دنیا
میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السلام تشریف لائے۔ان میں سے
ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔اللہ پاک نے آپ کو دو خاص معجزات بھی عطا
فرمائے:ایک عصا اور دوسرا کلیمُ اللہ ہونا یعنی آپ علیہ السلام نے اللہ پاک سے
براہِ راست کلام فرمایا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات قرآن و تفسیر کی روشنی میں:
آیت نمبر 1:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا
مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى
بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳)(پ20، القصص:43)ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب
عطا فرمائی اس کے بعد ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرمایا تھاجس میں لوگوں کے دلوں کی
آنکھیں کھولنے والی باتیں اور ہدایت و رحمت ہےتاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
آیت نمبر 2: اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے
بلا واسطہ کلام فرمایا:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى
تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)(پ6، النسآء:164) ترجمہ:اور اللہ
نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔
آیت نمبر 3: اللہ پاک نے حضرت ہارون علیہ
السلام کی صورت میں آپ کو وزیر اور مددگار عطا فرمایا:ارشادِ باری ہے:وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:52)ترجمہ:اور
ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔
آیت نمبر 4:ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ
تَهْتَدُوْنَ(۵۳) (پ1،البقرۃ:53)
ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ
تم ہدایت پا جاؤ۔
تفسیر:فرقان
کے کئی معانی کیے گئے ہیں:(1)فرقان سے مراد بھی تورات ہی ہے۔(2) کفر و ایمان میں
فرق کرنے والے معجزات جیسے عصا اور یدِ بیضاء وغیرہ۔(3)حلال و حرام میں فرق کرنے
والی شریعت مراد ہے۔ (سیرت الانبیاء، ص532،533)
آیت نمبر 5: آپ علیہ السلام کو نبوت و رسالت
پر دلالت کرنے والی نو نشانیاں عطا کیں:ارشادِ باری ہے:وَ
لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت(پ 15،
بنی اسرائیل:101)
ترجمہ:بے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔
آیت نمبر 6:آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و
تسلط عطا فرمایا:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳)(پ6، النسآء:153) ترجمہ:اور ہم
نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔“
اس کی
ایک مثال یہ ہے کہ جب آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو توبہ کے لیے خود کو قتل کا
حکم دیا تو وہ انکار نہ کر سکے اور انہوں نے آپ علیہ السلام کی اطاعت کی۔(سیرت
الانبیاء،ص532)
آیت نمبر 7:بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں
تمام جہان والوں پر فضیلت عطا کی:ارشادِ باری ہے:وَ
لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۚ(۳۲)(پ25،
الدخان:32) ترجمہ:اور بے شک ہم نے انہیں جانتے
ہوئے اس زمانے والوں پر چن لیا۔
آیت نمبر 8:وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَۚ(۱۱۴) (پ23،
الصّٰفّٰت:114)ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ اور ہارون
پر احسان فرمایا۔
آیت نمبر 9:وَ نَجَّیْنٰهُمَا وَ
قَوْمَهُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِۚ(۱۱۵)(پ23،
الصّٰفّٰت:115)ترجمہ:اور
انہیں اور ان کی قوم کو سختی سے نجات بخشی۔
آیت نمبر 10:سَلٰمٌ عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ(۱۲۰)(پ23، الصّٰفّٰت:120)ترجمہ:موسیٰ اور ہارون پرسلام ہو۔
سب سے
آخری نبی،مکی مدنی ﷺہیں، لیکن ہم دوسرے تمام انبیا پر بھی ایمان رکھتے ہیں،ان میں
سے ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔ان پر ہمارا ایمان ہے کہ وہ نبی ہیں۔