انبیائے کرام علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں ہیں اور انسانوں میں ہیرے موتی کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں۔جنہیں اللہ پاک نے وحی کے نور سے روشنی بخشی۔حکمتوں کے سرچشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائےاور سیرت و کردار کی وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ان کی سیرت کا مطالعہ آنکھوں کو روشنی، روح کو قوت،دلوں کو ہمت،عقل کو نور،سوچ کو وُسعت، کردار کو حُسن،زندگی کو معنویت،بندوں کو نیاز اور قوموں کو عروج بخشتا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تعارف:آپ علیہ السلام کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں اور نسب نامہ یہ ہے:موسیٰ بن عمران بن قاہث بن عازر بن لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم۔

حلیہ مبارک:احادیثِ مبارکہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مبارک حلیہ بھی بیان کیا گیا ہے۔نبیِ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت ابراہیم علیہ السلام(کا حلیہ جاننے کے لیے)اپنے صاحب(محمد مصطفےٰﷺ ) کی طرف دیکھ لو اور رہے حضرت موسیٰ علیہ السلام تو ان کا جسم دُبلا، پتلا اور رنگ گندمی تھا۔وہ سرخ اونٹ پر سوار تھے جس کی ناک میں کھجور کی چھال کی مُہار تھی۔گویا میں ان کی طرف دیکھ رہا ہوں۔وہ اللہُ اکبر کہتے ہوئے وادی میں اتر رہے ہیں۔(بخاری، 2/421، حدیث:3355)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اوصاف:

(1)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پا ک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت والے اور مستجابُ الدعوات تھے:ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ (پ22، الاحزاب:69)ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(2،3) آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ علیہ السلام کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔قرآنِ کریم میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ16،مریم:52،53) ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا۔اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

(4) اللہ پا ک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرقان عطا فرمایا: ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳) (پ1،البقرۃ:53) ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

فرقان کے کئی معانی کیے گئے ہیں:(1)فرقان سے مراد بھی تورات ہی ہے۔(2)کفر و ایمان میں فرق کرنے والے معجزات جیسے عصا اور یدِ بیضاء وغیرہ۔(3)حلال و حرام میں فرق کرنے والی شریعت مراد ہے۔(تفسیر نسفی، ص52)

(5،6) حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پا ک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں:ارشادِ باری ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا،اور نبی رسول تھا۔

(7)اللہ پا ک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر دس صحیفے نازل فرمائے،پھر آپ کو اور آپ کے واسطے سے حضرت ہارون علیہ السلام کو کتابِ الٰہی تورات عطا فرمائی۔اسی کے متعلق ارشادِ باری ہے:وَ اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَۚ(۱۱۷)(پ23، الصّٰفّٰت:117)ترجمہ:اور ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب عطا فرمائی ہے۔یہاں ایک بات قابلِ توجہ ہے کہ فی زمانہ تورات اس حالت میں موجود نہیں جس حالت میں وہ نازل ہوئی تھی کیونکہ اس میں یہودیوں نے بہت تحریفات کر دی ہیں۔جیسا کہ قرآنِ پاک کی بہت سی جگہوں پر یہودیوں کی تحریفات کا بیان موجود ہے۔

(8)اللہ پا ک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳) (پ6،النسآء:153)ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔اس کی ایک مثال یہ ہےکہ جب آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو توبہ کے لیے خود ان کے اپنے قتل کا حکم دیا تو وہ انکار نہ کر سکے تو انہوں نے آپ علیہ السلام کی اطاعت کی۔

(9)اللہ پا ک نے آپ کونبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی نو روشن نشانیاں عطا فرمائیں:فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت15، بنی اسرائیل:101)ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

(10)آپ علیہ السلام کو لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں،ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب عطا فرمائی گئی۔فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳)(پ20،القصص:43) ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اس کے بعد کہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرما دیا تھا (موسیٰ کو وہ کتاب دی) جس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں، ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ ہدایت اور نصیحت حاصل کریں۔