انبیائے کرام
علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیرے موتیوں کی طرح
جگمگاتی شخصیات ہیں، جنہیں اللہ پاک نے وحی کے نور سے روشنی بخشی،حکمتوں کے سر
چشمے ان کےدلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی بلندیاں عطا فرمائیں، جن کی
تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔
وحی
کی تعریف:نبی
ہونے کے لیے اس پر وحی ہونا ضروری ہے،خواہ فرشتے کی معرفت سے ہو یا بلا واسطہ۔
نام
و لقب:آپ
علیہ السلام کا نام مبارک موسیٰ اور لقب صفیُّ اللہ ہے۔
حدیثِ
مبارکہ میں تذکرۂ موسیٰ:حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آقا
ﷺنے فرمایا:حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے
ہوئے بندے ہیں۔
قرآن
میں اوصافِ موسیٰ:
(1)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ
پاک کے چُنے ہوئے اور برگزیدہ بندے،نبی اور رسول ہیں:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ
كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،
مریم: 51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بےشک وہ چُنا ہوا تھا اور رسول تھا
غیب کی خبریں بتانے والا۔
(2)آپ علیہ السلام اللہ پاک کی
بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مرتبے و مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے:اللہ
پاک فرماتاہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،
الاحزاب:69) ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔
(3)آپ علیہ السلام کسی واسطے کے
بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس
مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام کو
نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا:قرآنِ پاک میں ہے:وَ
نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا
لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:53، 52)ترجمہ:اور
اسے ہم نے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب
بنایا اور ہم نے اپنی رحمت سےاسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔
(4)آپ علیہ
السلام کو نبوت پر دلالت کرنےوالی نو روشن نشانیاں عطا کی گئیں:اللہ پاک فرماتا ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ
بَیِّنٰتٍ(پ15،بنی اسرآءیل:101)ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو نو روشن
نشانیاں دیں۔
(5)اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ
السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:اللہ پاک فرماتا ہے:وَ
اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳) (پ6،النسآء:153) ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا
فرمایا۔
مثال:
اس
کی ایک مثال یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو توبہ کے لیے
خود ان کے قتل کا حکم دیا تووہ انکار نہ کر سکے اور انہوں نے آپ علیہ السلام کی
اطاعت کی۔
(6)حضرت موسیٰ علیہ السلام و حضرت
ہارون علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کی قوم کے ظلم سے
نجات بخشی،قبطیوں کے مقابلے میں ان کی مدد فرمائی اور بعد میں آنے والی امتوں میں
ان کی تعریف باقی رکھی۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ
لَقَدْ مَنَنَّا عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَۚ(۱۱۴)وَ نَجَّیْنٰهُمَا وَ
قَوْمَهُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِۚ(۱۱۵)وَ نَصَرْنٰهُمْ فَكَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِیْنَۚ(۱۱۶)وَ
اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَۚ(۱۱۷)وَ هَدَیْنٰهُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۚ(۱۱۸)وَ تَرَكْنَا
عَلَیْهِمَا فِی الْاٰخِرِیْنَۙ(۱۱۹)سَلٰمٌ عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ(۱۲۰)اِنَّا كَذٰلِكَ
نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۲۱)(پ23،الصّٰفّٰت:114تا121)
ترجمہ:اور بےشک ہم نے موسیٰ اور ہارون پر احسان فرمایا اور انہیں اور ان کی قوم کو
بڑی سختی سے نجات بخشی اور ان کی ہم نے مدد فرمائی تو وہی غالب ہوئے اور ہم نے ان
دونوں کو روشن کتاب عطا فرمائی اور ان کو سیدھی راہ دکھائی اور پچھلوں میں ان کی
تعریف باقی رکھی سلام ہو موسیٰ اور ہارون پر بےشک ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں
کو۔
اللہ
پاک ہمیں اپنے محبوب ﷺاور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے توسل سے ان کا فیضان عطا
فرمائے۔ آمین