حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر اور اولواالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔اللہ پاک سے بلاواسطہ ہم کلام ہونے کی سعادت پانے کے سبب کلیمُ اللہ کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔آپ علیہ السلام کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔نبیِ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔(سیرت الانبیاء،ص 526)آپ علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات سے چار سو برس اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سات سو برس بعد پیدا ہوئے اور ایک سو بیس برس عمر پائی۔(سیرت الانبیاء، ص528)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دس اوصاف:

(1،2) حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئےبرگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:ارشادِ باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا۔اور وہ نبی رسول تھا۔

(3)آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے: ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22،الاحزاب:69)ترجمہ:اورموسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(4تا6) آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ علیہ السلام کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا:قرآنِ پاک میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ16،مریم:52،53) ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا۔اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔(سیرت الانبیاء، ص530)

(7)آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندے تھے:فرمانِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔(سیرت الانبیاء، ص531)

(8) اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلاواسطہ کلام فرمایا:ارشادِباری ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) (پ6، النسآء:164)ترجمہ:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔(سیرت الانبیاء، ص532)

(9)آپ علیہ السلام کو نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی نو نشانیاں عطا کیں:فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت15،بنی اسرآءیل:101)ترجمہ:اوربے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔(سیرت الانبیاء، ص532)

(10)آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳)(پ6، النسآء: 153)ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔اس کی مثال یہ ہے کہ جب آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو توبہ کے لیے خود ان کو اپنے قتل کا حکم دیا تو وہ انکار نہ کر سکے اور انہوں نے آپ کی اطاعت کی۔