قرآنِ
کریم میں موسیٰ علیہ السلام کی صفات:حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے
انتہائی برگزیدہ پیغمبر اور اولواالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔اللہ پاک سے
بلاواسطہ ہم کلام ہونے کی سعادت پانے کے سبب کلیمُ اللہ کے لقب سے یاد کیے جاتے
ہیں۔قرآنِ پاک میں موسیٰ علیہ السلام کے واقعات کا اجمالی بیان متعدد سورتوں میں
ہے جبکہ تفصیلی بیان بیس سورتوں میں ہے۔
حضرت
موسیٰ علیہ السلام کے چند اوصاف ملاحظہ کیجیے:
(1،2) حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پا ک کے چُنے ہوئے،برگزیدہ
بندے اورنبی رسول تھے:ارشادِ باری ہے: وَ اذْكُرْ فِی
الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16، مریم:51) ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو
یاد کرو، بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا،اور نبی رسول تھا۔
(3)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں
بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے۔چنانچہ اللہ پاک سورۃُ
الاحزاب کی آیت نمبر 69 میں ارشاد فرماتا ہے:وَ
كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ (پ22،
الاحزاب:69)ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔
(4،5،6) آپ علیہ
السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ
الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ علیہ السلام کی دعا سے اللہ پاک نے آپ
کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔قرآنِ پاک میں
ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ
الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16، مریم:53، 52)ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں
جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔ اس کے علاوہ
حضرت موسیٰ علیہ السلام کواللہ پا ک نے بہت سےاوصاف سے نوازا ہے۔اس سے اللہ پاک کے
پیارے بندوں کی عظمت کا پتہ لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے
خزانوں سے نہ مل سکے۔تو اگر ان کی دعا سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں مل جائیں
تو کیا مشکل ہے!البتہ نبوت کا باب چونکہ بند ہو چکا،اس لیے اب کسی کو نبوت نہیں مل
سکتی۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی سچی عقیدت اور محبت عطا فرمائے اور
ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰ مین بجاہ النبی الامین ﷺ