سوال:ستونِ حَنَّانہسے کیا مُراد ہے؟ نیز اس کا واقعہ بھی ارشاد فرما دیجئے۔

جواب:ستونِ حَنَّانہسے مراد کھجور کا وہ خشک تَنا ہے جس سے مسجد ِنبوی شریف علٰی صاحبھا الصَّلٰوۃ والسَّلام میں سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ٹیک لگاکر خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ جب لکڑی کا منبر اطہر بنایا گیا اور حضور تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے منبر شریف کو قدم بوسی سے مشرف فرما کر خطبہ ارشاد فرمایا: تو کھجور کے تنے سے رونے کی آواز آنے لگی، وہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فِراق (یعنی جدائی) میں رو رہا تھا تو رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم شفقت فرماتے ہوئے مبارک منبر سے اترے اور اس کو سینے سے لگا لیا تو وہ سسکیاں بھرنے لگا اور پھر آہستہ آہستہ خاموش ہوگیا۔ اسی رونے کی وجہ سے اُس تَنے کا نام حَنَّانہ پڑ گیا۔ سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے ارشاد فرمایا: اگر میں اس کو خاموش نہ کرواتا تو یہ قیامت تک روتا رہتا۔ پھر مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے فرمایا: ”اگر تُو چاہے تو تجھے اسی جگہ لگادوں جہاں تُو پہلے تھا تاکہ تُو پہلے کی طرح(تروتازہ) ہوجائے اور اگر تُو چاہے تو تجھے جنّت میں لگادوں تاکہ جنّتی تیرا پھل کھاتے رہیں! اُس نے جنّت کو اِختیار کیا تو سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم پر اسے منبر کے نیچے دفنا دیا گیا۔ حضرتِ سَیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القَوی جب یہ واقعہ بیان فرماتے تو روتے اور ارشاد فرماتے:اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندو! جب ایک درخت کا بے جان تَنا فِراقِ مصطفےٰ میں رو سکتا ہے تو تمہیں فراقِ رسول میں رونے کا زیادہ حق ہے۔(وفاء الوفاء، 1/388تا 390، دلائل النبوۃ للبیہقی، 2/556 تا 561 ماخوذاً) آج بھی مسجد ِ نبوی شریف علٰی صاحبھا الصَّلٰوۃ والسَّلام میں اس جگہ پر جہاں یہ ستونِ حنانہ تھا، پلر(Pillar) بنا ہوا ہے جس پر اُسْطُوَانَۃُ الْحَنَّانَہ لکھا ہوا ہے، عاشقانِ رسول اس مقام پر نوافل وغیرہ ادا کرتے ہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبْ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد