جھوٹ
ایسی بری چیز ہے کہ ہر مذہب والے اس کی برائی کرتے ہیں تمام ادیان میں یہ حرام ہے
اسلام نے اس سے بچنے کی تاکید کی ہے قرآن مجید میں بہت مواقع پر اس کی مذمت فرمائی
اور جھوٹ بولنے والوں پر خدا کی لعنت آئی حدیثوں میں بھی اس کی بہت برائی بیان کی گئی
ہے(بہار شریعت،ص 158،حصہ: 16)
جھوٹ کی تعریف:کثیر کتابوں میں جھوٹ کی تعریف بیان کی
گئی ہے ان میں سے ایک کتاب میں یہ بیان کی گئی ہےسچ کا الٹ جھوٹ کہلاتا ہے۔
پہلا جھوٹ کس نے بولا: سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا اور
شیطان کے جھوٹ ہی کے سبب حضرت آدم کو جنت سے نکالا گیا۔( صراط الجنان،1/158)
جھوٹ کے متعلق 05 احادیث:
1۔ جھوٹ
سے بچو کیونکہ جھوٹ ایمان سے مخالف ہے۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جھوٹ نہ بولو جھوٹ
سے ایمان جاتا ہے۔(بہار شریعت،ص159،حصہ:16)
2۔ جھوٹ
جو شخص بولتا ہےچھوڑ دے اور وہ باطل ہے اس کے لئے جنت کے کنارے میں مکان بنایا
جائے گا۔ (صراط الجنان،1/76) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص جھوٹ بولنا بند کرے اس کے لئے اچھا ہے اور اسے جنت
میں ایک گھر بھی دیا جائے گا۔
3۔ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور
ہو جاتا ہے۔(بہار شریعت،ص158،حصہ:16) یعنی جھوٹ بولنے کی وجہ سے بندے کے منہ سے
بدبو آتی ہے جس کی وجہ سے فرشتے دور چلے جاتے ہیں۔
4۔ بڑی
خیانت کی ایک بات ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس بات میں سچا
مان رہا ہے اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے۔ (بہار
شریعت،ص158،حصہ:16) اس حدیث میں بتایا جا رہا ہے کہ کتنی بری بات ہے کہ تم
اپنے بھائی کو کچھ کہہ رہے ہو مگر وہ بات ہو جھوٹی اور وہ اسے سچا سمجھے تو یہ بات
بہت بری ہے۔
5۔
صحابی نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کیا مومن بزدل ہوتا ہے؟فرمایا: ہاں پھر عرض کی کیا مومن
بخیل ہوتا ہے فرمایا :ہاں پھر پوچھا کیا مومن کذاب ہوتا ہے؟ فرمایا: نہیں۔(بہار شریعت،ص158،حصہ:16) یعنی مومن بزدل بھی
ہو سکتا ہے مومن بخیل بھی ہو سکتا ہے مگر مومن کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔
جھوٹ کے متعلق آیت مبارکہ: ان کے دلوں میں بیماری ہے تو
اللہ نے ان کی بیماری اور بڑھائی اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے بدلہ ان کے جھوٹ کا۔
(البقرۃ: 10)(صراط الجنان،1/74) اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ منافقوں کے جھوٹ کے بارے
میں بیان ہوا ہے یعنی وہ دل میں کچھ اور کہتے تھے اور زبان پر کچھ اور جس کی وجہ
سے انہیں عذاب میں مبتلا کیا گیا (یعنی جھوٹ کی وجہ سے) (صراط الجنان،1/74-75)
جھوٹ کے متعلق واقعہ: حضرت آدم کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان مردود ہوا تھا
حضرت آدم کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہا اللہ پاک نے حضرت آدم اور حوا سے فرمایا
کہ جنت میں بے روک ٹوک کھاؤ مگر اس درخت
کے قریب مت آنا شیطان نے انہیں وسوسہ ڈالا اور کہنے لگا تمہیں تمہارے رب نے اس درخت
سے اس لئے منع کیا ہے کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ بن جاؤ اس کے ساتھ شیطان نے قسم کھا کر کہا میں تمہارا خیر خواہ ہوں تو
حضرت آدم اور حوا اس خیال میں تھے کہ اللہ کی جھوٹی قسم کون کھا سکتا ہے اس لئے انھوں نے
اسےمکروہ تنزیہی سمجھ کر کھا لیا اور ان
سے اجتہاد ہو گیا اجتہاد گناہ نہیں ہو سکتا چنانچہ شیطان کے دھوکے میں انھوں نے
ممنوعہ درخت کا پھل بھی کھا لیا پھل کھاتے
ہی ان کے پردے کے مقام بے پردہ ہو گئے اسے چھپانے کے لئے درخت کے پتے ڈالنے لگے اس
وقت اللہ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں منع نہیں کیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن
ہے اس کے بعد حکم الٰہی ہوا کہ تم زمین پر اتر جاؤ اب تمہاری اولاد آپس میں دشمن
ہو گی اور ایک خاص وقت تک زمین میں رہو گے
اور پھر حضرت آدم کی زمین پر تشریف آوری ہوئی ایک عرصے اپنی غلطی کی معافی مانگتے رہے اور پھر ان کی دعا قبول ہوئی(صراط
الجنان،1/102)