نبی و رسول کی تعریف:نبی اس بشر کو کہتے ہیں جس کی طرف اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و راہ نمائی کے لیے وحی بھیجی ہواور ان میں سے جو نئی شریعت یعنی اسلامی قانون اور خدائی احکام لے کر آئے اسے رسول کہتے ہیں۔ (سیرت الانبیاء،ص29)

اوصافِ انبیا:انبیا و مرسلین علیہم السلام اعلیٰ اور عمدہ اوصاف کے مالک ہیں۔جن کے اوصاف احادیث وآثار میں موجود ہیں جیسے حکمت آمیز گفتگو کرنا، اچھی بات کے سوا خاموش رہنا، حصولِ علم کے لیے سفر کرنا،علم میں اضافے کاخواہش مند رہنا، لوگوں کو دین کا علم سکھانا، بھلائی کے کاموں کی طرف ان کی راہنمائی کرنا، لوگوں کی خیرخواہی اور ان کے حقوق ادا کرنا وغیرہ۔(سیرت الانبیاء،ص37)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام و لقب:آپ علیہ السلام کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔ (سیرت الانبیاء، ص527)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات:

(1،2)اللہ پاک کے برگزیدہ بندے: حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51) ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بے شک وہ چُنا ہوا بندہ اور وہ نبی رسول تھا۔

(3)مستجابُ الدعوات: آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے:اللہ پاک فرماتا ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22،الاحزاب:69) ترجمہ: اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(4 تا 6) آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔قرآنِ پاک میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲) وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ16،مریم:52،53)ترجمہ:اور اسے ہم نے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا اور ہم نے اپنی رحمت سےاسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

(7)آپ علیہ السلام کا کامل ایمان والا ہونا:آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) (پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔

(8)بلا واسطہ کلام کرنا:اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایا:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)(پ6، النسآء:164) ترجمہ:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

(9)اللہ پاک کا حضرت ہارون علیہ السلام کے ذریعے آپ کی مدد فرمائی:اللہ پاک نے حضرت ہارون علیہ السلام کی صورت میں آپ کو وزیر اور مددگار عطا فرمایا:اللہ پاک فرماتا ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنَا مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِیْرًاۚۖ(۳۵)(پ19،الفرقان:35) ترجمہ:اور بےشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور اس کے بھائی ہارون کو وزیر کیا۔

(10)آپ علیہ السلام کو اللہ پاک نے آسمانی کتاب و فرقان عطا کیے:اللہ پاک فرماتا ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳)(پ1،البقرۃ:53)ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

عمل کی ترغیب:اللہ پاک نے اپنےتمام انبیاعلیہم السلام کو خوبیوں اور صفات کا جامع بنایا ہے اور ہر نبی اپنے زمانے اور اپنی قوم میں سے سب سےزیادہ خوبیوں والا ہے اور اپنی صفات کی بنا پر تمام انبیا نے اللہ پاک کا قرب حاصل کیا۔اگر ہم بھی ان صفات پر عمل کریں تو ہم بھی معاشرے میں بہترین فرد ثابت ہو سکتے ہیں۔ جس طرح کہ ہر نبی خوش اخلاق اور نرم مزاج ہوتا ہے، اگر ہم بھی انبیا کی ان پیاری صفات پر عمل کریں اور تمام مسلمان خواتین و محارم سے خوش اخلاق رہیں تو ہم ان پیاری صفات کی بدولت معاشرے میں ہر دل عزیز بن سکتی ہیں۔اللہ پاک ہم سب کو تمام انبیائے کرام سے محبت اور ان کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