حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مختصر تعارف:حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران ہے۔آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سات سو سال بعد پیدا ہوئے اور آپ نے ایک سو بیس سال عمر پائی۔(البدایۃ و النھایۃ، 1/32)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات:

(1)قرآنِ کریم کے کئی پاروں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا انتہائی شان و شوکت سے ذکر آیا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ کنز الایمان:اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے موسیٰ کا اس شے سے بری ہونا دکھا دیا جو انہوں نے کہا تھا اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(2) آپ کا نام مبارک قرآنِ کریم میں 136 بار ذکر کیا گیا ہے۔

(3) آپ کو اللہ پاک کی طرف سے ایک آسمانی کتاب توریت عطا کی گئی۔

(4) آپ نے اللہ پاک سے کئی مرتبہ کلام کرنے کا شرف پایا، اسی لیے آپ کو کلیمُ اللہ کہا جاتا ہے۔

(5) ربِّ کریم نے آپ کو طور پہاڑ پر بلا کر پہاڑ کی طرف رخ کروایا اور وہاں تجلی فرمائی۔

(6) آپ نےحضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات بھی فرمائی۔

(7) آپ بہت سادہ طبیعت کے مالک تھے۔

(8) آپ نے معراج کی رات حضورﷺ کی امامت میں نماز پڑھنے کی سعادت پائی۔

(9)اُمّتِ محمدیہ پر آپ کا بہت بڑا احسان یہ ہے کہ معراج کی رات آپ نے نمازوں کو پچاس سے پانچ کروا دیا۔ (حضرت موسیٰ کی شان و عظمت)

(10) آپ انتہائی حسین و جمیل تھے۔

(11)اللہ پاک نے آپ کو بے عیب پیدا فرمایا اور آپ کے بے عیب ہونے کی گواہی ایک پتھر سے دلوائی۔ چنانچہ کتاب عجائب القرآن مع غرائب القرآن میں لکھا ہے:ایک ہاتھ لمبا ایک ہاتھ چوڑا چوکور پتھر تھا جو ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جھولے میں رہتا تھا۔اس مبارک پتھر کے ذریعے حضرت موسیٰ علیہ السلام کےدو معجزات کا ظہور ہوا جن کا تذکرہ قرآنِ کریم میں بھی ہوا ہے۔اس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ جو درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا وہ اس پتھر کی دانشمندانہ لمبی دوڑ ہے اور یہی معجزہ اس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔اللہ پاک نے اس واقعہ کا ذکر قرآنِ مجید میں اس طرح بیان فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22، الاحزاب:69)ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے موسیٰ کا اس شے سے بری ہونا دکھا دیا جو انہوں نے کہا تھا اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

دوسرا معجزہ:میدانِ تیہ میں اس پتھر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا مارا تو اس میں سے بارہ چشمے جاری ہو گئے تھے جس کے پانی کو چالیس سال تک بنی اسرائیل میدانِ تیہ میں استعمال کرتے رہے۔پارہ 1 سورۃُ البقرۃ کی آیت نمبر 60 میں ارشاد ہوتا ہے:فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-ترجمہ کنز العرفان:ہم نے فرمایا کہ پتھر پر اپنا عصا مارو۔(اس آیت کریمہ)میں پتھر سے یہی پتھر مراد ہے۔

روشن ہاتھ:حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنےگریبان میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالتے تھے تو ایک دم آپ کا ہاتھ روشن ہو کر چمکنے لگتا تھا۔پھر آپ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال دیتے تو وہ اپنی اصلی حالت پر ہو جایا کرتا۔اس معجزے کو قرآنِ عظیم نے مختلف سورتوں میں بار بار ذکر فرمایا ہے۔چنانچہ پارہ 16 سورۂ طٰہٰ کی آیت نمبر 22 میں ارشاد فرمایا:وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً اُخْرٰىۙ(۲۲) ترجمہ کنز العرفان:اور اپنے ہاتھ کو اپنے بازو سے ملاؤ، بغیر کسی مرض کے خوب سفید ہو کر ایک اور معجزہ بن کر نکلے گا۔

تفسیر:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے رات میں چاند اور دن میں سورج کی روشنی کی طرح نور ظاہر ہوتا تھا۔(تفسیرِ مدارک)( تفسیرِ خازن)