عبادت کا سب سے افضل دن

سوال:وہ کونسا دن ہے جس میں عبادت کا ثواب سب سے زیادہ ملتا ہے ؟

جواب:مفسرِ شہیر،حکیمُ الامّت،حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الرحمٰن تحریر فرماتے ہیں:جمعہ کا دن تمام دنوں سے افضل ہے کہ اس میں ایک نیکی کا ثواب ستر گنا ہے اور دُرود دوسری عبادتوں (یعنی نفل عبادتوں) سے افضل (ہے)۔ لہٰذا افضل دن میں افضل عبادت کرو (یعنی جمعہ کے روز خوب دُرود و سلام پڑھو)۔(مراٰۃ المناجیح، 2/323)

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہ تعالٰی علٰی محمَّد

سوال:کیا قبروں کی زیارت کرنے سے دل نرم ہوتا ہے؟

جواب:جی ہاں! قبروں کی زیارت کرنے سے دل نرم ہوتا ہے، دو فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم:(1)میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا، سنو! تم قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ دل کو نرم کرتی، آنکھوں کو رُلاتی اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔(مستدرک للحاکم، 1/711، حدیث:1433) (2)میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا پس تم ان کی زیارت کیا کرو ان کی زیارت تمہاری بھلائی میں اِضافہ کرے گی۔ (مستدرک للحاکم، 1/711، حدیث:1431)

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


  آج کا سوال

دورانِ اذان بجلی چلی جائے یا بجلی آجائے تو کیا کریں؟

سوال:اذان کے دوران بجلی چلی جائے یا آجائے، اذان جاری رکھی جائے گی یا دوبارہ نئے سِرے سے دی جائے گی؟

جواب:اذان کے دوران بجلی چلی جائے یا آجائے، اذان جاری رکھی جائے گی، نئے سِرے سے اذان نہیں دیں گے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد


سوال:ستونِ حَنَّانہسے کیا مُراد ہے؟ نیز اس کا واقعہ بھی ارشاد فرما دیجئے۔

جواب:ستونِ حَنَّانہسے مراد کھجور کا وہ خشک تَنا ہے جس سے مسجد ِنبوی شریف علٰی صاحبھا الصَّلٰوۃ والسَّلام میں سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ٹیک لگاکر خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ جب لکڑی کا منبر اطہر بنایا گیا اور حضور تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے منبر شریف کو قدم بوسی سے مشرف فرما کر خطبہ ارشاد فرمایا: تو کھجور کے تنے سے رونے کی آواز آنے لگی، وہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فِراق (یعنی جدائی) میں رو رہا تھا تو رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم شفقت فرماتے ہوئے مبارک منبر سے اترے اور اس کو سینے سے لگا لیا تو وہ سسکیاں بھرنے لگا اور پھر آہستہ آہستہ خاموش ہوگیا۔ اسی رونے کی وجہ سے اُس تَنے کا نام حَنَّانہ پڑ گیا۔ سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے ارشاد فرمایا: اگر میں اس کو خاموش نہ کرواتا تو یہ قیامت تک روتا رہتا۔ پھر مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے فرمایا: ”اگر تُو چاہے تو تجھے اسی جگہ لگادوں جہاں تُو پہلے تھا تاکہ تُو پہلے کی طرح(تروتازہ) ہوجائے اور اگر تُو چاہے تو تجھے جنّت میں لگادوں تاکہ جنّتی تیرا پھل کھاتے رہیں! اُس نے جنّت کو اِختیار کیا تو سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم پر اسے منبر کے نیچے دفنا دیا گیا۔ حضرتِ سَیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القَوی جب یہ واقعہ بیان فرماتے تو روتے اور ارشاد فرماتے:اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندو! جب ایک درخت کا بے جان تَنا فِراقِ مصطفےٰ میں رو سکتا ہے تو تمہیں فراقِ رسول میں رونے کا زیادہ حق ہے۔(وفاء الوفاء، 1/388تا 390، دلائل النبوۃ للبیہقی، 2/556 تا 561 ماخوذاً) آج بھی مسجد ِ نبوی شریف علٰی صاحبھا الصَّلٰوۃ والسَّلام میں اس جگہ پر جہاں یہ ستونِ حنانہ تھا، پلر(Pillar) بنا ہوا ہے جس پر اُسْطُوَانَۃُ الْحَنَّانَہ لکھا ہوا ہے، عاشقانِ رسول اس مقام پر نوافل وغیرہ ادا کرتے ہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

آج کا سوال

سب سے پہلے قلم سے کس نے لکھا؟

سوال:سب سے پہلے کس نے قلم سے لکھا؟

جواب:حضرتِ سَیِّدُنا ادریس علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام نے۔

(خازن، پ16، مریم، تحت الآیۃ:56، 3/238)

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد


دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضان ِمدینہ کراچی میں 27جولائی 2019ءبروز ہفتہ نماز عشاء کے بعد ہفتہ وار مدنی مذاکرے کا سلسلہ ہو اجس میں شہر کراچی کے مختلف علاقوں کے عاشقان ِرسول نے شرکت کی ۔ امیر اہلِ سنّت علامہ محمد الیاس عطار قادری  دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے عاشقان ِرسول کے سوالات کے جوابات عطا فرمائے۔ بعد مدنی مذاکرہ خصوصی مدنی مذاکرے بھی ہوا جس میں عاشقانِ رسول نے امیر اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے سوالات کئے اور امیر اہلِ سنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہنے انہیں اپنے مدنی پھولوں سے نوازا۔


آج کا سوال

قلبِ سَلیم کسے کہتے ہیں؟

سوال: قلبِ سلیم کسے کہتے ہیں؟

جواب: قلبِ سلیم کے معنیٰ سلامت دل، اس سے مراد دِل کا بدعقیدگیوں یعنی کفر و شِرک اور منافقت وغیرہ سے پاک ہونا ہے۔(خزائن العرفان، پ19، الشعراء، تحت الآیۃ:89، ص 688،ماخوذاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد


سوال: کاؤنٹر تسبیح انگلی میں پہن کر نماز پڑھنا کیسا ہے؟

جواب: پلاسٹک کی کاؤنٹر تسبیح انگلی میں پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے البتہ اسے پہن کر نماز پڑھنے سے توجہ بَٹے گی جو مانعِ خشوع (یعنی خشوع میں رکاوٹ) ہے۔ اسے پہن کر نماز پڑھنے سے بچنا چاہئے کہ لوگ باتیں بنائیں گے کہ پتا نہیں نماز پڑھتا ہے یا تسبیح۔

خاص طور پر جو مذہبی شخصیات ہیں جن کی پیروی کی جاتی ہے انہیں اس طرح بالکل بھی نہیں کرنا چاہئے لوگ سمجھیں گے کہ شاید یہ بھی کوئی افضل عمل ہے! پھر وہ بھی کرنے لگیں گے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

  آج کا سوال

پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کیسے خوش کریں؟

سوال:رَبیع الاوّل کے مہینے میں ہم کون سے ایسے کام کریں کہ جن کی بدولت ہم پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو خوش کرسکیں؟

جواب:ہمیں رَبیع الاوّل کے مہینے میں بھی پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو خوش کرنا ہے اور اس کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی بلکہ ہمیشہ ہمیشہ وہ کام کرنے ہیں کہ جن سے اللہ پاک بھی راضی ہو اور مدینے والے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی خوش ہوں، اگر نماز میں کوتاہی تھی تو نماز کی کوتاہی ختم کردی جائے، اگر پچھلی نمازیں قَضا ہیں تو توبہ کرکے ان کا حساب لگاکر فوراً قضائے عمری شروع کردی جائے۔ اسی طرح روزے، زکوٰۃ اور دِیگر فرائض و واجِبات کی تکمیل کرتے ہوئے جشنِ ولادت منانے کی ترکیب شروع کی جائے اور اپنی ذات کو سنّتوں کے سانچے میں ڈھال لیا جائے۔ جیسے سَر پر انگریزی بالوں کے بجائے زلفیں رکھ لی جائیں، ننگے سَر گھومنے کے بجائے سَر پر سَبز سَبز عمامہ شریف کا تاج سجایا جائے، اگر داڑھی منڈائی یا ایک مٹھی سے گھٹائی ہے تو اس سے توبہ کرکے سنّت کے مطابق چہرے پر داڑھی مبارک سجا لی جائے، اپنے لباس کو بھی سنّتوں سے آراستہ کرتے ہوئے مکمل مدنی حلیے کی ترکیب بنا لی جائے اور جن سنّتوں پر عمل کرنے میں سُستی و کوتاہی تھی اُسے چُستی میں تبدیل کرکے اپنی ذات کو اللہ عَزَّوَجَلَّکی رِضا والے کاموں میں لگا دیجئے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کے دل کے اندر مَدَنی اِنقلاب برپا ہوجائے گا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد


اپنی تعریف سننے کا شوق رکھنا کیسا؟

سوال:اپنی تعریف سننے کا شوق رکھنا کیسا ہے؟

جواب:اپنی تعریف سننے کا شوق اچھا نہیں ہے، اس میں بہت خطرہ (Risk) ہے جیساکہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”اپنی تعریف کو پسند کرنا، انسان کو اندھا اور بہرا کردیتا ہے۔“(فردوس الاخبار، 1/347، حدیث:2548) لوگوں کے منہ سے اپنی تعریف اور فضائل سُن کر اپنے نفس کو قابو میں رکھنا اِنتہائی مشکِل ہوتا ہے اس لئے اپنی تعریف سننے سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہاں! اگر اپنی تعریف سننے کا شوق نہ ہو پھر کوئی تعریف کر دے تو اپنے نفس کو قابو میں رکھتے ہوئے اپنی جائز تعریف سننے میں حَرَج نہیں جیسا کہ بزرگانِ دین رحمہم اللہ المُبِین کے سامنے اُن کی تعریفات کی گئیں، منقبتیں پڑھی گئیں لیکن ان حضرات نے منع نہ کیا۔ اس ضمن میں ایک حکایت ملاحظہ کیجئے چنانچہ خلیفۂ اعلیٰ حضرت،مبلغِ اسلام حضرتِ علّامہ مولانا شاہ عبدالعلیم صِدّیقی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ حرمینِ طیبین زادہُما اللہ شرفاً وَّ تعظیماً سے واپسی پر میرے آقا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نہایت خوش آوازی میں آپ کی شان میں منقبت پڑھی تو سیِّدی اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت نے اس پر کوئی ناگواری کا اِظہار نہیں فرمایا بلکہ اِرشاد فرمایا: مولانا! میں آپ کی خدمت میں کیا پیش کروں؟ (اپنے بہت قیمتی عمامہ کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے فرمایا:) اگر اس عمامے کو پیش کروں تو آپ اُس دِیارِ پاک سے تشریف لارہے ہیں، یہ عمامہ آپ کے قدموں کے لائق بھی نہیں۔ البتّہ میرے کپڑوں میں سب سے بیش قیمت (یعنی قیمتی) ایک جُبَّہ ہے، وہ حاضر کئے دیتا ہوں اور کاشانۂ اقدس سے سُرخ کاشانی مخمل کا جُبَّۂ مبارکہ لاکر عطا فرما دیا، جو ڈیڑھ سو روپے سے کسی طرح کم قیمت کا نہ ہوگا۔ مولانا مَمدوح نے کھڑے ہوکر دونوں ہاتھ پھیلا کرلے لیا۔ آنکھوں سے لگایا، لبوں سے چوما، سَر پر رکھا اور سینے سے دیر تک لگائے رہے۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/132تا134 ملخصاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد


آج کا سوال

اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحْمَۃِ ربّ العزّت کا بچپن

سوال:اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت کےبچپن کے متعلِق کچھ ارشاد فرمائیے؟

جواب:میرے آقا اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن بچپن سے ہی دوسرے بچّوں سے کافی مختلف اور بہت ذہین و ہوشیار تھے، آپ کا حافظہ بھی بہت قَوی تھا، صرف چھ سال کی عُمْر میں آپ نے سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جشنِ ولادت کے موقع پر ایسا بیان فرمایا تھا کہ بڑے بڑے دَنگ رَہ گئے کہ چھ سال کے بچّے کو سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں اتنی معلومات ہیں! 13سال دس ماہ چار دن کی عمر میں میرے آقا اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت نے پہلا فتویٰ حُرمت ِ رَضاعت (یعنی دودھ کے رشتے) کے متعلِق دیا، آپ کے والدِ گرامی رَئیسُ الْمُتَکلِّمِیْن حضرت علّامہ مولانا مفتی نقی علی خان علیہ رحمۃ المنَّان فتویٰ صحیح پاکر بہت خوش ہوئے اور آپ کو مفتی کا منصب سونپ دیا، اس کے باوجود آپ طویل عرصے تک اپنے والدِ گرامی سے فتویٰ چیک کرواتے رہے۔ اس عمر میں بچے کھیلتے ہیں، لیکن میرے آقا اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت مفتی بَن گئے تھے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت کی سیرت جاننے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کے دو رسالے ”تذکرۂ امام احمد رضا“ اور ”بریلی سے مدینہ“ کا مطالَعہ کیجئے۔)

عِلْم کا چَشمہ ہوا ہے مَوجزَن تحریر میں

جب قلم تُو نے اٹھایا اے امام احمدرضا

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد


سوال:”کاش! میں سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دور میں ہوتا تو سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت کرتا۔“ یہ کہنا کیسا ہے؟

جواب:یہ آرزو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ کاش! ہم بھی پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک دور میں پیدا ہوئے ہوتے اور رَحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قدموں سے لپٹے رہتے یعنی صاحبِ ایمان بھی ہوتے، ورنہ اُس مبارک دور میں ابو جہل بھی تھا، اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اور وہ کُفر پر ہی مَر گیا۔ اسی طرح کی آرزو کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت فرماتے ہیں:

جو ہم بھی واں ہوتے خاکِ گلشن لپٹ کے قدموں سے لیتے اُترن

مگر کریں کیا نَصیب میں تو یہ نامُرادی کے دِن لکھے تھے

(حدائقِ بخشش، ص 231)

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد