حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ
اللہ ہے۔نبیِ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام صفیُّ اللہ
یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل
میں سے ہیں۔موسیٰ بن عمران بن قاہث بن عازر بن لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم۔اللہ
پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر دس صحیفے نازل فرمائے۔پھر آپ کو اور آپ کے واسطے
سے حضرت ہارون علیہ السلام
کو کتابِ الٰہی تورات عطا ہوئی۔اس کتاب سے متعلق ارشادِ باری ہے:وَ اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَۚ(۱۱۷)(پ23،الصّٰفّٰت:117)
ترجمہ: اور ہم نےان دونوں کو روشن کتاب عطا فرمائی۔
(1،2)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئےبرگزیدہ بندے
اور نبی رسول تھے:ارشادِ باری ہے: وَ اذْكُرْ فِی
الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب
میں موسیٰ کو یاد کرو بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا۔اور وہ نبی رسول تھا۔
(3)آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی
وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے: ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22،الاحزاب:69) ترجمہ:اورموسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت
والا ہے۔
(4تا6) آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے
ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے تھے اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں
کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی
عظیم نعمت سے نوازا:قرآنِ پاک میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ
جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ
مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)
(پ16،مریم:52،53) ترجمہ:اور ہم نے
اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب
بنایا۔اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔
اس سے اللہ پاک کے پیارے بندوں کی عظمت کا پتہ لگا کہ ان کی
دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے خزانوں سے نہ مل سکے۔تو اگر ان کی دعا سے
اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں مل جائیں تو کیا مشکل ہے!البتہ نبوت کا باب چونکہ
بند ہو چکا، اس لیے اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔
آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ
درجہ کے کامل ایمان والے بندے تھے۔فرمانِ باری ہے:اِنَّهُمَا
مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22، الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ
کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔
(7)آپ علیہ السلام کو
لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں، ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب عطا
فرمائی: وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ
مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ
رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳)(پ20،القصص:43)ترجمہ:اس
کے بعد کہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرما دیا تھا۔( موسیٰ کو وہ کتاب دی)جس میں
لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت
حاصل کریں۔
(8)اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلاواسطہ کلام فرمایا:ارشادِ
باری ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) (پ6، النسآء:164) ترجمہ:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً
کلام فرمایا۔
(9) اللہ پاک نے حضرت ہارون علیہ السلام کی صورت
میں آپ کو وزیر اور مددگار عطا فرمایا:چنانچہ ارشادِ باری
ہے: وَ
وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:53)ترجمہ:اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون
بھی دیا جو نبی تھا اور ارشاد فرمایا:وَ
لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنَا مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ
وَزِیْرًاۚۖ(۳۵) (پ19،
الفرقان:35)ترجمہ:اور
بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو وزیر
بنایا۔
(10)آپ کو فرقان عطا کیا گیا:ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ
تَهْتَدُوْنَ(۵۳)(پ1،البقرۃ:53)ترجمہ:اوریاد
کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق اور باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا
جاؤ۔