محمد بلال رضا عطاری (درجہ دورۂ حدیث جامعۃ المدینہ
فیضان اولیاء احمد آباد گجرات ہند)

ایمان و عقائد کے بعد نماز اہم ترین فرض ہے، قراٰنِ کریم و
احادیث نبویہ اس کی اہمیت پر شاہد ہیں نیز اسلام میں باجماعت نماز پڑھنے کا تاکیدی
حکم ہے، یعنی ہر مسلمان ،عاقل، بالغ، مرد پر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا واجب ہے،
بغیر عذر ایک مرتبہ بھی جماعت کے چھوڑنے والا گنہگار ہے، با جماعت نماز پڑھنے کے
بے شمار دنیوی و اُخروی فوائد ہیں، دنیوی فائدہ تو یہ کہ اس سے مسلمانوں کی
اجتماعیت کا پتا چلتا ہے جس سے کفار کے دلوں میں اسلام کا رعب و دبدبہ پیدا ہوتا
ہے ، اور اس کے اُخروی فوائد و فضائل پر کئی احادیث کریمہ وارد ہیں، نبی رحمت شفیع
امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے متعدد مقامات پر با جماعت نماز پڑھنے کی
فضیلت اور اس کی اہمیت کا ذکر فرمایا ہے۔ ان میں سے 5 احادیثِ طیبہ ملاحظہ
فرمائیں:
(1) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے،نبی اکرم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پڑھنے
سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔(بخاری،کتاب الاذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ،1/232، حدیث: 645)
(2) حضرت سیِّدُنا اَنس رضی اللہ عنہ سے رِوایت ہے کہ
تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِرشاد فرماتے ہیں : جو کوئی اللہ
پاک کے لیے چالیس دن ’’تکبیر اُولیٰ‘‘ کے ساتھ باجماعت نماز
پڑھے اُس کے لیے دو آزادیاں لکھی جائیں گی، ایک نار سے دوسری نفاق سے ۔
(ترمذی،1/274، حديث: 241)
(3) حضرتِ
سَیِّدُنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سُنا : جس نے عشا کی نمازِ باجماعت ادا کی گویا
اس نے آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر کی نمازِ باجماعت ادا کی گویا اس نے ساری
رات قیام کیا ۔( مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب فضل صلاة العشا...الخ،
ص258، حدیث : 1491)
(4) حضرت عمر
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ اللہ پاک با جماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب
(یعنی پیارا) رکھتا ہے۔(فیضان نماز ،ص 140)
(5) حضرت
عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت حمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض نماز
کے لیے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (شعب الایمان،
باب العشرون من شعب الایمان وہو باب فی الطہارۃ، 3/9، حدیث: 2727)
ان تمام احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ با جماعت نماز پڑھنے کی
بے شمار برکتیں ہیں ، با جماعت نماز پڑھنا رب کریم اور اس کے پیارے حبیب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خوشنودی کا سبب ہے، لہٰذا بندے کو چاہئے کہ وہ سستی و
کاہلی کو دور کرکے رب کریم کی رضا پانے اور ان فضائل کو حاصل کرنے کی نیت سے وقت
پر مسجد میں حاضر ہو کر با جماعت نماز کا عزم کرے، اللہ پاک ہمیں جماعت کے ساتھ
نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین یا رب العٰلمین
سمیع اللہ عطاری (درجہ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان
امام احمد رضا حیدرآباد ہند)

اے عاشقان نماز! باجماعت نماز اللہ پاک کا بہت بڑا انعام ہے۔
قراٰنِ کریم کی سورۃ البقرہ آیت نمبر 43 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور رکوع کرنے
والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43)مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ
علیہ تفسیرِ نعیمی ج1ص330 میں تحریر فرماتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے
نماز پڑھا کرو، کیونکہ جماعت کی نماز تنہا نماز پر ستّائیس(27)درجے افضل ہے۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیوں! پتا چلا کہ جماعت سے نماز
پڑھنا کس طرح کے ثواب کا ذریعہ ہے اسی طرح جماعت سے نماز پڑھنے کے متعلق بہت سے
فضائل و فوائد احادیث کریمہ میں موجود ہیں انہیں میں سے 5 فرامین مصطفیٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیش کئے جاینگے تاکہ ہمارے اندر بھی جماعت سے نماز پڑھنے
کا شوق پیدا ہو۔
(1) امیر المؤمنین
حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو جہاں کے سردارصلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو
محبوب (یعنی پیارا) رکھتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، 2/309،حدیث:5112)
(2) حضرت سیِّدُنا ابو سعید خدرِی رضی اللہ عنہ
بیان کرتے ہیں کہ اللہ پاک کے آخری رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ
عالی شان ہے: جب بندہ باجماعت نماز پڑھے پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت(یعنی ضرورت) کا
سُوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے
واپس لوٹ جائے۔ (حلیۃ الاولیاء، 7/299،حدیث: 10591)
(3) فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:
مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے پچیس(25)
دَرَجے زائد ہے۔ (بخاری، 1/233،حدیث: 647)
(4) طبرانی ابو امامہ رضی
اللہ عنہ سے راوی، کہ حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: اگر یہ نماز جماعت سے پیچھے رہ جانے والا جانتا
کہ اس جانے والے کے ليے کیا ہے؟، تو گھسٹتا ہوا حاضر ہوتا۔ (المعجم الکبير،8/224،
حديث: 7886)
(5) ترمذی انس رضی اللہ عنہ سے راوی، کہ فرماتے ہیں صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو اللہ کے ليے چالیس دن باجماعت پڑھے اور تکبیرۂ اُولیٰ
پائے، اس کے ليے دو آزادیاں لکھ دی جائیں گی، ایک نار سے، دوسری نفاق سے۔ (جامع
الترمذی، أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في فضل التکبيرۃ الأولیٰ،1/274، حديث: 241)
جماعت سے گر تو نمازیں پڑھے
گا
خدا تیرا دامن کرم سے بھرے گا
اے عاشقان نماز! ابھی آپ نے نمازِ باجماعت کی فضیلتوں کو
پڑھا اب آئیے ان کے فوائد پر بھی نظر ڈالتے ہیں:۔ پیارے اسلامی بھائیوں! جماعت کے
ساتھ نماز پڑھنے سے روزانہ پانچ بار کی ملاقات اور دعا سلام سے دل کی عداوت(یعنی
دشمنی)دور ہونا اور آپس میں اتفاق، وقت کی پابندی، تکبّر کا ٹوٹنا اور مسجد کی طرف
آنے پر دس دس نیکیاں کا ملنا ،اس طرح کے کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ عشا کی نماز کے
بھی کیا کہنے کہ جو شخص چالیس راتیں مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھے کہ عشا کی تکبیرۂ اُولیٰ
فوت نہ ہو، اللہ پاک اس کے ليے دوزخ سے آزادی لکھ دے گا۔(سنن ابن ماجہ، ابواب
المساجد... إلخ، باب صلاۃ العشاء و الفجر في جماعۃ، 1/437،حديث: 798)
پیارے اسلامی بھائیوں! ہمیں بھی چاہیے کہ باجماعت نماز
تکبیر اولیٰ کے ساتھ ادا کریں تاکہ ہم کو بھی اس طرح کے فضیلتیں اور فوائد حاصل
ہوں۔ اس کے لئے ان چیزوں سے بچنا ہوگا جو ہمارے لئے نماز کو باجماعت ادا کرنے میں
رکاوٹ بنے۔ جیسے ڈٹ کر کھانا ،گناہ کرنا ، بدنگاہی، فحش کلامی، غیبت وغیرہ ان جیسے
باطنی گناہوں سے بچنا ہوگا اور گناہوں سے بچنے کے لئے نماز میں خشوع و خضوع پیدا
کرکے خلوص کے ساتھ ادا کرنا ہوگا کیونکہ نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔
اللہ کریم ہمیں ہر طرح کے گناہوں بچتے ہوئے پانچوں نمازیں باجماعت ادا کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
میں پانچوں نمازیں پڑھوں
باجماعت
ہو توفیق ایسی عطا یا الٰہی
ثاقب رضا ( درجہ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضانِ فاروق
اعظم مالیگاؤں مہاراشٹر ہند)

محترم قارئین کرام ! باجماعت نماز پڑھنا بہت اہمیتوں کا
حامل ہے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نمازِ باجماعت پڑھنا تنہا پڑھنے سے 27درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ باجماعت
نماز ادا کرنے میں اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم پر
عمل پیرا ہونا ہے کیونکہ اللہ پاک نے ہمیں اس کی عبادت کرنے اور اس کے احکام بجالانے
کے لیے پیدا فرمایا، چنانچہ اللہ پاک نے قراٰنِ کریم فرقان حمید میں فرمایا: وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶)ترجمۂ کنزالایمان: اور میں نے جن اور آدمی اتنے ہی لئے
بنائے کہ میری بندگی کریں۔ (پ27، الذٰرِیٰت:56) اور اسی طرح باجماعت نماز ادا کرنے کے بہت سے فضائل وبرکات ہیں، آئیے
چند احادیث کریمہ سے سنتے ہیں :
(2) اللہ پاک کے پیارے: امیر المومنین
حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں دو جہاں کے سردار محمد صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوۓ سنا کہ اللہ باجماعت نماز ادا کرنےوالوں کو محبوب یعنی
پیارا رکھتا ہے ۔ (فیضانِ نماز، ص 140)
(3) پچس درجہ افضل: فرمان مصطفی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر میں اور بازار
میں پڑھنے سے پچس درجے زائد ہے اور ایک روایت میں ہے کہ صحابی ابن صحابی حضرت
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، تاجدار مدینہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا: نمازِ باجماعت تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ بڑھ کر ہے۔
(4) باجماعت نماز ادا کرنے کے بعد دعا حاجت قبول ہوتی ہے: حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالی شان ہے : جب
بندہ باجماعت نماز پڑھے پھر اللہ پاک سے حاجت یعنی ضرورت کا سوال کرے تو اللہ پاک
اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے واپس لوٹ جائے۔ (فیضان
نماز،ص 141)
(5) مقبول حج وعمرہ کا ثواب: خادم نبی
حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمان عالی شان ہے: جس نے مغرب کی نمازِ باجماعت ادا کی اس کےلئے مقبول
حج وعمرہ کا ثواب لکھا جائے گا اور وہ ایسا ہے گویا اس نے شبِ قدر میں قیام کیا۔(
فیضان نماز، ص110)
دیکھا محترم قارئین
! باجماعت نماز پڑھنے کے کتنے بے شمار فضائل و برکات ہیں تو کیوں نہ ہم اس سے
افادہ حاصل کریں کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کہ کس ساعت میں ہمیں موت آجائے
تو ہمیں چائیے کہ دنیا میں رہتے ہوئے اچھے افعال اور خوب باجماعت نماز پڑھ کر
نیکیوں کا ذخیرہ اکھٹا کرلیں مولیٰ کریم سے دعا گو و دعا جو ہوں کہ اللہ پاک ہم سب
کو باجماعت نماز پڑھنے کی توفیق بخشے اور اس کی برکت سے ہم سب کو فیض یاب فرمائے۔اٰمین
بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد عبد السلام عطاری(درجہ دورۂ حدیث جامعۃ المدینہ
فيضان عطار ناگپور ہند)

اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتاہے: وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ
الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43)دوسری جگہ ارشاد فرماتاہے: وَ الصّٰٓفّٰتِ صَفًّاۙ(۱) ترجمۂ کنز الایمان: قسم ان
کی کہ باقاعدہ صف باندھیں۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:1)یہاں صف باندھنے والوں کی قسم ارشاد فرمانے سے معلوم ہوا کہ صف
باندھنا بہت اہمیت و فضیلت کا باعث ہے اور میرے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے بھی ارشاد فرمایا کہ نمازِ باجماعت تنہا پڑھنے سے ستائیس درجے بڑھ کر ہے ۔
پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نمازِ
باجماعت سے محبت :اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی
ہیں: جب سرکار دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں سخت بیماری
حاضر خدمت تھی حضرت بلال رضی اللہ عنہ نماز کی اطلاع دینے کے لئے آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا : ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پھر جب ابوبکر رضی اللہ
عنہ نماز پڑھانے میں مشغول تھے اس دوران آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی
مبارک طبیعت میں کچھ بہتری محسوس فرمائی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
دو شخصوں کو سہارا دینے کی سعادت عطا فرماتے ہوئے مسجد کی طرف اس طرح تشریف لے گئے
کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک قدم زمین پر لگ رہے تھے۔ تو
ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک قدموں کی
آواز محسوس کی تو پیچھے ہٹنے لگے ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں
اشارہ فرمایا ( پیچھے نہ ہٹو ) پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ابوبکر صدیق
رضی اللہ عنہ کے بائیں جانب بیٹھ گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوکر
اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیٹھ کر نماز ادا فرما رہے تھے حضرت
ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اقتدا میں (پیچھے
نماز ادا ) کر رہے تھے اور لوگ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی اقتدا کر رہے تھے ۔ (
فیضان نماز ، ص 138)
پیارے و محترم
اسلامی بھائیو! اس واقعہ سے پیارے آقاصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نمازِ
باجماعت سے بہت زیادہ دلچسپی اور محبت کا اظہار ہوتا ہے کہ اتنی سخت بیماری کی
حاضری کے باوجود آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جماعت کا ترک گوارا نہ ہوا ۔
پیارے و محترم
اسلامی بھائیوں ! آئیے نمازِ باجماعت کے متعلق پانچ فرامین مصطفے صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم سنتے ہیں :
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: منافقین پر سب سے زیادہ بھاری عشا و فجر
کی نماز ہے اور جانتے کہ اس میں کیا ہے تو گھسیٹتے ہوئے آتے اور بیشک میں نے ارادہ
کیا کہ نماز قائم کرنے کا حکم دوں پھر کسی کو حکم فرماؤں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے
اور میں اپنے ہمراہ کچھ لوگوں کو جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہو ں ان کے پاس لےکر
جاؤں ،جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھر ان پر آگ سے جلادوں۔ (مسلم شریف،کتاب
المساجد و مواضع الصلاۃ،باب فضل صلاۃ الجماعۃ)
(2) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پر نورصلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اچھی طرح وضو کرکے مسجد کو جائے
اورلوگوں کو اس حالت میں پائے کہ وہ نماز پڑھ چکے ہیں تو اللہ پاک اسے بھی جماعت
سے نمازپڑھنے والوں کی مثل ثواب دے گا اور اُن کے ثواب سے کچھ کم نہ ہوگا۔ (ابو
داؤد، کتاب الصلاۃ، باب فیمن خرج یرید الصلاۃ فسبق بھا،1/234، حدیث: 564)
(3) حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کامل وضو کیا، پھر
نمازِ فرض کے لیے چلا اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھی تواس کے گناہ بخش دئیے جائیں
گے۔ (صحیح ابن خزیمہ،کتاب الامامۃ فی الصلاۃ،باب فضل المشی الی الجماعۃ
متوضیاً۔۔۔الخ،2/373،حدیث:1489)
(4) ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اگر یہ نماز جماعت سے پیچھے رہ جانے
والا جانتا کہ اس جانے والے کے لیے کیا ہے؟، تو گھسیٹتا ہوا حاضر ہوتا ۔
(5) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اللہ کے لئے چالیس دن باجماعت نماز پڑھے اور
تکبیر اولیٰ پائے ، اس کے لئے دو آزادیاں لکھ دی جائیں گی ، ایک نار سے ، دوسری
نفاق سے ۔
اللہ پاک ہمیں
باجماعت نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور دونوں جہاں کی بھلائیاں نصیب فرمائے۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مزّمِل حسین (درجۂ خامسہ،جامعۃُ المدینہ اشاعتُ
الاسلام، ملتان پاکستان)

باجماعت نماز پڑھنے کے بے شمار فضائل و برکات ہیں نماز کا
اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں تقریباً 700 سے زائد مقامات پر ذکر فرمایا: سورۃُ
البقرہ میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ:43)مفتی
احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ ”رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو“ کے تحت فرماتے
ہیں: اس سے مراد باجماعت نماز ادا کرنا ہے۔(تفسیر نعیمی، 1/292)
آئیں اس ضمن میں 5 فرامینِ مصطفےٰ پڑھتے ہیں:
(1)اللہ پاک کے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: صَلاَةُ الجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلاَةَ الفَذِّ بِسَبْعٍ
وَعِشْرِينَ دَرَجَةً یعنی باجماعت نماز تنہا نماز
پڑھنے سے ستائیس درجے افضل ہے۔(بخاری، 1/232، حدیث: 645)
(2)حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: جب بندہ باجماعت نماز پڑھے پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت (یعنی ضرورت) کا
سوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے لوٹ
جائے۔(حلیۃ الاولیاء،7/299،رقم:10591)
جماعت سے گر تو نمازیں پڑھے
گا
خدا تیرا دامن کرم سے بھرے گا
(3)حُضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: جس جگہ تین آدمی ہوں اور ان میں نماز جماعت سے قائم نہ کی جائے تو شیطان
ان پر غالب آ جاتا ہے لہٰذا جماعت کو لازم پکڑو۔(ابوداؤد،1/228،حدیث:547)
(4)اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے عشا کی نماز جماعت سے پڑھی تو گویا اس نے
آدھی رات عبادت کی اور جس نے فجر کی نماز بھی جماعت سے ادا کی تو گویا وہ پوری رات
نماز میں کھڑا رہا۔(مسلم،ص258،حدیث:1491)
(5)رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: مرد کا مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنا گھر اور بازار میں نماز پڑھنے سے
پچیس (25)درجے افضل ہے۔ (بخاری، 1 / 233، حدیث: 647)
ہماری جماعت کا حال: باجماعت نماز کے اس قدر فضائل و برکات
ہونے کے باوجود اب ہم سب کو خود پر غور کر لینا چاہئے کہ ہم کس قدر اور جماعت کی
کتنی پابندی کرتے ہیں !
اسلاف کی حالت:ہمارے اسلاف کی حالت تو یہ تھی کہ اگر ان کی
تکبیرِ تحریمہ فوت ہو جاتی تو تین دن تک اور جماعت فوت ہو جاتی تو اس کا سات دن تک
غم مناتے۔(فیضان نماز، ص145)
اللہ رب العزت ہم سب کو پانچوں نمازیں باجماعت مسجد میں ادا
کرنے کی توفیق و ہمت عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
بھائی مسجد میں جماعت سے
نمازیں پڑھ سدا
ہوں گے راضی مصطفٰے ہوجائےگا
راضی خدا

عاشقان
رسول کی دینی تحریک دعوت اسلامی کے زیر اہتمام پاکستان بھر میں ستمبر
2022ء میں ہونے والے اسلامی بہنوں کے آٹھ دینی کاموں کی ماہانہ
کارکردگی ایک نظر میں ملاحظہ ہوں:
انفرادی
کوشش کے ذریعے دینی ماحول سے منسلک ہونے والی اسلامی بہنوں کی تعداد: 4 ہزار 5
روزانہ
گھر درس دینے والی اسلامی بہنوں کی
تعداد:75 ہزار 885
مدنی
مذاکرہ سننے والی اسلامی بہنوں کی تعداد:97 ہزار 609
مدرسۃ المدینہ بالغات کی تعداد:5
ہزار 317
مدرستہ
المدینہ بالغات میں پڑھنے والیوں کی تعداد:62 ہزار 714
ہفتہ
وار سنتوں بھرے اجتماعات کی تعداد:9 ہزار
525
ان میں شرکت کرنے والی اسلامی بہنوں کی تعداد:3 لاکھ،80 ہزار 69
ہفتہ
وار علاقائی دورے میں شرکت کرنے والی اسلامی بہنوں کی تعداد:22 ہزار 736
ہفتہ
وار رسالہ پڑھنے / سننے والیاں:7 لاکھ ،964
وصول
ہونے والے نیک اعمال کے رسائل کی تعداد:65 ہزار23
قرآنِ کریم
میں ایمان والوں کے لیے 15 احکام از بنت امیر حیدر عطاریہ،سیالکوٹ

قرآن کریم میں قیامت تک درپیش آنے والے معاملات کے متعلق احکامات
موجود ہیں، قرآن پاک کے احکام پر عمل کرنا بے حد ضروری ہے، زندگی کے ہر ہر پہلو کے متعلق ہماری رہنمائی
کرتا ہے، اصطلاحِ شریعت میں ایمان عقائد کا نام ہے، جن کے اختیار کرنے سے انسان
دائمی عذاب سے بچ جاوے۔(علم قرآن : 38)
جبکہ اسلام کے معنی صلح کرنے کے ہیں، قرآن کریم میں یہ لفظ کبھی تو ایمان
کے معنی میں آتا اور کبھی اطاعت و فرمانبرداری کے لئے۔(علم قرآن : 43)
احکامِ قرآنیہ:
1:اے ایمان والو! اگر تم ایمان والو ہو تو اللہ سے ڈرو۔(پ 2، البقرہ:
276)
اس آیت میں ایمان کے ایک اہم تقاضے یعنی تقویٰ کا حکم دیا گیا ہے۔
2:اے ایمان والو! صبر کرو ۔(پ 3، آل عمران : 200)
صبر کے تحت اس کی تمام اقسام داخل ہیں، جیسے واجبات اور مستحبات کی
ادائیگی کی مشقت پر صبر، ممنوعات وغیرہ سے بچنے کی مشقت پر صبر۔
3:اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔(پ 4،
نساء: 59)یہاں آیت میں رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ رسول کی اطاعت
اللہ ہی کی اطاعت ہے۔
4:اے ایمان والو! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ ۔(پ 4،
نساء :144)
5:اے ایمان والو ! تمام عہد پورے کیا کرو ۔(پ 5، المائدہ : 1)عہد کو
پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اس سے مراد کون سے عہد ہیں، اس کے بارے میں مفسرین
کے چند اقوال ہیں۔
6:اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں کو حرام قرار نہ دو، جنہیں اللہ نے
تمہارے لئے حلال فرمایا ہے۔(پ 5،المائدہ : 87،88)
7:اے ایمان والو! حالت احرام میں شکار کو قتل نہ کرو۔(پ 5، المائدہ: 95)
8:اے ایمان والو! اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو۔( الاحزاب:41)اس آیت میں
ایمان والوں کو کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنے کی تعلیم دی گئی ۔
9:زکوۃ ادا کرو ۔(پ 1،البقرہ: 43)
10:اے ایمان والو! نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ۔(پ 4 نساء :
43)
11:میری ہی بندگی کرو۔( العنکبوت: 56)
12:اے ایمان والو! مرد دوسرے مرد پر نہ ہنسیں۔( الحجرات11)
13:اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں جگہ کشادہ کرو تو
جگہ کشادہ کر دو۔( المجادلہ 11)
14:اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو، جس کے بعد گناہ کی طرف
لوٹنا نہ ہو۔(پ 28، التحریم :8)
15:اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ،
جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔(پ 28، التحریم: 6)یعنی اے ایمان والو! اللہ اور
اس کے رسول کی فرمانبرداری اختیار کر کے، عبادتیں بجا لا کر ، اپنے گھر والوں اور
اپنی جانوں کو اس آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن پتھر ہیں۔
(نوٹ:آیات کی تفسیر تفسیرصراط الجنان سے لی گئی ہے)
اے عاشقانِ قرآن! اے قرآن کی
محبت کا دم بھرنے والو! اپنے ربّ کے احکامات پر دل و جان سے عمل پیرا ہو جاؤ، تاکہ
فلاح پا جاؤ ۔
اللہ پاک ہمیں عمل کرنے کی توفیق سے نوازے۔آمین

سورۃ البقرہ میں قرآن کریم کو متقین کے لئے ہدایت فرمایا گیا: هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ۙ (اس میں ہدایت ہے، ڈر
والوں کے لئے)
پھر متقین کی صفات کو بیان کرتے ہوئے پہلی صفت یوں ذکر فرمائی: الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ (وہ
جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں)۔
حاصل کلام یہ کہ قرآن کریم سے حقیقی ہدایت پانے والوں کی بنیادی صفت
ایمان ہے، قرآن کریم میں تقریباً 90 مقامات پر يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا کے معزز خطاب سے
نواز کر ایمان والوں کے لئے مختلف احکام بیان کئے گئے ہیں، زندگی کے مختلف پہلوؤں
کے لئے راہِ ہدایت فراہم کرتے چند قرآنی احکام ذکر کئے جاتے ہیں۔
1۔بنیادی عقائد:
ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو!ایمان رکھو اللہ اور اس کے رسول پر
اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری۔( نساء:آیت 136)اس آیت میں اجمالی طور
پر بنیادی عقائد کا ذکر ہے۔
2،3،4۔نماز کا حکم:
ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو!رکوع اور سجدہ کرو، اپنے ربّ کی بندگی
کرو اور بھلے کام کرو۔(الحج:1) اس آیت میں تین احکام کا ذکر ہے،٭ نماز پڑھو، ٭
اللہ پاک کی عبادت کرو، ٭نیک کام کرو۔
5۔راہِ خدا میں خرچ کرو:
ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو! اللہ کی راہ میں ہمارے دیئے میں سے
خرچ کرو۔(البقرہ: 254) مال کا فائدہ آخرت میں اسی صورت ہے، جب دنیا میں اسے نیک
کاموں میں خرچ کیا ہو۔
6۔تقوی
اختیار کرو:
ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو، جیسا اس سے ڈرنے کا حق
ہے اور ہرگز نہ مرنا، مگر مسلمان۔(آل عمران: 102)اس سے مراد یہ ہے کہ بقدرِ طاقت
اللہ پاک سے ڈرو ۔
7۔کثرتِ ذکر کا حکم:
ترجمہ کنزالایمان:اےایمان والو!اللہ کو بہت یاد کرو۔(الاحزاب:41)ذکر
میں کلمہ طیبہ کا ورد کرنا، اللہ تعالیٰ کی
حمد اور بڑائی بیان کرنا وغیرہ داخل ہیں، اللہ پاک کا ذکر کرنا اس کی رضا کے حصول
کا ذریعہ ہے، سکینہ نازل ہونے کا سبب ہے۔
8۔درود و سلام بھیجو:
ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔(الاحزاب:56)درود
پاک پڑھنا عظیم ترین سعادتوں اور بے شمار برکتوں کے حامل اور افضل ترین اعمال میں
سے ایک عمل ہے، فضائل درود پاک پڑھنے کے لئے آبِ کوثر کا مطالعہ کیجئے۔
9۔آدابِ مجلس:
ترجمہ کنزالایمان:اےایمان والو! جب تم سے کہا جائے مجلسوں میں جگہ دو
تو دو، اللہ تمہیں جگہ دے گا اور جب کہا جائے، اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوں۔(المجادلہ:11)مسلمان
کا اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی تعظیم کرنا اللہ پاک کو بہت پیارا ہے۔
10۔ہوشیار رہو:
ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو! ہوشیاری سے کام لو، پھر دشمن کی طرف
تھوڑے تھوڑے ہو کر نکلو یا اکٹھے چلو۔(سورہ نساء:71) اس آیت میں جنگی حکمتِ عملی
کا بیان ہے۔
11۔شراب اور جوا:
ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے
ناپاک ہی ہیں، شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا۔(المائدہ:90)یہاں
چار چیزوں سے بچنے کا حکم دیا گیا، شراب، جوا،بت، پانسے ڈالنا۔
12۔شیطان کی پیروی:
ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو! اسلام میں پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان
کے قدموں پر نہ چلو۔ (البقرہ:208)معلوم ہوا مسلمان کا دوسرے مذاہب کی رعایت کرنا شیطانی
دھوکا ہے۔ 13،14۔حلال و 13،14۔حرام نہ ٹھہرانا اور حد سے نہ
بڑھنا:
ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو! حرام نہ ٹھہراؤ، وہ ستھری چیزیں کہ
اللہ نے تمہارے لئے حلال کیں اور حد سے نہ بڑھو۔(المائدہ:81)حلال چیزوں کو حرام
قرار دینے سے ممانعت کے ساتھ اعتدال کا حکم دیا گیا۔
15۔آگے نہ بڑھو:
ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔(الحجرات:1)اس
آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب ﷺ کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے۔
سبحان اللہ!کیا خوبصورت تعلیمات ہیں، کہیں عقائد کا ذکر تو کہیں
عبادات کا بیان، کہیں تصوف کے نکات جلوے لٹا رہے ہیں تو کہیں جان و ایمان حبیب ﷺ کے ادب و احترام کا تذکرہ ہے، آدابِ معاشرت،
باہمی تعلقات، حلال و حرام الغرض کون سا شعبہ حیات ہے، جس میں قرآن کریم ہماری
رہنمائی نہ کرتا ہو۔
اللہ کریم ہم سب کو قرآن کریم کی سمجھ عطا فرمائے اور اس پر عمل کی
توفیق دے۔آمین
مزید معلومات کے لئےاے ایمان والو اورصراط الجنان کا مطالعہ کیجئے۔
نوٹ: تمام آیات کا ترجمہ کنزالایمان سے لیا گیا ہے اور تفسیری نکات
صراط الجنان موبائل ایپ سے لئے گئے ہیں۔

ایمان کے بعد اس پر عمل کرنا بھی اس کا تقاضا ہے، آپ یوں نہیں کہہ
سکتے کہ میں اللہ عزوجل پر ایمان لایا، مگر اس کے احکام پر عمل نہیں کروں گا، دیکھا
جائے تو اس کا دینی و دنیوی لحاظ سے بھی فائدہ ہے، دینی فائدہ یہ ہے کہ جب ان ایمانیات
و احکامات پر عمل کریں گے تو جو حضور ﷺ نے
بشارتیں سنائیں، وہ حاصل ہو سکیں گی، مثلا رضائے الہی، قربتِ مصطفیٰ ﷺ وغیرہ اور دنیوی فائدہ یہ ہوگا کہ جب آپ ایمان
کے تمام تقاضوں پر عمل پیرا ہوں گے تو لوگ آپ کو مسلمان ہونے کے ناطے آپ کی عزت
اور آپ کو مسلمانوں کی طرح دفن کریں گے، مرنے کے بعد۔
ایمان والوں کے لئے 15 احکامِ الہی:
1۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا
عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا0(پ22،الاحزاب:56)ترجمہ:اے
ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔
2۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا
اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ0( آل عمران:102) ترجمہ:اللہ سے ڈرو ،جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور
ہرگز نہ مرنا، مگر مسلمان۔
3۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا
اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ( الانفال: 20)ترجمہ:اللہ
اور اس کے رسول کا حکم مانو۔
4۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا
اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا١۫( آل عمران: 200)ترجمہ:صبر
کرو اور صبر کرنے میں دشمنوں سے آگے رہو۔
5۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا
اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ١ؕ۬ ( المائدہ:1)ترجمہ:اے ایمان
والو اپنے قول پورے کرو۔
6۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (النساء:29)ترجمہ:اے
ایمان والو!آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔
7۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِيْنَ
اَوْلِيَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ١ؕ(النساء:144)ترجمہ:اے
ایمان والو! کافروں کو دوست نہ بناؤ، مسلمانوں کے سوا۔
8۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤى
اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَ الْاَقْرَبِيْنَ١ۚ(النساء:135)ترجمہ:اے
ایمان والو! انصاف پر خوب قائم ہوجاؤ، اللہ کے لئے گواہی دیتے، چاہے اس میں تمہارا
اپنا نقصان ہو، ماں باپ کا یا رشتہ داروں کا۔
9۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا
اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ(المائدہ:35)ترجمہ:اے
ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔
10۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ
تَعْلَمُوْنَ0 (الانفال:27) ترجمہ:اے ایمان والو!اللہ اور رسول سے دغا نہ کرو اور
نہ اپنی امانتوں میں دانستہ خیانت کرو۔
11۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا١ؕ(آل عمران:118) ترجمہ: اے ایمان والو! غیروں کو اپنا رازدار نہ بناؤ،
وہ تمہاری برائی کرنے میں کمی نہیں کرتے۔
12۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا
تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ(المائدہ:87) ترجمہ:اےایمان والو! حرام نہ ٹھہراؤ وہ ستھری چیزیں کہ اللہ نے تمہارے لئے حلال کیں
اور حد سے نہ بڑھو۔
13۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ
عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰى ١ؕ(البقرہ: 178)ترجمہ:اے
ایمان والو! تم پر فرض ہے کہ جو ناحق مارے جائیں، ان کے خون کا بدلہ لو۔
14۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا
اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَيْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ
عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ0(المائدہ:90)ترجمہ:اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے
ناپاک ہی ہیں، شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا، تاکہ تم فلاح پاؤ۔
15۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا
اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ١ٞ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ
بَعْضًا١ؕ(الحجرات:12)ترجمہ:اے ایمان والو! بہت گمانوں سے بچو، بے شک کوئی
گمان گناہ ہو جاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔
قرآن کریم قیامت تک کے مسلمانوں، بلکہ تمام انسانیت کے لئے فلاح کا
راستہ ہے اور قرآن کریم میں اکثر مقامات پر اللہ عزوجل(يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا)سے ایمان والوں کو
مخاطب کرتے ہوئے انہیں مخصوص احکامات سے آگاہ کیا ہے، مذکورہ آیات کی روشنی میں سب
کی تفصیل ممکن نہیں ہے، چند پر عرض کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن میں بیان ہے کہ
اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اس آیت میں ان احکام پر عمل کا درس ہے، کیونکہ
نبی کریم ﷺ نے جو احکاماتِ الہی ہم تک
پہنچائے، ان میں بہت سی بشارتیں ہیں، جو کہ عمل کرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:حلال
روزی کمانے والا اللہ کا دوست ہے۔
لہذا حصولِ رزقِ حلال اللہ عزوجل کے قرب کا ذریعہ ہے اور صبر کا حکم
اللہ نے ہمیں دیا، تو اسی قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:کہ قیامت کے دن صبر کرنے
والوں کو بے حساب اجرو ثواب دیا جائے گا۔
تو ہم پر لازم ہے کہ اگر ہمیں جنت اور دنیاو آخرت کی بھلائیاں چاہئیں
تو پھر ان احکام پر عمل کریں، ورنہ تو فرشتے بھی اللہ عزوجل کی عبادت کے لئے کافی
تھے، لہذا ہمیں چاہئے کہ اپنا مقصدِ تخلیق یاد رکھیں اور خود اور دوسروں کو ایمان
کے بعد عمل کی تلقین کرتے رہیں اور غور کریں کہ آیا ہم ایمان کے بعد کتنا عمل کرتے
ہیں؟
قرآنِ کریم
میں ایمان والوں کے لیے 15 احکام از بنت محمد سلطان،واہ کینٹ

ایمان سے مراد ضروریاتِ دین کا اقرار کرنا اور حضور جانِ عالم ﷺ کواپنا حاکم اور خود کو آپ کا غلام تصورکرنا
ہے، جبکہ اسلام سے مراد فرما نبردار ہونا ہے، یعنی اللہ عزوجل اور اسکے حبیب علیہ
الصلوۃ والتسليم کے احکامات پر عمل کرنا ہے، گویا ایمان کا تعلق دل کے ماننے سے ہے
اور اسلام کا تعلق جسم کے ماننے سے ہے، جو شخص دل سے ایمان لے آیا، اس کے لیے ضروری
ہے کہ جسم سے اس کا اظہار بھی کرے کہ حدودُ اللہ سے تجاوز نہ کرے اور احکام پر عمل
پیرا ہوکر ربّ کی رضا حاصل کرے، جو اس کے برعکس ہے تو ربّ عزوجل اورحضور نبی کریم ﷺ کی ناراضی مول لے اور پھر انسان وہ ناراضی لے
کے جائے گا کہاں، اس کا فیصلہ خود کرلے، قرآن عظیم میں مؤمنوں کے لئے جو احکام
ارشاد فرمائے گئے، ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ درودو سلام:
قرآن کریم میں مؤمنوں کو اپنے شفیق آقا ﷺ پر درود اور خوب سلام پڑھنے کا حکم فرمایا گیا،
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا
تَسْلِيْمًا(الاحزاب:56) ترجمہ:اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔
2۔صبر اور نماز سے استعانت:
اے ایمان والو ! صبر اور نماز سے مدد طلب کرو۔(البقره : 153)حضور علیہ
السلام کو جب کوئی مشکل پیش آتی توآقاجان ﷺ نماز میں مشغول ہوجاتے۔(ابوداؤد، 52/2 ،حدیث1319
)
3۔روزے کا حکم:
اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کئے گئے۔(البقرہ : 183)روزے سے مراد
صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک خود کو کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے روکے رکھنا
ہے، اس کا حکم اس لئے دیا گیا کہ ایمان والے تقوی اختیار کریں اور پرہیزگار بن جائیں۔
4۔تقوى:
اے ایمان والو !الله سے ڈرو، جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے۔(آل عمران :
102) ایمان والوں کو ڈرنے اور گناہوں سے بچنے کا حکم دیا گیا،
5۔سودسے بچنے کا حکم:
سود حرامِ قطعی ہے اور مؤمنوں کو اس سے بچنے کاحکم دیا گیا،
اے ایمان والو! سود نہ کھاؤ۔(آل عمران :130)اس کو حلال جاننے والا
کافر ہے،آج کل معمولی باتوں میں بھی شرط لگا لی جاتی ہے، جس میں کئی صورتیں سود
اور رشوت کی بنتی ہیں، ان پر غور کرنا چا ہئے اور اسکاعلم حاصل کرنا چاہئے۔
6۔فضول سوالات سے بچنے کا حکم:
اے ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو، جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں
بری لگیں۔(المائده101)پیارے آقا صلی الله علیه وسلم نے فرمایا:بے شک تم سے پہلے
لوگ اپنے انبیاء سے ( غیر ضر وری ) سوالات کرنے اور اختلاف کرنے کی وجہ ہلاکت کا
شکار ہوئے۔(اربعین نووی، حدیث 59)
7۔شیطا ن کی پیروی سے ممانعت:
شیطان لعین مؤمنوں کا بدترین دشمن ہے، قرآن عظیم میں اس سے بچنے کا
حکم ہے،
اے ایمان والو! شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو۔(النور:21)
8،9۔مذاق اڑانے اور طعنہ زنی سے ممانعت:
فرمایا:اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں پر نہ ہنسیں۔
کچھ آگے چل کر فرمایا:آپس میں ایک دوسرے کو طعنہ نہ دو اور ایک دوسرے
کے برے نام نہ رکھو۔(الحجرات :11 )
10،11،12۔بدگمانی، تجسس اور غیبت کرنے کی ممانعت:
اے ایمان والو ! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو، بیشک کوئی گمان گناہ ہو
جا تا ہے اور (پوشیدہ باتوں کی)جستجو نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔(الحجرات:12)
13۔کافروں کی پیروی سے بچنے کا حکم:
نجات اسی میں ہے کہ اللہ عزوجل اور اس کے محبوب ﷺ کی پیروی کی جائے، نہ کہ کفار کی،
اے ایمان والو ! اگر تم کا فروں کے کہنے پر چلے تو وہ تمہیں الٹے
پاؤں پھیردیں گے، پھر تم نقصان اٹھا کر پلٹو گے۔(آل عمران: 149)
14،15۔طیب رزق کھانے اور شکر کا حکم:
فرمایا:اے ایمان والو!ہماری عطا کردہ ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا
شکر ادا کرو۔(البقرہ:172) اگر کوئی شخص نعمتوں کو باقی رکھنا چا ہتا ہے تو اسے
چاہئے کہ شکرادا کرے۔
تو اے مؤمنو! ربّ تعالیٰ کے
حکم کے آگے سرتسلیم خم کر دو، جیسے بڑوں نے کر دکھایا، پانچوں نمازوں میں صراط
مستقیم پر چلانے کی دعا مانگنے والو! صراطِ مستقیم یہی ہے، اے محبوبِ کریم ﷺ کی پیاری امت!اپنے پیارے ربّ عزوجل کی نافرمانی
کرکے اس کے پیارے محبوب ﷺ کے قلب منور و اطہر کو رنجیدہ نہ کرنا، اے ایمان
والو!اپنے پیدا کرنے والے کی رضا کی جستجو میں لگ جاؤ، بهلائی بھی پالو گے، نجات
بھی اور دائمی نعمتیں بھی۔

ایمان ایک ایسا قلعہ ہے جس میں داخل ہونے کے بعد انسان احکامات الہیہ
کا مکلف ہو جاتا ہے، ایمان اور احکامات الہیہ پر عمل لازم و ملزوم ہیں۔ ایمان کے
بغیر عمل کی کچھ وقعت نہیں اور عمل کے بغیر ایمان مکمل نہیں جیسا کہ منافقین کے ظاہری ایمان کے بارے میں فرمایا گیا :
قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا (الحجرات:14)ترجمہ :تم
فرماؤ تم ایمان تو نہیں لائے ہاں یوں کہو کہہ ہم فرمانبردار ہوئے
اسلام اور ایمان میں فرق :ایمان صرف زبانی اقرار کا نام نہیں بلکہ سچے دل سے ضروریات دین کی
تصدیق کا نام ہے (اے ایمان والوں :صفحہ
53)
اور ایمان کا لغوی معنی ہے اطاعت وفرمانبرداری ۔
لیکن شرعی طور پر ان میں کوئی فرق نہیں (تفسیر صراط الجنان ،جلد9
:449 )
اہلِ ایمان کے لیے یہ کتنی اعزاز جلیلہ کی بات ہے کہ قرآن کریم میں تقریبا 89 مقامات ایسے ہیں جہاں رب
تعالیٰ نےاحکام نازل فرمانے کے لیے مؤمنین
کو خصوصی کلمات يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا سے سرفراز فرما کر
مخاطب کیا۔۔۔ (اے ایمان والوں :صفحہ 65)جن میں سے 15درج ذیل ہیں:
(1-3)اللہ ورسول عزوجل وﷺاورحکمرانوں کی اطاعت کا حکم :
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا
الرَّسُوْلَ وَ اُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ١ۚ (النسا ء:59)ترجمہ کنز العرفان :اے ایمان والوں
اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں
(4-6) تقویٰ،وسیلہ اور جہاد کا حکم:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَيْهِ
الْوَسِيْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِيْ سَبِيْلِهٖ (المائدہ
:35)ترجمہ کنز العرفان : اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو
اور اس کی راہ میں جہاد کرو
(7-10) اللہ عزوجل،حضورﷺ،قرآن اور دیگر آسمانی کتاابوں پرایمان
لانے کا حکم:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
الْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِيْۤ اَنْزَلَ
مِنْ قَبْلُ١ؕ (النسا:136)ترجمہ کنزالعرفان:اے ایمان والوں اللہ اور اس کے رسول پر
اور اس کتاب پرجو اس نے اپنے رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو اس سے پہلے نازل کی ایمان رکھو۔
(11،12)آقا ﷺ پردرودوسلام
کاحکم:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا
تَسْلِيْمًا (الاحزاب :56)ترجمہ کنزالعرفان : اے ایمان والوں ان پر درود اور سلام
بھیجو
(13-15) نماز، عبادت و بھلائی کا حکم :
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا
رَبَّكُمْ وَ افْعَلُوا الْخَيْرَ (الحج :77) ترجمہ
کنزالعرفان : اے ایمان والوں رکوع اور
سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو اور اچھے کام کرو
مسلمانوں کو چاہئے کہ منافقین کا طرز عمل اختیار کرنے کی بجائے رب تعالیٰ کے اس فرمان : يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَآفَّةً١۪ کے تحت دامن اسلام کو مضبوطی
سے تھام کر اپنی زندگی کو اطاعت الہی و اطاعت رسول ﷺ کے سانچے میں ڈھال لیں ۔
اللہ کریم عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔اٰمین
قرآنِ کریم
میں ایمان والوں کے لیے 15 احکام از بنت ام سلمہ عطاریہ،ملیر

قرآن کریم ایک ایسا مکمل دستورِ حیات ہے جس کے
پاکیزہ احکامات پر عمل نہ صرف دنیا میں پرسکون زندگی اور پرامن معاشرے کا ضامن ہے،
بلکہ اخروی نجات و کامیابی کا سبب بھی ہے۔ یہ کلامِ پاک بطورِ خاص اہل ایمان کی
ہدایت اور اصلاح کا ذریعہ ہے کہ اس کی آیات سے حقیقی نفع ایمان والے ہی اٹھاتے ہیں
اور اسی لئے اللہ پاک نے قرآن کریم میں مسلمانوں کو اے ایمان والو! کے حسین انداز
سے مخاطب کرکے بہت سے احکامات سے نوازا ہے۔ اس خطاب کے ساتھ آیات کی کل تعداد 89
ہے، (اے ایمان والو ص 65 ملتقطا) جن میں سے 15 آیاتِ مبارکہ یہاں ذکر کی جاتی ہیں:
1_اے ایمان والو! صبر اور نمازسے مدد مانگو،
بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔ (پ 2، البقرۃ :153)
2_اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں
کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرواگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔ (پ 2، البقرۃ :172)
3_اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ
اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (پ 2، البقرۃ :208)
4_اے ایمان والو! ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے
اللہ کی راہ میں اس دن (قیامت) کے آنے سے پہلے خرچ کرلو۔ (پ 3، البقرۃ:254)
5_اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول
کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں۔ ( پ 5، النساء: 59)
یاد رہے کہ نبی کریم ﷺ کی
اطاعت و فرمانبرداری فرض ہے اور ’’اُولِی الْاَمْرِ‘‘ میں امام، امیر، بادشاہ،
حاکم، قاضی، علماء سب شامل ہیں، تاہم مسلمان حکمران اگر حق کے خلاف حکم دیں تو ان
کی اطاعت نہ کی جائے۔ (تفسیر صراط الجنان، النساء، تحت الآیۃ 59، ملتقطا)
6_اے ایمان والو! انصاف کے ساتھ گواہی دیتے
ہوئے اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ اور تمہیں کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے
کہ تم انصاف نہ کرو (بلکہ) انصاف کرو، یہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے
ڈرو، بیشک اللہ تمہارے تمام اعمال سے خبردار ہے۔ (پ 6، المائدۃ: 8)
7_اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ
بناؤ ، وہ (صرف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی
رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بیشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (پ 6،
المائدۃ :15)
8_اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ
قرار دوجنہیں اللہ نے تمہارے لئے حلال فرمایا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔ بیشک اللہ حد
سے بڑھنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔ (پ 7، المائدۃ: 87)
9_اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے
ساتھ ہوجاؤ۔ (پ 11، التوبۃ: 119)
(یعنی ان لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ جو ایمان میں
سچے ہیں ، مخلص ہیں ، رسولِ اکرم ﷺ کی اِخلاص
کے ساتھ تصدیق کرتے ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان، التوبۃ، تحت الآیۃ 119)
10_اے ایمان والو! شیطان کے قدموں کی پیروی
نہ کرواور جو شیطان کے قدموں کی پیروی کرتا ہے تو بیشک شیطان تو بے حیائی اور بُری
بات ہی کا حکم دے گا۔ (پ 18، النور: 21)
11_اے ایمان والو! ان (نبی) پر درود اور خوب
سلام بھیجو۔ (پ 22، الاحزاب:56)
12_اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں پر نہ
ہنسیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں پر
ہنسیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں کسی کو طعنہ نہ
دو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو۔ ( پ 26، الحجرات: 11)
13_اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے
بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور (پوشیدہ باتوں کی) جستجو نہ کرو اور ایک
دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت
کھائے۔ (پ 26، الحجرات: 12)
14_اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس
کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو۔ (پ 26، الحجرات: 6)
15_اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو
جس کے بعد گناہ کی طرف لوٹنا نہ ہو، قریب ہے کہ تمہارا رب تمہاری برائیاں تم سے
مٹا دے اور تمہیں ان باغوں میں داخل کر دے جن کے نیچے نہریں رواں ہیں جس دن اللہ
نبی اور ان لوگوں کو جو اُن کے ساتھ ایمان لائے رسوا نہ کرے گا۔ (پ 28، التحریم:
8)
اللہ پاک ہمیں قرآنی احکامات کے مطابق زندگی بسر
کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