مدنی مذاکرہ
دعوتِ اسلامی
کے عالمی مدنی مرکز فیضان ِمدینہ کراچی میں 27جولائی 2019ءبروز ہفتہ نماز عشاء کے
بعد ہفتہ وار مدنی مذاکرے کا سلسلہ ہو اجس میں شہر کراچی کے مختلف علاقوں کے
عاشقان ِرسول نے شرکت کی ۔ امیر اہلِ سنّت علامہ محمد الیاس عطار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے عاشقان ِرسول کے سوالات کے جوابات عطا فرمائے۔
بعد مدنی مذاکرہ خصوصی مدنی مذاکرے بھی ہوا جس میں عاشقانِ رسول نے امیر اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے سوالات کئے اور امیر اہلِ سنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ
الْعَالِیَہنے انہیں اپنے مدنی پھولوں سے نوازا۔
قلبِ سَلیم کسے کہتے ہیں؟
آج کا سوال
قلبِ سَلیم کسے کہتے ہیں؟
سوال: قلبِ
سلیم کسے کہتے ہیں؟
جواب: قلبِ سلیم کے معنیٰ
سلامت دل، اس سے مراد دِل کا بدعقیدگیوں یعنی کفر و شِرک اور منافقت وغیرہ سے پاک
ہونا ہے۔(خزائن العرفان، پ19، الشعراء، تحت الآیۃ:89، ص 688،ماخوذاً)
وَاللہُ
اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ
وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
کاؤنٹر تسبیح انگلی میں پہن کر نماز پڑھنا کیسا
سوال: کاؤنٹر تسبیح انگلی میں پہن کر نماز پڑھنا کیسا ہے؟
جواب: پلاسٹک کی کاؤنٹر تسبیح انگلی میں
پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے البتہ اسے پہن کر نماز پڑھنے سے توجہ بَٹے گی جو مانعِ
خشوع (یعنی خشوع میں رکاوٹ) ہے۔ اسے پہن کر نماز پڑھنے سے
بچنا چاہئے کہ لوگ
باتیں بنائیں گے کہ پتا نہیں نماز پڑھتا ہے یا تسبیح۔
خاص طور پر جو مذہبی شخصیات ہیں جن کی پیروی کی جاتی ہے انہیں اس طرح بالکل بھی نہیں کرنا چاہئے لوگ
سمجھیں گے کہ شاید یہ بھی کوئی افضل عمل ہے! پھر وہ بھی کرنے لگیں گے۔
وَاللہُ
اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ
وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
آج کا سوال
پیارے آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کیسے خوش کریں؟
سوال:رَبیع الاوّل کے مہینے میں ہم کون سے ایسے
کام کریں کہ جن کی بدولت ہم پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
خوش کرسکیں؟
جواب:ہمیں رَبیع الاوّل کے مہینے میں بھی پیارے
آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو خوش کرنا
ہے اور اس کے علاوہ دوسرے مہینوں
میں بھی بلکہ ہمیشہ ہمیشہ وہ کام کرنے ہیں کہ جن سے اللہ پاک بھی راضی ہو اور مدینے والے آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی خوش ہوں، اگر نماز میں کوتاہی تھی تو نماز
کی کوتاہی ختم کردی جائے، اگر پچھلی نمازیں قَضا ہیں تو توبہ کرکے ان کا حساب
لگاکر فوراً قضائے عمری شروع کردی جائے۔ اسی طرح روزے، زکوٰۃ اور دِیگر فرائض و واجِبات کی تکمیل کرتے ہوئے
جشنِ ولادت منانے کی ترکیب
شروع کی جائے اور اپنی ذات کو سنّتوں کے سانچے میں ڈھال لیا جائے۔ جیسے سَر پر
انگریزی بالوں کے بجائے زلفیں رکھ لی جائیں، ننگے سَر گھومنے کے بجائے سَر پر سَبز
سَبز عمامہ شریف کا تاج سجایا جائے، اگر داڑھی منڈائی یا ایک مٹھی سے گھٹائی ہے تو
اس سے توبہ کرکے سنّت کے مطابق چہرے پر داڑھی مبارک سجا لی جائے، اپنے لباس کو بھی
سنّتوں سے آراستہ کرتے ہوئے مکمل مدنی حلیے کی ترکیب بنا لی جائے اور جن سنّتوں پر عمل کرنے میں سُستی و کوتاہی تھی اُسے
چُستی میں تبدیل کرکے اپنی ذات
کو اللہ عَزَّوَجَلَّکی رِضا والے کاموں میں لگا دیجئے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کے دل
کے اندر مَدَنی اِنقلاب برپا ہوجائے گا۔
وَاللہُ
اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ
وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
اپنی تعریف سننے کا شوق رکھنا کیسا؟
اپنی تعریف
سننے کا شوق رکھنا کیسا؟
سوال:اپنی تعریف سننے کا شوق رکھنا کیسا ہے؟
جواب:اپنی تعریف سننے کا شوق
اچھا نہیں ہے، اس میں بہت خطرہ (Risk) ہے جیساکہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”اپنی تعریف کو پسند
کرنا، انسان کو اندھا اور بہرا کردیتا ہے۔“(فردوس الاخبار، 1/347،
حدیث:2548) لوگوں کے منہ سے اپنی تعریف اور فضائل
سُن کر اپنے نفس کو قابو میں رکھنا اِنتہائی مشکِل ہوتا ہے اس لئے اپنی تعریف سننے
سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہاں! اگر اپنی تعریف سننے کا شوق نہ ہو پھر کوئی
تعریف کر دے تو اپنے نفس کو قابو میں رکھتے ہوئے اپنی جائز تعریف سننے میں حَرَج
نہیں جیسا کہ بزرگانِ دین رحمہم اللہ المُبِین کے سامنے اُن کی تعریفات کی گئیں، منقبتیں پڑھی گئیں لیکن ان حضرات نے منع نہ
کیا۔ اس ضمن میں ایک حکایت ملاحظہ کیجئے چنانچہ خلیفۂ اعلیٰ حضرت،مبلغِ اسلام
حضرتِ علّامہ مولانا شاہ عبدالعلیم صِدّیقی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ حرمینِ طیبین زادہُما اللہ شرفاً وَّ تعظیماً سے واپسی پر میرے آقا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نہایت خوش آوازی میں آپ کی شان میں منقبت پڑھی تو
سیِّدی اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت نے اس پر کوئی ناگواری کا اِظہار نہیں فرمایا بلکہ اِرشاد فرمایا: مولانا!
میں آپ کی خدمت میں کیا پیش کروں؟ (اپنے بہت قیمتی عمامہ کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے فرمایا:) اگر اس عمامے کو پیش کروں تو آپ اُس دِیارِ پاک سے تشریف
لارہے ہیں، یہ عمامہ آپ کے قدموں کے لائق بھی نہیں۔ البتّہ میرے کپڑوں میں سب سے
بیش قیمت (یعنی قیمتی) ایک جُبَّہ ہے، وہ حاضر کئے دیتا ہوں اور کاشانۂ اقدس سے
سُرخ کاشانی مخمل کا جُبَّۂ مبارکہ لاکر عطا فرما دیا، جو ڈیڑھ سو روپے سے کسی
طرح کم قیمت کا نہ ہوگا۔ مولانا مَمدوح نے کھڑے ہوکر دونوں ہاتھ پھیلا کرلے لیا۔
آنکھوں سے لگایا، لبوں سے چوما، سَر پر رکھا اور سینے سے دیر تک لگائے رہے۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/132تا134
ملخصاً)
وَاللہُ
اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ
وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحْمَۃِ ربّ العزّت کا بچپن
آج کا سوال
اعلیٰ حضرت
عَلَیْہِ رَحْمَۃِ ربّ العزّت کا بچپن
سوال:اعلیٰ حضرت علیہ
رحمۃ ربِّ العزّت کےبچپن کے متعلِق
کچھ ارشاد فرمائیے؟
جواب:میرے آقا اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن بچپن سے ہی دوسرے بچّوں سے کافی مختلف اور بہت ذہین
و ہوشیار تھے، آپ کا حافظہ بھی بہت قَوی تھا، صرف چھ سال کی عُمْر میں آپ نے سرکار
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جشنِ ولادت کے موقع پر ایسا بیان فرمایا تھا کہ بڑے بڑے دَنگ رَہ گئے کہ
چھ سال کے بچّے کو سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں اتنی معلومات ہیں!
13سال دس ماہ چار دن کی عمر میں میرے آقا اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت نے پہلا فتویٰ حُرمت ِ رَضاعت (یعنی دودھ کے رشتے) کے
متعلِق دیا، آپ کے والدِ گرامی رَئیسُ
الْمُتَکلِّمِیْن حضرت علّامہ مولانا مفتی نقی علی
خان علیہ رحمۃ المنَّان فتویٰ صحیح پاکر بہت خوش ہوئے اور
آپ کو مفتی کا منصب سونپ دیا، اس کے باوجود آپ طویل عرصے تک اپنے والدِ گرامی سے
فتویٰ چیک کرواتے رہے۔ اس عمر میں بچے کھیلتے ہیں، لیکن میرے آقا اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت مفتی
بَن گئے تھے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے
ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم (اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت کی
سیرت جاننے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کے دو رسالے ”تذکرۂ امام احمد رضا“ اور
”بریلی سے مدینہ“ کا مطالَعہ کیجئے۔)
عِلْم کا چَشمہ ہوا ہے مَوجزَن تحریر میں |
جب قلم تُو نے اٹھایا
اے امام احمدرضا |
وَاللہُ
اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ
وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
سوال:”کاش! میں سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دور میں ہوتا تو سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی زیارت کرتا۔“ یہ کہنا کیسا ہے؟
جواب:یہ آرزو کرنے میں
کوئی حرج نہیں ہے کہ کاش! ہم بھی پیارے آقا صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک دور میں پیدا ہوئے ہوتے اور رَحمتِ عالَم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قدموں سے لپٹے رہتے یعنی صاحبِ
ایمان بھی ہوتے، ورنہ اُس مبارک دور میں ابو جہل بھی تھا، اس کو کوئی فائدہ نہیں
ہوا اور وہ کُفر پر ہی مَر گیا۔ اسی طرح کی آرزو کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت علیہ
رحمۃ ربِّ العزّت فرماتے ہیں:
جو ہم بھی
واں ہوتے خاکِ گلشن لپٹ کے قدموں سے لیتے اُترن |
مگر کریں
کیا نَصیب میں تو یہ نامُرادی کے دِن لکھے تھے |
(حدائقِ
بخشش، ص 231) |
وَاللہُ
اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ
وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
بطخ کھانا کیسا؟
آج کاسوال
بطخ کھانا
کیسا؟
سوال:کیا بطخ کھانا حلال ہے؟
جواب:جی ہاں! بطخ کھانا حلال ہے۔ (تفسیراتِ
احمدیہ، پ8، الانعام، تحت الآیۃ: 146، ص405) اور
اسے بھی بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَر پڑھ کر ذبح کیا جائے گا۔
وَاللہُ
اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہ علٰی محمَّد
مدنی مذاکر ہ
وطن عزیز کے شہر کراچی میں قائم دعوتِ
اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ میں ہر ہفتے کو نماز عشاء کے بعدہفتہ وار
مدنی مذاکرے سلسلہ ہوتا ہے جس میں کراچی کے مختلف علاقوں کے عاشقانِ رسول بڑی
تعداد میں شرکت کرتے اور امیر اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ
الْعَالِیَہ کےحکمت
بھرے ملفوظات سے فیض یا ب ہوکر علم دین کی
مہک سے اپنے دل ودماغ کو معطّر کرتے ہیں۔
اسی سلسلے میں 20جولائی 2019ءکو عالمی
مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں مدنی
مذاکرے کا سلسلہ ہواجس میں کراچی کے مختلف
