قرآن کی اہمیت: پارہ 23 سورہ زمر میں ارشاد ہے: اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَﳓ (پ 23، الزمر:23) ترجمہ کنز الایمان: اللہ نے اتاری سب سے اچھی کتاب کہ اول سے آخر تک ایک سی ہے دوہرے بیان والی۔

تفسیر خازن میں ہے: قرآنِ پاک احسن الحدیث کی دو صورتیں ہیں:1- لفظ کے اعتبار سے۔ 2 -معنی کے اعتبار سے۔ لفظ کے اعتبار سے اس طرح کہ قرآنِ کریم فصاحت و بلاغت کے سب سے اونچے درجے پرفائز ہے اور معنی کے اعتبار سے یوں کہ قرآنِ مجید میں کسی بھی جگہ تعارض اور اختلاف نہیں۔

حدیثِ مبارک میں ہے:اصدق الحدیث کتاب اللہ یعنی سب سے سچا کلام کتاب اللہ ہے۔ ایک اورحدیثِ مبارکہ میں ہے: خیر الحدیث کتاب اللہ یعنی بہترین کلام کتاب اللہ ہے۔( اسلامی بیانات، جلد:10)

قرآنِ مجید کے حقوق: کتاب اللہ کے کئی حقوق ہیں۔ قرآنِ مجید کا یہ حق ہے کہ ا س کی تعظیم کی جائے۔ اس سے محبت کی جائے۔اس کی تلاوت کی جائے۔اسے سمجھا جائے اور اس پر ایمان رکھا جائے اور اسے دوسروں تک پہنچایا جائے۔

قرآنِ پاک کا پہلا حق:پہلا حق قرآنِ پاک پرایمان لانا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھیے کہ اللہ پاک کی طرف سے جتنی بھی کتابیں اور صحیفے انبیائے کرام علیہم السلام پر نازل فرمائے گئے ان سب پر ایمان لانا مسلمانوں پر لازم ہے، کسی ایک کا انکار بھی کفر ہے البتہ دیگر آسمانی کتب اور قرآنِ کریم پر ایمان لانے میں ایک فرق یہ ہے کہ اُن سب کتابوں پر اجمالی ایمان لانا فرض ہے اور قرآنِ کریم پر تفصیلی ایمان لانا فرض ہے۔ اجمالی ایمان کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اللہ پاک نے نازل فرمایا اور جو کچھ ان میں بیان ہے سب حق ہے۔ اور لوگوں نے جو تبدیلیاں کیں وہ باطل ہیں۔ تفصیلی ایمان کا مطلب یہ ہے کہ الحمد کی الف سے والناس کی سین تک قرآن ِکریم کا ایک ایک لفظ اور ہر ہر حرف حق اور سچ ہے۔ اللہ پاک کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ جو قرآنِ کریم کے ایک حرف کا بھی انکار کرے وہ کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ (اسلامی بیانات، 9)

دوسرا حق:اس سے محبت کرنا ہے اور دل سے اس کی تعظیم کرنا ہے۔قرآن سے محبت کرنا سنتِ مصطفیٰ ہے۔ قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے شفا شریف میں جو عشقِ مصطفیٰ کی علامات کا شمار کیا ہے ان میں ایک محبتِ قرآنِ کریم بھی لکھی ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو یہ جاننا چاہے کہ اس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول ﷺکی محبت ہے یا نہیں تو وہ دیکھے کہ اس کے دل میں قرآنِ کریم کی محبت ہے یا نہیں؟ اگر قرآنِ کریم کی محبت اس کے دل میں ہے تو جان لے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے۔ (اسلامی بیانات جلد:9)

تیسرا حق: اس کے بیان کردہ احکام و آداب کو اپنانا اور اپنے افعال و کردار کا حصہ بنانا ہے۔پارہ 8 سورہ انعام میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ(۱۵۵) (پ 8، الانعام:155) ترجمہ کنزالایمان: یہ برکت والی کتاب ہم نے اتاری تو اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری کرو کہ تم پر رحم ہو۔

قرآنِ کریم کا اہم اور بنیادی حق اس پر عمل کرنا،اس کی اتباع کرنا اور اس کے بتائے ہوئے اندازپر زندگی گزارنا ہے۔ جب تک قرآنِ مجید پر عمل نہ کیا جائے اس وقت تک جیسا ہدایت کا حق ہے اس طرح پوری ہدایت نصیب نہیں ہو سکتی بلکہ اللہ کے آخری نبیﷺنے فرمایا: کتنے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔علمائے کرام نے اس حدیثِ مبارکہ کا ایک معنی یہ بھی لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو قرآنِ کریم کی تلاوت تو کرتا ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتا۔( اسلامی بیانات، جلد9)

چوتھاحق: اس کی تلاوت کرنا۔ ہمارا بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم تلاوت نہیں کرتیں اور ہم میں سے کئی ایسی ہیں جو صرف رمضان المبارک میں قرآن کریم کھول کر دیکھتی ہیں۔ حالانکہ ہمیں صبح و شام تلاوت کی ترغیب دلائی گئی ہے۔قرآنِ کریم کا ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ قرآن پڑھنے والے پر رحمت اترتی ہے۔ قرآن پڑھنے والا اسلام کے جھنڈے کو تھامنے والا ہے۔ ( اسلامی بیانات، جلد:9)

پانچواں حق: ا س کو سمجھنا اور دوسروں تک پہنچانا ہے۔حدیثِ مبارکہ میں ہے:قرآنِ کریم یا تو تمہارے حق میں دلیل ہوگا یا تمہارے خلاف دلیل ہوگا۔ علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:جو شخص قرآن سیکھے مگر اس سے غفلت کرے اس کے خلاف دلیل ہوگا اور اس سے زیادہ اس بندے کے خلاف ہوگا جو اس کے حقوق ادا کرنے میں کمی اور سستی کرےاوراس سے جاہل رہے۔قرآنِ مجید کو سیکھنا، سمجھنا لازمی ہے۔( اسلامی بیانات، جلد:9)

تلاوتِ قرآن کے فضائل: اس ضمن میں 4 فرمانِ آخری نبی ملاحظہ کیجیے:

1- قرآن کی تلاوت کیا کرو کہ یہ قیامت میں اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کرے گا۔

2- حدیثِ قدسی ہے کہ جسے تلاوتِ قرآن مجھ سے مانگنے اور سوال کرنے سے مشغول رکھے،میں اسے شکر گزاروں کے ثواب سے فضل عطافرماؤں گا۔

3-حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بہت سےقرآن پڑھنے والے ایسےہیں کہ جن پر قرآن لعنت کرتا ہے۔ (اسلامی بیانات، جلد:10)

صراط الجنان کی ترغیب:قرآن سے محبت کواللہ پاک اور اس کے رسولﷺ سے محبت کی علامت قرار دیا گیا ہے اور قرآن کریم سے محبت کی علامت اس پر عمل کرنابھی ہے۔ الحمدللہ امیرِ اہل ِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ تلاوتِ قرآن کو اپنا معمول بنانے اور اس کی محبت دل میں بڑھانے کے لیےنیک بننے بنانے کے نسخے میں فرماتے ہیں:” کیا آج آپ نے کنزالایمان سے کم از کم تین آیات تلاوت کرنے یا سننے کی سعادت حاصل کی ؟ “ لہٰذا ہمیں بھی اپنی عادت بنانی چاہئے کہ روزانہ کنز الایمان شریف سے مع تفسیرصراط الجنان پڑھ کر غور و فکر کے ساتھ قرآن سمجھ کر تلاوت کریں کہ اس سے عمل کا جذبہ بھی پیدا ہو گا۔اللہ پاک ہمیں محبتِ قرآن نصیب فرمائے۔ آمین


اہمیت:قرآنِ کریم اس ربِّ عظیم کا بے مثل کلام ہے جو اکیلا معبود ہے۔ قرآنِ کریم لوگوں کو کفر و جہالت کے اندھیروں سے ایمان کے نور کی طرف نکالتا ہے۔

فضیلت: قرآنِ مجید نازل ہونے کی ابتدا رمضان میں ہوئی جو کہ بابرکت مہینا ہے۔ اسے حضورﷺ کے پاس لانے کا شرف روح الامین کو ملا، شبِ معراج کچھ آیات بلاواسطہ عطا ہوئیں، اسے دنیا کی فصیح زبان عربی میں نازل کیا گیا۔ ا سےتھوڑا تھوڑاکرکے 23 سال میں نازل کیا گیا۔ قرآنِ کریم اللہ کی واضح دلیل اور اس کا نازل کیا ہوا نور ہے۔ تمام جن وانسان مل کر اس جیسا اور کوئی کلام نہیں بنا سکتے۔

حقوق:یوں تو قرآنِ کریم کے بہت سے حقوق ہیں مگر چند ملاحظہ کیجیے:

1-اولاً تو یہ ہے کہ قرآنِ عظیم کی کتابت نہایت خوش خط اور واضح حروف میں ہو۔ 2- قرآن کا حجم چھوٹانہ ہوکہ قرآنِ کریم کا حجم چھوٹا کرنا مکروہ ہے۔(تفسیر صراط الجنان،1/18)3-اس کے حقوق میں ایک یہ بھی ہے کہ اس کی طرف پیٹھ نہ کی جائے۔ 4- اس کا ادب کیا جائےاور اسے اونچی جگہ رکھیں۔5-اگر قرآنِ پاک پرا نا ہوگیا،اس قابل نہ رہا کہ اس کی تلاوت کی جائے توا سے کسی اچھی جگہ کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جائے۔

تلاوتِ قرآن پاک کے آداب:قرآنِ مجید کو نہایت اچھی آواز میں پڑھا جائے۔ آواز اچھی نہ ہوتو کوشش کرے۔ لحن کے ساتھ پڑھناکہ حروف میں کمی وبیشی ہو جائےیہ نا جائز ہے۔ (صراط الجنان، 1/ 22 )

حدیثِ پاک:حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: صاحبِ قرآن کو حکم ہو گا کہ پڑھتے رہو اور چڑھتے رہو اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسے تم اسے دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے کہ تمہارا مقام اس آخری آیت کے نزدیک ہے جسے تم پڑھوگے۔( مقدمہ صراط الجنان، 1/20 )اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے ہر آیت پر ایک ایک درجہ بلند ہوتا ہے۔

غلط پڑھنا: حديثِ پاک:حضرت عبیدہ ملیکی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے قرآن والو!قرآن کو تکیہ نہ بناؤ یعنی سستی اور غفلت نہ برتو اور رات اور دن میں اس کی تلاوت کرو جیسا تلاوت کرنے کا اس کا حق ہے اور اس کو پھیلاؤ اورتغنی کرو یعنی اچھی آواز سے پڑھو یا اس کا معاوضہ نہ لو اور جو کچھ اس میں ہے اس پر غور کرو تا کہ تمہیں فلاح ملے۔ اس کے ثواب میں جلدی نہ کرو کیونکہ اس کا ثواب بہت بڑا ہے۔آیت کاترجمہ: اور اے حبیب!ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن نازل فرمایا ہے تاکہ وہ غور و فکر کریں۔


قرآنِ کریم اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت عظیم کتاب ہے  جو حضور اکرمﷺ پر نازل ہوئی جو اللہ کے آخری نبی ہیں۔سورہ یونس میں ارشاد ہوتا ہے:اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نعمت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے مرضوں کی شفا ہے اور ہدایت ورحمت ہے۔

جو قرآن کو درست طریقہ سے پڑھتا ہے قر آن اس کی شفاعت کرتا ہے۔

(1) قرآن پر ایمان لانا: قرآنِ کریم کا پہلا حق ہے اس پر ایمان لانا۔ اس کے تقاضوں سمیت ایمان لانے سے دنیا و آخرت کی برکتیں نصیب ہوتی ہیں۔قرآنِ کریم پر تفصیلی ایمان لانا فرض ہے۔قرآنِ کریم کو ” کتابِ ہدایت“ ماننا بھی یقیناً قرآن پر ایمان لانے کا حصہ ہے۔ اللہ پاک نے جتنی بھی کتابیں نازل فرمائی ہیں ان پر ایمان لاناہر مسلمان پر لازم ہے۔ الله پاک کی کسی بھی ایک کتاب کا انکار کفر ہے۔ یہ قرآنِ کریم زندہ و جاوید کتاب ہے۔ اس میں بیان کی گئی تعلیمات قیامت تک کے تمام مسائل کے حل کے لیے کافی ہیں اور بہتر بھی۔

صحابیِ رسول حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: قرآنِ کریم شفاعت کرنے والا ہے اور اس کی شفاعت قبول بھی کی جائے گی۔

گر تومی خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جزبہ قرآن زیستن!

ترجمہ: اگر مسلمان بن کر زندگی گزارنا چاہتے ہو تو بغیر قرآن کے ایسا ہر گز ممکن نہیں ہے۔( قرآن کے حقوق، ص6-7)

(2)قرآنِ کریم کی محبت و تعظیم: قرآنِ کریم کا دوسراحق ہے اس سے محبت کرنا اور دِل سے اس کی تعظیم کرنا۔ قرآنِ مجید سے محبت کرنا سنتِ مصطفٰے ہے۔ ہمارے پیارے نبیﷺقرآن سے بہت محبت فرماتے تھے۔قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے شفا شریف میں”عشقِ مصطفٰے“ کی علامات کا شمار کیا تو ان میں ایک علامت”محبتِ قرآن“لکھی کہ جو شخص قرآن سے محبت کرتا ہے وہی رسولِ کائنات،فخرِ موجودات ﷺ سے بھی محبت کرتا ہے۔ حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جو یہ جاننا چاہتا ہے کہ رسول الله ﷺاور اللہ کی محبت اس کے دل میں ہے یا نہیں وہ دیکھے کہ قرآنِ کریم سے محبت کرتا ہے یا نہیں؟ اگر تو اس کے دل میں قرآنِ کریم کی محبت ہے تو سمجھ لے وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے بھی محبت کرتا ہے۔ ( قرآن کے حقوق،ص10-11)

الٰہی رونقِ اسلام کے سامان پیدا کر دلوں میں مومنوں کے الفتِ قرآن پیدا کر

(3) قرآن پر عمل کرنا:قرآن کاتیسراحق ہے:قرآنِ پاک کے بیان کر دہ آدابِ زندگی اپنانا اور اس کے بتائے ہوئے اخلاق کو اپنے کردار کا حصہ بنانا۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ(۱۵۵) (پ 8، الانعام:155) ترجمہ کنزالایمان: یہ برکت والی کتاب ہم نے اتاری تو اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری کرو کہ تم پر رحم ہو۔

معلوم ہوا! قرآنِ کریم کا اہم اور بنیادی حق اس پر عمل کرنا، اس کی کامل اتباع کرنا اور اس کے بتائے ہوئے انداز پر زندگی گزارنا ہے۔ قرآنِ کریم کتابِ ہدایت ہے۔ بے شک اسے دیکھنا بھی عبادت ہے۔ اسے چھونا بھی عبادت ہےاور اس کی تلاوت بھی عبادت ہے۔ مگر اس کے باوجود جب تک اس پر عمل نہ کیا جائے اس وقت تک کما حقہ ہدایت نصیب نہیں ہو سکتی۔ الله کے آخری نبی ﷺ نے فرمایا:کتنے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن اُن پر لعنت کرتا ہے۔ علمائےکرام نے اس حدیث کا ایک معنی یہ بھی لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو قرآنِ کریم کی تلاوت تو کرتا ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتا۔ ( قرآن کے حقوق، ص 13-12)

عمل کا ہو جذبہ عطایا الٰہی! گناہوں سے مجھ کو بچایا الٰہی!

ہو اخلاق اچھا،ہو کر دار ستھرا مجھے متقی تو بنا یا الٰہی!

(4)اس کی تلاوت کرنا: قرآن کا چو تھا حق ہے اس کی تلاوت کرنا۔ قرآن کی تلاوت کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا اس پر عمل کرنا۔ہمیں صبح و شام،دن رات تلاوتِ قرآن کی ترغیب دی گئی ہے۔1- تلاوتِ قرآن افضل عبادت ہے۔2-قرآن کریم کا ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔3-جو صبح قرآن ختم کرے تو شام اور جو شام کو ختم کرے تو صبح تک فرشتے اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔4- قرآن پڑھنے سے رحمت اترتی ہے۔5-قاریِ قرآن اسلام کے جھنڈے کو تھامنے والا ہے۔6- قاریِ قرآن اللہ کا خاص بندہ ہے۔ 7- قرآن پڑھنے والا عذابِ الٰہی سے محفوظ رہتا ہے۔8-قرآن پڑ ھنے والا اس کی برکت سےترقی کرتا ہے۔9-قرآن پڑھنے والا بڑے درجات حاصل کرتا ہے۔ 10-قرآن پڑھنے والے کی بروزِ قیامت شفاعت کی جائے گی۔

ایسے ثوابات و ایسے فائدے ہیں قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے کے لیکن ہم قرآن کی تلاوت نہیں کرتے جیسے کھائے بغیر ہمارا دن نہیں گزرتا ایسے ہی قرآن کی تلاوت بھی روح کی غذا ہے۔( قرآن کے حقوق،ص18-19)

یہی ہے آرزو تعلیمِ قرآن عام ہو جائے تلاوت کرنا صبح و شام میں میراکام ہو جائے

(5) قرآنِ کریم سمجھنا اور اس کی تبلیغ کرنا:قرآن کا پانچواں حق اس کوسمجھنا اور اس کی تبلیغ کرنا ہے۔ حضور پر نور ﷺ نے قرآن کے بے شمار اوصاف بیان فرمائے میں۔ان میں سے ایک وصف قرآنِ پاک دلیل ہے یا تو تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف۔علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جو شخص قرآن سیکھے مگر اس سے غفلت کرے قرآن اس کے خلاف دلیل ہوگا اور اسے بڑھ کر اس بندے کے خلاف دلیل ہو گا جو قرآنِ کریم کے حق میں کمی کرے اور اس سے جاہل رہے۔

قرآن کو سیکھنا بھی لازمی ہے۔ اگرہم قرآن سیکھیں گی نہیں، سمجھیں گی نہیں تو اس پر عمل کیسے کرسکیں گی؟ اور دوسروں تک کیسے پہنچائیں گی؟ ہمیں قرآن کو پڑھ کر سمجھنا چاہیے کہ قرآن ہمیں کیا حکم دے رہا ہے۔ پھر اسے سمجھ کر دوسروں تک پہنچائیں۔(قرآن کے حقوق، ص 20 )

سینہ تیری سنت کا مدینہ بنے آقا! جنت میں پڑوسی مجھے تم اپنا بنانا


وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ(۱۵۵) (پ 8، الانعام:155) ترجمہ کنزالایمان: یہ برکت والی کتاب ہم نے اتاری تو اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری کرو کہ تم پر رحم ہو۔معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید کا اہم اور بنیادی حق اس پر عمل کرنا، اس کی کامل اتباع کرنااور اس کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔قرآنِ مجید کتابِ ہدایت ہے۔ اسے دیکھنا بھی عبادت، اسے چھونا بھی عبادت ہے۔ اس کی تلاوت کرنا بھی عبادت ہے۔قرآنِ مجید کو اچھی آواز سے پڑھنا چاہیے۔ مگر لحن کے ساتھ پڑھنا اورحروف میں کمی و بیشی کرنا ناجائز ہے۔قرآنِ پاک کو جزدان و غلاف میں رکھنا افضل ہے۔(قرآن کے حقوق،ص12)

قرآن پر ایمان لانا:قر آنِ مجید کا پہلا حق ہے اس پر ایمان لانا:یہاں یہ بات یاد رکھئے کہ اللہ پاک نے جتنی بھی کتابیں نازل فرمائیں، جتنے بھی صحیفے انبیائے کرام علیہ السّلام پر نازل فرمائے ان سب پر ہی ایمان لانا ایک مسلمان پرلاز م ہے۔ قرآنِ پاک پر تفصیلی ایمان فرض ہے یعنی الحمد کی الف سے لے کر والناس کی سین تک قرآن کریم کا کا ایک ایک لفظ، ایک ایک جملہ اور ایک ایک حرف حق ہے سچ ہے۔

آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم حکمت او لایزال است و قدیم

(قرآن کے حقوق،ص5)

قرآنِ کریم کی محبت و تعظیم: قرآنِ مجید کا دوسرا حق ہے”اس سے محبت کرنا اور دل سے اس کی تعظیم کرنا۔“الحمد لله قرآنِ مجید سے محبت کرنا سنتِ مصطفٰے ہے۔ قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے شفا شریف میں عشقِ مصطفٰے کی علامات کا شمار کیا تو ان میں ایک علامت” محبتِ قرآن“ لکھی کہ جو شخص قرآن سے محبت کرتا ہے وہی شخص اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔حضرت عبد الله بن مسعودرضی الله عنہ فرماتے ہیں: جویہ جاننا چاہے کہ اس کے دل میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی کتنی محبت ہے تو وہ قر آن کو دیکھے اگر اس کو قرآن سے محبت ہے تو اس کو اللہ اور اس کے رسول سے بھی محبت ہے۔

الٰہی رونقِ اسلام کے سامان پیداکر دلوں میں مومنوں کے الفتِ قرآن پیدا کر

(قرآن کے حقوق،9)

قرآن پر عمل کرنا: قر آنِ مجید کاتیسرا احق ہے قرآنِ مجید کےبیان کردہ آداب زندگی اپنانا اور اس کے بنائے ہوئے اخلاق کو اپنے کردار کا حصہ بنانا۔ قرآنِ مجید پر جب تک عمل نہ کیا جائے اس وقت تک کما حقہ ہدایت نصیب نہیں ہو سکتی بلکہ اللہ پاک کے آخری نبی، مکی مدنی ﷺ نے فرمایا:کتنے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پرلعنت کرتا ہے۔حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے ولی الله ہیں۔ تو بہ سے پہلے آپ بہت بڑے ڈاکو تھے۔ لوگ آپ کےنام سے بھی ڈرتے تھے۔ آپ نے قرآن کی ایک آیت پر عمل کیا اور آپ کا حال ایسا ہو گیا جیسے کسی نے آپ کے دل پرتیر ماردیا ہو۔ آپ یہ آیت سن کر زاروقطاررونے لگے اوربارگاہِ الٰہی میں عرض کی:مولا! اب تیری راہ چلنے کا وقت آگیا ہے۔

عمل کا ہو جذبہ عطایا الٰہی! گنا ہوں سے مجھ کو بچایا الٰہی!

ہو اخلاق اچھا، ہو کر دار ستھرا مجھے متقی تو بنا یا الٰہی

(قرآن کے حقوق،ص11)

قرآنِ مجید کا چو تھا حق: قرآنِ مجید کاچو تھا حق ہے اس کی تلاوت کر نا۔ یہ بھی ہمارے معاشرے کا بڑا المیہ ہے کہ ہم تلاوت نہیں کرتیں۔ کتنے حفاظ ایسے ہیں جو صرف رمضان ہی میں قرآنِ مجید کھول کر دیکھتے ہیں، حالانکہ ہمیں صبح شام، دن رات تلاوتِ قرآن کی ترغیب دی گئی ہے۔ تلاوتِ قرآن افضل عبادت ہے۔قرآنِ کریم کا ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیوں کا ثواب ہے۔ قرآن پڑھنے سے رحمت اُترتی ہے۔ فرشتے پروں سے سایہ کرتے ہیں۔ سکینہ نازل ہوتا ہے۔ قاریِ قرآن الله پاک کا خاص بندہ ہے۔ قرآن پڑھنے والا عذاب الٰہی سے محفوظ رہتا ہے۔قرآن پڑھنے والا اس کی برکت سےترقی کرتا اور بڑے درجات حاصل کر لیتا ہے۔

یہی ہےآرزو تعلیمِ قرآن عام ہو جائے تلاوت کرناصبح و شام میرا کام ہو جائے

(قرآن کے حقوق،ص12)

قرآنِ مجید سمجھنا اور اس کی تبلیغ: قرآنِ کریم کا پانچواں اور چھٹا حق ہے”قرآنِ مجید کو سمجھنا اور سمجھ کر دوسروں تک پہنچانا“ حضور جانِ رحمت ﷺ نے قرآنِ مجید کے بے شمار اوصاف بیان فرمائے ہیں، ان میں ایک وصف یہ بیان فرمایا کہ قرآن دلیل ہے۔ یہ یا تو تمہارے حق میں دلیل بنے گا یا تمہارے خلاف دلیل ہوگا۔ علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو شخص قرآن سیکھے مگر اس سے غفلت کرےقرآن اس کے خلاف دلیل ہو گا اور اس . سے بڑھ کر اس بندے کے خلاف دلیل ہوگا جو قرآنِ مجید کے حق میں کمی کرے اور اس سے جاہل رہے۔قرآنِ مجید سیکھنا کیسے ہے ؟ اسے سمجھنا کیسے ہے؟ان سب سوالوں کا صرف ایک ہی جواب ہے عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہو جائیں جو ہمیں قرآنِ مجیدپڑھنا سکھاتی اور اسے سمجھنے کاجذبہ بھی فراہم کرتی ہے۔

الٰہی خوب دیدے شوق قرآن کی تلاوت کا شرف دےگنبدِ خضرا کے سائے میں شہادت کا

(قرآن کے حقوق،ص19)


اللہ پاک نے ہمارے پیارے آقا کریم ﷺ کو بے شمار معجزات عطا فرمائے۔ انہی معجزات میں ایک بےمثال معجزہ قرآنِ پاک ہے جو ہماری ہر قدم پر رہنمائی کرتا ہے۔ قرآنِ پاک کلام الٰہی ہے جو نبی کریم ﷺ پر نازل ہوا۔ قرآنِ پاک ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیں خود اس کو سیکھنے کی تر غیب ار شاد فرمائی چنانچہ ارشاد فرمایا: خَیْرُکُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗترجمہ:تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ حضرت ابو عبدالرحمن سلمی رضی اللہ عنہ مسجد میں قرآنِ پاک پڑھایا کرتے اور فرماتے:اسی حدیثِ مبارک نے مجھے یہاں بٹھا رکھا ہے۔(بخاری،3/41،حدیث:527)ایک اور حدیثِ پاک میں قرآنِ پاک کو افضل عبادت فرمایا چنانچہ ارشاد فرمايا:اَفْضَلُ الْعِبَادَةِ قِرَاءَةُ الْقُرْاٰنِ افضل عبادت قرآنِ پاک کی تلاوت ہے۔(معجم الصحابہ،1 /56، حدیث:51)اس حدیثِ پاک میں قرآنِ مجید کی تلاوت کو افضل عبادت قرار دیا ہے اور کیوں نہ افضل عبادت قرار دیا جائے کہ اس کے پڑھنے کی بے شمار برکتیں ہیں اور اس کو پڑھنےسے ثواب کا انبارلگ جاتا ہے۔ جیسا کہ حدیثِ مبارکہ میں ہے: جس شخص نے قرآنِ مجید کا ایک حرف پڑھا اس کے لیے دس نیکیاں ہیں۔(مسند الرویانی،1/397،حدیث: 405)

قرآنِ مجید، فرقانِ حمید کی تلاوت بے شمار اجر و ثواب کے حصول کا ذریعہ ہے جیسا کہ قرآنِ مجید میں اللہ پاک ہمیں اس کو کس طرح پڑھیں اس سے متعلق تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) 29، المزمل:4) ترجمہ کنز الایمان: اور قرآن خوب ٹھہرٹھہر کر پڑھو۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اطمینان کے ساتھ اس طرح قرآن پڑھو کہ حروف جداجدار ہیں، جن مقامات پر وقف کرنا ہے ان کا اور تمام حرکات اور مدات کی ادائیگی کا خاص خیال رہے۔ (تفسیر صراط الجنان)

ہمارے آقا کریم ﷺ کا اندازِ تلاوت کیا ہی پیارا اورمیٹھا تھا چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کی قراءت کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ایک ایک حرف الگ الگ پڑھتے۔ (ابو داود، 2/105، حدیث: 1466)

قرآنِ پاک کو خوب ٹھہر کر اچھے انداز میں خوش الحانی یعنی اچھی آواز کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ اس سے متعلق نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر چیز کے لیے زیور ہے اور قرآنِ کریم کا زیور خوبصورت آواز( میں اسے پڑھنا) ہے۔ (معجم الاوسط، 5/339،حدیث:7531)اور جو قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھے اس کے متعلق ارشاد فرمایا:اور جو قرآن کو خوش آوازی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں۔ (بخاری، 4/582، حدیث: 7527)ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید کو ہمیشہ خوش الحانی کے ساتھ ہی پڑھنا چاہیے۔

قرآنِ پاک کی کیا شان ہے کہ بروزِ قیامت قرآنِ پاک بھی شفاعت کرےگا اور جنت میں لےکر جائے گا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا: جس نے قرآنِ مجید سیکھا اور سکھایا اور جو کچھ قرآنِ پاک میں ہے اس پر عمل کیا قرآن شریف اس کی شفاعت کرے گا اور جنت میں لے جائے گا۔ (الموتلف والمختلف للدارقطنی،20/830)

دیکھا آپ نے! تلاوتِ قرآنِ پاک کا معمول بنا لیں تو ہم جنت میں جا سکتی ہیں مگر یاد رکھیے !یہ تمام اجر و ثواب ان کے لیے ہے جو قرآن کو درست پڑھیں۔ غلط قرآنِ پاک پڑھنے والوں کے متعلق وعید بھی موجود ہے چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ (غلط پڑھنے کی وجہ سے) قرآن اُن پر لعنت کرتا ہے۔ (احیاء العلوم)

غور تو کیجیے! قرآنِ پاک کو درست پڑھنا کس قدر ضروری ہے لہٰذا قرآنِ پاک کو تجوید کے ساتھ ہی پڑھنا چاہیے۔ ہم ویسے بھی نجانے اپنے دن کا بہت سا وقت موبائل فون یا فضول کاموں میں ضائع کر دیتی ہیں۔ اگر ہم کچھ وقت اس عظیم کتاب کو سیکھنےمیں لگادیں تو ان شاء اللہ جلد ہی قرآنِ پاک کی درست تلاوت بھی سیکھ سکیں گی اور تلاوت کرکے بے شمار اجروثواب کمانے کی حق دار بھی بن جائیں گی۔ اللہ پاک ہمیں صحیح طریقے سے قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

یادر ہے! قرآنِ پاک کو درست پڑھنا اہم اور بے حد ضر وری ہےمگر اس میں غور و فکر کرنا اس کے احکام کو سمجھنا اس کی تفسیر پڑھنا بھی اہم ہے تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ قرآن میں ہمارا رب کریم ہم سے کیا فرما رہا ہے ؟ اگر ہمیں یہ معلوم ہو گا تب ہی تو ہم اس پر عمل کر پائیں گی! امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ نیک اعمال کے رسالے میں بھی قرآنِ پاک کی روزانہ تفسیر پڑھنے کا ذہن دیتے ہیں اور لکھتے ہیں: کیا آج آپ نے 3 آیات مع ترجمہ اور تفسیر تلاوت فرمائی ؟ اس نیک عمل پر عمل کرنا بے حد آسان ہے۔ ہم روزانہ صراط الجنان پڑھ کر کہ جس میں مفتی قاسم عطاری صاحب نے آسان انداز میں تفسیر لکھی ہے، نیک عمل پر استقامت حاصل کرسکتی ہیں۔ الله پاک ہمیں قرآن کی سچی محبت نصیب فرمائے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


قرآنِ کریم اس ربِّ عظیم کا بے مثل کلام ہے جو اکیلا معبود،تنہا خالق اور ساری کائنات کا حقیقی مالک ہے۔ قرآن کر یم حضرت محمدﷺ پر نازل ہوا۔قرآنِ مجید نازل ہونے کی ابتدا رمضان کے بابر کت مہینےمیں ہوئی۔قرآنِ مجید کو تورات وانجیل کی طرح ایک ہی  مرتبہ نہیں اتار اگیا بلکہ حالات و واقعات کے حساب سے تھوڑا تھوڑا کر کے تقریباً 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا۔ اللہ پاک نے جو عظمت وشان قرآنِ مجید کو عطا کی ہے وہ کسی اور کلام کو حاصل نہیں۔

قرآنِ کریم کے پانچ حقوق ہیں:(1)قر آنِ پاک پرایمان لانا (2) قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا(3)قرآنِ کریم کو سمجھنا (4) قرآنِ کریم پر عمل کرنا (5) قرآن کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانا۔

قرآنِ کریم پرایمان لانا:قرآنِ کریم اللہ پاک کی آخری کتاب ہے۔یہ بڑی برکت والی کتاب ہے۔سب مسلمانوں کو چاہیے کہ اس کی پیروی کریں۔ اس پر ایمان لائیں اور پر ہیز گار بن جائیں تاکہ اللہ پاک ان پر رحم کر ے۔ وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ(۱۵۵) (پ 8، الانعام:155) ترجمہ کنز العرفان:اور یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے بڑی برکت والا ہے تو تم اس کی پیروی کرو اور پرہیز گار بنو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔

اس پر ایمان لاؤ: قرآنِ مجید واحد کتاب ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت کا باعث ہے۔قرآنِ مجید پر ایمان لاؤ اور اس کی تعلیمات پر عمل کرو۔

قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا:حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہما سے روایت ہے،سیدالمرسلینﷺ نے ارشادفرمایا: دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہےجس طرح لو ہے میں پانی لگنے سے زنگ لگتا ہے۔ عرض کی گئی: یا ر سول الله ﷺ!اس کی صفائی کس چیز سے ہوگی ؟ ارشاد فرمایا: تلاوت ِقرآن سے۔

تلاشِ علم تو پہنچ گیا کہاں سے کہاں تک جہاں میں

بتا تو سہی وہ کون سا سبق ہے جو خدانے نہیں دیا قرآن میں!

وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) (پ 29، المزمل: 4)ترجمہ کنز العرفان:اور قرآن کوٹھہر ٹھہرکر پڑھا کر۔

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا۔ جب تم اسے پڑھو یعنی تلاوت کرو تو رؤو اور اگر رونہ سکو تو رونے کی شکل بنا ؤ۔قرآنِ پاک کو ٹھہر ٹھہرکرا چھے انداز میں پڑھنا چا ہیے۔ قرآنِ مجید اپنے پڑھنے اور عمل کرنے والوں کی شفاعت الله رب کریم سے کرےگا اور اللہ پاک اس کی سفارش قبول فرمائے گا۔

قرآنِ مجید کو سمجھنا:فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے:جس نے قرآن پڑھا اور اس کو یاد کر لیا، اس کے حلال کو حلال سمجھا اور حرام کو حرام جانا۔اس کے گھر والوں میں سے دس شخصوں کے بارے میں اللہ پاک اس کی شفاعت قبول فرمائے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی تھی۔

قرآنِ کریم کو سمجھ کر پڑھنا چا ہیے اور اس پر عمل کرناچاہیے۔ وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ (پ 14، النحل:89) ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا جو ہر چیز کا روشن بیان ہے۔

قرآنِ مجید پر عمل:قرآن مسلمانوں کے لیے ہدایت،رحمت،بشارت،نصیحت اور شفا ہے۔ اس پر عمل کرنا چاہیے۔ اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ (پ 15، بنی اسرائیل:9) ترجمہ کنز العرفان:بے شک قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو سب سےسیدھی ہے۔

قرآن ہی وہ ہے جسے جنات نے سنا تو یہ کہے بغیر رہ نہ سکے کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو صلاحیت کی رہبری کرتا ہے۔ تو ہم اس پر ایمان لائے جو قرآن کا قائل ہو۔ وہ سچاہے جس نے اس پر عمل کیاثو اب پائے گا۔

قرآن کی تعلیمات کو دوسر وں تک پہنچانا:حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔

هٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ مَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ(۱۳۸) (پ 4، اٰل عمرٰن:138 ) ترجمہ کنز العرفان: یہ لوگوں کے لیے ایک بیان اوررہنمائی ہے اور پر ہیز گاروں کے لیے نصیحت ہے۔

قرآنِ مجید پر عمل کے نتیجے میں اللہ پاک انسان کودنیا اور آخرت دونوں میں سر بلندی عطا کرتا ہے۔ اس لیے ہمیں بھی قرآن کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے اور دوسروں تک پہنچانا چاہیے۔قرآنِ مجید کے ہر حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور دوسروں کو سکھانے سے دو گنا ثواب ملے گا۔

قرآنِ مجید کے متعلق اللہ پاک کا وعدہ ہے۔ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(۹)(پ 14، الحجر: 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بےشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔

اللہ پاک تمام مسلمانوں کو قرآنِ مجید سمجھ کر پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 


تمام خوبیاں اللہ پاک کے لیے ہیں جس نے اپنے محبوب اور قرآنِ پاک کے ذریعے اپنے بندوں پر احسان کیا۔قرآنِ پاک اللہ پاک کا نازل کیا ہو ابہت ہی بابرکت کلام ہے۔ اگر اس کی تلاوت اس طرح کی جائے جس طرح ادا کرنے کا حق ہے تو ایک حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔کچھ  لوگ ایسے ہیں کہ جب وہ تلاوت کرتے ہیں تو قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔ وہ بجائے ثواب کمانے کے گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ قرآنِ پاک کے حق ادا کرنے کے لیے اس کے حقوق جاننا ضروری ہے۔ لہٰذا اس کے حقوق پیشِ خدمت ہیں: (1) کتابِ الٰہی پر ایمان لانا (2)تلاوت کرنا (3)ا حکام سیکھنا(4) عمل کرنا(5)اس کی تبلیغ کرنا۔

کتابِ الٰہی پر ایمان لانا: قرآنِ مجید کی برکتیں اور فضیلتیں حاصل کرنے کے لیے اس پر ایمان لانا شرط ہے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے:اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو اس سے پہلے نازل کی ان سب پر ہمیشہ ایمان رکھو۔(النساء: 136)

مومن ہونے کے لیے اس کتاب پر ایمان لانا ضروری ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر ایمان کامل نہیں ہو سکتا نیز دنیا و آخرت کی کا میابی کی بھلائی کا دارو مدار اسی پر ہے۔ اور یہ اس وقت ممکن ہے جب قرآنِ مجید پر ایمان رکھا جائے۔

تلاوت کرنا:قرآنِ پاک کے حقوق میں سے تلاوت کرنا بھی ہے۔ اس طرح تلاوت کرنا کہ قرآن پاک کا حق ادا ہو جائے،آخرت میں کامیابی کی سند ہے۔ امیر المؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ روزانہ صبح قرآنِ مجید کو چومتے اور فرماتے:یہ میرے رب کا عہد اور اس کی کتاب ہے۔

اجرِ عظیم حاصل کرنے کے لیے تلاوت کرنے کے آداب سیکھنا ضروری ہیں۔ لہٰذا آداب پیشِ خدمت ہیں: (1)تلاوت کرنےوالی کو چاہیے کہ باوضو ہو(2)ادب وسکون کی میں حالت بیٹھی یا کھڑی ہو(3)رُخ قبلہ کی جانب ہو(4) نہ چوکڑی لگائے اور نہ ہی ٹیک لگائے (5) یوں بیٹھے جیسےاستانی کے سامنے بیٹھی ہو(6) سب سے افضل طریقہ نماز کی حالت میں قراءت کرنا ہے۔ (7)تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کرنی چاہیے۔قرآن شریف میں ارشادِ باری ہے۔ وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) (پ 29، المزمل: 4)ترجمہ کنز العرفان:اور قرآن کوٹھہر ٹھہرکر پڑھا کر۔ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا قرآنِ مجید سے ثابت ہے اور زیادہ پڑ ھنا ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے سے مانع ہے اور سمجھنے سے محرومی کا باعث ہے۔حدیثِ پاک میں ہے:جس نے تین دن سے کم میں پڑھا اس نے سمجھا نہیں۔ ( مراٰۃ المناجیح،جلد 3)

احکام سیکھنا:احکام سیکھنا بھی قرآنِ پاک کے حقوق میں سے ہے،چنانچہ یہ حق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے:تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا۔(بخاری، 3/410) قرآنِ پاک زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ کامیاب زندگی گزارنے کا نسخہ قرآنِ پاک کے احکام سیکھنا ہے۔ اللہ پاک خود ارشاد فرماتا ہے: فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۷)
(پ 17، الانبیاء: 7) ترجمہ کنز الایمان: تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہ ہو۔ معلوم ہوا کہ احکام ِقرآن سیکھناقرآن سے ثابت ہے۔

عمل کرنا:عمل کرنا یعنی جو قرآن سے سیکھا اس پر عمل کرنا بھی قرآن کا حق ہے۔قرآنِ پاک کے حقوق ادا کرنے میں در اصل ہمارا فائدہ ہے۔حدیثِ پاک میں ہے:جس نے قرآنِ پاک سیکھا اور سکھایا اور جو کچھ قرآنِ پاک میں ہےاس پر عمل کیا، قرآن شریف اس کی شفاعت کرے گا اور جنت میں لے جائے گا۔ ( طبرانی)

جو قرآنِ پاک کی شفاعت اور جنت میں داخلے کی خواہشمند ہو تو اسے چاہیے کہ قرآنِ پاک پر عمل کرے۔ قرآنِ پاک میں الله پاک فرماتا ہے:بے شک جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔ (بروج:11)

اس کی تبلیغ کرنا:قرآنِ پاک کا ایک حق تبلیغ کرنا بھی ہے۔تبلیغ کرنا آقا کریم ﷺکی سنت بھی ہے۔ ہمیں اس نسبت سے تبلیغ کرنی چاہیئے کہ خود ہمارے نبی ﷺنے قرآن کی تبلیغ کی،اس راہ میں آپ کو سب سے زیادہ ستایا گیا مگر آپ نے دعوت ترک نہ کی۔ حدیث شریف میں ہے: مجھ سے ایک آیت بھی سنو تو اسے آگے پہنچا دو۔ ( مسلم)یعنی اس کی تبلیغ کر دو۔ حدیث شریف پر عمل کرتے ہوئے تبلیغ کرنے کا رجحان بڑھانا چاہیے۔ تبلیغ کرنے والے کو چاہیے کہ اپنا اخلاق سنوارے اور خوبصورت انداز میں دعوت دے۔ قرآنِ مجید میں تو لوگوں کو دین کی طرف دعوت دینے کا بیان کچھ یوں ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ- (پ 14، النحل: 125) ترجمہ کنز الایمان: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکّی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو۔ جو قرآنِ پاک کی ایک آیت بھی سکھاتا ہے جب تک اس کی تلاوت ہوتی رہے گی اسے ثواب پہنچتا رہے گا۔ اللہ پاک ہمیں اپنے کلام کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

عطا ہو شوق مولیٰ! مدرسے میں آنے جانے کا خدایا! ذوق دے قرآن پڑھنے پڑھانے کا


جہاں اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیاو رسل بھیجے،ان کے ساتھ آسمانی کتابیں بھی بھیجیں تاکہ ان کے مطابق عمل کیا جائے۔ ہمارے پیارے نبی،حضرت محمد مصطفٰے ﷺ الله پاک کے آخری نبی ہیں۔الله پاک نے آپ ﷺپر قرآنِ عظیم اُتارا جو ایک مکمل ضابطۂ حیات   ہے۔

قرآنِ مجید کے بھی حقوق ہیں:ان میں سے پہلا حق: قرآنِ مجید پر ایمان لانا۔ قرآنِ پاک سرا پا ہدایت ہے۔اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ- (پ 1، البقرة:4 ) ترجمہ کنز الایمان:اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اُترا۔

جس طرح قرآنِ پاک پر ایمان لانا ہر مکلف پر ”فرض “ہے۔اسی طرح پہلی کتابوں پر بھی ایمان لانا ضروری ہے جو کہ گزشتہ انبیا پر نازل ہوئیں۔ قرآنِ پاک پر یوں ایمان رکھنا فرض ہے کہ جو موجود ہے ہمارے پاس اس کا ایک ایک لفظ اللہ پاک کی طرف سے ہے اور برحق ہے۔

قرآنِ مجید نازل ہونے کی ابتدا رمضان کے بابرکت مہینے میں ہوئی اور نبی کریم ﷺ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں لانے کا شرف روحُ الامین حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حاصل ہوا۔ قرآنِ کریم روشن اور واضح دلیل ہے۔ اس کے بغیر انسان مسلمان نہیں ہو سکتا۔ ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا(۱۷۴) (النساء:174) ترجمہ کنزالعرفان:اے لوگو!بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آگئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور نازل کیا۔

وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

قرآنِ کریم کا دوسرا حق: یہ ہے کہ قرآن ِعظیم کی تلاوت کی جائے۔چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ کنز العرفان:بے شک وہ لوگ جو اللہ کے قرآن کی تلاوت کرتےہیں اورنماز قائم رکھتے ہیں اور ہمارےدیے ہوئے میں سے اعلانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو ہرگز تباہ نہیں ہو گی۔ تاکہ اللہ ان کو ثواب بھر پور دے اور اپنےفضل سے اور زیادہ عطا کرے۔ بے شک وہ بخشنے والا قدر فرمانے والا ہے۔ (الفاطر: 29-30)

حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کا فرمانِ عظمت نشان ہے: خَیْرُکُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗتم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔(بخاری، حديث: 5027)

قرآنِ مجید دیکھ کر پڑھنا زبانی پڑھنے سے افضل ہے۔ یہ اسے دیکھنا بھی ہوا اور چھونا بھی اور یہ تمام کام عبادت میں شامل ہیں۔ جب بلند آواز میں قرآن پڑھا جائے تو جو سننے کی نیت سے حاضر ہوئے ہوں ان پر سننا واجب ہے۔

قرآنِ پاک کا تیسرا حق یہ ہے کہ اس کو سمجھا جائے:یعنی اس کے قواعد و قوانین کو سمجھا جائےاور اس کے بارے میں غوروفکر کیا جائے۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْۤا اٰیٰتِهٖ وَ لِیَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۲۹) (پ 23، صٓ: 29)ترجمہ کنز العرفان: ترجمہ كنز العرفان: یہ (قرآن) ایک برکت والی کتاب ہے جو ہم نےتمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور عقلمند نصیحت حاصل کریں۔

یہ انتہائی اثر آفرین کتاب ہے۔ یہ ایک زندہ جاوید معجزہ اور حیران کر دینے والا ہے۔قرآنِ عظیم کا اسلوب، الفاظ، فصاحت و بلاغت اور ادبی کمال اتنا بلند ہے کہ نہ کوئی اس کا مقابلہ کر سکا، نہ کر سکے گا۔

قرآنِ کریم کے کثیر اسما ہیں:(1)قرآن (2) نور(3)مصحف(4) برہان(5)کتاب(6)فرقان

قرآنِ مجید کے تمام احکامات پر عمل کرنا:یہ بھی قرآنِ عظیم کا حق ہے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے:

وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ(۱۵۵) (پ 8، الانعام:155) ترجمہ کنز العرفان:اور یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے بڑی برکت والا ہے تو تم اس کی پیروی کرو اور پرہیز گار بنو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔

اللہ مجھے حافظ قرآن بنا دے قرآن کے احکام پہ بھی مجھ کو چلا دے

یہ کلام سیدھا ہے۔ اس میں کسی قسم کا ٹیڑھا پن نہیں بلکہ نہایت معتدل اور مصالحِ عباد پر مشتمل کتاب ہے۔ اس کی پیروی پر دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔قرآنِ پاک نے جن جن باتوں کا حکم دیا اور منع کیا ان سب پر عمل کرنا ہمارا فرض ہے۔ یہ محفوظ کتاب ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ پاک نے لیا ہے۔ الغرض یہ برکت والی کتاب ہے اور تمام مسلمانوں کو چا ہیے اسی کی پیروی کریں اور ہدایت پائیں۔

قرآن ِکریم کی تبلیغ کرنا: یعنی اس کے احکامات دوسروں تک پہنچا نا بھی ایک حق ہے۔حضورﷺ کا فرمان ہے:تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔یہ خاص طور پر اہلِ عرب کے لیے اور عمومی طور پر پوری امت کے لیے عظمت و ناموری کا سبب ہے۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَۚ- (پ 25، الزخرف:44) ترجمہ کنز العرفان:اور(اے حبیب)بے شک یہ قرآن تمہا رے اور تمہاری قوم کے لیے عظمت کا سبب ہے۔

عرب کے لوگ فصاحت وبلاغت کے میدان کے شہسوار تھے۔ اہلِ عرب کو فصاحت وبلاغت کے میدان میں اگر کسی نے عاجز کیا تو وہ قرآنِ عظیم ہے۔ اس مقدس کلام نے اپنی فصاحت و بلاغت سے اہلِ عرب کو حیران کر دیا اور اپنا ہم مثل لانے سے عاجز کر دیا۔ قرآنِ عظیم کے بے مثل ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اسے پڑھنے اور سننے والا سیر نہیں ہوتا۔

درسِ قرآں اگر ہم نے نہ بھلایا ہوتا یہ زمانہ نہ زمانے نے دیکھایا ہوتا


قرآنِ کریم اللہ پاک کا کلام ہے۔ اس پر اسلام اور اسلامی احکام کا دارو مدار ہے۔اس کی تلاوت کرنا،اس کے معنی و مفہوم کو سمجھنا اور اس کے مطالب و معانی میں غور و فکر کرنا آدمی کو خدا کے قرب کا ذریعہ فراہم کرتا اور اس کی دنیا اور آخرت سنوارتا ہے۔یہی وہ کتاب ہے جس کا دیکھنا ثواب،چھونا ثواب،پڑھنا اور سمجھنا موجب ِنجات ہے۔ اس موقع پر 5 حقوق کتاب الله  ذکر کئے جاتے ہیں۔

(1)باادب:الله پاک کی کتاب قرآنِ مجید، فرقانِ حمید کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اسے با ادب قبلہ رو پاک صاف مقام پر تلاوت کی جائے۔خوشبو لگا کر معطر ہو کر اچھے کپڑے پہن کر اس کی تلاوت کی جائے۔ خوب ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کی جائے۔ حضور قلبی کیساتھ اور سکون میں خلل ڈالنے والی تمام چیزوں کو دور ہٹا کر ذوق و شوق سے رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر مؤدبانہ انداز اختیار کیا جائے کہ با ادب با نصیب۔

(2)تجوید کا خاص خیال رکھا جائے: تجوید کے لغوى معنىٰ:سنوارنا، خوبصورت کرنا اور کسی کام کو عمدگی سے کرنا۔ اصطلاحی معنی:علمِ تجوید اس علم کا نام ہے جس میں حرفوں کے مخارج اور ان کی صفات اور حروف کی تصحیح اور تحسین کے بارے میں بحث کی جائے۔

حکم: علمِ تجوید کا حاصل کرنا فرضِ کفایہ ہے اور قرآنِ پاک تجوید کے ساتھ پڑھنا فرضِ عین ہے۔

حدیثِ مبارک ہے:جس نے قرآنِ مجید سیکھا اور سکھایا جو کچھ قرآنِ پاک میں ہے اس پر عمل کیا قرآن شریف اس کی شفاعت کرے گا اور جنت میں لے جائے گا۔ (علم التجوید )

(3)خوش الحانی اور عمدگی سے پڑھنا:قرآنِ پاک کو اچھی آواز سے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا سنت ہے،لیکن حروف کو اتنا زیادہ نہ کھینچے کہ آ واز بدل جائے یا نظمِ قرآن تبدیل ہو جائے نیز حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قرآنِ پاک کو اپنی آوازوں سے مزین کرو۔ایک روایت میں ہے کہ اللہ پاک نے جتنا خوش الحانی سے قرآنِ پاک کے پڑھنے کا حکم دیاا تنا کسی اور چیز کا نہ دیا۔ایک روایت میں ہے کہ جو خوش الحانی سے قرآنِ پاک نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔ (احیاء العلوم،1/ 80 )

(4)خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا: قرآن مجید میں اللہ پاک کا فرمانِ عالی شان ہے: وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) 29،المزمل:4) ترجمہ:اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔

امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ،شیر ِخدا کرم اللہ وجہہ الکریم سے پوچھا گیا کہ ترتیل کے کیا معنی ہیں؟تو آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:ترتیل حروف کو عمدگی سے ادا کرنا اور وقف کی جگہوں پہچاننے کا نام ہے۔ (فیضانِ تجوید، ص9)

(5)تلاوت میں رونا:حضرت صالح مری رحمۃ اللہ علیہ بڑے زبردست قاری تھے۔ آپ کی قراءت میں سوز ہی سوز تھا۔ آپ فرماتے ہیں:ایک بار میں نے خواب میں جنابِ رسالت مآب ﷺ کے سامنے قرآنِ کریم کی تلاوت کی سعادت پائی توتا جد ارِ رسالت ﷺ نے فرمایا:اے صالح!یہ تو قراءت ہوئی، رونا کہاں ہے؟

فرمان ِ مصطفیٰ ﷺ ہے:قرانِ پاک کی تلاوت کرتے ہوئے روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی سی شکل بناؤ۔

عطا کر مجھ کو ایسی رقت خدایا کروں روتے روتے تلاوت خدایا

(نیکی کی دعوت،ص201)

اللہ کریم ہمیں قرآنِ مجید،فرقانِ حمید کے حقوق کواحسن انداز سے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ربُّ الانام کے پاکیزہ کلام قرآن مجید پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور زندگی کے ہر ہر معاملے پر اس سے ہدایت کے پھول لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


قرآن کے لغوی معنی ہے: زیادہ پڑھی جانے والی کتاب۔حضرت امام جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قرآن کو قرآن اس لئے کہا جاتا ہے کہ قرآن تمام پہلی آسمانی کتب کا جامع ہے۔

قرآنِ مجید کب اور کس پر اترا:الله پاک نے اپنا کلام قرآنِ مجید،فرقانِ حمید پیارے آقا، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر تئیس سال کے عرصے میں نازل فرمایا،چنانچہ الله پاک نے قرآنِ پاک کی سورۃ الدھر کی آیت نمبر 23 میں ارشاد فرمایا: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلًاۚ(۲۳)ترجمہ کنز الایمان:بے شک ہم نے تم پر قرآن بتدریج اتارا۔

قرآنِ پاک کی حفاظت:قرآنِ پاک ایک واحد ایسا کلام ہے جس کی حفاظت خود الله پاک نے فرمائی اور کائنات کی تمام مخلوقات کو عاجز کردیا کہ اس میں کوئی بھی کسی قسم کی تغییر یا رد و بدل کر سکے چنانچہ پارہ14 سورۃ الحجر کی آیت نمبر 9 میں ارشادِ باری ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(۹)ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بےشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔

افضل و جامع کتاب:قرآنِ مجید ایک فضیلت رکھنے والی اور پہلی تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی جامع کتاب ہے۔جس کے ذریعے ہم دنیا و آخرت کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور ساتھ میں انبیائے کرام کے بارے میں بھی ذکر موجود ہے۔

قرآنِ پاک کے پانچ حقوق:اللہ پاک نے اپنے کلام قرآنِ مجید، فرقانِ حمید کی خود حفاظت فرمائی ہے، مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ اس کلام کے حقوق بجالائیں چنانچہ قرآنِ مجید کے حقوق مندرجہ ذیل ہیں:

(1)قرآنِ مجید پر ایمان:قرآنِ پاک کا پہلا حق یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے، بطور مسلمان ہم پریہ حق ہے کہ ہم صرف قرآنِ مجید،فرقانِ حمید کو زبانی اقرار کے ساتھ ساتھ دل کی گہرائیوں سے بھی تسلیم کریں۔ اللہ پاک خو د قرآنِ مجید میں مومنوں کی نشانیوں میں یہ ارشاد فرماتا ہے: اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَؕ-كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ۫- (پ3،البقرة:285)ترجمہ کنز الایمان: رسول ایمان لایا اس پر جو اس کے رب کے پاس سے اس پر اُترا اور ایمان والے سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو۔

تفسیر:خلیفہ اعلیٰ حضرت حافظ مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: اللہ کی کتابوں پر ایمان لانا اس طرح کہ جو کتابیں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائیں اور اپنے رسولوں کے پاس بطریق وحی بھیجیں بے شک و شبہہ سب حق و صدق اور اللہ کی طرف سے ہیں اور قرآن کریم تغییر تبدیل تحریف سے محفوظ ہے اور محکم ومتشابہ پر مشتمل ہے۔(خزائن العرفان،پ3، تحت الآیۃ: 285)

(2)قرآنِ پاک کی تلاوت:قرآنِ پاک کا دوسرا حق ہے اس کی تلاوت کی جائے۔اللہ پاک اس کے متعلق فرماتا ہے: اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖؕ-اُولٰٓىٕكَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖؕ-وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۠(۱۲۱) (البقرة:121) ترجمہ کنز الایمان: جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ جیسی چاہیے اس کی تلاوت کرتے ہیں وہی اس پر ایمان رکھتے ہیں اور جو اس کے منکر ہوں تو وہی زیاں کار(نقصان اُٹھانے والے) ہیں۔

تفسیر:حضرت علامہ امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ الله علیہ روایت فرماتے ہیں کہ جو لوگ تلاوتِ قرآن کرتے اور اس پر ایمان رکھتے اس سے مراد جناب محمد ﷺ کے صحابہ کرام علیہم الرضوان ہیں جو آیاتِ الٰہیہ پر ایمان لائے اور ان کی تصدیق کی۔(البقرۃ:121-الدر المنثور)

قرآن پر ایمان کے بعد تلاوتِ قرآن اس کا دوسرا حق ہے۔ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس کی تلاوت بڑے ادب و احترام و صحیح طریقے سے کرے۔چنانچہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:میری امت کی سب سے افضل عبادت قرآنِ مجید کی تلاوت کرنا ہے۔(شعب الایمان،2/354،حدیث:2022)

(3)قرآنِ پاک کو سمجھنا:تلاوتِ قرآن کے بعد قرآنِ پاک کا تیسرا حق یہ ہے کہ اس کو سمجھا جائے چنانچہ حضور جانِ رحمت ﷺ نے قرآنِ مجید کے بہت اوصاف بیان فرمائے ہیں ان میں ایک وصف یہ بیان فرمایا کہ القراٰن حُجَّۃٌ لَّكَ اَوْ عَلَيْكَ ترجمہ:قرآنِ مجید دلیل ہے یہ یا تو تمہارے حق میں دلیل بنے گا یا تمہارے خلاف دلیل ہوگا۔

علامہ قرطبی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جو شخص قرآن سیکھے مگر اس سے غفلت کرے قرآن اس کے خلاف دلیل ہوگا اور اس سے بڑھ کر اس بندے کے خلاف دلیل ہو گا جو قرآنِ کریم کے حق میں کمی کرے اور اس سے جاہل رہے۔ (تفسیر قرطبی،1/19)

(4) قرآنِ پاک پر عمل کرنا:قرآنِ پاک کا چوتھاحق یہ ہے کہ جو سمجھا اس پر عمل کیا جائے یعنی کہ اَلتَّاَدُّبُ بِاٰدَابِہٖ وَالتَّخَلُّقُ بِاَخْلَاقِہٖ قرآنِ مجیدکے بیان کردہ آدابِ زندگی اپنانا اور اس کے بتائے ہوئے اخلاق کو اپنے کردار کا حصہ بنانا۔اللہ پاک نے سورہ ٔانعام کی آیت نمبر 155 میں ارشاد فرمایا: وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ(۱۵۵)ترجمہ کنز الایمان: اور یہ برکت والی کتاب ہم نے اتاری تو اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری کرو کہ تم پر رحم ہو۔

نبی کریم ﷺ نے قرآنِ پاک پڑھنے والوں کے بارے میں فرمایا:کتنے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔( فضل تلاوة القران، 1/84) اس حدیثِ مبارک کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص قرآن ِپاک پڑھے لیکن اس پر عمل نہ کرتا ہو۔(قرآن کےحقوق،ص 12)

(5)قرآنِ پاک کی تبلیغ:قرآنِ پاک کا پانچواں حق یہ ہے کہ جو کچھ سیکھا اس کو دوسروں تک پہنچایا جائے۔ نبی اکرم ﷺ نے بھی اپنی ساری زندگی تبلیغِ قرآنِ مجید میں صرف کر کےامتِ مسلمہ کو اللہ پاک کے احکام سے باخبر کیا۔آپ علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ (بخاری، 3/210،حدیث:5127)

امت کے مسلمانو! ہم سب کو اللہ پاک یہ توفیق دے کہ ہم قرآن کو دل وجان سے قبول کرنے کے بعد اس کی تلاوت کریں، اس کو سمجھیں، اس پر عمل کریں اور اس کا علم دوسروں تک پہنچائیں اور علم کے تمام تقاضے پورےکر کے آخرت میں اپنا اجرو ثواب بڑھائیں۔(آمین)

ہر روز میں قرآن پڑھوں کاش!خدایا! الله!تلاوت میں مرے دل کو لگا دے

(کتاب اللہ کی باتیں،ص 351 )


الله پاک نے مسلمانوں کے لئے ایک اہم کتاب قرآن مجید نازل فرمائی ہے جس کے کچھ حقوق بھی ہیں، بہت سے لوگ اس قرآن مجید کا حق ادا نہیں کرتے بلکہ صرف تلاوت کی حد تک رہتے ہیں (آپ بھی اپنا محاسبہ کر لیجیے کہ کیا آپ قرآن مجید کے حقوق کی ادائیگی کرتے ہیں؟ ): قرآن مجید کے پانچ حقوق ذیل میں درج کیے جارہے ہیں:

پہلا حق: کتاب اللہ کا پہلا حق یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے کہ یہ اللہ کا حقیقی کلام ہے یہ وہ کلام مقدس ہےجو جبریل امین کے ذریعے آخری پیغمبر محمد رسول اللهﷺ پر نازل کیا گیا اس پر ایمان لایا جائے کہ جس طرح یہ قرآن نازل ہوا اسی طرح وہ آج ہمارے پاس موجود ہے اور اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں اور اس میں کسی چیز کا بھی اضافہ و کمی نہیں ہوئی کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود الله پاک نے لیا ہے۔

دوسرا حق:کتاب الله کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس قرآن پاک کو خوبصورت آواز سے پڑھا جائے۔ اللہ پاک نے فرمایا:جو قرآن پاک کو خوبصورت آواز سے نہیں پڑھتا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ فرمایا:زُيِّنَ الْقُرْاٰنُ بِاَصْوَاتِكُمْ فَأِنَّ الصَّوْتَ الْحَسَنَ يَزِيْدُ الْقُرْاٰنَ حسن۔ قرآن کو خوبصورت آوازوں سے پڑھو اور اس کو دلکش بناؤ اور خوبصورت آوازیں اس کی دلکشی میں اور اضافہ کر دیتی ہیں۔

