ٓپ  علیہ السلام کا اسم گرامی شعیب ہے اور حسن بیان کی وجہ سے آپ کو خطیب الانبیاء کہا جاتا ہے امام ترمذی رحمت اللہ علیہ لکھتے ہیں حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب حضرت شعیب علیہ السلام کا تذکرہ کرتے تو فرماتے وہ خطیب الانبیاء تھے کیونکہ انہوں نے اپنی قوم کو انتہائی احسن طریقے سے دعوت دی اور دعوت دینے میں لطف و مہربانی اور نرمی کو بطور خاص پیش نظر رکھا۔

خطیب الانبیاء حضرت شعیب علیہ السلام اللہ تعالی کے برگزیدہ رسول حضرت موسی کلیم اللہ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کے صہری والد اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے تھے آپ علیہ السلام مدین شہر میں رہتے تھے یہاں کے لوگ کفروشرک بت پرستی اور تجارت میں ناپ تول میں کمی کرنے جیسے بڑے گناہوں میں مبتلا تھے ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو مقرر فرمایا آپ علیہ السلام نے انہیں احسن انداز میں توحیدو رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی اور ناپ تول میں کمی کرنے اور دیگر حقوق العباد تلف کرنے سے منع کیا

ترجمہ کنز الایمان 1: تو شعیب نے ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہارے بھلے کو نصیحت کی تو کیونکہ غم کرو کافروں کا ۔ (سورۃ الاعراف ایات نمبر 84 )

ترجمہ کنز الایمان2: اور مدین کی طرف ان کے ہم کو شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بے شک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے(سورۃ العٰدیٰت نمبر 84 )

ترجمہ کنز الایمان 3: مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا تو اس نے فرمایا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اور پچھلے دن کی امید رکھو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں زلزلے نےآلیا تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے ۔ (سورۃ عنکبوت آیات 29)

ترجمہ کنز الایمان 4: اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔ ( سورۃ الاعراف آیات نمبر 85 )

ترجمہ کنز الایمان 5: اور اے میری قوم تمہیں میری ضد یہ نہ کموا دے کہ تم پر پڑے جو پڑا تھا نوح کی قوم یا ہود کی قوم یاصالح کی قوم پر اور لوط کی قوم تو کچھ تم سے دور نہیں۔ (سورۃ ھود آیت نمبر 89)


آپ  علیہ السلام کا اسم گرامی شعیب ہے اورحسن بیان کی وجہ سے آپ کو خطیب انبیاء کہا جاتا ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم جب حضرت شعیب علیہ الصلاۃ والسلام کا تذکرہ کرتے تو فرماتے وہ خطیب انبیاء تھے کیونکہ انہوں نے اپنی قوم کو انتہائی احسن طریقے سے دعوت دینے میں لطف و مہربانی اور نرمی کو بطور خاص پیش نظر رکھا آپ علیہ الصلوۃ والسلام اپنی قوم میں انتہائی امانت دار شخص کی حیثیت سے معروف تھےاسی لیے توحید رسالت کی دعوت دیتے وقت قوم سے فرمایا : ترجمہ کنز الایمان:بے شک میں تمہارے لیے امانت دار اور رسول ہوں۔

نبوت رسالت وہ انعام الہی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں اللہ تعالی نے حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کواس عظیم انعام سے مشرف فرمایا معجزات سے نوازا اور اپنی رحمت سے آپ علیہ الصلوۃ والسلام اور اہل ایمان کو دنیاوی عذاب سے محفوظ رکھا۔

(1) اللہ تعالی کی عبادت کرو : ترجمہ کنز العرفان : اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا انہوں نے کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ناپ تول میں کمی نہ کرو بے شک میں تمہیں خوشحال دیکھ رہا ہوں بے شک مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کےعذاب کا ڈر ہے. ( تفسیر صراط الجنان جلد : 4 ،پارہ : 12 ،سورہ ھود آیت نمبر: 84 ، صفحہ : 479 )

(2) ناپ تول میں کمی نہ کرو :ترجمہ کنز العرفان :اے میری قوم انصاف کے ساتھ ناپ تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو اللہ کا دیا ہوا جو بچ جائے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو اور میں تم پر نگہبان نہیں۔ (تفسیر صراط الجنان،جلد: 4 ، سورہ ھود آیت نمبر 86،صفحہ: 481)

(3) آخرت کی تیاری کرو :ترجمہ کنز العرفان : مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا اس نے فرمایا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اور آخرت کے دن کی امید رکھو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں زلزلے نے آ لیا تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے۔

تفسیر :

اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم آپ حضرت شعیب علیہ الصلاۃ والسلام کو یاد کریں جنہیں ہم نے ان کے ہم قوم مدین والوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا تو انہوں نے دین کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا اے میری قوم صرف اللہ تعالی کی بندگی کرو اور قیامت کے دن سے ڈرتے ہوئے ایسے افعال بجا لاؤ جو آخرت میں ثواب ملنے اور عذاب سے نجات حاصل ہونے کا باعث ہوں اور تم ناپ تول میں کمی کر کے مدین کی سرزمین میں فساد پھلاتے نہ پھرو تو ان لوگوں نے حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کو جھٹلایا اور اپنے فساد سے باز نہ آئے تو انہیں زلزلے کی صورت میں اللہ تعالی کے عذاب میں آلیا یہاں تک کہ ان کے گھر ان کے اوپر گر گئے اور صبح تک ان کا حال یہ ہو گیا کہ وہ اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل مردے بے جان پڑے رہ گئے۔(صراط الجنان جلد:7، پارہ :20 ،سورہ العنکبوت ،آیت نمبر : 37 )

(4) اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرو : ترجمہ کنز العرفان : اے میری قوم میری مخالفت تم سے یہ نہ کروا دے کہ تم پر بھی اسی طرح کا (عذاب) آ پہنچے جو نوح کی قوم اور ہود کی قوم صالح کی قوم پر آیا تھا اور لوط کی قوم تو تم سے کوئی دور بھی نہیں ہے۔ (تفسیر صراط الجنان جلد:4 ، پارہ : 12 ،سورہ ھود آیت نمبر 89 ، صفحہ: 485)

(5) ہٹ دھرمی سے بچو :قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ رَزَقَنِیْ مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًاؕ-وَ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰى مَاۤ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُؕ-اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُؕ-وَ مَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِؕ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ اِلَیْهِ اُنِیْبُ(88) ترجمۂ کنز الایمان: کہا اے میری قوم بھلا بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہوں او راس نے مجھے اپنے پاس سے اچھی روزی دی اور میں نہیں چاہتا ہوں کہ جس بات سے تمہیں منع کرتا ہوں آپ اس کا خلاف کرنے لگوں میں تو جہاں تک بنے سنوارنا ہی چاہتا ہوں اور میری توفیق اللہ ہی کی طرف سے ہے میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع ہوتا ہوں۔

 تفسیر صراط الجنان:

{قَالَ یٰقَوْمِ:فرمایا: اے میری قوم!} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو ان کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اے میری قوم! مجھے بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے روشن دلیل یعنی علم ،ہدایت،دین اور نبوت سے سرفراز کیا گیا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے پاس سے بہت زیادہ حلال مال عطا فرمایا ہوا ہو تو پھر کیا میرے لئے یہ جائز ہے کہ میں ا س کی وحی میں خیانت کروں اور اس کا پیغام تم لوگوں تک نہ پہنچاؤں۔ یہ میرے لئے کس طرح روا ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اتنی کثیر نعمتیں عطا فرمائے اور میں اس کے حکم کی خلاف ورزی کروں۔ ( تفسیر صراط الجنان جلد : 4 ،پارہ :12 ،سورہ ھود آیت: 88 ، صفحہ:483 )


اللہ  پاک نے اپنے فضل سے کچھ لوگوں کو راہِ راست پر رکھا اور کچھ لوگ اسکے عدل سے راہِ راست پر نہیں۔کہ اللہ کے ہر کام میں حکمتیں ہیں جو ہمارے عقلوں میں نہیں آسکتیں۔ کچھ چیزوں کو وہ دوسروں کے لیے نشانی بنا دیتا کہ باقی لوگ اس پر رشک کریں یا عبرت حاصل کریں۔دنیا میں اللہ پاک نے انبیاء کرام کو بھیجا کہ جو لوگ راہ راست پر ہیں ان کو اس پر ہمیشگی و مضبوطی کا درس دیں اور وہ لوگ جو راہ راست پر نہیں ان کو راہ راست دکھائیں اور اس پر چلنے کی نصیحتیں فرمائیں۔ فرمایا:- اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ۔(پ14،النحل:125) ترجمۂ کنز الایمان:اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے۔

اچھی نصیحت سے:مراد ترغیب و ترہیب یعنی کسی کو کام کی ترغیب دینا اور کسی کام سے ڈرانا۔

کچھ لوگوں نے انبیاء کرام کی باتوں کو مانا کامیاب ہوئے تو کچھ انکار کرتے رہے عذاب میں گرفتار ہوۓ اور اللّہ پاک نے ایسوں کو عبرت حاصل کرنے کے لیے نشانی بنا دیا۔حضرات انبیاء کرام نے ان لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے کئی نصیحتیں فرمائیں چونکہ ان میں سے چند لوگ نصیحتیں نہ مان کر عذاب الٰہی میں گرفتار ہوۓ مگر پھر بھی اللہ پاک نے ان انبیاء کرام کی نصیحتوں کا قرآن پاک میں ذکر فرمایا تاکہ بعد میں آنے والے بھی اُن سے فائدہ حاصل کریں اور نافرمانی کرکے اپنا حال گزشتہ قوموں کی طرح نہ کرلیں کہ کس طرح وہ عذاب میں گرفتار ہوں۔ان انبیاء کرام میں سے ایک حضرت شعیب علیہ السلام ہیں آپ کو پہلے مدین اور پھر اَصحاب ایکہ کی طرف مبعوث فرمایا (سیرت الانبیاء،ص:504،بتغیر) آپ نے اپنی قوم کو بہت سی نصیحتیں فرمائی ہیں جن میں سے چند پیشِ خدمت ہیں:

(1) اللہ پاک کے تمام انبیاء کرام نے اللہ کی بندگی کرنے کا حکم فرمایا کہ بغیر اس کی بندگی کرے کوئی راہ نہیں،نہ کوئی یار و مددگار نہ کوئی نیکی قبول ہو جیساکہ شعیب علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو نصیحت فرمائی : قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ(پ8 اعراف:85) ترجمۂ کنز الایمان: کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔

(2) انبیاء کرام کو صرف عبادات ہی سیکھانے کے لیے مبعوث نہ کیا گیا تھا بلکہ قوم کے معاملات وغیرہ کی درستگی کے لیے بھی مبعوث فرمایا گیا تھا۔کہ قوم حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال رکھیے تاکہ عذاب میں گرفتاری نہ ہو جیساکہ شعیب علیہ السلام نے بھی نصیحت فرمائی: فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُم(پ8 اعراف:85) ترجمہ کنزالایمان:تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو

(3) انسان بہت ہی کمزور ہیں اگر ہم کسی طرح کی بھی زیادتی کر بیٹھیں تو اس پر ڈٹے رہنے کے بجائے اللہ سے معافی مانگیں اور اس کی طرف رجوع کریں۔ جیساکہ شعیب علیہ السلام کی قوم نے ان کی مخالفت کری تو آپ نے عذاب سے ڈرانے کے بعدفرمایا: وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ(پ12 ھود:90)

ترجمہ کنزالایمان:-اور اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ۔

(4) کسی کو بےجا پریشان کرنا یا اس کی راہ میں رکاوٹ بننا جو اس کی دنیا و آخرت برباد کردے اور بالخصوص کسی کو ایمان لانے کی وجہ سے ستانا لائق عذاب ہے۔ جیساکہ شعیب علیہ السلام نے فرمایا: وَلَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ(پ8 اعراف:86) ترجمۂ کنز الایمان:-اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کی راہ سے انہیں روکو جو اس پر ایمان لائے۔ پھر آگے فرمایا: وَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ(پ8 اعراف:86) ترجمۂ کنز الایمان:- اور دیکھو فسادیوں کا کیسا انجام ہوا۔

(5)رب تعالیٰ کے انعام کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر شکر بھی ادا کرنا چاہیے کہ نعمت کا شکر کرنا نعمت کی زیادتی کا سبب ہے جیساکہ شعیب علیہ السلام نے نعمت کو یاد کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ۪-(پ8 اعراف:86) ترجمہ کنزالایمان:اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے اس نے تمہیں بڑھادیا(تھا) المختصر یہ کہ تمام انبیاء کرام نے مختلف مقامات پر مختلف نصیحتیں فرمائیں تاکہ عذاب سے نجات اور قرب الہٰی و تقویٰ نصیب ہو۔دورِ حاضر میں بھی بعض حضرات ایسے ہیں کہ نہ ہی نصیحتیں مانتے،نہ ہی ان پر عمل کرتے گویاکہ اس طرح کہنا چاہتے

ناصحا مت کر نصیحت دل مرا گھبرائے ہے

دشمن اس کو جانتا ہوں جو مجھے سمجھائے ہے

بلکہ بعض تو نصیحت سننے کے لیے بھی تیار نہیں ایسے حضرات کوچاہیے کہ پچھلی قوم کے احوال پڑھیں اور ان کے انجام میں غور و فکر کریں۔ اللہ پاک ان نصیحتوں پر عمل کرکے ان کے فوائد سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم


تمام تعریفیں اللہ جل شانہ کے لئے جس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور انسانوں کی رہنمائی کے لئے انبیاء کو مبعوث فرمایا جنہوں نے آکر اپنی اپنی امت کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ احکام پر مطلع فرمایا اور شریعت مطہرہ کے بیان کردہ طور طریقے پر عمل کرنے کے لیے ابھارا- اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو اپنی اپنی امت کے لئے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا تاکہ کوئی امت یہ دلیل قائم نہ کر سکے کہ ہمارے پاس کوئی ڈر اور خوشخبری سنانے والا تشریف نہ لایا اور جن نبیوں کو  اللہ تعالٰی نے امت کی رہنمائی کے لئے بھیجا ان میں سے ایک حضرت شعیب علیہ السلام بھی ہیں حضرت شعیب علیہ السلام کو مدین کی طرف بھیجا گیا حضرت شعیب علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے ہیں حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی امت کو اللہ تعالٰی کے عطاکردہ احکام پہنچاۓ اور انہیں کچھ نصیحتیں عطا فرمائیں تاکہ وہ اس پر عمل کرکے جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُؕ کے مستحق ٹھہریں اور جو آپ نے نصیحتیں کیں اللہ تعالیٰ نے ان کا تذکرہ کچھ یوں فرمایا :

وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(85) ترجمۂ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ (الاعراف : 85)

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے :وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ(84) ترجمۂ کنز الایمان:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔ (ھود : 84)اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر آپ کی نصیحت کا یوں ذکر فرمایا :

اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(177)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(178)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(179) ترجمۂ کنز الایمان:جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں ۔ بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں۔تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو (الشعراء : 177 تا 179)

اسی طرح ایک اور جگہ یوں ارشاد فرمایا : اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ(181)وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ(182)وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(183)وَ اتَّقُوا الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الْجِبِلَّةَ الْاَوَّلِیْنَ(184) ترجمۂ کنز الایمان:ناپ پورا کرو اور گھٹانے والوں میں نہ ہو۔ اور سیدھی ترازو سے تولو۔ اور لوگوں کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔ اور اس سے ڈرو جس نے تم کو پیدا کیا اور اگلی مخلوق کو (الشعراء : 181 تا 184)

اسی طر ح سورۃ العنکبوت میں یوں ارشاد ہوا

وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاۙ-فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(36) ترجمۂ کنز الایمان:مدین کی طرف اُن کے ہم قوم شعیب کو بھیجا تو اس نے فرمایا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اور پچھلے دن کی امید رکھو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو (العنکبوت : 36)

.انبیاء علیھم السلام کو سب سے پہلے یہ حکم دیا جاتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دعوت دیں پھر جو کام سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہو اس کی دعوت دیں تو حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کفر کے بعد ناپ تول میں کمی کے گناہ میں مبتلا تھی اس لئے انہیں ہر آیت میں اس بات کا حکم دیا گیا کہ ناپ تول میں کمی نہ کرو لیکن انہوں نے آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک نہ سنی اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ہر قسم کی برائیوں میں ملوث رہے تو ان کو عذاب دے کر ہلاک کردیا گیا ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین


الله تعالی نے بنی نوع انسان کی تخلیق فرمائی اور انسانوں کی اصلاح کے لیے انہی میں سے کچھ نفوس قدسیہ کو بھیجا جنہیں ہم انبیاء کرام علیھم السلام کہتے ہیں  ۔سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور سب سے آخر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے انہی انبیاء کرام علیھم السلام میں سے ایک حضرت شعیب علیہ السلام ہیں جو اپنی امت کو وعظ و نصیحت کے ساتھ اللہ رب العالمین کی طرف بلاتے اور اللہ کی نافرمانی سے منع فرماتے ہیں ۔ آئیے قرآن کریم سے حضرت شعیب علیہ السلام کی اپنی قوم کے لیے وعظ و نصیحت پڑھتے ہیں

(1-2) ناپ تول میں انصاف کرنا اور کمی نہ کرنا : وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْن۔ ترجمہ کنزالایمان :-اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔(پ8 الاعراف 85)

(3) عذاب الٰہی سے ڈرانا : وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ ترجمہ کنزالایمان :-اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔(پ11 ھود 84)

(4)اپنی اطاعت و فرمانبرداری کا حکم : اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(177)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(178)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ ترجمہ کنزالایمان : جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں ۔ بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں۔تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو (پ19 الشعراء 177-179)

(5) زمین میں فساد نہ پھیلاؤ : وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاۙ-فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ ترجمہ کنزالایمان مدین کی طرف اُن کے ہم قوم شعیب کو بھیجا تو اس نے فرمایا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اور پچھلے دن کی امید رکھو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں میں دعا ہے کہ ہمیں بھی قرآن کے احکام پر عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین 


                 شیوہ پیغمبری ہے کہ وعظ و نصیحتیں کی جائیں تاکہ عوام راہ ہدایت اختیار کرے اور دنیاوی اور اخروی زندگی میں شرف کامرانی حاصل کرے۔ اسی سلسلے کے ایک کڑی حضرت شعیب علیہ السلام تھے۔ جنہوں نے اپنے امتیوں کو پیغام ربی پہنچایا اور کامیابی زیست فی الدنیا اور اخروی کا نہ صرف راستہ بتایا بلکہ اس پر چل کے دیکھایا۔ انھیں ہی کی چند نصائح عالیہ کو قرآن مجید نے بھی اپنے احاطہ بیان میں لایا ہے جیساکہ رب العزت فرماتا ہے کہ

وَاِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ترجمۂ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔ (پارہ 8، سورۃ الاعراف، آیت85)

اس آیت مقدسہ میں رب تعالیٰ کے پیارے نبی شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو نصیحتیں فرمائیں۔

1۔ الله تعالٰی کی عبادت کرو اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔

2۔ ناپ تول پورا کرو۔ یعنی کسی طرح بھی ناپ تول میں کمی مت کرو۔

3۔ اور لوگوں کو گھٹا کر مال فروخت نہ کرو۔ یعنی ترازو کے ذریعے کسی کو دھوکہ دینا یا کسی بھی طرح بکنے والے مال میں غدر نہ کرو

4۔ زمین میں فساد نہ کرو بلکہ امن عامہ قائم رہنے دو کیونکہ جو فساد ہے وہ قتل سے بھی بڑا گناہ ہے۔ اس سے ریاست نہ ہی قائم رہتی ہے۔ نہ انسانیت پنپ سکتی ہے۔ اسی طرح ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا کہ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(179)وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(180) ترجمۂ کنز الایمان: تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔اور میں اس پر کچھ تم سے اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔ (پارہ19، سورۃ الشعراء، آیت179تا, 180)

درج بالا آیت مبارکہ میں دو نصیحتیں اور کیں۔

1۔ اللہ تعالی سے ڈرو۔ یعنی اس کی فرمانبرداری کرو اس کے حکم کی عدولی مت کرو اور حدوں کو مت توڑو۔

2۔ اور فرمایا میرے حکم کی پیروی کرو۔ کیونکہ جو نبی کا حکم ہوتا ہے دراصل اللہ تعالی کا ہی حکم ہوتا ہے۔ ساتھ یہ بھی بتایا کہ نصیحتیں کرنے کا مقصد مال بٹورنا نہیں ہے اور نہ ہی شہرت وغیرہ حاصل کرنا ہے۔ بلکہ فقط رب کی رضا مقصود ہے۔ وہی مجھے اس کا اجر دے گا۔

اسی طرح آخرت کی یاد دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاۙ-فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(36) ترجمۂ کنز الایمان: مدین کی طرف اُن کے ہم قوم شعیب کو بھیجا تو اس نے فرمایا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اور پچھلے دن کی امید رکھو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔ (پارہ 20، سورۃ العنکبوت، آیت 36)

آیت کریمہ کے اس مقام پر رب تعالیٰ نے تین سنہری نصائح عطا فرمائے ۔ جن میں سے دو پہلے مذکور ہیں۔ ایک کا بیان کرنا یہاں لازمی ہو گا۔

1۔ اور آخرت کے دن کی امید رکھو کیونکہ اس دن کی یاد سے انسان میں احساس ذمہ داری کا ادراک ہوتا ہے۔ اور انسان انصاف کے ترازو پر یقین رکھتا ہے۔ اور حقوق تلفی کسی کی نہیں کرتا۔

جو بھی نبی ہوتا ہے۔ وہ خاص اپنی قوم سے الفت و محبت بھی کرتا ہے۔ اور جا بجا اس کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے۔ جیسا کہ حضرت شعیب علیہ السلام نے ارشاد فرمایا۔ وَیٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِیْۤ اَنْ یُّصِیْبَكُمْ مِّثْلُ مَاۤ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍؕ-وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِیْدٍ(89) ترجمۂ کنز الایمان: اور اے میری قوم تمہیں میری ضد یہ نہ کموا دے کہ تم پر پڑے جو پڑا تھا نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صالح کی قوم پر اور لوط کی قوم تو کچھ تم سے دور نہیں۔(پارہ 12، سورۃ ھود آیت89)

اس آیت کریمہ میں ایک خاص جہت سے نصیحت فرمائی اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی انسانوں میں کوئی شخص اعلیٰ کام کرتا ہے تو اس سے حسد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ حسد اس قوم کو بے جا مخالفت پر مجبور کرتا ہے۔ اور ان کو تماثیل کے ذریعے سمجھایا بھی کہ گزشتہ جن قوموں نے رسولوں کی مخالفت کی ان کی قوموں سے عبرت حاصل کرو۔

وَلَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ۪-وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ(86) ترجمۂ کنز الایمان: اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کی راہ سے انہیں روکو جو اس پر ایمان لائے اور اس میں کجی چاہو اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے اس نے تمہیں بڑھادیا اور دیکھو فسادیوں کا کیسا انجام ہوا۔(پارہ 8، سورۃ الاعراف، آیت 86)

اس آیت مقدسہ میں راستے میں بلا ضرورت بیٹھنے سے منع فرمایا اور بالخصوص چوری یا ڈکیتی کرنے کے لیے بیٹھنے والوں کے خلاف یہ قطعی حجت ہے۔ تاکہ وہ ڈکیتی وغیرہ کر کے معاشرے اور اس کی معیشت پر اثر انداز نہ ہوں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے جتنے بھی حضرت شعیب علیہ السلام کے نصائح ہیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین


شعیب علیہ السلام، اللہ تعالی کے بھیجے گئے ایک نبی تھے اور آپ موسیٰ علیہ السلام کے سسر بھی تھے۔   شعیب علیہ السلام مدین کی طرف بھیجے گئے تھے۔ آپ کو اس وقت مدین کی طرف بھیجا گیا۔ جب اہل مدین ناپ تول میں کمی کرتے تھے اور قسم قسم کے سرکشیوں اور نافرمانیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔

شعیب میکیل کے بیٹے تھے اور میکیل یشجر کے اور یشجر مدین کے اور مدین ابراہیم ( علیہ السلام) کے بیٹے تھے۔ شعیب (علیہ السلام) نابینا (ہو گئے) تھے چونکہ اپنی قوم سے خطاب کرنے میں آپ کو کمال تھا اس لیے آپ کا لقب خطیب الانبیاء ہوا۔ آپ کی قوم کافر بھی تھی اور ناپ تول میں بھی کمی کرتی تھی۔ ابن عساکر نے عبد اللہ بن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب شعیب (علیہ السلام) کا ذکر کرتے تھے تو فرماتے تھے وہ خطیب الانبیاء تھے اس لیے کہ اپنی قوم سے خطاب اچھے اسلوب سے کرتے تھے۔

سوا شعیب (علیہ السلام) کے اور کوئی نبی دو امتوں کی ہدایت کے لیے مبعوث نہیں ہوئے ایک امت ان کی یہ قبیلہ ہے جس کا نام مدین ہے اور شعیب (علیہ السلام) بھی اسی قبیلہ کے ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے شعیب (علیہ السلام) کو اس قبیلہ کا بھائی فرمایا ہے اور دوسری امت بن کے رہنے والے لوگ ہیں جن کو سورة شعرا میں اصحاب الایکہ فرمایا ہے اور بعض مفسر کنویں والے لوگوں کو بھی جن کو سورة فرقان اور سورة ق میں اصحاب الرس فرمایا ہے ان کی ہی امت میں شمار کر کے یوں کہتے ہیں کہ شعیب (علیہ السلام) تین امتوں کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے ہیں لیکن حافظ عماد الدین ابن کثیر نے کہا اصحاب الایکۃ ایک ہی امت کے لوگ میں جن میں کم تولنے اور کم ناپنے کا رواج تھا اور اسی ایک امت کی ہدایت کے لیے شعیب (علیہ السلام) بھیجے گئے ہیں یہ لوگ پیڑوں کی بھی پوجا کیا کرتے تھے اس واسطے ان کو اصحاب الایکہ یعنے پیڑوں والے کہہ کر جو سورة شعرا میں بتا دیا ہے اکثر مفسروں کا قول یہی ہے کہ شعیب (علیہ السلام) نے بڑی عمر پائی ہے موسیٰ (علیہ السلام) کے وقت تک زندہ تھے۔ اور ایک شخص قبطی کو مار کر مصر سے مدین کو جب موسیٰ (علیہ السلام) گئے تو ان کی ملاقات شعیب (علیہ السلام) سے ہوئی اور وہ دو بہنیں جن کا قصہ سورة قصص میں ہے شعیب (علیہ السلام) کی بیٹیاں تھیں جن میں سے ایک کا نکاح حضرت موسیٰ سے ہوا شعیب (علیہ السلام) نابینا تھے۔حضرت شعیب علیہ السلام کی اپنی قوم کو کی جانے والی چند نصیحتیں قرآن پاک کی روشنی میں پیش کی جاتی ہیں۔ آئیے پڑھیئے اور نصیحت حاصل کیجئے:

اللہ کی عبادت کرو اور ناپ تول میں کمی نہ کرو: وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ ترجمۂ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔ (ھود 11 آیت 84)

اللہ کی عبادت کرو: وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ترجمۂ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔ (الاعراف 7 آیت 85)

ناپ تول میں کمی نہ کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ: وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(85)بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﳛ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ(86)ترجمۂ کنز الایمان: اور اے میری قوم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔ اللہ کا دیا جو بچ رہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو اور میں کچھ تم پر نگہبان نہیں۔ (ھود 11 آیت85-86)

اللہ سے ڈرو: كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــٴَـیْكَةِ الْمُرْسَلِیْنَ(176) اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(177)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(178)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(179)وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(180) ترجمۂ کنز الایمان: بَن والوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔ جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں ۔ بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں۔تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ اور میں اس پر کچھ تم سے اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔ (الشعراء 26 آیت 177-180 )

راستے میں نہ بیٹھو: وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ۪-وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ(86) ترجمۂ کنز الایمان: اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کی راہ سے انہیں روکو جو اس پر ایمان لائے اور اس میں کجی چاہو اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے اس نے تمہیں بڑھادیا اور دیکھو فسادیوں کا کیسا انجام ہوا۔(الاعراف 7 آیت 86)

ناپ تول پورا کرو: اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ(181)وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ(182)وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(183)وَ اتَّقُوا الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الْجِبِلَّةَ الْاَوَّلِیْنَ(184) ترجمۂ کنز الایمان: ناپ پورا کرو اور گھٹانے والوں میں نہ ہو۔ اور سیدھی ترازو سے تولو۔ اور لوگوں کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔ اور اس سے ڈرو جس نے تم کو پیدا کیا اور اگلی مخلوق کو۔ (الشعراء آیت 181-184)

رب سے معافی مانگو: وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ(90) ترجمۂ کنز الایمان: اور اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ بیشک میرا رب مہربان محبت والا ہے۔ (ھود 11 آیت 90))


حضرت شعیب علیہ السلام، جو مدین کی بستی کے نبی تھے، نے اپنی قوم کو اللہ کے پیغام سے آگاہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ قرآن مجید میں حضرت شعیب علیہ السلام کی نصیحتیں اور ان کی قوم کے ساتھ گفتگو کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے، جن میں سورۃ الاعراف، سورۃ ہود، اور سورۃ الشعراء شامل ہیں۔ ان نصیحتوں میں ایمان کی پختگی، عدل و انصاف، ناپ تول میں کمی نہ کرنا، اور اللہ کی عبادت کے اصول شامل ہیں۔ یہاں ہم حضرت شعیب علیہ السلام کی کچھ اہم نصیحتوں پر روشنی ڈالیں گے۔

1. توحید اور اللہ کی عبادت:حضرت شعیب علیہ السلام کی سب سے پہلی نصیحت توحید اور اللہ کی عبادت کے بارے میں تھی۔ انہوں نے اپنی قوم کو اللہ کی وحدانیت کی دعوت دی اور شرک سے بچنے کی تلقین کی۔ قرآن میں ہے: وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ- ترجمہ کنزالایمان :اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں (سورۃ الاعراف: 85)

یہ نصیحت ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ کی وحدانیت پر ایمان لانا اور اس کی عبادت کرنا ہی سب سے اہم ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی اس نصیحت کا مقصد قوم کو شرک سے روکنا اور انہیں ایک اللہ کی عبادت کی طرف راغب کرنا تھا۔

2. ناپ تول میں انصاف: حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم میں ناپ تول میں کمی کرنے کی عادت تھی. انہوں نے اپنی قوم کو ناپ تول میں انصاف کرنے کی تلقین کی۔ قرآن مجید میں ہے: وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍوَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ ترجمہ کنزالایمان: اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے (سورۃ ہود: 84)

یہ نصیحت ہمیں بتاتی ہے کہ کاروبار اور معاشرتی معاملات میں انصاف اور دیانتداری کا برتاؤ کرنا ضروری ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو خبردار کیا کہ ناپ تول میں کمی کرنے سے اللہ کا عذاب نازل ہو سکتا ہے۔

3. مالی معاملات میں دیانتداری:حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو مالی معاملات میں دیانتداری کی تلقین کی۔ انہوں نے اپنی قوم کو نصیحت کی کہ وہ دوسروں کے مال میں خیانت نہ کریں اور انصاف کے ساتھ لین دین کریں- قرآن مجید میں ہے: وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ ترجمہ کنزالایمان: "اور اے میری قوم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔ " (سورۃ ہود: 85)

یہ نصیحت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ مالی معاملات میں دیانتداری اور انصاف کا برتاؤ نہ صرف فرد کی نیکی کا ذریعہ ہے بلکہ یہ معاشرتی امن و استحکام کا بھی سبب بنتا ہے۔

حضرت شعیب علیہ السلام کی نصیحتیں قرآن مجید میں نہایت واضح اور مفصل بیان کی گئی ہیں۔ ان نصیحتوں کا مقصد قوم کو اللہ کی عبادت کی طرف راغب کرنا، ناپ تول میں انصاف کرنا، مالی معاملات میں دیانتداری برتنا، اللہ کے عذاب سے ڈرنا، اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہے۔ ان نصیحتوں پر عمل پیرا ہو کر نہ صرف فرد کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے- بلکہ معاشرتی اصلاح بھی ممکن ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی نصیحتیں آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں اور ان پر عمل کر کے ہم ایک بہتر اور پرامن معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں۔

اللہ کریم ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


اللہ پاک نے ، ضلالتوں اور گمراہیوں کو ختم کرنے کے لیے  انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا تاکہ لوگ راہ راست پر آجائیں ۔ ان مبارک ہستیوں نے اپنی قوم کو جو نصیحتیں فرمائیں وہ قوم کی اصلاح اور پیغام ربانی کو عام کرنے کے لیے فرمائیں ۔ پیغام حق کو عام کرنے میں اور انبیاء کرام علیھم السلام کے مبارک گروہ میں حضرت شعیب علیہ السلام بھی شامل ہیں۔

آپ علیہ السلام کا نام و لقب :- آپ علیہ السلام کا اسم گرامی " شعیب "ہے اور حسن بیان کی وجہ سے آپ علیہ السلام کو " خطیب الانبیاء کہا جاتا ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام اللہ تعالی کے برگزیدہ بندے ، حضرت موسی علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کے صہری والد اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو جو نصیحتیں فرمائیں ان کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے۔ آئیے قرآن پاک کی روشنی میں حضرت شعیب علیہ السلام کی نصیحتیں جانتے ہیں :

آپ علیہ السلام کی اہل مدین کو نصیحتیں: گناہوں کی تاریکی میں پھنسے ہوئے اہل مدین کو راہ نجات دکھانے اور ان کے اعمال وکردار کی اصلاح کے لیے اللہ تعالی نے انہی کے ہم قوم حضرت شعیب علیہ السلام کو منصب نبوت پر فائز فرما کر ان کی طرف بھیجا۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے قوم کو بتوں کی پوجا چھوڑنے اور صرف عبادت الہی کرنے کی دعوت دی اور فرمایا کہ خرید و فروخت کے وقت ناپ تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرنے نہ دو۔ کفر و گناہ کر کے زمین میں فساد برپا نہ کرو۔ (سیرت الانبیاء ، ص 508)

قرآن کریم میں ہے : ترجمہ کنز العرفان : اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا :انہوں نےفرمایا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آگئی تو ناپ اور تول پورا پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم ایمان لاؤ - ( پ 8 ، الاعراف :85)

اہل مدین کی مخالفت اور آپ علیہ السلام کی قوم کو عذاب الہی سے ڈرا کر مزید نصیحت : جب قوم نے آپ علیہ السلام کی نصیحت نہیں مانی اور مخالفت پر اتر آئے تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : اے میری قوم! مجھ سے تمہاری عداوت و بغض، میرے دین کی مخالفت، کفر پر اصرار ، ناپ تول میں کمی اور توبہ سے اعراض کی وجہ سے کہیں تم پر بھی ویسا ہی عذاب نازل نہ ہو جائے جیسا قوم نوح یا قوم عاد و ثمود اور قوم لوط پر نازل ہوا ۔ لہذا ان کے حالات سے عبرت حاصل کرو اور توبہ کرو بے شک میرارب اپنے ان بندوں پر بڑا مہربان ہے جو توبہ و استغفار کرتے ہیں اور وہ اہل ایمان سے محبت فرمانے والا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے: ترجمہ کنزالعرفان:اور اے میری قوم! میری مخالفت تم سے یہ نہ کروا دے کہ تم پر بھی اسی طرح کا (عذاب) آپہنچے جو نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صالح کی قوم پر آیا تھا اور لوط کی قوم تو تم سے کوئی دور بھی نہیں ہے۔اور اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ، بیشک میرا رب بڑامہربان ،محبت والا ہے۔ (پ12 ، ھود : 89، 90)

اصحاب الایکہ کو نصیحتیں: جب مدین والوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کی بات نہ مانی اور اللہ عزوجل کی نافرمانیوں میں مبتلا ہوئے تو انہیں شدید زلزلے نے اپنی گرفت میں لے لیا اور اس طرح یہ عذاب الہی سے ہلاک ہوگئے۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے آپ علیہ السلام کو اصحاب ایکہ کی طرف وعظ و نصیحت کیلئے بھیجا جسے قرآن کریم نے یوں بیان کیا گیا ہے۔

ترجمہ کنزالعرفان:ایکہ (جنگل) والوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔ جب ان سے شعیب نے فرمایا: کیا تم ڈرتے نہیں ؟ بیشک میں تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اور میں اس ( تبلیغ) پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔ (اے لوگو!) ناپ پورا کرو اور ناپ تول کو گھٹانے والوں میں سے نہ ہو جاؤ۔ اور بالکل درست تر از و سے تو لو۔ اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔ اور اس سے ڈرو جس نےتمہیں اور پہلی مخلوق کو پیدا کیا۔(پ19 ، الشعراء:176-184)

اہل مدین کی ایک والوں نے بھی حضرت شعیب علیہ السلام کی نافرمانی کی اور عذاب سے ہلاک کردیے گئے۔ یہ دونوں قومیں کفرو شرک کے علاوہ جس بنیادی گناہ کے سبب مبتلائے عذاب اور رسوائے زمانہ ہوئے وہ ناپ تول میں کمی تھا انتہائی افسوس کہ یہی گناہ فی زمانہ ہمارے معاشرے کا بھی ایک ناسور بن چکا ہے جس سے بچنے کی انتہائی ضرورت ہے ۔رسول کریم صلى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ناپ تول کرنے والوں سے فرمایا: تم (ناپ اور تول) دوایسی چیزوں کے ذمہ دار بنائے گئے ہو جن (میں کمی کرنے) کی وجہ سے تم سے پہلے امتیں ہلاک ہو چکی ہیں۔ (ترمذی، کتاب البیوع، باب ماجاءفی المکیال والمیزان ، 9/3، الحدیث 1221) اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیھم السَّلَام صرف عبادات ہی سکھانے نہیں آتے بلکہ اعلیٰ اَخلاق، سیاسیات، معاملات کی درستگی کی تعلیم بھی دیتے ہیں جیسا کہ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو ناپ تول میں کمی جیسے گناہ سے منع کیا ۔ اللہ پاک ہمیں ناپ تول میں کمی کرنے سے محفوظ فرمائے آمین ۔


آپ علیہ السلام کا اسم گرامی "شعیب" اور حسن بیان کی وجہ سے آپ کو "خطیب الانبیاء "کہا جاتا ہے۔ الله تبارک وتعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو دو قوموں کی طرف رسول بناکر بھیجا۔ (1) اہل مدین ۔ (2) اصحابُ الاَیکہ ۔

حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام کے علاوہ کسی نبی کو دوبار مبعوث نہیں فرمایا ، آپ علیہ السلام کو ایک بار اہل مدین کی طرف بھیجا جن کی اللہ تعالیٰ نے ہولناک چیخ (اور زلزے کے عذاب) کے ذریعے گرفت فرمائی اور دوسری بار اصحاب الاَیکہ کی طرف بھیجا جن کی اللہ تعالیٰ نے شامیانے والے دن کے عذاب سے گرفت فرمائی۔ (سیرت الانبیاء، حضرت شعیب علیہ السلام، صفحہ 505)

پہلے آپ علیہ السلام کو مدین کی طرف بھیجا گیا، یہ ایک شہر ہے جسے مدین بن ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔ اس لئے اس کا نام ہی مدین پڑ گیا۔

اہل مدین کو نصیحت: (1) سب سے پہلے آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دعوت دیں ، اسی لئے مدین والوں کو سب سے پہلے یہ فرمایا "اے میری قوم ! اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں"۔فرمان باری تعالیٰ ہے : قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهُ ترجمہ کنز العرفان: انہوں نے فرمایا : اے میری قوم !اللہ کی عبادت کر واس کےسوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ (پارہ 8، الاعراف، آیہ: 85)

(2) کفر کے بعد چونکہ مدین والوں کی سب سے بری عادت یہ تھی کہ وه خرید و فروخت کے دوران ناپ تول میں کمی کرتے تھے، اس لئے حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں یہ بری عادت چھوڑنے کی دعوت دی ۔ اور فرمایا "ناپ اور تول کو پورا کرو "۔ فرمان باری تعالیٰ ہے : وَيٰقَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَآءَ هُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ترجمہ کنز العرفان: اور اے میری قوم !انصاف کے ساتھ ناپ اور تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھر و۔ (پارہ 12، ھود، آیہ: 85)

3) آپ علیہ السلام نے قوم کو فرمایا " اے میری قوم! مجھ سے تمہاری عداوت اور بغض، تمہارے الله سے کفر پر اصرار ، بتو ں کی پو جا کرنے پر قائم رہنا ، لوگوں سے ناپ تول میں کمی کرنا اور اللہ کی بارگاہ میں توبہ سے اعراض کرنے کی وجہ سے کہیں تم پر بھی ویسا ہی عذاب نازل نہ ہو جائے جیسا حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پراور حضرت ہود علیہ السلام کی قوم پراور حضرت صالح علیہ السلام کی قوم پر یا حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر نا زل ہوا اور حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا زمانہ دوسروں کے بنسبت تم سے زیادہ قریب ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: وَيٰقَوْمِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِيْٓ أَنْ يُّصِيْبَكُمْ مِثْلُ مَآ أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صٰلِحٍ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِيْدٍ ترجمہ کنز العرفان: اور اے میری قوم !میری مخالفت تم سے یہ نہ کروادے کہ تم پر بھی اسی طرح کا (عذاب) آپہنچے جو نوح کی قوم یاہود کی قوم یا صالح کی قوم پر آیا تھا اور لوط کی قوم تو تم سے کوئی دور بھی نہیں ہے۔ (پارہ 12، ھود، آیہ: 89)

مدین والوں کی ہلاکت کے بعد آپ کو مدین کے قریب ہی سرسبز جنگلوں اور مرغْزاروں کے درمیان ایک دوسرے شہر کی طرف مبعوث کیا گیا ۔یہاں رہنے والوں کا تذکرہ قرآن مجید میں "اصحاب الایکہ" یعنی جنگل والوں کے نام سے کیا گیا ہے۔

اصحابُ الاَیکہ کو نصیحت :(4)حضرت شعیب علیہ السلام اصحاب الایکہ سے فرمایا : "میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں۔تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو"۔فرمان باری تعالیٰ ہے: اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ أَلَا تَتَّقُوْنَ۝ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ اَمِينٌ۝ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَأَطِيْعُوْنِ ترجمہ کنز العرفان : جب ان سے شعیب نے فرمایا : کیاتم ڈرتے نہیں ؟ بیشک میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں ۔تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ۔ (پارہ 19، الشعراء، آیہ: 177-179)

5)یہ لوگ راستوں میں بیٹھ جاتے تھے اور ہر راہ گیر سے کہتے تھے کہ شہر میں ایک جادو گر ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے بعض لوگ مسافروں پر ڈکیتیاں ڈالتے ، رہزنی اور لوٹ مار کرتے اور کھیتیاں برباد کرکے زمین میں فساد پھیلاتے۔ یہ ان کی عادت بن گئی تھی اسی لئے حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں ان کاموں سے منع فرمایا اور ناپ تول پورا کرنے کا حکم دیا اور ساری مخلوق کو پیدا کرنے والے رب تعالیٰ کےعذاب سےڈرایا۔فرمان باری تعالیٰ ہے: اَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ۝ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ۝ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَآءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ۝ وَاتَّقُوا الَّذِيْ خَلَقَكُمْ وَ الْجِبِلَّةَ الْأَوَّلِيْنَ۝ ترجمہ کنز العرفان: (اے لوگو!) ناپ پورا کرو اور ناپ تول کو گھٹانے والوں میں سے نہ ہو جاؤ ۔ اور بالکل درست ترازو سے تو لو۔ اور لوگوں کوان کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو ۔اور اس سے ڈرو جس نے تمہیں اور پہلی مخلوق کو پیداکیا۔ (پارہ 19، الشعراء، آیہ: 181-184)


حضرت شعیب علیہ السّلام  اللہ پاک کے رسول، حضرت موسیٰ علی نبیّناوعلیہ الصلاةوالسّلام جیسے عظیم پیغمبر کے صہری والد اور حضرت ابراھیم علیہ السّلام کی نسل میں سے تھے۔ حسنِ بیان کی وجہ سے آپ کو "خطیب الانبیاء" کہا جاتا ہے حضرت شعیب علیہ السّلام مَدیَن شہر میں رہتے تھے۔ یہاں کے لوگ کفروشرک،بت پرستی اور تجارت میں ناپ تول میں کمی کرنے جیسے بڑے گناہوں میں مبتلا تھے ان کی ہدایت کیلئے اللہ تعالی نے حضرت شعیب علیہ السّلام کو مقرر فرمایا آپ علیہ السّلام نے انہیں بُرائیوں سے روکتے ہوۓ مختلف نصیحتیں فرمائیں جن میں سے چند یہ ہیں۔

1.معبودِ برحق رب تعالی کی عبادت کرو۔ حضرت شعیب علیہ السّلام نے اپنی قوم کو بت پرستی کی غلاظت سے روکتے ہوئے الله پاک کی عبادت کرنے کی نصیحت فرمائی اور بتایا کہ الله پاک کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-(پ8 الاعراف85)ترجمۂ کنزالعرفان:انہوں نے فرمایا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں.

2.ناپ تول پورا پورا کرو۔ اس قوم کی ایک خرابی یہ تھی کہ وہ ناپ تول میں کمی کرتے تھے تو حضرت شعیب علیہ السّلام نے انہیں اس برائی سے منع کرتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ ناپ تول پورا پورا کرو چنانچہ قرآن کریم میں ہے.فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ(پ8 الاعراف85)ترجمۂ کنزالعرفان:-تو ناپ اور تول پورا پورا کرو اور لوگوں کوان کی چیزیں کم کرکے نہ دو۔

3.زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔ حضرتِ شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان لوگوں کو زمین میں فساد کرنے سے روکا کیونکہ اس بستی میں الله تعالیٰ کے نبی تشریف لے آئے اور انہوں نے نبوت کے احکام بیان فرما دئیے تو یہ بستی کی اصلاح کا سب سے قوی ذریعہ ہے لہٰذا اب تم کفر و گناہ کر کے فساد برپا نہ کرو۔جیسا کہ قرآن پاک میں ہے۔وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-(پ8 الاعراف85)ترجمۂ کنزالعرفان:-اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔

4.ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو۔ یہ لوگ حضرت شعیب علیہ السّلام کی نصیحت ماننے کی بجاۓ ان کی مخالفت پر اتر آۓ اور لوگوں کو ان پر ایمان لانے سے روکنے کیلئے یہاں تک کوشش کی کہ مَدیَن کے راستوں پر بیٹھ کر راہ گیر سے کہنے لگے کہ مَدیَن شہر میں ایک جادوگر ہے، تم اس کے قریب بھی مت پھٹکنا۔تو حضرت شعیب علیہ السّلام نے ان لوگوں کو نصیحت کرتے ہوۓ اس بری حرکت سے منع کیا جیسا کہ قرآن پاک میں ہے۔وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚ-(پ8 الاعراف85)ترجمۂ کنزالعرفان:-اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کے راستے سے ایمان لانے والوں کو روکو اور تم اس میں ٹیڑھا پن تلاش کرو۔

اللہ پاک ہمیں انبیاء کرام علیھم السّلام کے مبارک احوالِ زندگی پڑھنے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النّبیّین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اہل اللہ کی زندگی اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک اعلی، اعظم العظیم نعمت ہے ۔ ان کی ذاتِ پاک سے جہاں ہر مصیبت دور ہوتی ہے ، ہر اٹکل و آڑی مشکل آسان ہوتی ہے وہی ان کی اطاعت و فرمانبرداری بجا لانے سے دین و دنیا کی نعمتوں سے بندہ مالا مال ہوتا ہے ۔

اللہ اکبر ! حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام کی مبارک صورت ، ان کی سیرت ، ان کی رفتار و گفتار ، ان کی ہر ہر روش و محبوب ادا ، ان کا ہر ہر کردار ، اسرارِ پرودگار کا ایک بہترین مجموعہ و نمونہ اور بولتی تصویر ہے کہ یہ نفوسِ قدسیہ مظہر ذات و صفات قدسیہ ہوتے ہیں ۔ جن سے انسان فلاح و ترقی کے روشن راستے تہہ کرتا چلا جاتا ہے۔ ان کو بھیجنے کے کئی مقاصد میں سے سب سے بڑا مقصد توحید کا پرچار کرنا ہے پھر رسالت و دیگر عقائد اور معاملات کی تصحیح کرنا ہے ۔ انہی نفوسِ قدسیہ میں سے ایک حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام بھی ہیں ۔ جن کو رب تعالی نے دو قوموں کی طرف مبعوث فرمایا ہے ۔

آپ علیہ السلام کا نام پاک " شعیب " ہے ۔ آپ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی نسلِ پاک میں سے ہیں ۔ آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر اولو العزم رسول کے صہری والد بھی ہیں ۔ حسن بیان کی وجہ سے آپ کو " خطیب الانبیاء " کہا جاتا ہے۔ سیرت الانبیاء میں امام ترمذی کے حوالے سے بیان ہے کہ حضور اقدس خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ السلام جب حضرت شعیب علیہ السلام کا تذکرہ کرتے تو فرماتے وہ خطیب الانبیاء تھے ۔ کیونکہ انہوں نے اپنی قوم کو انتہائی احسن طریقے سے دعوت دی اور دعوت دینے میں لطف و مہربانی و نرمی کو بطور خاص پیش نظر رکھا ۔ ( سیرت الانبیاء ، صفحہ نمبر 505 )

آپ خطیب الانبیاء ہیں، آپ نے اپنی قوم کو بڑی ہی محبوب روش کے ساتھ وعظ و نصیحت فرمائی کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی ایک محبوب روش لوگوں کو را ہ ِ حق کی طرف لانا ہوتا ہے ، عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات کی تصحیح کی جانب لانا ہوتا ہے، معاشرے میں نا سور برائیوں کو نوٹ کرتے ہوئے ، ان کی جہالت کو دور کرتے ہوئے ، کفر و شرک کے سیاہ ابر آلود بادلوں کو دور کرنا ہوتا ہے ۔ اسی کے پیش نظر آپ نے بھی اپنی قوم کو وعظ و نصیحت فرمائی تاکہ یہ ابدی نعمتوں سے مالا مال ہو سکیں خدا کے شکر گزار بندے بن سکیں۔ آپ کی قوم طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا تھی آپ نے نہایت ہی نرمی و مہربانی و احسن طریقے سے انہیں منع کیا اور نیکی کی دعوت و شکر بجا لانے کا حکم دیا ۔ آئیے قرآن مجید فرقان حمید کی روشنی میں آپ کی نصیحتیں جو آپ نے اپنی قوم کو فرمائیں ملاحظہ کرتے ہیں :

حضرت شعیب علیہ السلام کی قرانی نصیحتیں :

1: اللہ کی عبادت کرو : قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ ترجمہ کنزالایمان: اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ ( پارہ 8 ، سورہ الاعراف : 85)

2: ناپ تول پورا کرو اور کم مال نہ دو : فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ ترجمہ کنزالایمان: تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو ۔ ( پارہ 8 ، سورہ الاعراف : 85)

3: زمین میں فساد نہ پھیلاؤ : وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا ترجمہ کنزالایمان: اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ ۔ ( پارہ 8 ، سورہ الاعراف : 85)

4: راستے میں نہ بیٹھو کہ لوگوں کو ڈراؤ: وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ترجمہ کنزالایمان: اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کی راہ سے انہیں روکو ۔ ( پارہ 8 ، سورہ الاعراف : 86)

5: میری مخالفت عذاب الٰہی میں مبتلا نہ ہو جانا: وَ یٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِیْۤ اَنْ یُّصِیْبَكُمْ مِّثْلُ مَاۤ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍؕ-وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِیْدٍ ترجمۂ کنز الایمان: اور اے میری قوم تمہیں میری ضد یہ نہ کروا دے کہ تم پر پڑے جو پڑا تھا نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صالح کی قوم پر اور لوط کی قوم تو کچھ تم سے دور نہیں۔ ( پارہ 12، سورہ ھود : 89)

6 : اپنے رب کی طرف رجوع لاؤ : وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ ترجمۂ کنز الایمان: اور اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ بیشک میرا رب مہربان محبت والا ہے۔ ( پارہ 12 ، سورہ ھود : 90)

7 : اللہ سے ڈرو: فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ ترجمہ کنزالایمان: تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ۔ ( پارہ 19 ، سورہ الشعراء : 79)

سیرت الانبیاء میں آپ کی سیرت کے حوالے سے آتا ہے کہ آپ کی قوم جن گناہوں اور جرائم میں ملوث تھی اس کی ایک طویل فہرست ہے چناچہ آپ نے اپنی قوم سے نصیحت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ایک بار دعوت توحید کے بعد فرمایا اے لوگو: ناپ تول میں کمی نہ کرو کیا کرو ، تم یقینا خوشحال نظر آ رہے ہو اور خوشحال آدمی کو تو نعمت کی شکر گزاری اور دوسروں کو اپنے مال سے فائدہ پہنچانا چاہیے نہ وہ ان کے حقوق میں کمی کر کے نا شکری و حق تلفی کے مرتکب ہو ۔

اللہ اکبر ۔ اندازہ کیجیے کہ آپ دو قوموں کی طرف مبعوث ہوئے اور دونوں قومیں ناپ تول اور ظلم و بربریت ، حق تلفی ، نا شکری کے گناہوں میں منہمک ۔ آپ نے ان کے حیلے بہانوں کو ختم کرتے ہوئے ان کے اشکالات کا جواب دیتے ہوئے بڑے ہی احسن انداز سے انہیں نصیحت فرمائی ۔ آج آپ معاشرے میں نگاہ دوڑائیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس طرح کی بے شمار برائیاں جنم لیے ہوئے ہیں اور انہی کی طرح حیلے بہانے تراشتے نظر آتے ہیں ۔ ناپ تول کی کمی اس لیے کرتے ہیں کہ اس میں انہیں کمی محسوس ہوتی ہے ، راہ راست پر چلنا انہیں اپنی ہلاکت معلوم ہوتی ہے، دین حق پر ایمان لانے اور شریعت پر عمل کرنے میں مہیب خطرات نظر آتے ہیں ۔ یہی حال آپ کی قوم کے سرداروں کا بھی تھا جو آج معاشرے کم ظرف لوگوں کا حال ہے ۔ ( سیرت الانبیاء ، صفحہ 504 تا 525)

ایسوں کو دعوتِ غور و فکر ہے کہ آپ جب اپنے لئے پورا ناپ تول پسند کرتے ہیں ، اس وقت آپ کو کمی کا احساس نہیں ہوتا تو پھر دوسروں کی مرتبہ ایسا کیوں ؟

رب تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر بجا لانا چاہیے کہ اس سے اضافہ ہوتا ہے نعمتوں میں ۔ اپنے سے پہلی امتوں کے تاریخی حالات کا مطالعہ کرنا چاہیے ، ایسے ہی بزرگان دین کی سوانح عمریاں اور خصوصاً حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنا چائیے جو کہ بہترین عبادت اور تقویٰ حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔ کبیرہ گناہوں کی معلومات اور ان کی سزاؤں کا مطالعہ کرنا چاہیے ، علماء اہلسنت کی صحبت اختیار کرنی چاہیے تاکہ ایسے کاموں سے کوفت حاصل ہو ۔ قوموں کے حالات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں کون کون سی برائیاں ہیں اور بذات خود مجھ میں کون کون سی کمی اور برائیاں ہیں وہ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے آج ہم زوال پذیر ہیں ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ ان کا تدارک بھی سیرت الانبیاء کے مطالعہ سے اور اہل حق کی صحبت سے ، محاسبہ نفس سے ہو جائے گا ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نیک کام کرنے اور ہر طرح کی برائیوں سے بچائے، حقوق اللہ و حقوق العباد کو احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ۔