اے عاشقانِ نماز! اللہ کریم کےہم پر بے شمار انعامات و اکرامات ہیں، انہی میں سے ایک عظیم الشان نعمت باجماعت نماز ادا کرنا بھی ہے، اللہ پاک کے فضل و کرم سے باجماعت نماز ادا کرنا بے شمار فوائد اور نیکیاں حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشادِ ربّ الانام ہے کہ:

وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ0(پ 1، البقرہ:43) ترجمہ کنزالعرفان:رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

یہاں رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو اس سے مراد یہ ہے کہ جماعت سے نماز ادا کرو۔

اس کے علاوہ بہت سی احادیث مبارکہ میں بھی نماز باجماعت کے کثیر فضائل و برکات بیان کیے گئے ہیں، ان میں سے پانچ درج ذیل ہیں۔

1۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے 27 درجہ فضیلت رکھتا ہے۔(صراط الجنان، جلد اول: 114)

جماعت سے گر تو نمازیں پڑھے گا

خدا تیرا دامن کرم سے بھرے گا(فیضان نماز:141)

2۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کی آخری نبی، محمد عربی ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے:جب بندہ باجماعت نماز پڑھے، پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت یعنی ضرورت کا سوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے لوٹ جائے۔(فیضان نماز:141)

اے عاشقانِ نماز!بے شک ہم اپنی حاجات پوری کرنے اور دیگر آزمائشوں اور مصیبتوں کو دور کرنے کے لئے صلوۃ الحاجات ادا کرتے اور بہت سے اوراد و وظائف پڑھتے ہیں، بے شک یہ اچھی بات ہے، مگر جماعت کے ساتھ فرض نماز ادا کرنے کے بعد اپنی حاجات کے لئے دعا کرنا بہترین عمل ہے۔

3۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت حمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض نماز کے لئے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔(صراط الجنان، جلد اول: 114)

خدا سب نمازیں پڑھوں باجماعت

کرم ہو پئے تاجدارِ رسالت

4۔فرمان مصطفیٰ ﷺ:مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے 25 درجے زائد ہے۔(فیضان نماز:141)

5۔حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:کہ اللہ عزوجل باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(پیارا)رکھتا ہے۔(فیضان نماز، صفحہ140)

بھائی مسجد میں جماعت سے نمازیں پڑھ سدا

ہوں گے راضی مصطفیٰ ہو جائے گا راضی خدا

اللہ کریم سب مسلمانوں کو جماعت کے ساتھ نمازیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین


نماز باجماعت پر پانچ فرامینِ مصطفےٰ ﷺ :

1۔ جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے (یعنی نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نماز ادا کی (یعنی جس نے فجر و عصر کی نماز پڑھی) وہ ہر گز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔ (مسلم ، ص250 ، حدیث : 1436)

2۔ جو صبح کی نماز پڑھتا ہے وہ شام تک اللہ پاک کے ذمے میں ہے۔ (معجم کبیر ، 12 / 240 ، حدیث13210) ایک دوسری روایت میں ہے : تم اللہ پاک کا ذمہ نہ توڑو جو اللہ پاک کا ذمہ توڑے گا اللہ پاک اسے اوندھا (یعنی الٹا) کرکے دوزخ میں ڈال دے گا۔ (مسندِ امام احمد بن حنبل ، 2 / 445 ، حدیث : 5905)

3۔ جمعہ کے دن پڑھی جانے والی فجر کی نمازِ باجماعت سے افضل کوئی نماز نہیں ہے ، میرا گمان (یعنی خیال) ہے تم میں سے جو اُس میں شریک ہوگا اُس کے گناہ مُعاف کر دیے جائیں گے۔ (معجم کبیر ، 1 / 156 ، حدیث366)

4۔ جو نمازِ عشا جماعت سے پڑھے گویا (یعنی جیسے) اُس نے آدھی رات قِیام کیا اور جو فجر جماعت سے پڑھے گویا (یعنی جیسے) اس نے پوری رات قیام کیا۔ (مسلم ، ص258 ، حدیث : 1491)

5۔ تم میں رات اور دن کے فرشتے باری باری آتے ہیں اور فجر و عصر کی نمازوں میں جمع ہوجاتے ہیں پھر وہ فرشتے جنہوں نے تم میں رات گزاری ہے وہ چلے جاتے ہیں ، اللہ پاک باخبر ہونے کے باوجود ان سے پوچھتا ہے : تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں : ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ (بخاری ، 1 / 203 ، حدیث : 555)

جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھنے کی وعیدیں:

1۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اذان کی آواز سنے اور بلا کسی عذر کے نماز کو نہ جائے (وہیں پڑھ لے) تو وہ نماز قبول نہیں ہوتی۔ حضرات صحابہ کرام نے عرض کیا کہ عذر سےکیا مرادہے؟ آپﷺ نےارشاد فرمایا: خوف یا مرض۔(ابوداؤد:551)

2۔ اِرشادِ نبوی ہے: سراسر ظلم، کفر اور نفاق ہے اس شخص کا فعل جو اللہ تعالیٰ کےمنادی (مؤذن) کی آواز سنے اور نماز کے لئےنہ جائے۔ (مسند احمد:15627)

نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ: میرا دل چاہتا ہے کہ میں چند نوجوانوں کو حکم دوں کہ وہ لکڑیاں جمع کرکے لائیں، پھر میں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو بلا عذر گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں اور جاکر ان کے گھروں آگ لگادوں۔ (ابوداؤد:548)

4۔نبی کریمﷺ کا اِرشاد ہے: جس گاؤں یا جنگل میں تین آدمی ہوں اور وہاں باجماعت نماز نہ ہوتی ہو تو ان پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے، اس لئے جماعت کو ضروری سمجھو کیونکہ بھیڑیا اکیلی بکری کو کھاجاتا ہے۔ (نسائی:847)

5۔ حضرت مجاہد فرماتےہیں: حضرت عبد اللہ بن عباس سے کسی نے پوچھا کہ ایک شخص دن بھر روزہ رکھتا ہے اور رات بھر نفلیں پڑھتا ہے لیکن جمعہ اور جماعت میں شریک نہیں ہوتا اس کے بارے میں کیاحکم ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ جہنمی ہے۔ (ترمذی:218)

رسول پاک صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا :جس کی نماز فوت ہوئی تو گویا اس کے اہل و مال جاتے رہے۔ (بخاری جلد ٢ صفحہ ١٠٥،بہار شریعت جلد ١ صفحہ ٤٤١) ایک اور حدیث میں ہے :جس کی نماز ِعصر جاتی رہی گویا اس کا گهر بار اور مال لٹ گیا ۔ (بخاری جلد 1 صفحہ 202 حدیث 552 مراة المناجیح جلد 1 صفحہ 38)

فرمان مصطفى صلی الله علیہ و سلم :نماز دین کا ستون ہے،جس نے نماز ترک کی اس نے دین کو گرا دیا۔(احیا ء العلوم جلد 1 صفحہ 201) اللہ تعالیٰ اپنے محبوب ﷺ کے صدقے ہم سب کو باجماعت نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے


باجماعت نماز کی فضیلت بہت زیادہ ہے حتّٰی کہ اگر دو آدمی بھی ہوں تو جماعت قائم کی جائے۔ ان میں ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی جیسا کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم نے ارشاد فرمایا : إِثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ’’دو یا دو کے اوپر جماعت ہے۔‘‘ (ابن ماجہ، السنن، کتاب إقامۃ الصلاة والسنۃ فيها، باب الاثنان جماعۃ، 1 : 522، رقم : 97 )

باجماعت نماز کی فضیلت کے حوالے سے حضور نبی اکرم کی چند احادیث درج ذیل ہیں :

صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِيْنَ دَرَجَةً.’’باجماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر ستائیس درجے فضیلت رکھتا ہے۔‘‘ (بخاری، الصحيح، کتاب الأذان،باب فضل صلاة الجماعۃ، 1 : 231، رقم : 619)

2 ۔ جب آدمی اچھی طرح وضو کر کے مسجد کی طرف جاتا ہے اور اس طرح جاتا ہے کہ نماز کے سوا کوئی دوسری چیز اسے نہیں لے جاتی تو وہ جو قدم بھی اٹھاتا ہے اس کے ذریعے اس کا ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ (کا بوجھ) ہلکا کیا جاتا ہے پھر جب وہ نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس پر اس وقت تک سلامتی بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ باوضو رہتا ہے اور اس کے لیے یہ دعا کرتے ہیں : اے اﷲ! اس پر سلامتی بھیج، اے اﷲ! اس پر رحم فرما۔ تم میں سے ہر ایک جب تک نماز کا انتظار کرتا ہے وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔(بخاری، الصحيح، کتاب الجماعۃ والإمامۃ، باب فضل صلاة الجماعۃ، 1 : 232، رقم : 620)

3۔جو اﷲ کے لیے چالیس دن نماز باجماعت ادا کرے اور تکبیر اولیٰ پائے اس کے لیے دو آزادیاں لکھ دی جائیں گی ایک دوزخ سے دوسری نفاق سے۔( ترمذی، الجامع الصحیح، ابواب الصلاة، باب فی فضل التکبیرة الاولیٰ ، 1 : 281، رقم : 241)

4۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں : جس کو یہ پسند ہو کہ وہ حالت اسلام میں کل (قیامت کے دن) اﷲ تعالیٰ سے کامل مومن کی حیثیت سے ملاقات کرے، اسے چاہئے کہ جس جگہ اذان دی جاتی ہے وہاں ان نمازوں کی حفاظت کرے (یعنی وہ نمازِ پنجگانہ باجماعت ادا کرے)۔ پھر حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما نے فرمایا :اگر تم منافقوں کی طرح بلاعذر مسجدوں کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے تو اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ بیٹھو گے اور اگر اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔‘‘ مسلم، الصحيح، کتاب المساجد و مواضع الصلاة، باب صلاة الجماعۃ من سنن الهدی، 1 : 452، رقم : 654 5

5۔حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہاری ایسی چیز کی طرف رہنمائی نہ کر دوں کہ اللہ اس کے ذریعے گناہوں کو مٹا دے اور درجات کو بلند کردے۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ ﷺ! فرمایا مشقّت کے باوجود مکمل وضو کرنا اور ایک نماز کےبعد دوسری کا انتظار کرنا اور مسجد کے دور ہونے کے باوجود مسجد میں ہی نماز پڑھنا۔ پس یہ تمہارے لیے نفس کو اللہ کی عبادت پر مجبور کرنا ہے۔ (اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے)


باجماعت نماز کی فضیلت بہت زیادہ ہے حتّٰی کہ اگر دو آدمی بھی ہوں تو جماعت قائم کی جائے۔ ان میں ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی جیسا کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم نے ارشاد فرمایا : إِثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ. ’’دو یا دو کے اوپر جماعت ہے‘‘ (ابن ماجہ، السنن، کتاب إقامۃ الصلاة والسنۃ فيها، باب الاثنان جماعۃ، 1 : 522، رقم : 972)

باجماعت نماز کی فضیلت کے حوالے سے حضور نبی اکرم کی چند احادیث درج ذیل ہیں :

صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِيْنَ دَرَجَةً. بخاری، الصحيح، کتاب الأذان، باب فضل صلاة الجماعة، 1 : 231، رقم : 619 ’’باجماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر ستائیس درجے فضیلت رکھتا ہے۔‘‘

2۔ جب آدمی اچھی طرح وضو کر کے مسجد کی طرف جاتا ہے اور اس طرح جاتا ہے کہ نماز کے سوا کوئی دوسری چیز اسے نہیں لے جاتی تو وہ جو قدم بھی اٹھاتا ہے اس کے ذریعے اس کا ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ (کا بوجھ) ہلکا کیا جاتا ہے پھر جب وہ نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس پر اس وقت تک سلامتی بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ باوضو رہتا ہے اور اس کے لیے یہ دعا کرتے ہیں : اے اﷲ! اس پر سلامتی بھیج، اے اﷲ! اس پر رحم فرما۔ تم میں سے ہر ایک جب تک نماز کا انتظار کرتا ہے وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔( بخاری، الصحيح، کتاب الجماعۃ والإمامۃ، باب فضل صلاة الجماعۃ، 1 : 232، رقم : 6203)۔

3۔ جو اﷲ کے لیے چالیس دن نماز باجماعت ادا کرے اور تکبیر اولیٰ پائے اس کے لیے دو آزادیاں لکھ دی جائیں گی ایک دوزخ سے دوسری نفاق سے۔( ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الصلاة، باب فی فضل التکبيرة الاولیٰ ، 1 : 281، رقم : 241 4)

4۔ جس کو یہ پسند ہو کہ وہ حالت اسلام میں کل (قیامت کے دن) اﷲ تعالیٰ سے کامل مومن کی حیثیت سے ملاقات کرے، اسے چاہئے کہ جس جگہ اذان دی جاتی ہے وہاں ان نمازوں کی حفاظت کرے (یعنی وہ نمازِ پنجگانہ باجماعت ادا کرے)۔ پھر حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : اگر تم منافقوں کی طرح بلاعذر مسجدوں کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے تو اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ بیٹھو گے اور اگر اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔مسلم


اللہ پاک کے فضل و کرم سے ہمیں جو بےشمار اِنعامات عطا ہوئے ہیں، اِنہیں انعامات میں سے نماز بھی بِلاشبہ ایک عظیم الشّان اِنعام ہے۔ اس میں اللہ پاک نے ہمارے لئے دونوں جہاں کی بھلائیاں رکھ دی ہیں۔ اسی طرح نمازِ باجماعت کی دولت بھی کوئی معمولی اِنعام نہیں، یہ بھی ہمارے لئے بے شُمار نیکیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

باجماعت نماز پڑھنے والا کتنا خوش نصیب ہے کہ اسے پچیس یا ستائیس گنازیادہ ثواب ملتا ہے۔ کسی دنیاوی غرض کے بغیر صرف نماز کی نیت سے مسجد کی طرف چلنے میں ہر قدم پر درجات کی بلندی اور گناہوں کی مغفرت جیسے عظیم انعامات ملتے ہیں، پھر جب تک نماز کے انتظار میں بیٹھا رہے، نماز ہی کا ثواب ملتا ہے اور معصوم فرشتے اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ اگر ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ ہمارے پاس جو مال ہے وہ اپنے شہر میں ایک روپے کا بِکے گا اور اگراسے سُمندر پار جا کر فروخت کریں تو 25یا27 روپے میں بِکے گا، تو شاید ہر شخص سمندر پار جا کر ہی اپنا مال فروخت کرے، کیونکہ25یا27 گنانفع چھوڑنا کوئی بھی گوارا نہیں کرے گا۔ مگر کس قدر حیرت کی بات ہے کہ گھر سے صِرف چند قدم چل کر مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے میں ایک نماز پر ستائیس نماز کا ثواب ملتا ہے، مگر پھر بھی بہت سے لوگ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے بجائے بِلاعذر گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہئے بلکہ حکمِ الٰہی کی اطاعت کرتے ہوئے مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنی چاہیے۔

باجماعت نماز کی فضیلت اور بلاعذرِ شرعی ترکِ جماعت کی وعید کا درج ذیل احادیث مبارکہ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

1_جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ (بخاری،کتاب الاذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ،1 / 232، الحدیث: 645)

2_ایک دن صبح کی نماز پڑھ کر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: فلاں حاضر ہے؟ لوگوں نے عرض کی، نہیں، فرمایا: فلاں حاضر ہے؟ لوگوں نے عرض کی، نہیں، فرمایا:یہ دونوں نمازیں منافقین پر بہت گراں ہیں، اگر جانتے کہ ان میں کیا (ثواب) ہے تو گھٹنوں کے بل گِھسٹتے آتے اور بے شک پہلی صف فرشتوں کی صف کے مثل ہے اور اگر تم جانتے کہ اس کی فضیلت کیا ہے تو اس کی طرف سبقت کرتے مرد کی ایک مرد کے ساتھ نماز بہ نسبت تنہا کے زیادہ پاکیزہ ہے اور دو کے ساتھ بہ نسبت ایک کے زیادہ اچھی اور جتنے زیادہ ہوں، ﷲ پاک کے نزدیک زیادہ محبوب ہیں۔ (سنن أبي داود، کتاب الصلاۃ، باب في فضل صلاۃ الجماعۃ، الحدیث : 554 ، ج 1 ، ص 230)

3_جو 40 دن اس طرح باجماعت نماز ادا کرے کہ اس کی تکبیرِ اولیٰ فوت نہ ہو تو اللہ کریم اس کیلئے دو براءَ تیں لکھ دیتا ہے، ایک آگ سے اور دوسری نفاق سے۔ (شعب الايمان للبيہقی، باب فی الصلوات، فصل فی الجماعۃ، الحديث:2882، ج 3، ص 61)

4_مرد کی باجماعت نماز کا ثواب اس کی گھر یا بازار میں پڑھی جانے والی نماز کے مقابلے میں بیس اور اس سے کچھ زیادہ درجے ہے اور یہ اس لئے ہے کہ جب ان میں سے کوئی اچھی طرح وضو کرکے صرف نماز ہی کی نِیَّت سے مسجد کی طرف چلتا ہے اور نماز کے علاوہ اس کاکوئی اور مقصد نہیں ہوتا تو مسجد میں پہنچنے تک ہر ہر قدم کے بدلے اس کا درجہ بلند ہوتا ہے اور ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے۔ مسجدمیں داخل ہونے کے بعد جب تک وہ نماز کے انتظار میں رہتا ہے، نماز ہی میں شمار ہوتا ہے اور جب تم میں سے کوئی شخص نماز کی جگہ بیٹھا رہتا ہے توجب تک کسی کو تکلیف نہ دے یا بےوضو نہ ہو تو فرشتے اس کے لئے رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں: یااللہ! اِس پر رحم فرما، یااللہ! اِسے بخش دے، یَااللہ! اِس کی توبہ قبول فرما۔ (مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل صلوۃ الجماعۃ وانتظار الصلاۃ، ص 333، حدیث:649)

5_منافقین پر سب نَمازوں سے بھاری فجر اور عشاء کی نَماز ہے، اگر جان لیتے کہ اِن دونوں نَماز وں میں کیا ہے تو ضرور حاضرہوتے اگرچہ گھسٹتے ہوئے آتےاور بیشک میں نے اِرادہ کیا کہ میں نَماز قائم کرنے کاحکم دوں اور کسی شخص کو نَماز پڑھانے پر مقرر کروں، پھر کچھ لوگو ں کو اپنے ساتھ چلنے کےلئے کہوں جو لکڑیاں اٹھائے ہوئے ہوں، پھر اُن لوگوں کی طرف جاؤں جو نَماز میں حاضر نہیں ہوتے اور اُن کے گھروں کو آگ سے جلا دوں۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب فضل العشاء فی الجماعۃ، 1 / 235، حدیث: 657)

اللہ پاک مسلمانوں کو پانچویں نمازیں باجماعت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین


زندگی آمد برائے بندگی

زندگی بے بندگی شرمندگی

اللہ پاک کی رحمت سے ہمیں بے شمار اِنعامات عنایت ہوئے ہیں، الحمداللہ ان میں سے نماز بھی ایک عظیم انعام ہے اور اسی طرح نماز کی جماعت کی دولت بھی کوئی معمولی انعام نہیں ، اللہ پاک کے فضل و کرَم سے یہ بھی بے شمار نیکیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ0(پ 1، البقرہ:43) ترجمہ کنز الایمان:اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

حضرت مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : اس (یعنی اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو) کا مطلب ہے کہ جماعت سے نماز پڑھو۔ کیونکہ جماعت کی نماز تنہا نماز پر ستائیس درجے افضل ہے۔(تفسیر نعیمی ج 1،ص330)

پیارے نبی کی آنکھ کی، ٹھنڈک نماز ہے

جنت میں لے چلے گی جو،بے شک نماز ہے

اب باجماعت نماز کی اہمیت پر فرامین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ملاحظہ فرمائیے:

اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب( یعنی پیارا) رکھتا ہے (مسند احمد بن حنبل ج 2 ص309 حدیث 5112)

جب بندہ باجماعت نماز پڑھے پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت کا سوال کرے تو اللہ پاک اس سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے واپس لوٹ جائے (حلیۃ الاولیاء ج 7 ص 299 حصہ 10591)

یا مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ ،گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے پچیس درجے زائد ہے۔(بخاری ج 1 ص 233،حدیث 647)

جس نے فجر کی نماز باجماعت پڑھی ،پھر بیٹھ کر اللہ پاک کا ذکر کرتا رہا یہاں تک کہ سورج نکل آیا اس کے لئے جنتُ الفِردوس میں ستر(70) درجے ہوں گے ، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہوگا جتنا ایک سدھایا ہوا (یعنیTrained)تیز رفتار عمدہ نسل کا گھوڑا ستر 70 سال میں طے کرتا ہے ، اور جس نے ظہر کی نماز باجماعت پڑھی اس کے لیے جناتِ عدن میں پچاس50 درجے ہوں گے، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہو گا جتنا سدھایا ہوا تیز رفتار عمدہ نسل کا گھوڑا پچاس 50 سال میں طے کرتا ہے، اور جس نے عصْر کی نماز باجماعت پڑھی اس کے لیے اولادِ إسماعيل میں سے ایسے آٹھ غلام آزاد کرنے کا ثواب ہو گا جو بہت اللہ کی دیکھ بھال کرنے والے ہوں ، اور جس نے مغرب کی نماز باجماعت پڑھی اس کے لیے حج مبرور اور مقبول عمرے کا ثواب ہو گا، اور جس نے عشاء کی نماز با جماعت پڑھی اس کے لیے ليلۃ القدْر میں قیام (یعنی عبادت) کرنے کے برابر ثواب ہو گا ۔(شعب الایمان ج 7 ص 137حدیث 9761)

نماز باجماعت تنہا نماز پڑھنے سے ستائیس درجے افضل ہے (بخاری ج 1، ص 232،حدیث 645)

اے عاشقان نماز! باجماعت نماز پڑھنے کے بے شمار فضائل ہیں اپنے اندر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے عاشق صادق امیر اہلسنت کی مایہ ناز تالیف فیضان نماز کا مطالعہ فرمائیے اور دوسروں کو بھی ترغیب دلائیے۔


نماز ہر مسلمان پر فرض ہے، اس کو پڑھنا دنیا و آخرت کی سعادتوں کا ذریعہ ہے اور چھوڑ دینا گناہِ کبیرہ اور دنیا و آخرت کی محرومیوں کا سبب ہے، اللہ عزوجل کے فضل و کرم سے جہاں ہمیں بے شمار انعامات عطا ہوئے ہیں، وہاں نماز بھی اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان انعام ہے، تحفہ معراج ہے، اس میں اللہ عزوجل نے دونوں جہانوں کی بھلائیاں رکھ دی ہیں، اسی طرح نماز با جماعت کی دولت بھی کوئی معمولی انعام نہیں، یہ بھی ہمارے لئے بے شمار نیکیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، قرآن پاک میں اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ0(پ 1، البقرہ:43) ترجمہ کنزالایمان:اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:اس(یعنی رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو) کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا کرو، کیونکہ جماعت کی نماز تنہا نماز پر ستائیس درجہ افضل ہے۔(تفسیر نعیمی ، ج 1،ص 330، فیضان نماز ،ص 138)

نماز با جماعت کی اہمیت: علامہ سید محمد احمد رضوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ہر عاقل، بالغ، آزاد اور قادر مسلمان پر جماعت سے نماز پڑھنا واجب ہے اور بلا عذر ایک بار بھی جماعت چھوڑنے والا گنہگار ہے اور کئی بار ترک فسق ہے ۔(فیوض الباری، ج 3، ص297، فیضان نماز، ص 140)

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:پرانے بزرگوں کے نزدیک نماز کی اس قدر اہمیت تھی کہ اگر ان میں سے کسی کی تکبیر اولیٰ فوت ہو جاتی تو تین دن تک اس کا افسوس کرتے رہتے اور اگر کسی کی جماعت کبھی فوت بھی ہو جاتی تو اس کا سات روز تک غم مناتے۔

میں ساتھ جماعت کے پڑھوں ساری نمازیں

اللہ! عبادت میں میرے دل کو لگا دے(وسائل بخشش)

پانچوں نمازیں با جماعت پڑھنے کی عظیم الشان فضلیت:

1: سرکار مدینہ نے حضرت عثمان سے فرمایا:جس نے فجر کی نماز با جماعت پڑھی، پھر بیٹھ کر اللہ پاک کا ذکر کرتا رہا، یہاں تک کہ سورج نکل آیا تو اس کے لئے جنت الفردوس میں 70 درجے ہونگے اور ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہو گا، جتنا ایک سدھایا ہوا تیز رفتار عمدہ نسل کا گھوڑا 70 سال میں طے کرتا ہے۔

2۔ جس نے ظہر کی نماز با جماعت پڑھی، اس کے لئے جناتِ عدن میں 50 درجے ہو نگے، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہو گا، جتنا ایک سدھایا ہوا تیز رفتار عمدہ نسل کا گھوڑا 50 سال میں طے کرتا ہے۔

3۔ جس نے نماز عصر با جماعت پڑھی، اس کے لئے اولادِ اسماعیل میں سے ایسے آٹھ غلام آزاد کرنے کا ثواب ہو گا، جو بیت اللہ کی دیکھ بھال کرنے والے ہوں۔

4۔ جس نے مغرب کی نماز با جماعت پڑھی، اس کے لئے حجِ مبرور اور مقبول عمرے کا ثواب ہو گا۔

5۔ جس نے عشاء کی نماز با جماعت پڑھی، اس کے لئے لیلۃ القدر میں قیام(یعنی عبادت) کرنے کے برابر ثواب ہو گا۔(شعب الایمان،ج7،ص137،حدیث 976، فیضان نماز ،ص 149۔150)

نماز با جماعت کی فضیلت و وعید پر 5 فرامینِ مصطفیٰ ﷺ :

احادیث مبارکہ میں بھی نماز با جماعت کے فضائل بیان کئے گئے ہیں، جو درج ذیل ہیں۔

1: مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ ،گھر اور بازار میں پڑھنے میں 25 درجے زائد ہے۔(بخاری ،ج 1،ص 233 ،حدیث 647، فیضان نماز، ص 141)

2: نماز با جماعت تنہا پڑھنے سے سے 27 درجے بڑھ کر ہے۔(بخاری،ج 1، ص 232 ،حدیث 645، فیضان نماز ، ص 141)

3: جس نے کامل وضو کیا اور کسی فرض نماز کی ادائیگی کے لئے چلا اور نماز با جماعت ادا کی تو اس کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔(نماز با جماعت کے فضائل،ص 16)

4: لوگ ترک جماعت سے ضرور باز آجائیں یا اللہ پاک ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا، پھر وہ غافلوں میں سے ہو جائیں گے۔(ابن ماجہ ، کتاب المساجد، باب التغلیظ فی التخلف عن الجماعۃ ، ص 135 ، حدیث794 ،دارالکتب العلمیہ، ظاہری گناہوں کی معلومات ، ص 15)

5: کسی گاؤں یا بادبہ میں تین شخص ہوں اور نماز قائم نہ کی گئی، مگر ان پر شیطان مسلط ہو گیا تو جماعت کو لازم جانو کہ بھیڑیا اس بکری کو کھاتا ہے، جو ریوڑ سے دور ہو۔(احمد، فیضان سنت، باب جماعت کے فضائل ، ص 101)

جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھنے کے متعلق احکام:

1:ترکِ جماعت بلا عذر (کسی مجبوری کے بغیر) چھوڑ دینا گناہ ہےاور کئی بار ہو تو سخت حرام و گناہ کبیرہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔(فتاویٰ رضویہ 768/10 ملتقظاً، ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 14)

2: جب تک شرعی مجبوری نہ ہو تو اس وقت تک مسجد کی جماعت اولیٰ لینا واجب ہے۔ (فیضان سنت،ص 777)

3: عورتوں کو کسی نماز میں جماعت کی حاضری جائز نہیں۔(درمختار ، کتاب الصلوۃ باب الامانۃ ، ص 77، دارالکتب العلمیہ بیروت، ظاہری گناہوں کی معلومات ، ص 15)

جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھنے کے گناہ میں مبتلا ہونے کے اسباب و علاج:

سستی و کاہلی ، مال و دولت کی حرص، لہو ولعب اور فضول کاموں میں کثرت کے ساتھ مشغولیت ، رات دیر تک جاگنا، اگر ہم جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی فضیلت کو پیشِ نظر رکھیں، احادیث مبارکہ کا مطالعہ کریں، ترکِ جماعت کی وعیدوں کا مطالعہ کریں تو یقیناً سستی و کاہلی ختم ہو جائے گی، مال و دولت کی خاطر نماز چھوڑنا عقلمندی نہیں، کیونکہ جو رزق قسمت میں ہوتا ہے، وہ مل جاتا ہے، چنانچہ مال جمع کرنے کی حرص میں جماعت گزار دینے میں نقصان ہے، جہاں نماز با جماعت پڑھنے کے فضائل ہیں، وہاں ترک کے لئے بھی وعیدیں ہیں۔

اس لئے سستی و غفلت کی وجہ سے جماعت ضائع کرنا عقلمندی نہیں ہے، بلکہ ڈھیروں ثواب سے محرومی ہے، ہمارے بزرگانِ دین بھی جماعت کے ترک پر غمگین ہو جاتے تھے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اگر جماعت نکل جاتی تو غمگین ہو جاتے اور ساری رات جاگ کر گزار دیتے، ایک بار جماعت فوت ہو گئی تو اس کے کفارے میں اس قدر مال صدقہ کیا کہ اس کی مجموعی مالیت دو لاکھ درہم بنتی تھی۔

کاش! ہمیں بھی نماز کی فکر اور ترک پر افسوس نصیب ہو جائے، جماعت سے نماز پڑھنا آقا ﷺ کی سنت ہے، اسے ترک کرنے والے کے گمراہ ہو جانے کا اندیشہ ہے، کاش! نمازوں میں ہونے والی سستی ختم ہو جائے۔

اے میرے پیارے اللہ ! تمام مسلمانوں کو ہر حال میں صفوں کی درستی کے ساتھ با جماعت نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہماری ٹوٹی پھوٹی نمازیں قبول فرما کر ہمیں تیری پسند کی نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین بجاہ النبی الامین ﷺ ۔

میں پانچوں نمازیں پڑھوں با جماعت

ہو توفیق ایسی عطا یا الہی


علامہ سید محمود احمد رضوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ہر عاقل، بالغ، آزاد اور قادر مسلمان مرد پر نماز باجماعت ادا کرنا واجب ہے اور بلا عذر ایک بار بھی چھوڑنے والا گنہگار ہے اور کئی بار ترک فسق ہے، بلکہ ایک جماعت علماء جن میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں، وہ جماعت کو فرضِ عین قرار دیتے ہیں، اگر فرض عین نہ مانا جائے تو اس کے بعد واجب و ضروری ہونے میں تو شبہ ہی نہیں۔

حضور سید عالم ﷺ کا عمومی عمل یہ ہی تھا کہ آپ فرض نمازیں باجماعت ادا فرماتے تھے، اِلَّا(یعنی مگر) یہ کہ کوئی مجبوری پیش آجاتی۔(فیضان نماز، صفحہ140)

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ اللہ عزوجل باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(پیارا)رکھتا ہے۔

2۔ مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے 25 درجہ زائد ہے۔(فیضان نماز، صفحہ 141)

3۔ نماز باجماعت تنہا پڑھنے سے 27 درجہ افضل ہے۔

4۔ جب بندہ باجماعت نماز پڑھے، پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت یعنی ضرورت کا سوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے لوٹ جائے۔

5۔رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ سے فرمایا:اے عثمان! جو شخص فجر کی نماز باجماعت ادا کرے، پھر طلوعِ آفتاب تک اللہ کا ذکر کرتا رہے، اس کے لئے حج مبرور اور مقبول عمرہ کا ثواب ہے۔ (فیضان نماز، ص152)

اے عاشقانِ رسول!اس حدیث پاک زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانو کے مطابق اپنی زندگی سے پورا پورا فائدہ اٹھا کر جتنا ہو سکے باجماعت نماز ادا کر کے ہمیں زیادہ سے زیادہ ثواب کا ذخیرہ کر لینا چاہئے، ورنہ یاد رکھئے! مرنے کے بعد جماعت کا ثواب لوٹنے کا موقع نہیں مل سکے گا اور اپنی غفلت بھری زندگی پر بے حد ندامت ہو گی، ایک بزرگ فرماتے ہیں:میں امام کے ساتھ باجماعت نماز پڑھوں اور امام نماز میں یہ ایک آیت پڑھے: هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ الْغَاشِيَةِؕ0(پ 30،الغاشیۃ:1)ترجمہ کنز الایمان:بے شک تمہارے پاس اس مصیبت کی خبر آئی جو چھا جائے گی۔

میرے نزدیک اپنی اکیلی نماز میں سو آیتیں پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے۔

اللہ عزوجل ہمیں بھی باجماعت نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


1۔آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:تنہا نماز پڑھنے سے نماز باجماعت کو ستائیس درجہ فضیلت حاصل ہے۔(بخاری، کتاب الاذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ، حدیث 645)

2۔آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:جو عشاء کی جماعت میں حاضر ہوا، پس گویا اس نے آدھی رات عبادت میں گزاری۔(مسلم، کتاب المساجد، باب فضل صلاۃ الجماعۃ، حدیث 251)

3۔آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:جو صبح کی جماعت میں شامل ہوا، گویا اس نے ساری رات عبادت میں گزاری۔(مسلم، کتاب المساجد، باب فضل صلاۃ الجماعۃ، حدیث 251)

4۔آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:جس نے نماز باجماعت ادا کی، پس گویا اس نے اپنے سینے کو عبادت سے بھر لیا۔(حلیۃ ال اولیٰ اء تکملۃ کعب الاخبار6/35، حدیث 7704)

5۔آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:جس نے چالیس دن تمام نمازیں باجماعت ادا کیں اور اس کی تکبیر تحریمہ فوت نہیں ہوئی، اللہ اس کی خاطر دو برائتیں لکھ دیتا ہے، نفاق سے براءت، دوسری جہنم سے براءت۔ (ترمذی، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی فضل التکبیرۃ ال اولیٰ 1/274، حدیث 241)


قال اللہ تبارک و تعالیٰ : وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ(پ1،البقرۃ:43)ترجمہ:اور نماز قائم رکھو۔

تفسیر صراط الجنان:

جس طرح مسلمان اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اسی طرح تم بھی اپنے مالوں کی زکوٰۃ دو اور میرے حبیب ﷺ کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرو۔

اس آیت مبارکہ میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی ترغیب بھی ہے اور احادیث میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے کثیر فضائل بیان کئے گئے ہیں، ، چنانچہ

1۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے 27 درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔(بخاری، کتاب الاذان، باب فصل صلاۃ الجماعۃ:222، الحدیث645)

2۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت حمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض نماز کے لئے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔(شعب الایمان، باب العشرون شعب الایمان و سہو باب فی الطیارۃ، 9/3،الحدیث2727)

3۔ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور، دو جہاں کے تاجدار ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ عزوجل باجماعت نماز پڑھنے والوں سے خوش ہوتا ہے۔(مسند احمد، مسند عبداللہ بن عمر بن الخطاب، رقم5112،ج 2،ص309)

4۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین، رحمۃ اللعالمین ﷺ نے فرمایا؛جو اللہ عزوجل کی رضا کے لئے چالیس دن باجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز پڑھے گا، اس کے لئے دو آزادیاں لکھی جائیں گی، ایک جہنم سے دوسری نفاق سے۔(سنن ترمذی، ابواب الصلوة، باب ما جاء فی فضل الکبرة اولیٰ ، رقم 241، ج1، ص 274)

5۔ حضرت ثابت بن اشیم اللیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور ﷺ نے فرمایا؛دو شخصوں کا اس طرح نماز پڑھنا کہ ان میں سے ایک امام بنے، اللہ عزوجل کے نزدیک چار افراد کے علیحدہ علیحدہ نماز پڑھنے سے زیادہ پسندیدہ ہے اور چار کا باجماعت نماز پڑھنا آئمہ افراد کے الگ الگ نماز پڑھنے سے افضل ہے اور آٹھ افراد کا باجماعت نماز پڑھنا سو افراد کے تنہا نماز پڑھنے سے افضل ہے۔(طبرانی کبیر، رقم73، ج 19،ص36)

بزرگانِ دین کے نزدیک باجماعت نماز ادا کرنے کی اہمیت:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک باغ کی طرف تشریف لے گئے، جب واپس ہوئے تو لوگ نماز عصر ادا کر چکے تھے، یہ دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ نے إِنَّا لِلهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ پڑھا اور ارشاد فرمایا:میری عصر کی جماعت فوت ہوگئی ہے، لہٰذا میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میرا باغ مساکین پر صدقہ ہے، تاکہ اس کا کفارہ ہوجائے۔ حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ایک مرتبہ میری باجماعت نماز فوت ہوگئی تو حضرت ابو اسحاق بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ کسی نے میری تعزیت نہ کی اور اگر میرا بچہ فوت ہو جاتا ہے تو دس ہزار سے زیادہ افراد مجھ سے تعزیت کرتے، کیونکہ لوگوں کے نزدیک دینی نقصان دنیوی نقصان سے کم تر ہے۔

٭وضو سے شکل، قرآن سے عقل اور نماز سے نسل پاک ہوتی ہے۔

اللہ کریم ہم سب کو نمازی بنا ئے، تمام اسلامی بھائیوں کو باجماعت نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا ربّ العالمین


(1) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ تنہا نماز پڑھنے سے نماز باجماعت کو ستائیس دَرَجے فضیلت حاصل ہے۔ (بخاری،کتاب الأذان ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ ،1/232، حدیث 645)

(2)حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بعض لوگوں کو چند نمازوں میں جماعت میں نہ دیکھ کر فرمایا: میرا یہ اِرادہ ہوا کہ میں کسی آدمی کو نماز پڑھانے کا حکم دوں اور میں ان لوگوں کے یہاں جاؤں جو جماعت سے رہ گئے ہیں اور ان کو اور ان کے گھروں کو جلادوں ۔ (مسند أبی داود الطیالسی، ص42، حدیث 316)

(3)دوسری روایت میں ہے کہ پھر میں ان لوگوں کے گھروں کو لکڑیوں کے گٹھوں کے ساتھ ان پر جلانے کا حکم دوں جو جماعت میں شریک نہیں ہوئے، اگر ان میں سے کسی کو علم ہوتا کہ موٹی ہڈی یا جانور کے دوہاتھ (جماعت میں شریک ہونے سے) ملیں گے تو وہ ضرور جماعت میں شامل ہوتے۔(مسلم،کتاب المساجد۔۔الخ،باب فضل صلاۃ الجماعۃ۔۔الخ،ص327، حدیث:651)

(4)حضرتِ عثمان رضی اللہُ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جو عشاء کی جماعت میں حاضر ہوا پس گویا اس نے آدھی رات عبادت میں گزاری اور جو صبح کی جماعت میں بھی شامل ہوا گویا اس نے ساری رات عبادت میں گزاری۔ (مسلم،کتاب المساجد۔۔۔الخ ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ۔۔۔الخ ،ص 329، حدیث:656)

(5) رسولِ اَکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اِرشاد ہے کہ جس نے نماز باجماعت ادا کی پس گویا اس نے اپنے سینے کو عبادت سے بھر لیا۔ (حلیۃ الاولیاء ، تکملۃ کعب الاحبار ، 6/30 ، حدیث:7704 )


الله پاک کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے کئی ذرائع ہیں ۔ جن میں سے ایک نماز بھی ہے اور نماز نمازِ با جماعت ہو۔ اس کی اہمیت اور تاکید قراٰنِ مجید اور کئی احادیث مبارکہ میں واضح ہے۔ چنانچہ نماز با جماعت الله پاک کے پیارے کلام قراٰن مجید کے ذریعے ثابت ہونے والے حکم پر اور احادیث طیبہ پر عمل پیرا ہونے کا ایک عظیم ذریعہ ہے ۔ الله پاک قراٰن مجید سورۃُ البقرہ کی آیت نمبر 43 میں ارشاد فرماتا ہے : وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43) حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس ( یعنی اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو) کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا کرو، کیونکہ جماعت کی نما ز تنہا نماز پرستائیس درجے افضل ہے۔(تفسیر نعیمی، 1/330)

بیان کردہ آیت میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی ترغیب ہے اور احادیث طیبہ میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے کثیر فضائل وارد ہوئے ہیں ۔ نمازِ با جماعت وہ عظیم عبادت ہے کہ جو گناہوں کی بخشش کا سبب ہے ۔ چنانچہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت حمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض نماز کے لیے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (شعب الایمان، باب العشرون من شعب الایمان وہو باب فی الطہارۃ، 3/9، حدیث: 2727)

غور کیجیے کہ اللہ پاک جماعت سے نماز پڑھنے والے کے گناہوں کو معاف فرما دیتا۔ نماز با جماعت وہ خوبصورت عبادت ہے کہ جس کے کرنے سے ( یعنی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے ) اُس کے کرنے والے کو اللہ پاک اپنا محبوب یعنی پیارا بنا رہتا ہے۔ چنانچہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو جہاں کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(یعنی پیارا) رکھتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، 2/309 ،حدیث:5112)

سبحان الله ! آج ہم تمنا کرتے ہیں کہ اللہ پاک ہم سے راضی ہو جائے ۔ لیکن اللہ پاک کے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اللہ پاک کو راضی کرنے اور اس کا پیارا بننے کا ذریعہ بتا دیا ۔ وہ ذریعہ نمازِ با جماعت ہے۔

حضرت سیِّدُنا ابو سعید خدرِی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ پاک کے آخری رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے: جب بندہ باجماعت نماز پڑھے پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت(یعنی ضرورت) کا سُوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے واپس لوٹ جائے۔ (حلیۃ الاولیاء، 7/299،حدیث: 10591)

اے عاشقان نماز ! بے شک حاجت پوری ہونے کے لیے صلاۃ الحاجات پڑھنا اور دیگر اوراد وظائف کرنا بہت اچھی بات ہے مگر جماعت سے نماز فرض ادا کر کے اپنی حاجت کے لیے دعا مانگنا یہ بہترین عمل ہے ۔ کیونکہ صلا ۃ الحاجات واجب نہیں مگر جماعت سے فرض نماز پڑھنا واجب ہے۔

علامہ سیِّد محمود احمد رضوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :ہر عاقل، بالغ ،حُر(یعنی آزاد) اور قادِر(یعنی جو قدرَت رکھتا ہو) مسلمان (مرد)پر جماعت سے نماز پڑھنا واجب ہے اور بلا عذر(یعنی بغیر کسی مجبوری کے) ایک بار بھی جماعت چھوڑنے والا گنہگارہے اور کئی بار ترک فسق ہے حضور سیِّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا عُمومی عمل یہ ہی تھا کہ آپ فرض نمازیں باجماعت ادا فرماتے اِلَّا (یعنی مگر) یہ کہ کوئی مجبوری پیش آجاتی۔(فیوض الباری ج ۳ص ۲۹۷ بتغیر قلیل)

لہذا ! ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اوپر غور کرنا چاہیے اور نمازِ با جماعت کی پابندی کرنی چاہیے ۔ اللہ پاک ہمیں نمازِ با جماعت کی تو فیق عطا فرمائے۔ اٰمین