تیسرا حق:کتاب الله کا تیسرا حق یہ ہے کہ قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھا جائے۔ رسول اللهﷺکے صحابی فرماتے ہیں: صحابہ کرام کی یہ عادت تھی کہ جب ان میں سے کوئی شخص دس آیتیں پڑھ لیتا تو جب تک ان آیتوں کو سمجھ نہ لیتا تو گیارھویں آیت تک منتقل نہیں ہوتا۔ قرآن کو سمجھ کر جو لذتیں نصیب ہوتی ہیں ان لذتوں سے آشناوہی ہوتا ہے جس کو یہ نصیب ہوتی ہیں۔

چوتھا حق: کتاب اللہ کا چوتھا حق یہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:لوگوں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ قرآن پر عمل کریں انہوں نے تلاوت کو ہی عمل سمجھ لیا اور بقیہ اعمال کو ترک کر دیا۔

صحیح بخاری کی روایت ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جب میں معراج پر گیا تھا تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص بیٹھا ہے اور ایک فرشہ اس کے پاس کھڑا ہے جو پتھر اٹھا کر اس کے سر پر مارتا ہے اور اس کے سر کو کچل دیتا ہے۔ میں نے پوچھا یہ شخص کون ہے؟ جواب ملا: یہ وہ شخص ہے جو قرآن کو لیتا ہے،پڑھتا ہے سمجھتا ہے لیکن جب فرض نماز ہو رہی ہوتی ہے تو یہ سو رہا ہوتا ہے۔

پانچواں حق:کتاب الله کا پانچواں حق اسے دوسروں تک پہنچانا ہے لہٰذا اسے دوسروں تک پہنچانا چاہیے۔


قرآن مجید اتنی مقدس کتاب ہے کہ اس کی اہمیت کا اندازہ ان باتوں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کو نازل کرنے کےلئے جس فرشتے کو منتخب کیاوہ فرشتہ سب سے افضل حضرت جبرائیل علیہ السلام، اس کو جس کی طرف نازل کیا وہ مخلوقات میں سب سے افضل یعنی حضور اکرم، نور مجسمﷺ، اس کو جس امت کی طرف اتارا  گیا وہ امتوں میں سب سے افضل یعنی اُمت محمدیہ، اس کو جس مہینے میں نازل کیا گیا وہ مہینا سب سےا فضل یعنی رمضان المبارك،اس کو جس رات میں نازل کیا گیا و ہ رات سب سے افضل یعنی شب قدر۔

قرآن پاک ایسا فصیح کہ کوئی کلام اس سے کچھ نسبت نہیں رکھتا، اس کا مضمون نہایت دل پذیر باوجودیہ کہ یہ نہ نظم ہے اور نہ شعر، معنی میں ایسابلند کہ تمام علوم کا جامع اور معرفتِ الٰہی جیسی عظیم الشان نعمت کا رہنما - قرآن مجید برہان رشید کےکئی حقوق ہیں جو قرآن اور حدیث میں صراحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں سے 5 حقوق آپ بھی ملاحظہ کیجئے۔

1)قرآن مجید کو خوش الحانی سے پڑھنا: براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا: قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو۔( سنن دارمی، 2/505، حديث: 3500)

2)قرآن مجید کو ترتیل کے ساتھ پڑھنا: عبد الله بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللهﷺ نے فرما یا:صاحبِ قرآن سے کہا جائے گا کہ پڑھ اورچڑھ اور ترتیل کے ساتھ پڑھ جس طرح دنیا میں ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا۔ تیری منزل آخری آیت جو توپڑھے وہاں ہے۔(سنن ابی داؤد، 2/104،حدیث: 1464)

3) قرآن مجید کو حفظ کرکے اسے یاد رکھنا: سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص قرآن پڑھے، پھر اسےبھول جائے تو وہ قیامت کے دن الله سے اس حال میں ملے گا کہ وہ کوڑ ھی ہوگا۔ ( مشکاۃ المصابیح،1/242، حدیث: 1200)

شرح: قرآن کو حفظ کرنا اور اسے بھول جانابڑے گناہوں میں سے ہے۔اور بھول جانے سے مرادیہ بھی ہو سکتا ہے کہ قرآن پر عمل اور اس کی قرأت کو ترک کر دینا، اور حدیث میں کوڑھی کا ذکر ہے تو اس کے کیا معنی ہیں ؟اس بارے میں مختلف اقوال ہیں:

پہلا قول:وه جس کا ہاتھ کٹا ہوا ہو۔ قاموس میں ہے: اس سے مراد وہ شخص جس کا ہا تھ اور انگلیاں کٹی ہوں۔ دوسر اقول:وہ جس کے ہاتھ بھلائی سے خالی ہوں۔

تیسرا قول: وہ جس کے دانت ٹوٹے ہوئے ہوں۔ (لمعات)

4)قرآن مجید کی تلاوت کے وقت رونا: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو رؤو اور اگرنہ روسکو تو رونے کی شکل بنا لو۔( ابن ماجہ، 2/129،حديث: 1337)

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: غم ظاہر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن کے ڈرانے، وعدہ اور عہد و پیمان کو یاد کرے۔ پھر سوچے کہ اس نےاس احکامات اور ممنوعات میں کتنی کوتاہی کی ہے تو اس طرح وہ ضرور غمگین ہو گا اور روئے گا اور اگر غم اور روناظاہر نہ ہوجسں طرح صاف دل والے لوگ روتے ہیں تو اس غم اور رونے کے نہ پائے جانے پر روئے کیونکہ یہ سب سےبڑی مصیبت ہے۔(احیاء العلوم،1/368)

5)قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس نے قرآن کو تین دن سے کم میں پڑھا اس نے قرآن کو نہ سمجھا۔(مشکاۃ المصابیح،1/242، حدیث:2201)

حدیث میں ختمِ قرآن تین دن سے کم میں کرنے کی ممانعت بیان ہوئی ہے۔ہمارے اسلاف کی ختمِ قرآن کرنے میں عادات مختلف تھیں مثلاً کچھ ہردومہینےمیں ختم قرآن کرتے،کچھ ہرمہینے میں،کچھ دس دنوں میں، کچھ ہرہفتے میں اور بعض تو ایک دن رات میں ختم قرآن کیاکرتے تھے، بعض تو ایک دن رات میں تین اور بعض ایک دن رات میں آٹھ ختم قرآن کرتے تھے اور مختار یہ ہے کہ 40 دن سے زائد ختم قرآن کرنے میں تاخیر کرنا مکروہ ہے اسی طرح تین دن سے پہلے ختم کرنے میں جلد ی کرنا بھی مکر وہ ہے اور بہتر ہے کہ ہرہفتے میں ختم قرآن کیا جائے اور حق یہ ہے کہ اشخاص کے مختلف ہونے سے یہ بھی مختلف ہو جاتا ہے۔(شرح الطیبی ولمعات)

معززقارئین! یاد رکھئے! قرآن کریم کی تلاوت کرنے والوں پر الله پاک کی رحمتوں کی بارش بھی اسی وقت ہوگی جبکہ وہ صحیح معنوں میں قرآن کریم پڑھنا جانتے ہوں کہ ہمارے معاشرے میں لوگ جدید دنیوی تعلیم حاصل کرنے، انگلش لینگویج، کمپیوٹراور مختلف کورسز کیلئے تو ان سے متعلق اداروں میں بھاری فیسیں جمع کروانے سے نہیں کتر اتے، مگرافسوس!علم دین سے دوری کے باعث درست ادائیگی کے ساتھ فی سبیل الله قرآن پڑھنے کی فرصت تک نہیں۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اتنی تجوید سیکھنا کہ ہر حرف دوسرے حرف سے ممتاز ہو، فر ض عین ہے بغیر اس کےنمازقطعا ًباطل ہے۔(فتاویٰ رضویہ،3/253)

مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جس سے حروف صحیح ادا نہیں ہوتے ہوں اس پرواجب ہے کہ تصحیح حرو ف میں دن رات پوری کوشش کرے۔ (بہار شریعت، 1/ 570)

قرآن پاک غلط پڑھنے کا وبال: قرآن پاک غلط پڑھنے پر بہت سخت وعیدیں مذکور ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ( غلط پڑھنے کی وجہ سے) قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔ (احیاء العلوم،1/264)

معزز قارئین !قرآن پاک کو سمجھ کر مع ترجمہ و تفسیر پڑھنا زیادہ مفید ہے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں: جس آیت کو میں سمجھےبغیر بے توجہی کے ساتھ پڑھتا ہوں اسے میں باعثِ ثواب نہیں سمجھتا۔ (احیاء العلوم، 1/852 )قرآن مع ترجمہ وتفسیر پڑھنے کا ایک اہم ذریعہ صراط الجنان ہے۔ہمیں اس کا خود بھی مطالعہ کرنا چاہیے اور اس سے اپنے گھروں میں گھر درس بھی جاری کرنا چاہیے۔

یہی ہے آرزو تعلیمِ قرآں عام ہو جائے تلاوت کرنا صبح و شام میراکام ہو جائے