کسی چیز کے بارے میں واقع کے خلاف خبر دینے کو جھوٹ کہتے ہیں۔ جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے کیونکہ انسان کوئی جرم جب ہی کرتا ہے کہ جب وہ جھوٹ بولنے پر آمادہ (تیار ) ہو جائے تاکہ پوچھ گچھ پر برجستہ جھوٹ بول کر اپنا بچاؤ کر سکے۔ سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام سے کہا:میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔ مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں: (جھوٹا)شخص ہر قسم کے گناہوں میں پھنس جاتا ہے اور قدرتی طور پر لوگوں کواس کا اِعْتِبَار نہیں رہتا، لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔(مرآۃ المناجیح ،6/453)احادیث مبارکہ میں بھی اس برائی یعنی جھوٹ کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ

(1) کوئی بھلائی نہیں:اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جھوٹ میں کوئی بھلائی نہیں۔(مؤطا امام مالک، ج2،ص467،حدیث: 1909)

(2) جھوٹ جہنم میں جانے کا باعث: فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :بے شک سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جَنَّت میں لے جاتی ہے اور جھوٹ بولناگناہ ہے اورگناہ دوزخ میں لے جاتا ہے۔ (مسلم،کتاب الادب،باب قبح الکذب،حدیث:6638،ص1077 ملتقطاً)

(3) ایک اور حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ بے شک جھوٹ گُناہ کی طرف لے جاتاہے اور گُناہ دوزخ کی طرف لے جاتا ہے اور بے شک بندہ جُھوٹ بولتا رہتا ہےیہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک بہت بڑا جُھوٹا ہو جاتاہے۔(بخاری،کتاب الادب،4/125،حدیث:6094 )

حکیم الاُمَّت حضرت مفتی احمد یارخان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:جھوٹا آدمی آگے چل کر پکا فاسِق و فاجِر(یعنی گناہ گار)بن جاتاہے،جھوٹ ہزارہا(یعنی ہزاروں)گناہوں تک پہنچا دیتا ہے۔ تجربہ بھی اسی پر شاہِد (یعنی گواہ)ہے۔(مرآۃ المناجیح ،6/453)

(4) اسی طرح بسا اوقات لوگوں کو ہنسانے کے لیے بھی جھوٹی باتوں کا سہارا لیا جاتاہے، یاد رکھیے کہ مذاق میں بھی جھوٹ جائز نہیں۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:ہلاکت ہے اس کے لیے جو بات کرتا ہے اور لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے ، اس کے لیے ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔ (ترمذی ،ج 4ص142 حدیث:2322)

(5) بری خیانت: کسی ایسے شخص کے سامنے جھوٹ بولنا جو ہم پر اعتماد کرتا ہے اس کو حدیث مبارکہ میں بری خیا نت فرمایا گیا (کیونکہ اس میں اس کو دھوکہ دینا بھی پایا جارہا ہے)۔ چنانچہ اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بری خیانت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کرے جس میں وہ تجھے سچا سمجھتا ہو اور تو اس میں جھوٹا ہو۔ (ابوداؤد ج 4 ص294 حدیث:4971)الامان والحفیظ

الله پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں فضول اور گناہوں بھری گفتگو اور بالخصوص جھوٹ جیسی بری آفت اور گناہ سے بچا کر زبان اس کے اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر سے تر رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یارب العالمین

میں جھوٹ نہ بُولوں کبھی گالی نہ نِکالوں

اللہ مَرض سے تُو گناہوں کے شِفا دے


حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہُ عنہ اپنے بھائی حضرت عثمان سے ملاقات کرنے لگے تو بہت خوش دکھائی دیئے اور کہنے لگے میں نے آج رات خواب میں سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا دیدار کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول عطا فرمایا تھا جس میں پانی تھامیں نے پیٹ بھر کر پیا جس کی ٹھنڈک ابھی تک محسوس کر رہا ہوں انہوں نے پوچھا آپ کو یہ مقام کیسے حاصل ہوا جواب دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود پاک پڑھنے کی برکت سے ۔

دیدار کی بھیک کب بٹے گی

منگتا ہے امید وار آقا

(1) فرمان مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ہے: خواب میں ایک شخص میرے پاس آیا اور بولا چلئے میں اس کے ساتھ چل دیا میں نے دو آدمی دیکھے ان میں ایک کھڑا اور دوسرا بیٹھا تھا کھڑے ہوئے شخص کے ہاتھ میں لوہے کا زنبور تھا جس سے وہ بیٹھے شخص کے ایک جبڑے میں ڈال کر اسے گدی تک چیر دیتا پھر زنبور نکال کر دوسرے جبڑے میں ڈال کر چیرتا اتنے میں پہلے والا جبڑا اپنی اصلی حالت پر لوٹ آتا (حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:) میں نے آنے والے شخص نے پوچھا یہ کیا ہے اس نے کہا یہ جھوٹا شخص ہے اسے قیامت تک قبر میں یہی عذاب دیا جائے گا۔ ( مساوی الاخلاق للخرائطی ،ص 76، حدیث: 131)

(2) حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنا فسق و فجور ہے اور فسق و فجور دوزخ میں لے جاتا ہے ۔(مسلم شریف)

(3) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: رسول علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو تو اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہٹ جاتا ہے۔ (ترمذی)

(4) حضرت صفوان بن سلیم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا کہ مؤمن بزدل ہوتا ہے ؟حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :ہو سکتا ہے پھر عرض کیا کہ امام بخیل ہو سکتا ہے فرمایا ہاں ہو سکتا ہے پھر پوچھا گیا یا مؤمن کذاب یعنی جھوٹا ہوتا ہے فرمایا نہیں (بیہقی ،مشکاۃ)

(5) حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا نےفرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح پیدا کرتا ہے اچھی بات کہتا ہے اور اچھی بات پہنچاتا ہے ۔


اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵)ترجمۂ کنزالایمان: جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتےاور وہی جھوٹے ہیں۔(پ14،النحل:105)

آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جھوٹ بولنا اور بہتان باندھنابے ایمانوں ہی کا کام ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جھوٹ کبیرہ گناہوں میں بدترین گناہ ہے۔ قرآنِ مجید میں ا س کے علاوہ بہت سی جگہوں پر جھوٹ کی مذمت فرمائی گئی اور جھوٹ بولنے والوں پراللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی۔ بکثرت اَحادیث میں بھی جھوٹ کی برائی بیان کی گئی ہے :

حدیث1: صحیح بخاری و مسلم میں عبداﷲ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں :صدق کو لازم کرلو، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اﷲ (عزوجل) کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے، یہاں تک کہ اﷲ (عزوجل) کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘ ( بہار شریعت ،حصہ16، بیان :جھوٹ کی مذمّت )

حدیث2: ترمذی نے انس رضی اللہُ عنہ سے روایت کی کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور وہ باطل ہے (یعنی جھوٹ چھوڑنے کی چیز ہی ہے) اس کے لیے جنت کے کنارے میں مکان بنایا جائے گا اور جس نے جھگڑا کرنا چھوڑا اور وہ حق پر ہے یعنی باوجود حق پر ہونے کے جھگڑا نہیں کرتا، اس کے لیے وسطِ جنت میں مکان بنایا جائے گا اور جس نے اپنے اخلاق اچھے کیے، اس کے لیے جنت کے اعلیٰ درجہ میں مکان بنایا جائے گا۔( بہار شریعت)

حدیث3: ترمذی نے ابن عمر رضی اللہُ عنہ سے روایت کی کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب بندہ جھوٹ بولتا ہے، اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہوجاتا ہے۔( بہار شریعت)

حدیث4: ابو داؤد نے سفیان بن اسد حضرمی رضی اللہُ عنہ سے روایت کی : کہتے ہیں میں نے رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا کہ ’’بڑی خیانت کی یہ بات ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس بات میں سچا جان رہا ہے اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے۔( بہار شریعت )

حدیث5: حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے: حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بندہ بات کرتا ہے اور محض اس لیے کرتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے اس کی وجہ سے جہنم کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جو آسمان و زمین کے درمیان کے فاصلہ سے زیادہ ہے اور زبان کی وجہ سے جتنی لغزش ہوتی ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی قدم سے لغز ش ہوتی ہے۔(شعب الایمان)

نوٹ:قرآن پاک کی اس آیت سے اور ان حدیثوں سے ہمیں یہی درس ملتا ہے کہ جھوٹ بہت گندی بیماری ہے اور بہت بڑا گناہ ہے اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے اللہ پاک ہم سب کو تمام باطنی بیماریوں سے محفوظ رکھے اور بالخصوص جھوٹ بولنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم


وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ﳔ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ(۱۰) ترجمہ کنزالعرفان: اور ان کے لئے ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے دردناک عذاب ہے۔ (پ1،البقرۃ:10)جھوٹ ایک ایسا سنگین جرمِ عظیم ہے جو تمام ہی ادیان میں برا جانا جاتا ہے اور حرام ہے۔ قرآن و حدیث میں جھوٹ بولنے والوں کے لیے بہت سخت وعیدات موجود ہیں۔ جیسا کہ آیت میں ذکر ہوا کہ جھوٹ بولنے والوں کے لیے سخت دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ روزِ محشر انہیں اس عذاب کا مزہ چکھایا جائے گا۔ احادیثِ مبارکہ میں جھوٹے کی شدید مذمت ہوئی ہے۔ احادیثِ کریمہ کی طرف بڑھنے سے پہلے جھوٹ کی تعریف سمجھتے ہیں: تعریف: کسی کے بارے میں خلافِ حقیقت خبر دینا۔ (الحدیقۃ الندیۃ، القسم الثانی، المبحث الاول،4/10) یعنی بلا حاجتِ شرعی کوئی بھی ایسے بات کرنا جو خلافِ واقع(حقیقت کے برعکس) ہو تو یہ جھوٹ ہے اور یہ جھوٹا شخص حرام کا مرتکب اور عذابِ نار کا حقدار ہے۔احادیثِ مبارکہ میں سے جھوٹ کی مذمت پر 5 احادیثِ مندرجہ ذیل ہیں:

(1) ایمان کے خلاف عمل: رسولﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا: جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ ایمان کے مخالف ہے۔ (المسند الامام احمد بن حنبل، مسند ابی بکر الصدیق، الحدیث:16، ج1، ص 22)

(2) چہرے کا بگڑنا:رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جھوٹ سے منہ کالا ہوتا ہے اور چغلی سے قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ (شعب الایمان، باب فی حفظ اللسان، الحدیث:4813، ج 4، ص 208)

(3) مؤمن کی خصلت نہیں : رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مؤمن کی طبع میں تمام خصلتیں ہوسکتی ہیں مگر خیانت اور جھوٹ نہیں ۔ (المسند الامام احمد بن حنبل، حدیث ابی امامۃ الباھلی، الحدیث:22232،ج8،ص276)

(4) ہلاکت کا سبب : رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:ہلاکت ہے اس کے لیے جو بات کرتا ہے اور لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔ (سنن الترمذی، کتاب الزھد، باب ماجاء من تکلم بالکلمۃ لیضحک الناس، الحدیث: 2322، ج 4،ص142)

(5) جہنم کی گہرائی میں گرنا: رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بندہ بات کرتا ہے اور محض اس لیے کرتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے اس کی وجہ سے جہنم کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جو آسمان و زمین کے درمیان کے فاصلہ سے زیادہ ہے۔ (شعب الایمان، باب فی حفظ اللسان، الحدیث:4832،ج4،ص213)

جھوٹ باطنی امراض میں سے ایک ایسا مرض ہے کہ اگر اس سے انسان بچ جائے تو باقی تمام حرام کاریوں سے بچ سکتا اور اگر جھوٹ کی عادت لگ جائے تو ہر حرام کام میں یہی جھوٹ سہارہ بن جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ کا کوئی منہ نہیں اسی لیے کبھی نہ کبھی پکڑا جاتا ہے اور پھر دوگنی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑھتا ہے ایک جھوٹ بولنے پر اور دوسرا اس کام پر جس کے لیے جھوٹ بولا۔ گویا کہ یہ تمام برائیوں کی جڑ کی مانند ہے۔ بحیثیتِ مسلمان ،روز مرّہ زندگی کے کسی بھی معاملے میں جھوٹ کا سہارہ نہیں لینا چاہیے، کیونکہ کلمہ گو کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا جیسا کہ، رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا کہ کیا مؤمن بزدل ہوسکتا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ پھر عرض کی گئی، کیا مؤمن بخیل ہوسکتا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ پھر کہا گیا، کیا مومن جھوٹا ہوسکتا ہے؟ فرمایا: نہیں، مؤمن جھوٹا نہیں ہو سکتا۔(المؤطا، کتاب الکلام، باب ماجاء فی الصدق والکذب، الحدیث:1913، ج2، ص268 )

اسی لیے ہر مسلمان کو غور کرنا چاہئے کہ وہ کس معاملے میں کتنا سچا یا جھوٹا ہے اور اگر جھوٹ کا مرتکِب ہے تو اس سے بچنا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہی جھوٹ اپنی قبر و آخرت تباہ کرنے کا سبب بن جائے ۔

اللہ پاک ہمیں جھوٹ اور تمام حرام کاموں سے بچنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔آمین


جھوٹ تمام گناہوں کی جڑ ہے جب بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے تو اگر وہ کبھی سچ بولتا ہے تو اس کے سچ بولنے پر کوئی یقین بھی نہیں کرے گا۔ جھوٹ بولنے سے اپنا وقار بھی ختم ہو گا۔ جب جھوٹ پر وہ قائم رہا تو ہو سکتا ہے کہ وہ لوگوں کی نظروں میں جھوٹا سمجھا جائےگا۔ اگر وہ جھوٹ پر قابو پاتا ہے تو یہ ایسی برائی ہے کہ اگر اس کو روک لیا جائے تو بندہ گناہوں کی بیماریوں سے باز آ جائے گا۔

مثال : اگر کسی نے پوچھا کہ آپ ہفتہ واراجتماع میں آئے تھے تو آپ نے کہا : جی ہاں ! حالانکہ شرکت نہیں کی تو یہ جھوٹ ہوا، اور بہت مثالیں ہیں الله ہمیں جھوٹ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ۔

تعريف:کسی کے بارے میں خلاف حقیقت خبر دینا ۔ قائل گنہگار اس وقت ہوگا جبکہ (بلا ضرورت) جان بوجھ کر جھوٹ بولے۔(جھوٹ کی مذمت، صفحہ5)

سب سے پہلے کسی نے جھوٹ بولا: ترجمہ کنز العرفان : اور ہم نے فرمایا: اے آدم ! تم اور تمہاری

بیوی جنت میں رہو اور بغیر روک ٹوک کے جہاں تمہارا جی چاہے کھاؤ البتہ اس درخت کے قریب نہ جانا ور نہ حد سے بڑھنے والوں میں شامل ہو جاؤ گے۔ تو شیطان نے ان دونوں کو جنت سے لغزش دی پس انہیں وہاں سے نکلوا دیا جہاں وہ رہتے تھے۔اور ہم نے فرمایا: تم نیچے اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن بنو گئے۔ اور تمہارے لئے ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھکانہ اور (زندگی گزار نے کا)سامان ہے۔( سورۃ البقرۃ، آیت: 35تا36)تفسير صراط الجنان : شیطان نے انہیں وسوسہ ڈالا اور کہنے لگائے:تمہیں تمہارے رب عزوجل نے اس درخت سے اس لیے منع کیا۔ کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ بن جاؤ اور اس کے ساتھ شیطان نے قسم کھا کر کہا کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں ۔

اس سے معلوم ہوا کہ سب سے پہلے چھوٹ شیطان نے بولا تھا۔

احادیث:(1) سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے۔ جھوٹ بولنا فسق و فجور ہے اور فسق و فجور دوزخ میں لے جاتا ہے . ( صحیح مسلم ،کتاب الادب ،باب قبح الکذب: الحديث:2607)

(2) بیشک سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہےاور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور بیشک بندہ سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ الله عز و جل کے نزدیک صدیق یعنی سچ بولنے والا ہو جاتا ہے جبکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے اور بیشک بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ عزو جل کے نزدیک کذّاب یعنی بہت بڑا چھوٹا ہو جاتا ہے۔ ( بخاری ، کتاب الادب،باب قول اللہ تعالی، 125/4) دیکھا آپ نے جھوٹ کتنی ہلاکت خیز بیماری ہے۔ انسان کے لگاتار جھوٹ بولتے رہنے کی وجہ سے وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے ۔

(3) جب بندہ جھوٹ بولتا ہے اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہو جاتا ہے (ترمذی ، باب ما جافی الصدق و الکذب :الحديث :1979)

(4) جھوٹ بولنا منا فق کی علامتوں میں سے ایک نشانی ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب خصال المنافق، الحدیث:106)

(5) جھوٹ بولنا سب سے بڑی خیانت ہے ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الادب ،باب فی المعاريض: الحديث : 4971 )

جیسا کہ آپ نے پڑھا کہ جھوٹ بولنے سے بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔ عقلمند وہ ہی ہے جو ہمیشہ ہر حال میں سچ کا دامن نہ چھوڑے۔ آئیے ہم سب نیت کرتے ہیں کہ آج کے بعد جھوٹ نہیں بولیں گے۔ سچ پر اللہ عزوجل ہمیں استقامت عطا فرمائے امین

جھوٹ کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ اِن شآءَ اللہ


اچھے اخلاق انسان کی عزت کا باعث ہوتے ہیں ۔جبکہ برے اخلاق عزت خراب کرتے ہیں ۔ اچھے اخلاق میں مسکرا کر ملنا،سلام و مصافحہ کرنا،سچ بولنا وغیرہ وغیرہ ہیں جبکہ برے اخلاق میں دل آزاری کرنا،تکبر کرنا،جھوٹ بولنا وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔زبان کا درست استعمال کرنے میں سچ بولنا بھی ہے جبکہ غلط استعمال میں جھوٹ بولنا بھی ہے۔اللہ پاک قرآن مجیدمیں ارشاد فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ(۷۰)ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔(پ22،الاحزاب:70)

معلوم ہوا کہ زبان کو ٹھیک رکھنا جھوٹ،غیبت ،گالی گلوچ سے اس بچانا بڑا اہم ہے ۔اور”قَوْلًا سَدِیْدًاۙ “کے بارے میں مختلف اقوال ہیں ۔ان میں سے ایک یہ ہے ۔کہ اس سے مراد سچی اور درست بات کرناہےکہ اپنے کلا م کو سچا رکھو اور جھوٹ سے بچو۔(اےایمان والو،ص471مکتبہ المدینہ)احادیث مبارکہ میں بھی جھوٹ کی مذمت بیان فرمائی گئی ہے:

(1) سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایاکہ کیا میں تمہیں بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں ؟وہ اللہ پاک کا شریک ٹھہرانا ہے اوروالدین کی نافرمانی کرنا ہے،آپ ٹیک لگا کر تشریف فرما تھے۔پھر آپ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔ارشاد فرمایا:سنو!جھوٹ بولنا بھی بڑا گناہ ہے۔(صحیح بخاری، حدیث:6273 )

(2) حضرت سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:میں نے حضور نبی رحمت ﷺ کو اس طرح دعا کرتے ہوئے سنا۔اللہم طھّر قلبی من النفاق وفرجی من الزنا ولسانی من الکذب ،ترجمہ: اے اللہ پاک میرا دل نفاق سے میری شرمگاہ کو زنا سے اور میری زبان کو جھوٹ سے پاک رکھ۔(مساوی الاخلاق،باب ماجاءفی الکذب،حدیث:134)

(3) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں اللہ پاک نہ تو ان سے کلام فرمائے گا نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا۔اور نہ ہی انہیں پاک فرمائے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے:1۔بوڑھا زانی۔2۔ جھوٹا چور ۔3۔ متکبر فقیر۔ (صحیح مسلم،کتاب الایمان،حدیث107)

(4) سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایاکہ میں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا چلئے ،میں اس کے ساتھ چل دیا،میں نے دو آدمیوں کو دیکھا جن میں سے ایک بیٹھا ہوا تھا اور دوسرا کھڑا ہوا تھا ۔کھڑے ہوئے شخص کے ہاتھ میں ایک لوہے کا ہتھوڑا تھا۔وہ بیٹھے ہوئے شخص کے ایک جبڑے میں اس طرح ڈالتا کہ اسےکھینچتا یہاں تک کہ اس کی گدی تک لے جاتا۔پھر اس کو نکالتا اور دوسرے جبڑے میں ڈالتا اور اس کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا اتنی دیر میں پہلے والا جبڑا پنی پہلی حالت میں ہوجاتا۔میں نے لانے والے شخص سے پوچھا یہ کیا ہے؟اس نے کہا کہ یہ جھوٹا شخص ہے ۔اور اسے قیامت تک قبر میں عذاب دیا جاتا رہے گا۔ (احیاء العلوم ،جلد3،حدیث:13،ص409)

(5) ابو داود نے سفیان بن اسدحضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا کہ!بڑی خیانت کی یہ بات ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس بات میں سچا جان رہا ہے اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے۔(بہار شریعت،جلد3حصہ16،حدیث :4)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں زبان کی حفاظت کرتے ہوئے اسے جھوٹ، غیبت ،حسداور دیگر آفتوں سےمحفوظ فرمائے،آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


جس طرح جسمانی امراض ہوتے ہیں اسی طرح کچھ باطنی امراض بھی ہوتے ہیں ،جسمانی امراض ظاہری صحت وتندرستی کے لیے سخت نقصان دہ ہوتے ہیں اور باطنی امراض ایمان اور روحانی زندگی کے لیے زہرقاتل ہیں۔باطنی امراض میں جیسے حسد،تکبر،جھوٹ،غیبت،چغلی ، کینہ،ریاکاری وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ باطنی امراض کے متعلق معلومات حاصل کرکے ان سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے۔اس کے لیے بطور خاص امام غزالی رحمۃاللہ علیہ کی مشہور کتاب احیاءالعلوم کی تیسری جلد کا مطالعہ بہت مفید ہے۔آج ہم باطنی امراض میں سے ایک مرض کے متعلق جانیں گیں اور وہ مرض ہے ”جھوٹ“جی ہاں جھوٹ یہ ایک ایسامرض ہے جو ہماری عوام میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم جھوٹ بول کر نکل جائیں گےاور بظاہرہم نکل بھی جاتے ہیں۔مگر آگے جاکر جب سچائی سامنے آتی ہے تو ایسے پھنستے ہیں کہ وہاں سے نکلنا ناممکن ہوجاتا ہے۔بدنامی الگ ہوتی ہے،رسوائی الگ ہوتی ہےاور بندے کا اعتماد الگ سے خراب ہوتا ہے۔ جھوٹ یہ کبیرہ گناہوں میں سے بدترین گناہ ہے۔ جھوٹ بولنے پر قرآن وحدیث میں بےشماردردناک وعیدیں بیان کی گئی ہے۔لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے بچنے کی خوب کوشش کرے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ﳔ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ(۱۰)ترجمہ کنزالایمان : اور ان کے لیے د ردناک عذاب ہے، بدلہ ان کے جھوٹ کا ۔(پ1،البقرۃ:10)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جھوٹ بولنا حرام بلکہ جہنم میں لےجانے والا کام ہے۔قران مجید میں اس کے علاوہ بھی بہت سی جگہوں پر جھوٹ کی مذمت فرمائی گئی ہے اور جھوٹ بولنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے۔اس کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی جھوٹ کی مذمت بیان کی گئی ہے۔اس ضمن میں 5احادیث مبارکہ بیان کی جاتی ہیں:

حضرت ابوبرزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایاکہ جھوٹ سے منہ کالا ہوتا ہے اورچغلی سے قبر کا عذاب ہے۔(بہارشریت ج3،حصہ16، ص517،حدیث:12)

رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جھوٹ ایمان کےمخالف ہے۔ (شعب الایمان،4/206،حدیث:4804)

ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمایاکہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو ،اس سے فرشتہ ایک میل دور ہوجاتا ہے۔(بہارشریت ج3الف، حصہ16، ص515،حدیث:3)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ بندہ پورا مؤمن نہیں ہوتا جب تک مذاق میں بھی جھوٹ کو نہ چھوڑدے۔اور جھگڑا کرنا نہ چھوڑدے اگرچہ سچا ہو۔(بہارشریعت،ج3الف،حصہ16،ص516،حدیث:8)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑدے اور وہ باطل ہے(یعنی جھوٹ باطل ہے اور یہ چھوڑنے کی چیزہی ہے)تو اس کے لیے جنت کے کنارے پر مکان بنایا جائے گا۔(بہارشریعت ،ج3الف،حصہ16، حدیث:2)

اللہ پاک ہمیں ان احادیث پر عمل کرتے ہوئے ہر حال میں جھوٹ سے بچنے کی توفیق عطافرمائے۔۔آمین


اللہ تعالی کے حکم کو بندوں تک پہنچانے والے نفوس بشریہ کو پاک کرنے والے اپنی امت کو دوزخ سے بچانے والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے اور اپنی امت کو ان کاموں کرنے کا حکم ارشاد فرمایا جن سے اللہ تعالی راضی ہوتا ہےاور ان کاموں کے کرنے سے منع فرمایا جن سے اللہ پاک ناراض ہوتا ہے آج ہر دوسرا بندہ جن گناہوں میں مبتلا ہے اور دن میں کئی بار اس گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اللہ تعالی اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی مول لیتا ہے اور عذاب نار کا حقدار ہوتاہے۔ آج کے مسلمان کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ بات بات پر جھوٹ بولتا ہے گھر میں آئے تب جھوٹ دوستوں میں بیٹھے تب جھوٹ لین دین کرے تب جھوٹ غور کیجئے جو شخص جھوٹ کا ہو جاتا ہے وہ اللہ تعالی کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے اور بعض نادان تو جھوٹ بول کر کہتے ہیں یہ جھوٹ نہیں یہ تو مذاق ہے حالانکہ جھوٹ مذاق میں بھی جھوٹ ہوتا ہے۔

اے میرے میرے پیارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری پیاری امت ہمیں اپنے حال پر غور کرنا چاہیےاور پھر اپنے سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے امتی بن کر دکھائیں ہمیشہ سچ بولیں کبھی بھول کر بھی زبان سے جھوٹ نہ نکلے آئیے جھوٹ کی تعریف، حکم، جھوٹ کی مذمت میں چند فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ذکر کیے جاتے ہیں:

جھوٹ کی تعریف: کسی کے بارے میں خلاف حقیقت خبر دینا جھوٹ کہلاتا ہے۔(76 کبیرہ گناہ،ص99)

جھوٹ کا حکم: جھوٹ بولنا حرام ہے ۔( صراط الجنان ،جلد1، صفحہ نمبر:75)

جھوٹ کی مذمت پر پانچ فرامین پانچ فرامین آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم:

جنت کے کنارے مکان: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دےاور وہ باطل ہے یعنی جھوٹ چھوڑنے کی ہی چیز ہے اس کے لیے جنت کے کنارے میں مکان بنایا جائے گا۔( بہار شریعت،حصہ 16،ص515)

فرشتہ جھوٹ کی بدبو سے دور: حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب بندہ جھوٹ بولتا ہے اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہو جاتا ہے۔ (بہار شریعت،جصہ 16،ج3،ص392)

بڑی خیانت کی بات: حضرت سیدنا سفیان بن اسد حضرمی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے مدینے کے تاجدار دو عالم کے مالک و مختار صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ بڑی خیانت کی یہ بات ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس بات میں سچا جان رہا ہو اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے ۔(ابو داؤد ،کتاب الادب ،حدیث: 4971،ج3،ص381)

مؤمن جھوٹا نہیں ہوتا:حضرت سفیان بن سلیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کیا مؤمن بزدل ہوتا ہے? فرمایا ہاں پھر عرض کی گئی کیا مؤمن کذاب یعنی جھوٹا ہوتا ہے? فرمایا نہیں۔( المؤطا ،کتاب الکلام ، حدیث نمبر :1913،ج2،ص468)

جھوٹے کے لیے ہلاکت ہے:بہز بن حکیم نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ہلاکت ہے اس کے لیے جو بات کرتا ہے اور لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے اس کے لیے ہلاکت ہے ،اس لیے ہلاکت ہے۔( سنن ترمذی، کتاب الزہد ، حدیث:2322،ج3،ص142)

جھوٹ کے آٹھ نقصانات :1۔ جھوٹ بولنے والے پر اللہ تعالی لعنت فرماتا ہے۔2۔ جھوٹ بولنے والا ہلاکت میں ہے ۔3۔جھوٹ نفاق کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔4۔ جھوٹ رزق کو تنگ کر دیتا ہے ۔5۔ جھوٹ بولنے والے کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جائیں گے ۔6۔جھوٹ آدمی کو عیب دار کر دیتا ہے۔7۔ جھوٹ بولنے والے پر لوگ یقین نہیں کرتے۔

اللہ تعالی اس تحریر کو میرے لیے ذریعے نجات بنائے یہ جھوٹ کہ آٹھ نقصان احیا ءالعلوم کی تیسری جلد صفحہ404 تا 416 تک سے لیا گیا ہے۔


جھوٹ کے معنی ہیں: سچ کا الٹ۔

جھوٹ بولنا ایک بہت بری عادت ہے جھوٹ بولنے کی مذمت پر اللہ پاک نے قرآن پاک ، احادیث مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بزرگانِ دین کے اقوال وعیدات بیان ہوتی ہیں، کچھ وعیدات پڑھتے ہیں:چنانچہ جھوٹ کے بارے میں اللہ تعالیٰ قر آن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:ترجَمۂ کنزُالایمان: جھوٹوں پر اللہ کی لعنت۔ (پارہ3، اٰل عمرٰن، آیت:61)

(1) جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے، اور گناہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب (یعنی بہت بڑا جھوٹا ) لکھ دیا جاتا ہے۔(مسلم، کتاب البروالصلۃ والا داب ، ص 1000)

(2) مجھ پر جھوٹ باندھنا کسی اور پر جھوٹ باندھنے جیسا نہیں لہذا جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔( مسلم ، ص 12)

(3) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، جو شخص قسم کھائے او راس میں مچھر کے پر کے برابر جھوٹ ملا دے تو وہ قسم تا یومِ قیامت ( یعنی قیامت کے دن تک اس کے دل پر سیاہ ) نکتہ بن جائے گی( ابن حبان، کتاب الحظر )

(4) منافق کی تین نشانیاں ہیں:۱۔ جب بات کرے جھوٹ کہے۔۲۔ جب وعدہ کرے خلاف کرے۔۳۔ اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔( بخار ی، باب علامۃ المنافق،ص 79)

(5) سچ نیکی تک پہنچاتا ہے اور نیکی جنت تک لے جاتی ہے:ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ صدیق ہوجاتا ہے اور جھوٹ بدکار ی تک پہنچاتا ہے اور بدکار ی جہنم تک لے جاتی ہے اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے یہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(نزہۃ القاری شرح صحیح البخار ی، کتاب الادب، ص428)

اللہ پاک تمام لوگوں کو جھوٹ جیسی بیماری سے محفوظ فرمائے اور سچ پر قائم رہنے والا بنائے، امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


جھوٹ کی تعریف :خلاف واقع بات کو جھوٹ کہتے ہیں، خواہ غلطی سے ہو یا جان بوجھ کر ،مثلا کسی نے ادھار لیا وہ جانتا ہے کہ اس نے ادا نہیں کیا مگر پھر بھی کہتا ہے کہ میں نے ادا کردیا ہے۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے جھوٹ ایسی بری چیز ہے کہ ہر مذہب والے اس کی برائی کرتے ہیں تمام ادیان میں یہ حرام ہے ۔اسلام نے اس سے بچنے کی بہت تاکید کی ، قرآن مجید میں بہت سے مواقع پر اس کی مذمت کی گئی اور جھوٹ بولنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت آئی ہے۔ حدیثوں میں بھی اس کی برائی ذکر کی گئی۔ اس کے متعلق پانچ حدیثیں درج ذیل ہیں:

(1) رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جھوٹ سے منہ کالا ہوتا ہے اور چغلی سے قبر کا عذاب ہے۔(شعب الایمان ،الحدیث:813 ، ص208)

(2) رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ے ارشادفرمایا:بندہ پور ا مؤمن نہیں ہوتا جب کہ مذاق میں بھی جھوٹ کو نہ چھوڑ دے اور جھگڑا کرنا نہ چھوڑ دے اگرچہ سچا ہو۔(مسند امام احمد بن حنبل ، حدیث:8638 ،ج3ص268)

جھوٹ کے خلاف اعلانِ جنگ ہے

نہ جھوٹ بولیں گے نہ بلوائیں اِن شآءَ اللہ

(3) حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو بات کرتا ہے اور لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتاہے اس کے لیے ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔( سنن الترمذی ، الحدیث:232،ج4،ص142)

(4) حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب بندہ جھوٹ بولتا ہے، اس کی بو سے فرشتہ ایک میل دور ہوجاتا ہے۔(سنن ترمذی، الحدیث: 1979،ج3،ص392)

(5) رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مؤمن کی طبع میں تمام خصلتیں ہوسکتی ہیں مگر خیانت اور جھوٹ ( مسند امام بن حنبل ، الحدیث:22232،ج98،ص276)

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں جھوٹ اور جھوٹ جیسے دوسرے کبیرہ گناہوں سے بچائے امین۔


جان لو کہ ایک عادل شخص کے لیے یہ بات مناسب ہے کہ ہر قسم کی گفتگو سےاپنی زبان کی حفاظت کرے اور صرف وہ کلام کرے جس میں مصلحت ظاہر ہو، جب کسی کلام کے کرنے اور نہ کرنے والوں میں مصلحت برابر ہو تو پھر طریقہ یہ ہے کہ اس گفتگو سےباز رہے کیونکہ بعض اوقات جائز باتیں انسان کو مکروہ یا حرام تک لے جاتی ہیں بلکہ یہ معاملہ غالب ہے کہ زیادہ بولنے والا جھوٹ جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے، اور جھوٹ ایسی بری چیز ہے کہ ہر مذہب والے اس کی برائی کر تے ہیں، تمام ادیان میں یہ حر ام ہے اسلام نے اس سے بچنے کی بہت تاکید کی ، قرآن مجید میں بہت مواقع پر اس کی مذمت فرمائی اور جھوٹ بولنے والوں پر خدا کی لعنت آئی ہے۔

جھوٹ کی تعریف:کسی کے بارے میں حقیقت کے خلاف خبر دینا۔

جھوٹ کی ابتدا:سب سے پہلے جھوٹ شیطان لعین نے بولا تھا جب اس نے حضرت آدم و حوا علیہما السلام کو لغزش کرانے کا ارادہ کیا تو ان سے جھوٹی قسم کھا کر کہا کہ میں تمہار اخیر خواہ ہوں۔

جھوٹ کی مذمت پر فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم :

جھوٹ کی نحوست:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مر وی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور ہوجاتا ہے۔(جامع ترمذی، کتاب نیکی اور صلح رحمی،باب حج کی فضیلت اور جھوٹ کی برائی ، حدیث: 1972)

اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا جھوٹا :عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا:آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب ( بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔(صحیح مسلم ،کتاب حسن سلوک صلہ رحمی اور ادب ، باب جھوٹ کی قباحت اور سچ کی خوبصورتی و فضیلت ، حدیث :2607)

جھوٹے کی سزا:نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: رات کو میرے پاس دو شخص آئے انہوں نے مجھے اٹھایا اور کہا: ہمارے سا تھ چلو میں ان کے ساتھ چل دیا، ہم ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جو پیٹھ کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص اس کے پاس آنکڑا لیے کھڑا تھا یہ اس کے چہرے کی طرف آتا اور اس کےایک جبڑے کو گدی تک چیرتا پھر دوسری جانب جاتا ادھر بھی اس طرح چیرتا جس طرح پہلی جانب کیا تھا وہ ابھی دو سری جانب سے فارغ بھی نہ ہوتا تھا کہ پہلی جانب اپنی صحیح حالت کی طرف لوٹ آتی اور پھر وہ اسی طرح کرتا جس طرح پہلی مر تبہ کیا تھا، فرمایا : میں نے کہا یہ دونوں کون ہیں ؟انہوں نے عرض کی یہ وہ شخص ہے جو صبح اپنے گھر سے نکلتا اور جھوٹی خبر تراشتا جو دنیا میں پھیل جاتی۔(صحیح بخاری ، کتاب خوابوں کی تعبیر، باب صبح کی نماز کے بعد خواب کی تعبیر بیان کرنا ،حدیث: 7047)

منافقت کی علامات :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :منافق کی تین علامات ہیں: جب بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب امین بنایا جائے خیانت کرے (صحیح بخار ی، کتاب الایمان، علامات المنافق، حدیث :33)

اے انسان ! مذکورہ بالا احادیث مبار کہ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ جھوٹ سے معاشرت اور آخرت دونوں تباہ ہو جاتے ہیں بعض اوقات ایک جھوٹ چھپانے کے لیے اور کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں اس کے باوجود بھی حقیقت سامنے آکر ہی رہتی ہے ۔لہذا جاننا چاہیے کہ جھوٹ اس باعث حرام کیا گیا ہے کہ اس کا عکس دل پر پڑا ہے اور دل کو سیاہ کردیتا ہے اور دل سیاہ ہوجائے تو یہ کسی کی کوئی نصیحت قبول نہیں کرتا، ہم اللہ عزوجل سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔


انسان کے اندر کچھ ایسی صفات ہوتی ہیں جو اس کو باکمال بنادیتی ہیں، لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں اس سے محبت کرتے ہیں۔ اس سے ملاقات کرنے کے لیے، اس کے دیدار کے لیے اس سے گفتگو کرنے کے لیے، اس کے ساتھ بیٹھنے کے لیے اور اس سے مشورہ لینے کے لیے ترستے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ شخض سراپا ترغیب ہوتا ہے جیسا کہ بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری مدظلہ العالی ہیں کہ ان کی شخضیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، تو جس طرح اچھی صفات انسان کو اچھا بناتی ہے اسی طرح بری صفات انسان کو برا بناتی ہیں اور ان بری صفات میں سے ایک جھوٹ بولنا ہے اور جھوٹ بولنے کے دنیاوی نقصانات بھی ہیں اور اُخری نقصانات بھی ہیں: دنیا میں یہ ہوتا ہے کہ لوگ جھوٹے شخص پر اعتماد نہیں کرتے اسے اچھا نہیں سمجھتے اور اگر وہ سچ بھی بول دے تو لوگ اسے جھوٹا سمجھتے ہیں تو یوں وہ بے عزت اور رسوا ہو کر رہ جاتا ہے۔اور آخرت میں جھوٹے شخص کے لیے عذاب ہے اور جھوٹ ایسی بری چیز ہے کہ ہر مذہب والے اس کی برائی کرتے ہیں اور یہ تمام ادیان ( دینوں) میں حرام ہے اور اسلام نے اس سے بچنے کی تاکید کی ہے اور قرآن کریم میں کئی جگہ پر جھوٹ کی مذمت کی گئی ہے:

جھوٹ کی تعریف:کسی کے بارے میں خلافِ حقیقت خبر دینا جھوٹ ہے اور قائل گنہگار اس وقت ہوگا جب ( بلا ضرورت) جان بوجھ کر جھوٹ بولے۔(حدیقہ ندیہ ، قسم ثانی، ج4، ص 10)

جھوٹ آدمی کو عیب دار کرتا ہے:امام ابوبکر عبد اللہ بن محمد قرشی المعروف امام ابن الدنیا رحمۃُ اللہِ علیہ اپنی کتاب ذَمُّ الکذب میں ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ نے ولید بن عبدالملک سے کسی معاملے میں بات کی تو اس نے کہا:آپ جھوٹ کہتے ہیں، تو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا:خدا کی قسم مجھے جب سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جھوٹ آدمی کو عیب دار کرتا ہے اس وقت سے میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔آئیے جھوٹ کی مذمت پر چند احادیث مبارکہ سنتے ہیں تاکہ ہم اس گناہ کبیرہ سے بچ سکیں۔

(1) جھوٹے کے لیے ہلاکت ہے :آخری نبی مکی مدنی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ار شاد فرمایا: ہلاکت ہے اس کے لیے جو بات کرتا ہے اور لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھو ٹ بولتاہے اس کے لیے ہلاکت ہے اس کے لیے ہلاکت ہے۔( سنن ترمذی، کتاب الزھد، باب ماجا، من تکلم بالکلمۃ لضحک الناس ،الحدیث:2322، جلد4، صفحہ142، مکتبہ دار الفکربیروت لبنان)

(2) جھوٹے کو قبر میں عذاب:حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تو میں نے دو آدمی دیکھے ان میں ایک کھڑا اور دوسرا بیٹھا تھا۔ کھڑے ہوئے شخض کے ہاتھ میں لوہے کا زنبور ( یعنی لوہے کی سلاخ جس کا ایک طرف کا سر ا مڑا ہوا ہوتا ہے) تھا، جسے وہ بیٹھے شخص کے ایک جبڑے میں ڈال کر اسے گدی تک چیر دیتا پھر زنبور نکال کر دوسرے جبرے میں ڈال کر چیرتا اتنے میں پہلے والا جبڑا اپنی اصلی حالت پر لوٹ آ تا۔( پھر حضور علیہ السلام نے فرمایا) میں نے لانے والے شخص سے پوچھا، یہ کیا ہے؟ اس نے کہا۔ ھذا رجل کذاب یعذب فی قبرہ الی یوم القیامۃ یہ جھوٹا شخص ہے اسے قیامت تک قبر میں یہی عذاب دیا جاتا رہے گا۔( مساوی الاخلاق للخرائطی، صفحہ 76،حدیث نمبر: 131)

(3) فرشتے سے دوری: امام ترمذی رحمۃُ اللہِ علیہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو سے فرشہ ایک میل دور ہوجاتا ہے۔( سنن ترمذی ، کتاب البروالصلۃ ،باب ماجا فی الصدق والکذب ،الحدیث: 1979 ، جلد 3، صفحہ 392۔ مکتبہ دارالفکر ، بیروت لبنان)

(4) جھوٹ بولنا خیانت ہے:ابوداؤد نے سفیان بن اسد حضرمی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ بڑی خیانت کی یہ بات ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس بات میں سچا مان رہا ہے اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے۔( سنن ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی المعار یض ، الحدیث: 4971 ،جلد4، صفحہ 381 مکتبہ دار الاحیا التراث العربیہ بیروت، لبنان )