اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لیے یوں تو بے شمار پیغمبروں
اور رسولوں کو دنیا میں بھیجا اور سارے ہی راہِ حق میں تکالیف کے باوجود صبر و ہمت
کا مظاہرہ کرنے والے تھے۔لیکن اس مقدس جماعت میں سے 5 رسول ایسے ہیں جن کا راہِ حق
میں صبر دیگر نبیوں اور رسولوں علیہم السلام سے زیادہ ہے۔اس لیے انہیں بطور خاص
اولواالعزم رسول کہا جاتا ہے۔وہ یہ ہیں:(1)حضور اقدسﷺ(2)حضرت ابراہیم(3)حضرت
موسیٰ(4)حضرت عیسیٰ(5)حضرت نوح علیہم السلام۔ان میں سے ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے
متعلق پڑھیں گی:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران ہے۔آپ حضرت
ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وصال کے چار سو سال بعد پیدا
ہوئے اور ایک سو بیس سال عمر پائی۔قرآنِ پاک میں آپ علیہ السلام کا نام مبارک 136
بار ذکر کیا گیاہے۔آپ کو اللہ پاک کی طرف سے تورات عطا کی گئی۔ آپ علیہ السلام کو
اللہ پاک سے کئی مرتبہ کلام کرنے کا شرف حاصل ہوا،اس لیے آپ کو کلیمُ اللہ کہا
جاتا ہے۔اللہ پاک نے آپ کو طور پہاڑ پر بلا کر طور پہاڑ کی طرف رخ کروا یا اور
وہاں تجلی فرمائی۔آپ علیہ السلام کو اللہ پاک نے بہت زیادہ طاقت و قوت عطا فرمائی
تھی۔آپ بہت سادہ طبیعت کے مالک تھے۔معراج کی رات نبیِ کریمﷺ نے آپ کو اپنی قبر میں
نماز کی حالت میں ملاحظہ فرمایا۔آپ علیہ السلام کو معراج کی رات نبیِ پاکﷺ کی
امامت میں نماز ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔امّتِ محمّدیہ پر آپ کا بہت بڑا احسان
یہ ہے کہ معراج کی رات آپ کی بدولت 50 نمازیں کم ہو کر 5 رہ گئیں۔آپ علیہ السلام
نے اپنا عصا پتھر پر مارا جس سے بارہ چشمے بہہ نکلے۔آپ ہی کی بدولت بنی اسرائیل پر
منّ و سلویٰ اتارا گیا۔آپ انتہائی حسین و جمیل تھے۔آپ کو اللہ پاک نے بے عیب پیدا
فرمایااور آپ کے بے عیب ہونے کی گواہی ایک پتھر سے دلوائی۔ چنانچہ
دوڑنے
والا پتھر: کتاب عجائب القرآن مع غرائب القرآن میں لکھا
ہے کہ یہ ایک ہاتھ لمبا اور ایک ہاتھ چوڑا پتھر تھا جو ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ
السلام کے جھولے میں رہتا تھا۔اس مبارک پتھر کے ذریعے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے
دو معجزات کا ظہورہوا۔جن کاتذکرہ قرآنِ مجید میں بھی ہوا ہے۔
پہلا
معجزہ:اس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ اس کی لمبی دانشمندانہ
دوڑ ہے اور یہی معجزہ اس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔اللہ پاک نے اس واقعہ کا ذکر قرآنِ
پاک کی سورۃُ الاحزاب میں اس طرح فرمایا:یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ
اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22، الاحزاب:69)ترجمہ کنز
الایمان:اے ایمان والو!ان جیسے نہ
ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے اسے بری فرما دیا اس بات سے جو انہوں نے
کہی اور موسیٰ اللہ کے یہاں آبرو والا ہے۔
دوسرامعجزہ:میدانِ تیہ میں اس پتھر پر حضرت موسیٰ علیہ
السلام نےاپنا عصا مار دیا تو اس میں سے 12 چشمے جاری ہو گئے تھے جس کے پانی کو 40
برس تک بنی اسرائیل میدانِ تیہ میں استعمال کرتے رہے۔پارہ 1 سورۃُ البقرۃ کی آیت
نمبر 60 میں اسی پتھر کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے:فَقُلْنَا
اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-ترجمہ کنز الایمان:ہم نے فرمایا کہ پتھر پر اپنا عصا مارو۔
روشن
ہاتھ:حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ پاک نے
فرعون کے دربار میں بھیجا تو دو معجزات عطا فرما کر بھیجا:(1)عصا(2)یدِ بیضاء
(روشن ہاتھ)۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالتے تو
ایک دم آپ کا ہاتھ روشن ہو کر چمکنے لگتا تھا۔پھر جب آپ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال
دیتے تو وہ اپنی اصلی حالت پر آ جایا کرتا۔اس معجزے کو قرآنِ کریم نے مختلف سورتوں
میں بار بار ذکر فرمایا۔چنانچہ سورۂ طٰہٰ میں ارشاد فرمایا:وَ
اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً
اُخْرٰىۙ(۲۲) لِنُرِیَكَ مِنْ اٰیٰتِنَا
الْكُبْرٰىۚ(۲۳)(پ16،طٰہٰ:23،22) ترجمہ کنز الایمان:اور اپنا ہاتھ اپنے بازو سے ملاؤ خوب
سپید نکلے گا بے کسی مرض کے ایک اور نشانی کہ ہم تجھے اپنی بڑی بڑی نشانیاں
دکھائیں۔
مَنّ و سلویٰ: جب حضرت موسیٰ علیہ السلام چھ لاکھ بنی اسرائیل کے افراد کے
ساتھ میدانِ تیہ میں مقیم تھے تو اللہ پاک نے ان لوگوں کے لیے کھانے میں آسمان سے
دو کھانے اتارے:ایک کانام مَنّ اور دوسرے کا نام سلویٰ۔مَنّ بالکل سفید شہد کی طرح
حلوہ تھا یا سفید رنگ کا شہد ہی تھا جو آسمان سے اترتا تھا اور سلویٰ پکی ہوئی
بٹیریں تھیں جو دکَّھنی ہوا کے ساتھ آسمان سے نازل ہوا کرتی تھیں۔قرآنِ کریم میں
اللہ پاک نے بنی اسرائیلیوں پر اپنی نعمتوں کا شمار کرتے ہوئے فرمایا:وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ
الْمَنَّ وَ السَّلْوٰىؕ- (پ1، البقرۃ:57 ) ترجمہ کنز الایمان:اور تم پر مَنّ اور سلویٰ اتارا۔
جنتی
لاٹھی:حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مقدس لاٹھی جس کو عصائے موسیٰ کہتے ہیں،یہ لاٹھی حضرت
شعیب علیہ السلام نے آپ کو عطا فرمائی تھی۔اس لاٹھی کے تین معجزوں میں سے ایک پیش
خدمت ہے:
(1)
عصا اژدہا بن گیا:فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شکست دینے
کے لیے ایک میلہ لگوایا۔اس میلے میں لاکھوں انسانوں میں جادوگروں کا ہجوم بھی اپنی
جادوگری کا سامان لے کر جمع ہو گیا۔ان جادوگروں کے مقابلے میں حضرت موسیٰ علیہ
السلام ڈر گئے۔جادوگروں نے فرعون کی عزت کی قسم کھا کر اپنے جادو کی لاٹھیوں اور رسیوں
کو پھینکا تو ایک دم وہ رسیاں اور لاٹھیاں سانپ بن کر دوڑنے لگیں۔لوگ خوف و ہراس
میں بھاگنے لگےاور فرعون و جادوگر غرور کے نشے میں مست ہو کر خوش ہونے لگے۔اتنے
میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک کے حکم سے اپنی مقدس لاٹھی کو رسیوں کے
ہجوم میں ڈال دیا تو یہ لاٹھی ایک بہت بڑا اژدہا بن کر تمام سانپوں کو نگل گیا۔یہ
معجزہ دیکھ کر تمام جادوگر اپنی شکست تسلیم کر کے سجدے میں گر پڑے اور بآوازِ بلند
یہ اعلان کرنا شروع کردیا کہ ہم سب حضرت ہارون اورحضرت موسیٰ علیہما السلام کے رب
پر ایمان لائے۔اسی طرح عصا کی مار سے دریا پھٹنے کا معجزہ بھی ہوا اور 12 چشمے بھی
جاری ہوئے۔جن لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ
السلام کا دین میں ساتھ دیا اور جس جس نے ان کی شان
میں بے ادبی کی وہ اپنے اپنے انجام کو پہنچے۔اللہ پاک ہمیں اپنے پیاروں کا دل و
جان سے ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائےاور سدا بے ادبی سے بچائے۔اٰ مین