دعوت اسلامی کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں جنوبی کوریا کے شہر انچن میں بذریعہ انٹرنیٹ مدنی مشورے کا انعقاد کیا گیا جس میں 5اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

مدنی مشورے میں بذریعہ آڈیو لنک نگران شوریٰ کا بیان ”ایک ذمہ دار کو کیسا ہونا چاہیئے“ سنایا گیا جس میں نگران شوریٰ نے ذمہ داراسلامی بہنوں کی تربیت فرمائی، سیدنا فاروق اعظم کی سیرت کے پہلو بتا کر احساس ذمہ داری پر مدنی پھول عطا فرمائیں۔

بعد میں مدنی مشورے میں فاریسٹ ریجن نگران اسلامی بہن نے کفن دفن اجتماع اور نیک اعمال اجتماع بالمشافہ منعقد کرنے، انفرادی کوشش کرنے ، دینی کاموں کو مضبوط بنانے کا ذہن دیا اور بریج کمیونٹی کے بالمشافہ کورس کے حوالے سے کلام ہوا۔ 


یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ(۱۲) (سورہ حجرات، آیت 18)

اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور (پوشیدہ باتوں کی) جستجو نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں ناپسند ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔ (ترجمہ کنزالعرفان)

لوگوں کے عیبوں کو اچھالنا اور عام کرنا مذموم (یعنی بُرا) کام ہے،رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشاد فرمایا: جو اپنے مسلمان بھائی کے عیب تلاش کرے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے عیب کھول دے گا اور جس کے عیب اللہ عَزَّوَجَلَّ ظاہر کرے وہ مکان میں ہوتے ہوئے بھی ذلیل و رسوا ہوجائے گا۔(ترمذی،ج 3،ص416، حدیث: 2039)

حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں: یہ قانونِ قدرت ہے کہ جو کسی کو بِلا وجہ بَدنام کرے گا قدرت اسے بَدنام کر دے گی۔(مراٰۃ المناجیح،ج6،ص618)

عاشقان رسول کو لوگوں کے عیب چھپانے کی ترغیب دلانے کے لئے امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ اس ہفتے رسالہ ”عیب چھپاؤ جنت پاؤ“ پڑھنے / سننے کی ترغیب دلائی ہے اور پڑھنے سننے والوں کو اپنی دعاؤں سے نوازا ہے۔

دعائے عطار

یارب المصطفٰے! جو کوئی21 صفحات کا رسالہ ” عیب چھپاؤ جنت پاؤ “ پڑھ یا سن لے اُسے لوگ کے عیب چھپانےوالا بنا، دنیا وآخرت میں اُس کی عیب پوشی فرما اور بے حساب بخش دے۔ اٰمین

یہ رسالہ دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے ابھی مفت ڈاؤن لوڈ کیجئے

Download

رسالہ آڈیو میں سننے کے لئے کلک کریں

Audio Book


شعبہ رابطہ برائےشخصیات دعوتِ اسلامی کےوفد نے24نومبر2021ءبروزبدھ ڈیفنس کراچی میں ایم پی اے اویس قادر سےملاقات کی اورانہیں ؤدعوتِ اسلامی کی دینی وفلاحی خدمات کےبارےمیں بتایا۔

اس کےعلاوہ دعوتِ اسلامی کےوفدنےانہیں عالمی مدنی مرکزفیضانِ مدینہ کراچی کاوزٹ کرنے کی دعوت دی،ایم پی اے نے اظہارِ مسرت کرتےہوئےبہت جلدعالمی مدنی مرکزفیضانِ مدینہ کراچی آنےکی نیت کی۔(رپورٹ:شعبہ رابطہ برائےشخصیات،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


پچھلےدنوں شعبہ اصلاح برائےقیدیان دعوتِ اسلامی کےریجن ذمہ دارعلی عطاری نےدیگرذمہ داران کےہمراہ ڈسٹرکٹ جیل سبی کادورہ کیاجہاں انہوں نے اسسٹنٹ سپرینڈنٹ جیل ملک انور ترین، آفس سپرینڈنٹ ثناءاللہ بلوچ ،میراحسان بلوچ،شبیر ہانبھی، چیف، دربان اورجیل وارڈن سمیت دیگراسٹاف سےملاقات کی۔

اس دوران ذمہ داراسلامی بھائیوں نےانہیں دعوت اسلامی کی دینی وفلاحی سرگرمیوں کےبارےمیں بریفنگ دی جس پرانہوں نےدعوتِ اسلامی کی کاوشوں کوسراہا۔(رپورٹ: شعبہ اصلاح برائےقیدیان بلوچستان ریجن ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

پچھلے دنوں سیکرٹری انوائرمنٹ خان محمد مہر کےجوان بیٹےانتقال کرگئے،اسی سلسلےمیں دعوتِ اسلامی کےشعبہ رابطہ برائےشخصیات کےذمہ داران نے خان محمد مہرسےتعزیت کی۔

اس دوران ذمہ داراسلامی بھائیوں نےمرحوم کےگھروالوں سے تعزیت کرتےہوئےانہیں صبرکی تلقین کی اور مرحوم کےلئے زیادہ سے زیادہ ایصالِ ثواب کرنےکاذہن دیا، مرحوم کےایصالِ ثواب کےلئےفاتحہ خوانی اوردعاکابھی سلسلہ رہا۔

بعدازاں ذمہ داران نے عبدالرحمٰن مہر ڈائریکٹر پروٹوکول وزیر اعلیٰ سندھ، نثار احمد کھوڑو اورایڈووکیٹ سعید احمد سمیت دیگرشخصیات سےملاقات کی۔

اس کےعلاوہ مدرسۃالمدینہ کےبچوں نےبھی قراٰن خوانی کااہتمام کیااورمرحوم کےلئےمزیدایصالِ ثواب کیا۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائےشخصیات، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

گزشتہ دنوں دعوتِ اسلامی کےشعبہ رابطہ برائےشخصیات کےتحت  مرکزی مجلسِ شوریٰ کےرکن حاجی اطہرعطاری نےدینی کاموں کےسلسلےمیں دیگرذمہ داران کےہمراہ منسٹر ایجوکیشن سندھ سردار احمد شاہ سے ان کے آفس میں ملاقات کی۔

اس دوران رکنِ شوریٰ نےاہم امور پرگفتگوکرتےہوئے دعوتِ اسلامی کےتعلیمی اداروں کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا اورانہیں عالمی مدنی مرکزفیضانِ مدینہ کراچی کاوزٹ کرنےکی دعوت دی جس پرانہوں نےاظہارمسرت کیا۔

بعدازاں منسٹرکو مکتبۃالمدینہ کےکُتُب ورسائل تحفےمیں پیش کیں گئیں۔(رپورٹ:شعبہ رابطہ برائے شخصیات بلوچستان ریجن،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


پچھلےدنوں دعوتِ اسلامی کےشعبہ رابطہ برائےشخصیات کےزیرِاہتمام مدنی مرکزفیضانِ مدینہ کوئٹہ میں مدنی مشورےکاانعقادہواجس میں شعبہ ذمہ داراسلامی بھائیوں سمیت دیگراہم ذمہ داران نےشرکت کی۔

اس مدنی مشورےمیں دعوتِ اسلامی کے12دینی کاموں سمیت دیگراہم نکات پرتبادلۂ خیال کرتےہوئےاحسن اندازسےدعوتِ اسلامی کےدینی کام کرنےکی ترغیب دلائی گئی جس پروہاں موجودشرکانےاچھی اچھی نیتوں کااظہارکیا۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائےشخصیات ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

دعوتِ اسلامی کےشعبہ رابطہ برائےشخصیات کےذمہ داراسلامی بھائیوں نے23نومبر2021ءبروزمنگل بہاولپورمیں کمشنربہاولپور ڈویژن کیپٹن(ر)ظفراقبال، ایس ڈی پی اوصدرسرکل چوہدری فیاض الحق، ایس ایچ اوتھانہ صدر محمداعظم کلواور معروف بزنس مین چوہدری احمد رضا سمیت دیگرشخصیات سےملاقات کی۔

ذمہ داران نےانہیں دعوتِ اسلامی کی عالمی سطح پرہونےوالی دینی وفلاحی سرگرمیوں کےحوالےسےبریفنگ دی اورافسران کو مکتبۃ المدینہ کےکُتُب ورسائل تحفےمیں پیش کیں۔(رپورٹ:شعبہ رابطہ برائےشخصیات،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


ایصالِ ثواب کا معنی اور  جائز ہونے پر دلیل:

ایصالِ ثواب کے لفظی مَعنی ہیں  :  ’’ثواب پہچانا‘‘ اِ س کو ’’ثواب بخشنا‘‘ بھی کہتے ہیں میت کو نیک اعمال کا جو ثواب پہنچایا جاتا ہے وہ اسے پہنچتا ہے اور یہ بات کثیر اَحادیث سے ثابت ہے جیسا کہ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں  :ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی :میری مالدہ ماجدہ اچانک فوت ہو گئی ہیں ،میرا خیال ہے کہ اگر وہ کوئی بات کرتیں توصدقہ دینے کا کہتیں ،اگر میں ان کی طرف سے خیرات کروں تو کیا انہیں ثواب ملے گا۔ ارشاد فرمایا:ہاں ۔

(بخاری، کتاب الجنائز، باب موت الفجأۃ البغتۃ،1 / 468، الحدیث1388)

حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  ’’میں  نے (ایک مرتبہ) بارگاہِ رسالت میں  عرض کی: یا رسولَ اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ، سعد کی والدہ کا انتقال ہو گیا ہے ،تو کون سا صدقہ افضل ہے؟ارشاد فرمایا ’’پانی۔ چنانچہ انہوں نے کنوا ں کھدوایااور کہا’’ہٰذِہٖ لِاُمِّ سَعْدٍ‘‘یہ سعد کی والدہ (کے ایصالِ ثواب ) کے لئے ہے۔

( ابو داؤد، کتاب الزکاۃ، باب فی فضل سقی المائ، 2 / 180، الحدیث: 1681)

ایصالِ ثواب کے درست ہونے پر صحیح العقیدہ علماء ِامت کا اِجماع ہے اور فقہ کی کتابوں  میں  بھی بکثرت مقامات پر اس کا جواز مذکور ہے، اسی لئے مسلمانوں  میں  جویہ معمول ہے کہ وہ اپنے مُردوں  کو فاتحہ ،سوم، چہلم ،برسی اور عرس وغیرہ میں  عبادات اور صدقات سے ثواب پہنچاتے رہتے ہیں ، ان کا یہ عمل اَحادیث کے بالکل مطابق ہے۔ نیز یہ بھی یا د رکھیں  کہ ایصالِ ثواب کے لئے شریعت کی طرف سے کوئی دن خاص نہیں  بلکہ جب چاہیں  جس وقت چاہیں  ایصالِ ثواب کر سکتے ہیں  اور اگر عزیزرشتہ داروں  یا دوست اَحباب کی سہولت کے لئے دن مُعَیّن کر کے ایصالِ ثواب کیا جائے تو اس میں  بھی کوئی حرج نہیں  ہے۔نیز اِیصالِ ثواب کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی واقِع نہیں ہوتی بلکہ اُمّید ہے کہ اُس نے جتنوں کو ایصالِ ثواب کیا اُن سب کے مجموعے کے برابر اِس کو ثواب ملے گا،مثلاً کوئی نیک کام کیا جس پراُس کو دس نیکیاں ملیں اب اُس نے دس مُردوں کو اِیصالِ ثواب کیا تو ہر ایک کودس دس نیکیاں پہنچیں گی جبکہ اِیصالِ ثواب کرنے والے کو ایک سو دس اور اگر ایک ہزار کو اِیصالِ ثواب کیا تو اِس کو دس ہزار دس وَ عَلٰی ھٰذَا الْقِیاس۔(بہارشریعت، ج1، ص850 ) 

ایصال ثواب کے 5 طریقے:

(1) مرحومین کے لئے دعا کرنا:

ایک بارسُوْرَۃُ الْفَاتِحَہ اور11بارسُوْرَۃُ الْاِخْلَاص (اوَّل آخِر ایک یا تین بار دُرُود شریف) پڑھ کر اپنے مرحوم والدین، رشتہ داروں یا دیگر متعلقین اور امت محمدیہ کو اس کا ایصال ثواب کریں ۔فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ وسلم جو قبرستان میں گیارہ بار سُوْرَۃُ الْاِخْلَاص پڑھ کر مُردوں کو اس کا ایصالِ ثواب کرے تو مُردوں کی تعداد کے برابر ایصالِ ثواب کرنے والے کواس کا اَجْر ملے گا۔ (جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی 7/285،حدیث:23152)

اگر کسی بزرگ کے مزار پر ہوں تو صاحِبِ مزار کا نام لے کر بھی ایصالِ ثواب کرے اور دُعا مانگے۔  ’’ اَحسَنُ الوِعاء‘‘ میں ہے  :  ولی کے مزار کے پاس دُعا قَبول ہوتی ہے۔

(ماخوذ از احسن الوعاء ص:140)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :  میری اُمّت گناہ سَمیت قَبْر میں داخِل ہوگی اور جب نکلے گی تو بے گناہ ہوگی کیونکہ وہ مؤمِنین کی دعاؤں سے بَخش دی جاتی ہے ۔

(اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط 1/509،حدیث:1879)

فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ وسلم: جو کوئی تمام مومن مَردوں اور عورَتوں کیلئے دعائے مغفرت کرتا ہے، اللہ پاک اُس کیلئے ہر مومن مرد و عورت کے عِوَض ایک نیکی لکھ دیتا ہے۔(مسندُ الشّامیین لِلطَّبَرانی 3/234،حدیث :2155)

(2) اعمالِ خیر کا ثواب ایصال کرنا:

نماز روزہ، صدقہ، حج، عمرہ طواف ودیگر اعمال خیر کرکے اس کا ثواب زندوں یا مردوں کو پہنچایا جاسکتا ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی وہ عمل کرکے یہ کہے کہ یا اللہ اس کا ثواب فلاں شخص کو پہنچادےجیسا کہ فتاوٰ ی شامی میں ہے: من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز ویصل ثوابہا إلیہم عند أہل السنة والجماعة کذا في البدائع

(شامی3/152، باب صلاة الجنازة )

سیدی و سندی امام اہلسنت امام احمد رضا خان فاضل بریلری ارشاد فرماتے ہیں کسی بھی نیکی کا اِیصالِ ثَواب کرتے ہوئےجتنےمسلمان مردوعورت آج تک ہوئے، جوموجودہیں اور جتنے قیامت تک آنے والے ہیں اُن سب کو اِیصالِ ثواب کریں۔ ایسا کرنے والے کو تمام مؤمنین و مؤمنات اَوَّلین وآخرین سب کی گنتی کے برابر ثَواب ملے گا۔ (فتاویٰ رضویہ،ج9، ص602ملخصاً)

(3) قربا نی کا ثواب ایصال کرنا:

قربانی کر کے اس کا ثواب اپنے مرحوم والدین، رشتہ داروں یا دیگر متعلقین کو پہنچانا جائز بلکہ بہتر ہے، بلکہ کسی بھی نیک کام کا اجر تمام امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچانا درست ہے، خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی امت کی طرف سے قربانی فرمائی تھی، اس لئے وفا کا تقاضا ہے کہ استطاعت ہو تو ایک قربانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی کی جائے۔چنانچہ منقول ہے:

"وقد صح «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين: أحدهما عن نفسه والآخر عمن لم يذبح من أمته»، وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح''۔

(الدر المختار وحاشيہ ابن عابدين (رد المحتار) 2/ 595)

(4) حج کا ثواب ایصال کرنا:

جو اپنی ماں یا باپ کی طرف سے حج کرے اُن (یعنی ماں یا باپ )  کی طرف سے حج ادا ہوجائے ،   اسے (یعنی حج کرنے والے کو)  مزید دس حج کا ثواب ملے۔

(دارقُطنی 2/329،حدیث:2587)

چنانچہ اس روایت سے معلوم ہوا کہ اگر کسی سے طرف سے حج کیا جائے تو اس کا ثواب دونوں کو ملے گا حج کرنے وا لے کو بھی اور جس کی طرف سے حج کیا گیا اسے بھی۔

(5) ایصالِ ثواب کا مروّجہ طریقہ:

 آج کل مسلمانوں میں خُصُوصاً کھانے پر جو فاتِحہ کا طریقہ رائج ہے وہ بھی بَہُت اچّھا ہے۔  جن کھانوں کا ایصالِ ثواب کرنا ہے وہ سارے یا سب میں سے تھوڑا تھوڑاکھانا نیز ایک گلاس میں پانی بھر کر سب کچھ سامنے رکھ لیجئے۔ اور ایک بار تعوذ و تسمیہ پڑھیں پھر سورۃ الکافرون ، تین بار سورۃ الاخلاص، ایک بار سورۃ الفلق، ایک بار سورہ الناس، ایک بار سور ۃ الفاتحہ ، ایک بار سورۃ البقرہ کی ابتدائی پانچ آیات، یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد یہ پانچ آیات پڑھئے :

 (1)   وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۠ (۱۶۳)

 (پ2،  البقرۃ : 163)

 (2)   اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ (۵۶)  (پ8،  الاعراف : 56)

 (3)   وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ (۱۰۷)  (پ17 الانبیاء : 107)

 (4)   مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَاللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠ (۴۰) (پ22،  الاحزاب : 40)

 (5)  اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (۵۶)  (پ22 ، الاحزاب : 56)

اب دُرُود شریف پڑھئے  :صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَاٰلِہٖ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلٰوۃً وَّسَلَامًا عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ

اس کے بعد یہ آیات پڑھئے :سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَۚ (۱۸۰) وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَۚ (۱۸۱) وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠ (۱۸۲)  

23، اَلصّٰفٰت : 180۔  182)

 اب فاتِحہ پڑھانے والا ہاتھ اٹھاکربُلند آواز سے ’’ اَلْفَاتِحَہ‘‘ کہے۔  سب لوگ آہِستہ سے یعنی اِتنی آواز سے کہ صِرْف خود سنیں سُوْرَۃُ الْفَاتِحَہ پڑھیں۔  اب فاتحہ پڑھانے والا اِس طرح اعلان کرے :   آپ نے جو کچھ پڑھا ہے اُس کا ثواب مجھے دیدیجئے ۔  ‘‘  تمام حاضِرین کہہ دیں : ’’ آ پ کودیا۔ ‘‘اب فاتحہ پڑھانے والا ایصالِ ثواب  کے لئے دعاکر ے۔

اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا فاتِحہ کا طریقہ:

امامِ اہلسنّت اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ایصال ثواب و فاتحہ سے قبل ایک بار سورۃ الفاتحہ ، ایک بار آیت الکرسی ، اور تین بار سورۃ الاخلاص کی تلاو ت فرمایا کرتے تھے پھر ایصال ِ ثواب کے لئے دعا فرما یا کرتے تھے۔

(فاتحہ اور ایصالِ ثواب کا طریقہ ص 19 تا 23 ملخصاً و بتغییرقلیل)


1۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مرنے کے بعد انسان کے اعمال کے ثواب کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے لیکن تین چیزوں کا ثواب میت کو ملتا رہتا ہے۔

(1) صدقہ جاریہ

(2) لوگوں کو فائدہ دینے والا علم

(3) نیک اولاد جو میت کے لئے دعا کرے۔‘‘

(مسلم شریف: کتاب الوصیۃ، باب: ما یلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ: حدیث :1361)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن کو مرنے کے بعد ان اعمال اور نیکیوں کا ثواب ملتا رہتا ہے:(1) وہ علم ہے جو اس نے لوگوں کو سکھایا اور پھیلایا۔(2) نیک اولاد ہے جو اس نے اپنے پیچھے چھوڑی۔(3) قرآن کی تعلیم جو لوگوں کو سکھائی۔(4) مسجد جو تعمیر کرائی۔(5) مسافر خانہ۔(6) وہ صدقہ جو صحت کی حالت میں اس نے نکالا۔

(ابن ماجہ: مقدمۃ، باب: ثواب معلم الناس الخیر: حدیث نمبر 242)

2۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیّدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ماں کی نذر کے بارے میں سوال کیا جسے پورا کرنے سے پہلے وہ فوت ہو گئی تھی۔ آپ نے فرمایا:"اپنی ماں کی طرف سے تم نذر پوری کرو۔"

(بخاری شریف: الوصایا، باب:ما یستحب لمن توفیٰ فجاۃ ۔حدیث :1672، مسلم شریف: النذر: حدیث نمبر8361)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی لیکن حج کرنے سے پہلے ہی فوت ہو گئی کیا میں اس کی طرف سے حج کروں۔ آپ نے فرمایا: ’’ہاں! اس کی طرف سے حج کرو، اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم ادا کرتیں؟‘‘ اس نے عرض کیا ہاں! آپ نے فرمایا:’’اللہ کا قرض یعنی نذر ادا کرو، اللہ پاک زیادہ حقدار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔‘‘(بخاری شریف: جزاء العید، باب: الحج والنذور عن المیت: حدیث نمبر 2581)

3۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے روزے باقی ہوں تو اس کا وارث روزے رکھے۔‘‘

(بخاری شریف: کتاب الصوم، باب: من مات وعلیہ صوم: 2591، مسلم شریف: کتاب الصیام، قضاء الصیام عن الموت: حدیث نمبر7411)

    اس روایت کے تحت عمدۃ القاری میں ہے :”حجۃ اصحابنا الحنفیۃ ومن تبعھم فی ھذا الباب فی ان مات وعلیہ صیام لایصوم عنہ احد ولکنہ ان اوصی بہ اطعم ولیہ کل یوم مسکین نصف صاع من براوصاعامن تمراوشعیر“ یعنی ہمارے حنفی اصحاب اور ان کے متبعین کی اس باب میں یہ دلیل ہے کہ جو شخص مرجائے اوراس کے ذمے روزے ہوں، توکوئی اوراس کی طرف سے روزے نہیں رکھ سکتا،لیکن اگر مرنے والے نے وصیت کی ہو،تو میت کا ولی ہردن کے بدلے مسکین کو نصف صاع گندم یاایک صاع کھجوریاجَودے گا۔

(عمدۃ القاری ،11/59،مطبوعہ بیروت)

4۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرا باپ فوت ہو گیا ہے اور اس نے کچھ مال چھوڑا ہے لیکن کوئی وصیت نہیں کی۔ اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو کیا یہ اس کے گناہوں کا کفارہ بنے گا۔ آپ نے فرمایا: ’’ہاں!۔‘‘

(مسلم شریف: کتاب الوصیۃ، باب: وصول ثواب الصدقات الی المیت: حدیث نمبر 361)

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص (سیدنا سعد بن عبادہ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میری ماں اچانک مر گئی اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ بات کرتی تو کچھ صدقہ وخیرات کرتی، اب اگر میں اس کی طرف خیرات کروں تو کیا اس کو کچھ ثواب ملے گا، آپ نے فرمایا: ’’ہاں!۔‘‘(بخاری شریف : کتاب الجنائز، باب: موت الفجاۃ البغتۃ: حدیث نمبر 8831، مسلم: الزکاۃ، باب: وصول ثواب الصدقۃ الی المیت: حدیث نمبر4001)

5۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’مومن کی روح قرض کے ساتھ معلق رہتی ہے جب تک وہ ادا نہ کر دیا جائے۔‘‘

(ترمذی شریف: کتاب الجنائز: حدیث نمبر7801)


ایصال ثواب کے لفظی معنی ہیں: " ثواب پہنچانا" اس کو ثواب بخشنا بھی کہہ سکتے ہیں مگر بزرگوں کے لئے ثواب بخشنا کہنا مناسب نہیں، "ثواب نذر کرنا"کہنا ادب کے زیادہ قریب ہے امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں: حضور اقدس علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم اور نبی یا ولی کو ثواب بخشنا کہنا بے ادبی ہے بخشنا    بڑ ے کی طرف سے چھوٹے کو ہوتا ہے۔بلکہ نذر کرنا یا ہدیہ کرنا کہے۔(فتاوی رضویہ 26/956)

فرض،واجب،سنت،نفل،نماز،روزہ،زکوۃ،حج،تلاوت،نعت شریف،ذکر اللہ، درود شریف،بیان،درس،مدنی قافلے میں سفر،نیک اعمال، دینی کتاب کا مطالعہ، مدنی کاموں کیلئے انفرادی کوشش وغیرہ ہر نیک کام کا ایصال ثواب کرسکتے ہیں۔

ایصال ثواب کا طریقہ: ایصال ثواب(یعنی ثواب پہنچانے) کےلئے دل میں نیت کرلینا کافی ہے مثلاً آپ نے کسی کو ایک روپیہ خیرات دیا یا ایک بار درود شریف پڑھا یا کسی ایک کو سنت بتائی یا کسی پر انفرادی کوشش کرتے ہوئے نیکی کی دعوت دی یا سنتوں بھرا بیان کیا۔ الغرض کوئی بھی نیک کام کیا۔ آپ دل ہی دل میں اس طرح نیت کرے کہ مثلاً ابھی میں نے جو سنت بتائی اس کا ثواب سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پہنچے۔ان شاءاللہ ثواب پہنچ جائیگا۔دل میں نیت ہونے کےساتھ ساتھ زبان سے کہہ لینا اچھا ہے کہ یہ صحابی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہیں جیسا کہ حدیث سعد رضی اللہ عنہ میں گزرا کہ انہوں نےکنواں کھدوا کر فرمایا کہ ھذہ لام سعد یعنی یہ ام سعد کے لئے ہے۔

جو اپنی ماں یا باپ کی طرف سے حج ادا کرے ان(یعنی ماں یا باپ)کی طرف سے حج ادا ہوجائے،اسے یعنی حج کرنے والے کو مزید دس حج کا ثواب ملے۔

(دارقطنی 2/329،حدیث :2587)

دس حج کا ثواب:سبحان اللہ! جب کبھی نفلی حج کی سعادت حاصل ہو تو فوت شدہ ماں یا باپ کی نیت کرلیجئے تاکہ ان کو بھی حج کا ثواب ملے،آپ کا بھی حج ہو جائے بلکہ مزید دس حج کا ثواب ہاتھ آئے۔

والدین کی طرف سے خیرات: جب تم میں سے کوئی کچھ نفلی خیرات کرے تو چاہیے کہ اسے اپنے ماں باپ کی طرف سے کرلے کہ اس کا ثواب انہیں ملے گا اور اس کے(یعنی خیرات کرنے والے کے) ثواب میں کوئی کمی بھی نہیں آئے گی۔

(شعب الایمان 6/205، حدیث: 7911)

اربوں کھربوں نیکیاں کمانے کا نسخہ :کسی بھی نیکی کا ایصال ثواب کرتے ہوئے جتنے مسلمان مرد و عورت آج تک فوت ہو ئے، جو موجود ہیں اور جتنے قیامت تک آنے والے ہیں ان سب کو ایصال ثواب کریں۔ ایسا کرنے والے کو تمام مومنین و مومنات اولین و آخرین سب کی گنتی کے برابر ثواب ملے گا۔ ( فتاوی رضویہ،9/602ملحضا)

مسلمانوں کو ایصال ثواب کرنا ایک ایسی آسان نیکی ہے جس کے لئے نہ رقم خرچ کرنے کی ضرورت ہےاور نہ ہی اسکے لئے زیادہ مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔

اللہ پاک ہمیں اپنے مرحومین کو بھرپور ایصال ثواب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


قرآن مجید کی سورۃالحدید کی آیت نمبر 7 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے ترجمہ کنزالایمان : اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی راہ میں کچھ وہ خرچ کرو جس میں تمہیں اَوروں کا جانشین کیا تو جو تم میں ایمان لائے اور اس کی راہ میں خرچ کیا اُن کے لئے بڑا ثواب ہے ۔

اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔} اللہ پاک کی وحدانیَّت پر دلالت کرنے والی مختلف چیزیں بیان کرنے کے بعد اب بندوں کو ایمان قبول کرنے،محبت ِدنیا کو چھوڑ دینے اور نیک کاموں میں مال خرچ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے لوگو! اللہ پاک کی وحدانیَّت کا اقرار کر کے اور جن چیزوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں اُن میں اِن کی تصدیق کر کے اللہ پاک اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان کی پیروی کرو اور جو مال اس وقت تمہارے قبضے میں ہے، تم وراثت کے طور پر اس میں دوسروں کے جانشین بنے ہو اور عنقریب یہ تمہارے بعد والوں کی طرف منتقل ہو جائے گا لہٰذا تم پہلے لوگوں سے نصیحت حاصل کرو اور اس مال کو اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے سے بخل نہ کرو، اور تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنا مال اسی طرح خرچ کیا جیسے انہیں حکم دیا گیا تھا تو ا س بنا پر ان کے لئے بڑا ثواب ہے۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے لوگو! اللہ پاک اورا س کے رسول پر ایمان لاؤ اور جو مال تمہارے قبضے میں ہے یہ سب اللہ پاک کے ہیں ،اس نے تمہیں نفع اُٹھانے کے لئے دے دیئے ہیں ،تم حقیقی طور پر ان کے مالک نہیں بلکہ نائب اور وکیل کی طرح ہو،ا نہیں راہِ خدا میں خرچ کرو اور جس طرح نائب اور وکیل کو مالک کے حکم سے خرچ کرنے میں کوئی تأمُّل نہیں ہوتا توتمہیں بھی کوئی تأمُّل و تَرَدُّدْ نہ ہو۔اور تم میں سے جو لوگ اللہ پاک اور ا س کے رسول پر ایمان لائے اور انہوں نے اللہ پاک کی راہ میں مال خرچ کیا ان کے لئے بڑا ثواب ہے۔

( صاوی ، الحدید ، تحت الآیۃ : 7، 6 / 2102-2103، تفسیر طبری، الحدید، تحت الآیۃ: 7، 11 / 671-672، روح البیان، الحدید، تحت الآیۃ: 7، 9 / 353-354، ملتقطاً)

زندہ اور مردہ کو ایصالِ ثواب کرنا نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے، میت کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے،لیکن اس کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں ہے، اور نہ ہی اس کے لئے وقت اور زمانہ متعین ہے، جو شخص جس وقت جس دن چاہے، کوئی بھی نفلی عبادت کر کے اُس کا ثواب میت کو بخش سکتا ہے، اس کے لئے کسی خاص مہینے یا کسی خاص دن کی تعیین کرنا قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔

ایصال ثواب کی محافل میں قرآن پڑھا جاتا ہے یہ قرآن پڑھنا تو اشرف المخلوقات کا عمل ہے انسان قرآن پرھتاہے اور اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض گزار ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت میں اس کا ثواب حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کو پہنچاتا ہوں میں اس کا ثواب حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کو پہنچاتا ہوں یہ تو پھر اشرف المخلوقات ہیں اور اپنی زبان سے افضل قرآن پڑھ رہا ہے دوسری طرف یہ دیکھیں کہ اسلام نے تو یہاں تک اس ایصال ثواب کے مسئلہ کو واضح کیا کے درختوں کی تسبیح سے بھی عذاب دور ہو جاتا ہے قبر کے مکینوں کو ان کی تسبیح سے بھی سکون ملتا ہے تو پھر قرآن مجید کی تلاوت کرنے تسبیحات پڑھنے آیت کریمہ پڑھنے کلمہ شریف پڑھنے سے جو ثواب حاصل ہوتا ہے وہ فوت شدہ گان کے لئے تسکین اور عذاب سے نجات کا باعث کیوں نہ ہوگاپھر دیکھئے بخاری و مسلم شریف کی متفق علیہ حدیث شریف ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدنا خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا وصال ہوچکا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ان کا ذکر فرماتے۔

سیدنا خدیجہ رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بکری ذبح کر رہے ہیں اور گوشت تقسیم کر رہے ہیں ان کی سہیلیوں کو بھیج دیتے ہیں مجھے بتائیں جب یہ گوشت تقسیم ہو رہا تھا اور کسی نے پوچھا یہ کیسا گوشت ہے؟تو جواب یہی دیا جاتا تھا یہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے لئے ذبح کیا گیا ہے اس کا اور کوئی نام نہیں ہے یہ بکری یہ گوشت کسی کے نکاح یا ولیمہ کے لئے ذبح نہیں کی گئی یہ بکری کسی دوست یا مہمان کی ضیافت کے لئے زبح نہیں کی گئی بلکہ یہ بکری سیدنا خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے لئے ذبح کی گئی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بکری ذبح فرمائی اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے تعلق کی نسبت سے ان کی سہیلیوں کو کوشت بھیجا یہ سارے کا سارا عمل ثابت کر رہا ہے کہ دنیا سے جو چلے گئے ہیں ان کے ثواب کے لئے یہ کام ہو سکتا ہے۔

حضرت سعد بن رضی اللہ عنہ کی والدہ فوت ہو گئی حضرت سعد رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری والدہ محترمہ ام سعد رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا ہے ان کے لئے کون سا صدقہ افضل ہے کہ میں صدقہ کروں تو فائدہ میری والدہ کو پہنچے ؟(یہاں بھی وہی قانون ثابت ہے کہ صدقہ کرنا حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا فعل ہے لیکن اس سے فائدہ ان کی والدہ محترمہ کو بھی ہو جائے گا ۔)آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :پانی کا صدقہ بڑا اچھا ہے حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک کنواں کھدوایا اور کہاکہ یہ کنواں ام سعد رضی اللہ عنہا کا کنواں ہے۔

غور فرمائیں اگر غیر کی طرف نیاز منسوب کرنے سے وہ حرام ہو جاتی ہے جیسے ان کے نظریے کے مطابق غیر کا نام لینے سے گیارہویں کی کھیر حرام ہو جاتی ہے گیارہویں کا لنگر حرام ہو جاتا ہے تو یہ غیر کا نام اس کنویں پر بھی لیا گیا اور نسائی شریف (جلد2، 132) میں ہے۔

حضرت سیِّدُناعُقْبَہ بن عامِر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نےبارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کی : کیا میں اپنی وفات یافتہ ماں کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟تومکی مدنی مصطفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا اور وہ تم ادا کرتیں تو کیا تم سے قبول کر لیاجاتا؟اس نے عرض کی : کیوں نہیں۔ پھرآپ نے اسے حج کرنے کا حکم دیا۔

اللہ پاک ہمیں ایصال ثواب کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم