اللہ پاک کے جلیل القدر رسولوں میں سے ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔آپ علیہ السلام اللہ پاک کے برگزیدہ اور اولوا العزم رسول ہیں۔

آپ علیہ السلام کا نام:موسیٰ،لقب:کلیمُ اللہ اور صفیُّ اللہ ہے۔نبیِ کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔ (سیر ت الانبیاء)

اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو بے شمار اوصاف عطا فرمائے۔آپ علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات سے سات سو برس بعد پیدا ہوئے۔آپ علیہ السلام نے ایک سو بیس سال عمر پائی۔ (تفسیر صاوی، 2/696)

حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:حضرت ابراہیم علیہ السلام(کا حلیہ جاننے کے لیے)اپنے صاحب(محمد مصطفٰےﷺ) کی طرف دیکھ لو اور رہے حضرت موسیٰ علیہ السلام تو ان کاجسم دُبلا پتلا اور رنگ گندمی تھا۔وہ سرخ اونٹ پر سوار تھے، جس کی ناک میں کھجور کی چھال کی مہار تھی، گویا میں ان کی طرف دیکھ رہا ہوں۔وہ اللہُ اکبر کہتے ہوئے وادی میں اتر رہے ہیں۔(بخاری،2/421،حدیث:3404)

آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:حیاایمان سے ہے۔شرم و حیا اور جسم کو چھپا کر رکھنا پسندیدہ اوصاف ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حیا انبیائے کرام علیہم السلام کی سنتِ مبارکہ ہے۔حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت حیا والے تھے اور اپنا بدن چھپانے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ (بخاری، 2/442،حدیث:3404)

آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت (بڑے مقام والے) اور مستجابُ الدعوات تھے۔چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22، الاحزاب:69) ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔

آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ23،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔

آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا گیا:اللہ پاک فرماتا ہے:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳) (پ6،النسآء:153) ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔

آپ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا کی گئی:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۚ(۳۲) (پ25،الدخان:32)ترجمہ:اور بے شک ہم نے انہیں جانتے ہوئے اس زمانے والوں پر چن لیا۔

آپ علیہ السلام کو لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں اور ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب تورات عطا فرمائی گئی:اللہ پاک فرماتا ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳) (پ20، القصص:43) ترجمہ:اور بےشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی بعد اس کے کہ اگلی سنگتیں(قومیں) ہلاک فرمادیں جس میں لوگوں کے دل کی آنکھیں کھولنے والی باتیں اور ہدایت اور رحمت تاکہ وہ نصیحت مانیں۔

اللہ پاک نے حضرت ہارون علیہ السلام کی صورت میں آپ علیہ السلام کو وزیر اور مددگار عطا فرمایا:قرآنِ کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم: 53) ترجمہ:اور ہم نے اپنی رحمت سےاسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔معلوم ہوا کہ اللہ اپنے نبیوں سے کس قدر محبت فرماتا ہے!ا نہیں کس قدر انعام و اکرام سے نوازتا ہے!انہیں روشن نشانیاں عطا فرماتا ہے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ پاک نے اپنے رسولوں میں موسیٰ علیہ السلام کو اعلیٰ اوصاف اور خاص مقام سے نوازا ہے۔