پچھلے دنوں پنجاب کے شہر پتوکی کے اطراف گاؤں شیخم
(sheikhum) ضلع قصور میں ایک شخصیت ماسٹر محمد شفیع نے اپنی چار مرلہ جگہ دعوتِ
اسلامی کے شعبہ مدرسۃ المدینہ گرلز کے لئے وقف کردی تھی۔
اسی سلسلے میں 6 اپریل 2022ء بروز بدھ شخصیات کی موجودگی میں وقف کی گئی جگہ کا سنگِ بنیاد رکھا گیا، اس
دوران تحصیل
نگران پتوکی مولانا فیضان عطاری مدنی اور دیگر ذمہ داران سمیت علاقے کے عاشقانِ
رسول موجود تھے۔
واضح
رہے جس شخصیات نے اپنی جگہ وقف کی تھی تعمیراتی کام وہی شخصیت کرارہے ہیں۔مقامی
شخصیات سے بھی تعاون کی درخواست ہے۔(رپورٹ:علی ریاض عطاری تحصیل ذمہ دار سیکورٹی
ڈیپارٹمنٹ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
دعوتِ اسلامی کے تحت پچھلے دنوں شعبہ مکتبۃ
المدینہ کے اسلامی بھائیوں کا مدنی مشورہ منعقد ہوا جس میں ڈسٹرکٹ فیصل آباد اور
گلگت بلتستان سمیت دیگر شہروں کے مکتبۃالمدینہ ذمہ داران نے شرکت کی۔
اس مدنی مشورے میں شعبے کے صوبائی ذمہ دار محمد
راشد رفیق عطاری نے شعبے کے انتظامی اور تنظیمی کاموں کے حوالے سے گفتگو کی اور
رمضان عطیات سمیت دعوتِ اسلامی کے 12 دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ملانے کا
ذہن دیا جس پر ذمہ داران نےاچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔(رپورٹ:محمد سلیم عطاری معاون
نگران شعبہ مکتبہ المدینہ ہیڈ آفس کراچی، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
گزشتہ دنوں مدنی مرکز فیضان مدینہ جو ہر ٹاؤن
لاہور میں دعوتِ اسلامی کے تحت اسپیشل
پرسنز ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ داران کا مدنی
مشورہ ہوا جس میں اہم ذمہ داران سمیت
اسپیشل پرسنز کی شرکت رہی۔
اس مدنی مشورے میں لاہور ڈویژن ذمہ دار محمد علی
عطاری نے شرکا کی تربیت کرتے ہوئے رمضان اعتکاف کے حوالے سے مشاورت کی نیز دعوتِ
اسلامی کے شعبہ جات کے لئے زیادہ سے زیادہ عطیات جمع کرنے کی ترغیب دلائی جس پر
وہاں موجود اسلامی بھائیوں نے اپنی اپنی
نیتوں کا اظہار کیا۔(رپورٹ:محمد سمیر ہاشمی عطاری اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ ،
کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
5 اپریل
کو مدنی مذاکرے کا انعقاد، امیر اہلسنت نےمدنی پھول ارشاد فرمائے
رمضان المبارک کی برکتیں لوٹنے کے لئے عالمی
مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں 5 اپریل 2022ء کو مدنی مذاکرے کا انعقاد کیا گیا
جس میں معتکفین اور دیگر عاشقان رسول نے شرکت کی۔
امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نےعاشقان رسول کی جانب سے ہونے والے سوالات کے حکمت بھرے
جوابات ارشاد فرمائے۔
بعد نماز عصر ہونے والے
مدنی مذاکرے کے مدنی پھول
سوال: جو نمازِتہجدکی نیت
سے سوئے مگربیدارنہ ہوسکےتو کیااُسے نمازِتہجدکا ثواب ملے گا ؟
جواب: جی ہاں،اُسے ثواب
ملے گا۔
سوال: سیدہ خاتونِ جنّت،حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نمازِجنازہ کس نے پڑھائی؟
جواب: ایک روایت کے مطابق
اسلام کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اوردوسری روایت کے
مطابق،اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے پڑھا ئی۔
سوال: کوئی ہماری تعریف
کرے تو ہم کیا کریں ؟
جواب: کوئی تعریف کرے تو اچھا لگتاہے ،اس اچھالگنے میں
خطرہ ہے کہ بندہ عُجب (خودپسندی) میں مبتلاہوجائے ،وہ اس تعریف کو
اپنا کمال سمجھے کہ میں نے یہ کیا ہے، وہ کیا ہے وغیرہ ۔یادرکھئے! جس شاخ میں پھل
ہوگاوہ جھکی رہے گی اورجس میں پھل نہیں وہ
اکڑی رہے گی ،علم اوراچھی صحبت نہ ہونے کی وجہ سے باطنی بیماریاں یوں جڑپکڑلیتی
ہیں کہ بندہ کہیں کا نہیں رہتا،دعوتِ اسلامی کا دِینی ماحول ایک نعمت ہے، عاشقانِ
رسول کے ساتھ وابستہ رہیں ،ذیلی حلقے کے12 دینی کاموں میں مصروف رہیں بالخصوص نیک
اعمال کے رسالے پر عمل کرتےرہیں ۔
سوال: نیک اعمال رسالے پرعمل کے بارے میں آپ کیا
فرماتے ہیں ؟
جواب: نیک اعمال کا رسالہ پُرکرنا آسان ہے، مگرعمل
کرنا مشکل ہےاس لیے نیک اعمال رسالے پر عمل کرنے والے تھوڑے ہیں کیونکہ نیک اعمال
کرنے میں محنت لگتی ہے ۔
بعد نماز تراویح ہونے والے مدنی مذاکرے کے مدنی پھول
سوال: دسترخوان پر گِرے
ہوئے ٹکڑوں کو کھانے کی کیافضیلت ہے؟
جواب :گِرے ہوئے دانے ،برتن میں بچاہواکھانا ،شوربہ
وغیرہ جو قابلِ استعمال ہواُسے استعمال میں لایاجائے، ضائع نہ کیا جائے۔حدیث پاک
میں ہے: جوشخص دسترخوان سے کھانے کے گِرے ہوئے ٹکڑوں کو اُٹھا کر کھائے وہ فراخی
کی زندگی گزارتا ہے اوراس کی اولاداوراولاد کی اولاد کم عقلی سے محفوظ رہتی ہے ۔(کنزالعمال ،15/111بحوالہ فیضان سنت ،1/262)
سوال : برتن کو چاٹنے کے
کیافائدے ہیں؟
جواب: حدیث پاک میں ہے :جوکھانے کے بعدبرتن کوچاٹ لے گاوہ برتن اُس کے لیے استغفارکرے گا۔(ابن ماجہ ،4/14)ایک اورروایت میں ہے
کہ وہ برتن کہتاہے :اے اللہ !اس کو جہنم سے آزادکر،جس طرح اس نے مجھے شیطان سے
نجات دی ۔(کنزالعمال ،15/111)،ایک حدیث پاک میں
ہے :جورِکابی (پلیٹ)اوراپنی اُنگلیاں
چاٹے ،اللہ پاک دنیاوآخرت میں اس کا پیٹ بھرے ۔(طبرانی کبیر،18/261)اس حدیث پاک کامعنی
ہے :رکابی(پلیٹ) اوراپنی انگلیاں
چاٹنے والا دُنیامیں فقروفاقہ سے بچے ،قیامت کی بھوک سے محفوظ رہے ،دوزخ سے پناہ
دیا جائے کہ دوزخ میں کسی کا پیٹ نہ بھرے گا۔(فیضان سنت ،1/100)
سوال: چڑچڑاپن کیا ہے ؟
جواب:چڑچڑاپن غصے
کی سوتیلی بہن ہے بلکہ غصے کی ایک قسم ہے،اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔
سوال: کیا روزے دارسے یہ سوال کرنا چاہئے کہ آج آپ کا روزہ کیسا گزرا؟
جواب: پوچھنا نہیں چاہئے ،وہ سچ بولے یاجھوٹ بول دےیہ اندیشہ
ہے ،اس لیے نہ پوچھنا اچھا ہے ۔
سوال : کھانے کے بعد جو اجزاء
منہ میں ہی رہ جائیں ،ان کاکیا کرنا چاہئے ؟
جواب: ایک گھونٹ پانی لےکر
منہ میں پھیرلیں اورنگل جائیں،کھانے کے بعد مسواک کی جائے،چائے یا غذاکے ذرّات دانتوں پر نہیں لگے رہنے چاہئیں ۔
سوال:آپ کو کیا کیا کام
کرنے والے اچھے لگتے ہیں؟
جواب: اچھائی کرنے والےاچھے لگتے ہیں۔
سوال: امی ابومیں اگر کسی بات پر جھگڑاہوجائے تو اولاد
کو کیا کرنا چاہئے ؟
جواب : اولادخاموش رہے
۔بات کا وزن ہوتو جس کا قصورہواسے الگ سے نہایت ہی ادب سے سمجھا دے ۔
4 اپریل کو مدنی مذاکرے کا انعقاد، امیر اہلسنت نےمدنی
پھول ارشاد فرمائے
عاشقان رسول کی دینی تحریک دعوت اسلامی کے زیر
اہتمام رمضان المبارک میں روزانہ مدنی مذاکرے کا انعقاد کیا جارہا ہےجس میں کثیر
عاشقان رسول شرکت کرررہے ہیں۔ اسی سلسلے میں 4 اپریل 2022ء کو مدنی مذاکرے کا
انعقاد کیا گیا جس میں امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے ذکر
و اذکار کے ساتھ ساتھ دیگر شرعی مسائل کے
حوالے سے شرکا کی رہنمائی فرمائی۔
بعد نماز عصر ہونے والے
مدنی مذاکرے کے مدنی پھول
سوال: کیا ماہِ رمضان میں ویڈیوگیمز(Video Games)کھیل سکتے ہیں ؟
جواب: ویڈیوگیمز عموماً
گناہ بھری ہوتی ہیں ،رمضان المبارک اور اس کے علاوہ بھی اس سے بچنا ضروری ہے ۔والدین اپنے بچوں کو
اس سے بچائیں ،ماہِ رمضان تو عبادت
،ذکرودُروداورتلاوتِ قرآن کے لیے آیا ہے، اس میں عبادت میں مصروف رہنا چاہئے ۔
سوال:
سردردکا رُوحانی علاج بتادیجئے؟
جواب: بعدِعصر 67مرتبہ لَاۤاِلٰہ َاِلاَّ اللہُ پڑھ کر سرپر دم کیجئے،دوسراعلاج یہ ہے کہ 1 باربِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھ کر سرپردم کیجئے، کاغذپر1 بارلکھ کر سرپرباندھ لیجئے ۔
سوال: کسی مسلمان کو تکلیف
دیناکیسا؟
جواب: مسلمان کو ایذاوتکلیف دینا حرام اورجہنم میں لے
جانے والاکام ہے، ایسا کرنے والے کو اللہ پاک سے توبہ کرنےکے ساتھ ساتھ جس کوتکلیف دی ہے اس سے معافی مانگنا
بھی ضروری ہے ۔
سوال:پان کھانے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟
جواب: پان کھاناجائز ہے مگرپان جتنی
دیرمنہ میں رہے گا تو ذکرودُرود سے محروم رہیں گے ،میں نے بہت پہلے کچھ کچھ پان کھانا شروع کیا تھا مگرپھر غورکیا کہ اتنی
دیرمیں ذکرودُرودنہیں کرسکتا،میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں اب پان نہیں کھاؤں گا ،مجھ
سے محبت کرنے والوں کوچاہئے کہ وہ بھی ان
چیزوں سے بچیں ۔
سوال: کیا جُوتااُلٹارکھا ہوتو اس کو سیدھا کردینا چاہئے؟
جواب: استعمال شدہ جُوتا اُلٹارکھا ہوتوموقع کی مناسبت سے سیدھا کردینا چاہئے کہ یہ معیوب ہے ۔
بعد نماز تراویح ہونے والے مدنی مذاکرے کے مدنی پھول
سوال:بیماروں کی عیادت و
تیمارداری کے بارے میں کچھ مدنی پھول ارشادفرمادیں؟
جواب: ہرمریض سے تیمار داری کرنی چاہئے بالخصوص والدین
بیمارہوں تو دن میں کئی کئی بارجاکر بیمارپرسی کریں ،علاج کی ضرورت ہوتوعلاج بھی
کروائیں،بیمارکو تسلی دیں، دعوتِ اسلامی کے شعبہ روحانی علاج سے روحانی علاج بھی کروائیں، دعابہت بڑاعلاج ہے، دعامؤمن کا
ہتھیارہے ، دعابلاکو ٹال دیتی ہے،مریض خود بھی اوردوسرے بھی دل لگا کر اس کی شفا
کی دعا کریں ۔
سوال: میت کو کس چیزسے راحت حاصل ہوتی ہے؟
جواب: میت کو ایصالِ ثواب کریں تو اللہ پاک کی رحمت سے اسےٹھنڈک وراحت پہنچے گی
۔
سوال: نکاح کے بعدرخصتی
کب تک ہو جانی چاہئے ؟
جواب: فی زمانہ جس دن نکاح کیا جائے،اُسی دن رخصتی
کردینا زیادہ بہتر ہے ۔
سوال: علم ِ دین حاصل کرنے کا جذبہ برقراررہے، اس کے لیے
کیا کریں ؟
جواب: بزرگوں کا قول ہے: اُطْلُبُوا الْعِلمَ مِنَ المَهدِ إلَى اللَّحْدِ یعنی
ماں کی گود(مہد) سے لے کر قبر(لحد) تک علم حاصل کرو،اس
طرح کے دیگراقوال سننے اورپڑھنے سے علم حاصل کرنے کی طرف رغبت بڑھے گی ،اگرکوئی
بات معلوم بھی ہوتو شوق سے سنیں تاکہ بتانے والے کی دلجوئی ہو،اس کا دل خوش ہو
،کبھی وہ ایسی بات بھی بتادے گا جو آپ کو معلوم نہیں ہوگی ۔
سوال: آپ رسائل کب لکھتے
ہیں؟
جواب: جب وقت
اوریکسوئی ملتی ہے تو تحریری کام کرتاہوں،
کیونکہ تحریری کام کے لیے یکسوئی ضروری ہے،
اس لیے بیرونِ ملک بھی چلاجاتاہوں۔ میں اپنی تحریر کی مفتی صاحب سے تفتیش
کرواتاہوں ،اس میں جو بات طب سے تعلق رکھتی ہے وہ حکیم صاحب سے اورجس کا تعلق ڈاکٹرصاحب سے ہو وہ ان سے تفتیش کرواتاہوں تاکہ کوئی غلطی نہ
ہو۔
سوال: اِنشاپردازی کیا
ہوتی ہے ؟
جواب: عمدہ اندازِ
تحریرکو اِنشاپردازی کہتے ہیں ،تحریر میں
اچھے اورمناسب الفاظ کا چناؤوغیرہ ،اس کے ساتھ قلم اورتحریرکی روانی میں
مضبوطی بھی ضروری ہے، کوئی تحریرلکھنے کے لیے علم ضروری ہے،
بغیرعلم کے درست نہیں لکھ سکتے، غلطی ہوسکتی ہے ،بہترتحریرکے
لیے مسلسل کوشش ضروری ہے ۔
سوال: مطالعہ کی عادت
بنانے کا کوئی طریقہ اِرشاد فرمادیں۔
جواب: مطالعہ کرنے میں اوّلاً دل نہیں لگتا، اس لیے جس دینی
کتاب میں دلچسپی ہو ، پہلے وہ پڑھیں ،جنہیں شرعی مسائل سیکھنے کا ذوق ہو وہ بہارِشریعت پڑھیں،جنہیں واقعات اچھے لگتے ہوں،وہ اسلامی واقعات پڑھیں ،جو پڑھا
ہے اچھی طرح یادہوتو کسی کو سنا دیں ،پڑھتے ہوئے جو بات اہم لگے اسےلکھ لیں اوراسے
پڑھتے رہیں ۔
سوال: ایک عورت کو حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت سے کیا کیا باتیں سیکھنے کو ملتی ہیں؟
جواب: سیدہ خاتونِ جنت،حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت سے سیکھنے کو کیا نہیں ملتا ،آپ کا
پردہ بے مثال تھا ، اسلامی بہنیں پردہ کریں ،آپ عبادت بہت زیادہ کرتی تھیں ،گھرکے سارے کام اپنے مبارک ہاتھوں سےکرتی تھیں
، آٹا پیس کرروٹی خود بناتیں ،گھرکا پانی مشک میں بھرکرلاتیں، اس کے ساتھ دن رات
عبادت کرتیں ،اسلامی بہنوں کے لیےاس میں درس ہے۔کرنا ہے تو موقعے ہزار،نہیں کرنا تو بہانے ہزار۔
سوال: اچھی عورت کوگھرمیں
کیسےرہنا چاہئے ؟
جواب: اسلامی بہن کے اخلاق اچھے ہوں گے،زبان محتاط
ہوگی تو گھرمیں راج کرے گی ،گھر کے افراد
اس سے محبت کریں گے ،بداخلاقی کرے گی تو میکےپہنچ جائے گی ،ساس اگرسخت سست کہہ دے
تو ماں کو یادکرے، اس نے بھی تو کبھی ایساکہہ دیا ہوگا ،اسی طرح شوہرکو بھی ساس کی
شکایات نہ کرے ،سسرال میں کوئی بات ہوجائے، سسرال اورشوہرکی کوئی
خامی ہوتو میکے بلکہ کسی کو بھی نہ بتائے
،شادی سے پہلے بھی اچھی اچھی نیتوں مثلاً
اللہ پاک کوراضی کرنے کے لیے اپنے گھر
والوں کی خوب خدمت کرے ،ماں کو کام نہ
کرنے دے بلکہ گھر کےسارے کام کرے ،اچھے اچھے
کھانے بناناسیکھے ،شادی کے بعدسسرال والوں کی خوب خدمت کرے ،اچھی نیت سےخدمت کی
جائے تو جنت ہے ۔
سوال: بچوں کو امی کے ہاتھ کا بنا ہواکھانامزیدارنہ لگے تو
وہ کیا کریں ؟
جواب: صبرکریں ، اپنی اپنی پسند ہے ،کھا نا مزیدارہومگراپنے
کو پسندنہ ہو تو وہ مزیدارنہیں لگے گا ،کھانے میں عیب نہیں نکالنا چاہئے ۔پسندہوتو
کھا لیں ورنہ ہاتھ روک لیں یہی سنت ہے ۔
دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام 6 اپریل 2022ء بروز
بدھ شعبہ فیضان آن لائن اکیڈمی کا بذریعہ انٹرنیٹ ماہانہ مدنی مشورہ ہوا جس میں شفٹ اور برانچ ناظمین کے اسلامی بھائیوں سمیت دیگر اہم
ذمہ داران نے شرکت کی۔
ڈویژن ذمہ دار مولانا نعیم عطاری مدنی نےذمہ دارن سے گفتگو کرتے ہوئے رمضانُ المبارک میں اعتکاف کےلئے اسلامی
بھائیوں کو تیار کر کے کراچی بھیجنے کے متعلق تربیت کی۔
اس کے علاوہ ڈویژن ذمہ دار نے رمضان عطیات کی کارکردگی کا
جائزہ لیا اور مزید عطیات جمع کرنے کے حوالے سے ذہن سازی کی۔(رپورٹ: محمد وقار یعقوب عطاری مدنی
