حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔نبیِ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت موسیٰ بن عمران صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔حضرت موسیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں اور نسب نامہ یہ ہے:موسیٰ بن عمران بن قاہث بن عازر بن لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم۔

ارشادِ باری ہے:وَ اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَۚ(۱۱۷)(پ23،الصّٰفّٰت:117)ترجمہ:اور ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب عطا فرمائی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے 10 اوصاف:

جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اژدہا بن کر جادوگروں کے سانپوں کو نگل گیا تو جادوگر سجدے میں گر کر ایمان لائے۔مگر فرعون اور اس کے متبعین نے اب بھی ایمان قبول نہیں کیا۔بلکہ فرعون کا کفر اور اس کی سرکشی اور زیادہ بڑھ گئی اور اس نے بنی اسرائیل کے مومنین اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دل آزاری اور ایذا رسانی میں بھر پور کوشش شروع کردی اور طرح طرح سے ستانا شروع کردیا۔فرعون کے مظالم سے تنگ دل ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداوندِ قدوس کے دربار میں اس طرح دعا مانگی: اے میرے ربّ! فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے۔لہٰذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرما لے جو ان کے سزاوار، میری قوم اور بعد والوں کے لیے عبرت ہو۔(تفسیر روح البیان،3/220)

(1)وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۴)(پ20، القصص:14)ترجمہ:اور جب موسیٰ اپنی جوانی کو پہنچے اور بھر پور ہو گئے تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا فرمایااور ہم نیکوں کو ایسا صلہ دیتے ہیں۔

(2)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے۔ارشادِ باری ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51) ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

(3)آپ علیہ السلام ربِّ کریم کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے۔ ارشادِباری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22،الاحزاب:69)ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(4تا 6) آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔قرآنِ پاک میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:52،53)ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنا یا۔اور ہم نے اسے اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

قرآنِ پاک میں ہے:وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ(۵۱) ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۵۲) (پ1، البقرۃ:51،52) ترجمہ: اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا پھر اس کے پیچھے تم نے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی اور تم واقعی ظالم تھے۔پھر اس کے بعد ہم نے تمہیں معافی عطا فرمائی تاکہ تم شکر کرو۔

قرآنِ پاک میں ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳) (پ1، البقرۃ:53) ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

( الفرقان:فرق کرنا:)فرقان کے کئی معانی ذکر کیے گئے ہیں۔فرقان سے مراد بھی تورات ہی ہے۔کفر و ایمان میں فرق کرنے والے معجزات جیسے عصا اور یدِ بیضاء وغیرہ حلال و حرام میں فرق کرنے والی شریعت مراد ہے۔(تفسیر نسفی،ص52)

قرآنِ پاک میں ہے: وَ اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًاؕ-قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْؕ-كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۶۰)(پ1، البقرۃ:60)ترجمہ:اور یاد کروجب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا تو ہم نے فرمایا کہ پتھر پر اپنا عصا مارو،تو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہہ نکلے اور ہر گروہ نے اپنے پانی کی جگہ کو پہچان لیا اور ہم نے فرمایا کہ اللہ کا رزق کھاؤ اور پیو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔


حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر اور اولواالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔اللہ پاک سے بلا واسطہ ہم کلام ہونے کی سعادت کے سبب کلیمُ اللہ کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ علیہ السلام کا مبارک نام موسیٰ، لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔نبیِ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ بن عمران صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔(سیرت الانبیاء، ص526)

(1،2) حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئےاور برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:ارشادِ باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51) ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور نبی رسول تھا۔

(3)آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے:ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22،الاحزاب:69)ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(4تا 6) آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا:قرآنِ پاک میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:52،53) ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا، اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

اس سے اللہ پاک کے پیارے بندوں کی عظمت کا پتہ لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے خزانوں سے نہ مل سکے۔تو اگر ان کی دعا سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں مل جائیں تو کیا مشکل ہے!البتہ نبوت کا باب چونکہ بند ہو چکا، اس لیے اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔

(7)آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے:فرمانِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔

(8) اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایا:ارشادِ باری ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) (پ6، النسآء:164)ترجمہ:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

(9) اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو روشن نشانیاں عطا فرمائیں:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت 15، بنی اسرائیل:101) ترجمہ:بے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

(10)آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳)(پ6،النسآء: 153) ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔“

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو توبہ کے لیے خود کو قتل کا حکم دیا تو وہ انکار نہ کر سکے اور انہوں نے آپ علیہ السلام کی اطاعت کی۔(سیرت الانبیاء،ص532)

نبی اور رسول اللہ پاک کےنیک اور خاص بندے ہوتے ہیں۔ان کی تربیت اللہ پاک خود فرماتا ہے۔یہ ہر طرح کے گناہ سے پاک ہوتے ہیں۔انہی میں سے ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں،جو اللہ پاک کے برگزیدہ،عبادت گزار،پرہیزگار اور متّقی نبی ہیں۔اللہ پاک نے ان پر تورات نازل فرمائی ہے۔

آپ علیہ السلام کا جسمِ مبارک دُبلا پتلا اور رنگ گندمی تھا۔نبیِ کریمﷺ فرماتے ہیں:حضرت موسیٰ علیہ السلام سُرخ اونٹ پر سوار تھے جس کی ناک میں کھجور کی چھال کی مہار تھی،گویا میں ان کی طرف دیکھ رہا ہوں، وہ اللہُ اکبر کہتے ہوئے وادی میں اتر رہے ہیں۔(بخاری،2/421،حدیث:3355)

(1) شرم و حیا اور جسم کو چھپا کر رکھنا پسندیدہ اوصاف اور کئی صورتوں میں شریعت کو مطلوب ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام میں ان اوصاف سے متعلّق نبیِ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت حیا والے اور اپنا بدن چھپانے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔(بخاری،2/442،حدیث:3404)

(2،3) آپ علیہ السلام کے حج کی کیفیت سے متعلّق حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ارشاد فرمایا: حضور اقدس ﷺ کا وادیِ ازرق سے گزر ہواتو فرمایا:گویا کہ میں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اترتے ہوئے دیکھا تو وہ بلند آواز سے تلبیہ پڑھ رہے ہیں۔پھر آپ ایک وادی سے گزرے تو پوچھا:یہ کون سی وادی ہے؟ عرض کی گئی:یہ فلاں وادی ہے۔ارشاد فرمایا:گویا کہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سرخ اونٹنی پر رمی کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔اونٹنی کی لگام کھجور کی چھال کی ہے اور آپ علیہ السلام اونی جبّہ پہنے ہوئے ہیں۔ (ابن حبان،8/35:حدیث:6186)

(4)اللہ پاک نے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر دس صحیفے نازل فرمائے،پھر آپ کو کتابِ الٰہی تورات عطا کی۔ ارشادِ باری ہے:ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَى الَّذِیْۤ اَحْسَنَ وَ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَ۠(۱۵۴)(پ8، الانعام:154)ترجمہ:پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی تاکہ نیک آدمی پر احسان پورا ہو اور ہر شے کی تفصیل ہو اور ہدایت و رحمت ہو کہ کہیں وہ اپنے رب سے ملنےپر ایمان لائیں۔

(5)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے۔ارشادِ باری ہے: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(6،7) آپ علیہ السلا م کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہمکلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے بہت بڑےمقام پر فائز ہیں۔ارشادِ باری ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:52،53) ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا اور ہم نے اسے اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

(9)آپ علیہ السلا م اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلا م اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22،الصّٰفّٰت:122) ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔


حضرت موسیٰ علیہ ا لسلام اللہ پاک کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر اور اولواالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔آپ کی ولادت کا سن کر فرعون نے آپ کو قتل کروانے کے لیے ہزاروں بچے ذبح کروائے۔لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ان پر اللہ پاک نے کتاب نازل کی۔(سیرت الانبیاء)ارشادِ باری ہے:وَ اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَۚ(۱۱۷)(پ23،الصّٰفّٰت:117)ترجمہ:اور ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب عطا فرمائی۔

یہاں حضرت موسیٰ علیہ ا لسلام کے کچھ اوصاف ذکر کیے جاتے ہیں:

(1تا 3) آپ علیہ ا لسلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہمکلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا:قرآنِ پاک میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ16،مریم:52،53)ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا اور ہم نے اسے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

(4)حضرت موسیٰ علیہ ا لسلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:ارشادِ باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

(5)آپ علیہ ا لسلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے:فرمانِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔

(6) آپ علیہ ا لسلام کو فرقان عطا کیا:ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳) (پ1،البقرۃ:53) ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

فرقان کے کئی معانی کیے گئے ہیں:(1)فرقان سے مراد بھی تورات ہی ہے۔(2) کفر و ایمان میں فرق کرنے والے معجزات جیسے عصا اور یدِ بیضاء وغیرہ۔(3)حلال و حرام میں فرق کرنے والی شریعت مراد ہے۔ (تفسیر نسفی، ص52)

(7) آپ علیہ ا لسلام کو نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی نو نشانیاں عطا کیں:فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت15،بنی اسرائیل:101)ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

(8)آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳)(پ6،النسآء: 153) ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔“اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو توبہ کے لیے خود ان کے اپنے قتل کا حکم دیا تو وہ انکار نہ کر سکے اور انہوں نے آپ کی اطاعت کی۔

(9) اللہ پاک نےآپ علیہ ا لسلام کوحضرت ہارون علیہ السلام کی صورت میں وزیر اور مددگار عطا فرمایا:چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16، مریم:52)ترجمہ:اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

(10) بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا کی:ارشاد فرمایا:وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۚ(۳۲)(پ25،الدخان:32)ترجمہ:اور بے شک ہم نے انہیں جانتے ہوئے اس زمانے والوں پر چن لیا۔اللہ پاک ہمیں اپنے انبیائے کرام کی سیرت کو پڑھنے اور ان سے درس حاصل کر کے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین


حضرت موسیٰ علیہ ا لسلام اللہ پاک کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر اور اولواالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔ آپ کی ولادت کا سن کر فرعون نے آپ کو قتل کروانے کے لیے ہزاروں بچے ذبح کروائے۔ لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔یہاں تک کہ اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کے دشمن فرعون کے گھر ہی میں آپ کی پرورش کروائی۔(سیرت الانبیاء،ص464) آپ علیہ السلام کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔نبیِ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ بن عمران صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں اور نسب نامہ یہ ہے:موسیٰ بن عمران بن قاہث بن عازر بن لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم۔(قصص الانبیاء، ص377)

(1،2) حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:ارشادِ باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16، مریم:51) ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

(3)آپ علیہ السلام ربِّ کریم کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے: ارشادِباری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22،الاحزاب:69)ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(4)آپ علیہ السلام کو لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں،ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب تورات عطا فرمائی:فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳) (پ20، القصص:43)ترجمہ: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اس کے بعد کہ ہم نے پہلی قوموں کوہلاک فرمادیاتھا (موسیٰ کو وہ کتاب دی) جس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

(5)اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایا:ارشادِباری ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) (پ6، النسآء:164)ترجمہ:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

(6)وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنَا مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِیْرًاۚۖ(۳۵)(پ19،الفرقان:35) ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو وزیر بنایا۔

(7)وَ اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًاؕ-قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْؕ-كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۶۰) (پ1، البقرۃ:60) ترجمہ کنز الایمان:اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہ نکلے ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا کھاؤ اور پیو خدا کا دیا اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ پھرو۔

(8)وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳)(پ1،البقرۃ:53) ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

الفرقان(فرق کرنا):فرقان کے کئی معانی کیے گئے ہیں:(1)فرقان سے مراد بھی تورات ہی ہے۔(2) کفر و ایمان میں فرق کرنے والے معجزات جیسے عصا اور یدِ بیضاء وغیرہ۔(3)حلال و حرام میں فرق کرنے والی شریعت مراد ہے۔(تفسیر نسفی، ص52)

(9)وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ(۵۱) ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۵۲) (پ1، البقرۃ:51،52)ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا پھر اس کے پیچھے تم نے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی اور تم واقعی ظالم تھے۔پھر اس کے بعد ہم نے تمہیں معافی عطا فرمائی تاکہ تم شکر کرو۔

(10)آپ علیہ ا لسلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے:فرمانِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔


آپ علیہ السلام کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔نبیِ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ بن عمران صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔حضرت موسیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں اور نسب نامہ یہ ہے:موسیٰ بن عمران بن قاہث بن عازر بن لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم۔آ پ علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات سے 400 برس اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سات سو برس بعد پیدا ہوئے۔

پہلی صفت: وَ اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًاؕ-قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْؕ-كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۶۰) (پ1، البقرۃ:60)ترجمہ کنز الایمان:اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا ماروفوراً اس میں سے بارہ چشمے بہہ نکلے۔ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا۔

دوسری صفت:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16، مریم:51)ترجمہ کنز الایمان:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور نبی رسول تھا۔

تیسری صفت: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ کنز الایمان:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

چوتھی صفت:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22،الصّٰفّٰت:122) ترجمہ کنز الایمان:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔

پانچویں صفت: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ کنز الایمان:اے ایمان والو ان جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے اسے بری فرما دیا۔اس بات سے جو انہوں نے کہی، اور موسیٰ اللہ کے یہاں آبرو والا ہے۔

چھٹی صفت:وَ مَا تِلْكَ بِیَمِیْنِكَ یٰمُوْسٰى(۱۷)قَالَ هِیَ عَصَایَۚ-اَتَوَكَّؤُا عَلَیْهَا وَ اَهُشُّ بِهَا عَلٰى غَنَمِیْ وَ لِیَ فِیْهَا مَاٰرِبُ اُخْرٰى(۱۸)(پ16، طٰہٰ:17،18)ترجمہ کنز الایمان:اور یہ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے اے موسیٰ!عرض کی:یہ میرا عصا ہے میں اس پر تکیہ لگاتا ہوں اور اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں۔اور میرے اس میں اور کام ہیں۔

ساتویں صفت:وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُؕ-وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُ جُ مِنْهُ الْمَآءُؕ-وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ-(پ1،البقرۃ:74)ترجمہ کنز الایمان:اور پتھروں میں کچھ تو وہ ہیں جن سےندیاں بہہ نکلتی ہیں اور کچھ وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلتا ہے اور کچھ وہ ہیں کہ اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں۔

آٹھویں صفت:قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَ اَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ(۲۵) (پ6،المائدۃ:25)ترجمہ کنز الایمان:اے رب میرے مجھے اختیار نہیں مگر اپنا اور اپنے بھائی کا تو تُو ہم کو ان بے حکموں سے جدا رکھ۔

نویں صفت:قَالَ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَةًۚ-یَتِیْهُوْنَ فِی الْاَرْضِؕ-فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۶) (پ6،المائدۃ:26) ترجمہ کنز الایمان:تو وہ زمین ان پر حرام ہے چالیس برس تک بھٹکتے پھریں زمین میں تو تم ان بے حکموں کا افسوس نہ کھاؤ۔

دسویں صفت: وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً اُخْرٰىۙ(۲۲) لِنُرِیَكَ مِنْ اٰیٰتِنَا الْكُبْرٰىۚ(۲۳)(پ16، طٰہٰ:22،23)ترجمہ کنز الایمان:اوراپنا ہاتھ اپنے بازو سے ملا خوب سپید نکلے گا بے کسی مرض کے ایک اور نشانی کہ ہم تجھے اپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں۔


دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السلام تشریف لائے۔ان میں سے ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔اللہ پاک نے آپ کو دو خاص معجزات بھی عطا فرمائے:ایک عصا اور دوسرا کلیمُ اللہ ہونا یعنی آپ علیہ السلام نے اللہ پاک سے براہِ راست کلام فرمایا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات قرآن و تفسیر کی روشنی میں:

آیت نمبر 1:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳)(پ20، القصص:43)ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اس کے بعد ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرمایا تھاجس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں اور ہدایت و رحمت ہےتاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

آیت نمبر 2: اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایا:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)(پ6، النسآء:164) ترجمہ:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

آیت نمبر 3: اللہ پاک نے حضرت ہارون علیہ السلام کی صورت میں آپ کو وزیر اور مددگار عطا فرمایا:ارشادِ باری ہے:وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:52)ترجمہ:اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

آیت نمبر 4:ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳) (پ1،البقرۃ:53) ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

تفسیر:فرقان کے کئی معانی کیے گئے ہیں:(1)فرقان سے مراد بھی تورات ہی ہے۔(2) کفر و ایمان میں فرق کرنے والے معجزات جیسے عصا اور یدِ بیضاء وغیرہ۔(3)حلال و حرام میں فرق کرنے والی شریعت مراد ہے۔ (سیرت الانبیاء، ص532،533)

آیت نمبر 5: آپ علیہ السلام کو نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی نو نشانیاں عطا کیں:ارشادِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت15، بنی اسرائیل:101) ترجمہ:بے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

آیت نمبر 6:آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳)(پ6، النسآء:153) ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔“

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو توبہ کے لیے خود کو قتل کا حکم دیا تو وہ انکار نہ کر سکے اور انہوں نے آپ علیہ السلام کی اطاعت کی۔(سیرت الانبیاء،ص532)

آیت نمبر 7:بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا کی:ارشادِ باری ہے:وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۚ(۳۲)(پ25، الدخان:32) ترجمہ:اور بے شک ہم نے انہیں جانتے ہوئے اس زمانے والوں پر چن لیا۔

آیت نمبر 8:وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَۚ(۱۱۴) (پ23، الصّٰفّٰت:114)ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ اور ہارون پر احسان فرمایا۔

آیت نمبر 9:وَ نَجَّیْنٰهُمَا وَ قَوْمَهُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِۚ(۱۱۵)(پ23، الصّٰفّٰت:115)ترجمہ:اور انہیں اور ان کی قوم کو سختی سے نجات بخشی۔

آیت نمبر 10:سَلٰمٌ عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ(۱۲۰)(پ23، الصّٰفّٰت:120)ترجمہ:موسیٰ اور ہارون پرسلام ہو۔

سب سے آخری نبی،مکی مدنی ﷺہیں، لیکن ہم دوسرے تمام انبیا پر بھی ایمان رکھتے ہیں،ان میں سے ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔ان پر ہمارا ایمان ہے کہ وہ نبی ہیں۔


آپ علیہ السلام کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ، صفیُّ اللہ ہے۔نبیِ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ بن عمران صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بے شمار انعامات عطا فرمائے اور ہدایت اور صلاح سے نوازا۔اپنے زمانے میں تمام مخلوق پر آپ کو فضیلت بخشی۔ صالحین میں شمار کیا۔ بطورِ خاص نبوت کے لیے منتخب کیا اور صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت بخشی۔

(1)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51) ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور نبی رسول تھا۔

(2)آپ علیہ السلا م اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندے تھے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) (پ22،الصّٰفّٰت:122) ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔

(3) اللہ پاک نےحضرت ہارون کی صورت میں آپ کووزیر اور مددگار عطا فرمایا:وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ16،مریم:53) ترجمہ:اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

(4) اللہ پاک نےآپ علیہ ا لسلام کو نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی نو نشانیاں عطا کیں:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت15، بنی اسرائیل:101) ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

(5)اللہ پاک نےبنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا کی:وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۚ(۳۲)(پ25، الدخان:32) ترجمہ:اور بے شک ہم نے انہیں جانتے ہوئے اس زمانے والوں پر چن لیا۔

(6)آپ علیہ السلام ربِّ کریم کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔“بنی اسرائیل کے طرزِ عمل پر اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اس سے بری ہونا دکھا دیا جو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہا تھا۔

(7)اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلاواسطہ کلام فرمایا:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)(پ6،النسآء: 164)ترجمہ:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

(8) اللہ پاک نے آپ علیہ ا لسلام کو فرقان عطا فرمایا:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳) (پ1،البقرۃ:53)ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

(9)اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳) (پ6،النسآء:153) ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔

(10) اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں، ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب تورات عطا فرمائی:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳) (پ20، القصص:43) ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اس کے بعدکہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرمایا تھاجس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں اور ہدایت و رحمت ہےتاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔


اللہ پاک نے انبیائے کرام علیہم السلام کو بندوں کی ہدایت کے لیے بھیجا اور ان کو بے شمار کمالات و اوصاف عطا کیےتاکہ لوگ ان کی طرف راغب ہو کر ایمان لے آئیں۔ان کے دلوں کو گناہوں سے پاک کیا۔وہ معصوم ہوتے ہیں۔ان میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندےہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کےنہایت برگزیدہ، عبادت گزار، خوفِ خدا رکھنے والےاور اللہ پاک کی اطاعت کرنے والے نبی تھے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کے وصال سے چار سو سال اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سات سو سال بعد پیدا ہوئے۔آپ نے ایک سو بیس سال عمر پائی۔(البدایۃ و النہایۃ، 1/3291)

یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چند اوصاف کا ذکرِ خیر کیا جاتا ہے:

(1)شرم و حیا:شرم وحیا کو بہت ہی پسندیدہ وصف مانا جاتا ہے۔آپ علیہ السلام بھی بے انتہا شرم و حیا کے پیکر تھے۔آپ علیہ السلام کے اس وصف کے بارے میں ہمارے آقا و مولیٰﷺ نے فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت حیا والے اور اپنا بدن چھپانے کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔(بخاری،حدیث:3404)

(2) اولواالعزم رسولوں میں سے:آپ علیہ السلام بھی اولواالعزم رسولوں میں سے ہیں۔مکتبۃ المدینہ کے رسالے”حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان و عظمت“صفحہ 2 پر ہے:یوں تو سارے انبیا ورسل علیہم السلام ہمت والے ہیں اور سبھی نے راہِ حق میں آنے والی تکالیف پر صبر و ہمت کا شان دار مظاہرہ کیا۔البتہ ان مقدس ہستیوں کی جماعت میں سے پانچ رسل علیہم السلام ایسے ہیں جن کا راہِ حق میں صبر دیگر نبیوں اور رسولوں علیہم السلام سے زیادہ ہے۔اس لیے انہیں بطورِ خاص اولواالعزم رسول کہا جاتا ہےاور جب بھی اولوا العزم رسول کہا جائے تو یہی پانچ رسول مراد ہوتے ہیں۔وہ یہ ہیں:(1)حضور اقدس ﷺ(2) حضرت ابراہیم علیہ السلام (3) حضرت موسیٰ علیہ السلام (4) حضرت عیسیٰ علیہ السلام (5) حضرت نوح علیہ السلام۔

(3)توریت: یہ آپ کا وصف ہے کہ اللہ پاک نے آپ کو توریت نامی کتاب عطا کی۔اس کتاب کے متعلّق اللہ پاک اپنے حبیب ﷺ پر نازل کیے جانے والے قرآنِ پاک میں فرماتا ہے:ترجمہ:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ(پ19،الفرقان:35)ترجمہ:ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔

(4،5)قربِ الٰہی، اللہ سے ہم کلام، اور دعا کی قبولیت:کتاب سیرتُ الانبیاء صفحہ 530 پر ہے کہ آپ علیہ السلام اللہ پاک سے کسی واسطے کے بغیر ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔ قرآنِ پاک میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲) وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ16،مریم:52،53)ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا اور ہم نے اسے اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

(6)جنتی لاٹھی:آپ علیہ السلام کے پاس جنتی لاٹھی بھی تھی۔اس لاٹھی کےبارے میں کتاب”عجائب القرآن مع غرائب القرآن“صفحہ 21 پر ہے:یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وہ مقدس لاٹھی ہے جس کو عصائے موسیٰ کہتے ہیں۔اس کے ذریعے آپ کے بہت سے ان معجزات کاظہور ہوا جن کو قرآنِ مجید نے مختلف عنوانوں کے ساتھ بار بار بیان فرمایا ہے۔یہ جنت کے درخت پیلو کی لکڑی سے بنائی گئی تھی اور اس کو حضرت آدم علیہ السلام بہشت سے اپنے ساتھ لائے تھے۔( عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص 21)

(7)تابوتِ سکینہ:آپ علیہ السلام کے پاس تابوتِ سکینہ بھی تھا۔اس کے بارے میں”عجائب القرآن“ میں لکھا ہےکہ یہ شمشاد کی لکڑی کا ایک صندوق تھا، جو حضرت آدم علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔ یہ آپ کی آخر زندگی تک آپ کے پاس ہی رہا۔پھر بطورِ میراث یکے بعد دیگرے آپ کی اولاد کو ملتا رہا۔یہاں تک کہ یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو ملا۔ آپ کے بعد آپ کی اولاد بنی اسرائیل کے قبضہ میں رہا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مل گیا تو آپ اس میں تورات شریف اور اپنا خاص خاص سامان رکھنے لگے۔( عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص 52)

(8)قرآن میں اسمِ مبارک کا تذکرہ:حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم پر بہت مہربان تھے۔آپ علیہ السلام نے بہت آزمائشیں جھیلیں۔آپ علیہ السلام کے اپنی قوم پر شفقت کے واقعات قرآنِ پاک میں موجود ہیں۔ مثلاًگائے کا واقعہ، یدِ بیضاء،منّ و سلویٰ کا اترنا وغیرہ۔اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرتوں کو پڑھنے،ان سے درس و نصیحت حاصل کر کے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰ مین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ

حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کےبرگزیدہ نبی ہیں۔حضرت موسیٰ کا لقب”کلیمُ اللہ یعنی اللہ پاک سے کلام فرمانے والا“ ہے۔آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔

ارشاد باری ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ16،مریم:52،53)ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

اس سے اللہ پاک کے پیارے بندوں کی عظمت کا پتہ لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے۔جو بادشاہوں کے خزانوں سے نہ مل سکے۔توا گر ان کی دعاؤں سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں مل جائیں تو کیا مشکل ہے!البتہ نبوت کا باب چونکہ بند ہو چکا اس لیےاب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔

وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور نبی رسول تھا۔

آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22،الاحزاب:69)ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

آپ علیہ السلا م کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہمکلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔

قَالَ اَلْقِهَا یٰمُوْسٰى(۱۹)فَاَلْقٰىهَا فَاِذَا هِیَ حَیَّةٌ تَسْعٰى(۲۰)قَالَ خُذْهَا وَ لَا تَخَفْٙ-سَنُعِیْدُهَا سِیْرَتَهَا الْاُوْلٰى(۲۱)(پ16، طٰہٰ:19تا21)ترجمہ:فرمایا:اے موسیٰ !اسے ڈال دو۔تو موسیٰ نے اسے (نیچے)ڈال دیاتو اچانک وہ سانپ بن گیا جو دوڑرہا تھا۔(اللہ نے) فرمایا:تو اسے پکڑ لو اور ڈرو نہیں ہم اسے دوبارہ اس کی پہلی حالت میں لوٹا دیں گے۔

وَ اَنْ اَلْقِ عَصَاكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّ لَمْ یُعَقِّبْؕ-یٰمُوْسٰۤى اَقْبِلْ وَ لَا تَخَفْ- اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ(۳۱)(پ20، القصص:31) ترجمہ:اور یہ کہ تم اپنا عصا ڈال دو تو جب اسے لہراتا ہوا دیکھا گویا کہ سانپ ہے تو حضرت موسیٰ پیٹھ پھیر کر چلے اور مڑ کر نہ دیکھا۔(ہم نے فرمایا)اے موسیٰ! سامنے آؤ اور نہ ڈرو۔بے شک تم امن والوں میں سے ہو۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مزید فرمایا گیا:وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً اُخْرٰىۙ(۲۲) (پ16،طٰہٰ:22)ترجمہ:اور اپنا ہاتھ اپنے بازو سے ملا خوب سپید نکلے گا بے کسی مرض کے۔“

اللہ پاک ہم سب کو تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین


حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے انتہائی برگزیدہ پیغمبراور اولواالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔اللہ پاک سے بلا واسطہ ہم کلام ہونے کے سبب کلیمُ اللہ کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔آپ علیہ السلام کا نام مبارک موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندےہے۔نبیِ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ بن عمران صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندےہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں اور نسب نامہ یہ ہے:موسیٰ بن عمران بن قاہث بن عازر بن لاوی بن یعقب بن اسحاق بن ابراہیم۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جسم دُبلا،پتلا اور رنگ گندمی تھا۔وہ سُرخ اونٹ پر سوار تھے جس کی ناک میں کھجور کی چھال کی مہار تھی۔گویا میں ان کی طرف دیکھ رہا ہوں،وہ اللہُ اکبر کہتے ہوئے وادی میں اتر رہے ہیں۔

(1)وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51) ترجمہ:اورکتاب میں موسیٰ کو یاد کرو،بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور نبی رسول تھا۔

تفسیر:حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے۔ (سیرت الانبیاء، ص530)

(2) وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ کنز الایمان:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

تفسیر:آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے۔ (سیرت الانبیاء، ص530)

(3) وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى (پ20، القصص:43)ترجمہ کنز الایمان:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اس کہ بعد کہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرما دیا تھا۔

تفسیر:(موسیٰ کو وہ کتاب دی) جس میں لوگوں کے دلوں کو کھولنے والی باتوں،ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب تورات عطا فرمائی۔(سیرت الانبیاء، ص532)

(4) وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)(پ6، النسآء:164)ترجمہ کنز الایمان:اور اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

تفسیر:اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایا۔(سیرت الانبیاء، ص532)

(5) وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳)(پ1،البقرۃ:53)ترجمہ کنز الایمان:اوریاد کرو ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

تفسیر:آپ علیہ السلام کو فرقان عطا کیا۔ فرقان سے مراد بھی تورات ہے۔(سیرت الانبیاء، ص532)

(6) وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت15، بنی اسرائیل:101)ترجمہ کنز الایمان:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

تفسیر:آپ علیہ السلام کو نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی نو روشن نشانیاں عطا کیں۔ (سیرت الانبیاء، ص532)

(7) وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۚ(۳۲)(پ25، الدخان:32) ترجمہ کنز الایمان:اور بے شک ہم نے انہیں جانتے ہوئے اس زمانے والوں پر چن لیا۔

تفسیر:بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا کی۔(سیرت الانبیاء، ص533)

(8)وَ قَالَتْ لِاُخْتِهٖ قُصِّیْهِ٘-فَبَصُرَتْ بِهٖ عَنْ جُنُبٍ وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَۙ(۱۱)(پ20، القصص: 11)ترجمہ کنز الایمان:اور اس کی ماں نے اس کی بہن سے کہا اس کے پیچھے چلی جا تو وہ بہن اسے دور سے دیکھتی رہی۔اور ان فرعونیوں کو خبر نہ تھی۔

تفسیر:حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے آپ کی بہن مریم سے کہا:تم صورتِ حال معلوم کرنے کے لیے ان کے پیچھے چلتی رہو۔چنانچہ آپ علیہ السلام کی بہن آپ کے پیچھے چلتی رہی اور آپ کو دور سے دیکھتی رہی۔ فرعونیوں کو اس بات کی خبر نہ تھی کہ یہ اس بچے کی بہن ہے اور اس کی نگرانی کر رہی ہے۔ (سیرت الانبیاء، ص537)

(9)اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ کنز الایمان:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔

تفسیر:آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندے تھے۔ (سیرت الانبیاء، ص531)

(10) وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ16،مریم:52،53)ترجمہ کنز الایمان:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا۔اور ہم نے اسے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

تفسیر:آپ کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہمکلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔(سیرت الانبیاء، ص530) اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان کی سیرت کا مطالعہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین


حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے انتہائی برگزیدہ پیغمبراور اولواالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔آپ کا مبارک نام موسیٰ اور لقب کلیمُ اللہ ہے۔اللہ پاک نے آپ کے دشمن فرعون کے گھر میں آپ کی پرورش کروائی۔

اللہ کریم قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَى الَّذِیْۤ اَحْسَنَ وَ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَ۠(۱۵۴)(پ8، الانعام: 154) ترجمہ:پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی تاکہ نیک آدمی پر احسان پورا ہو اور ہر شے کی تفصیل ہو اور ہدایت و رحمت ہو کہ کہیں وہ اپنے رب سے ملنےپر ایمان لائیں۔

(1،2)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:ارشادِ باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51) ترجمہ:اورکتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

(3) آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ کنز الایمان:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(4تا6) آپ علیہ ا لسلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا:قرآنِ پاک میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:52،53)ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا اور ہم نے اسے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

(7)آپ علیہ ا لسلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے:فرمانِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔

(8)اللہ پاک نےآپ علیہ ا لسلام کوحضرت ہارون علیہ السلام کی صورت میں وزیر اور مددگار عطا فرمایا: چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:53)ترجمہ:اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔ارشاد فرمایا:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنَا مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِیْرًاۚۖ(۳۵)(پ19،الفرقان:35) ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو وزیر بنایا۔

(9)آپ علیہ ا لسلام کو فرقان عطا کیا:ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳)(پ1،البقرۃ:53)ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔اے اللہ پاک!ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت پر عمل کرنے اور ان کی زندگی کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرما۔اٰمین