دعوتِ
اسلامی کی جانب سے نگران سٹی مشاورت شعبہ رابطہ برائے شخصیات حاجی یعقوب عطاری نے ڈسٹرکٹ ذمہ دار حاجی غلام محبوب عطاری کے ساتھ کورنگی
میں ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی انتخابی آفس
پاکستان ہاؤس میں سینئر رہنما انیس احمد قائم خانی سے ملاقات کی۔
دوران
ِ ملاقات حاجی یعقوب عطاری نے انیس قائم خانی کو دعوت اسلامی کے تحت ہونے والے 30 دن کے اعتکاف کے حوالے سے بریفنگ دی اور انہیں مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں ہونے والے رمضان المبارک کے مدنی
مذاکروں میں شرکت کی دعوت بھی دی
جس پر انہوں نے خدمات دعوت اسلامی پر خوشی کااظہار کرتے ہوئے اچھے خیالات پیش کئے۔(رپورٹ:محمد
زکی عطاری شعبہ رابطہ برائے شخصیات ڈسٹرکٹ ایسٹ کراچی،کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری)
پچھلے دنوں مدنی مرکز فیضانِ مدینہ فیصل آباد میں افطار اجتماع ہوا جس میں ایگریکلچر
یونیورسٹی فیصل آباد کے مختلف ڈیپارٹمنٹ
سے تقریباً 52 اسٹوڈنٹس اور سینئر پروفیسرز( ڈاکٹر عاطف رانا،
ڈاکٹر فضیل عطاری اورحافظ اکمل عطاری) نے شرکت کی۔
شرکا نے فیضانِ مدینہ حاضر ہوکر مدنی چینل پر براہ ِ راست نشر ہونے والے مدنی مذاکرے و مناجات میں شرکت کی اور بعدنماز مغرب دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن و
نگران پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری
سے ملاقات کی جس میں آپ نے مختلف مدنی پھولوں سے نوازا ۔
اس
موقع پر یونیورسٹی کے ہیڈ عثمان رضا عطاری
اور سید انس عطاری بھی موجود تھے۔(کانٹینٹ:رمضان
رضا عطاری)
دعوتِ
اسلامی کے اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ کے تحت میانوالی میں موجود اسپیشل ایجوکیشن اسکول میں
افطار اجتماع کا سلسلہ ہوا جس میں اسپیشل پرسنز اسکول کے پرنسپل اور ہاسٹل کےا سٹوڈنٹس شریک ہوئے۔
نگران
تحصیل مشاورت محمد آفاق عطاری نے شرکا کو نیکی کی دعوت دیتے ہوئے انہیں ماہ رمضان المبارک کی زیادہ سے زیادہ برکت پانے کے لئے اپنا وقت نیکی کے کاموں میں گزارنے کی ترغیب دلائی اور انہیں ہفتہ
وار اجتماع میں شرکت کرنے کی دعوت
بھی دی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔(رپورٹ: محمد ابوبکر عطاری اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ سرگودھا ڈویژن،کانٹینٹ:رمضان
رضا عطاری)
17مارچ
2024ء کو ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن لاری اڈہ پر دعوت اسلامی کے شعبہ رابطہ برائے ٹرانسپورٹ کے تحت افطار اجتماع کا اہتمام کیا گیا جس میں صوبائی، ڈویژن، ڈسٹرکٹ ذمہ
داران سمیت ،ڈائیو ٹی ایم بس کےمینجر
وسیم انوار، اسسٹنٹ مینجر ڈائیو بس فاروق
خان، ٹریکٹرز بارگین اونر حاجی امان اللہ
چناوڑ و دیگر ٹریکٹرز مالکان نے شر کت کی۔
افطار
اجتماع میں نگران ڈویژن مشاورت نے شخصیات کو دعوت اسلامی کا تعارف کروایا اور بالخصوص شعبہ FGRF کی دنیا بھر میں کی جانے والی فلاحی کاوشوں سے متعلق بریفنگ دی اور انہیں اپنے بچوں کو مدرسۃ المدینہ گرلز / بوائز کے علاوہ فیضان اسلامک اسکول سسٹم میں داخل کروانے کا ذہن دیا۔
ساتھ ہی ساتھ بچوں کو
کڈز مدنی چینل دکھانے نیز ہفتہ وار اجتماع اور ٹرانسپورٹ اجتماع میں شرکت کرنے کی دعوت دی جس پر
انہوں نے اچھے خیالات کا اظہار کیا۔ بعد عصر شرکا نے مدنی مذاکرے میں بھی شرکت
کی ۔(رپورٹ
: قاری محمد زاہد
نواز عطاری،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)
دین اسلام نے جہاں ہمیں نماز،روزہ،حج،اور دیگر
عبادات کا درس دیا ہے وہیں حقوق العباد کی ادائیگی کا خیال رکھنے کی بھی تاکید
فرمائی ہے۔ بے شک جس طرح شریعت مطہرہ نے بیوی پر مرد کے حقوق لازم کیے ہیں اسی طرح
شوہر پر بھی بیوی کے حقوق لاگو فرمائے ہیں مثلاً اس کے نان نفقہ کی خبر گیری، مہر
کی ادائیگی، حسن معاشرت وغیرہ یہ تمام باتیں مرد پر عورت کا حق ہیں۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ
2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے
موافق۔اس کی تفسیر صراط الجنان میں ہے: اور عورتوں کیلئے بھی شریعت کے مطابق مردوں
پر ایسے ہی حق ہے جیسا عورتوں پر ہے۔ یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی
ادائیگی واجب ہے اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق پورے کرنا لازم ہے۔آیت کی
مناسبت سے یہاں ہم شوہر اور بیوی کے چند حقوق بیان کرتے ہیں۔
شوہر پر بیوی کے حقوق: شوہر
پر بیوی کے چند حقوق یہ ہیں: (1) خرچہ دینا، (2) رہائش مہیا کرنا، (3) اچھے طریقے
سے گزارا کرنا، (4) نیک باتوں، حیاء اور پردے کی تعلیم دیتے رہنا، (5) ان کی خلاف
ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا، (6) جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی
دلجوئی کرنا، (7) اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگرچہ یہ
عورت کا حق نہیں۔
بیوی کے حقوق کے متعلق 5 فرامین مصطفیٰ:
1۔نان و نفقہ: ایک آدمی نے
نبی کریم ﷺ سے سوال کیا: بیوی کا خاوند پر کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب وہ
خود کھائے تو اسے بھی کھلائے جب خود پہنے تو اسے بھی پہنائے، چہرے پر نہ مارے، گالی
نہ دے (کبھی الگ کرنے کی ضرورت پڑے تو) اپنے گھر کے علاوہ کسی دوسری جگہ الگ نہ
کرے۔ (ابن ماجہ، 2/409، حدیث: 1850)
2۔عورت کے حقوق ادا نہ کرنا کبیرہ گناہ
ہے: حضور
ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! میں دو ضعیفوں کا حق(مارنا) حرام کرتا ہوں یتیم کا اور عورت
کا۔
3۔گھر کے کام کاج میں بیوی کا ہاتھ
بٹانا: حضرت
اسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا: رسول کریم ﷺ گھر میں کیا کرتے؟ آپ
رضی اللہ عنہا نے فرمایا: آپ ﷺ گھر کے کام کاج میں مصروف رہتے اور جب نماز کا وقت
ہوتا تو نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے۔
4۔ بیوی کو قرآن و حدیث کی تعلیم دینا: حضور
ﷺ نے فرمایا:اپنی استطاعت کے مطابق اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو اور انہیں تعلیم
دینے کے لیے چھڑی سے بے نیاز نہ ہو اور انہیں اللہ سے ڈرنے کی تاکید کرتے رہو۔
5۔بہترین شوہر: حضور
ﷺ نے فرمایا: تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو(اپنی) عورتوں کے لیے اچھا ہے۔ (ترمذی،
2/387، حدیث: 1165)
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ شوہر پر
بیوی کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: مرد پر عورت کا حق نان ونفقہ دینا،
رہنے کو مکان دینا،مہر وقت پر ادا کرنا،اس کے ساتھ بھلائی کا برتاؤ رکھنا، اسے
خلاف شرع باتوں سے بچانا۔ (فتاوی رضویہ،24/ 380)
ان کے علاوہ اسلام میں عورت کے حقوق اور ان کے ساتھ اچھا
سلوک کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم بھی ان احادیث پر عمل کریں
تاکہ خوب خوب ثواب کما کر اپنی آخرت سوار سکیں۔
بیوی کے پانچ حقوق از بنت محمد جہانگیر، جامعۃ
المدینہ حسنین کریمین لاہور
اسلام ہی وہ دین ہے جو مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے
زندگی کے تمام پہلوؤں کو بیان فرمایا اور ہر ایک کے حقوق کو بیان کیا جن کے پورا
کرنے سے نظام زندگی پرسکون گزرے انہی حقوق میں سے کچھ حقوق شوہر کے بیوی پر ہیں
اور کچھ بیوی کے شوہر پر جو کہ ادا کیے جائیں تو گھر جنت کا نظارہ دے۔اور چیزوں کو
ادا کرنے سے پہلے جاننا ضروری ہے آئیے بیوی کے شوہر پر حقوق کو عمل کرنے کی نیت سے
قران و سنت کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔
اللہ قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ
2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے
موافق۔اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ جس طرح مردوں کے حقوق ہیں اسی طرح عورتوں کے
بھی حقوق ہیں۔ امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوال کے جواب
میں عورتوں کے حقوق بیان فرمائے جن کو شیخ الحدیث و التفسیر مفتی قاسم اپنی تفسیر
میں خلاصۃ بیان فرماتے ہیں: مذکورہ بالا آیت کریمہ کے تحت آئیے انہیں کچھ تفصیل سے
دیکھتے ہیں:
1۔ مردوں پر عورتوں کا حق یہ ہے کہ وہ انہیں خرچہ
دیں کہ ان کے ذمہ اولاد کی پرورش اور دیگر گھریلو کام کاج ہیں تو وہ ضعیف جاں خرچ
کہاں سے لائیں جس کو وہ اپنی ذات اولاد اور دیگر معاملات پر صرف کریں اللہ کسی جان
پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔
2۔انہیں رہائش دینا بھی شوہر پر حق ہے کہ وہ اپنا
گھر بار چھوڑ کر آ چکیں اب شوہر کو چاہیے اپنی بساط کے مطابق انہیں رہائش دے۔
3۔نیک باتوں کا حکم حیا اور پردے کی تعلیم دیتے
رہنا امر بالمعروف و نہی عن المنکر تو ہر مکلف پر بقدر بساط لازم ہے شوہر بیوی پر
حاکم ہے اس کے لیے اس پر لازم نیکیوں کا حکم دے اور پردے اور حیا کو اللہ پاک نے
سورہ نور کی آیت نمبر 31 میں بیان فرمایا: ترجمہ کنز الایمان: اور مسلمان عورتوں کو
حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ
نہ دکھائیں مگر جتنا خور ہی ظاہر ہے اور دوپٹہ اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں۔
4۔چوتھا حق یہ ہے کہ مذکورہ تین نمبر کی خلاف ورزی
سے سختی سے منع کریں قرآن میں ہے کہ اے ایمان والو خود کو اور اپنے اہل و عیال کو
اس اگ سے بچاؤ جس کا اندھن آدمی اور پتھر ہے جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات
میں اس کی دلجوئی کرے کیونکہ کسی مسلمان کے دل میں خوشی داخل کرنا اللہ پاک کی
مغفرت سے جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے اور خوشی وہی ہے جو دائرہ اسلام کے اندر ہو۔
اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرنا
اگرچہ عورت کا حق نہیں ہر چیز آپ کو آپ کے مزاج کے مطابق ملے ایسا ممکن نہیں لہذا
کچھ باتیں جو آپ کے مزاج کے مطابق نہ ہو درگزر کرنا اور compromise کرنا سیکھیں۔
چھوٹی چھوٹی غلطیاں اور خامیوں کو نظر انداز کر دو
شیخ سعدی شیرازی فرماتے ہیں: تم کسی کی ایک خوبی دیکھو تو اس کی دس خامیوں کو نظر
انداز کر دیا کرو کسی کی ایک خامی پر اس قدر انگلیاں مت اٹھاؤ کہ اس کی خوبیوں اور
فضیلتوں کے انبار کوئی اہمیت نہ دے انسان سو خوبیوں پر کان نہیں دھرتے مگر ایک خامی
پر شور مچاتے ہیں۔ گھر کو خوشگوار بنانے کے لیے اس حدیث مبارکہ کو بار بار پڑھیں اللہ
کے رسول رسول مقبول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنی بیوی کی بد اخلاقی پر صبر
کیا تو اللہ پاک اسے مصائب پر حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کے برابر اجر دے گا
اور جس عورت نے خاوند کی بد اخلاقی پر صبر کیا اللہ پاک اسے فرعون کی بیوی آسیہ کے
ثواب کی مثل ثواب دے گا۔ (احیاء العلوم، 2/24)کسی نے کیا خوب کہا زندگی کی گاڑی
چلانے کے لیے صبر کا پٹرول اور حوصلہ مندی کا تجربہ ہونا ضروری ہے۔
میرے آقا ﷺ وہ رحمۃ للعالمین کمال میں، وہ خیر خواہ
امت ہر حال میں، ایام قرب وصال میں صحابہ کے پنڈال میں تین باتیں ارشاد فرمائیں ان
میں سے ایک یہ تھی: عورتوں کے متعلق اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو وہ تمہارے ہاتھوں میں
قید ہیں یعنی وہ ایسی قید ہیں جنہیں تم نے اللہ پاک کی امانت کے طور پر کر لیا اور
اللہ کے کلام سے ان کی شرم گاہیں تمہیں حلال کر دی گئیں۔ (مسند امام احمد، 10/209،
حدیث: 26719)
عورتیں مردوں سے کمزور ہوا کرتی ہیں اور کمزور حسن
سلوک کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں مردوں کو اللہ پاک نے حاکم بنایا اور سردار و حاکم
بڑے حوصلہ مند صبر کرنے والے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرنے والے ہوا
کرتے ہیں آپ دوسروں کے حقوق ادا کریں آپ کو آپ کے حقوق دیئے جائیں گے۔
میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں ایک دوسرے کی عزت
ہیں ایک کی عزت میں کمی دونوں کے لیے نقصان کا باعث ہے، اسلام نے عورت کو بیوی کی
حیثیت میں بہت سے حقوق سے نوازا ہے۔ مثلاً حسن معاشرت، تفریح اور دل بستگی کے
مواقع فراہم کرنا، معاشی تحفظ، ازدواجی معاملات میں عدل اور توازن وغیرہ۔
1۔ نکاح میاں اور بیوی کے درمیان عہد ہوتا ہے کہ وہ
احکام الہی کے تحت خوش گوار ازدواجی تعلقات قائم رکھیں گے، اسی کو حسن معاشرت کہا
جاتا ہے۔ سورۃ النساء میں اس معاہدے کی یاد دہانی ان الفاظ میں کرائی گئی: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19)
ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔سورۃ البقرہ میں خاوند اور بیوی کے
تعلق کو انتہائی بلیغ الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا: وہ (عورتیں)
تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو۔ مطلب یہ ہے کہ خاوند اور بیوی ایک دوسرے کے
لیے ستر پوش بھی ہیں اور زینت کا سبب بھی۔
2۔ نکاح کے بعد مرد پر پہلا فرض یہ عائد ہوتا ہے کہ
وہ اپنی بیوی کا حق مہر ادا کرے اور اسے خوش دلی سے ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ
النساء میں فرماتا ہے: وَ
اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ-
(پ4،نساء:4) ترجمہ کنز الایمان: اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دو۔
ہاں! عورت خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ معاف
کر دے، تو جائز ہے۔
3۔ نبی کریم ﷺ کو ازواج مطہرات کا اتنا خیال تھا کہ
ایک مرتبہ سفر میں اونٹ چلانے والے اونٹ کو تیز ہانکنے لگے۔ اونٹ پر ازواج مطہرات
سوار تھیں۔ آپ نے اپنے غلام انجشہ کو مخاطب کر کے فرمایا: افسوس انجشہ! شیشوں (نازک
اندام عورتوں) کو آہستگی سے لے کر چل۔
ازدواجی تعلق کی سب سے مضبوط بنیاد محبت کا جذبہ
ہے۔ یہ جذبہ موجود ہو تو زندگی کے میدان میں اکٹھے سفر جاری رکھ سکتے ہیں اور ساتھ
ہی ساتھ اپنے اعلیٰ مقصد یعنی اولاد کی تربیت پر اچھے اثرات بھی مرتب کر سکتے ہیں۔
محبت کا جذ بہ نہ ہو تو یہ تعلق ایسے ہوگا، جیسے دو اجنبی کسی سفر کے دوران میں مل
بیٹھے ہوں۔
4۔ بیوی کا
حق یہ ہے کہ اس کا شوہر اسے شریک محبت رکھے، حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک
دینار وہ ہے جو تم نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا، ایک دینار وہ ہے جس کے ذریعہ تم نے
کوئی غلام آزاد کیا، ایک دینار وہ ہے جو تم نے کسی مسکین کو صدقہ کے طور پر دے
دیا، اور ایک دینار وہ ہے جو تم نے اپنی بیوی پر خرچ کیا، ان میں سب سے زیادہ ثواب
اس دینار پر ملے گا جو تم نے اپنی بیوی پر خرچ کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دنیا فائدہ اٹھانے کی
چیز ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ فائدہ دینے والی چیز نیک بیوی ہے۔ (مسلم، ص 595،
حدیث: 1467)
5۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمايا: جو اللہ اور یوم آخرت پر
ایمان رکھتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ جب کوئی معاملہ پیش آئے تو اچھی بات کہے
ورنہ خاموش رہے۔ اور عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو اس لئے کہ وہ پسلی سے بنی ہے
اور پسلی میں سب سے نچلی پسلی ٹیڑھی ھوتی ہے تو اگر اسے سیدھا کرے گا تو توڑ دے گا
اور اگر یونہی چھوڑ دیا تو ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی، عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو۔(بخاری،
3 /457، حدیث: 5185)اور
حسن سلوک میں یہ بھی ہے کہ خاوند بیوی کے اندر محبت و سرور پیدا کرے کیونکہ اس سے
خاندان میں مودت اور رحمت کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہنسی مذاق کرتے
تھے اور دوڑ میں مقابلہ کرتے تھے۔
دنیا میں سب سے پہلے حضور ﷺ نے عورتوں کے حقوق مقرر
فرمائے اور عورت کی شخصیت کو ابھارااور قرآن کریم کے الفاظ میں اعلان فرمایا: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ
2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے
موافق۔
اسلام سے پہلے عورتوں کے حقوق پامال کیے جاتے تھے۔ عصمت
وعفت ہی کی قدر نہ تھی حق مہر ایک بےمعنی چیز تھی۔ عورت کی ملکیت کا سارا سامان
وغیرہ شوہر کی ملکیت قرار دیا جاتا تھا۔ آیت مبارکہ میں بھی بتایا جا رہا ہے کہ جس
طرح مردوں پر عورتوں کے حقوق ہوتے ہیں ایسا ہی شوہروں کے حقوق بیویوں پر بھی ہوتے
ہیں شوہروں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ وہ عورتوں کے مالک نہیں یا بیویاں
ان کی کنیزیں نہیں۔ بلکہ اسلام نے دونوں پرایک دوسرے کے کچھ حقوق کو نافذ کیا ہے
اور جسمانی ساخت اور دماغی قوت کے لحاظ سے مرد کو ہی فضیلت حاصل ہے۔
1۔ شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرے
نیکی کا برتاؤ کرے مرد کو چاہیے کہ اسکی ضد کے مقابلے میں سختی سے کام نہ لے۔ کہ
حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوا: عورت کی پیدائش ٹیڑھی پسلی سے ہوئی وہ تیرے لیے کبھی
سیدھی نہ ہوگی برتنا چاہو تو اسی طرح برت سکتے ہو۔ (مسلم، ص 595،
حدیث: 1468)
2۔حدیث مبارکہ میں ہے کہ مرد کو چاہیے کہ اپنی بیوی
سے بغض نہ رکھے اگر اسکی ایک عادت بری معلوم ہو تو امید ہے دوسری پسند بھی ہو گی۔(مسلم،
ص 595، حدیث: 1469)
3۔اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ان میں انصاف کرے
اور ہر ایک کے ساتھ مساوات و برابری کا سلوک کرےاور انکی حاجات کو پورا کرے۔
4۔جو کچھ مرد خود کھائے بیوی کو بھی وہی کچھ کھلائے
اور پہنائے کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ بے شک عورت کا تمہارے اوپرحق ہے تم ان کے
پہنانے اور کھلانے میں نیکی اختیار کرو۔ (سنی بہشتی زیور، ص 232)
بیوی کے پانچ حقوق از بنت عاشق حسین بٹ، جامعۃ
المدینہ نوشہرہ روڈ گجرانوالہ
اسلام سے پہلے عورت کی کوئی حیثیت نہ تھی، چاہے وہ
ماں ہو یا بیٹی ہو یا بیوی، بیٹی ہو یا بہن، عورت کی عزت اور احترام کا کوئی تصور
نہیں تھا۔ بیٹی ہوتی تو معاذاللہ پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دی جاتی، بیوی ہوتی تو
گویا پاؤں کی جوتی سمجھی جاتی۔ اللہ پاک کے فضل اور احسان پہ قربان کہ اس نے ہمیں
اپنے پسندیدہ دین مذہب مہذب اسلام میں پیدا فرمایا جو تمام دینی اور دنیاوی اخلاق
اور آداب سے آراستہ ہے۔ اسلام وہ پیارا دین ہے جس نے انسان تو انسان، جانوروں تک
کے حقوق بیان فرمائے ہیں اور عورت کو حقیقی معنوں میں عزت اسلام ہی نے بخشی ہے، قرآن
پاک نے عورت کے حقوق واضح ترین انداز میں بیان فرما کر دنیا بھر کی عورتوں کی عزت
اور عصمت کی حفاظت فرمائی ہے۔ اسلام میں ماں ہونے کی حیثیت سے عورت کی جو تعظیم
اور تکریم ہے وہ اسلام کے علاوہ کسی مذہب میں نہیں۔ ایسے ہی اسلام بیوی، بہن اور
بیٹی کو جو تحفظ عطا فرماتا ہے وہ دوسرے کسی دین میں نہیں۔
مذہب مہذب اسلام نے بیوی کے حقوق بھی بڑی تفصیل کے
ساتھ بیان فرمائے ہیں۔خاوند کو چاہیے کہ دین کی حدود میں رہ کر اپنی بیوی کے حقوق
کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ پورا کرے اور شریعت نے عورت کو جو جائز حقوق عطا کئے
ہیں ان کی حق تلفی نہ کرے کیونکہ اللہ پاک نے جس طرح مردوں کے حقوق پورے کرنا
عورتوں کے ذمے لگایا ہے اسی طرح عورتوں کے کچھ حقوق ہیں جن کا پورا کرنا مردوں پر فرض
فرمایا ہے۔
اچھا برتاؤ: قرآن مجید میں
بیویوں کے ساتھ حسن سلوک سے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان:
اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے
ہیں: بیویوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے بات کرنا اور تمام امور میں انکے ساتھ انصاف
کرنا ان کے ساتھ اچھا برتاؤ ہے۔ اچھے برتاؤ کی ایک وضاحت یہ بھی کی گئی ہے کہ جو
اپنے لیے پسند کرو، ان کے لیے بھی وہی پسند کرو۔
اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر بیوی کے حقوق بیان
کرتے ہوئے فرمایا: وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ
قِنْطَارًا(پ4،
النساء:20 ) ترجمہ: اور تم
اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو۔ یہاں مزید بیوی کے حقوق بیان فرمائے گئے چنانچہ ارشاد
فرمایا کہ اگر تمہارا ارادہ بیوی کو چھوڑنے کا ہو تو مہر کی صورت میں جو مال تم
اسے دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔
قرآنی احکامات کے مطابق بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے
کی روشن مثال اللہ تعالیٰ کے پیارے اور آخری نبی ﷺ کی مبارک سیرت ہے چنانچہ سرکار
مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو
اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں سے اچھا سلوک کرنے والا ہوں۔ (ترمذی، 5/ 475،حدیث:3921)
حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ الله علیہ اس حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
بڑا خليق (اچھے اخلاق والا) وہ ہے جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خلیق ہو کہ ان سے ہر
وقت کام رہتا ہے، اجنبی لوگوں سے خلیق ہونا کمال نہیں کہ ان سے ملاقات کبھی کبھی
ہوتی ہے۔ (مرآة المناجیح، 5/ 96)
بہترین کون؟ اللہ کریم کے
آخری نبی ﷺ نے فرمایا: مومنوں میں سے کامل تر مومن اچھے اخلاق والا ہے اور تم میں
بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا ہو۔ (ترمذی، 2/ 386،حدیث: 1165)
اچھے اخلاق وہ عادت ہے جس سے اللہ رسول بھی راضی رہے
اور مخلوق بھی، یہ ہے بہت مشکل مگر جسے یہ نصیب ہو جائے اس کے دونوں جہاں سنبھل
جاتے ہیں کیونکہ بیوی صرف خاوند کی خاطر اپنے میکے والوں کو چھوڑ دیتی ہے اگر
خاوند بھی اس پر ظلم کرے تو وہ کس کی ہو کر رہے۔ کمزور پر مہربانی سنت الہیہ بھی
ہے سنت رسول بھی۔ (مرآة المناجیح، 5/ 101)
اللہ تعالیٰ ہمیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی
احسن طریقے سے ادائیگی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بیوی کے پانچ حقوق از بنت طارق جاوید خان، جامعۃ المدینہ
نوشہرہ روڈ گجرانوالہ
اسلام ایک واحد ایسا مذہب ہے جس میں زندگی کے ہر
شعبے سے تعلق رکھنے والے کے حقوق کا تعین اور تحفظ موجود ہے۔ اسلام سے قبل عورت کی
حیثیت انتہائی کم تھی۔ اسلام نے عورت کو وراثت میں حصہ دار بنایا۔ عورتوں کو مردوں
کے مساوی حقوق فراہم کیے ہیں۔ جس طرح مردوں کے حقوق پورے کرنا عورتوں کے ذمہ لگایا
ہے اسی طرح عورتوں کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کا ادا کرنا مردوں کا فرض ہے۔ خاوند کو
چاہیے کہ حدود میں رہ کر اپنی بیوی کے حقوق کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دے
اور شریعت نے عورت کو جو جائز حقوق عطا کیے ہیں ان کی حق تلفی نہ کرے۔ بیوی کے
ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم قرآن مجید میں بھی ذکر فرمایا گیا ہے، چنانچہ ارشاد
باری تعالیٰ ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ-
(پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔
حدیث مبارکہ کی روشنی میں بیوی کے حقوق:
1۔ بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا: پیارے
آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو
اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں سے اچھا سلوک کرنے والا ہوں۔ (ترمذی، 5/ 475،حدیث3921)
دین اسلام بھی اس شخص کو بہترین قرار نہیں دے سکتا
جو لوگوں کی نظروں میں اچھا بننے اورعزت پانے کے لیے سب کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش
آئے مگر جب گھر میں داخل ہو تو اس کی بیوی ڈر جائے، بچے بھاگ جائیں،نوکر سہم جائیں
اور جب وہ گھر سے نکل جائے تو اس کی بیوی سکون میں رہے (جیسے اس پر سے مصیبت ٹل
گئی)اور اس کے بچے اور نوکر خوش ہو جائیں۔ ہر شخص کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ
کہیں وہ اس بات کا مصداق تو نہیں بن رہا۔
2۔کامل ایمان والا: تاجدار انبیاء
ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: بے شک کامل ایمان والا وہ ہے جس کا خلق اچھا ہو اور وہ
اپنی بیوی کے ساتھ نرمی سے پیش آئے۔(ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)
شادی شدہ زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے ضروری ہے
کہ بیوی کے ساتھ ہمیشہ تحمل اور بردباری سے پیش آیا جائے۔ خاوند اپنی بیوی کے ساتھ
نرمی اور خوش خلقی سے پیش آئے اور یہ اس صورت میں ممکن ہے جب اس کا خود کا اخلاق
اچھا ہو گا جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث شریف میں بھی اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ
کامل ایمان والا وہ ہے جس کا خلق اچھا ہو۔(ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)
3۔حلال کھلانا: نیز
بیوی کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اسے حلال کھلائیں حرام وناجائز نہ کھلائیں
کیونکہ حرام کھانے والا دوزخ کا حقدار ہے اور جب بھی بیوی لذیذ کھانا وغیرہ بنائے
تو شوہر کا فرض ہے کہ اس کی تعریف کرے اس سے اسے وہ خوشی ملے گی جو آپ دولت سے
نہیں دے سکتے۔ اگر خاوند اپنی بیوی کو پانی پلائے تو اس پر بھی اس خاوند کو اجر
وثواب ملے گا۔(مجمع الزوائد، 3/300، حدیث: 4659)
4۔ بیوی کے جذبات کا خیال رکھنا سنت ہے:
بیوی
کے جذبات کا خیال رکھنا پیارے آقا ﷺ کی سنت ہے خاص کر جب بیوی عمر میں ذرا کم سن
ہو اور اس کی عادات چھوٹی بچیوں جیسی ہوں تو ان سے درگزر کرنا چاہیے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں
نبی کریم ﷺ کے پاس گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی میری سہیلیاں بھی تھیں جو میرے ساتھ
کھیلا کرتی تھیں جب رسول اللہ ﷺ تشریف لاتے تو وہ چلی جاتیں آپ ﷺ انہیں میرے پاس
بھیج دیتے تو وہ میرے ساتھ کھیلنے لگ جاتیں۔
اس حدیث مبارکہ میں بتایا گیا ہے کہ بیوی کے جذبات
کی دلداری کا لحاظ رکھنا چاہیے اس کا ایسا شوق جو خلاف شرع نہ ہو اسے برداشت کر
لینا چاہیے غرض یہ کہ بیوی سے ہنسی خوشی رہنا چاہیے۔ اس طرح میاں بیوی کی زندگی
میں اطمینان اور سکون کی دولت میسر رہے گی دونوں کا نبھا اچھی طرح ہو جائے گا۔
5۔ پردے کی تلقین: بیوی
کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ خاوند اسے بن ٹھن کر باہر جانے سے روکے جیسے فی زمانہ
خواتین بیاہ شادیوں پر یا رشتہ داروں کے ہاں میک اپ کر کے اچھا لباس پہن کر خوشبو
لگا کر جاتی ہیں کیونکہ حدیث مبارکہ میں اس کی سخت ممانعت بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ
تاجدار کائنات ﷺ نے فرمایا: جس کی بیوی زیورات پہن کر اور خوشبو لگا کر باہر نکلتی
ہے اگر شوہر اس پر رضامند ہے تو اس عورت کے ایک ایک قدم کے بدلے میں اس شوہر کے
لئے سزا ہے۔ (تحفہ شادی، ص 149)
بیوی کے پانچ حقوق از بنت محمد ارشد، فیضان خدیجۃ الکبریٰ
کنگ سہالی گجرات
اللہ پاک نے جس طرح مردوں کے کچھ حقوق عورتوں پر
لازم فرمائے اسی طرح عورتوں کے حقوق مردوں پر بھی لازم فرمائے ہیں جس کا ادا کرنا
مردوں پر فرض ہے۔ عورتوں کے مردوں پر اسی طرح کچھ حقوق ہیں جس طرح مردوں کے عورتوں
پر اچھے برتاؤ کے ساتھ۔
اسی طرح آقا ﷺ نے فرمایا: تم میں سے اچھے وہ ہیں جو
عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔ (ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)
حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے: میں تم لوگوں کو عورتوں
کے بارے میں وصیت کرتا ہوں لہذا تم میری وصیت قبول کرو۔ بہرحال اللہ پاک نے عورتوں
کے کچھ حقوق مردوں پر لازم فرمائے ہیں۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔
1۔ ہر شوہر پر اس کی بیوی کا حق یہ ہے کہ وہ اپنی
بیوی کے کھانے پینے رہنے اور دوسری ضروریات زندگی کا اپنی حیثیت کے مطابق اپنی
طاقت بھر انتظام کریں۔ جو مرد لاپرواہی سے اپنی بیوی کے نان و نفقہ اور اخرجات
زندگی کا انتظام نہیں کرتے وہ بہت گنہگار حقوق العباد میں گرفتار اور عذاب نار کے سزا
وار ہیں۔
2۔ شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی کے ساتھ خوش اخلاقی
سے پیش آئے۔ اس سے خوش طبعی کرے۔ ہمارے نبی ﷺ جس طرح اپنے صحابہ کرام علیہم
الرضوان کے ساتھ خوش طبعی فرماتے اور مسکراتے تھے۔ ایسے گھر والوں کے ساتھ پیش
آتے۔ آپ ﷺ کے مزاح میں حق بات کے سوا کچھ نہ ہوتا۔
حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ لوگوں
میں سب سے بڑھ کر اپنی ازواج کے ساتھ خوش طبع تھے۔ (ماہنامہ فیضان مدینہ ستمبر
2023، ص 64)
3۔ عورت اگر بیمار ہو جائےتو شوہر کا ہو سکتا ہے
اخلاقی فریضہ ہے کہ عورت کی غمخواری اور تیمارداری میں ہرگز ہرگز ہرگز کوتاہی نہ
کرے۔ بلکہ دلداری دلجوئی بھاگ دوڑ سے عورت کے دل پر نقش لگادے۔
4۔ مرد کو چاہیے کہ عورت کی غلطیوں پر اصلاح کے لیے
روک ٹوک کرتا رہے۔ کبھی سختی اور غصے کے انداز میں اور کبھی محبت اور پیار اور کبھی
ہنسی خوشی کے ساتھ بات چیت کرے۔ اکثر عورتوں میں ضد ہوتی ہے مرد کو چاہیے کہ اس کی
ضد کے مقابلے میں سختی سے کام نہ لے۔ آقا ﷺ نے فرمایا: تم میں سے اچھے وہ ہیں جو
عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔(ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)
5۔ اگر کسی کے پاس دو بیویاں ہوں یا اس سے زیادہ
ہوں تو فرض ہے کہ تمام بیویوں کے درمیان عدل اور برابری کا سلوک کرے۔ تمام معاملات
میں برابری برتے ورنہ حقوق العباد میں گرفتار اور عذاب نار کا سزا وار ہوگا۔
بیوی کے پانچ حقوق از بنت غلام یاسین، فیضان خدیجۃ
الکبریٰ کنگ سہالی گجرات
حضوراقدس ﷺ
نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض
کی: ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور سازوسامان نہ ہو۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہےجو
قیامت کے دن نماز،روزہ اور زکوة (وغیرہ اعمال)لے کر آئے
اور اس کا حال یہ ہو کہ اس نے(دنیا میں) کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی
تھی،کسی کا مال کھایا تھا، کسی کا خون بہایا تھااور کسی کو مارا تھا تو ان میں سے
ہر ایک کو اسکی نیکیاں دے دی جائیں گی اور ان کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اگر اس کی
نیکیاں (اسکے پاس سے)ختم ہو گئیں تو ان کے گناہ اس پر ڈال ديئے
جائیں گے، پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (صراط
الجنان، 1/154) لہذا ہمیں صرف نیکی کرنی
ہی نہیں بلکہ اسے بچانا بھی ہےاور کوشش کرنی ہے کہ دنیا سے بندوں کے حق کا بوجھ
اپنے اوپر نہ لے کر جائیں۔ خدا کے تو ہم گناہگار ہیں مگر مخلو ق کے گناہگار نہ
بنیں۔
بیوی کے حقوق: بیوی کے حقوق ازروئے
قرآن و حدیث پیش خدمت ہیں۔
1۔حسن سلوک: شوہر اگرچہ
گھر کی چھوٹی سی ریاست کا سربراہ ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی اسکو یہ بھی نصیحت کی گئی ہے
کہ اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے
اپنی بیوی پر سختی نہ کرے بلکہ حسن سلوک سے پیش آئے۔کیونکہ
سسرال جیل خانہ اور بیوی باندی نہیں۔ ارشاد ربانی ہے: وَ
عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور
ان سے اچھا برتاؤ کرو۔
یہ حکم کسی خاص حالت کا نہیں، جوانی میں بھی اور
بڑھاپے میں بھی، وہ حسین و جمیل ہو تو بھی اور ظاہری حسن و جمال سے محروم ہو تب
بھی، ڈھیروں مال لے کر آئےجب بھی اور
خالی ہاتھ آئے
جب بھی۔
2۔نان و نفقہ اور حق مہر کی ادائیگی: نفقہ
سے مرادکھانا، کپڑے اور رہنے کا مکان ہے۔حق مہر اصلا اس بات کا علامتی اظہار ہے کہ
شوہر اپنی بیوی کی تمام معاشی ذمہ داریاں اٹھائے
گا۔یہ اپنی حیثیت کے مطابق مقرر کرنا چاہیئے۔ قرآن
کے مطابق یہ ڈھیروں مال بھی ہو سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ
نے ارشاد فرمایا: نکاح کی شرطوں میں سے جس شرط کا پورا کرناتمہارے لیے سب سے زیادہ
اہم ہے وہ وہی شرط ہے جس کے ذریعے تم نے عورتوں کی شرمگاہوں کو اپنے لئے
حلال کیا ہے۔ یہاں شرط سے مراد مہر ہے یا بیوی کا نان و نفقہ۔ مگر حق یہ ہے کہ اس
سے مراد وہ تمام شرائط ہیں جو نکاح کے وقت یا نکاح کے بعد لگائی جاتی ہیں۔ (فیضان
چہل احادیث، ص28)
3۔حق خلع: شوہر اور
بیوی کا رشتہ آقا اور باندی کا نہیں بلکہ محبت و الفت کا ہے ازدواجی زندگی میں اگر
بگاڑ پیدا ہو،شوہر اور بیوی میں نہ بن پائے
تو جہاں ایک طرف مرد کو طلاق کا حق حاصل ہے تو دوسری طرف بیوی کو بھی اختیار ہے کہ
وہ خلع لے لے۔ (سیرت رسول عربی، ص 231)
4۔بیوی کے والدین اور رشتہ داروں سے حسن
سلوک:
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃاللہ علیہ اپنی انتہائی مفید تحریرمیں
فرماتے ہیں کہ بیوی سب کچھ سن سکتی ہے مگر اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کی برائی
نہیں سن سکتی لہذا اسکے والدین کو کچھ مت کہا کرو۔ ابو جہل کے فرزند حضرت عکرمہ
رضی اللہ عنہ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تو حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:
عکرمہ رضی اللہ عنہ کے سامنے کوئی بھی ان کے باپ کی برائی نہ کرے۔ (اسلامی زندگی، ص
52)
5۔نرم رویہ: بیوی جو کہ
شوہر کی خاطر اپنے میکے والوں کو چھوڑ آتی ہے بلکہ بعض دفعہ تو دیس چھوڑ کر پردیسی
بھی بن جاتی ہے۔اگر شوہر اسے آنکھیں دکھائے
گاتو وہ کہاں کی رہے گی۔
سیرت رسول عربی
صفحہ 230 پر ایک حدیث مبارکہ نقل ہے جس میں آقا علیہ السلام نے عورت کو شیشی سے
تشبیہ دی ہے۔یعنی عورت اس قدر نازک ہوتی ہے کہ ہلکی سی ٹھوکر سے شیشے کی طرح چور
چور ہو کر بکھر سکتی ہے۔لہذا اسکے ساتھ نرمی سے پیش آنے کی بھرپور تاکید کی گئی ہے۔