محمد افروز عالم (درجہ دورۂ حدیث جامعۃ المدینہ
فيضان عطار ناگپور ہند)
اللہ پاک نے کثرت سے نماز کا تذکرہ قراٰن شریف میں فرمایا
ہے،اسے باجماعت اور پابندی سے ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے
کہ اس معاملے میں سستی اور کوتاہی کرنا منافقین کی نشانی ہے،ایک جگہ اللہ پاک
فرماتا ہے کہ تمام نمازیں پابندی سے ادا کرو ، اور بالخصوص درمیانی نماز عصر کی
نماز اور تابع فرما ن بن کر اللہ کے سامنے کھڑے ہوجاو۔ دوسری جگہ حکم دیتاہے کہ : وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ
الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43)
ابو داود و ترمذی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے راوی، کہ
ایک صاحب مسجد میں حاضر ہوئے اس وقت کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز
پڑھ چکے تھے، فرمایا: ہے کوئی کہ اس پر صدقہ کرے (یعنی اس کے ساتھ نماز پڑھ لے کہ
اسے جماعت کا ثواب مل جائے) ایک صاحب (یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) نے ان کے
ساتھ نماز پڑھی۔( جامع الترمذی، أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في الجماعۃ)
طبرانی ابن عمر سے
اور ابو داود براء بن عازب رضی اللہ عنہم سے راوی، کہ فرماتے ہیں :اس قدم سے بڑھ
کر کسی قدم کا ثواب نہیں ، جو ا س لیے چلا کہ صف میں کشادگی کو بند کرے۔ اور بزار
باسناد حسن ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے راوی، کہ جو صف کی کشادگی بند کرے، اس کی
مغفرت ہو جائے گی۔( مسند البزار ، مسند أبي جحیفۃ، 10/159،حدیث : 4232 )
مسلم و ابو داود و ترمذی و نَسائی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے
راوی، کہ فرماتے ہیں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : مردوں کی سب صفوں میں بہتر
پہلی صف ہے اور سب میں کم تر پچھلی۔( صحیح مسلم ، کتاب الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف)
مسلم و ابو داود و
نَسائی و ابن ماجہ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے راوی، کہ حضور (صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ) فرماتے ہیں : کیوں نہیں اس طرح صف باندھتے ہو جیسے ملائکہ اپنے
ربّ کے حضور باندھتے ہیں ، عرض کی، یا رسول اللہ (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )
کس طرح ملائکہ اپنے ربّ کے حضور صف باندھتے ہیں ؟ فرمایا: اگلی صفیں پوری کرتے ہیں
اور صف میں مِل کر کھڑے ہوتے ہیں ۔ (صحیح مسلم ، کتاب الصلاۃ، باب الأمر، بالسکون
في الصلاۃ)
صحیح مسلم میں حضرت
عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ فرماتے ہیں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جس نے
باجماعت عشا کی نماز پڑھی، گویا آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر کی نماز جماعت سے
پڑھی، گویا پوری رات قیام کیا ۔( صحیح مسلم ، کتاب المساجد ۔۔۔ إلخ، باب فضل صلاۃ
العشاء)