آپ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی ہیں۔آپ کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں۔آپ کے والد کا نام عمران، آپ کی والدہ کا نام یوحانذ ہے۔آپ کی بہن کا نام مریم اور بھائی کا نام ہارون ہے۔

نبیِ کریمﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شرم و حیا کے بارے میں فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت حیا والے اور اپنا بدن چھپانے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔اللہ پاک نے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر دس صحیفے نازل فرمائے،پھر آپ کو کتابِ الٰہی تورات عطا کی۔ آپ علیہ السلام نے ایک سو بیس سال کی عمر میں وفات پائی۔ارشادِ باری ہے:وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۴)(پ20،القصص:14)ترجمہ:اور جب موسیٰ اپنی جوانی کو پہنچے اور بھرپور ہو گئے تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا فرمایا۔اور ہم نیکوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں قرآنی آیات کی روشنی میں چند اوصاف ملاحظہ ہوں:

(1) حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:ارشادِ باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

(2)آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے: ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69) ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(3) اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلاواسطہ کلام فرمایا:ارشادِ باری ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) (پ6، النسآء:164)ترجمہ:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

(4)آپ علیہ السلام کو فرقان عطا کیا:ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳)(پ1،البقرۃ:53)ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

(5)آپ علیہ السلام کو نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی نو نشانیاں عطا کیں:فرمان ِباری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت(پ 15،بنی اسرآءیل:101)ترجمہ:اوربے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

(6)آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:فرمانِ باری ہے:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳) (پ6، النسآء:153) ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔

(7)اللہ پاک نےحضرت موسیٰ علیہ السلام سے ارشاد فرمایا:اے موسیٰ!اس عصا کو زمین پر ڈال دو تاکہ تم اس کی شان دیکھ سکو۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عصا زمین پر ڈال دیا تو وہ اچانک سانپ بن کر تیزی سے دوڑنے لگا اور اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو کھانے لگا۔یہ حال دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو (طبعی طور پر) خوف ہوا تو اللہ پاک نےحضرت موسیٰ علیہ السلام سے ارشاد فرمایا:اسے پکڑ لو اور ڈرو نہیں! ہم اسے دوبارہ پہلی حالت پر لوٹا دیں گے۔یہ سنتے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خوف جاتا رہا۔حتّٰی کہ آپ نے اپنا دستِ مبارک اس کے منہ میں ڈال دیا اور وہ آپ علیہ السلام کے ہاتھ لگاتے ہی پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ ( تفسیرخازن، 3 /251،252)

(8)سورۂ طٰہٰ میں ہے:قَالَ اَلْقِهَا یٰمُوْسٰى(۱۹)فَاَلْقٰىهَا فَاِذَا هِیَ حَیَّةٌ تَسْعٰى(۲۰)قَالَ خُذْهَا وَ لَا تَخَفْٙ-سَنُعِیْدُهَا سِیْرَتَهَا الْاُوْلٰى(۲۱)(پ16، طٰہٰ:19تا21) ترجمہ:فرمایا:اے موسیٰ! اسے ڈال دو تو موسیٰ نے اسے(نیچے) ڈال دیا تو اچانک وہ سانپ بن گیا جوتیزی سے دوڑرہا تھا۔(اللہ نے) فرمایا:اسے پکڑ لو اور ڈرو نہیں، ہم اسے دوبارہ اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے۔

(9)حضرت موسیٰ علیہ السلام کی درخواست پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَكَ یٰمُوْسٰى(۳۶) (پ16، طٰہٰ:36)ترجمہ:اے موسیٰ! تیرا سوال تجھے عطا کر دیا گیا۔

(10) آپ علیہ السلام کو لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں، ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب تورات عطا فرمائی:فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳) (پ20، القصص:43) ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اس کے بعد کہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرما دیا تھا۔(موسیٰ کو وہ کتاب دی) جس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں،ہدایت اور رحمت ہےتا کہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اوصاف پڑھے۔جن سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک نیک اور برگزیدہ بندے تھے۔آپ علیہ السلام کو بے شمار معجزات عطا ہوئے۔

ہمیں بھی اللہ پاک سے دعا کرنی چاہیے کہ ہمیں بھی عبادت گزار بنائے اور نیکیوں میں زندگی بسر کرنے کی توفیق دے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر ہو۔اٰمین


حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مختصر تعارف:حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران ہے۔آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سات سو سال بعد پیدا ہوئے اور آپ نے ایک سو بیس سال عمر پائی۔(البدایۃ و النھایۃ، 1/32)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات:

(1)قرآنِ کریم کے کئی پاروں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا انتہائی شان و شوکت سے ذکر آیا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ کنز الایمان:اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے موسیٰ کا اس شے سے بری ہونا دکھا دیا جو انہوں نے کہا تھا اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(2) آپ کا نام مبارک قرآنِ کریم میں 136 بار ذکر کیا گیا ہے۔

(3) آپ کو اللہ پاک کی طرف سے ایک آسمانی کتاب توریت عطا کی گئی۔

(4) آپ نے اللہ پاک سے کئی مرتبہ کلام کرنے کا شرف پایا، اسی لیے آپ کو کلیمُ اللہ کہا جاتا ہے۔

(5) ربِّ کریم نے آپ کو طور پہاڑ پر بلا کر پہاڑ کی طرف رخ کروایا اور وہاں تجلی فرمائی۔

(6) آپ نےحضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات بھی فرمائی۔

(7) آپ بہت سادہ طبیعت کے مالک تھے۔

(8) آپ نے معراج کی رات حضورﷺ کی امامت میں نماز پڑھنے کی سعادت پائی۔

(9)اُمّتِ محمدیہ پر آپ کا بہت بڑا احسان یہ ہے کہ معراج کی رات آپ نے نمازوں کو پچاس سے پانچ کروا دیا۔ (حضرت موسیٰ کی شان و عظمت)

(10) آپ انتہائی حسین و جمیل تھے۔

(11)اللہ پاک نے آپ کو بے عیب پیدا فرمایا اور آپ کے بے عیب ہونے کی گواہی ایک پتھر سے دلوائی۔ چنانچہ کتاب عجائب القرآن مع غرائب القرآن میں لکھا ہے:ایک ہاتھ لمبا ایک ہاتھ چوڑا چوکور پتھر تھا جو ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جھولے میں رہتا تھا۔اس مبارک پتھر کے ذریعے حضرت موسیٰ علیہ السلام کےدو معجزات کا ظہور ہوا جن کا تذکرہ قرآنِ کریم میں بھی ہوا ہے۔اس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ جو درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا وہ اس پتھر کی دانشمندانہ لمبی دوڑ ہے اور یہی معجزہ اس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔اللہ پاک نے اس واقعہ کا ذکر قرآنِ مجید میں اس طرح بیان فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22، الاحزاب:69)ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے موسیٰ کا اس شے سے بری ہونا دکھا دیا جو انہوں نے کہا تھا اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

دوسرا معجزہ:میدانِ تیہ میں اس پتھر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا مارا تو اس میں سے بارہ چشمے جاری ہو گئے تھے جس کے پانی کو چالیس سال تک بنی اسرائیل میدانِ تیہ میں استعمال کرتے رہے۔پارہ 1 سورۃُ البقرۃ کی آیت نمبر 60 میں ارشاد ہوتا ہے:فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-ترجمہ کنز العرفان:ہم نے فرمایا کہ پتھر پر اپنا عصا مارو۔(اس آیت کریمہ)میں پتھر سے یہی پتھر مراد ہے۔

روشن ہاتھ:حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنےگریبان میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالتے تھے تو ایک دم آپ کا ہاتھ روشن ہو کر چمکنے لگتا تھا۔پھر آپ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال دیتے تو وہ اپنی اصلی حالت پر ہو جایا کرتا۔اس معجزے کو قرآنِ عظیم نے مختلف سورتوں میں بار بار ذکر فرمایا ہے۔چنانچہ پارہ 16 سورۂ طٰہٰ کی آیت نمبر 22 میں ارشاد فرمایا:وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً اُخْرٰىۙ(۲۲) ترجمہ کنز العرفان:اور اپنے ہاتھ کو اپنے بازو سے ملاؤ، بغیر کسی مرض کے خوب سفید ہو کر ایک اور معجزہ بن کر نکلے گا۔

تفسیر:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے رات میں چاند اور دن میں سورج کی روشنی کی طرح نور ظاہر ہوتا تھا۔(تفسیرِ مدارک)( تفسیرِ خازن)

حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے نبیوں میں سے ایک عظیم نبی ہیں،جن کا نام موسیٰ اور لقب کلیمُ اللہ یعنی اللہ پاک سے کلام فرمانے والے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دینِ اسلام کو بہت پھیلایا اور اس میں بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کیا۔آپ اللہ پاک کے نیک اور برگزیدہ بندے ہیں۔آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس کے بارے میں دلائل مانگے تو آپ علیہ السلام نے اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا کی تو آپ پر تورات کتاب نازل ہوئی اور آپ کی قوم نے اسلام قبول کیا۔فرمانِ باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51) ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بے شمار معجزات ہیں اور آپ علیہ السلام کے اوصاف بھی بہت اعلیٰ ہیں۔آپ کے اوصاف قرآنی آیات کی روشنی میں پیشِ خدمت ہیں:

(1)آپ علیہ السلام رب کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے:ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69) ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(2)آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا گیا:ارشادِ باری ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:52،53)ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا۔اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھے۔

(3)آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے ہیں:ارشادِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔

(4) اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلاواسطہ کلام فرمایا:ارشادِ باری ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) (پ6، النسآء:164) ترجمہ:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقۃً کلام فرمایا۔

(5)آپ علیہ السلام کو لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں،ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب تورات عطا فرمائی:ارشادِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳) (پ20، القصص:43) ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اس کے بعد کہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرما دیا تھا۔(موسیٰ کو وہ کتاب دی)جس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں،ہدایت اور رحمت ہےتا کہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

(6)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:ارشادِ باری ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

(7)آپ علیہ السلام کو نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی نو نشانیاں عطا کیں:فرمان ِباری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت(پ15،بنی اسرآءیل:101)ترجمہ:اوربے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

(8)آپ علیہ السلام کو فرقان عطا کیا گیا:ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳)(پ1،البقرۃ:53)ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

فرقان کے کئی معانی کیے گئے ہیں:(1) فرقان سے مراد بھی تورات ہی ہے۔(2) کفر و ایمان میں فرق کرنے والے معجزات جیسے عصا اور یدِ بیضاء وغیرہ۔(3) حرام و حلال میں فرق کرنے والی شریعت مراد ہے۔

(9)بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا کی:ارشادِ باری ہے:وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۚ(۳۲)(پ25، الدخان:32) ترجمہ:اور بے شک ہم نے انہیں جانتے ہوئے اس زمانے والوں پر چن لیا۔

(10)آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳)(پ6، النسآء: 153) ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو توبہ کے لیے خود اپنے قتل کا حکم دیا تو وہ انکارنہ کر سکے اور آپ علیہ السلام کی اطاعت کی۔جس طرح ہم نے پڑھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کتنے بڑے مقام و مرتبہ والے تھے اور اللہ پاک سے بلا واسطہ یعنی کسی ذریعے کے بغیر کلام فرمانے والے تھے تو اللہ پاک کے ایسے نیک بندوں کے وسیلے سے دعا مانگنی چاہیے اور اللہ پاک کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہر وقت اللہ پاک کا شکر ادا کرنا چاہیے اور یہ دعا کرنا چاہیے کہ ہمارا خاتمہ ایمان پر ہو اور دوزخ کے عذاب سے نجات ملے۔اٰمین


حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر اور اولواالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔اللہ پاک سے بلاواسطہ ہم کلام ہونے کی سعادت پانے کے سبب کلیمُ اللہ کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔آپ علیہ السلام کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔نبیِ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔(سیرت الانبیاء،ص 526)آپ علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات سے چار سو برس اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سات سو برس بعد پیدا ہوئے اور ایک سو بیس برس عمر پائی۔(سیرت الانبیاء، ص528)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دس اوصاف:

(1،2) حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئےبرگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:ارشادِ باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا۔اور وہ نبی رسول تھا۔

(3)آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے: ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22،الاحزاب:69)ترجمہ:اورموسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(4تا6) آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ علیہ السلام کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا:قرآنِ پاک میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ16،مریم:52،53) ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا۔اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔(سیرت الانبیاء، ص530)

(7)آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندے تھے:فرمانِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔(سیرت الانبیاء، ص531)

(8) اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلاواسطہ کلام فرمایا:ارشادِباری ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) (پ6، النسآء:164)ترجمہ:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔(سیرت الانبیاء، ص532)

(9)آپ علیہ السلام کو نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی نو نشانیاں عطا کیں:فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت15،بنی اسرآءیل:101)ترجمہ:اوربے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔(سیرت الانبیاء، ص532)

(10)آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳)(پ6، النسآء: 153)ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔اس کی مثال یہ ہے کہ جب آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو توبہ کے لیے خود ان کو اپنے قتل کا حکم دیا تو وہ انکار نہ کر سکے اور انہوں نے آپ کی اطاعت کی۔

اللہ پاک نے انبیائے کرام کو بے شمار خوبیاں عطا فرمائی ہیں،جس کا ذکر اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے۔وہ یہ ہیں:

(1)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:ارشادِ باری ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور نبی رسول تھا۔

(2)آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے: ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22،الاحزاب:69)ترجمہ:اورموسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(3)آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:ارشادِ باری ہے:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳) (پ6،النسآء:153)اورہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔

(4)آپ علیہ السلام کو نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی نو روشن نشانیاں عطا کیں:ارشادِ باری ہے: وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت(پ 15، بنی اسرائیل:101) ترجمہ:بے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو توبہ کے لیے خود ان کے اپنے قتل کا حکم دیا تو وہ انکار نہ کر سکے اور انہوں نے آپ علیہ السلام کی اطاعت کی۔آپ علیہ السلام کو فرقان عطا کیا۔ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳) (پ1،البقرۃ:53) ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

(5)اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایا:ارشادِ باری ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) (پ6، النسآء:164)اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

(6)اللہ پاک نے پہلےحضرت موسیٰ علیہ السلام پر دس صحیفے نازل فرمائے،پھر آپ کو کتابِ الٰہی تورات عطا کی:ارشادِ باری ہے:ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَى الَّذِیْۤ اَحْسَنَ وَ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَ۠(۱۵۴)(پ8،الانعام:154)ترجمہ:پھرہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی تاکہ نیک آدمی پر احسان پورا ہو اور ہر شے کی تفصیل ہو اور ہدایت و رحمت ہو کہ کہیں وہ اپنے رب پر ایمان لائیں۔

(7)وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳)(پ20،القصص:43)ترجمہ:آپ علیہ السلام کو لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں،ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب عطا فرمائی۔اس کے بعد کہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرما دیا تھا۔( موسیٰ کو وہ کتاب دی)جس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

(8) اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہدایت، صلاح عطا فرمائی اور ان کے زمانے میں تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی،صالحین میں شمار کیا،بطورِ خاص نبوت کے لیے منتخب کیا اور صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت بخشی:ارشادِ باری ہے:وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-كُلًّا هَدَیْنَاۚ-وَ نُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَۙ(۸۴) وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَۙ(۸۵)وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶)وَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ اِخْوَانِهِمْۚ-وَ اجْتَبَیْنٰهُمْ وَ هَدَیْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۸۷)(پ7،الانعام:84تا87)ترجمہ:اورہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کیے۔ان سب کو ہم نے نبوت دی اور ان سے پہلے نوح کو ہدایت دی اور اس کی اولاد میں سے داود اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو(ہدایت عطا فرمائی) اور ایسا ہی ہم نیک لوگوں کو بدلہ دیتے ہیں۔اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو(ہدایت یافتہ بنایا)یہ سب ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں۔اور اسماعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو(ہدایت دی)اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔اور ان کے باپ دادا اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے بھی بعض کو(ہدایت دی)اور ہم نے انہیں چن لیا اور ہم نےانہیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی۔

(9)آپ علیہ السلام اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندے تھے:ارشادِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) (پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔

(10)ارشادِ باری ہے:وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَۚ(۱۱۴)(پ23، الصّٰفّٰت:114)ترجمہ:اوربے شک ہم نے موسیٰ اور ہارون پر احسان فرمایا۔ارشادِ باری ہے:سَلٰمٌ عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ(۱۲۰)(پ23، الصّٰفّٰت:120)ترجمہ:موسیٰ اور ہارون پرسلام ہو۔(پ23، الصّٰفّٰت:120)اللہ پاک ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سیرت پر عمل کی توفیق دے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے فیوض و برکات سے نوازے۔


حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔نبیِ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں۔موسیٰ بن عمران بن قاہث بن عازر بن لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم۔اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر دس صحیفے نازل فرمائے۔پھر آپ کو اور آپ کے واسطے سے حضرت ہارون علیہ السلام کو کتابِ الٰہی تورات عطا ہوئی۔اس کتاب سے متعلق ارشادِ باری ہے:وَ اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَۚ(۱۱۷)(پ23،الصّٰفّٰت:117) ترجمہ: اور ہم نےان دونوں کو روشن کتاب عطا فرمائی۔

(1،2)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئےبرگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:ارشادِ باری ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا۔اور وہ نبی رسول تھا۔

(3)آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے: ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22،الاحزاب:69) ترجمہ:اورموسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(4تا6) آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے تھے اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا:قرآنِ پاک میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ16،مریم:52،53) ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا۔اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

اس سے اللہ پاک کے پیارے بندوں کی عظمت کا پتہ لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے خزانوں سے نہ مل سکے۔تو اگر ان کی دعا سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں مل جائیں تو کیا مشکل ہے!البتہ نبوت کا باب چونکہ بند ہو چکا، اس لیے اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔

آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندے تھے۔فرمانِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22، الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔

(7)آپ علیہ السلام کو لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں، ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب عطا فرمائی: وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳)(پ20،القصص:43)ترجمہ:اس کے بعد کہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرما دیا تھا۔( موسیٰ کو وہ کتاب دی)جس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

(8)اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلاواسطہ کلام فرمایا:ارشادِ باری ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) (پ6، النسآء:164) ترجمہ:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

(9) اللہ پاک نے حضرت ہارون علیہ السلام کی صورت میں آپ کو وزیر اور مددگار عطا فرمایا:چنانچہ ارشادِ باری ہے: وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:53)ترجمہ:اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا اور ارشاد فرمایا:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنَا مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِیْرًاۚۖ(۳۵) (پ19، الفرقان:35)ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو وزیر بنایا۔

(10)آپ کو فرقان عطا کیا گیا:ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳)(پ1،البقرۃ:53)ترجمہ:اوریاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق اور باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔


حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران ہے اور آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت امام علاؤ الدین علی بن محمد خازن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا سے ان (یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام) کا نام رکھنے کے لیے کہا گیا تو آپ نے فرمایا:میں نے اس بچے کا نام موسیٰ رکھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نامِ مبارک قرآنِ کریم میں 136بار ذکر کیا گیاہے۔آپ کو اللہ پاک کی طرف سے ایک آسمانی کتاب تورات عطا کی گئی۔آپ نے اللہ پاک سے کئی مرتبہ کلام کا شرف پایا،اسی لیے آپ کو کلیمُ اللہ کہا جاتا ہے۔

صفاتِ موسیٰ قرآن و تفسیر کی روشنی میں:

دوڑنے والا پتھر:کتاب عجائب القرآن مع غرائب القرآن میں لکھا ہے:ایک ہاتھ لمبا ایک ہاتھ چوڑا چوکور پتھر تھا جو ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جھولے میں رہتا تھا۔ اس مبارک پتھر کے ذریعے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو معجزات کا ظہور ہوا جن کا تذکرہ قرآنِ کریم میں بھی ہوا ہے۔

پہلا معجزہ: اس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ جو در حقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا وہ اس پتھر کی دانشمندانہ لمبی دوڑ ہے اور وہی معجزہ اس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔اللہ پاک نے اس واقعہ کا ذکر قرآنِ مجید میں اس طرح فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22، الاحزاب:69)ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو!ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے موسیٰ کا اس شے سے بری ہونا دکھا دیا جو انہوں نے کہا تھا اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

دوسرا معجزہ:میدانِ تیہ میں اسی پتھر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نےاپنا عصا مار دیا تھا تو اس میں سے بارہ چشمے جاری ہو گئے تھے۔جس کے پانی کو چالیس سال تک بنی اسرائیل میدانِ تیہ میں استعمال کرتے رہے۔پارہ1 سورۃُ البقرۃ کی آیت نمبر60 میں ارشاد ہوتا ہے:فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-(پ1،البقرۃ:60) ترجمہ کنز العرفان:ہم نے فرمایا کہ پتھر پر اپنا عصا مارو۔(اس آیتِ کریمہ میں پتھر سے وہی پتھر مراد ہے۔ ( عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص29)

روشن ہا تھ:حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالتے تھے تو ایک دم آپ کا ہاتھ روشن ہو کر چمکنے لگتا تھا،پھر جب اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال دیتے تو وہ اپنی اصلی حالت پر ہو جایا کرتا تھا۔اس معجزےکو قرآنِ عظیم نے مختلف سورتوں میں بار بار ذکر فرمایا ہے۔چنانچہ پارہ 16 سورۂ طٰہٰ کی آیت نمبر 22 میں ارشاد فرمایا:وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً اُخْرٰىۙ(۲۲) (پ16،طٰہٰ:22)ترجمہ کنز العرفان:اور اپنے ہاتھ کو اپنے بازو سے ملاؤ، بغیر کسی مرض کے خوب سفید ہو کر اور ایک معجزہ بن کر نکلے گا۔

(1)عصا اژدہا بن گیا:فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شکست دینے کے لیے ایک میلہ لگوایا۔اس میلے میں جہاں لاکھوں انسانوں کا مجمع تھا،وہیں جادوگروں کا ہجوم بھی اپنی جادوگری کا سامان لے کر جمع ہو گیا۔ جادوگروں نے فرعون کی عزت کی قسم کھا کر اپنے جادو کی لاٹھیوں اور رسیوں کو پھینکا تو ایک دم وہ سانپ بن کر پورے میدان میں ہر طرف دوڑنے لگیں اور مجمع خوف و ہراس میں بد حواس ہو کر ادھر ادھر بھاگنے لگا۔ فرعون اور اس کے تمام جادوگر کرتب دکھا کر اپنی کامیابی کے نشے میں گم ہو گئے اور تالیاں بجا بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کرنے لگے کہ اتنے میں اچانک حضرت موسیٰ علیہ السلام نےاللہ پاک کے حکم سے اپنی مقدس لاٹھی کو ان سانپوں کے ہجوم میں ڈال دیا جو بہت بڑا اور نہایت خوفناک اژدہا بن کر جادوگروں کے تمام سانپوں کو نگل گیا۔یہ معجزہ دیکھ کر تمام جادوگر اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے سجدے میں گر پڑے اور بآوازِ بلند یہ اعلان کرنا شروع کر دیا:اٰمَنَّا بِرَبِّ هٰرُوْنَ وَ مُوْسٰى(۷۰)(پ16، طٰہٰ:70) ترجمہ کنز العرفان:ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لائے۔

(2)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:ارشادِ باری ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو،بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

(3)آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے مستجابُ الدعوات تھے: ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69) ترجمہ:اورموسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(4تا6) آپ علیہ السلام بغیر کسی واسطے کےاللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتےہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پرفائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا:قرآنِ پاک میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲) وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ16،مریم:52،53) ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا۔اور ہم نے اسے اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سےبلا واسطہ کلام فرمایا:ارشادِ باری ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)(پ6،النسآء:164)ترجمہ:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

درس:اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرتِ مبارکہ کو پڑھنے،اس پر عمل کرنےاور ان کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ا ٰمین بجاہِ خاتمِ النبیینﷺ


انبیائے کرام علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں ہیں اور انسانوں میں ہیرے موتی کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں۔جنہیں اللہ پاک نے وحی کے نور سے روشنی بخشی۔حکمتوں کے سرچشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائےاور سیرت و کردار کی وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ان کی سیرت کا مطالعہ آنکھوں کو روشنی، روح کو قوت،دلوں کو ہمت،عقل کو نور،سوچ کو وُسعت، کردار کو حُسن،زندگی کو معنویت،بندوں کو نیاز اور قوموں کو عروج بخشتا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تعارف:آپ علیہ السلام کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں اور نسب نامہ یہ ہے:موسیٰ بن عمران بن قاہث بن عازر بن لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم۔

حلیہ مبارک:احادیثِ مبارکہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مبارک حلیہ بھی بیان کیا گیا ہے۔نبیِ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت ابراہیم علیہ السلام(کا حلیہ جاننے کے لیے)اپنے صاحب(محمد مصطفےٰﷺ ) کی طرف دیکھ لو اور رہے حضرت موسیٰ علیہ السلام تو ان کا جسم دُبلا، پتلا اور رنگ گندمی تھا۔وہ سرخ اونٹ پر سوار تھے جس کی ناک میں کھجور کی چھال کی مُہار تھی۔گویا میں ان کی طرف دیکھ رہا ہوں۔وہ اللہُ اکبر کہتے ہوئے وادی میں اتر رہے ہیں۔(بخاری، 2/421، حدیث:3355)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اوصاف:

(1)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پا ک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت والے اور مستجابُ الدعوات تھے:ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ (پ22، الاحزاب:69)ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(2،3) آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ علیہ السلام کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔قرآنِ کریم میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ16،مریم:52،53) ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا۔اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

(4) اللہ پا ک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرقان عطا فرمایا: ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳) (پ1،البقرۃ:53) ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

فرقان کے کئی معانی کیے گئے ہیں:(1)فرقان سے مراد بھی تورات ہی ہے۔(2)کفر و ایمان میں فرق کرنے والے معجزات جیسے عصا اور یدِ بیضاء وغیرہ۔(3)حلال و حرام میں فرق کرنے والی شریعت مراد ہے۔(تفسیر نسفی، ص52)

(5،6) حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پا ک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں:ارشادِ باری ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا،اور نبی رسول تھا۔

(7)اللہ پا ک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر دس صحیفے نازل فرمائے،پھر آپ کو اور آپ کے واسطے سے حضرت ہارون علیہ السلام کو کتابِ الٰہی تورات عطا فرمائی۔اسی کے متعلق ارشادِ باری ہے:وَ اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَۚ(۱۱۷)(پ23، الصّٰفّٰت:117)ترجمہ:اور ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب عطا فرمائی ہے۔یہاں ایک بات قابلِ توجہ ہے کہ فی زمانہ تورات اس حالت میں موجود نہیں جس حالت میں وہ نازل ہوئی تھی کیونکہ اس میں یہودیوں نے بہت تحریفات کر دی ہیں۔جیسا کہ قرآنِ پاک کی بہت سی جگہوں پر یہودیوں کی تحریفات کا بیان موجود ہے۔

(8)اللہ پا ک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳) (پ6،النسآء:153)ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔اس کی ایک مثال یہ ہےکہ جب آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو توبہ کے لیے خود ان کے اپنے قتل کا حکم دیا تو وہ انکار نہ کر سکے تو انہوں نے آپ علیہ السلام کی اطاعت کی۔

(9)اللہ پا ک نے آپ کونبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی نو روشن نشانیاں عطا فرمائیں:فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت15، بنی اسرائیل:101)ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

(10)آپ علیہ السلام کو لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں،ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب عطا فرمائی گئی۔فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳)(پ20،القصص:43) ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اس کے بعد کہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرما دیا تھا (موسیٰ کو وہ کتاب دی) جس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں، ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ ہدایت اور نصیحت حاصل کریں۔


قرآنِ کریم میں موسیٰ علیہ السلام کی صفات:حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر اور اولواالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔اللہ پاک سے بلاواسطہ ہم کلام ہونے کی سعادت پانے کے سبب کلیمُ اللہ کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔قرآنِ پاک میں موسیٰ علیہ السلام کے واقعات کا اجمالی بیان متعدد سورتوں میں ہے جبکہ تفصیلی بیان بیس سورتوں میں ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چند اوصاف ملاحظہ کیجیے:

(1،2) حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پا ک کے چُنے ہوئے،برگزیدہ بندے اورنبی رسول تھے:ارشادِ باری ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16، مریم:51) ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا،اور نبی رسول تھا۔

(3)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے۔چنانچہ اللہ پاک سورۃُ الاحزاب کی آیت نمبر 69 میں ارشاد فرماتا ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ (پ22، الاحزاب:69)ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(4،5،6) آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ علیہ السلام کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔قرآنِ پاک میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16، مریم:53، 52)ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔ اس کے علاوہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کواللہ پا ک نے بہت سےاوصاف سے نوازا ہے۔اس سے اللہ پاک کے پیارے بندوں کی عظمت کا پتہ لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے خزانوں سے نہ مل سکے۔تو اگر ان کی دعا سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں مل جائیں تو کیا مشکل ہے!البتہ نبوت کا باب چونکہ بند ہو چکا،اس لیے اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی سچی عقیدت اور محبت عطا فرمائے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰ مین بجاہ النبی الامین ﷺ

حضرت موسیٰ علیہ السلام ایسے جلیلُ القدر پیغمبر ہیں جنہیں اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ علیہ السلام کی صفات قرآنِ کریم میں مذکور ہیں۔کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ آپ کے القابات ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے،برگزیدہ بندے، نبی اور رسول تھے:ارشادِ باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا،اور نبی رسول تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پا ک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے:ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ (پ22، الاحزاب:69) ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ علیہ السلام کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔قرآنِ کریم میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:52،53)ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔اس سے اللہ پاک کے پیارے بندوں کی عظمت کا پتہ لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے خزانے سے نہ مل سکے۔تو اگر ان کی دعا سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں مل جائیں تو کیا مشکل ہے!

آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والےبندے تھے: فرمانِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والےبندوں میں سے ہیں۔(پ23، الصّٰفّٰت:122 )

اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایا:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)(پ6،النسآء: 164) ترجمہ:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

آپ علیہ السلام کونبو ت و رسالت پر دلالت کرنے والی نو روشن نشانیاں عطا فرمائیں:فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت(پ15،بنی اسرائیل:101)ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:فرمانِ باری ہے:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳)(پ6، النسآء:153) ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات مذکور ہیں۔اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے خوب نیکی کے کام کرنے، اخلاص و جذبے کے ساتھ دین کے کام کی دھومیں مچانے کی توفیق نصیب فرمائے۔اٰمین


اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لیے یوں تو بے شمار پیغمبروں اور رسولوں کو دنیا میں بھیجا اور سارے ہی راہِ حق میں تکالیف کے باوجود صبر و ہمت کا مظاہرہ کرنے والے تھے۔لیکن اس مقدس جماعت میں سے 5 رسول ایسے ہیں جن کا راہِ حق میں صبر دیگر نبیوں اور رسولوں علیہم السلام سے زیادہ ہے۔اس لیے انہیں بطور خاص اولواالعزم رسول کہا جاتا ہے۔وہ یہ ہیں:(1)حضور اقدسﷺ(2)حضرت ابراہیم(3)حضرت موسیٰ(4)حضرت عیسیٰ(5)حضرت نوح علیہم السلام۔ان میں سے ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق پڑھیں گی:

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران ہے۔آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وصال کے چار سو سال بعد پیدا ہوئے اور ایک سو بیس سال عمر پائی۔قرآنِ پاک میں آپ علیہ السلام کا نام مبارک 136 بار ذکر کیا گیاہے۔آپ کو اللہ پاک کی طرف سے تورات عطا کی گئی۔ آپ علیہ السلام کو اللہ پاک سے کئی مرتبہ کلام کرنے کا شرف حاصل ہوا،اس لیے آپ کو کلیمُ اللہ کہا جاتا ہے۔اللہ پاک نے آپ کو طور پہاڑ پر بلا کر طور پہاڑ کی طرف رخ کروا یا اور وہاں تجلی فرمائی۔آپ علیہ السلام کو اللہ پاک نے بہت زیادہ طاقت و قوت عطا فرمائی تھی۔آپ بہت سادہ طبیعت کے مالک تھے۔معراج کی رات نبیِ کریمﷺ نے آپ کو اپنی قبر میں نماز کی حالت میں ملاحظہ فرمایا۔آپ علیہ السلام کو معراج کی رات نبیِ پاکﷺ کی امامت میں نماز ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔امّتِ محمّدیہ پر آپ کا بہت بڑا احسان یہ ہے کہ معراج کی رات آپ کی بدولت 50 نمازیں کم ہو کر 5 رہ گئیں۔آپ علیہ السلام نے اپنا عصا پتھر پر مارا جس سے بارہ چشمے بہہ نکلے۔آپ ہی کی بدولت بنی اسرائیل پر منّ و سلویٰ اتارا گیا۔آپ انتہائی حسین و جمیل تھے۔آپ کو اللہ پاک نے بے عیب پیدا فرمایااور آپ کے بے عیب ہونے کی گواہی ایک پتھر سے دلوائی۔ چنانچہ

دوڑنے والا پتھر: کتاب عجائب القرآن مع غرائب القرآن میں لکھا ہے کہ یہ ایک ہاتھ لمبا اور ایک ہاتھ چوڑا پتھر تھا جو ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جھولے میں رہتا تھا۔اس مبارک پتھر کے ذریعے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو معجزات کا ظہورہوا۔جن کاتذکرہ قرآنِ مجید میں بھی ہوا ہے۔

پہلا معجزہ:اس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ اس کی لمبی دانشمندانہ دوڑ ہے اور یہی معجزہ اس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔اللہ پاک نے اس واقعہ کا ذکر قرآنِ پاک کی سورۃُ الاحزاب میں اس طرح فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22، الاحزاب:69)ترجمہ کنز الایمان:اے ایمان والو!ان جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے اسے بری فرما دیا اس بات سے جو انہوں نے کہی اور موسیٰ اللہ کے یہاں آبرو والا ہے۔

دوسرامعجزہ:میدانِ تیہ میں اس پتھر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نےاپنا عصا مار دیا تو اس میں سے 12 چشمے جاری ہو گئے تھے جس کے پانی کو 40 برس تک بنی اسرائیل میدانِ تیہ میں استعمال کرتے رہے۔پارہ 1 سورۃُ البقرۃ کی آیت نمبر 60 میں اسی پتھر کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے:فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-ترجمہ کنز الایمان:ہم نے فرمایا کہ پتھر پر اپنا عصا مارو۔

روشن ہاتھ:حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ پاک نے فرعون کے دربار میں بھیجا تو دو معجزات عطا فرما کر بھیجا:(1)عصا(2)یدِ بیضاء (روشن ہاتھ)۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالتے تو ایک دم آپ کا ہاتھ روشن ہو کر چمکنے لگتا تھا۔پھر جب آپ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال دیتے تو وہ اپنی اصلی حالت پر آ جایا کرتا۔اس معجزے کو قرآنِ کریم نے مختلف سورتوں میں بار بار ذکر فرمایا۔چنانچہ سورۂ طٰہٰ میں ارشاد فرمایا:وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً اُخْرٰىۙ(۲۲) لِنُرِیَكَ مِنْ اٰیٰتِنَا الْكُبْرٰىۚ(۲۳)(پ16،طٰہٰ:23،22) ترجمہ کنز الایمان:اور اپنا ہاتھ اپنے بازو سے ملاؤ خوب سپید نکلے گا بے کسی مرض کے ایک اور نشانی کہ ہم تجھے اپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں۔

مَنّ و سلویٰ: جب حضرت موسیٰ علیہ السلام چھ لاکھ بنی اسرائیل کے افراد کے ساتھ میدانِ تیہ میں مقیم تھے تو اللہ پاک نے ان لوگوں کے لیے کھانے میں آسمان سے دو کھانے اتارے:ایک کانام مَنّ اور دوسرے کا نام سلویٰ۔مَنّ بالکل سفید شہد کی طرح حلوہ تھا یا سفید رنگ کا شہد ہی تھا جو آسمان سے اترتا تھا اور سلویٰ پکی ہوئی بٹیریں تھیں جو دکَّھنی ہوا کے ساتھ آسمان سے نازل ہوا کرتی تھیں۔قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے بنی اسرائیلیوں پر اپنی نعمتوں کا شمار کرتے ہوئے فرمایا:وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰىؕ- (پ1، البقرۃ:57 ) ترجمہ کنز الایمان:اور تم پر مَنّ اور سلویٰ اتارا۔

جنتی لاٹھی:حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مقدس لاٹھی جس کو عصائے موسیٰ کہتے ہیں،یہ لاٹھی حضرت شعیب علیہ السلام نے آپ کو عطا فرمائی تھی۔اس لاٹھی کے تین معجزوں میں سے ایک پیش خدمت ہے:

(1) عصا اژدہا بن گیا:فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شکست دینے کے لیے ایک میلہ لگوایا۔اس میلے میں لاکھوں انسانوں میں جادوگروں کا ہجوم بھی اپنی جادوگری کا سامان لے کر جمع ہو گیا۔ان جادوگروں کے مقابلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام ڈر گئے۔جادوگروں نے فرعون کی عزت کی قسم کھا کر اپنے جادو کی لاٹھیوں اور رسیوں کو پھینکا تو ایک دم وہ رسیاں اور لاٹھیاں سانپ بن کر دوڑنے لگیں۔لوگ خوف و ہراس میں بھاگنے لگےاور فرعون و جادوگر غرور کے نشے میں مست ہو کر خوش ہونے لگے۔اتنے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک کے حکم سے اپنی مقدس لاٹھی کو رسیوں کے ہجوم میں ڈال دیا تو یہ لاٹھی ایک بہت بڑا اژدہا بن کر تمام سانپوں کو نگل گیا۔یہ معجزہ دیکھ کر تمام جادوگر اپنی شکست تسلیم کر کے سجدے میں گر پڑے اور بآوازِ بلند یہ اعلان کرنا شروع کردیا کہ ہم سب حضرت ہارون اورحضرت موسیٰ علیہما السلام کے رب پر ایمان لائے۔اسی طرح عصا کی مار سے دریا پھٹنے کا معجزہ بھی ہوا اور 12 چشمے بھی جاری ہوئے۔جن لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دین میں ساتھ دیا اور جس جس نے ان کی شان میں بے ادبی کی وہ اپنے اپنے انجام کو پہنچے۔اللہ پاک ہمیں اپنے پیاروں کا دل و جان سے ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائےاور سدا بے ادبی سے بچائے۔اٰ مین


حضرت موسیٰ کا نام و لقب:آپ علیہ السلام کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔حضرت موسیٰ بن عمران صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔

حلیہ مبارکہ کے بارے میں حدیثِ مبارکہ:حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:شبِ معراج میری حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔وہ قبیلہ ازد شنوہ کے لوگوں کی طرح تھے۔دبلا پتلا جسم اور بالوں میں کنگھی کی ہوئی تھی۔پھر فرمایا:میری حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ان کا قد متوسط،رنگ سرخ تھا اور وہ ایسے ترو تازہ تھے گویا ابھی حمام سے نکلے ہوں۔میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا اور میں ان کی اولاد میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ ہوں۔(سیرت الانبیاء)

حضرت موسیٰ کے عمل کی ترغیب:حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ پاک کی نعمتیں یاد دلانے کے بعد ان کو اپنے دشمنوں پر جہاد کے لیے حکم دیا اور فرمایا:یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَة(پ6، المائدۃ:21) ترجمہ کنزالعرفان:(موسیٰ نے فرمایا:) اے میری قوم !اس پاک سرزمین میں داخل ہو جاؤ۔

تفسیر:اس زمین کو مقدس اس لیے کہا گیا کہ وہ انبیائے کرام کی مسکن تھی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کےدس اوصاف:

(1)وَ اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًاؕ-قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْؕ-كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۶۰) (پ1، البقرۃ:60)ترجمہ کنز العرفان:جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا تو ہم نے فرمایا کہ پتھر پر اپنا عصا مارو تو فوراً اس سے بارہ چشمے بہہ نکلے اور ہر گروہ نے اپنے پانی پینے کی جگہ پہچان لی۔اللہ کا رزق کھاؤ اور پیو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ پتھر سے چشمہ جاری کرنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عظیم معجزہ ہے۔

(2)اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایا:ارشادِ باری ہے:كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) (پ6، النساء: 164) اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔(سیرت الانبیاء)

(3)نبیِ کریمﷺنے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ بہت حیا والے اور اپنا بدن چھپانے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔( سیرت الانبیاء، ص528)

(4)وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳)(پ6،النسآء:153) ترجمہ:حضرت موسیٰ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا گیا۔

(5) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرشِ الٰہی کو صاف دیکھا یہاں تک کہ الواح پر قلموں کی آواز سنی اور اللہ پاک نے آپ سے کلام فرمایا۔(سیرت الانبیاء)

(6)حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی نوروشن نشانیاں عطا کیں:جیسا کہ ارشادِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت15، بنی اسرائیل:101) ترجمہ:بے شک ہم نے موسیٰ کونوروشن نشانیاں دیں۔(سیرت الانبیاء)

(7) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک متواتر انبیائے کرام علیہم السلام آتے رہے۔ ان کی تعداد چار ہزار بیان کی گئی ہے۔یہ سب حضرات حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے محافظ تھے اور اس کے احکام جاری کرنے والے تھے۔(سیرت الانبیاء)

(8)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کے لیے حاضر ہوئے تو آپ نے طہارت کی،پاکیزہ لباس پہنااور روزہ رکھ کر طورِ سینا میں حاضر ہوئے۔(سیرت الانبیاء، ص606)

(9)حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک سے دعا کی تو ارشاد باری ہوا:قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَكَ یٰمُوْسٰى(۳۶) (پ16،طٰہٰ:36)اے موسیٰ تیرا سوال تجھے عطا کر دیا گیا۔(سیرت الانبیاء)

(10)حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرقان عطا کیا گیا:ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳) (پ1،البقرۃ:53)ترجمہ:یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔(سیرت الانبیاء)

فرقان کے کئی معانی ہیں۔فرقان سے مراد بھی تورات ہی ہے۔کفر و ایمان میں فرق کرنے والے معجزات۔ حلال و حرام میں فرق کرنے والی شریعت مراد ہے۔(سیرت الانبیاء)

اللہ پاک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے صدقے ہماری،ہمارے والدین اور پیر و مرشد کی بے حساب مغفرت فرمائے۔اٰ مین