علاقوں سے کثیر تعداد میں عاشقانِ رسول نے شرکت کی امیر اہلِ سنّت علامہ محمد
الیاس عطّار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہنے اسلامی بھائیوں کے سوالات کے
جوابات ارشاد فرمائے ۔
مدینے شریف یا اجمیر شریف کی انگوٹھی پہننا کیسا؟
آج کاسوال
مدینے شریف یا اجمیر شریف کی انگوٹھی
پہننا کیسا؟
سوال:مدینے شریف یا اجمیر شریف
کی انگوٹھی پہننے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب:مَردوں کو چاندی کی
شرعی([1]) انگوٹھی کے علاوہ دیگر
دھاتوں کی بنی ہوئی انگوٹھی خواہ وہ مدینے شریف کی ہو یا اجمیر شریف کی پہننا ”ناجائز“ ہے۔ انگوٹھی مدینے کی ہے یہ
نہیں دیکھا جائے گا بلکہ مدینے والے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شریعت کے اَحکام دیکھے جائیں
گے لہٰذا مَرد کے لئے چاندی کی شرعی مقدار کےعلاوہ کسی بھی قسم کی دھات کی انگوٹھی
پہننا جائز نہیں ہے۔
وَاللہُ
اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہ علٰی محمَّد
[1]جب کبھی
انگوٹھی پہنئے تو اِس بات کا خاص خیال رکھئے کہ صِرف ساڑھے چار ماشہ سے کم وَزن
چاندی کی ایک ہی انگوٹھی پہنئے۔ ایک سے زیادہ نہ پہنئے اور اُس ایک انگوٹھی میں
بھی نگینہ ایک ہی ہو، ایک سے زیادہ نگینے نہ ہوں، بِغیر نگینے کی بھی مت پہنئے۔
نگینے کے وَزن کی کوئی قید نہیں۔ چاند ی کا چَھلّہ یا چاندی کے بیان کردہ وَزن
وغیرہ کے علاوہ کسی بھی دھات کی انگوٹھی یا چھلّہ مرد نہیں پہن سکتا۔
(نماز
کے احکام، ص 444تا 445)
اللہ تعالیٰ سے مُعافی مانگنے کا بہترین وقت
سوال:اللّٰہ عزوجل سے مُعافی مانگنے کے لئے سب سے بہترین وقت کونسا ہے؟
جواب:اگر بتقاضائے بَشَرِیَّت کوئی گناہ سَرزَد ہوجائے تو اُسی وقت توبہ کرنا
واجب ہے اور اللّٰہ عزّوجَلْ سے معافی مانگنے کا بہترین وقت بھی یہی
ہے کہ گناہ ہوتے ہی فوراً توبہ کرلی جائے۔
وَاللہُ
اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ
وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
جوتے پہن کر نمازِ جنازہ پڑھیں یا اُتار کر؟
آج کا سوال
جوتے پہن کر نمازِ جنازہ
پڑھیں یا اُتار کر؟
سوال:جوتے پہن کر نمازِ جنازہ پڑھیں یا اُتار کر؟ نیز بعض لوگ جوتے
اُتار کر اُن پر کھڑے ہو کر نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں تو اُن کا ایسا کرنا کیسا ہے؟
جواب:اگر
جوتا پہن کر نمازِ جنازہ پڑھیں تو جوتے اور زمین دونوں کا پاک ہونا ضروری ہے اور
جوتا اتار کر اس پر کھڑے ہو کر پڑھیں تو جوتے کے تَلے اور زمین کا پاک ہونا ضروری
نہیں۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، امامِ اَہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن ایک سوال کے جواب میں اِرشاد فرماتے ہیں: اگر وہ جگہ پیشاب
وغیرہ سے ناپاک تھی یا جن کے جوتوں کے تَلے ناپاک تھے اور اس حالت میں جوتا پہنے
ہوئے نماز پڑھی تو ان کی نماز نہ ہوئی۔ احتیاط یہی ہے کہ جوتا اتار کر اس پر پاؤں
رکھ کر نماز پڑھی جائے کہ زمین یا تَلا اگر ناپاک ہو تو نماز میں خَلل نہ آئے۔(فتاویٰ رضویہ، 9/188) (نمازِ جنازہ اور دیگر نماز کے مسائل جاننے کے لئے ”نماز کے اَحکام (حنفی)“ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کیجئے۔)
وَاللہُ
اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ
وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد