محمد فیصل فانی بدایونی (درجۂ سابعہ جامعۃُ المدینہ پیراگون سٹی لاہور ، پاکستان)
شیوہ پیغمبری ہے کہ وعظ و نصیحتیں
کی جائیں تاکہ عوام راہ ہدایت اختیار کرے اور دنیاوی اور اخروی زندگی
میں شرف کامرانی حاصل کرے۔ اسی سلسلے کے ایک کڑی حضرت شعیب علیہ السلام تھے۔ جنہوں
نے اپنے امتیوں کو پیغام ربی پہنچایا اور کامیابی زیست فی الدنیا اور اخروی کا نہ
صرف راستہ بتایا بلکہ اس پر چل کے دیکھایا۔ انھیں ہی کی چند نصائح عالیہ کو قرآن
مجید نے بھی اپنے احاطہ بیان میں لایا ہے جیساکہ رب العزت فرماتا ہے کہ
وَاِلٰى
مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ
اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ
وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی
الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
ترجمۂ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کی
برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی
معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول
پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ
یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔ (پارہ 8، سورۃ الاعراف، آیت85)
اس آیت مقدسہ میں رب تعالیٰ
کے پیارے نبی شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو نصیحتیں فرمائیں۔
1۔ الله تعالٰی
کی عبادت کرو اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔
2۔ ناپ تول
پورا کرو۔ یعنی کسی طرح بھی ناپ تول میں کمی مت کرو۔
3۔ اور لوگوں
کو گھٹا کر مال فروخت نہ کرو۔ یعنی ترازو کے ذریعے کسی کو دھوکہ دینا یا کسی بھی
طرح بکنے والے مال میں غدر نہ کرو
4۔ زمین میں
فساد نہ کرو بلکہ امن عامہ قائم رہنے دو کیونکہ
جو فساد ہے وہ قتل سے بھی بڑا گناہ ہے۔ اس
سے ریاست نہ ہی قائم رہتی ہے۔ نہ انسانیت پنپ سکتی
ہے۔ اسی طرح ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا کہ فَاتَّقُوا
اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(179)وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ
اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(180) ترجمۂ کنز الایمان: تو اللہ سے
ڈرو اور میرا حکم مانو۔اور میں اس پر کچھ تم سے اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی
پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔ (پارہ19، سورۃ الشعراء، آیت179تا, 180)
درج بالا آیت
مبارکہ میں دو نصیحتیں اور کیں۔
1۔ اللہ تعالی
سے ڈرو۔ یعنی اس کی فرمانبرداری کرو اس کے حکم کی عدولی مت کرو اور حدوں کو مت
توڑو۔
2۔ اور فرمایا
میرے حکم کی پیروی کرو۔ کیونکہ جو نبی کا حکم ہوتا ہے دراصل اللہ تعالی کا ہی حکم
ہوتا ہے۔ ساتھ یہ بھی بتایا کہ نصیحتیں کرنے کا مقصد مال بٹورنا نہیں ہے اور نہ ہی
شہرت وغیرہ حاصل کرنا ہے۔ بلکہ فقط رب کی رضا مقصود ہے۔ وہی مجھے اس کا اجر دے گا۔
اسی طرح آخرت کی یاد دلاتے ہوئے ارشاد
فرمایا کہ وَ اِلٰى مَدْیَنَ
اَخَاهُمْ شُعَیْبًاۙ-فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ
الْاٰخِرَ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(36) ترجمۂ کنز الایمان: مدین کی طرف اُن کے ہم قوم شعیب کو بھیجا تو
اس نے فرمایا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اور پچھلے دن کی امید رکھو اور زمین میں
فساد پھیلاتے نہ پھرو۔ (پارہ 20، سورۃ العنکبوت، آیت 36)
آیت کریمہ کے اس مقام پر رب تعالیٰ نے تین
سنہری نصائح عطا فرمائے ۔ جن میں سے دو پہلے مذکور ہیں۔ ایک کا بیان کرنا یہاں لازمی ہو گا۔
1۔ اور آخرت
کے دن کی امید رکھو کیونکہ اس دن کی یاد سے انسان میں احساس ذمہ داری کا ادراک
ہوتا ہے۔ اور انسان انصاف کے ترازو پر یقین رکھتا ہے۔ اور حقوق تلفی کسی کی نہیں کرتا۔
جو بھی نبی ہوتا ہے۔ وہ خاص اپنی قوم سے
الفت و محبت بھی کرتا ہے۔ اور جا بجا اس کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے۔ جیسا کہ حضرت
شعیب علیہ السلام نے ارشاد فرمایا۔ وَیٰقَوْمِ
لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِیْۤ اَنْ یُّصِیْبَكُمْ مِّثْلُ مَاۤ اَصَابَ قَوْمَ
نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍؕ-وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِیْدٍ(89)
ترجمۂ کنز الایمان: اور اے میری قوم تمہیں میری
ضد یہ نہ کموا دے کہ تم پر پڑے جو پڑا تھا نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صالح کی
قوم پر اور لوط کی قوم تو کچھ تم سے دور نہیں۔(پارہ 12، سورۃ
ھود آیت89)
اس آیت کریمہ میں ایک خاص جہت سے نصیحت
فرمائی اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی انسانوں میں کوئی شخص اعلیٰ کام کرتا ہے تو اس
سے حسد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ حسد اس قوم کو بے جا مخالفت پر مجبور کرتا ہے۔ اور ان کو تماثیل کے ذریعے
سمجھایا بھی کہ گزشتہ جن قوموں نے رسولوں کی مخالفت کی ان کی قوموں سے عبرت حاصل
کرو۔
وَلَا
تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ
مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا
فَكَثَّرَكُمْ۪-وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ(86) ترجمۂ
کنز الایمان: اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کی راہ
سے انہیں روکو جو اس پر ایمان لائے اور اس میں کجی چاہو اور یاد کرو جب تم تھوڑے
تھے اس نے تمہیں بڑھادیا اور دیکھو فسادیوں کا کیسا انجام ہوا۔(پارہ 8، سورۃ
الاعراف، آیت 86)
اس آیت مقدسہ میں راستے میں بلا ضرورت بیٹھنے
سے منع فرمایا اور بالخصوص چوری یا ڈکیتی کرنے کے لیے بیٹھنے والوں کے خلاف یہ قطعی
حجت ہے۔ تاکہ وہ ڈکیتی وغیرہ کر کے معاشرے اور اس
کی معیشت پر اثر انداز نہ ہوں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے جتنے بھی حضرت شعیب علیہ السلام
کے نصائح ہیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین