجنان ،1/119)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:توبہ کی 3 شرائط ہیں :1۔گناہ سے رک جانا۔2۔گناہ پر شرمندہ ہونااور3۔ گناہ کو چھوڑ دینے کا پکا ارادہ کرنا۔اگر گناہ کی تلافی وتدارک ہوسکتا ہو تو وہ بھی ضروری ہے۔(ریاض الصالحین ، ص 5)لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اگر تلافی ممکن ہے تو وہ بھی کریں۔


نصیحت سے مراد:وہ بات جس پر عمل کرنا مفید ہو اور صالحین سے بات ملی ہو یا ان کے واقعات سے اس بات کو اخذ کیا ہو۔قرآن سے کثیر نصیحت آپ کے واقعات سے حاصل ہوئی، جن میں سے چند یہ ہیں:

(1)ہر کام سے پہلے مشورہ لینا چاہیے : ہمیں حضرت آدم علیہ السلام کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ احکام و اوامر کے اجر اور دیگر تصرفات میں اصل کا نائب ہوتا ہے۔یہاں خلیفہ سے حضرت آدم علیہ السلام مراد ہیں۔ اگرچہ اور تمام انبیا بھی اللہ پاک کے خلیفہ ہیں ۔حضرت داود علیہ السلام کے حق میں فرمایا: یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ(پ23،صٓ:26)فرشتوں کو خلافتِ آدم کی خبر اس لیے دی گئی کہ وہ ان کے خلیفہ بنائے جانے کی حکمت دریافت کر کے معلوم کر لیں اور ان پر خلیفہ کی عظمت و شان ظاہر ہو کہ ان کو پیدائش سے قبل ہی خلیفہ کا لقب عطا ہوا اور آسمان والوں کو ان کی پیدائش کی بشارت دی گئی۔ (تفسیر خزائن العرفان،ص13) یہ اس آیت میں بیان ہوا ہے: وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجمہ کنز الایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ (پالبقرۃ: 30 )

(2) علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے:یہ نصیحت یا مسئلہ ہمیں حضرت آدم علیہ السلام کے واقعات میں ایک آیت سے معلوم ہوا۔وہ کچھ اس طرح ہے کہ یعنی جب اللہ پاک نےفرشتوں سے یہ فرمایا کہ جب اس نے حضرت آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنایا کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ میں کوئی مخلوق تم سے زیادہ عالم پیدا نہ کروں گا اور خلافت کے ایک تم ہی مستحق ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ کیونکہ خلیفہ کا کام تصرف و تدبیر اور عدل و انصاف ہے اور یہ خلیفہ بننا اس کے بغیر ممکن نہیں ہوتا کہ خلیفہ کو ان تمام چیزوں کا علم ہو جن پر اس کو متصرف فرمایا گیا اور جن کا اس کو فیصلہ کرنا ہے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ انبیا علیہم السلام ملائکہ سے افضل ہیں۔(تفسیر خزائن العرفان ،ص14)یہ اس آیت میں بیان ہوا ہے:فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) (پ1،البقرۃ:31) ترجمہ کنز الایمان:فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔ (3)تمام لغات اور زبانیں اللہ پاک کی طرف سے ہیں: جب فرشتوں نے کہا کہ ہمیں تو اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھایا تو اس سے ثابت ہوا کہ اللہ پاک کی طرف سے تمام علم آیا ہے اور اللہ پاک کے نام کی طرف تعلیم کی نسبت صحیح ہے۔لیکن اسے معلم نہ کہا جائے گا کیونکہ معلم پیشہ ور تعلیم دینے والے کو کہتے ہیں۔(تفسیر خزائن العرفان،ص 14 )قرآن کی اس آیت میں اس کا بیان ہے:قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) (1،البقرۃ:32)ترجمۂ کنزالایمان:بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔

(4)سجدۂ تحیت پہلی شریعت میں جائز تھا،شریعتِ محمدیہ میں منسوخ کیا گیا ہے۔یہ بات ہمیں حضرت آدم علیہ السلام کے اس واقعے سے حاصل ہوئی کہ اللہ پاک نے آپ کو تمام موجودات کا نمونہ اور عالم روحانی جسمانی کا مجموعہ بنایا اور فرشتوں کے لیے حصولِ کمالات کا وسیلہ بنایا تو انہیں حکم فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں کیونکہ اس میں حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کا اعتراف تھا اور اپنی بات اَتَجْعَلُ فِیْهَاکی معذرت بھی ہے ۔مقربین ملائکہ سمیت تمام نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے انکار کیا۔ بہرحال تمام فرشتوں کو اس کا حکم ہوا اور اس سے یہ بھی بات معلوم ہوئی کہ سجدے دو قسم کے ہیں:ایک سجدہ ٔعبادت اور دوسرا سجدۂ تعظیمی۔سجدۂ عبادت وہ ہے جو عبادت کی نیت سے ہو کسی کو معبود بنا کر کیا جائے اور تعظیمی سجدہ وہ ہوتا ہے جس سے مسجود کی تعظیم ہوتی ہے۔بہرحال پہلی امتوں میں سجدۂ تعظیمی جائز تھا اور امتِ محمدیہ میں یہ جائز نہیں اور یہ اس آیت میں بیان ہوا ہے۔(تفسیر صراط الجنان،ص25)وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-البقرۃ:34)ترجمہ کنزالعرفان: اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ تمام نے سجدہ کیا۔

(5)تکبر نہایت ہی قبیح ہے،کبھی نوبت کفر تک لے جاتا ہے :حضرت آدم علیہ السلام کے ہی واقعے سے ایک اور نصیحت یہ بھی معلوم ہوئی کہ تکبر ایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض اوقات بندے کو کفر تک پہنچا دیتا ہے۔اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ تکبر کرنے سے بچے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔( مسلم،ص 41 ،حدیث: 147 )حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:تکبر سے بچتے رہو کیونکہ اسی تکبر نے شیطان کو اس بات پر ابھارا تھا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرے۔(تاریخ ابن عساکر ، 49 /40) اللہ پاک سے دعا ہے جو ہم نے نصیحتیں پڑ ھیں ان پر ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ امین


اللہ پاک نے آسمان و زمین بنائے۔ سب سے پہلے فرشتوں کو نور، جنات کو آگ کے شعلوں سے پیدا کیا گیا اور اس کے بعد انسان کو پیدا کیا گیا۔ سب سے پہلے انسان اللہ پاک کے نبی حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں ،اسی لیے آپ کا لقب ابو البَشَرْ ہے اور آپ سب سے پہلے رسول بھی ہیں جو شریعت لے  کر اپنی اولاد کی طرف بھیجے گئے۔ ( نزہۃ القاری، 5/52مفہوماً)

اللہ پاک نے خاص اپنے دستِ قدرت سے آپ کا جسمِ مبارک بنایا اور اُن میں اپنی طرف سے ایک خاص روح پھونک کر پسندیدہ صورت پر پیدا فرمایا، اُنہیں کائنات کی تمام اشیا کے ناموں،اُن کی صفات اور اُن کی حکمتوں کا علم عطا فرمایا۔حضرت آدم علیہ السلام کثیر فضائل سے مشرف ہیں اور قرآن و حدیث میں آپ کا کثرت سے تذکرہ موجود ہے۔ ( سیرت الانبیاء،ص65 )

حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے اللہ پاک نے مشورے کے انداز میں فرشتوں سے کلام فرمایا ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ( پ 1 ،البقرۃ: 30) ترجمہ کنز الایمان : اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔

اللہ پاک اس سے پاک ہے کہ اسے کسی سے مشورے کی ضرورت ہو۔البتہ یہاں(خلیفہ)بنانے کی خبر فرشتوں کو ظاہری طور پر مشورے کے انداز میں دی گئی۔خلیفہ اسے کہتے ہیں جو احکامات جاری کرنے اور دیگر اختیارات میں اصل کا نائب ہو۔

حدیثِ مبارک:جو کسی کام کا ارادہ کرے اور اس میں کسی مسلمان سے مشورہ کرے اللہ پاک اسے درست کام کی ہدایت دے دیتا ہے ۔ ( تفسیر منشور،7/357)

حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا کئی سالوں سے جنت میں رہ رہے تھے۔ اللہ پاک نے انہیں جنت کی تمام اشیا کھانے کا حکم دیا سوائے ایک درخت کے کہ اس درخت کا پھل نہ کھانا مگر شیطان ابلیس کو یہ بات گوارہ نہ ہوئی ،اس نے حضرت آدم علیہ السلام اور حوا رضی اللہ عنہا کو بہکایا کہ وہ اس درخت کا پھل کھا لیں جس کو کھانے سے انہیں اللہ پاک نے منع فرمایا تھا۔آخر کار وہ ملعون کامیاب ہو گیا اور ان دونوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا ۔اللہ پاک نے انہیں جنت سے زمین پر بھیج دیا۔ حضرت آدم علیہ السلام کی یہ خطا اجتہادی تھی اور اجتہادی خطا معصیت یعنی( گناہ )نہیں ہوتی،اس لیے جو شخص حضرت آدم علیہ السلام کو عاصی یا ظالم کہے وہ نبی کی توہین کے سبب دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔اللہ مالک و مولیٰ ہے وہ اپنے بندہِ خاص حضرت آدم علیہ السلام کو جو چاہے فرمائے اسی میں اُن کی عزت ہے، کسی کی کیا مجال جو خلافِ ادب کوئی لفظ زبان پر لائے اور قرآنِ کریم میں اللہ پاک کے فرمائے ہوئے کلمات کو دلیل بنائے۔اللہ پاک نے ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی تعظیم و توقیر، ادب و اطاعت کا حکم فرمایا ہے۔لہٰذا ہم پر یہی لازم ہے کے ہم حضرت آدم علیہ السلام اور دوسرے انبیائے کرام کی تعظیم کریں اور ہر گز ہرگز ایسے کلمات نہ بولیں جس سے ان کی شان و ادب میں کوئی کمی واقع آئے ۔ اللہ پاک سے سچی توبہ کریں ۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ( سورہ طہ ،پارہ: 16 ،ایت: 122 )

رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ-وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۲۳) (پ8،الاعراف :23) ترجمہ کنزالایمان:اے ہمارے رب!ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی تو ضرور ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

حدیثِ مبارک: پیارے آقا ﷺ نے فرمایا:جب حضرت آدم علیہ السلام سے اجتہادی خطا ہوئی تو انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور عرض کی:اے اللہ! میں محمدﷺ کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ تو میری مغفرت فرما دے۔اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ محمد کون ہیں؟حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کی:اے اللہ!تیرا نام برکت والا ہے۔جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے سر اٹھا کر تیرے عرش کی طرف دیکھا تو اس پر لکھا ہوا تھا: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ تو میں نے جان لیا کہ تیری بارگاہ میں اس شخص سے زیادہ کسی کا مرتبہ اور مقام نہ ہوگا جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہے۔اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی:اے آدم!یہ تیری اولاد میں سب سے آخری نبی ہیں اور ان کی اُمت تمہاری اولاد میں سب سے آخری اُمت ہے۔اگر محمد مصطفےٰ (ﷺ) نہ ہوتے تو اے آدم!میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔ ( معجم صغیر ، ص 82 )

حضرت آدم علیہ السلام کا بیان کردہ تذکرے سے یہ نصیحتیں ملتی ہیں:

1-اللہ پاک نے انسان کو علم عطا فرمایا اور اسے فرشتوں سے افضل کیا اور اسے ان پر نائب بنایا اس لحاظ سے علم حاصل کرنا عبادت سے افضل ہے ۔

2-اللہ پاک نے نائب بنانے کے حوالے سے فرشتوں سے مشورے والے انداز میں گفتگو فرمائی باوجود اس کے کہ اللہ پاک مشورہ کرنے کی حاجت سے پاک ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشورہ کرنا سنتِ الٰہیہ ہے ۔

3 -جب انسان خطا کا مرتکب ہوتا ہے اور سچے دل سے بارگاہِ الٰہی میں گڑگڑا کر دعا کرے اور آنسو بہائے تو اللہ پاک اس کی خطاؤں کو معاف فرما دے گا جس طرح حضرت آدم علیہ السلام سے اجتہادی خطا ہوئی اور انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں توبہ و استغفار کی تو انہیں معاف فرما دیا گیا ۔

4-حضرت آدم علیہ السلام نے آقا ﷺ کے وسیلے سے بارگاہِ الٰہی میں توبہ کی جس کے سبب انہیں معاف فرما دیا گیا ۔اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے نیک بندوں کے وسیلے سے اگر توبہ کی جائے یا دعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے ۔

5 -حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی دعا میں حضور نبیِ کریم ﷺ کے آخری نبی ہونے کا تذکرہ فرمایا جس سے یہ صاف واضح ہوا کہ آپ خاتم النبیین ہیں۔


جب مرد و عورت شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو شریعت اسلامیہ کی جانب سے میاں بیوی پر ایک دوسرے کے حقوق عائد ہوتے ہیں۔ شادی شدہ اسلامی بہنوں کو چاہیے کہ شوہر کے حقوق میں کمی نہ آنے دیں کیونکہ شوہر کی رضا و ناراضی میں رب کی رضا و نافرمانی پوشیدہ ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس حدیثِ نبوی سے لگائیے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عورتو! اللہ پاک سے ڈرو اور اپنے شوہروں کی رضا کو لازم پکڑ لو اگر عورت جان لے کہ شوہر کا حق کیا ہے تو وہ صبح و شام کا کھانا لیکر کھڑی رہے۔ (کنز العمال، جز 16، 2/145، حدیث: 44809)

آئیے! عورت پر شوہر کے چند حقوق ملاحظہ کریں۔

1۔ شوہر کو خوش رکھنا: عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے جسم،لباس اور گھر کی صفائی کا خیال رکھے اور شوہر کیلیے بناؤ سنگھار کرے تاکہ شوہر کا دل خوش رہے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے نیک بیوی کی ایک خوبی یہ بیان فرمائی: کہ اگر اسکا شوہر اسے دیکھے تو وہ اسے خوش کر دے۔ (ابن ماجہ، 2/414، حدیث:2857)

2۔ شوہر کی شکر گزاری: عورت ہرگز اپنے شوہر کی ناشکری نہ کرے کیونکہ شوہر اس کا مضبوط سہارا ہے۔ آج کل خواتین اپنے شوہروں کی ناشکری کرتے ہوئے زیادہ نظر آتی ہیں۔ انہیں اس حدیث پاک سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ چنانچہ جب آپ ﷺ سے جہنم میں عورتوں کی کثرت کی وجہ کے متعلق استفسار کیا گیا تو فرمایا: وہ شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان سے مکر جاتی ہیں۔(بخاری،3/463، حدیث:5197)

3۔ شوہر کی رضا: شادی کے بعد عورت کو شوہر کو راضی رکھنا چاہیے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے جنتی عورتیں کی پہچان کے حوالے سے ارشاد فرمایا: ہر محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت، جب وہ شوہر کو ناراض کر دے یا اسے تکلیف دی جائے یا اسکا شوہر اس پر غصہ کرے تو وہ (عورت) کہے کہ میرا یہ ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، میں اس وقت تک سوؤں گی نہیں جب تک آپ راضی نہ ہو جائیں۔ (معجم صغیر، 1/64، حديث: 118)

4۔ حکم کی فرمانبرداری: نبی کریم ﷺ نے عورتوں کو حکم فرمایا: اگر شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ پیلے رنگ کے پہاڑ کو کالے رنگ کا بنا دے اور کالے رنگ کے پہاڑ کو سفید بنا دے تو عورت کو اپنے شوہر کا یہ حکم بھی بجا لانا چاہیے۔ (ابن ماجہ، 2/411، حدیث: 1852)

5۔ امانت کی حفاظت: شوہر کا مکان اور مال و سامان یہ سب شوہر کی امانتیں ہیں اور بیوی ان کی امین ہے۔ اگر عورت نے جان بوجھ کر نقصان کر دیا تو عورت پر خیانت کا گناہ لازم آئے گا اور خدا کا عذاب ہو گا۔ (جنتی زیور، ص51)

پیاری پیاری اسلامی بہنو! ان احادیث سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ شوہر کا حق بہت بڑا ہے اور عورت پر انکی ادائیگی فرض ہے۔ اللّہ ہمیں صحیح معنوں میں ان حقوق کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


مرد اور عورت دونوں نکاح کے ذریعے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں، میاں بیوی کو چاہیے کہ آپس میں رواداری و محبت سے رہیں، دونوں ایک دوسرے کے حقوق پر نظر رکہیں اور ان کو ادا بھی کرتے رہیں بیوی کو چاہیےکہ وہ بھی اپنے شوہر کی فرمانبرداری کر کے اسکی نافرمانی سے بچتی رہے اسکے حقوق کا خیال رکھے اسکی جائز خواہشات کو پورا کرتی رہے اللہ پاک نے شوہر کے بہت سے حقوق بیان فرمائے جس کا ذکر قرآن و احادیث دونوں میں موجود ہے: رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان: مرد عورتوں پر نگہبان ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو نیک عورتیں اطاعت کرنے والی اور انکی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت و توفیق سے حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ کثیر احادیث مبارکہ میں بھی شوہر کے حقوق بیان کیے گئے ہیں، ان میں سے چند ملاحظہ فرمائیں:

1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کسی بھی عورت کیلئے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں نفلی روزہ رکھے البتہ اپنے شوہر کی اجازت سے روزہ رکھ سکتی ہے اور نہ ہی اسکی اجازت کے بغیر کسی شخص کو اسکے گھر میں آنے دے۔ (فیضان ریاض الصالحین، 3/496، حدیث: 282)

2) فرمایا: تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور ہر شخص سے اسکی نگرانی کے بارے میں پوچھا جائے گا حاکم نگران ہے آدمی گھر والوں کے بارے میں نگران ہے عورت اپنے شوہر کے گھر اور اسکی اولاد کی نگران ہے تم میں ہر شخص نگران ہے اور اس سے اسکی نگرانی کا حساب لیا جائے گا۔ (مسلم، ص 116، حديث: 1829)

3) اگر کوئی شخص اپنی حاجت کیلئے اپنی بیوی کو بلائے تو وہ آجائے اگرچہ وہ تنّور پر روٹیاں کیوں نہ پکا رہی ہو۔

(ترمذی، 2/386، حدیث: 1163)

4) اگر شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ وہ زرد رنگ کے پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سیاہ پہاڑ پر لے جائے اورسیاہ پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سفید پہاڑ پر لے جائے تو عورت کو اپنے شوہر کا یہ حکم بھی بجا لانا چاہیے۔ (مسند امام احمد، 9/353، حدیث: 22525)

5) جو عورت اپنے گھر سے باہر جائے اور اسکے شوہر کو ناگوار ہو جب تک پلٹ کر نہ آئے آسمان میں ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے اور جن و آدمی کے سوا جس جس چیز پر گزرے سب اس پر لعنت کریں۔ (معجم اوسط، 6/408، حدیث: 9231)


جس گھر میں بھی دیکھو میاں بیوی آپس میں جھگڑا کر رہے ہوتے ہیں۔ پورے گھر کا امن برباد کیا ہوتا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ شوہر کو بیوی اور بیوی کو شوہر کے حقوق معلوم نہیں ہوتے۔ لہٰذا بیوی پر شوہر کے چند حقوق ملاحظہ کیجیے:

1۔ نفلی روزہ نہ رکھے: فرمان مصطفیٰ ﷺ: کسی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر (نفلی روزہ) رکھےاور کسی کو اس کے گھر میں اس کی اجازت کے بغیر نہ آنے دے۔ (فیضان ریاض الصالحین، 3/496، حدیث: 282)اس حدیث پاک سے ہمیں معلوم ہوا کہ عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر روزے نہ رکھے کہ اس کی خدمت میں روزہ رکھنے سے کوئی حلل نہ آئے اور اس کی اجازت کے بغیر کسی شخص کو گھر میں نہ آنے دے۔

2۔ فورا حکم بجا لائے: فرمانِ آخری نبی ﷺ: جب آدمی بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے تو اسے چاہیے کہ فوراً چلی جائے اگرچہ وہ تنور پر ہی کیوں نہ بیٹھی ہو۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1163)اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ شوہر کی اطاعت ہر حالت میں فوراً ضروری ہے (جبکہ شریعت کے خلاف نہ ہو)۔

اگر سجدہ تعظیمی جائز ہوتا تو عورت اپنے شوہر کو کرتی، فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: اگر میں کسی شخص کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1162)اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ عورت پر اس کے تمام احباب میں سے سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہے۔

اللہ پاک تمام بیویوں کو اس امت کی نیک بیویوں جیسا صبر و استقامت عطا فرمائے۔ آمین


زو جین (میاں بیوی) ہمارے معاشرے کا ایک اہم جز ہیں اور زوجین کے ایک دوسرے پر بے شمار حقوق ہیں۔ زوجین کے دن اور رات حقوق و فرائض کا منبع ہوتے ہیں۔ شوہر کے حقوق آیات و احادیث کی روشنی میں ملا حظہ فرمائیے۔ قرآنِ پاک میں فرمایا گیا: مرد عورتوں پر حکمران ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والی ہیں۔ خاوند کے پیچھے حفاظت رکھنے والی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان: مرد عورتوں پر نگہبان ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو نیک عورتیں اطاعت کرنے والی اور انکی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت و توفیق سے حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔

اس آیت میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ مرد (شوہر) عورتوں پر حاکم ہیں۔ نیک خواتین اپنے شوہر کا ادب بجا لا تی ہیں۔ جب شوہر گھر پر نہ ہو تو ان کے پیچہے ان کی عزت کی حفاظت کرتی ہیں۔

شوہر کا حق ہے کہ بیوی اس کا ہر حکم ما نے جو خلاف شر عی نہ ہو۔ اس کی غیر موجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت کرے۔ اس کا محنت سے کمایا ہوا ما ل اسراف نہ کرے۔ فضول خرچی سے بچے۔ شوہر کے لیے لذیذ اور پسندیدہ کھانے بنائے۔

احادیث کی روشنی میں: بے شمار احادیث میں شوہر کے حقوق کی ادئیگی کا حکم دیا گیا، احادیث سے شوہر کے حقوق کی فضیلت واضح ہوتی ہے۔ شوہر کے حقوق کی ادائیگی کی ایک فضیلت ملاحظہ فرمائیں، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1162)

ایک اور حدیث ملا حظہ فرمائیے: چنانچہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو عورت اس حال میں فوت ہو جائے اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1164)

ہم بستری سے متعلق ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: جب شوہر اپنی بیوی کو بچھو نے پر بلائے اور وہ نہ آئے شوہر نا راضگی کی حالت میں رات بسر کرے تو اس عورت پر فرشتے صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ (بخاری،2/377، حدیث:3237)

نفلی عبادت سے متعلق شوہر کے حقوق ملاحظہ فرمائیں، رسول کریم ﷺ نے فرمایا: کسی عورت کا شوہر گھر میں حاضر ہو تو اس کے لیے اس کی اجازت کی بغیر نفل روزہ رکھنا جائز نہیں اور نہ ہی وہ کسی کو شوہر کی اجازت کے بغیر گھر میں آنے دے۔ (فیضان ریاض الصالحین، 3/496، حدیث: 282)

ان تمام احادیث کی روشنی میں شوہر کے حقوق صاف صاف واضح ہو چکے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے یہاں تک فرما دیا کہ میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کر لے۔(ترمذی، 2/386، حدیث: 1162) ان تمام احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہےکہ شوہر کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ ان کے حقوق کی ادائیگی کس قدر لازم ہے۔ شوہر کے حقوق میں شامل ہے کہ جب شوہر اپنی بیوی کو نفل روزہ رکھنے سے منع کر ے تو وہ ہر گز نہ رکھے اور اگر رکھےگی تو اس کا روزہ رکھنا قبول نہ ہوگا۔

اللہ پاک مسلم معاشرے کی تمام خواتین کو شوہر کے حقوق احسن انداز میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کرے تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1162)

وضاحت: مشہور مفسر مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: خاوند کے حقوق بہت زیادہ ہیں اور عورت اس کے احساسات کے شکریہ سے عاجز ہے اسی لیے خاوند ہی اس کے سجدے کا مستحق ہوتا۔ خاوند کی اطاعت و تعظیم اشد ضروری ہے اس کی جائز تعظیم کی جائے۔ (مراۃ المناجیح، 5/97)

حدیث: اگر شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ وہ زرد رنگ کے پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سیاہ پہاڑ پر لے جائے اور سیاہ پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سفید پہاڑ پر لے جائے تو عورت کو اپنے شوہر کا یہ حکم بھی بجا لانا چاہیے۔ (مسند امام احمد، 9/353، حدیث 24565)

وضاحت: مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: یہ فرمان مبارکہ مبالغے کے طور پر ہے سیاہ اور سفید پہاڑ قریب قریب نہیں ہوتے بلکہ دور دور ہوتے ہیں مقصد یہ ہے کہ اگر خاوند شریعت کے دائرے میں رہ کر مشکل سے مشکل کام بھی دے تب بھی بیوی اسے کر لے کالے پہاڑ کا پتھر سفید پہاڑ پر پہنچانا سخت مشکل ہے کہ بھاری بوجھ لے کر سفر کرنا ہے۔ (مراۃ المناجیح، 5/106)

حدیث: شوہر نے عورت کو بلایا اس نے انکار کر دیا اور غصے میں اس نے رات گزاری تو صبح تک اس عورت پر فرشتے لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ (بخاری،2/377، حدیث:3237)اور دوسری روایت میں ہے کہ جب تک شوہر اس سے راضی نہ ہو، اللہ اس سے ناراض رہتا ہے۔ (مسلم، ص 853، حدیث: 1436)

حدیث: جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حورعین کہتی ہیں خدا تجھے قتل کرے، اسے ایذا نہ دے یہ تو تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آئے گا۔(ترمذی، 2/ 392، حدیث: 1177)

حدیث: ایک عورت ہمارے پیارے نبی ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ میں فلاں بنت فلاں ہوں۔ فرمایا: میں نے تمہیں پہچان لیا اپنا کام بتاؤ۔ عرض کی: مجھے اپنے چچا کے بیٹے فلاں عابد سے متعلق کام ہے۔ فرمایا: میں نے اسے بھی پہچان لیا۔عرض کی اس نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے آپ ﷺ مجھے بتائیں کہ عورت پر شوہر کا حق کیا ہے؟ اگر مجھ میں اس کا حق ادا کرنے کی طاقت ہوئی تو میں شادی کروں گی ورنہ نہیں کروں گی۔ فرمایا:مرد کے حق کا ایک ٹکڑا یہ ہے کہ اگر اس کے دونوں نتھنے خون اور پیپ سے بہتے ہوں اور عورت اسے اپنی زبان سے چاٹے تب بھی شوہر کے حق سے بری نہ ہوئی اگر آدمی کا آدمی کو سجدہ روا ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ جب شوہر اس کے پاس آیا کرے تو وہ اسے سجدہ کیا کرے کیونکہ خدا نے مرد کو عورت پر فضیلت دی ہے۔ یہ سن کر اس عورت نے عرض کی: اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں کبھی شادی نہیں کروں گی۔ (مستدرک للحاکم، 2/547، حدیث: 2822)

ذرا سوچئے کہ آپ ﷺ نے شوہر کے حقوق کو کتنی اہمیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے، اسلامی بہنوں کو چاہیے کہ اس سے درس حاصل کر یں اور شوہر کے حقوق میں کوئی کمی نہ آنے دیں کیونکہ شوہر کی رضا میں رب کی رضا اور شوہر کی ناراضی میں رب کی ناراضی پوشیدہ ہے۔


اسلام نے نکاح کو اللہ کی ایک نعمت اور پاکیزہ ترین رشتہ قرار دیا ہے۔ دوسرے مذاہب کی طرح نکاح سے دوری کو کسی قسم کی نیکی اور فضیلت کا سبب نہیں گردانا بلکہ اسے اللہ کے محبوب بندوں انبیاء اور رسولوں کی صفت بتایا، چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةًؕ- (پ 13، الرعد: 38) ترجمہ: ہم آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا۔ جس طرح شوہر کے اوپر بیوی کے حقوق ہیں اسی طرح بیوی کے او پر شوہر کے بھی کچھ حقوق ہیں تا کہ ازدواجی زندگی خیر و سعادت کے ساتھ گذرے۔ ان حقوق میں سے کچھ ملاحظہ فرمائیے:

1۔ اطاعت و فرماں برداری: بیوی کے اوپر شوہر کا اہم ترین حق یہ ہے کہ بیوی اس کی اطاعت و فرماں برداری کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان: تو نیک عورتیں اطاعت کرنے والی اور انکی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت و توفیق سے حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔

رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: سب سے بہترین عورت کون ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ عورت کہ شوہر جب اسے دیکھے تو عورت اسے خوش کر دے اور شوہر جب حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور اپنی جان و مال میں شوہر کا نا پسندیدہ کام نہ کرے، اس کی مخالفت نہ کرے۔ (ابن ماجہ، 2/414، حدیث:2857)

2۔ بیوی کو اپنے ساتھ لے جانا: جس طرح بیوی کا یہ حق ہے کہ شوہر اس کے لئے گھر مہیا کرے،اسی طرح شوہر کا یہ حق ہے کہ وہ بیوی کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے جائے۔ بیوی اس کی مخالفت کر کے کسی خاص جگہ مثلا اپنے باپ کے گھر رہنے کے لئے اصرار نہیں کر سکتی۔ قرآن مجید میں موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں اللہ تعالی نے یہ بات ذکر کی ہے کہ مدین کے نیک آدمی کی بیٹی سے جب ان کا نکاح ہو گیا اور انھوں نے ملازمت کی شرط اور مدت مکمل کر لی تو اپنے اہل خانہ کو اپنے آبائی وطن کی طرف لے کر چلے۔

3۔ شوہر کے مال کی حفاظت: عورت کے پاس شوہر کا جو بھی مال ہے امانت ہے۔ اس مال میں شوہر کی مرضی کے بغیر عورت کے لئے کسی قسم کا تصرف کرنا جائز نہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ مرد اپنے گھر والوں پر حاکم ہے، عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد پر حاکم ہے، پس ہر شخص حاکم ہے اور اپنی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ (مسلم، ص 116، حديث: 1829)

4۔ کفایت شعاری: بیوی پر شوہر کا ایک حق یہ ہے کہ وہ کفایت شعاری اور قناعت پسندی اختیار کرے اور اپنے شوہر سے اس کی طاقت اور اپنی ضرورت سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرے۔ اصل امیری دل کی امیری ہے اور قناعت باعث سعادت ہے۔ عورت اگر حقیقت پسندی سے دور ہو کر زیب وزینت کی عاشق ہو جائے تو دنیا وآخرت کی ہلاکت یقینی ہو جاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک بار طویل خطبہ دیا جس میں بیوی اور شوہر کے حقوق اور دنیا و آخرت کے بہت سے امور ذکر فرمائے، آپ ﷺ نے یہ بھی ذکر فرمایا: بنو اسرائیل کی ہلاکت کا ایک سبب یہ ہوا کہ فقیر کی بیوی بھی انہی کپڑوں اور زیورات کا تکلف کرتی تھی جن کا امیر کی بیوی کیا کرتی تھی۔

نبی رحمت ﷺ نے اگر چہ عورتوں کو سونا اور ریشم پہننے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے مگر آپ اپنی ازواج مطہرات کو ریشم اور زیورات سے منع فرمایا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ: اگر تم جنت کے زیورات اور ریشم چاہتی ہو تو اسے دنیا میں مت پہنو۔

5۔ اولاد کی تربیت عورت پر ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ صبر و شفقت کے ساتھ اولاد کی تربیت کرے۔ اولاد پر غصہ نہ ہو۔ انہیں چیخ کر ڈانٹے نہیں۔ ان کو گالی نہ دے۔ ان کو مارے نہیں اور نہ ان پر بد دعا کرے۔ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا ہے:اپنے اوپر بددعا نہ کرو۔ اپنی اولاد پر بددعا نہ کرو۔ اپنے خادموں پر بددعا نہ کرو۔ اپنے مالوں پر بد دعا نہ کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے دعا کی قبولیت کا وقت ہو اور وہ تمہاری بددعا قبول کرلے(پھر تاحیات پچھتانا اور حسرت و افسوس کرنا پڑے)۔

فرمان مصطفیٰ: کسی کو جائز نہیں کہ وہ اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرے اور اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔(ترمذی، 2/386، حدیث: 1162)

ایک اور حدیث میں ہے: اگر شوہر کے نتھنوں سے خون اور پیپ بہہ کر اس کی ایڑیوں تک جسم بھر گیا ہو اور عورت اپنی زبان سے چاٹ کر اسے صاف کرے تو بھی اس کاحق ادا نہ ہوگا۔ (فتاوی رضویہ، 24/380)

اللہ پاک ہمیں حقوق العباد پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اسلام شادی شدہ زندگی چاہتا ہے اور اس میں بیوی اور شوہر کے حقوق متعین کرتا ہے۔ ازدواجی تعلق خدائی منصوبہ اور فطری عمل ہے۔ ازدواجی تعلقات میں اصل پیار اور محبت ہے جو میاں بیوی کے مابین خوشگوار ذہنی حالت اور کیفیت کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن اگر میاں بیوی کے درمیان ناچاقی، نفرت اور ناخوشگوار کیفیت ہو جائے تو اس کا حل بھی پیش کرتا ہے۔

بیوی پر خاوند کے حقوق بہت ہی عظیم حیثیت رکھتے ہیں، بلکہ خاوند کے حقوق تو بیوی کے حقوق سے بھی زیادہ عظیم ہیں، اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪-وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠(۲۲۸) (پ 2، البقرة: 228) ترجمہ: اور ان عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے ان مردوں کے ہیں، قاعدہ(شرعی)کے موافق اور مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور الله زبردست ہے تدبیر والا۔

وضاحت: امام جصاص رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بیان فرمایا ہے کہ خاوند اور بیوی دونوں کے ایک دوسرے پر حق ہیں اورخاوند کے بیوی پر ایسے حق بھی ہیں جو بیوی کے خاوند پر نہیں۔

 شوہر حاکم ہوتا ہے اور بیوی محکوم، اس کے اُلٹ کا خیال بھی کبھی دل میں نہ لائیے، لہٰذا جائز کاموں میں شوہر کی اطاعت کرنا بیوی کو شوہر کی نظروں میں عزت بھی بخشے گا اور وہ آخرت میں انعام کی بھی حقدار ہوگی۔

شوہر کے حقوق کے متعلق چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں: چنانچہ

(1) فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: عورت جب پانچوں نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنّت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہوجاؤ۔ (مسند امام احمد، 1/406، حدیث: 1661)

(2) بیوی کو چاہئے کہ وہ شوہر کے حقوق ادا کرنے میں کوئی کمی نہ آنے دے کہ معلّمِ انسانیت ﷺ نے حکم فرمایا کہ جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لئے بلائے تو وہ فوراً اس کے پاس آجائے اگرچہ تنّور پر ہو۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1163)

(3) بیوی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ شوہر کے احسانات کی ناشکری سے بچے کہ یہ بُری عادت نہ صرف اس کی دنیوی زندگی میں زہر گھول دے گی بلکہ آخرت بھی تباہ کرے گی، جیسا کہ نبیِّ برحق ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے جہنّم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی۔ وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: وہ شوہر کی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔(بخاری،3/463، حدیث:5197)

(4) بیوی کو چاہئے کہ شوہر کی حیثیت سے بڑھ کر فرمائش نہ کرے، اس کی خوشیوں میں شریک ہو، پریشانی میں اس کی ڈھارس بندھائے،اس کی طرف سے تکلیف پہنچنے کی صورت میں صبر کرےاور خاموش رہے، بات بات پر منہ نہ پُھلائے، برتن نہ پچھاڑے،شوہر کا غصّہ بچوں پر نہ اتارے کہ اس سے حالات مزید بگڑیں گے، اسے دوسروں سے حقیر ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے، اس پر اپنے اِحسانات نہ جتائے،کھانے پینے، صفائی ستھرائی اور لِباس وغیرہ میں اس کی پسند کو اہمیت دے، الغرض اُسے راضی رکھنے کی کوشش کرے۔ جيسا کہ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1164)

(5) شوہر ناراض ہوجائے تو اُس حدیثِ پاک کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائے جس میں جنتی عورت کی یہ خوبی بھی بیان کی گئی ہے کہ جب اس کا شوہر اس سے ناراض ہو تو وہ کہتی ہے: میرا یہ ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، جب تک آپ راضی نہ ہوں گے میں سوؤں گی نہیں۔ (معجم صغیر، 1/64، حديث: 118)

(6)رسولُ اللہ ﷺ سے بہترین عورت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: (بہترین عورت وہ ہے) جسے شوہر حکم دے تو وہ اُس کی بات مانتی ہو، جب شوہر اُسے دیکھے تو وہ اُسے خوش کر دیتی ہو، وہ عورت اپنی اور شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہو۔ (سنن کبریٰ للنسائی، 5 / 310، حدیث: 8961)

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِس حدیثِ پاک میں ایک ذمّہ دار بیوی کی بہت اہم خصوصیات بیان فرمائی ہیں: (1) حکم ماننے والی (2) شوہر کو خوش رکھنے والی (3) مال و عزّت کی حفاظت کرنے والی۔

ذاتی حقوق:

(1) حتی الوسع شوہر کی جائز خوشی کے کاموں میں لگنا۔

(2)شوہر کا احترام کرنا اور اس سے بات چیت کرتے ہوئے الفاظ، آواز اور لب و لہجے میں ادب کو ملحوظ رکھنا اور اگر اسے بیوی کی طرف سے شوہر کا نام لے کر پکارنا پسند نہ ہو تو اس کا لحاظ رکھنا۔

(3)شادی ہو جانے کے بعد بیوی کے لیے شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھنے یا استعمال کرنے کے بارے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔

(4)قلبی خوشی سے اس کی خدمت میں لگنا اور اس کے لباس، کھانے وغیرہ کی تیاری میں اس کی مرضی کا خیال رکھنا۔ اور بروقت اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنا، مثلا: دفتر وغیرہ جانے کے وقت اس کے کپڑے تیار ہوں، جوتے تیار ہوں، اس کی ضروری اشیاء جو اس نے اپنے ساتھ لے جانی ہیں وہ تیار ہوں، اور سب اشیاء ایک متعین جگہ یا نظروں کے سامنے والی جگہ میں موجود ہوں، ایمرجنسی کے احوال میں کام آنی والی چیزیں بالخصوص اضافی سوٹ وغیرہ استری شدہ تیار رکھنا، اس کے واپس آنے کے وقت، گھر کی صفائی ستھرائی مکمل کیے ہوئے رکھنا اور شوہر کے کھانا کھانے کے وقت میں کھانا تیار رکھنا، وغیرہ وغیرہ امور شوہر کو خوش کر دینے والے ہیں۔

مرد گھر کے باہر کی ذمہ داری رکھتا ہے اور عورت کی ذمہ داری گھر کے اندر کی ہے، جیسے گھر کی نگرانی، صفائی اور کھانے پینے کا انتظام وغیرہ یہی طریقہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں رائج رہا ہے۔

اللہ ہمیں اپنے گھریلو معاملات بھی شریعت کے مطابق چلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اللہ پاک اور اس کے پیارے رسول ﷺ کے بعد عورت پر جس ذات کی اطاعت اور فرمانبرداری لازم ہے وہ اس کا شوہر ہے چنانچہ پیارے آقا ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ اللہ پاک کے سوا کسی کو سجدہ کرے تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1162)

مشہور مفسر قرآن حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں کہ خاوند کے حقوق بہت زیادہ ہیں اور عورت اس کے احسانات کے شکریہ سے عاجز ہے اسی لیے خاوند ہی اس کے سجدے کا مستحق ہوتا۔ خاوند کی اطاعت و تعظیم اشد ضروری ہے اس کی ہر جائز تعظیم کی جائے۔ (مرآۃ المناجیح،5/ 97)

پیاری اسلامی بہنو! اس سے معلوم ہوا کہ عورت کیلئے شوہر کی فرمانبرداری میں ہی دنیا و آخرت کی کامیابی ہے عورت کی جنت کا راستہ اللہ پاک اور اس کے پیارے رسول ﷺ کی اطاعت کے بعد شوہر کی اطاعت سے شروع ہوتا ہے۔

شوہر کے حقوق سے متعلق دو فرامین مصطفیٰ:

1) جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے تو اس پر لازم ہے کہ شوہر کے پاس جائے اگر چہ چولہے کے پاس بیٹھی ہو۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1163)

2) اے عورتو! اللہ پاک سے ڈرو اور اپنے شوہروں کی رضا کو لازم پکڑ لو اگر عورت جان لے کہ شوہر کا حق کیا ہے تو وہ صبح اور شام کا کھانا لے کر کھڑی رہے۔ (کنز العمال، جز 16، 2/145، حدیث: 4489)

نیک سیرت اور مثالی بیوی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے شوہر کے احسانات کی شکر گزار رہتی ہے اور اس کے احسانات کا انکار کر کے ناشکری نہیں کرتی۔ رحمت عالم نور مجسم ﷺ نے عورتوں کو اپنے شوہر کی ناشکری سے بچنے کی بہت تاکید کی ہے۔ حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ سرکارِ دو عالم ﷺ ہم عورتوں کے پاس سے گزرے تو ہمیں سلام کیا اور فرمایا: احسان کرنے والوں کی ناشکری سے بچنا، ہم نے عرض کی احسان کرنے والوں کی ناشکری سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ممکن تھا کہ تم میں سے کوئی عورت طویل عرصے تک بغیر شوہر کے اپنے والدین کے پاس بیٹھی رہتی اور بوڑھی ہو جاتی لیکن اللہ پاک نے اسے شوہر عطا فرمایا اور اس کے ذریعے سے مال اور اولاد کی نعمت سے سرفراز فرمایا اس کے باوجود جب وہ غصے میں آتی ہے تو کہتی ہے: میں نے اس سے بھلائی کبھی دیکھی ہی نہیں۔ (مسند امام احمد، 10/433، حدیث:27632)

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اکثر عورتیں ناشکری کی مصیبت میں گرفتار ہیں یادرہے کہ ناشکری کے یہ الفاظ نہ صرف عورت کی ازدواجی زندگی کو اجاڑ دینگے بلکہ ساتھ ہی اس کی آخرت بھی داؤ پر لگ جائے گی۔ چنانچہ فکر آخرت دلانے والے ہمارے آقا مدنی مصطفی ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: میں نے دیکھا کہ جہنم میں اکثریت عورتوں کی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یارسول اللہ ﷺ! اس کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا: وہ ناشکری کرتی ہیں پوچھا گیا کہ کیا وہ اللہ پاک کی ناشکری کرتی ہیں؟ ارشاد فرمایا: وہ شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان سے مکر جاتی ہیں اگر تم کسی عورت کے ساتھ عمر بھر اچھا سلوک کرو پھر بھی تم سے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو کہے گی: میں نے تم سے بھلائی کبھی دیکھی ہی نہیں۔ (بخاری، 3/463، حدیث: 5197) اس حدیث پاک سے ان اسلامی بہنوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو اپنے شوہر کے ساتھ اس طرح کا رویہ رکھتی ہیں۔

مثالی بیوی بننے کے لیے عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے جسم، لباس اور گھر کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھے۔ حدیث پاک میں شوہر کو خوش کرنے والی عورت کو بہترین قرار دیا گیا ہے چنانچہ پیارے آقا ﷺ نے نیک بیوی کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی بیان فرمائی کہ اگر اس کا شوہر اسے دیکھے تو وہ (اپنے ظاہری اور باطنی حسن و جمال سے) اسے خوش کر دے۔ (ابن ماجہ، 2/414، حدیث:2857)

ان احادیث مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ عورت کو اپنے شوہر کے لیے کیسا ہونا چاہیے۔

اللہ پاک ہمیں اپنے حقوق و فرائض کو صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین