حضرت موسیٰ علیہ ا لسلام اللہ پاک کے انتہائی
برگزیدہ پیغمبر اور اولواالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔آپ کی ولادت کا سن کر
فرعون نے آپ کو قتل کروانے کے لیے ہزاروں بچے ذبح کروائے۔لیکن وہ اس میں کامیاب نہ
ہو سکا۔ ان پر اللہ پاک نے کتاب نازل کی۔(سیرت الانبیاء)ارشادِ باری ہے:وَ اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَۚ(۱۱۷)(پ23،الصّٰفّٰت:117)ترجمہ:اور ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب
عطا فرمائی۔
یہاں حضرت موسیٰ علیہ ا لسلام کے کچھ اوصاف ذکر کیے جاتے ہیں:
(1تا 3) آپ علیہ ا لسلام کسی
واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہمکلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں
قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون
علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا:قرآنِ پاک میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ
نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا
لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)
(پ16،مریم:52،53)ترجمہ:اور ہم نے اسے طور
کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا اور ہم نے
اسے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔
(4)حضرت موسیٰ علیہ ا لسلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ
بندے اور نبی رسول تھے:ارشادِ باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی
الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ
کو یاد کرو بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔
(5)آپ
علیہ ا لسلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان
والے بندے تھے:فرمانِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ
عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل
ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔
(6)
آپ علیہ ا لسلام کو فرقان عطا کیا:ارشادِ باری ہے:وَ
اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳) (پ1،البقرۃ:53) ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا
فرمائی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔
فرقان کے کئی معانی کیے گئے ہیں:(1)فرقان سے
مراد بھی تورات ہی ہے۔(2) کفر و ایمان میں فرق کرنے والے معجزات جیسے عصا اور یدِ
بیضاء وغیرہ۔(3)حلال و حرام میں فرق کرنے والی شریعت مراد ہے۔ (تفسیر نسفی، ص52)
(7)
آپ علیہ ا لسلام کو نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی نو نشانیاں عطا کیں:فرمانِ
باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت(پ 15،بنی
اسرائیل:101)ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن
نشانیاں دیں۔
(8)آپ
علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:وَ
اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳)(پ6،النسآء:
153) ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو
روشن غلبہ عطا فرمایا۔“اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل
کو توبہ کے لیے خود ان کے اپنے قتل کا حکم دیا تو وہ انکار نہ کر سکے اور انہوں نے
آپ کی اطاعت کی۔
(9) اللہ پاک نےآپ علیہ ا لسلام کوحضرت ہارون علیہ السلام کی
صورت میں وزیر اور مددگار عطا فرمایا:چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَ
وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16، مریم:52)ترجمہ:اور
ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔
(10)
بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا کی:ارشاد فرمایا:وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۚ(۳۲)(پ25،الدخان:32)ترجمہ:اور
بے شک ہم نے انہیں جانتے ہوئے اس زمانے والوں پر چن لیا۔اللہ پاک ہمیں اپنے
انبیائے کرام کی سیرت کو پڑھنے اور ان سے درس حاصل کر کے عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔اٰمین