اللہ پاک نے زمین پر اپنی خلافت کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور انہیں جنت میں ٹھہرایا۔یہاں ان کی زوجہ حضرت حوا رضی اللہ عنہا کو پیدا فرمایا۔یہ بھی حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ جنت میں رہیں۔پھر جس مقصد کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تھا اس کو پورا کرنے کے لئے درخت کا پھل کھانے کے بعد انہیں زمین پر اتار دیا گیا۔اللہ پاک نے انہیں اولاد کی نعمت عطا فرمائی جس سے آہستہ آہستہ انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور لوگ مختلف قوموں میں تقسیم ہو کر زمین کے مختلف حصوں میں آباد ہوتے گئے۔ابتدا میں انسان توحید پر ہی تھے وہ اللہ پاک کو ایک مانتے اور صرف اسی کی عبادت کرتے تھے۔پھر وقت گزرنے کے ساتھ شیطان لعین کی کوششیں رنگ لانا شروع ہوئیں اور لوگ اس کے بہکاوے میں آ کر گمراہی میں مبتلا ہوگئے،یہاں تک کہ حقیقی خالق کی بندگی چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں کو اللہ پاک کا شریک اور اپنا معبود ٹھہرالیا۔کفر و شرک اور گمراہی کے اس ماحول میں لوگوں کو اللہ پاک کی وحدانیت پر ایمان لانے، اس پر جنت کی بشارت دینے، شرک سے باز آنے اور باز نہ آنے پر عذاب کی وعید سنانے کے لئے اللہ پاک نے مختلف اوقات میں مختلف قوموں کی طرف اپنے مقرب بندوں کو نبوت و رسالت کا منصب عطا فرما کر روشن نشانیوں اور معجزات کے ساتھ بھیجا،ان پر صحیفے اور کتابیں نازل فرمائیں تاکہ ان کے ذریعے وہ لوگوں کو نصیحت کریں۔ان عظیم ترین ہستیوں میں سے ایک عظیم ہستی حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔آپ ان 27 انبیائے کرام میں سے ہیں جن کا قرآنِ پاک میں صراحت کے ساتھ تذکرہ آیا ہے۔آئیے! آپ علیہ السلام کا مختصر تعارف جانتی ہیں:

آپ کا نام موسیٰ اور لقب کلیمُ اللہ اور صفیُّ اللہ ہے۔آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں۔ آپ کا نسب نامہ یوں ہے:موسیٰ بن عمران بن قاہث بن عازر بن لاوى بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم۔ (سیرت الانبیاء،ص527، قصص الانبیاء لابن کثیر،ص 377 )

آپ علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات سے 400 سال اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے 700 برس بعد پیدا ہوئے اور آپ نے 120 سال عمر پائی۔(تفسیر صاوی،2/696 )قرآنِ پاک میں بیان کردہ آپ کی صفات میں سےچند کے بارے میں جانتی ہیں:

(1)حضرت موسیٰ علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے:چنانچہ اللہ پاک نے آپ کا اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) (پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بیشک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔

(2،3)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چنے ہوئے مقبول و پسندیدہ بندے تھے اور آپ نبی رسول بھی تھے:ارشادِ خداوندی ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو،بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

(4) آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے درجہ والے تھے:قرآنِ پاک میں ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22،الاحزاب:69)ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

ہمیں چاہئے کہ ہم انبیائے کرام کی صفات کے بارے میں معلومات حاصل کریں اور انہیں اپنانے کی کوشش کریں۔اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہِ خاتَم النَّبیِّین ﷺ