حضرت موسیٰ
علیہ السلام اللہ پاک کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر اور رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔اللہ
پاک سے بلا واسطہ ہم کلام ہونے کی سعادت پانے کے سبب کلیمُ اللہ کے لقب سے یاد کیے
جاتے ہیں۔ آپ کا مبارک نام موسیٰ اور لقب کلیمُ اللہ اور صفیُّ اللہ ہے۔
10
اوصافِ موسیٰ:
(1) حضرت
موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چنے ہوئے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ
كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51) ترجمہ کنزالایمان: اور
کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بیشک وہ چنا ہوا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتانے
والا۔
(2) آپ
علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور
بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے
بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا: وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ
نَجِیًّا(۵۲) وَ وَهَبْنَا
لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)
(پ16،مریم:52،53) ترجمہ کنزالایمان:اور اسے ہم نے طور کی داہنی جانب سے ندا فرمائی
اور اسے اپنا راز کہنے کو قریب کیا اور اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون عطا
کیا غیب کی خبریں بتانے والا۔
(3) اللہ
پاک نے آپ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایا:وَ
كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)(پ6،
النسآء: 164)ترجمہ کنزالایمان:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔
(4)اللہ
پاک نے حضرت ہارون علیہ السلام کی صورت میں آپ کو وزیر اور مددگار عطا فرمایا:وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،
مریم: 53) ترجمہ کنزالایمان:اور اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون عطا کیا غیب
کی خبریں بتانے والا۔
(5)اللہ
پاک نے آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:وَ
اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳) (پ6،
النسآء:153) ترجمہ کنزالایمان:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔
(6) آپ
علیہ السلام کو فرقان عطا کیا:وَ اِذْ اٰتَیْنَا
مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳) (پ1،البقرۃ:53)
ترجمہ کنزالایمان:اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں تمیز
کردینا کہ کہیں تم راہ پر آؤ۔
(7)
آپ
علیہ السلام ربِّ کریم کی بارگاہ میں بڑی و جاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستحابُ
الدعوات تھے:
وَ
كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22،الاحزاب:69)ترجمہ
کنزالایمان:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔
(8)آپ علیہ السلام
اعلیٰ درجے والے اور کامل ایمان والے بندے تھے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ (۱۲۲)
(پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ کنزالایمان:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجے کے کامل
ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔ “اس آیت سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ سب سے
بڑی فضیلت اور سب سے اعلیٰ شرف کامل ایمان سے حاصل ہونا ہے۔ (تفسیرِ کبیر)
(9)اللہ
پاک نے آپ علیہ السلام کو لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں،ہدایت اور
رحمت پر مشتمل کتاب تورات عطا فرمائی:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ
مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ
رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳)(پ20،القصص:43)ترجمہ کنزالایمان: اور
بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اس کے بعد کہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرما
دیا (موسیٰ کو وہ کتاب دی)جس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں اور
ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
(10)اللہ
پاک نے بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا کی:وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۚ(۳۲)(پ 25،الدخان:32)ترجمہ کنزالایمان:اور بے شک ہم نے انہیں جانتے ہوئے
اس زمانے والوں پر چن لیا۔
اللہ پاک نے
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کیلئے آنے والی دُخترِ شعیب کی شرم و حیا کا بطور
خاص ذکر فرمایا۔کیونکہ شرم و حیا اور پردے کا خیال رکھنا پچھلے زمانوں میں بھی
شریف لوگوں کی خاص علامت تھا۔ قرآنِ مجید کے اس درسِ حیا میں ان عورتوں کیلئے
نصیحت ہے جو بے پردہ حالت میں سڑکوں،بازاروں اور دکانوں پر پھرتی ہیں۔ یاد رکھیے!
قرآن و حدیث کی تعلیم شرم و حیا ہے۔اللہ پاک ہمیں ان کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔اٰمین بجاہِ خاتمِ النبی الامین ﷺ
نام
و لقب: آپ
علیہ السلام کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔نبیِ کریم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: حضرت موسیٰ علیہ السلام صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چنے ہوئے بندے
ہیں۔
مختصر
تعارف: حضرت
موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران اور آپ کی والدہ کا نام ایارخا بھی مذکور
ہے۔ آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ
السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات سے چار سو برس اور حضرت ابراہیم علیہ السلام
سے سات سو برس بعد پیدا ہوئے اور آپ علیہ السلام نے ایک سو بیس برس کی عمر
پائی۔(البدایہ والنہایہ،1/ 326،329)(تفسیرِ صاوی،2/ 692 ملتقطا)
حضرت
موسیٰ علیہ السلام کی صفات:
برگزیدہ
بندے: ارشادِ
باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ
كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)
(پ16،مریم:51)ترجمہ:اور
کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا غیب کی
خبریں بتانے والا۔
قرآن کریم میں
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں:
1-آپ
علیہ السلام اللہ پاک کے چنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔
2-آپ
علیہ السلام رسول و نبی تھے۔
3-آپ
علیہ السلام سے اللہ پاک نے کلام فرمایا۔
4-آپ
علیہ السلام کو اللہ پاک نے اپنا قرب بخشا۔
5-آپ
علیہ السلام کی خواہش پر آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا کی گئی۔ (تفسیرروح
المعانی، 8 /51)
6-شرم
و حیا: شرم
و حیا اور جسم کو چھپا کر رکھنا پسندیدہ اوصاف اور کئی صورتوں میں شریعت کو مطلوب
ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام میں ان اوصاف سے متعلق نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد
فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت حیا والے اور اپنا بدن چھپانے کا خصوصی اہتمام
کرتے تھے۔(بخاری،2/442،حديث: 3404)
موسیٰ
علیہ السلام کی شان و عظمت: وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى
نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ
تَنْظُرُوْنَ(۵۵)ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ
تَشْكُرُوْنَ(۵۶) ترجمہ کنزالایمان: اور جب تم نے کہا اے
موسیٰ ہم ہرگز تمہارا یقین نہ لائیں گے جب تک علانیہ خدا کو نہ دیکھ لیں تو تمہیں کڑک نے آلیا اور تم دیکھ رہے تھے۔ پھر
مرے پیچھے ہم نے تمہیں زندہ کیا کہ کہیں تم احسان مانو۔ (پ2، البقرۃ:55،56)
اس آیت کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب
حضرت موسیٰ علیہ السلام توریت حاصل کرنے کے لیے کوہِ طور پر تشریف لے گئے تو پیچھے
سے آپ کی قوم نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا اور اس بچھڑے کی پوجا کرنے لگے اور
تمام بنی اسرائیل اس میں شامل ہوگئے،سوائے حضرت ہارون علیہ السلام اور 12000 ساتھیوں
کے جو اس شرک سے دور رہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس تشریف لے آئے تو قوم کی
حالت دیکھ کر انہیں تنبیہ کی اور انہیں ان کے گناہوں کا کفارہ بتایا۔چنانچہ جب
انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق توبہ کی تو اللہ پاک
نے انہیں معاف کر دیا۔ اللہ پاک نے حکم فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام انہیں اس
گناہ کی معذرت پیش کرنے کے لئے حاضر کریں۔چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان میں سے
70 آدمیوں کو اپنے ساتھ کوہِ طور پر لے گئے تو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کا یقین نہیں
کریں گے جب تک خدا کو دیکھ نہ لیں!تو اس پر آسمان سے ایک ہولناک آواز آئی، جس کی
ہیبت سے وہ سب مر گئے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے گڑگڑا کر اللہ پاک کی بارگاہ میں
عرض کی کہ میں بنی اسرائیل کو کیا جواب دوں گا؟ اس پر اللہ پاک نے ان افراد کو
زندہ کردیا۔ اس واقعے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان و عظمت معلوم ہوتی ہے کہ”
ہم آپ کا یقین نہیں کریں گے“یہ کہنے کی شامت میں بنی اسرائیل کو ہلاک کر دیا گیا
اور آپ کی دعا کی برکت سے انہیں دوبارہ زندہ کردیا گیا۔
7-مرتبۂ
قربِ الٰہی:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ
الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)(پ16،مریم:52، 53)ترجمہ کنز الایمان:اور اسے ہم نے طور کی
دا ہنی جانب سے ندا فرمائی اور اسے اپنا راز کہنے کو قریب کیا۔
طور: طور ایک پہاڑ کا نام ہے جو مصر
اور مَدْیَن کے درمیان ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مدین سے آتے ہوئے طور کی اس
جانب سے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دائیں طرف تھی ایک درخت سے ندا دی گئی: یٰمُوْسٰۤى اِنِّیْۤ اَنَا
اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۳۰)(پ20،القصص:30)ترجمہ
کنزالعرفان: اے موسیٰ میں ہی اللہ ہوں، تمام جہانوں کا پالنے والا۔ اس کے بعد اللہ
پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بلاواسطہ کلام فرمایا اور آپ علیہ السلام کلیمُ اللہ
کے شرف سے نوازے گئے۔ آپ علیہ السلام کو مرتبۂ قرب عطا فرمایا گیا۔ حجاب اٹھا
دئیے گئے یہاں تک کہ آپ نے قلموں کے چلنے کی آوازیں سنیں اور آپ علیہ السلام کی
قدرو منزلت بلند کی گئی۔(تفسیر خازن،3/ 237،238)
8-بارگاہِ الٰہی میں مقام: وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:53)
ترجمہ کنزالایمان: اور اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون عطا کیا غیب کی خبریں
بتانے والا(نبی)۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ پاک کی بارگاہ
میں قرب کاایسا مقام حاصل ہے کہ اللہ پاک نے ان کی دعا کے صدقے ان کے بھائی حضرت
ہارون علیہ السلام کو نبوت عطافرما دی۔اس سے اللہ پاک کے پیاروں کی عظمت کا پتہ
لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے خزانوں میں نہ ہو۔تو اگر ان
کی دعا سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں مل جائیں تو کیا مشکل ہے!البتہ اب ختمِ
نبوت ہوچکی لہٰذا اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔
9-حضرت
موسیٰ علیہ السلام انبیائے بنی اسرائیل علیہم السلام میں بہت شان والے ہیں کہ ان
کا ذکر خصوصیت سے علیحدہ ہوا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یک بارگی کتاب نازل ہوا۔ حضرت
موسیٰ علیہ السلام کو ان کی صداقت پر دلالت کرنے والی نشانیوں جیسے روشن ہاتھ اور
عصا وغیرہ معجزات کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا۔
10-
پتھر سے چشمے جاری: وَ
اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِه(پ1،البقرۃ:60)جب میدانِ تِیَہ میں بنی اسرائیل نے پانی نہ
پایا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں فریاد کی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو
اللہ پاک کی طرف سے حکم ہوا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو،چنانچہ آپ علیہ السلام نے
عصا مارا تو ا س پتھر سے پانی کے بارہ چشمے جاری ہوگئے اور بنی اسرائیل کے بارہ
گروہوں نے اپنے اپنے گھاٹ کو پہچان لیا۔
نیکی
کی جزا:اللہ
پاک نے فرعون کے مَظالِم سے نجات دے کر،قِبطیوں کے مقابلے میں ان کی مدد کر کے، حدود
و اَحکام کی جامع کتاب عطا فرما کر اور قیامت تک ذکرِ خیر باقی رکھ کے حضرتِ موسیٰ
اور حضرتِ ہارون علیہما السلام کو جز اعطا فرمائی۔اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں کو
ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔(تفسیر صاوی،5/ 1749
ملخصاً)اس سے معلوم ہوا کہ نیکی کرنے والوں کو دیگر ثوابوں کے علاوہ دنیا میں ذکر
ِخیر اور امن و سلامتی بھی عطا ہوتی ہے۔
اے عاشقانِ
رسول!حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے مقبول بندے اور نبی ہیں۔آپ علیہ السلام
حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ علیہ السلام کے والد
کا نام عمران ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان انبیائے کرام میں سے ہیں جنہیں اولوا
العزم رسول کہا جاتا ہے۔ربِّ کریم نے قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر حضرت موسیٰ علیہ
السلام کے معجزات و صفات کا تذکرہ فرمایا۔آپ علیہ السلام کا نامِ اقدس قرآنِ کریم
میں136 بار ذکر کیا گیا۔ چنانچہ سورۂ بنی اسرائیل آیت نمبر 101 میں فرمایا:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت(پ
15، بنی اسرائیل:101) ترجمہ کنزالایمان:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں
دیں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام جو
نو نشانیاں عطا کی گئیں وہ یہ ہیں: (1)عصا(2)یدِ
بیضاء(3)بولنے میں دقت:آپ علیہ السلام کی زبان مبارک میں دقت تھی،پھر ربِّ کریم نے
اسے دور فرما دیا۔(4) دریا کا پھٹنا
اور اس میں راستے بننا(5) طوفان(6)ٹڈی (7)گھن(8)مینڈک(9) خون۔ (تفسیر صراط
الجنان، 5/522)
اے عاشقانِ
رسول!حضرت موسیٰ علیہ السلام وہ فضیلت والے نبی ہیں جن کو ربِّ کریم نے اپنے کلام
سننے کا شرف عطا فرمایا، اسی لیے آپ علیہ السلام کلیمُ اللہ کے لقب سے مشہور ہیں۔ اس
بارے میں ربِّ کریم نے قرآنِ کریم میں فرمایا:وَ
كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) (پ6،
النسآء:164)ترجمہ کنزالایمان:اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔“قرآنِ مجید میں
ایک اور جگہ اسی واقعے کا تذکرہ فرماتے ہوئے ربِّ کریم نے ارشاد فرمایا:وَ لَمَّا جَآءَ مُوْسٰى
لِمِیْقَاتِنَا وَ كَلَّمَهٗ رَبُّهٗۙ-(پ9،الاعراف: 143) ترجمہ کنزالایمان:جب موسیٰ ہمارے وعدہ پر حاضر ہوا اور
اس سے اس کے رب نے کلام فرمایا۔
اس آیت سے ثابت
ہوا کہ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا،اس پر ہمارا ایمان ہے
اور ہماری کیا حیثیت ہے کہ ہم اس کلام کی حقیقت سے بحث کرسکیں! کتابوں میں مذکور
ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کلام سننے کے لئے حاضر ہوئے تو آپ نے طہارت کی
اور پاکیزہ لباس پہنا اور روزہ رکھ کر طورِ سینا میں حاضر ہوئے۔اللہ پاک نے ایک
بادل نازل فرمایا جس نے پہاڑ کو ہر طرف سے چار فرسنگ(یعنی 12میل)کی مقدار ڈھک لیا۔شیاطین
اور زمین کے جانور حتّٰی کہ ساتھ رہنے والے فرشتے تک وہاں سے علیحدہ کردیئے گئے۔آپ
کے لئے آسمان کھول دیا گیا تو آپ نے ملائکہ کو ملاحظہ فرمایا کہ ہوا میں کھڑے ہیں
اور آپ نے عرشِ الٰہی کو صاف دیکھایہاں تک کہ اَلواح پر قلموں کی آواز سنی اور اللہ
پاک نے آپ سے کلام فرمایا۔آپ علیہ السلام نے
اس کی بارگاہ میں اپنے معروضات پیش کئے،اُس نے اپنا کلام کریم سنا کر نوازا۔ حضرت
جبریل علیہ السلام آپ کے ساتھ تھے لیکن اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جو
کچھ فرمایا وہ اُنہوں نے کچھ نہ سنا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلامِ ربانی کی لذت
نے اس کے دیدار کا آرزو مند بنایا۔ (تفسیر صراط الجنان،3/ 425،426 )
ربِّ کریم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دو عظیم الشان
معجزات عطا فرمائے۔ جن کا تذکرہ قرآنِ مجید میں یوں ہے: قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَةٍ فَاْتِ بِهَاۤ
اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۰۶)فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ
مُّبِیْنٌۚۖ(۱۰۷) (پ9،الاعراف: 106/107)ترجمہ کنزالایمان:کہا:اگر
تم کوئی نشانی لے کر آئے ہو تو اسے پیش کرو اگرتم سچے ہو۔ تو موسیٰ نے اپنا عصا
ڈال دیا تو وہ فورا ً ایک ظاہر اژدہا بن گیا۔
اس آیت کے تحت
تفسیر صراط الجنان میں ہے:جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی رسالت کی تبلیغ مکمل
فرمائی تو فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا:اگرآپ کے پاس اپنی صداقت کی کوئی
نشانی ہے تو میرے سامنے اسے ظاہر کریں تاکہ پتا چل جائے کہ آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں
یا نہیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پرڈال دیا، وہ فورا ً ایک
ظاہر اژدہا بن گیا۔(تفسیر صراط الجنان،3/399 )
وَ نَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ
لِلنّٰظِرِیْنَ۠(۱۰۸) (پ9،الاعراف: 108)ترجمہ:اور اپنا ہاتھ گریبان میں
ڈال کر نکا لا تو وہ دیکھنے والوں کے سامنے جگمگانے لگا۔“اس آیت میں حضرت موسیٰ علیہ
السلام کے دوسرے معجزے کا ذکر ہے کہ آپ نے ا پنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالا تو
وہ دیکھنے والوں کے سامنے جگمگانے لگا اور اس کی روشنی اور چمک نورِ آفتاب پر غالب
ہوگئی۔ (تفسیر صراط الجنان،3/400)اس کے علاوہ قرآنِ کریم میں حضرت موسیٰ علیہ
السلام کے کئی معجزات کا ذکر موجود ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سرکارِ دو عالم ﷺ
نے معراج کی رات اپنی قبرِ انور میں نماز پڑھتے ملاحظہ فرمایا۔آپ علیہ السلام کی
بدولت ہی اُمتِ محمدیہ پر یہ احسانِ عظیم کیا گیا کہ پچاس نمازیں کم کر کے پانچ کر
دی گئیں۔
اللہ پاک نے
بنی نوعِ انسان کی ہدایت و رہنمائی کیلئے انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث کیا
اور انہیں بہت سے اعلیٰ اوصاف سے متصف فرمایا۔یہاں ذیل میں اللہ پاک کے پیارے نبی
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کردہ دس اوصاف ذکر کیے جاتے ہیں:
1۔ آپ علیہ
السلام اللہ پاک کے چنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔ (تفسیر صراط الجنان)
2۔ آپ علیہ
السلام رسول و نبی تھے۔ (سیرت الانبیاء،ص 530)
3۔ اللہ پاک
نے آپ علیہ السلام کو کتاب (توریت) عطا فرمائی۔ (پ12،ہود: 110)
4۔ آپ علیہ
السلام کو روشن معجزات عطا فرمائے۔ (پ1،البقرۃ: 92)
5۔ آپ علیہ
السلام سے اللہ پاک نے بغیر کسی واسطے کے کلام فرمایا۔ (سیرت الانبیاء،ص 530)
6۔ آپ علیہ
السلام کواپنا قرب بخشا۔ (تفسیر صراط الجنان)
7۔ آپ علیہ السلام کی خواہش پرآپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت
عطاکی۔ (تفسیر صراط الجنان)
8۔ آپ علیہ
السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت والے ہیں۔(پ22،الاحزاب: 69)
9۔ اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو آپ کے زمانے میں تمام مخلوقات پر فضیلت
بخشی۔ (سیرت الانبیاء،ص 531)
10۔ آپ علیہ
السلام کو روشن غلبہ اور تسلط عطا فرمایا۔ (سیرت الانبیاء،ص 533)
انبیائے کرام
علیہم السلام اللہ پاک کے خاص بندے اور پیغمبر ہیں۔جو پیغمبر بھی اللہ پاک کی طرف
سے مبعوث ہوتا ہے وہ غیر معمولی قوت کا حامل ہوتا ہے۔یہ وحی کے ذریعے اللہ پاک سے
رابطہ برقرار رکھتے ہیں اور ان کے کچھ امتیازات اور اوصاف ہوتے ہیں۔حضرت موسیٰ
علیہ السلام بھی اللہ پاک کے برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک ہیں۔اللہ پاک نے آپ کو
بے شمار صفات عطا فرمائیں اور قرآنِ پاک میں بھی ان صفات کا ذکر فرمایا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات قرآن کی روشنی
میں:
وَ
اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا
نَّبِیًّا(۵۱)وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ
نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا
لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)
(پ16، مریم:51تا53)ترجمہ:اور
کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بیشک وہ چنا ہوا تھااور رسول تھا غیب کی خبریں بتانے
والا اور اسے ہم نے طور کی داہنی جانب سے ندا فرمائی اور اسے اپنا راز کہنے کو
قریب کیا اور اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون عطا کیا غیب کی خبریں بتانے والا
(نبی)۔
حضرت موسیٰ
علیہ السلام کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں، جو درج ذیل ہیں:
1-آپ علیہ السلام اللہ پاک کے چنے ہوئے برگزیدہ بندے تھے۔
2- آپ علیہ السلام رسول و نبی تھے۔
3- آپ علیہ السلام سے اللہ پاک نے کلام فرمایا۔
حضرت موسیٰ
علیہ السلام کو مدین سے آتے ہوئے طور کی اس جانب سے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی
دائیں طرف تھی ایک درخت سے ندا دی گئی:یٰمُوْسٰۤى
اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۳۰)(پ20،القصص:30) ترجمہ
کنزالایمان: ”اے موسیٰ میں ہی اللہ ہوں تمام جہانوں کا پالنے والا۔“اس کے بعد اللہ
پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بلاواسطہ کلام فرمایا اور آپ علیہ السلام کلیمُ
اللہ کے شرف سے نوازے گئے۔
4- اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو اپنا قرب بخشا۔آپ علیہ السلام کو مرتبۂ قرب
عطا کیا گیا۔حجاب اٹھا دیئے گئے،یہاں تک کہ آپ نے قلموں کے چلنے کی آواز سنی اور
آپ علیہ السلام کی قدر و منزلت بلند کی گئی۔
5-آپ علیہ السلام کی خواہش پر آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا
کی یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک سے دعا کی کہ میرے گھر والوں میں میرے
بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا تو اللہ پاک نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور اپنی
رحمت سے حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا کی۔اللہ پاک سے
دعا ہے کہ وہ ہمیں سچے دل سے انبیائے کرام علیہم السلام کی تعظیم و توقیر کرنے اور
ان کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہِ النبی الامینﷺ
صفاتِ
موسیٰ:
1-وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ
كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51)
ترجمہ: ” اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو۔ بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی
رسول تھا۔ “یہاں آیتِ مبارکہ میں کلیمُ اللہ کی صفت بیان کی جارہی ہے۔
2-حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔(تفسیر
صراط الجنان،6/ 118
3-حضرت موسیٰ
علیہ السلام رسول اور نبى تھے۔(تفسیرصراط الجنان،6/118)
4 - حضرت موسیٰ
علیہ السلام سے اللہ پاک نے کلام فرمایا۔(تفسیر صراط الجنان،6/118)
5- حضرت موسیٰ
علیہ السلام کو اپنا قرب بخشا۔(تفسیر صراط الجنان،6 /118)
6-حضرت موسیٰ
علیہ السلام کی خواہش پر آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطاکی۔(تفسیر
صراط الجنان،6/118)
7-طور ایک
پہاڑ کا نام ہے جو مصر اور مدین کے درمیان ہے۔حضرت موسى علیہ السلام کو مدین سے
آتے ہوئے طور کی اس جانب سے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دائیں طرف تھی، ایک درخت
سے ندا دی گئی: یٰمُوْسٰۤى اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۳۰) (پ20،القصص: 30)ترجمہ
کنز العرفان: اے موسىٰ میں ہی الله ہوں تمام جہانوں کا پالنے والا۔
8-اللہ پاک نے
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایا اور آپ علیہ السلام کلیمُ اللہ
کے شرف سے نوازے گئے۔ (تفسیر صراط الجنان،6/119 )
9-حضرت موسیٰ
علیہ السلام کو مرتبۂ قرب عطا فرمایا گیا۔حجاب اٹھا دیئے گئے،یہاں تک کہ آپ نے
قلموں کے چلنے کی آواز سنی اور آپ علیہ السلام کی قدر ومنزلت بلند کی گئی۔(تفسیر صراط
الجنان،6/119)
10-حضرت موسیٰ
علیہ السلام کو اللہ پاک کی بارگاہ میں قرب کا ایسا مقام حاصل ہے کہ اللہ پاک نے
ان کی دعا کے صدقے ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا فرمادی۔ اس سے
اللہ پاک کے پیاروں کی عظمت کا پتا لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو
بادشاہوں کے خزانوں میں نہ ہو۔تو اگر ان کی دعا سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں
مل جائیں تو کیا مشکل ہے!البتہ اب ختمِ نبوت ہو چکی اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔ (تفسیر
صراط الجنان، 6/120)
اللہ پاک نے
زمین پر اپنی خلافت کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور انہیں جنت میں
ٹھہرایا۔یہاں ان کی زوجہ حضرت حوا رضی اللہ عنہا کو پیدا فرمایا۔یہ بھی حضرت آدم
علیہ السلام کے ساتھ جنت میں رہیں۔پھر جس مقصد کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کو
پیدا فرمایا تھا اس کو پورا کرنے کے لئے درخت کا پھل کھانے کے بعد انہیں زمین پر
اتار دیا گیا۔اللہ پاک نے انہیں اولاد کی نعمت عطا فرمائی جس سے آہستہ آہستہ
انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور لوگ مختلف قوموں میں تقسیم ہو کر زمین کے
مختلف حصوں میں آباد ہوتے گئے۔ابتدا میں انسان توحید پر ہی تھے وہ اللہ پاک کو ایک
مانتے اور صرف اسی کی عبادت کرتے تھے۔پھر وقت گزرنے کے ساتھ شیطان لعین کی کوششیں
رنگ لانا شروع ہوئیں اور لوگ اس کے بہکاوے میں آ کر گمراہی میں مبتلا ہوگئے،یہاں
تک کہ حقیقی خالق کی بندگی چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں کو اللہ پاک کا
شریک اور اپنا معبود ٹھہرالیا۔کفر و شرک اور گمراہی کے اس ماحول میں لوگوں کو اللہ
پاک کی وحدانیت پر ایمان لانے، اس پر جنت کی بشارت دینے، شرک سے باز آنے اور باز
نہ آنے پر عذاب کی وعید سنانے کے لئے اللہ پاک نے مختلف اوقات میں مختلف قوموں کی
طرف اپنے مقرب بندوں کو نبوت و رسالت کا منصب عطا فرما کر روشن نشانیوں اور معجزات
کے ساتھ بھیجا،ان پر صحیفے اور کتابیں نازل فرمائیں تاکہ ان کے ذریعے وہ لوگوں کو
نصیحت کریں۔ان عظیم ترین ہستیوں میں سے ایک عظیم ہستی حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی
ہیں۔آپ ان 27 انبیائے کرام میں سے ہیں جن کا قرآنِ پاک میں صراحت کے ساتھ تذکرہ
آیا ہے۔آئیے! آپ علیہ السلام کا مختصر تعارف جانتی ہیں:
آپ کا نام
موسیٰ اور لقب کلیمُ اللہ اور صفیُّ اللہ ہے۔آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل
میں سے ہیں۔ آپ کا نسب نامہ یوں ہے:موسیٰ بن عمران بن قاہث بن عازر بن لاوى بن
یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم۔ (سیرت الانبیاء،ص527، قصص الانبیاء لابن کثیر،ص 377 )
آپ علیہ
السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات سے 400 سال اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے
700 برس بعد پیدا ہوئے اور آپ نے 120 سال عمر پائی۔(تفسیر صاوی،2/696 )قرآنِ پاک
میں بیان کردہ آپ کی صفات میں سےچند کے بارے میں جانتی ہیں:
(1)حضرت موسیٰ
علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے:چنانچہ اللہ پاک نے آپ کا اور
آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) (پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بیشک
وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔
(2،3)حضرت موسیٰ
علیہ السلام اللہ پاک کے چنے ہوئے مقبول و پسندیدہ بندے تھے اور آپ نبی رسول بھی
تھے:ارشادِ خداوندی ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ
مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد
کرو،بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔
(4) آپ
علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے درجہ والے تھے:قرآنِ پاک
میں ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22،الاحزاب:69)ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی
وجاہت والا ہے۔
اللہ پاک نے
تمام انبیائے کرام علیہم السلام کو بہت سے اوصاف عطا فرمائے ہیں،ان میں حضرت موسیٰ
علیہ السلام بھی شامل ہیں، جن کی صفات مندر جہ ذیل ہیں:
1- آپ علیہ
السلام اللہ پاک کے چنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔
2- آپ علیہ
السلام رسول و نبی ہیں۔
3-آپ علیہ
السلام کی خواہش پر آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا کی،اس لیے کہ
آپ کے بعد وہ قوم کو سنبھال سکے۔(تفسیر صراط الجنان، 6/120)
4-حضرت موسیٰ علیہ
السلام کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر حضرت اسماعیل علیہ
السلام سے پہلے فرمایا،اس لیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام
کی اولاد میں سے ہیں، اسی لئے پہلے ذکر کیا تا کہ دادا اور پوتے کے ذکر میں فاصلہ
نہ ہو ورنہ حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے آچکے تھے۔
(تفسیرصراط الجنان، 6/ 118)
5- آپ علیہ
السلام کی ایک صفت یہ ہے کہ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام
فرمایا اور آپ علیہ السلام کلیمُ اللہ کے شرف سے نوازے گئے۔
6- آپ علیہ
السلام کو مرتبۂ قرب عطا فرمایا گیا،حجاب اٹھا دیئے گئے، یہاں تک کہ آپ نے قلموں
کے چلنے کی آواز سنی اور آپ علیہ السلام کی قدرومنزلت بلند کی گئی۔(تفسیرصراط
الجنان،6/ 119)
7-حضرت موسیٰ
علیہ السلام کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ آپ کا نام قرآنِ مجید میں تمام انبیائے کرام
علیہم السلام کے مقابلے میں زیادہ آیا ہے۔
8- حضرت موسیٰ
علیہ السلام پر اللہ پاک نے اپنی کتاب تورات نازل کی اورانہیں اسی وجہ سے سرفراز
فرمایا۔ ( تفسیر جلالین، 4/181 )
9-آپ علیہ
السلام کی ایک صفت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ پاک نے ایسے معجزات
دیے جو آج تک نہ دیکھے گئے مثلاً ٹڈیاں،مینڈک،جوئیں اور دریائے نیل کا دو حصوں میں
تقسیم ہو کر راستہ بن جانا۔ (تفسیر جلالین )
حضرت موسیٰ
علیہ السلام کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ آپ علیہ السلام اللہ پاک کے حکم سے علم حاصل
کرنے کے لیے جتنی بھی دور جانا پڑا وہاں تک پہنچے یہاں تک کہ مشرق اور بحرِروم تک
پہنچے اور راستے میں سے واپس نہ پلٹے۔ ( تفسیر جلالین،343)
10-آپ علیہ
السلام نے اللہ پاک سے درخواست کی کہ اے میرے رب مجھے ارضِ مقدس کے زیادہ قریب کر
دے۔ اس ضمن میں حدیث ملاحظہ فرمائیے:
حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک سے
درخواست کی کہ مجھے ارضِ مقدس سے ایک پتھر پھینکنے کے فاصلے تک قریب کر دے۔حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا:رسولُ اللہ ﷺ نے فرمایا:اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں ان
کی قبر راستے کے کنارے سرخ ٹیلے کے نیچے دکھاتا یعنی اللہ پاک نے آپ علیہ السلام
کی درخواست کو قبول کیا اور ارضِ مقدس کے قریب کر دیا۔
وصف کی جمع اوصاف
ہے جس کے معنی خوبیوں اور خصائص کے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام انبیائے کرام علیہم
السلام میں سے ہیں جنہیں اللہ پاک نے ان کی قوم کی طرف ڈر سنانے والا بنا کر
بھیجا۔
چند
اوصافِ موسیٰ درج ذیل ہیں:
قومِ
موسیٰ: آپ
کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا:وَ
اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَلَّا
تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَكِیْلًاؕ(۲)
(پ15،بنی اسرائیل:2)ترجمہ:ہم
نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرئیل کے لئے ہدایت بنا دیا کہ تم میرے سوا کسی
کو اپنا کارساز نہ بنانا۔
پانی
کے چشمے پھوٹ پڑے: آپ کی قوم نے جب آپ سے پانی کی درخواست کی تو آپ نے
اپنی لاٹھی پتھر پر ماری اور پانی کے چشمے پھوٹ پڑے:چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَ اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ
بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًاؕ-قَدْ
عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْؕ-كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ
وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۶۰)(پ1،البقرۃ:60)ترجمہ:اور جب موسیٰ ( علیہ
السلام )نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مارو، جس
سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنا چشمہ پہچان لیا،(اور ہم نے کہہ دیا کہ
)اللہ پاک کا رزق کھاؤ پیو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔
جادوگروں
کو شکست:آپ
علیہ السلام نے اپنے زمانے کے بڑے بڑے جادوگروں کو مات دی۔آپ کا عصا مبارک اژدھے
میں بدل کر جادوگروں کے جادو کے ذریعے رسیوں سے بنے سانپوں کو نگل گیا،جس کا ذکر
قرآنِ کریم میں اس طرح آیا ہے:وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَلْقِ
عَصَاكَۚ-فَاِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِكُوْنَۚ(۱۱۷) (پ9،الاعراف:117)ترجمہ: اور ہم نے
موسیٰ کو وحی فرمائی کہ اپنا عصا ڈال تو ناگاہ وہ ان کی بناوٹوں کو نگلنے لگا۔
قرآنِ
کریم میں کثرت سے ذکر: آپ کا ذکر قرآنِ مجید میں کثرت کے ساتھ کیا گیا ہے
اور تقریباً 126 مقامات پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام پکارا گیا۔
9
معجزے: آپ
علیہ السلام کو 9 معجزے عطا کیے گئے جو قرآن سے ثابت ہیں:وَ
لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت فَسْــٴَـلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِذْ جَآءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ
اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا(۱۰۱)(پ15،بنی
اسرائیل:101)ترجمہ:ہم نے موسیٰ کو نو معجزے بالکل
صاف صاف عطا فرمائے، تو خود ہی بنی اسرائیل سے پوچھ لے کہ جب وہ ان کے پاس پہنچے
تو فرعون بولا کہ اے موسیٰ! میرے خیال میں تو تجھ پر جادو کر دیا گیا ہے۔
کلیمُ
اللہ:آپ
کو کلیمُ اللہ کہا جاتا ہے۔کیونکہ آپ نے اللہ پاک سے کوہِ طور پر کلام فرمایا:وَ رُسُلًا قَدْ
قَصَصْنٰهُمْ عَلَیْكَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَیْكَؕ-وَ
كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)(پ6، النسآء:164)ترجمہ:اور آپ سے پہلے کے بہت سے
رسولوں کے واقعات ہم نے آپ سے بیان کئے ہیں اور بہت سے رسولوں کے نہیں بھی کئے اور
موسیٰ سے اللہ نے صاف طور پر کلام کیا۔
تورات
کا نزول: اللہ
پاک نے آپ پر تورات نازل فرمائی جو آسمانی کتاب ہے:وَ
اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ (پ15،بنی
اسرآءیل:2)ترجمہ: بیشک ہم
نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا۔
آپ
کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام: اللہ پاک نے آپ کو آپ کے بھائی حضرت ہارون
علیہ السلام سے نوازا:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى
الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنَا مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِیْرًاۚۖ(۳۵) (پ19،الفرقان:35) ترجمہ:اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو کتاب
دی اور ان کے ہمراہ ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر بنا دیا۔
فرعون
کی ہلاکت: آپ
نے اپنے عصا کے ذریعے سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور اپنی قوم کے ساتھ پار
کیا جبکہ فرعون اس کوشش میں غرق ہو گیا۔آپ کی رسالت کا انکار کرنے اور اللہ پاک پر
ایمان نہ لانے کی وجہ سے آپ اور آپ کی قوم کے سامنے فرعون کو غرق کیا گیا اور عبرت
بنا دیا گیا:وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْۤ
اِسْرَآءِیْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَ جُنُوْدُهٗ بَغْیًا وَّ
عَدْوًاؕ-حَتّٰۤى اِذَاۤ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُۙ-قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ
اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِیْلَ وَ اَنَا مِنَ
الْمُسْلِمِیْنَ(۹۰) (پ11،یونس:90)ترجمہ: اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا
پھر ان کے پیچھے پیچھے فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ظلم اور زیادتی کے ارادہ سے چلا
یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہنے لگا میں ایمان لاتا ہوں کہ جس پر بنی اسرائیل
ایمان لائے ہیں اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔
محمد مدثر عطاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی، لاہور،
پاکستان)
قراٰن مجید رب کریم کا بے مثل کلام ہے۔ جسے اللہ پاک نے
حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل فرمایا ۔ جو ہر چیز کا کھلا
اور واضح بیان ہے جس طرح الله پاک نے قراٰنِ پاک میں مسلمانوں کے لئے احکام پچھلی
امتوں کے واقعات بیان فرمائے اسی طرح اس میں انبیا و رسول علیہم السّلام کی صفات و
کمالات کو بھی بیان فرمایا۔ جس طرح حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ایک صفت
رحمۃ للعلمین بیان فرمائی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی روح الله بیان فرمائی۔ اسی
طرح حضرت موسی علیہ السّلام کی بھی صفات بیان فرمائیں۔ ان میں سے چند ملاحظہ ہوں۔
(1) حضرت موسی علیہ الصلوۃ و
السّلام اللہ پاک کے چنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔ اللہ پاک نے فرمایا : اِنَّهٗ كَانَ
مُخْلَصًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا۔(پ 16،
مریم:51) (2) حضرت موسی علیہ الصلوۃ و
السّلام رسول و نبی تھے۔ اللہ پاک نے فرمایا : وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ
نبی رسول تھا ۔(پ 16، مریم:51)
(3) حضرت موسی علیہ الصلوۃ و السّلام سے اللہ پاک نے کلام فرمایا۔
اللہ پاک نے فرمایا : وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ
الْاَیْمَنِ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا ۔ (پ16،مریم:52)طور ایک پہار کا نام ہے جو مصر اور مدین کے درمیان ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام
کو مدین سے آتے ہوئے طور کی اس جانب سے جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے دائیں طرف
تھی ایک درخت سے ندا دی گئی تھی۔
(4) حضرت موسی علیہ الصلوۃ و
السّلام کو اپنا قرب بخشا۔ اللہ پاک نے فرمایا: وَ
قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اسے
اپنا راز کہنے کیلئے مقرب بنایا۔ (پ16،مریم:52)
(5) حضرت موسی علیہ الصلوۃ و السّلام کی خواہش پر آپ کے بھائی حضرت
ہارون علیہ الصلوۃ والسّلام کو نبوت عطا کی۔ اللہ پاک نے فرمایا : وَ وَهَبْنَا لَهٗ
مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا
جو نبی تھا۔(پ16،مریم:53) جب حضرت موسیٰ
علیہ الصلوۃو السّلام نے اللہ پاک سے دعا کی کہ میرے گھر والوں میں سے میرے بھائی
ہارون کو میرا وزیر بنا۔ تو اللہ پاک نے ان کی دعا قبول فرمائی اور اپنی رحمت سے
حضرت ہارون علیہ السّلام کو نبوت عطا کی۔ ( خازن)
پیارے اسلامی بھائیو! اسی طرح اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں
متعدد مقامات پر انبیائے کرام علیہم السّلام کی صفات و کمالات کو بیان فرمایا مگر
افسوس ہم اس کو پڑھنے اس پر عمل کرنے سے ناآشنا ہیں حالانکہ انبیائے کرام علیہم السّلام
کی صفات پڑھنے اس پر عمل کرنے میں اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں انبیائے
کرام علیہم السّلام کی سیرت پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
بجاہ خاتم المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
عمر فاروق (درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضان مدینہ عالمی مدنی مرکز،کراچی ،پاکستان)
انبیائے کرام علیہم السّلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور
انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سے
روشنی بخشی حکمتوں کے سر چشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی وہ
بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں حیران ہو جاتی ہیں انبیا و
مرسلین انتہائی اعلی و عمدہ اوصاف کے مالک ہوتے ہیں۔ جن میں بعض کے اوصاف الله پاک
نے قراٰن مجید میں ذکر فرمائے ان کے مرتبہ اور فضائل جدا گانہ ہیں۔ مزید یہ کہ نبی
ہونے میں سب برابر ہیں ان انبیائے کرام میں افضل و اعلیٰ حضور محتشم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔ جیسا کہ
اللہ پاک نے فرمایا: وَ
اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بیشک تمہاری
خوبو بڑی شان کی ہے۔(پ29،القلم:4)
محترم قارئین ! قراٰن مجید میں جن انبیائے کرام کے اوصاف بیان
ہوئے ان میں سے حضرت موسی علیہ السّلام
کے اوصاف درج ذیل ہیں۔
(1) وَ
اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَۚ(۱۱۷)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے ان
دونوں کو روشن کتاب عطا فرمائی (پ23،الصّٰٓفّٰت:117) حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا ایک وصف یہ ہے جو یہاں بیان
ہوا کہ ان کو روشن کتاب عطا فرمائی۔ جس کا بیان بلیغ ہے اور وہ کتاب حدود اور
احکام کی جامع ہے یعنی تو رات جو حضرت موسیٰ علیہ
السّلام کو عطا کی گئی۔ سب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو ہی کتاب عطا کی گئی اس کتاب میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نبوت کے
دلائل بھی موجود ہیں اس کتاب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو صحیفے عطا کیے گئے ان میں بھی حضور کی نبوت اور
رسالت کا بیان تھا۔
(2) وَّ
نَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰظِرِیْنَ۠(۱۰۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنا ہاتھ گریبان
میں ڈال کر نکالا تو وہ دیکھنے والوں کے سامنے جگمگانے لگا۔( پ9، الاعراف : 108)حضرت
موسیٰ علیہ السّلام کا ایک وصف یہ بھی
ہے جو یہاں بیان ہوا کہ ید بیضاء یعنی حضرت موسی علیہ السّلام جب اپنا دستِ اقدس
گریبان میں ڈال کر نکالتے تو وہ دیکھنے والوں کے سامنے جگمگانے لگتا اور اس کی
روشنی اور چمک نور آفتاب پر غالب آگئی۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام
نے فرعون کو اپنا ہاتھ دکھا کر پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ فرعون نے جواب دیا :آپ کا
ہاتھ ہے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے ا پنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالا تو
وہ جگمگانے لگا۔
(3) وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور
اللہ نے موسیٰ علیہ السّلام سے حقیقتاً کلام فرمایا۔(پ6،النساء:164)حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا ایک وصف یہ بھی تھا جو یہاں بیان
ہوا کہ آپ کلیم اللہ ہیں حضرت موسیٰ نے اللہ پاک سے بلاواسطہ کلام فرمایا۔ آپ مدین
سے واپس آرہے تھے طور کی جانب سے آپ کو درخت سے آواز دی گئی یعنی جو حضرت موسی علیہ
السّلام کی دائیں جانب تھی آپ کو مرتبہ قرب عطا فر مایا گیا۔ حجاب اٹھا دئیے گئے یہاں
تک کہ آپ نے قلموں کے چلنے کی آواز سنی جس سے تو رات کو لکھا جا رہا تھا اور آپ کی
قدرو منزلت بلند کی گئی۔
(4) قَالَ هِیَ عَصَایَۚ ترجَمۂ کنزُالایمان: عرض کی یہ میرا عصا ہے ۔(پ16،طٰہٰ:18)
آپ کا وصف یہ بھی تھا کہ آپ کا عصا مبارک جس کے اوپر کی جانب دو شاخیں تھیں اس کا
نام نبعہ تھا آپ جب تھک جاتے تو اس سے ٹیک لگاتے، بکریوں کے لئے کے لئے درختوں سے
پتے جھاڑتے اور دشمنوں سے لڑتے، اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ آپ کا عصا مبارک فرعون کے میلے
میں جادو گروں کے سانپوں کے ساتھ ڈالا تو بڑا اژدھا بن کر ان کو کھا گیا اور بنی
اسرئیل نے جب پانی طلب کیا تو آپ کے اس عصا کو پتھر پر مارنے سے اس سے 12 چشمے جاری
ہو گئے اور جب دریا میں مارا تو دریا میں راستہ بن گیا۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں انبیائے کرام کے اوصاف بیان
کرنے اور تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور انبیائے کرام کی بے ادبی اور گستاخی
سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت کے لئے بے شمار انبیائے کرام
کو مبعوث فرمایا اور تمام ہی انبیائے کرام نے الله پاک کی اطاعت و فر مانبرداری
کرتے ہوئے انسانوں کو دین حق کی دعوت دی۔ انہی انبیائے کرام میں سے حضرت موسی علیہ
السّلام بھی ہیں جن کے اوصاف میں سے کچھ کا ذکر یہاں کیا جائے گا۔
حضرت موسی علیہ السّلام الله پاک کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر
اور رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔ حضرت موسی علیہ السّلام رب سے بلاواسطہ ہم کلام
ہونے کی وجہ سے کلیم اللہ کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ الله پاک کے موسی علیہ السّلام
کو دس صحیفے نازل فرمائے۔ الله پاک نے موسیٰ علیہ السّلام کو کتاب ( تو رات) عطا
فرمائی۔
اوصاف :ایک مقام پر رب نے موسیٰ علیہ السّلام کو اپنا چنا ہوا بندہ
اور رسول ارشاد فرمایا ہے۔ (جیسا کہ پارہ نمبر (16) سورۃُ المریم کی آیت نمبر (51)
میں ارشاد فرمایا: وَ
اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا
نَّبِیًّا(۵۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بےشک
وہ چنا ہوا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتانے والا۔(پ 16، مریم:51)
ایک مقام پر رب نے موسی علیہ السّلام کو اپنی بارگاہ میں بڑی
وجاہت والا (بھی بڑے مقام والا) مستجاب الدعوات فرمایا۔ (جیسا کہ پارہ نمبر 22 سورة
ُالاحزاب کی آیت نمبر (69) میں ارشاد فرمایا : وَ
كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور موسیٰ
اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69)
ایک مقام پر رب نے موسیٰ علیہ السّلام سے ہم کلامی کرنے کا
ارشاد فرمایا ہے :( جیسا کہ پارہ نمبر (06) سورۃ النساء کی آیت نمبر 164 میں ارشاد
فرمایا : وَ كَلَّمَ اللّٰهُ
مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور
اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔(پ6،النساء:164)
ایک مقام پر رب نے موسی علیہ السّلام کو نبوت و رسالت پر
دلالت کرنے والی (9) نو نشانیاں عطا کرنے کا ارشاد فرمایا۔ (جیسا کہ پارہ نمبر 15 میں
سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر (101) میں ارشاد فرمایا : وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ترجَمۂ کنزُالایمان:
اور بےشک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔(پ15،بنی اسرائیل:101)
ایک مقام پر رب نے موسی علیہ السّلام کو فرقان عطا کرنے کا
ارشاد فرمایا ہے۔ (جیسا کہ پارہ نمبر 1 سورۃُ البقرہ کی آیت نمبر (53) میں ارشاد
فرمایا : وَ اِذْ اٰتَیْنَا
مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں تمیز کر دینا کہ کہیں تم راہ پر
آؤ ۔(پ1، البقرة:53) فرقان کے کئی معانی بیان کئے گئے ہیں :(1)فرقان سے مراد بھی تورات ہی ہے۔ (2)کفرو ایمان میں فرق کرنے
والے معجزات جیسے عصا اور ید بیضاء وغیرہ ۔(3)حلال و حرام میں فرق کرنے والی شریعت مراد ہے
۔(مدارک،البقرة،تحت الآیت:53،ص52)
ایک مقام پر رب نے آپ کو روشن غلبہ عطا فرمانے کا ارشاد
فرمایا ہے۔(جیسا کہ پارہ نمبر (6) سورۃُ النساء کی آیت نمبر (153) میں ارشاد فرمایا
: وَ
اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳) ترجَمۂ کنزُالایمان:
اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ دیا۔(پ6،النساء:153)
حضرت موسی علیہ السّلام کے اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ قراٰنِ
پاک میں سب سے زیادہ مرتبہ حضرت موسی علیہ السّلام کا نام آیا ہے اور یہ مختلف
مقامات پر ہے اور اس کی تعداد (136) ہے۔