طلبہ میں علمِ دین کا شوق پیدا کرنا دینِ اسلام کی تبلیغ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہےتاکہ وہ معاشرے کے لوگوں کی اصلاح کر سکے، دعوتِ اسلامی کے شعبہ جامعۃ المدینہ کے طلبہ  ٔکرام کا شوق ِ علم دین مرحبا کہ جو کچھ پڑھتے ہیں اسے یاد بھی رکھتے ہیں ۔

الحمدللہ عزوجل ان جامعات کے طلبۂ کرام نے شوقِ علمِ دین میں مختلف دینی کتب کامطالعہ کیا اور زبانی انہوں یاد کرلیا۔

جامعۃالمدینہ روات اسلام آباد ریجن کے 6طلبہ ٔکرام نے مکمل خلاصۃ النحو یاد کرلی، جامعۃالمدینہ اقصیٰ مسجد شیراوالہ گیٹ کے درجہ اولیٰ (ب) کے 5 طلبۂ کرام نے نصاب الصرف کے ششماہی اول کے 30 اسباق مکمل ایک مجلس میں زبانی سنائے،جامعۃ المدینہ شہتاب گڑھا کے 7 طلبہ ٔ کرام نے صرف ونحو کا پہلا حصہ مکمل اور اربعین کی 25 حدیثیں متن و سند کے ساتھ زبانی یاد کرلیں،جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ ساہیوال کے طالبِ علم محمدسمیر نے خلاصۃ النحو ،نصاب الصرف کے 30 ،30 اسباق ایک ہی مجلس میں زبانی سنانے کی سعادت حاصل کی، جامعۃ المدینہ فیضانِ اہلبیت ہر ی مسجد لیاری کراچی کے ایک طالب ِعلم نے عرس اعلیٰ حضرت کے موقع پر کافیہ کا متن زبانی سنانے کی سعادت حاصل کی اسی طرح جامعۃ المدینہ فیضانِ عطار بنگہ حیات کے طالبِ علم نے ایک ہی نشست میں خلاصہ النحو کے مکمل 30 اسباق زبانی سنانے کی سعادت حاصل کی ۔(رپورٹ: محمد امیر حمزہ عطاری پروجیکٹ منیجر آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ آف جامعۃ المدینہ بوائزپاکستان ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری) 


تورات شریف میں آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا نام مبارک "احمد الضحوک" بھی آیا ہے۔ ابن فارس نے لکھا ہے کہ آپ کو الضحوک اس لیے کہا جاتا ہے چونکہ آپ کا نفس عمدہ تھا آپ اپنے پاس آنے والے کو مسکرا کر ملتے تھے اہل عرب کے جفاجو(ظالم،ستم گر) اور اعرابی آپ کے پاس آتے تھے وہ آپ کو سخت اور تندخو نہیں پاتے تھے بلکہ گفتگو میں آپ نرم ہوتے تھے۔ آپ کا لہجہ انتہائی شائستہ ہوتا تھا ۔

(سبل الھدی و الرشاد ،جلد 7 صفحہ، 195 القاہرہ )

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور یہ نبی کریم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم کے تابعدار، خادم اور صحابی تھے کہ نبی کریم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم کی اس بیماری میں جس میں حضور علیہ الصلوۃ و السلام کا وصال ہوا حضرت ابو بکر نمازیں پڑھایا کرتے تھے یہاں تک کہ جب دوشنبہ (پیر) کا دن ہوا اور صحابہ صف باندھے نماز میں تھے کہ نبی کریم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم نے حجرے کا پردہ ہٹایا اور ہماری طرف دیکھنے لگے اور حضور اکرم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم کھڑے تھے حضور پرنور کا چہرہ انور ایسا لگتا تھا گویا وہ مصحف کا ورق ہے۔ پھر حضور اکرم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم مسکراتے ہوئے ہنسے نبی کریم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم کے دیکھنے کی خوشی کی وجہ سے ہم قریب تھے کہ نماز چھوڑ بیٹھتے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی ایڑیوں پر پیچھے پلٹے تاکہ صف میں آ جائیں اور انھوں نے یہ سمجھا کہ نبی کریم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں اس پر نبی اکرم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم نے اشارہ فرمایا اپنی نماز پوری کرو اور پردہ چھوڑ دیا۔ اسی دن وصال فرمایا۔(صحیح بخاري شریف ص:169،حديث:680، دار ابن كثير بيروت)

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ احد کے دن رسول اللہ صلى الله علیہ واٰلہ وسلم نے ان کے لیے اپنے ماں باپ کو جمع کیا۔ مشرکوں میں سے ایک شخص نے مسلمانوں کو جلا ڈالا تھا نبی کریم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم نے سعد کو فرمایا تم پر میرے ماں باپ فدا تیر مارو۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے بغیر پَر کا تیر لے کر اس کے پہلو پر مارا جس سے وہ گر پڑا۔ رسول اللہ صلى الله علیہ واٰلہ وسلم اس کے گرنے سے مسکرائے حتی کہ آپ علیہ الصلوۃ و السلام کی ڈاڑھیں مبارکہ دیکھیں۔

(صحیح مسلم ص: 1202، حديث :2412،مکتبہ دارالفكر بيروت)

صحابہ کرام علیہم الرضوان بیان کرتے ہیں ایک دن ایک اعرابی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا۔درحال کہ چہرہ انور کا رنگ بدلا ہوا تھا اعرابی نے کچھ پوچھنا چاہا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے فرمایا ایسا نہ کر اعرابی نے کہا مجھے چھوڑ دو اس ذات کی قسم جس نے حضور علیہ السلام کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ و سلم کو ہنسا کر ہی رہوں گا، اس نے عرض کی مجھے خبر پہنچی ہے کہ دجال لوگوں کے پاس ثرید ( ایک عمدہ کھانا) لائے گا جبکہ وہ بھوک سے مر رہے ہونگے میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں مجھے کیا حکم دیتے ہیں کہ میں اس کا ثرید کا نہ کھاؤں اور کمزوری کی وجہ سے ہلاک ہو جاؤں یا پھر اس کا ثرید کھالوں یہاں تک کہ جب پیٹ بھر جائے تو اللہ پاک پر ہی ایمان کا اقرار کروں اور اسے جھٹلاؤں ، صحابہ کرام فرماتے ہیں : حضور علیہ الصلوۃ والسلام اس بات پر اتنا مسکرا ئے کہ داڑھیں مبارک ظاہر ہو گئیں۔ پھر ارشاد فرمایا نہیں بلکہ اللہ عزوجل جس شئے کے سبب دوسرے مسلمان کو بے نیاز کر دے گا تجھے بھی اسی کے سبب بے نیاز کر دے گا۔(ملخصاً احیاء العلوم جلد 2 صفحہ 1287 المدینہ العلمیہ)

ابن عساكر نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ انھوں نے فرمایا اسی اثنا میں کہ حضور اکرم صلى الله علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا ایک شخص بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہوا اس نے کہا میں ہلاک ہو گیا آپ علیہ السلام نے پوچھا تیری خیر! تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا میں رمضان المبارک میں اپنی اہلیہ کے ساتھ وظیفہ زوجیت ادا کر دیا ہے۔ آپ نے فرمایا ایک غلام آزاد کرو اس نے عرض کی میرے پاس غلام نہیں ہے آپ نے فرمایا لگاتار دو ماہ روزے رکھو اس نے عرض کی مجھ میں طاقت نہیں ۔ آپ نے فرمایا ساٹھ مساکین کو کھانا کھلاؤ۔ اس نے عرض کی مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے مابین مجھ سے زیادہ کوئی مفلس نہیں آپ مسکرائے حتی کہ دندان مبارک نظر آنے لگے فرمایا اسے لے لو اور اپنے رب تعالیٰ سے مغفرت طلب کرو۔

(سبل الھدی و الرشاد ، جلد 7 صفحہ ، 193 القاھرہ)


دعوتِ اسلامی کےنیوسوسائٹی ڈیپارٹمنٹ کےتحت 10اکتوبر2021ءبروزاتوارفیصل آباد سٹی میں مدنی مشورے کا انعقاد کیا گیاجس میں نیو سوسائٹی ڈیپارٹمنٹ، مختلف شعبوں  اور سیکٹر و بلاک ذمہ داران نے شرکت کی۔

اس دوران غلام الیاس عطاری نے نیو سوسائٹیز میں شعبوں کے دینی کام کوکس انداز میں کرنا ہے نیز اسےکس طرح مینج کیا جائے اس حوالے سے کلام کیا،مبلغِ دعوتِ اسلامی نےدینی کاموں کے پیشگی وعملی شیڈول بنانےاورکم ازکم دو گھنٹے دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں میں شمولیت اختیار کرنے کا ذہن دیا جس پر ذمہ داران نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔ (رپورٹ: محمد کاشف عطاری ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


ماہنامہ فیضان مدینہ کے قارئین!

یاد رکھیئے مسلمان کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے۔ اور اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرایا کرتے تھے ۔

ویسے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سے مواقع پر مسکرایا کرتے تھے لیکن ہم یہاں 5 مختلف آپ علیہ السلام کے مسکرانے کے مواقع ذکر کرتے ہیں ۔ سب پہلے ہم یہ ذکر کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کا مسکرانا کیسا تھا :۔چنانچہ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کبھی پورے طریقے سے ہنسے ہوں میں نے نہیں دیکھا کہ آپ علیہ السلام کے حلق کا کوا نظر آتا ہوں بلکہ آپ علیہ السلام صرف مسکرایا کرتے تھے۔

اور انہی سے ایک حدیث مروی ہے کہ نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام کا ہسنا صرف تبسم فرمانا تھا۔

حضرت حصین بن یزید کلبی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہے کہ میں نے نبی پاک علیہ السلام کو کبھی ہنستے نہیں دیکھا بلکہ آپ علیہ السلام مسکرایا کرتے تھے۔

1۔ تمہاری آنکھوں میں سفیدی ہے: حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا شوہر بیمار ہے اور آپ کو یاد کرتا ہے حضور علیہ السلام نے اس کی بات سنی تو مسکراتے ہوئے فرمایا اس کے آنکھ میں تو سفیدی ہے۔

2۔ جذبہ عقیدت: ایک مرتبہ حضرت طلحہ بن البراء رضی اللہ عنہ حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی حکم دیں جس کی میں تعمیل کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا جذبہ عقیدت دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ تم اپنے باپ کو قتل کر دو حضرت طلحہ بن البراء رضی اللہ عنہ اٹھے اور اپنے باپ کے قتل کرنے کے لئے نکلنے لگےحضور نبی کریم علیہ الصلاۃوالسلام نے جب ان کا ارادہ دیکھا انہیں روکا اور فرمایا میں قطعی رحمی کے لئے نہیں بھیجا گیا۔

3۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچوں کے ساتھ خوش طبعی کرنا: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ نہایت شفقت و محبت سے پیش آتے تھے، ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے تھے اور ان کے حق میں دعائے خیر فرماتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھتے تو خوش ہوتے اور مسکراتے تھے۔

4۔ صبح مسکراتے ہوئے فرمائی: حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صبح مسکراتے ہوئے فرمائی اور آپ علیہ السلام کا چہرہ خوشگوار تھاصحابہ کرام علیہم الرضوان نے آپ علیہ السلام سے اس خوشی کی وجہ دریافت کی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا اللہ عزوجل نے فرمایا ہے کہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پاک پڑھے گا تو میں اسے دس نیکیاں عطا کروں گا اور اس کے دس گناہ کو مٹاؤں گا اور اس کے درجات کو بلند کروں گا پس یہ سن کر میرا چہرہ کھلکھلا اٹھا۔ سبحان اللہ

تو اس طرح کے کئی ایسے واقعات ہیں کہ جہاں آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے تبسم فرمایا ہے یاد رکھئے تبسم فرمانا ہی آقا علیہ السلام کی سنت ہے نہ کہ قہقہہ لگانا کیونکہ قہقہہ لگانا شیطان کی طرف سے ہے ۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں پیارے آقا علیہ السلام کی مسکراہٹ کا صدقہ نصیب فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم (ماخوذ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسکراہٹیں)


گزشتہ دنوں دعوتِ اسلامی کے تحت میر پور ساکرو کابینہ اورٹھٹھہ کابینہ کا ماہانہ مدنی مشورہ ہوا جس میں اراکینِ زون بن قاسم، نگرانِ کابینہ واراکین کابینہ، ڈویژن، علاقہ ،حلقہ، ذیلی اور نئے پرانے اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

اس موقع پر نگرانِ زون سیّد فضیل شاہ عطاری نے 12دینی کاموں کا جائزہ اورکارکردگی واہداف طے کئے،5نومبر2021ءکو2021ساکرو اور بوہارو ڈویژن میں فیضانِ نماز کورس رہائشی طے پایانیزٹھٹھہ کابینہ میں رکنِ کابینہ مدنی کورسز ذمہ داراب سے محمد کاشف ٹھٹوی عطاری ہوں گے ۔

ان مدنی مشوروں میں ربیع الاول کے مدنی مذاکروں کی تیاریوں، چراغوں اور بارویں شب کے سنتوں بھرےاجتماعات وجلوسِ میلاد النبی ﷺ کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اہداف طے کئے گئے۔(رپورٹ: ابو یاسر قاری محمد ناصر رضا عطاری شعبہ مدنی کورسز بن قاسم زون ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


Under the supervision of majlis “short courses A 3-day online course was held in Colombo, Sri Lanka namely “Ehkaame Wirasath” in the past week.13 people had the privilege to join this course.

The female preachers of Dawate Islami taught the attendees about the details of inheritance and the importance of will.


دعوت اسلامی کے شعبہ اسلامی بہنوں کے مدرسۃ المدینہ کے زیر اہتمام07 اکتوبر 2021ء کو رکن عالمی مجلس شعبہ اسلامی  بہنوں کے مدرسۃ المدینہ بالغات کی ذمہ دار اسلامی بہن کا ساؤدرن افریقہ ریجن کی شعبہ اسلامی بہنوں کےمدرسۃ المدینہ کی ذمہ دار اسلامی بہنوں کے ساتھ آن لائن مدنی مشورہ ہوا۔

اسلامی بہنوں کی مدارس کی کارکردگی، مدارس میں طالبات کے ٹیسٹ کا نظام، اجیر و غیر اجیر ٹیسٹ کا نظام، کورسز کا شیڈول اور 100٪تقرر کے حوالے سے اہم امور پر بات چیت ہوئی۔


ایسی ہنسی جس میں ہونٹ کھل جائیں اور کبھی دانت بھی نظر آئیں لیکن آواز نہ ہو تو اسے تبسم یا مسکرانا کہتے ہیں ۔ حضرتِ عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضورِاقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے زیادہ تبسم کرنے والا نہیں دیکھا۔(شمائلِ ترمذی ، حدیث: 215)

حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مسکرانے کے 5 واقعات مندرجہ ذہل ہیں :

1) حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ایک شخص کے صغیرہ گناہ پیش کیے جائیں گے وہ اقرار کرے گا اور خوفزدہ ہوگا کہ ابھی کبائر کی باری ہے۔ لیکن حکم ہوگا کہ اسکے ہر گناہ کے بدلے نیکی لکھی جائے تو وہ خود بولے گا کہ ابھی کبائر باقی ہیں ۔ یہ مقولہ نقل کرنے کے بعد حضورِاقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکرا دیے کہ جن گناہوں کے اظہار کا ڈر تھا انہیں خود ظاہر کردیا۔

(شمائلِ ترمذی ، حدیث: 217)

2) حضرتِ جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے خواب دیکھا کہ میری گردن کاٹ دی گئی اور میرا سر گر گیا ہے ، میں اس کے پیچھے گیا اور اسے پکڑ کر واپس لگا لیا۔نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکرا دیے اور فرمانے لگے کہ جب شیطان تمہارے ساتھ نیند میں کھیلے تو اسے لوگوں سے بیان نہ کرو۔

(سلسلۃ الصحیحہ : 248)

3) حضرتِ عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ خیبر کے دن چربی کا ایک تھیلا (قلعہ سے ) باہر پھینکا گیا۔ میں اس سے چمٹ گیا اور اپنے آپ سے کہا : میں اس میں سے کسی کو کچھ نہ دوں گا ۔ اچانک میں مڑا تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (مجھے دیکھ، سن کر) مسکرا رہے تھے۔(سنن نسائی ،حدیث:4440،ج3)

4)حضرتِ صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے روٹی اور کھجور رکھی تھی۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :قریب آؤ اور کھاؤ ۔میں کھجوریں کھانے لگا تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمانے لگے کہ تم کھجور کھا رہے ہو حالانکہ تمہاری آنکھ آئی ہوئی ہے۔میں نے عرض کی کہ دوسری جانب سے چبا رہا ہوں ۔ تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکرا دیے۔

(سنن ابن ماجہ ، حدیث:٣٤٤٣،ج٤)

5)سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم چل رہے تھے اور ایک حدی خواں حدی ؎۱ کرتے ہوئے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بیویوں والے اونٹ چلا رہا تھا ،رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکرا پڑے۔ (مسندِاحمد، حدیث:2343، ج3)

۱؎ حدی یا حدا وہ گانا ہے جس سے اونٹ کو مستی دلا کر چلایا جاوے اونٹ گانے کا عاشق ہے جیسے سانپ خوش آواز کا،جب اونٹ تھک جاتا ہے تو خوش آوازی سے اسے گانا سنایاجاتا ہے جس سے مست ہوکر خوب تیز دوڑتا ہے اس گانے کو حدی اور گانے والے کو حاد کہتے ہیں۔

(مرآۃ المناجیح 6/363 )

(یاد رہے اس سے مراد معروف گانا نہیں ہے وہ خاص طرح کا کلام ہو تا تھا )


کتنا خوبصورت ہوتا ہوگا وہ منظر جب حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے ہوں گے تب کائنات مسکراتی ہوگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہ ان لمحوں پر رشک کرتے ہوں گے، جن و ملائک وجد میں آجاتے ہوں گے۔ لاکھوں درود اور لاکھوں سلام اس ہستی پر جو امت کے غم میں مبتلا رہتی تھی اور راتوں کو اٹھ کر روتی تھی۔ جو خلقِ خدا کی ہدایت کی حریص تھی اور کمر سے پکڑ پکڑ کر انہیں جہنم میں جانے سے روکتی تھی، جب کہ خلقت پروانوں کی طرح جہنم میں جانے کو تیار تھی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی 23 برس کی نبوت کی زندگی میں ہمہ وقت کشاکش تھی، غزوات تھے، سرایہ تھے، لیکن سیرتِ مطہرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش خلقی اور خوش طبعی کے واقعات سے معمور ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانِ کامل تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو بھی قریب آتا، آپ کا گرویدہ ہوجاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دل دے بیٹھتا۔ آج 1443ہجری میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذاق و مزاح کی لطافت مشامِ جاں کو معطر کرتی ہے…!!

ہمارے ماں باپ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر قربان، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سراپا لطف وکرم تھے۔ بدّو دور دراز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے آتے۔کسی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصافحہ کرلیا، کسی سے معانقہ کیا، کسی کےشانے پر دستِ مبارک رکھ دیا، کسی کو سینے سے لگا لیا، کسی کے سر پر دستِ شفقت پھیر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لمس تاحیات اس کے ایمان کو حرارت بخشتا رہتا۔ زہد کے ساتھ خشکی کا تصور ہے،جتنی بڑی مذہبی شخصیت ہوتی ہے اُس کے رعب اور دبدبے سے لوگ کاپنتے ہیں۔ زمانۂ موجود میں جو جتنا صاحبِ جلال ہے، خلقِ خدا میں اتنا ہی پہنچا ہوا بزرگ تصور کیا جاتا ہے۔

ہم ان لمحات کا تصور کرتے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسکراہٹ سے کائنات مسکرا اٹھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تبسم سے جن وملائک متبسم ہوگئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد موجود اصحاب رضی اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سرشار ہوگئے ہوں کہ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔ تصور میں کتنا خوبصورت بنتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سراپا۔ یہ تصویر ہمیں مصورِ حقیقی تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ احادیث کی کتب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مسکرانے کے کئی واقعات مذکور ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی قہقہہ لگا کر نہیں ہنسے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قہقہہ لگا کر ہنسنے اور زیادہ ہنسنے سے منع فرمایا، اس سے دل مُردہ ہوجاتے ہیں۔ شمس و قمر قربان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تبسم پر۔ وہ تبسم کس وقت کس موقع پر ہوتا تھا یہ جاننے کے لیے ان کی پاکیزہ مجالس میں شریک ہوتے ہیں۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ احمد مصطفی محمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ جبرئیل امین نے بتایا کہ ’’جہنم سے نکلنے والا آخری شخص کہے گا یارب جہنم سے دور کردے، اس کو دور کردیا جائے گا۔ پھر کہے گا یارب مجھے اس درخت کے سائے میں پہنچا دے، اس کو پہنچا دیا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا مجھے جنت کے دروازے تک پہنچا دیا جائے، اس کو پہنچا دیا جائے گا۔ (حالانکہ ہر مرتبہ وہ کہے گا کہ اس کے بعد میں مزید سوال نہیں کروں گا)، اس کے بعد اللہ رب العزت مسکراکر فرمائیں گے اس کو جنت میں داخل کردو۔‘‘

ماں سے ستّر گنا زیادہ پیار کرنے والا رب بندے کو خوب جانتا ہے۔ حسین جنتیں اس نے تیار ہی اپنے بندوں کے لیے کی ہیں۔ اسی لیے اس نے پیغمبر بھیجے کہ انسان راہِ راست پر آجائیں اور جنت کے حقدار ہوجائیں۔ یہ ہماری بداعمالیاں ہیں جو ہمیں جنت سے دور کرنے کا سبب بنیں گی۔ دنیا میں رب نے بن مانگے بے حد و حساب دیا، اس دن بھی وہ اپنے سوالی بندے کے ناز اٹھائے گا۔ اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسکراتے ہوئے اللہ اور بندے کے تعلق کی عکاسی کی۔

حضرت عمر بن عوف رضی اللہ عنہ انصاری سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین روانہ فرمایا تاکہ وہاں سے جزیہ وصول کرکے لائیں۔ چنانچہ وہ وہاں سے جزیہ وصول کرکے آئے۔ انصار کو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی واپسی کا علم ہوا۔ سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز میں شریک ہوگئے۔ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو مسکرا دئیے اور فرمایا: ’’میرا گمان ہے کہ تم لوگوں کو خبر ہوئی ہوگی کہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین سے کچھ لے کر آیا ہے؟ اصحاب رضی اللہ عنہم نے فرمایا: جی ہاں یارسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں کو بشارت دیتا ہوں اور تم لوگ اس چیز کی امید رکھو جو تمہیں خوش کرے گی۔ خدا کی قسم میں تم لوگوں پر فقر کا خوف نہیں کرتا بلکہ مجھے تم پر دنیا کے وسیع ہوجانے کا خوف ہے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر وسیع ہوگئی تھی۔ پھر تم دنیا سے رغبت کرنے لگو گے جیسے تم سے پہلے لوگ کرتے تھے۔ پھر یہ دنیا تم کو ہلاک کردے گی جیسے اُن لوگوں کو ہلاک کیا تھا جو تم سے پہلے تھے۔‘‘ (متفق علیہ)

اس حدیث کے مطابق مال کی خواہش ناپسندیدہ نہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے مال حاصل ہونے کی خوشخبری دی، ساتھ ہی مال کے فتنہ ہونے کی طرف توجہ دلائی۔ یہ ہے رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ پاک۔

ایک صحابی کا نام عبداللہ اور لقب حمار ہے۔ یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گھی اور شہد بطور ہدیہ لایا کرتے تھے۔ کبھی ایسا ہوتا کہ بیچنے والے کو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آتے اور کہتے جو تحفہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لایا تھا ان صاحب کو اس کی قیمت ادا کردیجیے۔ یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے اور قیمت ادا کرنے کا حکم دیتے۔ ایک دن حمار کو لایا گیا، اس نے شراب پی رکھی تھی۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا: اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کہو، یہ تو اللہ اور رسول کو دوست رکھتا ہے، یہ ہے رحمت۔

اللہ کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورا پیغام پہنچا کر گئے۔ کوئی فرد شیطان کے بہکاوے میں آکر گناہ کربیٹھے تو اس کو لعنت ملامت کے بجائے نصیحت کی جائے، امید رکھی جائے کہ توبہ کرکے پاک ہوجائے گا۔ حُسنِ سلوک سے اس کے راہِ راست پر آنے کے امکانات ہیں۔ بھری محفل میں اس کو لعنت ملامت کی جائے تو شیطان غلط راستے پر ڈال سکتا ہے۔ فداہٗ ابی و امی، کتنا پیارا ہے اسوۂ مبارک۔ تحفہ قبول کرتے ہیں اور مسکراتے ہوئے قیمت بھی ادا کرتے ہیں۔ موقع ہو تو عیب کی پردہ پوشی کا سبق دیتے ہیں۔ اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے والے سبق رہتی دنیا تک روشنی کا ذریعہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادمِ خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ دس برس کے طویل عرصے تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے۔ خادموں کی گواہی خاص ہوتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ پیاری گواہی دیتے ہیں ’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال تک خدمت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اُف تک نہ کہا اور نہ کبھی مجھے ملامت کی، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے کبھی ملامت کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے اسے چھوڑ دو، اگر یہ کام مقدر میں ہوتا تو ہوجاتا۔‘‘

حضرت انس رضی اللہ عنہ ایک دن کا واقعہ بیان کرتے ہیں ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی کام کے لیے بھیجا۔ میں نے کہا خدا کی قسم میں نہ جائوں گا لیکن میرے دل میں تھا کہ چلا جائوں گا۔ میں وہاں سے نکلا، بازار میں چند لڑکے کھیل رہے تھے، میں وہیں رک گیا، تھوڑی دیر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ آپ نے پیچھے سے میری گدّی پکڑلی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انس جہاں جانے کو کہا تھا وہاں گئے؟ میں نے کہا یارسول اللہ! ابھی جارہا ہوں۔‘‘ یہ بھی کہا ’’دس سال میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، خدا کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مجھ سے یہ نہیں کہا کہ یہ کام کیوں کیا اور یہ کیوں نہیں کیا۔‘‘ ( متفق علیہ)

بڑے خوش نصیب تھے حضرت انس رضی اللہ عنہ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب نے انہیں خیرِکثیر عطا کی ۔ ساری زندگی اپنی گردن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کا لمس محسوس کیا ۔ وہ مسکراہٹ یادوں کا سرمایہ رہی ہوگی۔ قصے کہانی کی بات لگتی ہے، خدمت گار بچے کو 10 برس اُف تک نہ کہنا۔ ہمارے معاشرے میں یہ خبریں آئے دن اخباروں کی زینت بنتی ہیں کہ ملازم بچے کے سر پر شیشے کا جگ دے مارا، کم سن ملازمہ کو زخمی کردیا، ملازمہ کو حبسِ بے جا سے برآمد کیا گیا وغیرہ۔ ملازموں سے بدسلوکی کو بدسلوکی سمجھا ہی نہیں جاتا بلکہ اپنا حق گردانا جاتا ہے۔ اکثر گھروں میں ملازمین اور ان کے بچوں سے نامناسب رویہ رکھا جاتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی گواہی چودہ صدیوں کے بعد ہم تک پہنچی ہے کہ خادموں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھنا چاہیے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے والدین جب انہیں واپس لینے آئے تو انہوں نے جانے سے انکار کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا چھاجوں مینہ جس پر بھی برستا تھا اس کو ہمیشہ کے لیے اپنا اسیر کرلیتا تھا۔

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی خوبصورت روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اُس پہلے شخص کو جانتا ہوں جو جنت میں داخل ہوگا۔ اُس شخص کو بھی جانتا ہوں جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکالا جائے گا۔ قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس پر اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو پیش کرو۔ اس کے بڑے بڑے گناہوں کو اس سے چھپائو۔ وہ اقرار کرے گا، انکار نہ کرے گا اور اپنے بڑے بڑے گناہوں سے ڈر رہا ہوگا۔ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اس کے لیے کہا جائے گا کہ اس شخص کو اس کی ہر برائی کے بدلے جو اس نے کی ہے، نیکی دے دو۔ یہ دیکھ کر وہ عرض کرے گا میرے اور بھی بہت سے گناہ ہیں جنہیں میں یہاں نہیں دیکھ رہا‘‘۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ پہنچ کر ایسا ہنسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیں نظر آنے لگیں۔ (ترمذی)

ہم عبد ہیں وہ معبود۔ دو اور دو چار کرنا ہماری گھٹی میں پڑا ہے۔ وقت ہوگا حساب کتاب کا۔ ہر ایک کی گٹھڑیاں کھولی جارہی ہوں گی، ترازو لگے ہوں گے، ہر ایک کا اعمال نامہ ہاتھ میں ہوگا۔ دنیا میں بہت سے لوگوں کو بڑی نعمتوں سے نوازا جاتا ہے، کچھ کی زندگی آزمائشوں میں گزرتی ہے۔ کوئی صبر کرتا ہے، کوئی شکر سے محروم۔ وہاں کے باٹ الگ ہوں گے۔ کچھ ایسی ہی منظر کشی ہے اس حدیثِ مبارک میں۔ بندہ اپنی نیکیاں اور گناہ خوب جانتا ہے، ڈرتا ہوگا کہ اب فلاں فلاں گناہ سامنے آئیں گے۔ رب کو نہ معلوم کون سا عمل یا ادا پسند آجائے، آزمائش پر صبر کرنا بلندیٔ درجات کا سبب بن جائے۔ رب نے اپنی رحمت میں ڈھانپ لیا عاصی کو۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان لمحات کا تصور کرکے سرشار ہیں اور رخِ مبارک متبسم ہے۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اُس شخص کو پہچانتا ہوں جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا، وہ جہنم سے سرین کے بل گھسٹتا ہوا نکلے گا۔ اس سے کہا جائے گا جا جنت میں داخل ہوجا۔ وہ جائے گا تاکہ جنت میں داخل ہو لیکن وہاں جاکر دیکھے گا کہ سب لوگوں نے تمام جگہوں پر قبضہ کررکھا ہے۔ وہ لوٹ آئے گا اور کہے گا اے رب لوگوں نے تمام گھروں پر قبضہ کرلیا۔ اس سے کہا جائے گا اچھا تو تمنا کر۔ وہ تمنا کرے گا تو اس سے کہا جائے گا جو تُو نے تمنا کی وہ تیرے لیے اور دنیا سے دس گنا زیادہ تیرے لیے ہے۔ وہ شخص کہے گا اے میرے رب تُو مذاق کرتا ہے؟ حالانکہ تُو بادشاہ ہے (جانتا ہے کہ وہاں ذرا سی بھی جگہ نہیں ہے)۔ راوی کہتے ہیں نبی پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ فرماکر اس قدر ہنسے کہ آپؐ کی داڑھیں نظر آنے لگیں (رواہ الترمذی فی الشمائل)۔ بڑا خوبصورت ہوگا وہ دن اہلِ جنت کے لیے، اللہ کی رحمت اہلِ ایمان پر سایہ فگن ہوگی۔ مومنوں کو رب سے گفتگو کا اعزاز حاصل ہوگا۔

حضرت عمرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی ازواج کے ساتھ تنہائی میں ہوتے تو کیا کرتے تھے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: تمہارے آدمیوں کی طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی ایک عام آدمی تھے، مگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام لوگوں سے زیادہ نرم طبیعت انسان تھے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تبسم فرمایا کرتے تھے۔ (ترمذی، ابن سعد)

محبت بھرا ماحول ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خوش طبعی نے گھر کو جنت بنایا ہوا ہے۔ ایک طرف نبوت کی عظیم الشان ذمہ داریاں ہیں، دوسری طرف خانگی معاملات ہیں۔ یہاں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک شوہر ہیں، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خوش طبعی نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ازواج کی زندگیوں کو خوشی سے بھر دیا ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کو خوشیاں دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ تربیت اور اصلاح کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔

حضرت سوید بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بطور وفد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا۔ میں وفد کے آدمیوں میں سے ساتواں تھا۔ ہم آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس پہنچے، گفتگو کی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ہماری اچھی ہیئت اور زینت سے تعجب ہوا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم کون ہو؟ ہم نے عرض کیا: ہم مومن ہیں۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دئیے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ ہر قول کی ایک حقیقت ہوتی ہے، تمہارے اس قول اور ایمان کی حقیقت کیا ہے؟

حضرت سوید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے عرض کیا کہ پندرہ عادتیں ہیں، پانچ وہ ہیں جن پر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قاصد نے یقین کرنے کا حکم دیا، پانچ وہ ہیں زمانۂ جاہلیت سے ہم جن کے عادی ہیں اور آج تک ان پر جمے ہوئے ہیں، اگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ناپسند ہوں تو ہم ان کو چھوڑ دیں گے۔

یہ سن کرکہ ہم مومن ہیں، بے ساختہ مسکراہٹ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چہرۂ مبارک پر پھیل گئی کہ کتنی سادگی سے اپنے ایمان کے متعلق بتایا۔ ایمان کے بھی مرتبے ہوتے ہیں۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مزید سوالات سے اپنی تشفی فرمائی کہ واقعی ہم ایمان کے تقاضوں کو سمجھتے بھی ہیں یا جذبات میں آکر ایمان کا دعویٰ کررہے ہیں۔ کتنا صادق تھا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اصحاب کا ایمان کہ ابھی ایمان کی شیرینی چکھی ہے اور وہ سب کچھ چھوڑ دینے پر آمادہ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند ہو۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فخر تھا اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم پر۔ واقعی وہ ستارے اور جگنو تھے۔حضرت علی بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیا اور حرۃ کی طرف چلے۔ پھر اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور فرمایا: اے اللہ میرے گناہوں کو بخش دے، بے شک گناہوں کو بخشنے والا تیرے سوا کوئی نہیں۔ پھر میری طرف ہنستے ہوئے متوجہ ہوئے۔ میں نے عرض کیا: اے امیر المؤمنین آپ کا اپنے رب سے استغفار کرنا اور میری طرف ہنستے ہوئے متوجہ ہونا، یہ کیا ہے؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک مرتبہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے سوار کیا اور حرۃ کی طرف لے چلے، پھر اپنا سرِ مبارک آسمان کی طرف اٹھایا اور فرمایا: اے میرے رب میرے گناہوں کو بخش دے، بے شک گناہوں کو بخشنے والا تیرے سوا کوئی نہیں۔ پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور مسکرائے۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے اپنے رب سے مغفرت طلب کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنستے ہوئے میری طرف دیکھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اپنے رب کے ہنسنے کی وجہ سے ہنسا۔ اللہ تعالیٰ کے اپنے بندے پر تعجب کرنے کی وجہ کہ یہ بندہ جانتا ہے کہ گناہوں کا بخشنے والا سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ میں ہلاک ہوگیا، میں نے رمضان میں دن میں بیوی سے صحبت کرلی۔ آپ نے فرمایا: ایک غلام آزاد کردے۔ اس نے کہا: میرے پاس تو کوئی غلام نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو دو ماہ لگاتار روزے رکھ۔ اس نے کہا: مجھ میں اس کی بھی طاقت نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا۔ اس نے کہا: مجھ میں اس کی گنجائش نہیں۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بورا لایاگیا جس میں کھجوریں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: سائل کہاں ہے؟ وہ حاضر ہوا، فرمایا: اس کو لے جاکر صدقہ کردے۔ اس نے کہا: میں اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کروں؟ خدا کی قسم مدینہ کی دونوں پتھریلی سرزمین کے درمیان مجھ سے زیادہ کوئی محتاج نہیں۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اتنا ہنسے کہ آپ کی داڑھیں ظاہر ہوگئیں اور فرمایا: پھر تم اور اہلِ خانہ اسے کھالینا۔ (بخاری)

ہم اپنے ساتھیوں کی تربیت کا طریقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے سیکھیں۔ ایک شخص اپنے گناہ کا اعتراف کرنے آتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لعنت وملامت کرنے کے بجائے اسے گناہ دھونے کے طریقے بتاتے ہیں۔ وہ اپنی مجبوریاں ظاہر کرتا چلا جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آنے کے بجائے انسان کی فطری کمزوریوں کا لحاظ کرتے ہیں، نرمی اور ترحم سے کام لیتے ہیں۔ گناہوں کا بوجھ لیے ہوئے آیا تھا، کاشانۂ نبوت سے جھولی بھر کر گیا۔ اس کے عذرات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مسکرانا امت کے لیے یہ پیغام ہے کہ داعیانِ دین کو انسانی کمزوریوں کا لحاظ کرنا چاہیے، وسیع الظرف ہونا چاہیے۔


پچھلے دنوں نیو سوسائٹی ڈپارٹمنٹ(دعوتِ اسلامی)کے زیرِ اہتمام فیصل آباد سٹی میں کالونی مالکان کے لئے دینی حلقے کا انعقاد ہوا جس میں کالونی مالکان اور مختلف شخصیات نے شرکت کی۔

اس موقع پر مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن ونگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری کی بھی آمد ہوئی،رکنِ شوریٰ نےدعوتِ اسلامی کی دینی وفلاحی خدمات کے حوالے سے بتاتے ہوئے وہاں موجود اسلامی بھائیوں کی تربیت کی اور انہیں دیگر مدنی پھولوں سے نوازا۔(رپورٹ: محمد کاشف عطاری ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری) 


دعوت اسلامی کے شعبہ اسلامی بہنوں کے مدرسۃ المدینہ کے زیر اہتمام07 اکتوبر 2021ء کو رکن عالمی مجلس شعبہ اسلامی  بہنوں کے مدرسۃ المدینہ بالغات کی ذمہ دار اسلامی بہن کا بنگلہ دیش ریجن کی شعبہ اسلامی بہنوں کےمدرسۃ المدینہ کی ذمہ دار اسلامی بہنوں کے ساتھ آن لائن مدنی مشورہ ہوا۔

اسلامی بہنوں کی مدارس کی کارکردگی، مدارس میں طالبات کے ٹیسٹ کا نظام ، اجیر و غیر اجیر ٹیسٹ کا نظام ، کورسز کا شیڈول اور 100٪تقرر کے حوالے سے اہم امور پر بات چیت ہوئی۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے مرتبئہ لا متناھی(جس کی کوئی انتہا نہ ہو) پر فائز ہیں جس کی تصریح رب تعالی خود قرآن پاک میں یوں بیان فرمائی کہ اِنّكَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ اور بے شک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو، بلکہ اخلاق کو بھی بلندی اسی در سے ملی ہے اور اخلاق کو بھی اس بات پر فخر و ناز ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق میرے ساتھ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق لا متناھیہ کو کما حقہ تو بیان کیا جا ہی نہیں سکتا انہی اخلاق میں سے ایک بے مثال خُلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حسین و جمیل مسکراہٹ بھی ہے، چنانچہ:

1۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس شخص کو پہچانتا ہوں جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا وہ ایسا آدمی ہو گا جو گھسٹتا ہوا ٓئے گا۔ اس سے کہا جائے گا :جا جنت میں داخل ہوجا۔ وہ جنت میں جاکر دیکھے گا کہ لوگوں نے تمام منازل پر قبضہ کر رکھا ہے۔ وہ واپس آکر عرض کرے گا کہ اے میرے رب لوگوں نے تمام مقام پر قبضہ کر لیا ہے۔ اب تو کوئی جگہ خالی نہیں ہے۔ ارشاد ہوگا کہ وہ دنیا تجھے یاد ہے جس میں تُو رہتا تھا کہ وہ کتنی بڑی تھی؟ وہ عرض کرے گا یاد ہے! ارشاد ہو گا: کہ تمہیں تمہاری تمنّائیں بھی دیں اور تمام دنیا سے دس گناہ زیادہ بھی دیا۔ حضور فرماتے ہیں، وہ شخص اللہ عزوجل سے عرض کرے گا کہ اے اللہ تو عظیمُ الشان بادشاہ ہو کر تمسخُر(مزاق) فرماتا ہے؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ اُس شخص کے اِس جواب پر اتنا مسکرائے کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے۔

(ذکر جمیل، صفحہ 130، ضیاء القرآن پبلی کیشنز)

2۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کُھردرے تھے۔ایک دم ایک بَدوی(دیہاتی) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑلیا اور اتنے زبردست جھٹکے سے چادر مبارک کو اس نے کھینچا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نرم و نازک گردن پر چادر کی کنار سے خراش آگئ پھر اس بدوی نے یہ کہا کہ اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم دیجئے کہ اس میں سے مجھے کچھ مل جائےحضور رحمت عالَم صلی اللہ وسلم نے جب اُس بدوی کی طرف توجہ فرمائی تو کمال حلم و عفو سے اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیے اور پھر اس کو کچھ مال عطا فرمانے کا حکم صادر فرمایا۔

(سیرت مصطفی، صفحہ نمبر 604،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

3۔جنگ بدر کے موقع پر جب انصار میں سے قبیلئہ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ خدا کی قسم ہم وہ جاں نثار ہیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہو تو ہم سمندر میں کود پڑیں، اسی طرح انصار کے ایک معزز سردار حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے جوش میں آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم حضرت موسی علیہ السلام کی قوم کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ آپ اور آپ کا خدا جاکر لڑیں، بلکہ ہم لوگ آپ کے دائیں سے، بائیں سے، آگے سے، پیچھے سے لڑیں گے انصار کے اِن دونوں سرداروں کی تقریر سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک خوشی سے چمک اٹھا۔

(سیرت مصطفی، صفحہ نمبر 212،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

4۔ایک شخص نے بارگاہِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی: یارسول اللہ میں ہلاک ہو گیا، فرمایا: تمہارا کیا معاملہ ہے؟ عرض کی: میں نے رمضان میں اپنی عورت سے صحبت کر لی، فرمایا: غلام آزاد کر سکتا ہے؟ عرض کی: نہیں، فرمایا: لگاتار دو مہینے کے روزے رکھ سکتا ہے؟ عرض کی: نہیں، فرمایا: ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے؟ عرض کی: میں نہیں پاتا، اتنے میں کھجور کا ٹوکرہ خدمت اقدس میں لایا گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں لو! اور خیرات کردو!، عرض کی: اپنے سے زیادہ کس محتاج پر؟ مدینے بھر میں کوئی گھر ہمارے برابر محتاج نہیں، رحمت عالَم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر مسکرائے یہاں تک کہ دندان مبارک ظاہر ہو گئے، اور فرمایا: جا! اپنے گھر والوں کو کھلا دے۔ (صحیح بخاری، جلد 1، صفحہ 259،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں

اُس تبسُّم کی عادت پہ لاکھوں سلام