الله پاک نے اپنی تمام مخلوق میں سے اشرف المخلوقات میں سے انسان کو بنایا پھر انسان میں سے اللہ پاک نے نبوت کے لئے ایسے کمالات و صفات والی شخصیات کو چنا جو اس مرتب کے لائق تھیں۔ پھر انہی شخصیات میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی۔ جیسا کہ اللہ پاک پاره تین سورہ بقرہ آیت نمبر 253 کے جز میں ارشاد فرماتا ہے: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ ترجَمۂ کنزُالایمان: یہ رسو ل ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا۔ (پ3،البقرۃ:253)تو اللہ پاک نے ان رسولوں میں سے جن کو فضیلت عطار فرمائی تو انہیں ایک عظیم مرتبہ اولوا العظم سے سرفراز فرمایا۔ انہی اُولوا العظم میں سے اُمت محمدیہ پر شبِ معراج کی رات نمازوں میں کمی کروا کر آسانی کرنے والے، اللہ پاک سے کلام فرمانے والے حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ الصلاة والسّلام نبی ہیں کہ جن کی نشان و صفات و عظمت کو اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں بیان فرمایا ہے۔ آئیے قراٰنِ کریم سے پانچ اوصاف حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ الصلاۃ و السّلام پیش کرتا ہوں۔

(1) چنی ہوئی شخصیت: آپ علیہ الصلاة و السّلام کا ایک وصف یہ تھا کہ اللہ آپ علیہ الصلاة و السّلام اللہ پاک کے چنے ہوئے برگزیدہ بندے تھے۔ جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا ترجَمۂ کنزُالایمان:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بےشک وہ چنا ہوا تھا ۔(پ 16، مریم:51) (2) مرتبہ رسالت عطا فرمایا :آپ علیہ الصلاة و السّلام کا ایک وصف یہ بھی تھا کہ اللہ پاک کے رسول و نبی تھے جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے: وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور رسول تھا غیب کی خبریں بتانے والا۔(پ 16، مریم:51)

(3) تیسرا وصف یہ تھا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسّلام کو اللہ پاک نے اپنا قرب عطا فرمایا۔ ارشاد ربانی ہے: وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسے اپنا راز کہنے کو قریب کیا۔(پ16،مریم: 52) (4) خواہش موسیٰ علیہ السّلام قبول : چوتھا وصف یہ ہے کہ آپ علیہ الصلاة و السّلام کی خواہش پر آپ کے بھائی ہارون علیہ الصلاۃ و السّلام کو نبوت عطا کی۔ ارشاد باری ہے: وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔(پ16،مریم:53)

(5) پانچواں وصف یہ تھا کہ آپ علیہ الصلاة والسّلام کو اللہ پاک نے کلام کرنے کا شرف بخشا۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔(پ6،النسآء:164)

پیارے اور محترم اسلامی بھائیو ! یہ حضرت موسیٰ علیہ الصلاة و السّلام کے چند اوصاف ہیں جو ابھی بیان ہوئے ورنہ تو آپ علیہ الصلاۃ و السّلام صفات و کمالات کے جامع تھے۔ کیونکہ اللہ پاک نے جسے بھی نبوت عطا فرمائی اُسے کامل صفات کے ساتھ مالا مال فرمایا ہے۔ اللہ پاک اس عظیم ہستی حضرت سونا موسیٰ کلیم اللہ علیہ الصلاۃ و السّلام کے صدقے ہم پر بھی نظر خاص فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے موسی علیہ السّلام کو بے شمار معجزات سے نوازا اور انہیں نہایت بلند مرتبہ عطا فر مایا ۔ نبی آخر الزمان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے موسی علیہ السّلام کو اپنے فرامین میں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ آپ کے ان فرامین میں اسلام کے اوصافِ حمیدہ کا روشن اظہار ہے جیسا کہ اللہ پاک نے حضرت موسی علیہ السّلام پر تورات نازل فرمائی۔ ارشاد باری ہے : ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی تاکہ نیک آدمی پر احسان پورا ہو اور ہر شے کی تفصیل ہو اور ہدایت و رحمت ہو کہ کہیں وہ اپنے رب سے ملنے پر ایمان لائیں۔ اور یہ برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے ، تو تم اس کی پیروی کرو اور پرہیز گار بنو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (پ6، الانعام :155،154)

موسی علیہ السّلام سے اللہ پاک نے صاف طور پر کلام کیا: وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔(پ6،النساء:164)

موسی علیہ السّلام نے اپنا عصا مبارک ڈال دیا تو وہ ایک ظاہر اژدھا بن گیا۔ فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌۚۖ(۱۰۷)ترجَمۂ کنزُالایمان: تو موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا وہ فوراً ایک ظاہر اژدھا ہو گیا۔( پ9، الاعراف : 107)

موسی علیہ اسلام نے اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالا تو دیکھنے والوں کیلئے جگمگانے لگا۔ وَّ نَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰظِرِیْنَ۠(۱۰۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالا تو وہ دیکھنے والوں کے سامنے جگمگانے لگا۔( پ9، الاعراف : 108)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے موسیٰ کا اس شے سے بری ہونا دکھا دیا جو انہوں نے کہا تھا اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اللہ نے) فرمایا: اے موسیٰ! میں نے اپنی رسالتوں اور اپنے کلام کے ساتھ تجھے لوگوں پر منتخب کرلیا تو جو میں نے تمہیں عطا فرمایا ہے اسے لے لو اور شکر گزاروں میں سے ہوجاؤ۔(پ9،الاعراف:144)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا ۔اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کیلئے مقرب بنایا۔ اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔(پ16،مریم:51تا 53)

ہم اللہ پاک کی بارگاہ اقدس میں دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک ہمیں حضرت موسی علیہ السّلام کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں انبیائے کرام علیہم السّلام کا وارث بنائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے انسان کو تمام مخلوق میں افضل بنایا ہے اور ان کی اصلاح فرمانے کے لئے انبیائے کرام اور مرسلین کو مبعوث فرمایا۔ ان انبیائے کرام اور مرسلین میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔ ان انبیا اور مرسلین کو کمال معجزات اور صفات سے سرفراز کیا ہے ان انبیائے کرام میں حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السّلام ان کو نبی بنا کر بھیجا اور ان پر کتاب بھی اتاری۔

