اللہ
پاک نے انبیائے کرام علیہم السلام کو بندوں کی ہدایت کے لیے بھیجا اور ان کو بے
شمار کمالات و اوصاف عطا کیےتاکہ لوگ ان کی طرف راغب ہو کر ایمان لے آئیں۔ان کے
دلوں کو گناہوں سے پاک کیا۔وہ معصوم ہوتے ہیں۔ان میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام
بھی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندےہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کےنہایت
برگزیدہ، عبادت گزار، خوفِ خدا رکھنے والےاور اللہ پاک کی اطاعت کرنے والے نبی
تھے۔
حضرت
موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں
سے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کے وصال سے چار سو سال اور
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سات سو سال بعد پیدا ہوئے۔آپ نے ایک سو بیس سال عمر
پائی۔(البدایۃ و النہایۃ، 1/3291)
یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چند اوصاف کا ذکرِ خیر کیا جاتا
ہے:
(1)شرم و حیا:شرم وحیا کو بہت ہی پسندیدہ وصف
مانا جاتا ہے۔آپ علیہ السلام بھی بے انتہا شرم و حیا کے پیکر تھے۔آپ علیہ السلام
کے اس وصف کے بارے میں ہمارے آقا و مولیٰﷺ نے فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت
حیا والے اور اپنا بدن چھپانے کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔(بخاری،حدیث:3404)
(2) اولواالعزم رسولوں میں سے:آپ
علیہ السلام بھی اولواالعزم رسولوں میں سے ہیں۔مکتبۃ المدینہ کے رسالے”حضرت موسیٰ
علیہ السلام کی شان و عظمت“صفحہ 2 پر ہے:یوں تو سارے انبیا ورسل علیہم السلام ہمت
والے ہیں اور سبھی نے راہِ حق میں آنے والی تکالیف پر صبر و ہمت کا شان دار مظاہرہ
کیا۔البتہ ان مقدس ہستیوں کی جماعت میں سے پانچ رسل علیہم السلام ایسے ہیں جن کا راہِ
حق میں صبر دیگر نبیوں اور رسولوں علیہم
السلام سے زیادہ ہے۔اس لیے انہیں بطورِ خاص اولواالعزم رسول کہا جاتا ہےاور جب بھی
اولوا العزم رسول کہا جائے تو یہی پانچ رسول مراد ہوتے ہیں۔وہ یہ ہیں:(1)حضور اقدس
ﷺ(2) حضرت ابراہیم علیہ السلام (3) حضرت موسیٰ علیہ السلام (4) حضرت عیسیٰ علیہ
السلام (5) حضرت نوح علیہ السلام۔
(3)توریت: یہ آپ کا وصف ہے کہ اللہ پاک نے
آپ کو توریت نامی کتاب عطا کی۔اس کتاب کے متعلّق اللہ پاک اپنے حبیب ﷺ پر نازل کیے
جانے والے قرآنِ پاک میں فرماتا ہے:ترجمہ:وَ لَقَدْ
اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ(پ19،الفرقان:35)ترجمہ:ہم نے
موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔
(4،5)قربِ الٰہی، اللہ سے ہم کلام، اور دعا
کی قبولیت:کتاب سیرتُ الانبیاء صفحہ 530 پر ہے کہ آپ علیہ السلام اللہ
پاک سے کسی واسطے کے بغیر ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں
قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ
السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔ قرآنِ پاک میں ہے:وَ
نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲) وَ وَهَبْنَا
لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)
(پ16،مریم:52،53)ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے
اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا اور ہم نے اسے اپنی رحمت سے اس کا بھائی
ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔
(6)جنتی لاٹھی:آپ علیہ السلام کے پاس جنتی
لاٹھی بھی تھی۔اس لاٹھی کےبارے میں کتاب”عجائب القرآن مع غرائب القرآن“صفحہ 21 پر
ہے:یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وہ مقدس لاٹھی ہے جس کو عصائے موسیٰ کہتے ہیں۔اس
کے ذریعے آپ کے بہت سے ان معجزات کاظہور ہوا جن کو قرآنِ مجید نے مختلف عنوانوں کے
ساتھ بار بار بیان فرمایا ہے۔یہ جنت کے درخت پیلو کی لکڑی سے بنائی گئی تھی اور اس
کو حضرت آدم علیہ السلام بہشت سے اپنے ساتھ لائے تھے۔( عجائب القرآن مع غرائب
القرآن، ص 21)
(7)تابوتِ سکینہ:آپ علیہ السلام کے پاس تابوتِ
سکینہ بھی تھا۔اس کے بارے میں”عجائب القرآن“ میں لکھا ہےکہ یہ شمشاد کی لکڑی کا ایک
صندوق تھا، جو حضرت آدم علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔ یہ آپ کی آخر زندگی تک آپ کے
پاس ہی رہا۔پھر بطورِ میراث یکے بعد دیگرے آپ کی اولاد کو ملتا رہا۔یہاں تک کہ یہ
حضرت یعقوب علیہ السلام کو ملا۔ آپ کے بعد آپ کی اولاد بنی اسرائیل کے قبضہ میں
رہا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مل گیا تو آپ اس میں تورات شریف اور اپنا خاص
خاص سامان رکھنے لگے۔( عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص 52)