برانچ ناظم فیضان آن لائن اکیڈمی بہاولپور برانچ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
رمضان
المبارک 1443ھ کے آمد ہوتے ہی دعوت اسلامی کے زیر اہتمام روزانہ بعد نماز عصر اور
بعد نماز تراویح مدنی مذاکرے کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں معتکفین اور دیگر
عاشقان رسول فیضان مدینہ کراچی میں جبکہ لاتعداد عاشقان رسول بذریعہ مدنی چینل
شرکت کررہے ہیں۔اسی سلسلے میں 3 اپریل 2022ء کو مدنی مذاکرے کا انعقاد کیا گیا جس
میں امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت
بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے نماز،
روزے کے ساتھ ساتھ دیگر شرعی مسائل کے حوالے سے شرکا کی رہنمائی فرمائی۔
بعد نماز عصر ہونے والے
مدنی مذاکرے کے مدنی پھول
سوال: عموماً مساجد میں افطارسے کچھ دیر قبل افطاری بھیجی جاتی ہے ،پہلے بتایا نہیں جاتا نیزافطاری میں
کیابھیجاجائے ؟
جواب :افطاری
بھیجنا کارِ ثواب ہے،اگراللہ پاک کی رضا کے لیےبھیجیں گے تو ثواب ملے گا۔ پہلے
بتادینا بہترہے اورافطاری میں کیا بھیجیں گے یہ بھی بتادیں تو اچھا ہے۔افطاری میں
وہ چیزیں بھیجیں جو انہیں پسندہوں
،نیزشرعی تقاضے پورے کرتےہوئے عرف وعادت کا بھی خیال رکھا جائے ۔
سوال: افطارپارٹی
میں کیا احتیاطیں کی جائیں ؟
جواب: افطارپارٹی
یا کوئی بھی تقریب ہو، جب نمازکی جماعت کا وقت ہوجائے تو میزبان اورمہمان دونوں جماعت سے نمازپڑھنے مسجدمیں جائیں ، بے
پردگی بھی نہ ہونے پائے ،یادرکھئے !پردہ فرض ہے ،بے پردگی کی کوئی راہ نہ نکالی
جائے ،عورتوں اورمردوں کے بیٹھنے کا جداجدااہتمام کریں ۔
سوال: حقیقی ہوشیارکون ہے ؟
جواب:حقیقی
ہوشیاروہ ہے جو اپنے ایمان کی حفاظت کرنے کی کوشش کرتا ہے ،جو سچوں اور صالحین کا دامن پکڑکررکھتاہے، ان شاء اللہ الکریم اس کا ایمان محفوظ رہے گا ،اس کے ساتھ
ساتھ اللہ پاک کی خفیہ تدبیرسے ڈرتے رہناچاہیئے ۔
بعد نماز تراویح ہونے والے مدنی مذاکرے کے مدنی پھول
سوال: کس نبی علیہ السلام نے سب سے پہلے کپڑے سلائی کیے ؟
جواب: حضرتِ سیّدنا اِدرِیس علیہِ
السَّلام نے ۔آپ کپڑا سینے کا کام کرتے تھےاورجو کماتےتھے
اس میں سے بقدرِ ضَرورت رکھ کر بقیہ راہ خدا میں صَدَقہ کردیتےتھے۔(الحث
علی التجارۃ والصناعۃ، ص113 )
سوال : کیاحدیث پاک میں کپڑے سینے کے کام کی کوئی تعریف بھی آئی ہے ؟
جواب: جی ہاں
،فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہُ علیہِ
واٰلہٖ وسلَّم: نیک مَردوں کا کام کپڑے سینا اور نیک عورَتوں کا کام
سُوت کاتنا (یعنی چرخے پر رُوئی سے دھاگا بنانا)ہے۔ (تاریخ ابن
عساکر،ج36ص199) سرکارِمدینہ صلَّی
اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم گھر کے کام کرلیا کرتے تھے اور ان میں سینے کا
کام زیادہ ہوتا۔(طبقات ابن سعد،ج1ص275)
سوال: جودرزی خیانت کرے تو اس کے لیے کیا وعید ہے ؟
جواب: فرمانِ مصطفےٰ صلَّی
اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم: ”اللہ پاک قیامت کے دن خیانت کرنے والے
درزی کو اس حال میں اٹھائے گا کہ اس پر وہ قمیص اور چادر ہوگی جس کے سینے میں
اُس نے خیانت کی ہوگی“۔ (فردوس الاخبار،ج5ص479، حدیث: 8820)
سوال: سیدوں کے خلاف بات کرنے والوں کے بارے میں آپ کیا
فرماتے ہیں؟
جواب: ہمیں نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت چاہئے، اس کےبغیرگزارانہیں، شفاعت بھی چاہئے
اور ان کی اولاد کے خلاف بات بھی کرتے ہیں؟ہونا تو یہ چاہئے کہ زبان کٹ جائے مگرسیدوں
کے خلاف کوئی بات زبان سے نہ نکلے۔
سوال: وراثت کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟
جواب:رقم جمع کرنے کامیرا ذاتی ذہن نہیں ہے ،میری بہن کی وراثت سے مجھے جو کچھ
ملا تھا وہ میں نے بانٹ دیا ہے ،میرامشورہ ہے کہ ہرایک وصیت کرے کہ میری
وراثت کا ایک تہائی(One Third)یعنی 33%فلاں دینی کام ،دعوت ِاسلامی کو پیش کر دیا جائے یا فلاں مدرسے میں خرچ کیا
جائے ۔یہ بھی مشورہ ہے کہ اپنی زندگی میں دارالافتاء اہلِ سنت سے شرعی رہنمائی لے
کر اپنے پاس جو ہے اسے اولادمیں تقسیم کردے ،یہ اولاد کے ساتھ بھلائی ہے کہ اس کے
مرنے کے بعد وہ آپس میں لڑائی جھگڑے سے بچ جائیں گے ۔
سوال: بچوں کو کون کون سے فائدہ مندکام کرنے
چاہئیں ؟
جواب: بچے اپنے ماں باپ کا
احترام کریں ،ان کےہاتھ پاؤں
چُومیں،والدین راضی ہوں گے تو دعائیں ملیں گی اورترقی حاصل ہوگی ،ماں باپ اوربڑے بہن بھائیوں کے سامنے آوازبلند نہ کریں
،چھوٹے بہن بھائیوں پر شفقت کریں ،جوسبق ملے اسے یاد کریں ۔
پچھلے دنوں پنجاب پاکستان کے علاقے سبزہ زار
لاہور میں دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام سیکھنے سکھانے کا
حلقہ لگایا گیا جس میں کافی عاشقانِ رسول کی شرکت رہی۔
دورانِ حلقہ مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی
یعفور رضا عطاری نے سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئے شرکا کونیکی کی دعوت پیش کی اور انہیں دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے
وابستہ رہتے ہوئے 12 دینی کاموں میں شمولیت اختیار کرنے کا ذہن دیا جس پر انہوں نے
اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔(رپورٹ:غلام یاسین عطاری
دفتر ذمہ دار، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
جاگووالا تحصیل پتوکی میں دعوتِ اسلامی کے زیرِ
اہتمام نمازِ جنازہ کورس کا انعقاد
5 اپریل 2022ء بروز منگل جاگووالا تحصیل پتوکی
میں دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام نمازِ جنازہ کورس منعقد ہوا جس میں مقامی اسلامی
بھائیوں سمیت کسان حضرات نے شرکت کی۔
دورانِ کورس ڈسٹرکٹ قصور ذمہ دار شعبہ کفن دفن
محمد دانش تفسیر عطاری نے نمازِ جنازہ کا عملی طریقہ بتاتے ہوئے اس کے چند ضروری
مسائل سکھائے۔
اس کے علاوہ ذمہ دار نے وہاں موجود کسانوں کو
اپنی فصل کا عشر دعوتِ اسلامی کو دینےکا ذہن دیا جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں
کیں۔(رپورٹ: شعبہ کفن دفن ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
شعبہ اصلاحِ اعمال دعوتِ اسلامی کے تحت 5 اپریل
2022ء بروز منگل پاکستان کے شہر لیہ میں سیکھنے سکھانے کا حلقہ لگایا گیا جس میں
ایک ماہ کا اعتکاف کرنے والے عاشقانِ رسول نے شرکت کی۔
اس حلقے میں ڈویژن ڈی جی خان ذمہ دار شعبہ اصلاح اعمال غلام عباس عطاری نے ’’تلاوتِ قراٰن‘‘ کے موضوع پر سنتوں
بھرا بیان کیا اور وہاں موجود عاشقانِ رسول کو امیرِ اہلِ سنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی جانب سے عطا کردہ 72 نیک اعمال پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنے کا
ذہن دیا جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔بعدازاں اجتماعی طور نیک اعمال کا
جائزہ بھی کیا گیا۔(رپورٹ:شعبہ اصلاحِ اعمال،
کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
سنتِ رسول ﷺکے فروغ کی عظیم تحریک دعوتِ اسلامی سے وابستہ ہر عاشقِ رسول کے سینے میں
اعمالِ صالحہ کو بجالانے کی جستجو دعوت
اسلامی کے سنتوں بھرے ماحول کافیض ہے اور اس فیض کی دھوم ہمیں ہر
طرف سے سنائی دیتی رہتی ہے۔
کرم بالائے کرم اس ماحول کی پاکیزگی نے مسلمانوں کے دل میں نیکی کی رغبت ایسی پیدا کی کہ ہر عاشقِ
رسول اپنی نیکیوں اور اعمال کا محاسبہ کرنے لگ گیا، گناہوں کی آلودگیوں سے چھٹکارا پانے کے لئے اعمال کا محاسبہ کرنے لگ گیا، فکر آخرت کا ایسا ذہن بنا کہ دل ہر دم خوف الٰہی سے تھرتھرانے لگ گیا، آنکھیں نم ہونے لگ گئیں، ہر روز رب کے حضور پیشی کے خوف سے اعمال کی جانچ پڑتال
شروع ہوگئی کہ مبادا کوئی گناہ کی تاریکی نیکی کے اجالے پر غالب نا آجائے۔
یوں اس
ماحول نے لوگوں کو ایسا ذہن دیا کہ ہر وابستگانِ دعوت اسلامی اپنے اعمال کا روزانہ، ہفتہ وار ا ور مہینے بھر کے اعمال کا
جائز لینا شروع ہوگیا جس کو محاسبۂ نفس
سے جانا جاتا ہے اسی طرح دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول میں جسے نیک اعمال کا رسالہ Fill کرنا کہا جاتا ہے نیز اس رسالے کو ہر اسلامی بھائی مہینے کی ابتداء میں ذ مہ داران کے پاس جمع کروادیا جاتاہے۔
جب سے موبائل ٹیکنالوجی نے لوگوں کی توجہ حاصل کی ہے تب سے ہر کوئی موبائل کے استعمال کا اتنا عادی ہوگیا ہےکہ اب ہر ضرورت کی تکمیل موبائل کے ذریعے کی جانے لگی ہے اور اسی بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظردعوت اسلامی کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ نے عاشقان رسول کی آسانی کے لئے نیک اعمال موبائل ایپلی کیشن
متعارف کروائی ہے۔
آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کی شبانہ روز کاوشوں سے لاکھوں عاشقانِ رسول مختلف Mobile Applications کے ذریعے علم ِدین حاصل کررہے ہیں، دنیا بھر میں آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کی پیش کردہ Applications اہلِ ایمان کے عقائد ونظریات کے تحفظ اور
عبادات و معاملات کی ادائیگی میں بہت کار آمد ثابت ہورہی ہیں۔
یقینًا یہ سب امیر ِاہلِ سنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کا فیضان ہے کہ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ دن بدن ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔نیک اعمال موبائل ایپلی
کیشن کی ایک مثال آپ کے سامنے ہے جو انسان کی زندگی کو سنوارنے اور نکھارنے والی تنظیمی Applicationہے
لیکن آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ نے عاشقان رسول کے لئے نیک اعمال کے کارڈ کو ڈیجیٹلائز کر کے مدنی انعامات (نیک اعمال) کی کارکردگی جمع کروانے، کارکردگی کےاثرات دیکھنے، روزانہ، ہفتہ وار اور ماہانہ کارکردگی کا تجزیہ لینے کے لئے آسانیاں مہیا کردی۔
نیک اعمال موبائل Applicationکی
خصوصیات کو ایک دور دراز علاقے میں
رہنے والے عاشقِ رسول کی نظر سے دیکھیں تو یہ Applicationعاملِ نیک اعمال کے لئے بہت زیادہ کارآمد ثابت ہوتی ہے جیساکہ
اس نیک اعمال Applicationکے
ذریعے کارکردگی جمع کروانے اور کارکردگی کی رپورٹ دیکھنے کے لئے بنفس نفیس کسی ذمہ دار کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ آپ کے ہاتھ میں موجود اس موبائل Application میں
آپ خود ہر چیز کو ملاحظہ کرسکیں گے۔
روزانہ، ہفتہ وار، ماہ وار اور سالانہ کئے جانے والے نیک اعمال کی خود احتسابی کے لئے یہ ایپلی کیشن آ پ کی
معاون ثابت ہوگی نیز ا ب اس Applicationکے ذریعے موجودہ ماہ کی کارکردگی کا گزشتہ ماہ کی کارکردگی سے موازنہ کرنا مشکل نہ رہا۔
دنیا بھر میں کسی بھی کام کو متعارف کروانے
کے لئے سب سے بڑی ضرورت زبان کی ہوتی ہے جس کے ذریعے دوسروں تک اپنی بات پہنچائی جاتی
ہے۔اس Applicationمیں مقامی زبان کے علاوہ 8 بین الاقوامی زبانیں بھی شامل کی گئیں ہیں۔
نیک اعمال کرنے اور دوسروں کو نیک اعمال کی ترغیب دینےکے لئے اس Applicationکو آپ خود بھی ڈاؤن لوڈ کیجئے اور راہ ِتقوی پر چلئے۔(منجانب آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ دعوتِ اسلامی)
اقوام عالَم کو درسِ صفائی:
سولہویں صدی عیسوی تک یورپ کے
باشندے صفائی ستھرائی اور طہارت وپاکیزگی
سے ناواقف تھے ۔گندگی سے گھن کھانا تو دور کی بات ہے وہ تو جس مکان میں سوتے تھے
اسی میں اپنے پالتوجانور باندھتے تھےاور گھر کے باہر کھلی گلیوں میں قضائے حاجت
کرتے تھے ۔روشنی کا انتظام نہ ہونے کے باعث اگر کوئی اندھیرا چھاجانے کے بعد گھر
سے باہر نکلتا تونجاست سے آلودہ ہوکر واپس آتا۔ مکان اورگلی کوچوں کی گندگی کے
ساتھ ساتھ ان کے جسم اورروح بھی پراگندہ تھے ۔نہ انہیں قضائے حاجت وجنابت کے بعد
استنجاوطہارت کا شعور تھا اور نہ ہی بلند پایہ اخلاق کی معرفت تھی ۔یہ تو اسلام
کانور تھا جس نے اہل یورپ کوروشنی دی،انہیں نفاست وپاکیزگی کا طریقہ اوررہن سہن کا
سلیقہ بتایا، انسانی فطرت کے تقاضوں سے آشنا کیا اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے روشناس کروایا۔اس کی وجہ علامہ عبدالرسول ارشد(گولڈ میڈلسٹ)کی زبانی
ملاحظہ کیجئے :جب مسلمانوں کے شہر اپنی صفائی اور خوبصورتی کی وجہ سے دل ونگاہ کو
اپنی طرف کھینچ رہے تھے ،اس وقت یورپ کے شہروں میں گندگی،غلاظت اور تاریکی کے سوا
کچھ نہ تھا۔۔اور۔۔یہ انسانی فطرت ہے کہ اندھیروں میں بھٹکنے والا انسان اس طرف
دوڑتا ہے جہاں اسے روشنی کی کرن نظر آتی ہے۔اہل یورپ نے بھی یہی کچھ کیا۔جب انہیں
اپنے ہاں ہر طرف تاریک اور ظلمت نظر آئی تو انہوں نے علم، تہذیب،اخلاق اور خوش
حالی کا درس لینے کے لئے مسلمانوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔
طہارتِ امت کافریضہ:
دین مبین نے نہ صرف اہل یورپ کو
روشنی سے نوازابلکہ اپنے آفاقی پیغام اور فطرت سے کامل ہم آہنگی کی بدولت دنیا
کی تمام ہی اقوام کونور بانٹا ہے۔اس مضمون میں ہم اسلام کے صرف اس پہلو پر گفتگو
کریں گے کہ توحیدورسالت کی دعوت کے ساتھ ساتھ اسلام نے انسان کو نفاست وپاکیزگی کا
تصور دیا اور اس پر کاربند رہنے کی تلقین کی ہے اور حضور خاتم الانبیاء صلی اللہ
علیہ وسلم کی بعثت کے
عظیم مقصد میں یہ بھی شامل تھا کہ امت کو نجاست وگندی سے پاک فرمائیں۔حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ
السلام نے تعمیرکعبہ کے بعد جو دعا
فرمائی اس میں یہ بھی تھا : اے ہمارے رب ! ان میں ایسا رسول بھیج جو انہیں خوب
ستھرا فرمادے۔(پ۱،البقرۃ:۱۲۹) مفسرقرآن
ابوالحسن علاء الدین علی بن محمد المعروف امام خازن رحمۃ اللہ علیہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یعنی ایسا رسول جو
انہیں شرک، بت پرستی، ہرقسم کی نجاست وگندگی،گھٹیاحرکتوں اور کوتاہیوں سے پاک
کردے۔ (تفسیرخازن،ج۱،ص۹۲)پھر یہ کہ اسلام دین فطرت ہے اور
صفائی ستھرائی اور طہارت وپاکیزگی فطرت کا تقاضا ہے۔حضورنبی طاہر ومطہر صلی اللہ
علیہ وسلم کا ارشاد
گرامی ہے: الفطرۃ خمس الختان والاستحداد وقص الشارب وتقلیم الأظفار ونتف
الآباط یعنی پانچ چیزیں فطرت سے ہیں:(۱) ختنہ کرنا (۲)موئے زیر ناف صاف
کرنا(۳) مونچھیں پست کرنا (۴) ناخن تراشنا (۵) اور بغل کے بال اکھیڑنا۔(صحیح بخاری،ج۴، ص۷۵، الحدیث:۵۸۹۱)
مسلمان کا اسلامی نشان:
صفائی ستھرائی کی اہمیت وافادیت کو اُجاگر کرتے ہوئے شیخ الحدیث حضرت
علامہ عبدالمصطفی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:صفائی ستھرائی کی مبارک عادت بھی مردوں اور عورتوں کے
لیے نہایت ہی بہترین خصلت ہے جو انسانیت کے سر کا ایک بہت ہی قیمتی تاج ہے۔ امیری
ہو یا فقیری ہر حال میں صفائی و ستھرائی انسان کے وقار و شرف کا آئینہ دار اور
محبوبِ پروردگار ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کا یہ اسلامی نشان ہے کہ وہ اپنے بدن، اپنے
مکان و سامان، اپنے دروازے اور صحن وغیرہ ہر ہر چیز کی پاکی اور صفائی ستھرائی کا
ہر وقت دھیان رکھے۔ گندگی اور پھوہڑ پن انسان کی عزت و عظمت کے بدترین دشمن ہیں اس
لیے ہر مردو عورت کو ہمیشہ صفائی ستھرائی کی عادت ڈالنی چاہیے۔ صفائی ستھرائی سے
صحت و تندرستی بڑھتی رہتی ہے اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں بیماریاں دور ہو جاتی ہیں۔
حدیث شریف میں ہے کہ ’’اﷲتعالیٰ پاک ہے اور
پاکیزگی کو پسند فرماتا ہے‘‘۔(مشکوٰۃ
المصابیح ،ج۲،ص۴۹۷، الحدیث
: ۴۴۸۷) رسول
اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کو
پھوہڑ اور میلے کچیلے رہنے والے لوگوں سے بے حد نفرت تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام علیہم
الرضوان کو ہمیشہ صفائی ستھرائی
کاحکم دیتے رہتے اور اس کی تاکید فرماتے رہتے تھے۔پھوہڑ عورتیں جو صفائی ستھرائی
کا خیال نہیں رکھتی ہیں وہ ہمیشہ شوہر کی نظروں میں ذلیل وخوار رہتی ہیں بلکہ بہت
سی عورتوں کو ان کے پھوہڑ پن کی وجہ سے طلاق مل جاتی ہے اس لئے عورتوں کو صفائی
ستھرائی کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے۔(جنتی زیور،ص۱۳۹)
پاکیزگی آدھا ایمان:
یہ بھی ضروری
ہے کہ بندہ ہر وقت بننے سنورنے ہی میں نہ لگا رہے کہ اس کی بھی ممانعت ہے بلکہ شرع
میں جتنی صفائی مطلوب ہے وہ حسب قدرت وطاقت بجالائے ۔ ارشادِ رسول صلی اللہ
علیہ وسلم ہے : تنظفوا بکل ما استطعتم فان اللّٰہ بنی الاسلام
علی النظافۃ ولن یدخل الجنۃ الا کل نظیف ترجمہ:تم سے جتنا ممکن ہو صفائی رکھو
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بنیاد
صفائی پر رکھی ہے اور جنت میں وہی داخل ہوگا جو صاف ستھر اہوگا۔(جمع
الجوامع،ج4،ص: 115) اسلام نے اپنے ماننے
والوں کو ہر طرح کی صفائی کا حکم دیا ہے خواہ جسمانی ہو یا روحانی ،فرد کی ہو یا
معاشرے کی ، گھر کی ہو یا مسجد کی یا پھر محلے کی ہو، الغرض اسلام جسم وروح ،دل
ودماغ ،قرب وجواراورتہذیب وتمدن کو ستھرا رکھنے کا درس دیتا ہے ۔ اسے ہر جگہ ترتیب
وسلیقہ اور نفاست وعمدہ مطلوب ومحبوب ہے اور گندگی وناپاکی اور غلاظت ونجاست ناپسند ہے۔ صفائی کی اہمیت بتاتے ہوئے حضورنبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:’’الطھورنصف الایمان یعنی پاکیزگی آدھا ایمان ہے۔‘‘ (سنن الترمذی ،ج ۵،ص۳۰۸،الحدیث: ۳۵۳۰)
جسمانی صفائی کتنے دن بعد ؟
جسم کی صفائی کے متعلق اول الذکر حدیث فطرت میں پانچ طرح کی
صفائی کو بیان کیا گیا ہے،اول ختنہ کہ سنت ہے اور یہ شعار اسلام میں ہے کہ مسلم وغیرمسلم میں اس سے امتیاز ہوتا ہے
اسی لیے عرف عام میں اس کو مسلمانی بھی کہتے ہیں۔ختنہ کی مدت سات سال سے بارہ سال
کی عمرتک ہے اور بعض علما نے یہ فرمایا کہ ولادت سے ساتویں دن کے بعد ختنہ کرنا
جائز ہے۔(بہارشریعت،ج۳،ص۵۸۹)باقی
چارچیزوں کے متعلق صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی حنفی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: ہرجمعہ کو اگر
ناخن نہ ترشوائے تو پندرھویں دن ترشوائے اور اس کی انتہائی مدت چالیس ۴۰ دن ہے اس کے بعد نہ ترشوانا ممنوع ہے۔ یہی حکم مونچھیں
ترشوانے اور موئے زیر ِ ناف دور کرنے اور بغل کے بال صاف کرنے کا ہے کہ چالیس دن
سے زیادہ ہونا منع ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے، کہتے ہیں کہ’’ناخن ترشوانے اور مونچھیں
کاٹنے اور بغل کے بال صاف کرنے میں ہمارے لیے یہ میعاد مقرر کی گئی تھی کہ چالیس
دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔‘‘(صحیح
مسلم ، ص۱۵۳،الحدیث:۲۵۸)مزید فرماتے ہیں : موئے زیر ناف دور کرنا سنت ہے۔ ہر ہفتہ میں
نہانا، بدن کو صاف ستھرا رکھنا اور موئے زیر ناف دور کرنا مستحب ہے اور بہتر جمعہ
کا دن ہے اور پندرھویں روز کرنا بھی جائز ہے اور چالیس روز سے زائد گزار دینا
مکروہ و ممنوع۔ موئے زیر ناف استرے سے مونڈنا چاہیے اور اس کو ناف کے نیچے سے شروع
کرنا چاہیے اور اگر مونڈنے کی جگہ ہرتال چونا یا اس زمانہ میں بال اڑانے کا صابون
چلا ہے، اس سے دور کرے یہ بھی جائز ہے(بال
صفاپاؤڈراور کریم وغیرہ بھی اسی حکم میں داخل ہیں)، عورت کو یہ بال اکھیڑ ڈالنا سنت ہے۔(بہارشریعت،ج۳،ص۵۸۴)ممکن
ہوتو ہر جمعہ کو یہ کام کر لینے چاہیں کیونکہ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضور نبی کریم
صلی
اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نماز
کوجانے سے پہلے مونچھیں کترواتے اور ناخن ترشواتے۔ (شعب الایمان،ج۳،ص۲۴ ،الحدیث:۲۷۶۳)
دس چیزوں کی صفائی:
حجۃ الاسلام امام محمدبن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :طہارت حاصل کرنے والے کو چاہیے کہ
پاکیزگی حاصل کرے، مونچھوں کو پست کرے، بغلوں کے بال اکھیڑے، موئے زیرِناف مونڈے،
ناخن کاٹے، ختنہ کرے،وضو میں ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کے جوڑاچھی طرح دھوئے، ناک کی
صفائی کاخاص خیال رکھےاور کپڑوں اوربدن کی پاکیزگی کا خوب اہتمام کرے۔(رسائل امام غزالی ،ص۴۰۷) ۔۔صفائی اور پاکیزگی سے متعلق یہ وہ چیزیں ہیں جو حضرت
ابراہیم علیہ السلام پر بھی
لازم تھیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ
عنہما فرماتے ہیں: وہ
دس چیزیں جوحضرت ابراہیم علیہ السلام پرواجب تھیں وہ یہ ہیں:(۱) مونچھیں
کتروانا(۲) کلی کرنا (۳) ناک میں صفائی کے لئے پانی استعمال کرنا (۴)مسواک کرنا (۵)
سر میں مانگ نکالنا (۶) ناخن ترشوانا (۷) بغل کے بال دور کرنا (۸) موئے زیر ناف کی صفائی(۹) ختنہ (۱۰) پانی سے
استنجا کرنا۔صدرالافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ یہ قول نقل کرنے کے بعدفرماتے ہیں: یہ سب چیزیں
حضرت ابراہیم علیہ السلام پر واجب
تھیں اور ہم پر ان میں سے بعض واجب ہیں بعض سنت۔ (خزائن العرفان،سورۃ البقرۃ، تحت الایۃ:۱۲۴)
خِلال بھی صفائی ہے:
ظاہری جسم کی صفائی میں اس قدر مبالغہ اور باریک بینی دین اسلام کا خاصہ
اور طرۂ امتیاز ہے۔یہاں تک آیا ہے کہ کھانے کے بعدلکڑی وغیرہ سے دانتوں کا خلال
کیا جائے اوردوران وضو اپنے ہاتھ پاؤں کی انگلیوں اور داڑھی کے بالوں کا خلال
کیاجائے اور یہ مستحب ہے ۔سراپا پاکیزہ
ونفیس حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: تخللوا فإنہ نظافۃ والنظافۃ تدعو إلی
الإیمان والإیمان مع صاحبہ فی الجنۃ ترجمہ :خلال کیا کرو کیونکہ یہ صفائی ہے اور صفائی
ایمان کی طرف بلاتی ہے اور ایمان مومن کے ساتھ جنت میں ہوگا۔(المعجم الاوسط،ج۷،ص:۲۱۵)دانتوں کی
صفائی کے لئے خِلال نیم کی لکڑی کا
ہوکہ اس کی تلخی سے منہ کی صفائی ہوتی ہے اور یہ مسوڑھوں کیلئے مفید ہوتی ہے۔
بازاریTOOTH PICKS عموماً موٹی اور کمزور ہوتی ہیں۔ ناریل کی
تیلیوں کی غیرمستعمل جھاڑو کی ایک تیلی یا کھجور کی چٹائی کی ایک پٹی سے بلیڈ
کے ذریعے کئی مضبوط خِلا ل تیار ہو سکتے
ہیں۔بعض اوقات منہ کے کونے کے دانتوں میں خلا ہوتا ہے اوراس میں بوٹی وغیرہ کاریشہ
پھنس جاتا ہے جوکہ تنکے وغیرہ سے نہیں نکل پاتا۔ اس طرح کے ریشے نکالنے کیلئے
میڈیکل اسٹور پر مخصوص طرح کے دھاگے (flosses) ملتے ہیں نیز
آپریشن کے آلات کی دکان پر دانتوں کی اسٹیل کی کریدنی (curved
sickle scale) بھی ملتی ہے مگر ان چیزوں کے استعِمال کا طریقہ
سیکھنا بہت ضروری ہے ورنہ مسوڑھے زخمی ہو سکتے ہیں۔(فیضان سنت،ج۱،ص۲۸۹)
صفائی کی اہمیت پراحادیث مبارکہ:
دین اسلام میں ظاہری بدن کے ساتھ لباس ،بالوں اور استعمال کی دیگر چیزوں کی صفائی پر بھی بہت زور دیا گیا
ہے۔ ان چیزوں کی صفائی ستھرائی کے بارے میں بھی
کثیراحادیث وآثار وارد ہیں۔چند روایات ملاحظہ کیجئے :
{1}حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنے کپڑے دھوؤ،بالوں
کو سنوارو،مسواک کرو،زینت اپناؤاور صفائی ستھرائی رکھو کیونکہ بنی اسرائیل ایسا
نہیں کرتے تھے تو ان کی عورتیں بدکاری میں مبتلا ہوگئیں۔ (کنزالعمال،ج۳،جزء۶،ص۲۷۳، الحدیث: ۱۷۱۷۱) {2} حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من کرامۃ المؤمن علی
اللہ نقاء ثوبہ ورضاہ بالیسیر ترجمہ: بندہ مومن کی بارگاہِ الہٰی
میں عزت وکرامت سے یہ بھی ہے کہ اس کے کپڑے صاف ہوں اور وہ تھوڑے پر راضی رہے۔(المرجع السابق ،الحدیث:۱۷۱۸۲)علامہ عبدالروف مناوی رحمۃاللہ
علیہ فرماتے ہیں
:تھوڑے پر راضی رہنے سے مراد لباس،کھانے ،پانی اور مال ودولت میں کمی پر راضی رہنا
ہے اور لباس میں یہ بات پسندیدہ ہے کہ وہ صاف ستھرا ہو اور
متوسط درجے کا ہو۔ (التیسیرشرح
الجامع الصغیر،ج۲،ص۷۴۱) {3} حضرت عطاء بن یساررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے ۔ اتنے میں ایک شخص آیا جس کے سر اور داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کیا گویا
اسے اپنے بال اور ڈاڑھی کی درستی کا حکم دے رہے ہیں ۔وہ درست کرکے حاضر ہوا تو آپ
صلی
اللہ علیہ وسلم نے
ارشادفرمایا: ألیس ہذا خیرا من أن یأتی أحدکم وہو ثائر الرأس کأنہ شیطان یعنی کیا یہ اس سے بہتر نہیں کہ تم
میں سے کوئی شیطان کی طرح سر بکھیرے ہوئے آئے۔(مشکوۃ المصابیح ،ج۱،ص۱۳۷،الحدیث:۴۴۸۶) {4} حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی ایک روایت ہے ۔آپ
فرماتے ہیں کہ ایک بار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر ملاقات کے لئے تشریف لائے تو ایک
بکھرے بالوں والے کو دیکھا تو فرمایا:کیا اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس سے اپنے
بالوں کو سنوارے اور ایک میلے کپڑوں والے
شخص کو دیکھ کر فرمایا:کیا اس کے پاس کوئی ایسی شے نہیں جس سے اپنے کپڑے دھو لے۔ (مسند ابی یعلی ،ج۲،ص ۲۷۷،الحدیث:۲۰۲۲) {5}حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری خوبصورت گھنی زلفیں تھیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:’’ان کا اچھی طرح خیال
رکھنا۔‘‘تومیں دن میں ان کو دومرتبہ تیل لگاتا تھا۔(حلیۃ الاولیا،ج۳،ص۱۸۴،الحدیث:۳۶۳۸)
مسواک کی ضرورت واہمیت:
منہ کی صفائی وپاکیزگی بھی ظاہری جسم کی صفائی میں داخل ہے اور اس صفائی
کے لئے مسواک سے بڑھ کر کوئی شے نہیں اور اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:حضرت جبرائیل علیہ السلام جب بھی میرے پاس آئے انہوں
نے مجھے مسواک کرنے کی وصیت کی حتی کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ مجھ پر اور میری
امت پر فرض نہ ہوجائے اور اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں پڑنے کاخوف نہ ہوتاتومیں
ان پر مسواک کرنا فرض کردیتااور میں اس قدر مسواک کرتا ہوں کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں
اپنے اگلے دانت زائل نہ کرلوں۔(سنن ابن ماجہ ، ج ۱، ص۱۸۶،
الحدیث: ۲۸۹)اورایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمکا معمول تھا کہ جب گھر میں داخل
ہوتے تو سب سے پہلے مسواک کیا کرتے ۔(صحیح
مسلم،ص۱۵۲،الحدیث:۲۵۳)
اگر چہ منجن ، ٹوٹھ پیسٹ اور ماؤتھ واش سے بھی منہ کی صفائی ہوجاتی ہے
مگران سے مسواک والا ثواب حاصل نہ ہوگا جبکہ مسواک عبادت کی نیت سے ہو ۔کیونکہ
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:
مسواک کولازم کرلو کہ یہ منہ کی صفائی اور رب تعالیٰ کی رضا کاسبب ہے۔(مسنداحمد ،ج۲،ص۴۳۸،الحدیث:۵۸۶۹)اس حدیث شریف کی شرح کرتے ہوئے حکیم الامت مفتی
احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس میں دین و دنیا کی بھلائی ہے۔خیال
رہے کہ مسواک سے مسلمان کا مسواک کرنابنیت عبادت مراد ہے،کفار کی مسواک
اورمسلمانوں کی عادتًا مسواک اگرچہ منہ تو صاف کردے گی مگر رضائے الٰہی کا ذریعہ
نہ بنے گی نیز اگرچہ مسواک میں دنیوی اور دینی بہت فوائد ہیں،مگر یہاں صرف دو
فائدے بیان ہوئے،یا اس لئے کہ یہ بہت اہم ہیں یا کیونکہ باقی فوائد بھی ان دو میں
داخل ہیں۔منہ کی صفائی سے معدے کی قوت اور بے شمار بیماریوں سے نجات ہے اور جب رب
راضی ہوگیا پھر کیا کمی رہ گئی۔(مراٰۃ المناجیح ،ج۱،ص۳۶۳)
عبادات اور مسواک:
خاص طور پر نماز سے قبل مسواک ضرورکی جائے کہ اس سے منہ کی صفائی کے ساتھ
ساتھ نماز کا ثواب بڑھ جاتا ہے نیزاس میں فرشتوں کی راحت کا سامان بھی ہے۔ارشادنبوی صلی
اللہ علیہ وسلمہے:مسواک کے ساتھ دو رکعت پڑھنا بغیر مسواک کے ستر رکعتیں
پڑھنے سے افضل ہے ۔ (الترغیب والترہیب، ج ۱، ص
۱۰۲،الحدیث:۱۸)اور ایک موقع پر ارشادفرمایا: جب تم میں سے
کوئی رات کو نمازکے لئے کھڑا ہو تواسے مسواک کرلینی چاہئے کیونکہ جب وہ نماز میں
قرا ء ت کرتا ہے توفرشتہ اپنا منہ اس کے منہ پر رکھ لیتا ہے اور جو چیز اس کے منہ
سے نکلتی ہے وہ فرشتے کے منہ میں داخِل ہوجاتی ہے۔(شعب الایمان،ج۲،ص۳۸۱،
الحدیث:۲۱۱۷)اور اگر کوئی نمازی مسواک وغیرہ سے دانتوں میں پھنسے ریزے وریشے
وغیرہ نہیں نکالتا تو اس سے فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے۔مروی ہے کہ دونوں فرشتوں کے لئے اس سے زیادہ کوئی چیزتکلیف دہ
نہیں کہ وہ اپنے ساتھی کونماز پڑھتا دیکھیں اور اس کے دانتوں میں کھانے کے رَیزے
پھنسے ہوں۔(المعجم الکبیر،ج۴،ص۱۷۷، الحدیث:۴۰۶۱)
نماز کی طرح تلاوت اورذکرودعا کے لئے بھی مسواک کی رعایت رکھنا چاہیے
۔حدیث شریف میں ہے : طیبوا افواھکم فانہا طرق القراٰن یعنی اپنے منہ صاف رکھو کیونکہ یہ قرآن کا راستہ ہیں۔(
کنز العمال،ج۱،ص۶۰۳،الحدیث: ۲۷۵۲) اوررئیس
المتکلمین مولانا نقی علی خان حنفی رحمۃ اللہ علیہ’’احسن الوعالآداب الدعا‘‘میں دعاکا ۵۳واں ادب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جب قصدِ دعا ہو پہلے مسواک کر لے کہ اب اپنے رب سے مناجات
کریگا، ایسی حالت میں رائحہ متغیرہ (یعنی منہ کی بدبو) سخت ناپسند ہے
خصوصاً حقّہ پینے والے، خصوصاً تمباکو کھانے والوں کو اس ادب کی رعایت ذکر ودعا
ونماز میں نہایت اہم ہے، کچا لہسن پیاز کھانے پر حکم ہوا کہ مسجد میں نہ آئے۔(صحیح
مسلم، ص۲۸۲، الحدیث: ۵۶۴)وہی حکم یہاں بھی ہوگا، مع ہذا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلمفرماتے ہیں:”مسواک رب کو راضی کرنے
والی ہے۔“(صحیح بخاری،ج۱،ص۶۳۷،الحدیث:۱۹۳۳) اور
ظاہر ہے کہ رضائے رب باعثِ حصولِ اَرب ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا مراد ملنے کا سبب ہے)۔(فضائل دعا،ص۱۰۸)
گھر اور محلے کی صفائی:
انسانی طبیعت اپنے قرب وجوار سے بہت جلد اثر
قبول کرتی ہے اور اچھے یا برے ماحول کے اثرات انسان پرضرور مرتب ہوتے ہیں خواہ
معاملہ معاشرتی برائیوں اوربدکرداریوں کا ہو یا کچرے ،غلاظت اور نجاست کے ڈھیروں
کا ہو لہٰذاانسان جس گھر ،محلے اور علاقے میں رہتا ہے اس کا صاف ستھرا ہونا بھی
انتہائی ضروری ہے ۔گھر اور علاقے کا صاف ستھرا ہونا افرادِ معاشرہ کی نفاست،اچھے مزاج،پروقارزندگی اور خوبصورت
سوچ کی عکاسی کرتا ہے ۔حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : إن اللہ طیب
یحب الطیب نظیف یحب النظافۃ کریم یحب الکرم جواد یحب الجود فنظفوا افنیتکم ولا
تشبہوا بالیہود ترجمہ: اللہ تعالیٰ پاک ہے پاکی کو پسند فرماتا ہے
،ستھرا ہے ستھرے پن کو پسند کرتا ہے،کریم ہے کرم کو پسند کرتا ہے ،جواد ہے سخاوت
کو پسند فرماتا ہےتو تم اپنے صحنوں کوصاف ستھرا رکھو اوریہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ
کرو۔(سنن الترمذی،ج۴،ص۳۶۵،الحدیث:۶۸۰۸)
ایک
حدیث شریف میں یوں ہے : فنظِّفوا عَذِراتِكم
ولا تَشبَّهوا باليَهود تجمع الأكْباء في دْورها ترجمہ:تم اپنے صحنوں کو صاف رکھو اور یہود سے مشابہت نہ کرو کیونکہ ان کے
گھروں میں کچرے ڈھیر رہتے ہیں۔(غریب الحدیث لابن
قتیبۃ،ج۱،ص۲۹۷)اس حدیث پاک میں ہمیں یہ درس دیا گیا ہے کہ اپنے گھر صاف رکھو ۔لباس، بدن وغیرہ کی صفائی تو بہت ہی
ضروری ہے گھر بھی صاف رکھو وہاں کوڑا جالا وغیرہ جمع نہ ہونے دو اور اپنے صحن صاف رکھ کر یہود کی مخالفت کروکیونکہ یہود اپنے گھر کے
صحن صاف نہیں رکھتے نیز یہود بہت گندے، بہت بخیل، بڑے خسیس ،بڑے ذلیل ہیں عیسائی اگرچہ کافر ہیں مگر وہ
یہود کی طرح گندے نہیں ان میں کچھ صفائی ہے اگرچہ ان کے بھی دانت میلے منہ بدبو
دار اور ناخن لمبے ہوتے ہیں۔ ہر طرح کی صفائی تو اسلام نے ہی سکھائی ہے۔(ماخوذ
ازمراۃ المناجیح،ج۶،ص،ملخصاً) ۔
مسجد کی صفائی کا حکم:
ایک بندہ
ٔمومن کااپنے گھر کے علاوہ مسجد سے بھی گہرا تعلق ہوتا اور وہ بارباریا وقتا فوقتا
وہاں حاضری کی سعادت پاتا رہتا ہے اور اپنے خالق ومالک کے حکم کی بجاآوری میں
عبادت وریاضت سے مشرف ہوتا ہے۔لہٰذا اس کی صفائی وستھرائی بھی ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَعَہِدْنَاۤ اِلٰۤی
اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ اَنۡ طَہِّرَا بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ
وَالْعٰکِفِیۡنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوۡدِترجمہ :اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسمٰعیل کو
کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے
لئے۔ (پ۱،البقرۃ:۱۲۵)نیزصدرالافاضل مفتی نعیم
الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ سورۃ توبہ کی آیت ۱۸کے تحت رقم طراز ہیں:اس
آیت میں یہ بیان کیا گیا کہ مسجدوں کے آباد کرنے کے مستحق مؤمنین ہیں۔ مسجدوں کے
آباد کرنے میں یہ امور بھی داخل ہیں جھاڑو دینا ، صفائی کرنا ، روشنی کرنا اور
مسجدوں کو دنیا کی باتوں سے اور ایسی چیزوں سے محفوظ رکھنا جن کے لئے وہ نہیں
بنائی گئیں ۔ مسجدیں عبادت کرنے اور ذکر کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں اور علم کا درس
بھی ذکر میں داخل ہے۔(خزائن العرفان)
مسجد کی صفائی کرنا باعث اجروثواب ہے اور صفائی
کرنے والوں کا مرتبہ بڑا بلند ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک حبشی جوان مسجد کی صفائی
کیا کرتا تھا ۔ایک بار حضورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے موجودنہ پایا تو اس کے متعلق دریافت کیا
۔صحابہ کرام نے
عرض کی:وہ تو فوت ہوگیا ۔ارشادفرمایا:کیا تم مجھے اس کی خبر نہیں دے سکتے تھے؟بقول
راوی شاید لوگوں نے اس کے معاملے کو چھوٹا خیال کرکے خبر نہ دی ۔ پھرآپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مجھے
اس کی قبر پر لے چلو ۔قبر پر پہنچ کر آپ نے اس کی نماز جنازہ ادا کی اور
فرمایا:بے شک یہ قبریں اندھیرے سے بھری ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ میرے ان پرنماز پڑھنے کی برکت سے ان کو
روشن ومنورفرمادے گا۔‘‘(صحیح مسلم
، ج ۱ ،ص ۴۷۶ ، الحدیث:۹۵۶)اسی طرح
مسجد کی صفائی کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا:مسجد کی صفائی
کرنا بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں کا حق مہر ہے۔(المعجم الکبیر، الحدیث۲۵۲۱، ج۳، ص۱۹)
ظاہر کے ساتھ باطن کی صفائی:
ظاہرکی صفائی کے مقابلے میں باطن کی صفائی زیادہ اہم ہے۔انسان اگر صرف
اپنا ظاہر صاف ستھرا رکھے مگر باطن طرح طرح کی نجاستوں سے آلودہ ہو تو یہ ایک تشویش ناک امر ہے، کیونکہ باطن یعنی دل کی صفائی پورے
جسم کو فیض یاب کرتی ہے اور اس کی درستی کی ضمانت ہے۔حضورنبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إن في الجسد
مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله وإذا فسدت فسد
الجسد كله ألا وهي القلب ترجمہ:بے شک جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر یہ
درست ہوجائے تو پوراجسم درست ہوجائے اور اگر یہ خراب ہوجائے تو پوراجسم خراب
ہوجائے ۔سُن لو وہ دِل ہے۔(صحیح بخاری،ج۱، ص۳۳، الحدیث:۵۲) اوردل کادرست اورسلامتی
والا ہونا یہ ہے کہ وہ کفر، گناہوں کے اِرتکاب اور
تمام قباحتوں(یعنی
برائیوں اور خرابیوں) سے پاک ہو۔(تفسیر
بیضاوی،ج۴،ص۲۴۴)حضورنبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :’’بُنِیَ الدِّیْنُ عَلَی النَّظَافَۃِ ترجمہ:دین کی بنیاد طہارت پر ہے۔‘‘(المجروحین لابی حاتم ،ج۲،ص۴۰۱، الحدیث
:۱۱۱۹)حضرت
امام غزالی رحمۃ
اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے
ہیں :’’یہاں طہارت سے مراد صرف کپڑوں کا صاف ہونا ہی نہیں بلکہ دل کی صفائی بھی
مراد ہے۔ اس پریہ فرمانِ الہٰی دلیل وحجت ہے:اِنَّمَا الْمُشْرِکُوۡنَ نَجَسٌ ترجمہ: مشرک نرے ناپاک ہیں۔(پ۱۰ ،التوبہ:۲۸) اس آیت مبارکہ سے ظاہر ہوا کہ نجاست صرف کپڑوں
کے ساتھ خاص نہیں کیونکہ جب تک باطن خبائث سے پاک نہ ہو اس وقت تک علمِ نافع حاصل
نہیں ہوتا اور نہ ہی علم کے نور سے انسان
روشنی پاسکتا ہے۔(لباب الاحیاء،ص۳۲)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:’’ہرچیز کے لئے کوئی نہ کوئی صفائی کرنے
والی شے ہوتی ہے اور دلوں کی صفائی خدا کے ذکر سے ہوتی ہے۔‘‘(الترغیب والترہیب، ج۲،ص۲۵۴، الحدیث:۱۰)
اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے:
باری تعالیٰ کوطہارت و صفائی اس قدر
محبوب ہےکہ اس نے صفائی اپنانے والے کو اپنا محبوب وپیارا قرار دیا ہے۔ارشادِ
الہٰی ہے:
وَاللہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیۡنَ ترجمہ : اور ستھرے اللہ کو پیارے ہیں۔(پ۱۰،التوبہ:۱۰۸)نیزاس کا اندازہ اُخروی
چیزوں میں پاکیزگی وطہارت اور عمدگی ونفاست کے اہتمام سے بھی لگایا جاسکتا ہے ۔اس
نے جنت بنائی تو انتہائی صاف ستھری ،وہاں بسنے والوں کو پسینہ نہیں آئے گا،ان کے
بدن میلے نہیں ہوں،بول وبراز کی اذیت سے محفوظ ہوں گے،جنتی حوروں کو انتہائی
پاکیزہ بنایا۔ارشادربانی ہے:کَاَنَّـہُنَّ الْیَاقُوۡتُ وَ
الْمَرْجَانُترجمہ:(صفائی وخوش رنگی میں )گویا وہ یاقوت اور مونگا ہیں۔(پ۲۷،الرحمن:۵۸) حدیث شریف میں ہے کہ
جنّتی حوروں کے صفائے ابدان کا یہ عالَم ہے کہ ان کی پنڈلی کا مغز اس طرح نظر آتا
ہے جس طرح آبگینہ کی صراحی میں شرابِ سرخ۔(خزائن العرفان)دوسرے مقام پرفرمایا:کَاَمْثٰلِ
اللُّؤْلُؤَ الْمَکْنُوۡنِترجمہ:جیسے چُھپے رکھے ہوئے موتی (پ۲۷،الواقعۃ:۲۳) یعنی جیسا موتی صدف میں چُھپا ہوتا
ہے کہ نہ تو اسے کسی کے ہاتھ نے چھوا ، نہ دھوپ اور ہوا لگی اس کی صفائی اپنی
نہایت پر ہے اس طرح حوریں اچھوتی ہوں گی ۔(خزائن العرفان)اور جنت کی شراب کے ستھرا ہونے کو یوں بیان فرماتا ہے:وَ سَقٰىہُمْ رَبُّہُمْ
شَرَابًا طَہُوۡرًا ترجمہ :اور
انہیں ان کے رب نے ستھری شراب پلائی۔(پ۲۹،الدھر:۲۱)جو نہایت پاک
صاف ، نہ اسے کسی کا ہاتھ لگا، نہ کسی نے چھوا ، نہ وہ پینے کے بعد شرابِ دنیا کی
طرح جسم کے اندر سڑ کر بول بنے ، بلکہ اس کی صفائی کا یہ عالَم ہے
کہ جسم کے اندر اتر کر پاکیزہ خوشبو بن کر جسم سے نکلتی ہے اہلِ جنّت کو کھانے کے
بعدشراب پیش کی جائے گی ، اس کو پینے سے ان کے پیٹ صاف ہوجائیں گے اور جو انہوں نے
کھایا ہے وہ پاکیزہ خوشبو بن کر ان کے جسموں سے نکلے گا اور ان کی خواہشیں اور رَغْبَتِیں
پھرتازہ ہوجائیں گی۔(خزائن العرفان)
موجودہ مسلمان اور صفائی کا
فقدان:
ہم نے مضمون کے شروع میں غیرمسلموں کی غیرفطری اور ناپسندیدہ روش کا تذکرہ
کیا کہ وہ نفاست وپاکیزگی سے دور تھے اور یہ اسلام کا احسان تھا کہ انہوں نے صفائی
ستھرائی کو کسی حد تک اختیار کیا مگر جب ہم آج کے دور میں خود اسلام کے پیروکاروں
کو دیکھتے ہیں تو ان میں بھی ہمیں ایک تعداد ایسی ملتی ہے جو طہارت وپاکیزگی اور
صفائی ستھرائی کے معاملے میں سست روی کا شکار ہے۔کسی مسلمان نے لمبی لمبی مونچھیں
رکھی ہوئی ہیں تو کسی کو اظفارطویلہ یعنی لمبے ناخنوں کا شوق ہے بالخصوص عورتوں
میں یہ مرض زیادہ ہے۔کوئی مسلمان میلے کچلے کپڑوں میں گھن محسوس نہیں کرتا
توکوئی اپنے پسینے اور منہ کی بدبو سے آس
پاس کا ماحول ’’مہکا ‘‘رہا ہوتا ہے ۔کوئی پان کھا کر دانتوں کی صفائی نہیں کرتا تو کسی نے سگریٹ پی پی کر سامنے کے
دانت پیلے کر رکھے ہوتے ہیں۔ کوئی گٹکا کھا کر فٹ پاتھ،دکان ومکان کی
دہلیز،دفاترومارکیٹس کے مخصوص کونے کھدرےرنگین کررہا ہوتا تو کوئی بس وغیرہ کی
کھڑکی سے پیچھے آنیوالے موٹر سائیکل سوار کو اپنے پان یا گٹکے کی پچکاری
سےصبروبرداشت کا’’درس‘‘ دے رہاہوتا ہے ۔کوئی اپنی بلڈنگ سے کچرے کا تھیلا باہر گلی
میں پھینک کر اپنی ’’شرافت ونفاست‘‘کا مظاہرہ کررہا ہوتا ہے تو کوئی اپنے گھرکا
کوڑاکرکٹ جمع کرکےکسی چوراہے یا گلی کے
نکڑ کی’’ زینت‘‘ بنا رہا ہوتاہے۔ کوئی غسل جنابت میں سستی کرکے اپنے گھر کو رحمت
کے فرشتوں کے لئے ”نوگوایریا“بنارہا ہے توکوئی ”اندرونی صفائی“سے غفلت برت کرفطرت سے ’’جنگ“ کررہا ہے ۔الغرض یہ سب ہمارے
گردوبیش میں رہنے والے افراد کر رہے ہیں ۔وہ اسلام جس نے غیروں کو صفائی ستھرائی
کا خوگر کیا آج اس کے بعض اپنوں میں طہارت وپاکیزگی مفقود ہے اور گندگی وناپاکی
ان کی سِرشت وپہچان بنی ہوئی ہے ۔بہر حال مسلمان کو اپنے ظاہر وباطن دونوں کی
صفائی کا خیال رکھنا چاہیے۔ ظاہر کو نجاست، غلاظت،گندگی اور میل کچیل وغیرہ سے اور باطن کو کینۂ مسلم
، غرو ر وتکبر اوربغض وحسد وغیرہ ر ذائل
سے پاک وصاف رکھے۔ باطن کی صفائی کے لئے اچھی صحبت بے حد مفید ہے۔ ظاہروباطن کو
صاف رکھنارب تعالیٰ کو محبوب،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند،صحت وتندرستی کی ضمانتاور فطرت کا تقاضاہے۔
محمد آصف اقبال عطاری مدنی
سینئر اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی(المدینۃ
العلمیہ)