آپ علیہ السلام کا اسم گرامی "شعیب" اور حسن بیان
کی وجہ سے آپ کو "خطیب الانبیاء "کہا
جاتا ہے۔ الله تبارک وتعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو دو
قوموں کی طرف رسول بناکر بھیجا۔ (1) اہل مدین ۔ (2) اصحابُ الاَیکہ ۔
حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے
حضرت شعیب علیہ السلام کے علاوہ کسی نبی کو دوبار مبعوث نہیں فرمایا ، آپ علیہ
السلام کو ایک بار اہل مدین کی طرف بھیجا جن کی اللہ تعالیٰ نے ہولناک چیخ (اور زلزے کے عذاب) کے ذریعے گرفت فرمائی
اور دوسری بار اصحاب الاَیکہ کی طرف بھیجا جن کی اللہ تعالیٰ نے شامیانے والے دن
کے عذاب سے گرفت فرمائی۔ (سیرت الانبیاء، حضرت شعیب علیہ السلام، صفحہ 505)
پہلے آپ علیہ السلام کو مدین کی طرف بھیجا گیا، یہ ایک
شہر ہے جسے مدین بن ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔ اس لئے اس کا نام ہی مدین پڑ گیا۔
اہل
مدین کو نصیحت: (1) سب سے پہلے آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت
کی دعوت دیں ، اسی لئے مدین والوں کو سب سے پہلے یہ فرمایا "اے میری قوم ! اللہ
تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں"۔فرمان باری تعالیٰ
ہے : قَالَ
يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهُ ترجمہ کنز العرفان: انہوں نے فرمایا : اے میری
قوم !اللہ کی عبادت کر واس کےسوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ (پارہ 8، الاعراف، آیہ: 85)
(2) کفر کے
بعد چونکہ مدین والوں کی سب سے بری عادت یہ تھی کہ وه خرید و فروخت کے دوران ناپ
تول میں کمی کرتے تھے، اس لئے حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں یہ
بری عادت چھوڑنے کی دعوت دی ۔ اور فرمایا "ناپ اور تول کو پورا کرو "۔ فرمان باری تعالیٰ
ہے : وَيٰقَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ
بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَآءَ هُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي
الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ترجمہ
کنز العرفان: اور اے میری قوم !انصاف کے ساتھ ناپ اور تول پورا کرو اور لوگوں کو
ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھر و۔ (پارہ 12، ھود، آیہ: 85)
3) آپ علیہ السلام نے قوم کو فرمایا " اے میری قوم!
مجھ سے تمہاری عداوت اور بغض، تمہارے الله سے کفر پر اصرار ، بتو ں کی پو جا کرنے
پر قائم رہنا ، لوگوں سے ناپ تول میں کمی کرنا اور اللہ کی بارگاہ میں توبہ سے
اعراض کرنے کی وجہ سے کہیں تم پر بھی ویسا ہی عذاب نازل نہ ہو جائے جیسا حضرت نوح علیہ
السلام کی قوم پراور حضرت ہود علیہ
السلام کی قوم پراور حضرت صالح علیہ السلام کی قوم پر یا حضرت لوط علیہ السلام کی
قوم پر نا زل ہوا اور حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا زمانہ دوسروں کے بنسبت تم
سے زیادہ قریب ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: وَيٰقَوْمِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ
شِقَاقِيْٓ أَنْ يُّصِيْبَكُمْ مِثْلُ مَآ أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ
هُودٍ أَوْ قَوْمَ صٰلِحٍ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِيْدٍ ترجمہ کنز العرفان: اور اے میری قوم !میری
مخالفت تم سے یہ نہ کروادے کہ تم پر بھی اسی طرح کا (عذاب) آپہنچے جو نوح کی قوم یاہود
کی قوم یا صالح کی قوم پر آیا تھا اور لوط کی قوم تو تم سے کوئی دور بھی نہیں ہے۔ (پارہ
12، ھود، آیہ: 89)
مدین والوں کی ہلاکت کے بعد آپ کو مدین کے قریب ہی سرسبز جنگلوں اور مرغْزاروں کے درمیان ایک دوسرے شہر کی طرف
مبعوث کیا گیا ۔یہاں رہنے والوں کا تذکرہ قرآن مجید میں "اصحاب الایکہ" یعنی
جنگل والوں کے نام سے کیا گیا ہے۔
اصحابُ
الاَیکہ کو نصیحت :(4)حضرت شعیب علیہ
السلام اصحاب الایکہ سے فرمایا : "میں تمہارے لیے
امانت دار رسول ہوں۔تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو"۔فرمان باری تعالیٰ
ہے: اِذْ
قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ أَلَا تَتَّقُوْنَ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ اَمِينٌ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَأَطِيْعُوْنِ ترجمہ کنز العرفان : جب ان سے شعیب نے فرمایا : کیاتم
ڈرتے نہیں ؟ بیشک میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں ۔تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ۔ (پارہ 19، الشعراء، آیہ: 177-179)
5)یہ لوگ راستوں میں بیٹھ جاتے تھے اور ہر راہ گیر سے کہتے تھے کہ شہر میں ایک
جادو گر ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے بعض لوگ مسافروں پر ڈکیتیاں ڈالتے ، رہزنی
اور لوٹ مار کرتے اور کھیتیاں برباد کرکے زمین میں فساد پھیلاتے۔ یہ ان کی عادت بن
گئی تھی اسی لئے حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں ان کاموں سے منع فرمایا اور ناپ تول پورا کرنے کا حکم دیا اور ساری مخلوق کو
پیدا کرنے والے رب تعالیٰ کےعذاب سےڈرایا۔فرمان باری تعالیٰ ہے: اَوْفُوا
الْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَآءَهُمْ وَلَا
تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ وَاتَّقُوا الَّذِيْ خَلَقَكُمْ وَ الْجِبِلَّةَ الْأَوَّلِيْنَ
ترجمہ کنز العرفان: (اے لوگو!) ناپ پورا کرو اور ناپ تول کو گھٹانے والوں میں
سے نہ ہو جاؤ ۔ اور بالکل درست ترازو سے
تو لو۔ اور لوگوں کوان کی چیزیں کم کرکے نہ
دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو ۔اور
اس سے ڈرو جس نے تمہیں اور پہلی مخلوق کو پیداکیا۔
(پارہ 19، الشعراء، آیہ: 181-184)