اللہ پاک حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السّلام کو بھی کثیر معجزات اور اوصاف سے نوازا۔ ان اوصاف میں سے چند قراٰنِ کریم کی روشنی میں درج ذیل ہیں۔

(1) چنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے اوصاف میں سے پہلا وصف یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام الله پاک کے چنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔ جیسا کہ قراٰنِ کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا۔(پ 16، مریم:51)

(2) رسول و نبی تھے: اللہ پاک نے حضرت موسی علیہ السّلام کو رسول اور نبی بنا کر بھیجا تھا۔ جیسا کہ قراٰنِ کریم میں ارشاد باری ہے: وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ نبی رسول تھا ۔(پ 16، مریم:51) (3) اللہ پاک نے کلام فرمایا: اللہ پاک نے حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السّلام سے کلام فرمایا۔ اللہ پاک قراٰن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔(پ6،النساء:164)

(4)الله پاک نے آپ کو اپنا قرب بخشا: الله پاک نے حضرت موسی کلیم اللہ علیہ الصلاۃ و السّلام کو یہ وصف بھی دیا کہ آپ کو اپنا قرب بخشا۔ جیسا کہ اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرمایا: وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کیلئے مقرب بنایا۔ (پ16،مریم ،52)

(5) آپ علیہ الصلاۃ و السّلام کی خواہش پر آپ کے بھائی کو نبوت عطا کی۔ اللہ پاک نے حضرت موسی علیہ الصلاۃ و السّلام کی خواہش پر آپ کے بھائی ہارون کو نبوت عطا کی۔ حضرت موسی علیہ السّلام الله پاک کی بارگاہ میں دعا کی کہ میرے گھر والوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا۔ تو اللہ پاک نے ان کی دعا قبول فرمائی اور اپنی رحمت سے حضرت ہارون علیہ السّلام کو نبوت عطا کی۔ جیسا کہ اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔(پ16،مریم:53)اس آیتِ مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو اللہ پاک کی بارگاہ میں قرب کا ایسا مقام حاصل ہے کہ اللہ پاک ان کی دعا کے صدقے ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السّلام کو نبوت عطا فرمائی۔ اس سے ہمیں یہ بات بھی معلوم ہوئی کے اللہ پاک کی بارگاہ میں انبیائے کرام اور مرسلین عظام کی دعا مقبول ہیں اور ہم کو چاہیے کہ ہم بھی اللہ پاک سے ان انبیائے کرام و مرسلین عظام اور بزرگان ِ دین کے وسیلہ سے دعا کرے۔ الله پاک مجھے اور آپ کو دونوں جہاں کی بھلائیاں عطا کرے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


آج ہم ایک عظیم ہستی کی حیا کے بارے میں بات کریں گے۔ جن کی حیا کے بارے میں خود حضور خاتم النبیین رحمۃ للعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فر مایا کہ وہ حیا والے ہیں۔ چنانچہ مکی مدنی آقا حضور جان جاناں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ بہت حیا والے تھے اور اپنا بدن چھپانے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔

ان عظیم ہستی کا نام حضرت موسیٰ کلیم الله على نبينا وعليہ الصلوة والسّلام ہے ۔ آپ علیہ السّلام کا نام و لقب: آپ علیہ السّلام کا نام مبارک موسیٰ جبکہ لقب کلیم الله علی نبینا وعلیہ الصلوۃ و السّلام ہے۔آپ کا نسب نامہ : سیدنا موسیٰ علیہ السّلام حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی نسل سے ہیں اور آپ کا نسب موسیٰ بن عمران بن قاہت بن عازر بن لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم ہے۔

ولادت مبارکہ : آپ حضرت یوسف علیہ السّلام کی وفات سے 400 برس اور جبکہ ابراہیم علیہ السّلام کی وفات کے 700 برس بعد پیدا ہوئے۔ اور 120 سال عمر مبارکہ پائی۔

آپ علیہ الصلوۃ و السّلام کے کئی اوصاف بیان کیے گئے جن میں سے چند اوصافِ مبارکہ درج ذیل ہیں :آپ علیہ السّلام الله پاک کے برگزیدہ اور چُنے ہوئے بندے ہونے کا ساتھ ساتھ اللہ پاک کے نبی اور رسول بھی تھے ، چنانچہ پارہ 16 آیت نمبر 51 سورہ مریم میں ارشاد باری ہے : وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا ۔(پ 16، مریم:51)

(2) آپ علیہ السّلام رب کی بارگاہ میں بڑی وجاہت (یعنی بڑے مقام والے) اور مستجاب الدعوات تھے۔چنانچہ پا رہ 22 سورہ احزاب آیت نمبر 49 میں فرمان باری ہے : وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: موسیٰ اللہ کے یہاں آبرو والا ہے ۔(پ22،الاحزاب:69)

(3) آپ علیہ السّلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف بھی رکھتے تھے ۔ بارگاہِ انبیا میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کی آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی ہارون علیہ السّلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔ چنانچہ پارہ 16 سورہ مریم آیت نمبر 53،52 میں فرمان باری ہے: وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲) وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کیلئے مقرب بنایا۔ اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جونبی تھا۔(پ16،مریم:53،52)

آپ علیہ السّلام کی شان یہ بھی ہے کہ آپ کی پیدائش سے قبل ہی آپ کی ماں کو بتا دیا گیا تھا کہ یہ رسول ہیں۔ آپ بچپن سے ہی رسول ہیں۔ چنانچہ پارہ 20 سورہ قصص آیت نمبر 7 میں اللہ ارشاد فرمایا: وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى اَنْ اَرْضِعِیْهِۚ-فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فَاَلْقِیْهِ فِی الْیَمِّ وَ لَا تَخَافِیْ وَ لَا تَحْزَنِیْۚ-اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَیْكِ وَ جَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو اِلہام فرمایا کہ اسے دودھ پلا پھر جب تجھے اس پر خوف ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور خوف نہ کر اور غم نہ کر ،بیشک ہم اسے تیری طرف پھیر لائیں گے اور اسے رسولوں میں سے بنائیں گے۔(پ20،القصص:7)


(1) چنے ہوئے برگزیدہ بندے: حضرت موسیٰ علیہ السّلام اللہ پاک کے چنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے۔ ارشاد باری ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا ۔(پ 16، مریم:51) (2) وجاہت والے: آپ علیہ السّلام رب کریم کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجاب الدعوات تھے۔ ارشاد باری ہے: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69)

(3) کلیم الله: آپ علیہ السّلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی ہارون علیہ السّلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔ قراٰنِ پاک میں ہے : وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲) وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کیلئے مقرب بنایا۔ اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جونبی تھا۔(پ16،مریم:53،52)

اس سے اللہ پاک کے پیارے بندوں کی عظمت کا پتہ لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے خزانوں سے نہ مل سکے۔ تو اگر ان کی دعا سے اولا دیا دنیا کی دیگر نعمتیں مل جائیں تو کیا مشکل ہے ۔ البتہ نبوت چونکہ بند ہو چکا اس لیے اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی ۔(سیرت انبیاء، ص 530)


الله پاک نے انسانوں کی ہدایت کے لئے انبیائے کرام علیہم السّلام جیسی باکمال ہستیوں کے وجودِ مسعود کو تخلیق فرمایا ۔ ا نہیں ہر ایسی چیز سے دور رکھا جو ان کے دامن کو ناپاک کرنے اور ہر ایسی شے سے منزہ رکھا جو مخلوق سے عار و نفرت کا باعث ہو، تو کس طرح ان کی ہستیوں کو صفاتِ مذمومہ اور عادات متنفرہ سے مبرہ رکھا۔ یونہی ان مبارک ذوات کو صفاتِ حسنہ اور عاداتِ حسنہ سے آراستہ کیا ، ان مبارک شخصیات میں سے اللہ پاک کے پیارے نبی حضرت سیدنا موسی علیہ السّلام ہیں، جنہیں اللہ پاک نے بے شمار خصلتیں عطا فرمائیں اور قراٰنِ پاک میں کئی مقامات پر ان ذکر جمیل فرمایا ، آپ علیہ السلام کی قراٰن کریم موجود صفات یہ ہیں:۔

(1) الله سے ہم کلام ہونا: آپ علیہ السلام کو اللہ پاک نے یہ امتیازی صفت عطا فرمانی کہ آپ کے بلا واسطہ رب سے ہم کلام ہونے سے مشرف ہوئے، جیسا کہ اس مفہوم کو مختلف مقامات پر بیان کیا: وَ كَلَّمَهٗ رَبُّهٗۙ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس کے رب نے اس سے کلام فرمایا۔ (پ9،الاعراف:143 ) دوسرے مقام پر فرمایا: وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔(پ6،النساء:164) اور اسی سبب سے آپ علیہ السّلام " کلیم الله " کے لقب سے مشہور ہوئے۔

(2) چنے ہوئے: یوں تو سارے انبیائے کرام علیہم السلام چنے ہوئے ہیں مگر آپ کے حق میں اس وصف کو بالتکرار ذکر کیا گیا ، جیسا کہ ارشاد فرمایا: اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ چنا ہوا تھا۔(پ 16، مریم:51) ا دوسرے مقام پر: وَ اصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِیْۚ(۴۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور میں نے تجھے خاص اپنے لیے بنایا۔ (پ16،طٰہٰ:41) اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا: یٰمُوْسٰۤى اِنِّی اصْطَفَیْتُكَ عَلَى النَّاسِ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے موسیٰ میں نے تجھے لوگوں سے چن لیا۔(پ9،الاعراف:144)(3) قربِ الٰہی: اسی طرح سارے ہی انبیائے کرام علیہم السلام اللہ پاک کے مقرب ہوتے ہیں، جتنا یہ رب سے قریب ہیں، کوئی ان تک نہیں پہنچ سکتا مگر حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو خاص قرب بخشا اور سرگوشی فرمانی، ارشاد فرمایا: وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسے اپنا راز کہنے کو قریب کیا۔(پ16،مریم: 52)

(4) حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعا سے بھائی کو نبوت ملنا: نبوت ایک اعلیٰ منصب ہے ، جو اللہ پاک کی عطا اور اس کے فضل و رحم سے ملتا ہے، مگر حضرت موسیٰ علیہ السّلام وہ نبی ہے جن کی دعا سے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السّلام کو نبوت کا تاج عطا ہوا، ارشاد فرمایا: وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔(پ16،مریم:53) (5) حضرت موسی علیہ السّلام وجیہہ : اللہ پاک کے نزدیک سارے انبیائے کرام علیہمُ السّلام مقام و مرتبہ اور عزت و وجاہت والے ہیں، مگر حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے بارے میں اللہ پاک خصوصی طور پر ارشاد فرمایا: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: موسیٰ اللہ کے یہاں آبرو والا ہے ۔(پ22،الاحزاب:69) مفسرین نے وجیہہ کے مختلف معانی بیان کیے ہیں: عزت والا ، مقام و مرتبہ والا اور مستجاب الدعوات۔

الله پاک حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی صفاتِ حسنہ کے صدقہ ہمیں بھی اچھی صفات سے متصف فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


الله پاک نے قراٰنِ پاک میں کثیر انبیائے کرام (علیہ الصلوة و السّلام) کے فضائل وصفات بیان فرمائی ہے اور ان میں سے جن انبیائے کرام (علیہم الصلوۃ السّلام) کی کثرت سے صفات ذکر فرمائی ہیں ان میں سے ایک حضرت سیدنا موسی کلیم اللہ (علیہ الصلاۃ والسّلام) بھی ہے اللہ نے ان کو بڑے انعامات و صفات سے بہرہ مند فرمایا ہے۔ رب کریم ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اُن جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے اسے بَری فرما دیا اس بات سے جو انہوں نے کہی اور موسیٰ اللہ کے یہاں آبرو والا ہے ۔(پ22،الاحزاب:69)

یہ آیت جب موسیٰ (علیہ السّلام) کو لوگوں نے تہمت کا نشانہ بنایا کہ ہو نہ ہو موسی (علیہ السّلام) کے اندر معاذ الله ! کوئی عیب ہے اسی لئے حضرت موسی (علیہ السّلام) سرِ عام برہنہ ہو کر غسل نہیں فرماتے۔ تو ایک دن دریا میں غسل فرما ر ہے تھے، تو جس پتھر پر اپنے ثوب (کپڑے) رکھے تھے وہ پتھر ان کے ثوب (کپڑے) لے کر بھاگ گیا تھا، تو حضرت موسیٰ (علیہ السّلام) بھی اس پتھر کے پیچھے دوڑنے لگے اور فرماتے: ثو بی حجر ،ثوبی حجر (اے پتھر میرا کپڑا ) ۔( عجائب القراٰن ص 31)

روشن ہاتھ: رب نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا : وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً اُخْرٰىۙ(۲۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنا ہاتھ اپنے بازو سے ملا خوب سپید نکلے گا بے کسی مرض کے ایک اور نشانی۔(پ16،طٰہٰ:22)

اس معجزہ کا نام " یدِ بیضاء " ہے جو ایک عجیب اور عظیم معجزہ ہے۔ حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہما) نے فرمایا کہ حضرت ہے موسی (علیہ السّلام) کے دستِ مبارک سے رات اور دن میں آفتاب کی طرح نور نکلتا تھا ۔ (تفسیر خزائن العرفان، ص 563)

من و سلوی : رب کریم نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا: وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰىؕترجَمۂ کنزُالایمان: اور تم پر منْ اور سلْویٰ اتارا۔

یہ من و سلوی بھی موسیٰ (علیہ الصلوۃ والسّلام) کی صفات میں سے ہے اور ان کی ہی وجہ سے ان کی قوم پر بھی اس نعمت کا انعام فرمایا لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السّلام) کو یہ حکم تھا کہ روزانہ تم لوگ اس کو کھا لیا کرو اور کل کے لئے ہر گز ہر گز نہیں رکھنا لیکن ضعیف الاعتقاد لوگوں کو یہ ڈر لگنے لگا اگر کسی دن یہ نہ اترا تو ہم تو اس میدان میں بھو کے مر جائیں گے ۔ پھر ان لوگوں نے جمع کیا اور وہ سڑ گیا اور اترنا بند ہو گیا ۔ اسی لئے حضور (علیہ الصلوۃ والسّلام) نے فرمایا : اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے تو نہ کھانا خراب ہوتا نہ گوشت سڑتا ۔ کھانے کا خراب ہونا اور گوشت کا سڑنا اسی تاریخ سے شروع ہوا اور نہ اس سے پہلے نہ گوشت سڑتا تھا نہ کھانا بگڑتا تھا۔ (تفسیر روح البیان)

اور بہت سی صفات حضرت موسی (علیہ السّلام) کی قراٰنِ پاک میں بیان ہوئی۔

(1)میدان تیہ میں پتھر پر حضرت موسیٰ (علیہ السّلام) نے اپنا عصا مار دیا تھا تو اس میں سے بارہ چشمے جاری ہو گئے تھے جس کے پانی کو بنی اسرائیل چالیس برس تک استعمال کرتے رہے ۔ (عجائب القراٰن ،ص31)(2) حضرت موسیٰ (علیہ الصلاة والسّلام کا عصا اژدھا بن جاتا ۔ ( عجائب القراٰن، ص23)(3) حضرت موسیٰ (علیہ السّلام) کے عصا مارنے سے دریا میں راستے بن گئے۔ (عجائب القراٰن، ص25)

یہ وہ نبی (علیہ الصلاة والسّلام) ہے جن کی صفات قراٰنِ پاک میں کثیر آئیں ہیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ان کے صدقے مسلمانوں پر اپنا خصوصی رحم و کرم فرمائیں ان کے وسیلہ سے تمام مسلمانوں کی ہر مشکلات آسان فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الكريم (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)


قراٰن مجید میں موسی علیہ السّلام کی صفات :(1) : تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ ترجَمۂ کنزُالایمان: یہ رسو ل ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا۔ (پ3،البقرۃ:253)اس آیت میں انبیائے کرام علیہم السّلام کی عظمت و شان کا بیان ہے اور یاد رہے کہ نبی ہونے میں تو تمام انبیائے کرام علیہم السّلام برابر ہیں اور قراٰن میں جہاں یہ آتا ہے کہ ہم ان میں کوئی فرق نہیں کرتے اس سے یہی مراد ہوتا ہے کہ اصلِ نبوت میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں البتہ ان کے مَراتِب جداگانہ ہیں ، خصائص و کمالات میں فرق ہے، ان کے درجات مختلف ہیں ، بعض بعض سے اعلیٰ ہیں اور ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے اعلیٰ ہیں ، یہی اس آیت کا مضمون ہے اور اسی پر تمام امت کا اجماع ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: 253 ، 1/193)اس آیت میں جملہ انبیائے کرام علیہم السّلام میں سے بطورِ خاص تین انبیائے کرام علیہم السّلام ذکر فرمایا گیا۔ (1)حضرت موسیٰ علیہ السّلام (2) حضرت عیسیٰ علیہ السّلام (3) نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(2) وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا ۔(پ 16، مریم:51) اس رکوع میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں ۔ (1)آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے چنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔ (2) آپ علیہ السّلام رسول و نبی تھے۔ (3)آپ علیہ السّلام سے اللہ پاک نے کلام فرمایا۔ (4)آپ علیہ السّلام کو اپنا قرب بخشا۔ (5) آپ علیہ السّلام کی خواہش پر آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السّلام کو نبوت عطا کی۔

(3) وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ۔ یاد رہے کہ آیت میں مذکور نشانیوں سے وہ معجزات مراد ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو دے کر بھیجے گئے تھے جیسے عصا کا سانپ بن جانا، ہاتھ کا روشن ہو جانا اور دریا کا پھٹ جانا وغیرہ۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: 5، 3/73)

(4) وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳) {اَلْفُرْقَانَ: فرق کرنا۔} فرقان کے کئی معانی کئے گئے ہیں : (1) فرقان سے مراد بھی تورات ہی ہے۔ (2)کفر و ایمان میں فرق کرنے والے معجزات جیسے عصا اور ید ِبیضاء وغیرہ ۔(3)حلال و حرام میں فرق کرنے والی شریعت مراد ہے۔ (مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: 53، ص52)

(5) ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَى الَّذِیْۤ اَحْسَنَ وَ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَ۠(۱۵۴) { ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ: پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔}یہاں کتاب سے مراد توریت شریف ہے۔ سب سے پہلے کتابِ الہٰی حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو ہی عطا ہوئی۔ اس سے پہلے پیغمبروں کو صحیفے ملتے تھے۔ اور یہ جو فرمایا کہ ’’ تاکہ نیک آدمی پر احسان پورا ہو‘‘ حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’بنی اسرائیل میں محسن (یعنی نیک) اور غیر محسن بھی تھے تو اللہ پاک نے محسنین یعنی نیک لوگوں پر اپنی نعمت پوری کرنے کے لئے یہ کتاب نازل فرمائی۔ اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام اللہ پاک کے دئیے ہوئے علم کے مطابق نیک کام کرتے تھے اس لئے اللہ پاک نے ان پر نعمت پوری کرنے کے لئے ان کو کتاب (یعنی تورات) دی۔ (قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: 154 ، 4 / 104، الجزء السابع)

(6) فَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَؕ-فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِۚ(۶۳) {فَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰى: تو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی۔} اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی طرف وحی بھیجی کہ اپنا عصا دریا پر مارو، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے دریا پر عصا مارا تو اچانک وہ دریا بارہ راستوں میں تقسیم ہو کر پھٹ گیا، ہر راستہ بڑے پہاڑ جیسا ہو گیا اور ان کے درمیان خشک راستے بن گئے جن پر چل کر بنی اسرائیل دریا سے پار ہو گئے۔( جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: 63 ، ص312)

(7) وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً اُخْرٰىۙ(۲۲)

اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو ایک اور معجزہ عطا فرمایا جس کے بارے میں یہاں ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ! آپ اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں بازو کی بغل کے نیچے ملا کر نکالئے تو وہ ہاتھ سورج کی طرح چمکتا، نگاہوں کو خیرہ کرتا اور کسی مرض کے بغیر خوب سفید ہو کر نکلے گا اور یہ عصا کے بعد آپ کی نبوت کی صداقت کی ایک اور نشانی ہے اسے بھی لیجئے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے دست مبارک سے رات میں چاند اور دن میں سورج کی روشنی کی طرح نور ظاہر ہوتا تھا۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: 22، ص689، خازن، طہ، تحت الآیۃ: 22 ، 3 / 252، ملتقطاً)

اللہ پاک نے موسیٰ علیہ السّلام کا بہت سارے مقامات میں ذکر فرمایا جو ان کی شان و عظمت پر دلالت کرتی ہیں اور سب سے زیادہ قراٰن مجید میں تذکرہ موسی علیہ السّلام کا ہی ہے اور سب سے پہلے جنہیں کتاب (تورات )عطا کی گئی وہ بھی حضرت موسی علیہ السّلام ہی ہیں اللہ رب العزت ہمیں انبیائے کرام علیہم السّلام کے مقام و مرتبے کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


محترم قارئین کرام ! اللہ پاک نے لوگوں میں سے انبیائے کرام کو خاص کیا اور تمام لوگوں میں سے ان کو اخلاق اور مکان کی اعتبار سے بلند کیا اور انہیں میں تمام خصائص کو جمع کیا انہیں میں سے حضرت موسیٰ علیہ السّلام بھی ہیں۔ آئیے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی صفات قراٰنِ کریم کی روشنی سے پڑھتے ہیں :۔

(1) دوسروں کی مدد کرنا: حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے اوصاف میں سے یہ بھی تھا کہ آپ دوسروں کی مدد فرمایا کرتے تھے۔ جیسا کہ آپ علیہ السّلام نے دو نوجوان لڑکیوں کے جانوروں کو پانی پلایا جب کہ وہ اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے لئے پریشان کھڑی تھیں ۔ جیسا کہ ارشادِ باری ہے : وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ ٘۬-وَ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَیْنِ تَذُوْدٰنِۚ-قَالَ مَا خَطْبُكُمَاؕ-قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتّٰى یُصْدِرَ الرِّعَآءُٚ-وَ اَبُوْنَا شَیْخٌ كَبِیْرٌ(۲۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب وہ مدین کے پانی پر تشریف لائے تووہاں لوگوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ اپنے جانوروں کو پانی پلارہے ہیں اور ان کے دوسری طرف دو عورتوں کو دیکھاجو اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں ۔ موسیٰ نے فرمایا: تم دونوں کا کیا حال ہے؟ وہ بولیں : ہم پانی نہیں پلاتیں جب تک سب چرواہے پلاکر پھیر نہ لے جائیں اور ہمارے باپ بہت بوڑھے ہیں ۔(پ20،القصص:23)

(2) دعویٰ و دلیل میں پختہ: حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے اوصاف میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آپ اپنی بات اور دلیل دینے میں پختہ تھے۔ جیسا کہ جب فرعون نے ان سے کہاں کہ تم مجھ سے مقابلہ کر رہے ہو حالانکہ میں نے تمہیں پالا ہے جیسا کہ ارشادِ باری ہے : وَ تِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ(۲۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یہ کون سی نعمت ہے جس کا تو مجھ پر احسان جتا رہا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا کر رکھا۔ (پ19، الشعراء: 22)

تفسیر صراط الجنان:(وَ تِلْكَ: اور یہ۔ ) فرعون نے جو احسان جتایا تھا اس کے جواب میں حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰہ و السّلام نے فرمایا : اس میں تیرا کیا احسان ہے کہ تم نے میری تربیت کی اور بچپن میں مجھے اپنے پاس رکھا، کھلایا اور پہنایا کیونکہ میرا تجھ تک پہنچنے کا سبب تو یہی ہوا کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنایا اور ان کی اولادوں کو قتل کیا، تیرے اس عظیم ظلم کی وجہ سے میرے والدین میری پرورش نہ کر سکے اور مجھے دریا میں ڈالنے پر مجبور ہوئے، اگر تو ایسا نہ کرتا تو میں اپنے والدین کے پاس ہی رہتا، اس لئے یہ بات کیا اس قابل ہے کہ اس کا احسان جتایا جائے۔ اسے دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ کوئی شخص کسی بچے کے باپ کو قتل کر کے بچہ گود میں لے اور اس کی پرورش کرے پھر بڑا ہونے پر اسے احسان جتلائے کہ بیٹا تو یتیم و لاوارث تھا میں نے تجھ پر احسان کیا اور تجھے پال پوس کر بڑا کیا۔ تو اس کے جواب میں وہ بچہ کیا کہے گا۔ وہ یہی کہے گا کہ اپنا احسان اپنے پاس سنبھال کر رکھ۔ مجھے پالنا تو تجھے یاد ہے لیکن یہ تو بتا کہ مجھے یتیم و لاوارث بنایا کس نے تھا ۔

(3)اللہ پاک پر یقین: حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی اوصاف میں سے یہ بھی تھا کہ آپ اللہ پاک پر توکل کرنے والے اور پختہ یقین کرنے والے تھے جیسا کہ جب آپ کا مقابلہ فرعون اور اس کے لشکر سے ہوا تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا: میرے ساتھ میرا رب ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے:قَالَ كَلَّاۚ-اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ(۶۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: موسیٰ نے فرمایا:ہرگز نہیں ، بیشک میرے ساتھ میرا رب ہے وہ ابھی مجھے راستہ دکھا دے گا۔ (پ19، الشعراء: 62)

(4) دوسروں کی فضیلت کا اقرار کرنا: حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے اوصاف میں سے یہ بھی تھا کہ آپ دوسروں کی فضیلت کا اقرار کرتے تھے۔ جیسا آپ علیہ السّلام نے اپنے بھائی ہارون کے لئے دعا کی۔ ارشادِ باری ہے : وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْۙ(۲۹) هٰرُوْنَ اَخِیۙ(۳۰) اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْۙ(۳۱) وَ اَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْۙ(۳۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور میرے لیے میرے گھر والوں میں سے ایک وزیر کردے۔ میرے بھائی ہارون کو ۔ اس کے ذریعے میری کمر مضبوط فرما۔ اور اسے میرے کام میں شریک کردے۔ (پ16، طٰہٰ : 29 تا 32)

(5) وعدہ پورا کرنا: حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے اوصاف میں سے یہ بھی تھا کہ آپ علیہ السّلام وعدہ پورا کرنے والے تھے۔ جیسا کہ آپ علیہ السّلام نے دو نوجوان لڑکیوں کے والد سے کیا ہوا وعدے کو پورا کرنا کہ ان دونوں میں سے ایک کے ساتھ نکاح کرنا دس سال کی خدمت حق مہر کے طور پر۔ ارشادِ باری ہے : قَالَ اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَتَیَّ هٰتَیْنِ عَلٰۤى اَنْ تَاْجُرَنِیْ ثَمٰنِیَ حِجَجٍۚ-فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَۚ-وَ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَیْكَؕ-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۲۷) قَالَ ذٰلِكَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكَؕ-اَیَّمَا الْاَجَلَیْنِ قَضَیْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَیَّؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَكِیْلٌ۠(۲۸) فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ وَ سَارَ بِاَهْلِهٖۤ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًاۚ-قَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْۤ اٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ(۲۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: ان میں سے ایک نے کہا: اے میرے باپ! ان کو ملازم رکھ لو بیشک آپ کا بہتر نوکر وہ ہوگا جو طاقتور اور امانتدار ہو۔ (انہوں نے) فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی دونوں بیٹیوں میں سے ایک کے ساتھ اس مہر پر تمہارا نکاح کردوں کہ تم آٹھ سال تک میری ملازمت کرو پھر اگر تم دس سال پورے کردو تو وہ (اضافہ) تمہاری طرف سے ہوگا اور میں تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا۔ اِنْ شَاءَ الله عنقریب تم مجھے نیکوں میں سے پاؤ گے۔ موسیٰ نے جواب دیا: یہ میرے اور آپ کے درمیان (معاہدہ طے) ہے۔ میں ان دونوں میں سے جو بھی مدت پوری کردوں تو مجھ پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی اور ہماری اس گفتگو پر الله نگہبان ہے۔ پھر جب موسیٰ نے اپنی مدت پوری کردی اور اپنی بیوی کو لے کر چلے تو کوہِ طور کی طرف ایک آگ دیکھی۔ آپ نے اپنی گھر والی سے فرمایا: تم ٹھہرو ، بیشک میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید میں وہاں سے کچھ خبر لاؤں یا تمہارے لیے کوئی آگ کی چنگاری لاؤں تاکہ تم گرمی حاصل کرو۔ (پ20،القصص : 27 تا29)

اللہ پاک کی پاک بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ ہمیں بھی اس طرح کی اچھی عادات اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حضرت موسیٰ علیہ السّلام اللہ پاک کے انتہائی برگزیدہ بندے اور اولو العزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں آپ علیہ السّلام اللہ پاک سے بلاواسطہ ہم کلام ہونے کے سبب کلیمُ اللہ کے لقب سے بھی یاد کیے جاتے ہے۔ آپ علیہ السّلام کا نام مبارک ”موسیٰ” جبکہ آپ کا ایک لقب مبارک صفیُّ اللہ بھی بے حضرت موسیٰ علیہ السّلام حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی نسل میں سے ہیں، اللہ پاک نے آپ کو تیس سال کی عمر میں علم و حکمت سے نواز اور آپ علیہ السّلام نے اللہ پاک کے فضل و کرم سے ایک سو بیس سال کی عمر پائی اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام شروع ہی سے نیک اور متقی تھے اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو نو (9) معجزات عطا کیے جن میں ایک آپ علیہ السّلام کا عصا مبارک تھا جس کی بہت سی خوبیاں تھی۔

قراٰنِ کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے جو اوصاف بیان ہوئے ان میں سے چند یہ ہیں۔ (1،2)حضرت موسیٰ علیہ السّلام اللہ پاک کے چنے ہوئے بندے اور نبی و رسول تھے ۔ ارشاد باری ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا ۔(پ 16، مریم:51)

(3)حضرت موسیٰ علیہ السّلام اس قدر مستجاب الدعوات تھے کہ اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کی دعا سے آپ کے بھائی (ہارون) کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔ارشاد باری ہے: وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔(پ16،مریم:53)

(4) حضرت موسیٰ علیہ السّلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بلند مقام ومرتبہ اور بڑی وجاہت والے تھے: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69) (5) حضرت موسیٰ علیہ السّلام اعلی درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے ۔ ارشاد باری ہے: اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں ۔ (پ23، الصّٰٓفّٰت :122)

اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام سے محبت رکھنے والا اور انکی سیرت پر عمل کرنے والا بنائے اور اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہ السّلام کے اخلاقِ حمیدہ اپنانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اٰ مین


اللہ پاک کے پیارے نبی حضرت موسیٰ علیہ السّلام اِنتہائی شان و شوکت والے نبی ہیں۔ قراٰنِ کریم کے کئی پاروں اور آیاتِ مقدَّسہ میں بڑے شاندار انداز کے ساتھ آپ کا ذِکْرِ خیر و صفات مبارکہ بیان ہوئی ہیں۔ آپ کا نامِ مبارک قراٰنِ کریم میں 136 بار ذِکْر کیا گیا ہے۔ آپ کو اللہ پاک کی طرف سے ایک آسمانی کتاب تَورات عطا کی گئی۔ آپ نے اللہ پاک سے کئی مرتبہ کلام کرنے کا شرف پایا اِسی لئے آپ کو کلیمُ اللہ بھی کہا جاتا ہے۔

مختصر تعارف: حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے والد کا نام عمران ہے۔ آپ حضرت اِبراہیم علیہ السّلام کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام حضرت یوسف علیہ السّلام کے وِصال سے چار سو (400) سال اور حضرت اِبراہیم علیہ السّلام سے سات سو(700) سال بعد پیدا ہوئے۔ آپ نے ایک سو بیس (120)سال عمر پائی۔ (البدایہ والنہایہ ، ذکر قصۃ موسی الکلیم علیہ الصلاۃ والتسلیم ، 1/326 -تفسیرِ صاوی ، الاعراف ، تحت الآیۃ : 103 ، 2/696 ، ملتقطاً)۔

(1)چنے ہوئے برگزیدہ بندے: حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السّلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے نبی اور رسول تھے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک کے پارہ 16 سورہ مریم کی آیت نمبر 51 میں ارشاد فرمایا: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا ۔(پ 16، مریم:51)

(2️) وجاہت والے پیغمبر: حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السّلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجاب الدعوات تھے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے پارہ 22 سورۃُ الاحزاب آیت نمبر 69 میں ارشاد فرمایا: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69) آیت کے اس حصے میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی شان بیان فرمائی گئی کہ آپ اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت والے تھے یعنی بڑے مقام والے تھے اور اِس مقام میں یہ بات بھی داخل ہے کہ آپ علیہ السّلام مُسْتَجَابُ الدَّعْوَات تھے یعنی آپ کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔(خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: 69، 3/513)

(3) ہم کلامی کی صفت: حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے کسی واسطے کے بغیر ہم کلام ہونے کا شرف عطا فرمایا اسی لئے آپ کو کلیمُ اللہ کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ قراٰن مجید میں ہے: وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔(پ6،النساء:164)

وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ: اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا ۔) طور ایک پہاڑ کا نام ہے جو مصر اور مَدْیَن کے درمیان ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو مدین سے آتے ہوئے طور کی اس جانب سے جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے دائیں طرف تھی ایک درخت سے ندا دی گئی: یّٰمُوْسٰۤى اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۳۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے موسیٰ میں ہی اللہ ہوں ، تمام جہانوں کا پالنے والا ۔

اس کے بعد اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے بلاواسطہ کلام فرمایا اور آپ علیہ السّلام کلیمُ اللہ کے شرف سے نوازے گئے ۔آپ علیہ السّلام کو مرتبۂ قرب عطا فرمایا گیا ، حجاب اٹھا دئیے گئے یہاں تک کہ آپ نے قلموں کے چلنے کی آواز سنی اور آپ علیہ السّلام کی قدرو منزلت بلند کی گئی۔(صراط الجنان، 6/119)

(4) شرم و حیا کے پیکر: حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السّلام کی صفات میں سے ہے کہ آپ بہت زیادہ حیا فرمانے والے تھے اللہ پاک نے آپ کو بے عیب پیدا فرمایا آپ کے بے عیب ہونے اور شرم و حیا کی گواہی ایک پتھر سے دلوائی چنانچہ: کتاب "عجائبُ القراٰن مع غرائب ُالقراٰن “ میں لکھا ہے : ایک ہاتھ لمبا ایک ہاتھ چوڑا چوکور پتھر تھا ، جو ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے جھولے میں رہتا تھا۔ اُس مبارَک پتھر کے ذریعہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے 2 معجزات کا ظُہور ہوا۔ جن کا تذکرہ قراٰنِ کریم میں بھی ہوا ہے۔ اُس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ جو درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا معجزہ تھا وہ اُس پتھر کی دانشمندانہ لمبی دوڑ ہے اور یہی مُعْجِزَہ اُس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔ اللہ پاک نے اِس واقعہ کا ذِکْر قراٰن مجید میں اِس طرح بیان فرمایا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے موسیٰ کا اس شے سے بری ہونا دکھا دیا جو انہوں نے کہا تھا اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69) (عجائب القراٰن مع غرائب القراٰن، ص 29)

(5) اُلُوا الْعَزْم رسول: حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السّلام کا شمار اُلُوا الْعَزْم یعنی ہمت والے رسولوں میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ قراٰن مجید میں ہے: فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ترجَمۂ کنزُالایمان: تو تم صبر کرو جیسا ہمت والے رسولوں نے صبر کیا۔(پ26،الاحقاق:35) صدرُا لشّریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :نبیوں کے مختلف درجے ہیں ، بعض کو بعض پر فضیلت ہے اور سب میں افضل ہمارے آقا و مولیٰ سیِّدُالمرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں ، حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے بعد سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابراہیم خَلِیلُ اللہ علیہ السّلام کا ہے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اور حضرت نوح علیہ السّلام کا، اِن حضرات کو مُرْسَلِیْنِ اُلُوا الْعَزْم کہتے ہیں اور یہ پانچوں حضرات باقی تمام انبیا و مُرسَلین ،اِنس و مَلک و جن و جمیع مخلوقاتِ الٰہی سے افضل ہیں ۔( بہار شریعت، حصہ اول، 1 / 52-54)

اللہ پاک ہمیں حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السّلام اور دوسرے تمام انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ و السّلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے اور ان سے سچی پکی محبت رکھنے اور ان کی تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

نوٹ: انبیائے کرام علیہم الصلاۃ و السّلام کی سیرت پڑھنے کرنے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب سیرتُ الانبیاء کا مطالعہ کیجئے۔


انبیائے کرام علیہم السّلام اللہ پاک کے خاص چنے ہوئے بندے ہیں جنہیں اللہ پاک نے اپنی مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اس دنیا میں بھیجا۔ یہ ہستیاں انتہائی اعلی اور عمدہ اوصاف کی مالک تھیں۔ ان پاک نفوس قدسیاں میں سے ایک ہستی حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی ہے جن کے اوصاف اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں بیان فرمائے۔ جن میں سے چند بیان کیے جاتے ہیں۔

(1)آپ کی سب سے بڑی صفت تو یہ ہے کہ جس کثرت کے ساتھ آپ کے نام کا ذکر قراٰنِ پاک میں موجود ہے کسی اور نبی کے نام کا اتنا ذکر قراٰنِ پاک میں موجود نہیں۔(2)اللہ پاک نے آپ کو تورات عطا فرمائی تو آپ ان چار برگزیدہ پیغمبروں میں سے ہیں جن کو اللہ پاک نے آسمانی کتاب عطا فرمائی اور پہلے نبی ہیں جن کو کتاب الہی عطا ہوئی۔ ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ ترجَمۂ کنزُالایمان: پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔(پ8،الانعام:154) مفسرینِ کرام نے اس آیتِ مبارکہ کے تحت ذکر فرمایا کہ سب سے پہلے کتابِ الہی آپ کو عطا ہوئی آپ سے پہلے انبیاء کو صحیفے ملتے تھے۔ (قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: 154 ، 4 / 104، الجزء السابع)

(3)آپ اولوالعزم رسل میں سے ہیں۔ فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ترجَمۂ کنزُالایمان: تو تم صبر کرو جیسا ہمت والے رسولوں نے صبر کیا۔(پ26،الاحقاق:35) یوں تو سب رسل اولوالعزم ہیں۔ تمام نے ہی راہِ خدا میں آنے والی تکالیف پر صبر و ہمت سے کام لیا لیکن بطور خاص اولوالعزم ان پانچ رسولوں کو کہا جاتا ہے۔ (1)حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔(2)حضرت ابراہیم(3)حضرت موسیٰ(4)حضرت عیسیٰ(5)حضرت نوح علیہمُ السّلام ۔ (4،5)آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے چنے ہوئے بندے اور نبی، رسول تھے۔ وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا ۔(پ 16، مریم:51) اس آیت میں آپ علیہ السّلام کے دو وصف بیان کیے گئے۔ (1)چنا ہوا بندہ (2) رسول، نبی۔

(6)اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کے ساتھ براہ راست دنیا میں کلام فرمایا۔ وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔ (پ6،النساء: 164) (7)آپ کے تبرکات کا قراٰنِ پاک میں تذکرہ موجود ہے کہ جن کے وسیلے سے بنی اسرائیل دعائیں مانگا کرتے تھے۔ وَ بَقِیَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰى وَ اٰلُ هٰرُوْنَ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کچھ بچی ہوئی چیزیں معزز موسیٰ اور معزز ہارون کے ترکہ کی اٹھاتے لائیں گے۔(پ2،البقرۃ:248)

(8)آپ علیہ السّلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السّلام کو کامل ایمان والا فرمایا: اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ دونوں ہمارے اعلٰی درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں ۔ (پ23، الصّٰٓفّٰت :122)(9)اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو نو روشن نشانیاں عطا فرمائیں۔ وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بےشک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔(پ15،بنی اسرائیل:101)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو جو نو نشانیاں عطا کی گئیں وہ یہ ہیں : (1) عصا، (2) ید ِبیضا، (3) بولنے میں دِقَّت جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی زبان مبارک میں تھی پھر اللہ پاک نے اسے دور فرما دیا، (4) دریا کا پھٹنا اور اس میں رستے بننا، (5) طوفان، (6) ٹڈی، (7) گھن، (8) مینڈک، (9) خون۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ:( 101 ، 3 / 194)

(10)آپ علیہ السّلام نے دریا پر اپنا عصا مارا تو وہ پھٹ گیا اور اس میں راستے بن گئے۔ فَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَؕ-فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِۚ(۶۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنا عصا مارو تو اچانک وہ دریا پھٹ گیا تو ہر راستہ بڑے پہاڑ جیسا ہو گیا۔ (پ19، الشعراء : 63)

اللہ پاک ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا فیضان نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم