محمد صائم
(درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضانِ ابو عطار کراچی ، پاکستان)
اللہ پاک نے اپنے فضل سے کچھ لوگوں کو راہِ راست پر
رکھا اور کچھ لوگ اسکے عدل سے راہِ راست پر نہیں۔کہ اللہ کے ہر کام میں حکمتیں ہیں جو ہمارے عقلوں میں
نہیں آسکتیں۔ کچھ چیزوں کو وہ دوسروں کے لیے نشانی بنا دیتا کہ باقی لوگ اس پر رشک
کریں یا عبرت حاصل کریں۔دنیا میں اللہ پاک نے انبیاء کرام کو بھیجا کہ جو لوگ راہ راست پر ہیں ان کو اس پر ہمیشگی و
مضبوطی کا درس دیں اور وہ لوگ جو راہ راست
پر نہیں ان کو راہ راست دکھائیں اور اس پر چلنے کی نصیحتیں فرمائیں۔ فرمایا:- اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ
بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ۔(پ14،النحل:125) ترجمۂ کنز الایمان:اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت
سے۔
اچھی نصیحت
سے:مراد ترغیب و ترہیب یعنی کسی کو کام کی ترغیب دینا اور کسی کام سے ڈرانا۔
کچھ لوگوں نے
انبیاء کرام کی باتوں کو مانا کامیاب ہوئے تو کچھ انکار کرتے رہے عذاب میں گرفتار
ہوۓ اور اللّہ پاک نے ایسوں کو عبرت حاصل کرنے کے لیے
نشانی بنا دیا۔حضرات انبیاء کرام نے ان لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے کئی نصیحتیں
فرمائیں چونکہ ان میں سے چند لوگ نصیحتیں نہ مان کر عذاب الٰہی میں گرفتار ہوۓ مگر پھر بھی اللہ پاک نے ان انبیاء کرام کی نصیحتوں کا قرآن
پاک میں ذکر فرمایا تاکہ بعد میں آنے والے بھی اُن سے فائدہ حاصل کریں اور نافرمانی
کرکے اپنا حال گزشتہ قوموں کی طرح نہ کرلیں کہ کس طرح وہ عذاب میں گرفتار ہوں۔ان
انبیاء کرام میں سے ایک حضرت شعیب علیہ السلام ہیں آپ کو پہلے مدین اور پھر اَصحاب
ایکہ کی طرف مبعوث فرمایا (سیرت الانبیاء،ص:504،بتغیر) آپ نے اپنی قوم کو بہت سی
نصیحتیں فرمائی ہیں جن میں سے چند پیشِ خدمت ہیں:
(1) اللہ پاک
کے تمام انبیاء کرام نے اللہ کی بندگی
کرنے کا حکم فرمایا کہ بغیر اس کی بندگی کرے کوئی راہ نہیں،نہ کوئی یار و مددگار نہ کوئی نیکی قبول ہو جیساکہ شعیب علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو نصیحت فرمائی : قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ
مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ(پ8
اعراف:85) ترجمۂ کنز الایمان: کہا اے میری
قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔
(2) انبیاء
کرام کو صرف عبادات ہی سیکھانے کے لیے مبعوث نہ کیا گیا تھا بلکہ قوم کے معاملات
وغیرہ کی درستگی کے لیے بھی مبعوث فرمایا گیا تھا۔کہ قوم حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال رکھیے
تاکہ عذاب میں گرفتاری نہ ہو جیساکہ شعیب
علیہ السلام نے بھی نصیحت فرمائی: فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا
تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُم(پ8
اعراف:85) ترجمہ کنزالایمان:تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر
نہ دو
(3) انسان بہت
ہی کمزور ہیں اگر ہم کسی طرح کی بھی زیادتی کر بیٹھیں تو اس پر ڈٹے
رہنے کے بجائے اللہ سے معافی مانگیں اور اس کی طرف رجوع کریں۔ جیساکہ شعیب علیہ
السلام کی قوم نے ان کی مخالفت کری تو آپ نے عذاب سے ڈرانے کے بعدفرمایا:
وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ(پ12 ھود:90)
ترجمہ کنزالایمان:-اور
اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ۔
(4) کسی کو
بےجا پریشان کرنا یا اس کی راہ میں رکاوٹ بننا جو اس کی دنیا و آخرت برباد کردے
اور بالخصوص کسی کو ایمان لانے کی وجہ سے ستانا لائق عذاب ہے۔ جیساکہ شعیب علیہ
السلام نے فرمایا: وَلَا
تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ
مَنْ اٰمَنَ بِهٖ(پ8 اعراف:86) ترجمۂ
کنز الایمان:-اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کی راہ
سے انہیں روکو جو اس پر ایمان لائے۔ پھر
آگے فرمایا: وَانْظُرُوْا
كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ(پ8 اعراف:86) ترجمۂ کنز الایمان:-
اور دیکھو فسادیوں کا کیسا انجام ہوا۔
(5)رب تعالیٰ
کے انعام کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر شکر بھی ادا کرنا چاہیے کہ نعمت کا شکر کرنا نعمت کی زیادتی
کا سبب ہے جیساکہ شعیب علیہ السلام نے نعمت کو یاد کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ۪-(پ8 اعراف:86) ترجمہ
کنزالایمان:اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے اس نے تمہیں بڑھادیا(تھا) المختصر یہ کہ
تمام انبیاء کرام نے مختلف مقامات پر مختلف نصیحتیں فرمائیں تاکہ عذاب سے نجات اور
قرب الہٰی و تقویٰ نصیب ہو۔دورِ حاضر میں بھی بعض حضرات ایسے ہیں کہ نہ ہی نصیحتیں
مانتے،نہ ہی ان پر عمل کرتے گویاکہ اس طرح کہنا چاہتے
ناصحا مت کر نصیحت دل مرا گھبرائے ہے
دشمن اس کو جانتا ہوں جو مجھے سمجھائے ہے
بلکہ بعض تو
نصیحت سننے کے لیے بھی تیار نہیں ایسے
حضرات کوچاہیے کہ پچھلی قوم کے احوال پڑھیں اور ان کے انجام میں غور و فکر کریں۔
اللہ پاک ان نصیحتوں پر عمل کرکے ان کے فوائد سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم