انبیائے کرام علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیرے موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں، جنہیں اللہ پاک نے وحی کے نور سے روشنی بخشی،حکمتوں کے سر چشمے ان کےدلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی بلندیاں عطا فرمائیں، جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔

وحی کی تعریف:نبی ہونے کے لیے اس پر وحی ہونا ضروری ہے،خواہ فرشتے کی معرفت سے ہو یا بلا واسطہ۔

نام و لقب:آپ علیہ السلام کا نام مبارک موسیٰ اور لقب صفیُّ اللہ ہے۔

حدیثِ مبارکہ میں تذکرۂ موسیٰ:حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آقا ﷺنے فرمایا:حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔

قرآن میں اوصافِ موسیٰ:

(1)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے اور برگزیدہ بندے،نبی اور رسول ہیں:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16، مریم: 51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بےشک وہ چُنا ہوا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتانے والا۔

(2)آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مرتبے و مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے:اللہ پاک فرماتاہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22، الاحزاب:69) ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(3)آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا:قرآنِ پاک میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:53، 52)ترجمہ:اور اسے ہم نے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا اور ہم نے اپنی رحمت سےاسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

(4)آپ علیہ السلام کو نبوت پر دلالت کرنےوالی نو روشن نشانیاں عطا کی گئیں:اللہ پاک فرماتا ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ(پ15،بنی اسرآءیل:101)ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

(5)اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:اللہ پاک فرماتا ہے:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳) (پ6،النسآء:153) ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔

مثال: اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو توبہ کے لیے خود ان کے قتل کا حکم دیا تووہ انکار نہ کر سکے اور انہوں نے آپ علیہ السلام کی اطاعت کی۔

(6)حضرت موسیٰ علیہ السلام و حضرت ہارون علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کی قوم کے ظلم سے نجات بخشی،قبطیوں کے مقابلے میں ان کی مدد فرمائی اور بعد میں آنے والی امتوں میں ان کی تعریف باقی رکھی۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَۚ(۱۱۴)وَ نَجَّیْنٰهُمَا وَ قَوْمَهُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِۚ(۱۱۵)وَ نَصَرْنٰهُمْ فَكَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِیْنَۚ(۱۱۶)وَ اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَۚ(۱۱۷)وَ هَدَیْنٰهُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۚ(۱۱۸)وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِمَا فِی الْاٰخِرِیْنَۙ(۱۱۹)سَلٰمٌ عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ(۱۲۰)اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۲۱)(پ23،الصّٰفّٰت:114تا121) ترجمہ:اور بےشک ہم نے موسیٰ اور ہارون پر احسان فرمایا اور انہیں اور ان کی قوم کو بڑی سختی سے نجات بخشی اور ان کی ہم نے مدد فرمائی تو وہی غالب ہوئے اور ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب عطا فرمائی اور ان کو سیدھی راہ دکھائی اور پچھلوں میں ان کی تعریف باقی رکھی سلام ہو موسیٰ اور ہارون پر بےشک ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔

اللہ پاک ہمیں اپنے محبوب ﷺاور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے توسل سے ان کا فیضان عطا فرمائے۔ آمین


نبی اور رسول کی تعریف:نبی اس بشر یعنی انسان کو کہتے ہیں جس کی طرف اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کےلیے وحی بھیجی ہو اور ان میں سے جو نئی شریعت یعنی اسلامی قانون اور خدائی احکام لے کر آئے، اسے رسول کہتے ہیں۔(سیرت الانبیاء،ص29)

اوصافِ انبیا:انبیا و مرسلین علیہم السلام انتہائی اعلیٰ اور عمدہ اوصاف کے مالک تھے۔انبیائے کرام علیہم السلام بُرائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے تھے۔لوگوں کو دین کا علم سکھاتے تھے۔بردباری اور حسنِ اخلاق سے پیش آتے تھے۔گناہوں سےمعصوم ہونے کے باوجود بارگاہِ الٰہی میں توبہ کرتے تھے۔تمام انبیائے کرام علیہم السلام ہمیشہ سچ بولتے تھے۔ وعدے کےسچے اور غیب کی خبریں دینے والے تھے۔(سیرت الانبیاء، ص31)

اوصافِ موسیٰ:

پہلا وصف:اللہ پاک سے ہم کلام ہونا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)(پ6، النسآء:164) ترجمہ کنز العرفان:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاًکلام فرمایا۔

تفسیر:اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایا تھااور آپ علیہ السلام کو کوہِ طور پر بلایا۔

دوسرا وصف:حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرقان عطا ہوا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳) (پ1،البقرۃ:53)ترجمہ کنز العرفان:اور یادکرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

تفسیر:فرقان کے کئی معنی ہیں:(1)فرقان سے مراد تورات ہی ہے۔(2)کفر وایمان میں فرق کرنے والا۔ (3) حلال و حرام میں فرق کرنے والے۔(سیرت الانبیاء،ص532)

تیسرا وصف:حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نو روشن نشانیاں عطا ہوئیں:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت15،بنی اسرآءیل:101)ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

تفسیر:یہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام کی صفت ہے کہ اللہ پاک نے آپ کو روشن نور عطا کیا اور یہ آیت آپ علیہ السلام کی نبوت اور رسالت پر دلالت کرنے والی روشن نشانی ہے۔(سیرت الانبیاء، ص583)

چوتھا وصف:حضرت موسیٰ علیہ السلام وجیہ ہیں:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69) ترجمہ:اور موسیٰ اللہ پاک کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

تفسیر: حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت والے یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے یعنی آپ علیہ السلام کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔(سیرت الانبیاء،ص530)

پانچواں وصف:حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا مبارک:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:وَ اَنْ اَلْقِ عَصَاكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّ لَمْ یُعَقِّبْؕ-یٰمُوْسٰۤى اَقْبِلْ وَ لَا تَخَفْ- اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ(۳۱)(پ20، القصص:31)ترجمہ:اور یہ کہ تم اپنا عصا ڈال دو تو جب اسے لہراتا ہوا دیکھا گویاکہ سانپ ہے تو حضرت موسیٰ پیٹھ پھیر کر چلے اور مڑ کر نہ دیکھا۔(ہم نے فرمایا)اے موسیٰ سامنےآؤ اور نہ ڈرو۔بے شک تم امن والوں میں سے ہو۔

تفسیر:یہ آپ علیہ السلام کا وصف تھا کہ عصا اللہ کے حکم سے ایک اژدھا بن گیا اور کئی جادو گر ایمان لے آئے اور فرعون نے کہا کہ یہ معاذ اللہ کفر ہے۔

چھٹا وصف:حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حفاظت: اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی: فَاَسْرِ بِعِبَادِیْ لَیْلًا اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَۙ(۲۳)(پ25،الدخان:23)ترجمہ:راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چلو، بے شک تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔

تفسیر:اس آیت میں اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حفاظت فرمائی اس طرح کہ انہیں مصر سے نکلنے کا حکم دیا۔

ساتواں وصف:کامل ایمان والے ہیں:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) (پ22،الصّٰفّٰت:122) ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔

تفسیر: حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے تھے۔(سیرت الانبیاء، ص530)

آٹھواں وصف:حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سیدھا راستہ دکھانا:جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدین کی طرف جانے کا ارادہ کیاتو یوں کہا:عَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یَّهْدِیَنِیْ سَوَآءَ السَّبِیْلِ(۲۲)(پ20،القصص:22) ترجمہ: عنقریب میرا رب مجھے سیدھا راستہ بتائے گا۔

تفسیر:اس آیتِ مبارکہ کی تلاوت جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کی تو اللہ پاک نے ایک فرشہ بھیجا جو آپ علیہ السلام کو مدین تک لے آیا اور اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو سیدھا راستہ دکھایا۔(سیرت الانبیاء، ص 545)

نواں وصف:حضرت موسیٰ علیہ السلام کو روشن غلبہ عطا کیا:اللہ پاک قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳)(پ6،النسآء:153) ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔

تفسیر:اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو روشن غلبہ عطا کیا اور تسلط بھی عطا فرمایا یعنی آپ علیہ السلام کو کتابِ الٰہی تورات عطا کی۔

دسواں وصف:حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چُنا ہوا ہونا:اللہ پاک نےارشاد فرمایا:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51)اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھااور نبی رسول تھا۔

تفسیر:حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھےیعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں چُنے ہوئے نیک بندے تھے۔

اخلاقی درس:اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کئی معجزات اور صفات سے نوازا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اخلاق بہت اعلیٰ درجے کا تھا اور اللہ پاک نےان کے صفات و معجزات قرآنِ مجید میں بیان فرمائے ہیں۔ حضرت موسیٰ کے ان کمالات و عظیم صفات کو پڑھ کر ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے دلوں میں ان کی محبت و عظمت کو بڑھائیں اور جن واقعات میں ہمارے لیے راہنمائیوں اور نصیحتوں کے مدنی پھول پنہاں ہیں ان سے اپنے اخلاق و کردار کی تعمیر کریں۔


نبی و رسول کی تعریف:نبی اس بشر کو کہتے ہیں جس کی طرف اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و راہ نمائی کے لیے وحی بھیجی ہواور ان میں سے جو نئی شریعت یعنی اسلامی قانون اور خدائی احکام لے کر آئے اسے رسول کہتے ہیں۔ (سیرت الانبیاء،ص29)

اوصافِ انبیا:انبیا و مرسلین علیہم السلام اعلیٰ اور عمدہ اوصاف کے مالک ہیں۔جن کے اوصاف احادیث وآثار میں موجود ہیں جیسے حکمت آمیز گفتگو کرنا، اچھی بات کے سوا خاموش رہنا، حصولِ علم کے لیے سفر کرنا،علم میں اضافے کاخواہش مند رہنا، لوگوں کو دین کا علم سکھانا، بھلائی کے کاموں کی طرف ان کی راہنمائی کرنا، لوگوں کی خیرخواہی اور ان کے حقوق ادا کرنا وغیرہ۔(سیرت الانبیاء،ص37)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام و لقب:آپ علیہ السلام کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔ (سیرت الانبیاء، ص527)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات:

(1،2)اللہ پاک کے برگزیدہ بندے: حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51) ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بے شک وہ چُنا ہوا بندہ اور وہ نبی رسول تھا۔

(3)مستجابُ الدعوات: آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے:اللہ پاک فرماتا ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22،الاحزاب:69) ترجمہ: اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(4 تا 6) آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔قرآنِ پاک میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲) وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ16،مریم:52،53)ترجمہ:اور اسے ہم نے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا اور ہم نے اپنی رحمت سےاسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

(7)آپ علیہ السلام کا کامل ایمان والا ہونا:آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) (پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔

(8)بلا واسطہ کلام کرنا:اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایا:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)(پ6، النسآء:164) ترجمہ:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

(9)اللہ پاک کا حضرت ہارون علیہ السلام کے ذریعے آپ کی مدد فرمائی:اللہ پاک نے حضرت ہارون علیہ السلام کی صورت میں آپ کو وزیر اور مددگار عطا فرمایا:اللہ پاک فرماتا ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنَا مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِیْرًاۚۖ(۳۵)(پ19،الفرقان:35) ترجمہ:اور بےشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور اس کے بھائی ہارون کو وزیر کیا۔

(10)آپ علیہ السلام کو اللہ پاک نے آسمانی کتاب و فرقان عطا کیے:اللہ پاک فرماتا ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳)(پ1،البقرۃ:53)ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

عمل کی ترغیب:اللہ پاک نے اپنےتمام انبیاعلیہم السلام کو خوبیوں اور صفات کا جامع بنایا ہے اور ہر نبی اپنے زمانے اور اپنی قوم میں سے سب سےزیادہ خوبیوں والا ہے اور اپنی صفات کی بنا پر تمام انبیا نے اللہ پاک کا قرب حاصل کیا۔اگر ہم بھی ان صفات پر عمل کریں تو ہم بھی معاشرے میں بہترین فرد ثابت ہو سکتے ہیں۔ جس طرح کہ ہر نبی خوش اخلاق اور نرم مزاج ہوتا ہے، اگر ہم بھی انبیا کی ان پیاری صفات پر عمل کریں اور تمام مسلمان خواتین و محارم سے خوش اخلاق رہیں تو ہم ان پیاری صفات کی بدولت معاشرے میں ہر دل عزیز بن سکتی ہیں۔اللہ پاک ہم سب کو تمام انبیائے کرام سے محبت اور ان کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ


اللہ پاک کے جلیل القدر رسولوں میں سے ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔آپ علیہ السلام اللہ پاک کے برگزیدہ اور اولوا العزم رسول ہیں۔

آپ علیہ السلام کا نام:موسیٰ،لقب:کلیمُ اللہ اور صفیُّ اللہ ہے۔نبیِ کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔ (سیر ت الانبیاء)

اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو بے شمار اوصاف عطا فرمائے۔آپ علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات سے سات سو برس بعد پیدا ہوئے۔آپ علیہ السلام نے ایک سو بیس سال عمر پائی۔ (تفسیر صاوی، 2/696)

حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:حضرت ابراہیم علیہ السلام(کا حلیہ جاننے کے لیے)اپنے صاحب(محمد مصطفٰےﷺ) کی طرف دیکھ لو اور رہے حضرت موسیٰ علیہ السلام تو ان کاجسم دُبلا پتلا اور رنگ گندمی تھا۔وہ سرخ اونٹ پر سوار تھے، جس کی ناک میں کھجور کی چھال کی مہار تھی، گویا میں ان کی طرف دیکھ رہا ہوں۔وہ اللہُ اکبر کہتے ہوئے وادی میں اتر رہے ہیں۔(بخاری،2/421،حدیث:3404)

آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:حیاایمان سے ہے۔شرم و حیا اور جسم کو چھپا کر رکھنا پسندیدہ اوصاف ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حیا انبیائے کرام علیہم السلام کی سنتِ مبارکہ ہے۔حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت حیا والے تھے اور اپنا بدن چھپانے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ (بخاری، 2/442،حدیث:3404)

آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت (بڑے مقام والے) اور مستجابُ الدعوات تھے۔چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22، الاحزاب:69) ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔

آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ23،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔

آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا گیا:اللہ پاک فرماتا ہے:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳) (پ6،النسآء:153) ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔

آپ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا کی گئی:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۚ(۳۲) (پ25،الدخان:32)ترجمہ:اور بے شک ہم نے انہیں جانتے ہوئے اس زمانے والوں پر چن لیا۔

آپ علیہ السلام کو لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں اور ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب تورات عطا فرمائی گئی:اللہ پاک فرماتا ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳) (پ20، القصص:43) ترجمہ:اور بےشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی بعد اس کے کہ اگلی سنگتیں(قومیں) ہلاک فرمادیں جس میں لوگوں کے دل کی آنکھیں کھولنے والی باتیں اور ہدایت اور رحمت تاکہ وہ نصیحت مانیں۔

اللہ پاک نے حضرت ہارون علیہ السلام کی صورت میں آپ علیہ السلام کو وزیر اور مددگار عطا فرمایا:قرآنِ کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم: 53) ترجمہ:اور ہم نے اپنی رحمت سےاسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔معلوم ہوا کہ اللہ اپنے نبیوں سے کس قدر محبت فرماتا ہے!ا نہیں کس قدر انعام و اکرام سے نوازتا ہے!انہیں روشن نشانیاں عطا فرماتا ہے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ پاک نے اپنے رسولوں میں موسیٰ علیہ السلام کو اعلیٰ اوصاف اور خاص مقام سے نوازا ہے۔


حضرت موسیٰ علیہ السلام اولوا العزم انبیا علیہم السلام میں سے ایک نبی ہیں۔آپ کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ، صفیُّ اللہ ہے۔حضور نبیِ کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ بن عمران صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔(سیرت الانبیاء،ص27)

آپ علیہ السلام کے کثیر اوصاف قرآن و حدیث میں ذکر ہوئے ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1)شرم و حیا:شرم و حیا اور جسم کو چھپا کر رکھنا پسندیدہ اوصاف اور کئی صورتوں میں شریعت کو مطلوب ہیں:حضرت موسیٰ علیہ السلام میں ان اوصاف سے متعلق نبیِ کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت حیا والے اور اپنا بدن چھپانے میں خصوصی اہتمام کیا کرتے تھے۔(سیرت الانبیاء،ص528)

(2)صاحبِ کتاب نبی:اللہ پاک نے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر دس صحیفے نازل فرمائے اور پھر آپ علیہ السلام کو تورات شریف عطا فرمائی:اس سے متعلق اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَۚ(۱۱۷)(پ23،الصّٰفّٰت:117)ترجمہ کنز الایمان:اور ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب عطا فرمائی۔

(3)برگزیدہ نبی:حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں۔اللہ پاک فرماتا ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51) ترجمہ: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو،بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور نبی رسول تھا۔

(4)ذی جاہ نبی:آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت والے نبی تھے:اللہ پاک فرماتا ہے: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(5)مستجابُ الدعوات:آپ کی دعا کی برکت سے اللہ پاک نے ا ٓپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا:اللہ پاک فرماتا ہے:وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ16،مریم:53)ترجمہ کنز الایمان:اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیاجونبی تھا۔

(6)کامل ایمان والے:آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے ہیں:اللہ پاک فرماتا ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22،الصّٰفّٰت:122) ترجمہ کنز الایمان:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔

(7)بلا واسطہ کلام فرمانے والے:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)(پ6، النسآء: 164) ترجمہ کنز الایمان:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

(8)روشن غلبہ،تسلط پانے والے:آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳)(پ6،النسآء:153)ترجمہ کنز الایمان:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔

(9)نو روشن نشانیاں پانے والے:آپ علیہ السلام کو نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی نو روشن نشانیاں عطا فرمائی گئیں:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت15، بنی اسرائیل:101) ترجمہ کنز الایمان:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دی۔

(10)انعاماتِ خداوندی:حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اللہ پاک نے بے شمار انعامات فرمائے ہیں۔جیسا کہ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو ہدایت،صلاح عطا فرمائی اور ان کے زمانے میں تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی، صالحین میں شمار کیا اور بطورِ خاص نبوت کے لیے منتخب کیا۔


قرآنِ پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ لٰكِنْ رَّحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ(پ20،القصص:46)ترجمہ: ہاں تمہارے رب کی مہر ہے (کہ تمہیں غیب کے علم دئیے)۔

ایک علم وہ ہوتا ہے جو کسی تجربے یا مشاہدےسے حاصل کیا جائے،وہ علمِ غیب نہیں بلکہ تجربے یا مشاہدے کا علم ہوتاہے۔غیب کا علم تووہ ہوتا ہے جو سوچ اور سمجھ سے بالا تر، ذہن میں اس بات کا آنا کسی صورت آسان نہ ہو۔اللہ پاک اپنی مرضی سے غیب کا علم دیتا ہے جس کو چاہے۔پھر وہ بندۂ خاص جس کو غیب کا علم دیا گیا عام عادات سے بالا تر باتیں بیان کرتا ہے جو باتیں کسی تجربے یا مشاہدے کی محتاج نہیں ہوتیں۔یہ ہے غیب کا علم جو اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیا تھا اور قربان جائیے ہمارے پیارے آقا،اللہ پاک کے سب سے آخری نبی محمد ﷺپر جو حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ہر نبی سے اعلیٰ و ارفع اور شان میں بلند بالا ہیں! ان کے غیب کے علم کا عالم کیا ہوگا!

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُوْتِیَ مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰىؕ-اَوَ لَمْ یَكْفُرُوْا بِمَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُۚ-(پ20،القصص:48) ترجمہ: بولے انہیں کیوں نہ دیا گیا جو موسیٰ کو دیا گیا کیا اس کے منکر نہ ہوئے تھے جو پہلے موسیٰ کو دیا گیا۔

یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کتاب،حکمت و کمالات دیے گئے تھے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت کچھ عطا کیا گیا تھاجو وہ بنی اسرائیل کے سامنے بیان کرتے تھے۔مگر پھر بھی بنی اسرائیل کے لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات وکمالات کو نہیں مانتے تھے۔پھر جب حضور نبیِ کریم ﷺکا مبارک دور آیا تو وہ بنی اسرائیل (آپس میں لوگوں سے )یہ کہتے تھے محمد(ﷺ)کو وہ کمالات کیوں نہیں عطا کیے گئے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کیے گئے تھے۔تو اللہ پاک نے ان کی بات اس آیت میں واضح کر دی کہ تم لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جیسے کمالات مانگتےہو حالانکہ محمد ﷺحضرت موسیٰ علیہ السلام سے تو شان میں بہت اعلیٰ اور اولیٰ ہیں جبکہ تم تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کمالات کے بھی منکر تھے!تو آج تمہارا یہ بات کرنا محمد ﷺ کے لیے بنتا ہی نہیں۔

ایک اور جگہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ کنزالعرفان:اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے موسیٰ کااس شے سے بری ہونا دکھادیا جو انہوں نے کہا تھا اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

بنی اسرائیل کے کچھ لوگ بے حیائی کے کام کرتے تھے کہ وہ ننگے نہاتے تھےاور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہتے تھے کہ آؤ تم بھی ہمارے ساتھ ہماری طرح برہنہ ہو کر نہاؤ۔اللہ پاک کے نبی تو خوب حیا والے ہوتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام )کو ان لوگوں کی یہ بات بہت بُری لگتی تھی۔ وہ لوگ الزام یہ لگاتے تھے کہ موسیٰ(علیہ السلام)کے جسم میں کوئی نقص یا کوئی عیب یا کوئی بیماری ہے جس کی وجہ سے وہ ہمارے ساتھ ہماری طرح ہو کر نہیں نہاتے۔جب ایک روز حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غسل کے لیے ایک تنہائی کی جگہ میں پتھر پر کپڑے اتار کر رکھے اور غسل شروع کیا تو وہ پتھر آپ کے کپڑے لے کر حرکت میں آیا(اس جگہ سے دوسری جگہ کی طرف چلا) تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اس پتھر کی طرف بڑھے تو بنی اسرائیل نے دیکھ لیا کہ جسم مبارک پر کوئی عیب، نقص یا بیماری نہیں۔

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اللہ پاک کے کسی بھی نبی کو عیب دار یا کمالات میں کم تصور کرنا یا ایسا عقیدہ رکھنا جس میں اللہ پاک کے کسی بھی نبی کی ادنیٰ بےادبی کا پہلو بھی ہو تواللہ پاک کے غضب کا سبب بنتا ہے۔


اے عاشقانِ رسول!اللہ پاک نے مخلوق کی رشد و ہدایت کےلیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السلام اور رُسلِ عظام کو مبعوث فرمایا جن میں سے ایک بلند رتبہ نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں۔آپ علیہ السلام ان انبیائے کرام علیہم السلام میں سے ہیں جنہوں نے حق کے راستے میں بہت زیادہ تکالیف برداشت کیں اور صبر کے ساتھ ڈٹ کر ان مصائب و آلام کا مقابلہ کیا۔آئیے!آپ علیہ السلام کی ذاتِ مبارکہ کے مزید اوصاف جانتی ہیں:

اللہ پاک قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51) ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو،بےشک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے:اس سے پہلی آیات میں حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی صِفات بیان کی گئیں اور اب یہاں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات بیان فرمائی جا رہی ہیں، دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتی ہیں کہ خلیلُ اللہ علیہ السلام کی صفات بیان کرنے کے بعد اب کلیمُ اللہ علیہ السلام کی صفات بیان کی جارہی ہیں۔ سورۂ مریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں:(1)آپ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔(2)آپ علیہ السلام رسول و نبی تھے۔(3) آپ علیہ السلام سے اللہ پاک نے کلام فرمایا۔(4)آپ علیہ السلام کواپنا قرب بخشا۔(5)آپ علیہ السلام کی خواہش پرآپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کونبوت عطاکی۔مزید یہ کہ آپ علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔اس لیے آپ علیہ السلام کا ذکر حضرت اسماعیل علیہ السلام سے پہلے فرمایا گیا تاکہ دادا اور پوتے کےذکر میں فاصلہ نہ ہو۔(تفسیر روح المعانی، ص559)

کس کو دیکھا یہ موسیٰ سے پوچھے کوئی آنکھ والوں کی ہمت پہ لاکھوں سلام (حدائق بخشش)

اللہ پاک نےمخلوق کی ہدایت کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام اور رسول مبعوث فرمائے جو لوگوں کو دین کی دعوت دیتے تھے۔ان میں سے ایک بلند مرتبہ نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔ آپ علیہ السلام نے حق کے راستے میں ڈٹ کر مصیبتوں اور آزمائشوں کا سامنا کیا۔

اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو،بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کئی صفات بیان کی گئی ہیں:(1)آپ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔(2) آپ علیہ السلام رسول و نبی تھے۔(3) آپ علیہ السلام سے اللہ پاک نے کلام فرمایا۔(4)آپ علیہ السلام کواپنا قرب بخشا۔(5)آپ علیہ السلام کی خواہش پرآپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کونبوت عطاکی۔اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بلا وسطہ کلام فرمایا اور آپ علیہ السلام کلیمُ اللہ کے شرف سے نوازے گئے۔آپ علیہ السلام کو مرتبۂ قرب عطا فرمایا گیا۔حجاب اٹھا دیے گئے یہاں تک کہ آپ نے قلموں کے چلنے کی آواز سنی اور آپ علیہ السلام کی قدرت و منزلت بلند کی گئی۔

(تفسیرصراط الجنان)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیارے آقا ﷺنے ارشاد فرمایا:شبِ معراج حضرت موسیٰ علیہ السلام کےپاس سے ہماراگزر ہوا،وہ سرخ ٹیلے کے پاس اپنی قبر میں نماز پڑھ رہےتھے۔(عقائد و مسائل، ص48)

قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتاہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت15، بنی اسرائیل:101) ترجمہ: اور بے شک ہم نے موسیٰ کو نو نشانیاں دی۔اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقے ہماری بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔آمین


حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ علیہ السلام کا نام مبارک کئی بار قرآنِ پاک میں آیا ہے۔ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام انبیا و مرسلین علیہم السلام معصوم ہیں۔ان سے گناہ صادر نہیں ہوتے۔ان سے گناہ کا صدور محال ہے۔ان کی حفاظت خود اللہ پاک فرماتا ہے۔اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت و راہ نمائی کیلئے اپنے برگزیدہ بندوں کواس دنیا میں مبعوث فرمایا۔اسی طرح اللہ پاک کے پیارے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام لوگوں کی ہدایت کیلئےاس دنیا میں تشریف لائے۔اللہ پاک کے احکامات لوگوں تک پہنچائے۔اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل فرمائی۔آپ کا لقب کلیمُ اللہ(اللہ پاک سے کلام کرنے والا) ہے۔اس کے علاوہ اللہ پاک نے آپ کی صفات کو قرآنِ پاک میں ذکر فرمایا ہے۔

(1)آپ علیہ السلام اللہ پاک کے چنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51)ترجمہ کنز الایمان:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بیشک وہ چنا ہوا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتانے والا۔

(2) آپ علیہ السلام رسول و نبی تھے۔

(3)آپ علیہ السلام سے اللہ پاک نے کلام فرمایا: فرمانِ باری ہے:یٰمُوْسٰۤى اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۳۰) (پ22،القصص:30)ترجمہ کنز العرفان:اے موسیٰ میں ہی اللہ ہوں،تمام جہانوں کا پالنے والا۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے:اس کے بعد اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بلاواسطہ کلام فرمایا اور آپ کلیمُ اللہ کے شرف سے نوازے گئے۔ آپ علیہ السلام کو مرتبۂ قرب عطا فرمایا گیا۔حجاب اٹھا دئیے گئے یہاں تک کہ آپ نے قلموں کے چلنے کی آوازیں سنیں اور آپ کی قدرو منزلت بلند کی گئی۔

اللہ پاک نے فرمایا:قَالَ یٰمُوْسٰۤى اِنِّی اصْطَفَیْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِكَلَامِیْ ﳲ فَخُذْ مَاۤ اٰتَیْتُكَ وَ كُنْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ(۱۴۴)(پ 9، الاعراف:144)ترجمہ کنز العرفان:(اللہ نے) فرمایا:اے موسیٰ!میں نے اپنی رسالتوں اور اپنے کلام کے ساتھ تجھے لوگوں پر منتخب کرلیا تو جو میں نے تمہیں عطا فرمایا ہے اسے لے لو اور شکر گزاروں میں سے ہوجاؤ۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے:میں نے اپنی رسالتوں کے ساتھ تجھے لوگوں پر منتخب کرلیا اور تمہیں مجھ سے بلا واسطہ ہم کلامی کا شرف عطا ہوا۔ جبکہ دیگر انبیا و مرسلین علیہم السلام سے فرشتے کے واسطے سے کلام ہوا۔

(4)اللہ پاک نےآپ کواپنا قرب بخشا:فرمانِ باری ہے: وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)(پ 16،مریم:52)ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کیلئے مقرب بنایا۔

(5)آپ علیہ السلام کی خواہش پرآپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کونبوت عطاکی:فرمانِ باری ہے: وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16، مریم: 53) ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جونبی تھا۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: یعنی جب حضر ت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک سے دعا کی کہ میرے گھر والوں میں سے میرے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو میرا وزیر بنا تو اللہ پاک نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور اپنی رحمت سے حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا کی۔

(6)اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس صفت کو بیان فرمایا کہ آپ علیہ السلام لوگوں کو جہالت اور کفر کے اندھیروں سے علم اور دین کے نور کی طرف نکالنےوالے ہیں: فرمانِ باری ہے:وَ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَكِیْلًاؕ(۲)(پ15،بنی اسرآءیل: 2) ترجمہ کنز الایمان:اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کیا کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ ٹھہراؤ۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس آیت میں اللہ پاک اپنے اس اکرام کا ذکر فرما رہا ہے جو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر فرمایا۔چنانچہ ارشاد فرمایا:ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کتاب تورات عطا فرمائی اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنادیا کہ وہ اس کتاب کے ذریعے انہیں جہالت اور کفر کے اندھیروں سے علم اور دین کے نور کی طرف نکالتے ہیں تاکہ اے بنی اسرائیل ! تم میرے سوا کسی کو کارساز نہ بناؤ۔

(7) قرآنِ مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نیک بتایا گیا ہے: ارشادِ خداوندی ہے:وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-كُلًّا هَدَیْنَاۚ-وَ نُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَۙ(۸۴)(پ 7،الانعام: 84) ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کیے۔ ان سب کو ہم نے ہدایت دی اور ان سے پہلے نوح کو ہدایت دی اور اس کی اولاد میں سے داود اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو(ہدایت عطا فرمائی) اور ایسا ہی ہم نیک لوگوں کو بدلہ دیتے ہیں۔

اللہ پاک اپنے پیاروں کے صدقے ہمیں صراطِ مستقیم پر چلنے اور دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہِ النبی الامین ﷺ


نبی اس بشر کو کہتے ہیں جس کی طرف اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و راہ نمائی کے لئے وحی بھیجی ہو اور ان میں سے جو نئی شریعت یعنی اسلامی قانون اور خدائی احکام لے کر آئے اسے رسول کہتے ہیں۔ (سیرت الانبیاء، ص 29 )

اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت کے لئے کئی انبیائے کرام علیہم السلام مبعوث فرمائے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو کئی خصوصیات سے نوازا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں۔قرآن و حدیث میں انبیا و مرسلین عليہم السلام کے انفرادی اور اجتماعی بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں۔چنانچہ

ارشادِ باری ہے: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ-مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍؕ-وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ-(پ3،البقرۃ:253) ترجمہ کنز الایمان:یہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا ان میں کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلند کیا اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو کھلی نشانیاں دیں اور پاکیزہ روح سے اس کی مدد کی۔

اس آیت میں تمام انبیائے کرام علیہم السلام میں سے بطور ِ خاص تین انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا گیا۔ان میں سے ایک حضرتِ موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں جن سے اللہ پاک نے کوہِ طور پر بلا واسطہ کلام فرمایا۔ قرآنِ پاک میں کئی جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات کو بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے چند یہ ہیں:

(1،2)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی و رسول تھے:ارشادِ باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم: 51)ترجمہ کنز الایمان: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بیشک وہ چنا ہوا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتانے والا۔

(3)آپ علیہ السلام ربِّ کریم کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والےاور مستجابُ الدعوات تھے: ارشادِ باری ہے: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ کنز الایمان:اور موسیٰ اللہ کے یہاں آبرو والا ہے۔

آیت کے اس حصے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان بیان فرمائی گئی کہ آپ اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے تھے اور اِس مقام میں یہ بات بھی داخل ہے کہ آپ مستجابُ الدعوات تھے یعنی آپ کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔(تفسیرخازن، 3/513)

(4 تا 6)آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا: قرآنِ پاک میں ہے: وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:52،53)ترجمہ کنزالایمان: اور اسے ہم نے طور کی دا ہنی جانب سے ندا فرمائی اور اسے اپنا راز کہنے کو قریب کیا۔اور اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون عطا کیا غیب کی خبریں بتانے والا (نبی)۔

اس سے اللہ پاک کے پیاروں کی عظمت کا پتہ لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے خزانوں میں نہیں۔ تو اگر ان کی دعا سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں مل جائیں تو کیا مشکل ہے!البتہ اب ختمِ نبوت ہوچکی لہٰذا اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔

(7) آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے:فرمانِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) (پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں۔

اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کا ادب کرنے اور ان کے مقام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ان کی ادنیٰ سی بھی بے ادبی کرنے سے محفوظ فرمائے اور ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے فیض سے مالا مال فرمائے۔اٰمین بجاهِ خاتمِ النبيين ﷺ


ربِّ دو جہاں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بے شمار انعامات عطا فرمائے۔ہدایت و صلاح سے آپ کو نوازا اور ان کے زمانے میں تمام مخلوقات پر آپ کو فضیلت بخشی۔صالحین میں شمار کیا۔بطورِ خاص نبوت کے لیے منتخب کیا اور صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت بخشی۔ آپ کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: حضرت موسیٰ بن عمران صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چنے ہوئے بندے ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اوصافِ مبارکہ:

(1)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:فرمانِ باری ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51)ترجمہ: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بے شک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور نبی رسول تھا۔

(2)آپ علیہ السلام ربِّ کریم کی بارگاہ میں بڑی و جاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے: فرمانِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ: اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی و جاہت والا ہے۔بنی اسرائیل کے طرزِ عمل پر اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اس سے بری ہونا دکھا دیا جو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہا تھا۔

(3)آپ علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) (پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔“اس آیت سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ سب سے بڑی فضیلت اور سب سے اعلیٰ شرف کامل ایمان سے حاصل ہوتا ہے۔ (تفسیرِ کبیر)

(4)اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایا:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)(پ6،النسآء: 164) ترجمہ: اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

(5)اللہ پاک نے حضرت ہارون علیہ السلام کی صورت میں آپ کو وزیر اور مددگار عطا فرمایا:وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:53)ترجمہ:اور ہم نے اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

(6)اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو فرقان عطا فرمایا:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳)(پ1،البقرۃ:53)ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پاجاؤ۔

(7)اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی 9 روشن نشانیاں عطا کیں:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت(پ15،بنی اسرآءیل:101)ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو نورِ روشن نشانیاں دیں۔

(8)اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳) (پ6،النسآء:153)ترجمہ: اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔

(9)اللہ پاک نے بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا کی:وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۚ(۳۲)25،الدخان:32)ترجمہ:اور بے شک ہم نے انہیں جانتے ہوئے اس زمانے والوں پر چن لیا۔

(10)اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں،ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب تورات عطا فرمائی:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳) (پ20،القصص:43)ترجمہ: اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اس کے بعد کہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرما دیا(موسیٰ کو وہ کتاب دی)جس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

یاد رہے! اللہ پاک نے اس کے علاوہ بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت سے عظیم معجزات سے مزین فرمایا اور آپ علیہ السلام کو خاص عظمتیں بخشی ہیں۔ اللہ پاک ہمیں ان کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔اٰمین بجاہِ خاتمِ النبی الامین ﷺ


حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر اور اولواالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔ آپ کلیمُ اللہ کے لقب سے اس لیے مشہور ہوئے کہ آپ نے اللہ پاک سے بلاواسطہ کلام کیا تھا۔آپ علیہ السلام کا نام موسیٰ اور لقب صفیُّ الله، کلیمُ اللہ ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام شرم و حیا کے پیکر تھے۔نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت حیا والے اور اپنا بدن چھپانے کا خصوصی اہتمام کیا کرتے تھے۔(بخاری،2/442،حدیث:3404)

اوصافِ حضرت موسیٰ علیہ السلام:

(1)آپ علیہ السلام ربِّ کریم کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے: ارشادِ باری ہے: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ: اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(2)آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے:فرمانِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22،الصّٰفّٰت:122) ترجمہ: بیشک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہے۔

(3)آپ علیہ السلام کو لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں،ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب تورات عطا فرمائی:فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳)(پ20، القصص:43) ترجمہ: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فر مائی اس کے بعد کہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرما دیا تھا( موسیٰ کووہ کتاب دی) جس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

(4) آپ علیہ السلام کو فرقان عطا کیا:ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳)(پ1،البقرۃ:53)ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

(5)آپ علیہ السلام کو نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی 9 روشن نشانیاں عطا کیں:فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت15،بنی اسرآءیل:101)ترجمہ:اور بیشک ہم نے موسی کو نو روشن نشانیاں دیں۔

(6)بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضلیت عطا کی:ارشاد فرمایا:وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۚ(۳۲)25،الدخان:32)ترجمہ:اور بیشک ہم نے انہیں جانتے ہوئے اس زمانے والوں پرچن لیا۔

(7) اللہ پاک نے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر 10 صحیفے نازل فرمائے،پھر آپ علیہ السلام کو کتابِ الٰہی تورات عطا کی اور آپ کے واسطے سے حضرت ہارون علیہ السلام کو عطا ہوئی:اس کتاب سے متعلق ارشادِ باری ہے:وَ اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَۚ(۱۱۷)(پ23،الصّٰفّٰت:117)ترجمہ: اور ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب عطا فرمائی۔

(8)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:ارشادِ باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51) ترجمہ: اور کتب میں موسیٰ کو یاد کرو بےشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

(9)اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایا:ارشادِ باری ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) (پ6، النسآء: 164)ترجمہ: اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

(10) اللہ پاک نے حضرت ہارون علیہ السلام کی صورت میں آپ کو وزیر اور مددگار عطا فرمایا:چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنَا مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِیْرًاۚۖ(۳۵)(پ19،الفرقان: 35)ترجمہ: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو وزیر بنایا۔

اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کے لیے آنے والی دُخترِ شعیب کی شرم و حیا کا بطور خاص ذکر فرمایا۔ کیونکہ شرم و حیا اور پردے کا خیال رکھنا پچھلے زمانوں میں بھی شریف لوگوں کی خاص علامت تھی۔ معلوم ہوا کہ قرآن وحدیث کی تعلیم شرم و حیا ہے۔قرآنِ مجید کے اس درسِ حیا میں ان عورتوں کے لئے نصیحت ہے جو بے پردہ حالت میں سڑکوں،بازاروں اور دوکانوں پر پھرتی ہیں۔ سج دھج کر دفتروں میں مَردوں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