سوال:اگر کسی کا قربانی کا جانور مَر جائے،گُم ہوجائے یا چوری ہوجائے تو کیا حکم ہے؟ جواب:بہارِ شریعت میں ہے:قربانی کا جانور مَر گیا تو غنی (یعنی صاحبِ نصاب)پرلازم ہے کہ دوسرے جانور کی قربانی کرے اور فقیر کے ذمّے دوسرا جانور واجب نہیں اور اگر قربانی کا جانور گُم ہو گیا یا چوری ہوگیا اور اس کی جگہ دوسرا جانور خرید لیا اب وہ مِل گیا تو غنی کو اختیار ہے کہ دونوں میں جس ایک کو چاہے قربانی کرے اور فقیر پر واجب ہے کہ دونوں کی قربانیاں کرے مگر غنی نے اگر پہلے جانور کی قربانی کی تو اگرچِہ اُس کی قیمت دوسرے سے کم ہو کوئی حرَج نہیں اور اگر دوسرے کی قربانی کی اور اس کی قیمت پہلے سے کم ہے تو جتنی کمی ہے اتنی رقم صَدَقہ کرے ۔ہاں اگر پہلے کو بھی قربان کردیا تو اب وہ تَصَدُّق (یعنی صَدَقہ کرنا)واجِب نہ رہا۔(بہارِ شریعت،3/342) وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

سوال:اگر بلّی مُرغی پر جھپٹّا(جَھ۔پَٹ۔ٹا) مار کر اس کا سَر کھاجائے اور مرغی تڑپ رہی ہو تو اسے کس طرح ذَبْح کریں؟ جواب:بہارِ شریعت میں ہے:بلّی نے مُرغی کا سَر کاٹ لیا اور وہ ابھی زندہ ہے پھڑک رہی ہے ذبح نہیں کی جاسکتی۔ (بہارِ شریعت،3/320) وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہ تعالٰی علٰی محمَّد

سوال:قربانی کے لئے افضل دن کون سا ہے؟ جواب:قربانی کے لئے افضل دن عید کا پہلا دن یعنی 10ذوالحجۃ الحرام ہے البتّہ 11اور 12ذوالحجہ کو بھی قربانی کرنا جائز ہے مگر 12ذوالحجہ کو غُروبِ آفتاب کے بعد قربانی نہیں کی جاسکتی۔ وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہ تعالٰی علٰی محمَّد

سوال:بعض لوگ قربانی میں ایک بکرا پورے گھر کی طرف سے ذبح کردیتے ہیں تو کیا اس طرح کرنے سے پورے گھر کی طرف سے قربانی ادا ہوجائے گی؟ جواب:اگر کسی نے ایک بکرا پورے گھر کی طرف سے قربانی میں ذبح کردیا تو گھر کے کسی بھی فَرْد کی طرف سے قربانی ادا نہیں ہوگی کیونکہ ایک بکرے کی قربانی صرف ایک ہی فرد کی طرف سے ادا ہوتی ہے۔ جیسے بچوں کے اَبُّو پر قربانی واجِب ہے تو اب ایک بکرا ان کی طرف سے ہی ذبح کیا جائے گا کسی اور کی اس میں نیّت نہیں کی جائے گی اور اگر بچوں کی امّی پر بھی قربانی واجب ہے تو اب دونوں کی طرف سے دو بکرے الگ الگ ذبح کئے جائیں گے کیونکہ ایک بکرا دونوں کی طرف سے قربانی میں ذبح نہیں کیا جاسکتا، یہی مسئلہ بھیڑ اور دُنبے (Sheep) کا بھی ہے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

سوال:حضرتِ اسرافیل علیہِ السَّلام کے ذمّے کیا کام ہیں؟ جواب:حضرتِ سیّدنا اسرافیل علیہِ الصّلٰوۃ و السَّلام صور پھونکیں گے اس کی تفصیل بہارِ شریعت میں کچھ اس طرح ہے: جب (قیامت کی ) نشانیاں پوری ہو لیں گی اور مسلمانوں کی بغلوں کے نیچے سے وہ خوشبودار ہوا گزرلے گی جس سے تمام مسلمانوں کی وفات ہوجائے گی، اس کے بعد پھر چالیس برس کا زمانہ ایسا گزرے گا کہ اس میں کسی کے اولاد نہ ہوگی، یعنی چالیس برس سے کم عُمر کا کو ئی نہ رہے گا اور دنیا میں کافر ہی کافر ہوں گے، اللہ کہنے والا کوئی نہ ہوگا، کوئی اپنی دیوار لیستا (یعنی پلستر کرتا) ہوگا، کوئی کھانا کھاتا ہوگا، غرض لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوں گے کہ دفعۃً (یعنی اچانک) حضرتِ اسرافیل علیہِ السَّلام کو صُور پھونکنے کا حکم ہوگا، شُروع شُروع اس کی آواز بہت باریک ہوگی اور رفتہ رفتہ بہت بلند ہوجائے گی، لوگ کان لگا کر اس کی آواز سنیں گے اور بے ہوش ہو کر گِر پڑیں گے اور مَر جائیں گے، آسمان، زمین، پہاڑ، یہاں تک کہ صُور اور اسرافیل اور تمام ملائکہ فَنا ہو جائیں گے، اُس وقت سوا اُس واحدِ حقیقی(یعنی اللہ جَلَّ جَلَالُہ) کے کوئی نہ ہوگا، وہ فرمائے گا:”آج کس کی بادشاہت ہے؟“ کہاں ہیں جَبّارین؟ کہاں ہیں متکبّرین؟ مگر ہے کون جو جواب دے، پھر خود ہی فرمائے گا: (پ 24، المؤمن: 16) ”صرف اللہ وَاحِدِ قَہَّار کی سلطنت ہے۔“ پھر جب اﷲ تعالٰی چاہے گا، اسرافیل کو زندہ فرمائے گا اور صُور کو پیدا کرکے دوبارہ پھونکنے کا حکم دے گا، صور پھونکتے ہی تمام اوّلین و آخرین، ملائکہ و اِنس و جن و حیوانات (یعنی جب دوسری بار صُور پھونکا جائے گا تو اس میں تمام فرشتے، انسان، جنّات اور جانور) موجود ہوجائیں گے۔ سب سے پہلے حضورِ انور صلَّی اﷲ تعالٰی علیہ وسلَّم قبرِ مُبارک سے یوں برآمد ہونگے (یعنی باہر تشریف لائیں گے) کہ دَہنے (یعنی سیدھے) ہاتھ میں صدیقِ اکبر کا ہاتھ، بائیں ہاتھ میں فاروقِ اعظم کا ہاتھ رضی اﷲ تعالٰی عنھمَا، پھر مکّۂ معظّمہ ومدینۂ طیبہ کے مَقَابِر (یعنی قبرستانوں) میں جتنے مسلمان دفن ہیں، سب کو اپنے ہمراہ لے کر میدانِ حشر میں تشریف لے جائیں گے۔(بہارِ شریعت، 1/127،129) وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہ تعالٰی علٰی محمَّد

عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ کراچی میں خصوصی مدنی مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس میں دار الافتاء اہلسنّت کے مفتیانِ کرام ، جامعۃ المدینہ کے اساتذہ اور درجہ ٔ دورہ حدیث شریف کے طلبۂ کرام نے شرکت کی سعادت حاصل کی۔ امیرِ اَہلِ سنّت علامہ محمد الیاس عطّاؔر قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے شرکا کو علم و حکمت سے معمور مدنی پھولوں سے نوازا جبکہ درجۂ دورہ حدیث شریف کے طلبہ کرام نے امیر اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے ساتھ کھانا کھانے کا شرف بھی حاصل کیا۔

سوال:کیا حاجی اپنا حلق خود کر سکتا ہے؟ جواب:جی ہاں! جب اِحرام سے باہر نکلنے کا وقت آجائے تو حاجی خود ہی اپنا حلق کر سکتا ہے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہ تعالٰی علٰی محمَّد

عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ کراچی میں 22جون 2019ءبروز ہفتہ بعد نمازِ عشاء ہفتہ وار مدنی مذاکرے کا سلسلہ ہو اجس میں کثیر تعداد میں عاشقانِ رسول نے شرکت کی۔ امیرِ اَہلِ سنّت علامہ محمد الیاس عطّاؔر قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے عاشقانِ رسول کے سوالات کے جوابات عطا فرمائے نیز ہفتہ وار مدنی مذاکرے کے بعد خصوصی مدنی مذاکرے کا بھی سلسلہ ہو اجس میں خوش نصیب عاشقانِ رسول نے امیر اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کےعلم و حکمت بھرے مدنی پھولوں سے فیض پایا ۔

سوال:کیا پیارے آقا صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں جانوروں کا فریاد کرنا ثابت ہے؟ جواب:جی ہاں! پیارے آقا صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں جانوروں کا فریاد کرنا ثابت ہے۔ ایک بار رَحْمتِ عالَم، نورِ مجسم صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے وہاں ایک اُونٹ کھڑا تھا، جب اس نے آپ صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھا تو ایک دَم بِلبِلانے لگا اور اس کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ رَحْمتِ عالَم صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قریب جاکر اس کے سَر اور کنپٹی پر اپنا دستِ شفقت پھیرا تو وہ تسلّی پاکر بالکل خاموش ہوگیا، تاجدارِ رسالت صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دریافت فرمایا کہ اِس اونٹ کا مالک کون ہے؟ ایک انصاری نوجوان حاضر ہوئے اور عرض کی: یارَسولَ اللہ صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! یہ میرا ہے۔ آپ صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کیا تم اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اس جانور کے بارے میں نہیں ڈرتے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جس کا تم کو مالِک بنایا ہے۔ تمہارے اس اونٹ نے مجھ سے تمہاری شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور اس کی طاقت سے زیادہ کام لے کر اسے تکلیف دیتے ہو۔(ابوداؤد، 3/32، حدیث: 2549) میرے آقا اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا خان علیہِ رحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں: ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد اسی دَر پر شُتَرانِ ناشاد( ) گِلۂ رَنج و عَنا(2) کرتے ہیں (حدائقِ بخشش، ص 113) وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

سوال:ننگے سَر نماز پڑھنے سے نماز ہوجاتی ہے یا نہیں؟ جواب:فی زمانہ تو ایسا لگتا ہے کہ ننگے سَر نماز پڑھنے کا بھی کوئی فیشن چل پڑا ہے حالانکہ پہلے کے لوگ نماز کے علاوہ بھی ہر وقت سَر پر ٹوپی بلکہ عمامہ سجا کر رکھتے تھے۔ بہرحال ننگے سَر نماز پڑھنے کی چند صورتیں ہیں جیسا کہ بہارِ شریعت میں ہے:سُستی سے ننگے سَر نماز پڑھنا یعنی ٹوپی پہننا بوجھ معلوم ہوتا ہو یا گرمی معلوم ہوتی ہو، مکروہِ تنزیہی (یعنی ناپسندیدہ) ہے اور اگر تحقیرِ نماز مقصود ہے، مثلاً نماز کوئی ایسی مُہْتَم بالشان (یعنی اہم) چیز نہیں جس کے لئے ٹوپی، عمامہ پہنا جائے تو یہ کُفر ہے اور خُشوع خُضوع (یعنی نماز میں دل لگنے) کے لئے سَر برہنہ (یعنی ننگے سَر نماز) پڑھی تو مستحب ہے۔(بہارِ شریعت، 1/631) وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

سوال:سرکارِ مدینہ صلَّی اللّٰہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک انگلیوں سے جو پانی جاری ہوا تھا اس کا واقعہ بیان فرما دیجئے۔ جواب:سن 6 ہجری میں ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفےٰ صلَّی اللّٰہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم عمرے کا ارادہ کرکے مدینۂٔ منورہ زاد ھَا اللہُ شرفاً و تعظیماً سے مکۂ مکرمہ زادھَا اللہُ شرفاً و تعظیماً کے لئے روانہ ہوئے اور حُدیبیہ کے میدان میں قیام فرمایا، اس مقام پر یہ معجزہ ظاہر ہوا۔ جیسا کہ بخاری شریف میں حضرت سیّدنا جابر رضیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حُدیبیہ کے دن لوگ شدتِ پیاس سے دوچار ہوئے اور رسولُ اللہ صلَّی اللّٰہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے ایک برتن رکھا ہوا تھا جس سے وضو فرما رہے تھے۔ جب لوگ آپ صلَّی اللّٰہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو سرکارِ مدینہ صلَّی اللّٰہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے دریافت فرمایا: تمہارا کیا حال ہے؟ عرض گزار ہوئے: یَارسولَ اللہ صلَّی اللّٰہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم! ہمارے پاس وضو کرنے اور پینے کے لئے پانی نہیں ہے، بس یہی تھا جو اس برتن کے اندر حضور کی خدمت میں پیش کر دیا تھا۔ حضرتِ سیّدنا جابر رضیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیِّ کریم صلَّی اللّٰہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے برتن میں اپنا دستِ مبارک رکھ دیا تو آپ صلَّی اللّٰہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک انگلیوں سے چشموں کی طرح پانی پھوٹ نکلا ہم پانی پیتے اور وضو کرتے رہے۔ حضرتِ سیّدنا جابر رضیَ اللہُ عنہ سے لوگوں نے پوچھا: اس وقت آپ کتنے لوگ تھے؟ فرمایا: لَوْ كُنَّا مِائَةَ اَلْفٍ لَكَفَانَا، كُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً یعنی اگر ہم ایک لاکھ (100000) بھی ہوتے تو پانی سب کے لئے کافی ہو جاتا، ہم پندرہ سو (1500) تھے۔(بخاری، 3/69، حدیث: 4152) اس حسین منظر کی تصویر کشی کرتے ہوئے میرے آقا اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا خان علیہِ رحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں: اُنگلیاں ہیں فیض پر ٹُوٹے ہیں پیاسے جھوم کر نَدِّیاں پنجابِ رحمت کی ہیں جاری واہ واہ (حدائقِ بخشش، ص134) اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

سوال:کیا شادی شدہ اسلامی بھائی ہی کُنیَت( ) رکھ سکتے ہیں یا غیر شادی شدہ بھی کنیت رکھ سکتے ہیں؟ جواب:شادی شدہ اسلامی بھائی بھی کنیت رکھ سکتے ہیں اور غیر شادی شدہ بھی کنیت رکھ سکتے ہیں یہاں تک کے چھوٹے بچوں کی بھی کنیت رکھی جاسکتی ہے۔ اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد