حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران ہے اور آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت امام علاؤ الدین علی بن محمد خازن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا سے ان (یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام) کا نام رکھنے کے لیے کہا گیا تو آپ نے فرمایا:میں نے اس بچے کا نام موسیٰ رکھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نامِ مبارک قرآنِ کریم میں 136بار ذکر کیا گیاہے۔آپ کو اللہ پاک کی طرف سے ایک آسمانی کتاب تورات عطا کی گئی۔آپ نے اللہ پاک سے کئی مرتبہ کلام کا شرف پایا،اسی لیے آپ کو کلیمُ اللہ کہا جاتا ہے۔

صفاتِ موسیٰ قرآن و تفسیر کی روشنی میں:

دوڑنے والا پتھر:کتاب عجائب القرآن مع غرائب القرآن میں لکھا ہے:ایک ہاتھ لمبا ایک ہاتھ چوڑا چوکور پتھر تھا جو ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جھولے میں رہتا تھا۔ اس مبارک پتھر کے ذریعے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو معجزات کا ظہور ہوا جن کا تذکرہ قرآنِ کریم میں بھی ہوا ہے۔

پہلا معجزہ: اس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ جو در حقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا وہ اس پتھر کی دانشمندانہ لمبی دوڑ ہے اور وہی معجزہ اس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔اللہ پاک نے اس واقعہ کا ذکر قرآنِ مجید میں اس طرح فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22، الاحزاب:69)ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو!ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے موسیٰ کا اس شے سے بری ہونا دکھا دیا جو انہوں نے کہا تھا اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

دوسرا معجزہ:میدانِ تیہ میں اسی پتھر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نےاپنا عصا مار دیا تھا تو اس میں سے بارہ چشمے جاری ہو گئے تھے۔جس کے پانی کو چالیس سال تک بنی اسرائیل میدانِ تیہ میں استعمال کرتے رہے۔پارہ1 سورۃُ البقرۃ کی آیت نمبر60 میں ارشاد ہوتا ہے:فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-(پ1،البقرۃ:60) ترجمہ کنز العرفان:ہم نے فرمایا کہ پتھر پر اپنا عصا مارو۔(اس آیتِ کریمہ میں پتھر سے وہی پتھر مراد ہے۔ ( عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص29)

روشن ہا تھ:حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالتے تھے تو ایک دم آپ کا ہاتھ روشن ہو کر چمکنے لگتا تھا،پھر جب اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال دیتے تو وہ اپنی اصلی حالت پر ہو جایا کرتا تھا۔اس معجزےکو قرآنِ عظیم نے مختلف سورتوں میں بار بار ذکر فرمایا ہے۔چنانچہ پارہ 16 سورۂ طٰہٰ کی آیت نمبر 22 میں ارشاد فرمایا:وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً اُخْرٰىۙ(۲۲) (پ16،طٰہٰ:22)ترجمہ کنز العرفان:اور اپنے ہاتھ کو اپنے بازو سے ملاؤ، بغیر کسی مرض کے خوب سفید ہو کر اور ایک معجزہ بن کر نکلے گا۔

(1)عصا اژدہا بن گیا:فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شکست دینے کے لیے ایک میلہ لگوایا۔اس میلے میں جہاں لاکھوں انسانوں کا مجمع تھا،وہیں جادوگروں کا ہجوم بھی اپنی جادوگری کا سامان لے کر جمع ہو گیا۔ جادوگروں نے فرعون کی عزت کی قسم کھا کر اپنے جادو کی لاٹھیوں اور رسیوں کو پھینکا تو ایک دم وہ سانپ بن کر پورے میدان میں ہر طرف دوڑنے لگیں اور مجمع خوف و ہراس میں بد حواس ہو کر ادھر ادھر بھاگنے لگا۔ فرعون اور اس کے تمام جادوگر کرتب دکھا کر اپنی کامیابی کے نشے میں گم ہو گئے اور تالیاں بجا بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کرنے لگے کہ اتنے میں اچانک حضرت موسیٰ علیہ السلام نےاللہ پاک کے حکم سے اپنی مقدس لاٹھی کو ان سانپوں کے ہجوم میں ڈال دیا جو بہت بڑا اور نہایت خوفناک اژدہا بن کر جادوگروں کے تمام سانپوں کو نگل گیا۔یہ معجزہ دیکھ کر تمام جادوگر اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے سجدے میں گر پڑے اور بآوازِ بلند یہ اعلان کرنا شروع کر دیا:اٰمَنَّا بِرَبِّ هٰرُوْنَ وَ مُوْسٰى(۷۰)(پ16، طٰہٰ:70) ترجمہ کنز العرفان:ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لائے۔

(2)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:ارشادِ باری ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو،بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

(3)آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے مستجابُ الدعوات تھے: ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69) ترجمہ:اورموسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(4تا6) آپ علیہ السلام بغیر کسی واسطے کےاللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتےہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پرفائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا:قرآنِ پاک میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲) وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ16،مریم:52،53) ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا۔اور ہم نے اسے اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سےبلا واسطہ کلام فرمایا:ارشادِ باری ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)(پ6،النسآء:164)ترجمہ:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

درس:اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرتِ مبارکہ کو پڑھنے،اس پر عمل کرنےاور ان کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ا ٰمین بجاہِ خاتمِ النبیینﷺ