حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔نبیِ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت موسیٰ بن عمران صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔حضرت موسیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں اور نسب نامہ یہ ہے:موسیٰ بن عمران بن قاہث بن عازر بن لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم۔

ارشادِ باری ہے:وَ اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَۚ(۱۱۷)(پ23،الصّٰفّٰت:117)ترجمہ:اور ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب عطا فرمائی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے 10 اوصاف:

جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اژدہا بن کر جادوگروں کے سانپوں کو نگل گیا تو جادوگر سجدے میں گر کر ایمان لائے۔مگر فرعون اور اس کے متبعین نے اب بھی ایمان قبول نہیں کیا۔بلکہ فرعون کا کفر اور اس کی سرکشی اور زیادہ بڑھ گئی اور اس نے بنی اسرائیل کے مومنین اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دل آزاری اور ایذا رسانی میں بھر پور کوشش شروع کردی اور طرح طرح سے ستانا شروع کردیا۔فرعون کے مظالم سے تنگ دل ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداوندِ قدوس کے دربار میں اس طرح دعا مانگی: اے میرے ربّ! فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے۔لہٰذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرما لے جو ان کے سزاوار، میری قوم اور بعد والوں کے لیے عبرت ہو۔(تفسیر روح البیان،3/220)

(1)وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۴)(پ20، القصص:14)ترجمہ:اور جب موسیٰ اپنی جوانی کو پہنچے اور بھر پور ہو گئے تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا فرمایااور ہم نیکوں کو ایسا صلہ دیتے ہیں۔

(2)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے۔ارشادِ باری ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51) ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

(3)آپ علیہ السلام ربِّ کریم کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے۔ ارشادِباری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22،الاحزاب:69)ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(4تا 6) آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔قرآنِ پاک میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:52،53)ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنا یا۔اور ہم نے اسے اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

قرآنِ پاک میں ہے:وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ(۵۱) ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۵۲) (پ1، البقرۃ:51،52) ترجمہ: اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا پھر اس کے پیچھے تم نے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی اور تم واقعی ظالم تھے۔پھر اس کے بعد ہم نے تمہیں معافی عطا فرمائی تاکہ تم شکر کرو۔

قرآنِ پاک میں ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳) (پ1، البقرۃ:53) ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

( الفرقان:فرق کرنا:)فرقان کے کئی معانی ذکر کیے گئے ہیں۔فرقان سے مراد بھی تورات ہی ہے۔کفر و ایمان میں فرق کرنے والے معجزات جیسے عصا اور یدِ بیضاء وغیرہ حلال و حرام میں فرق کرنے والی شریعت مراد ہے۔(تفسیر نسفی،ص52)

قرآنِ پاک میں ہے: وَ اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًاؕ-قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْؕ-كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۶۰)(پ1، البقرۃ:60)ترجمہ:اور یاد کروجب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا تو ہم نے فرمایا کہ پتھر پر اپنا عصا مارو،تو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہہ نکلے اور ہر گروہ نے اپنے پانی کی جگہ کو پہچان لیا اور ہم نے فرمایا کہ اللہ کا رزق کھاؤ اور پیو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