تمام خوبیاں اللہ پاک کے لیے ہیں جس نے اپنے محبوب اور قرآنِ پاک کے ذریعے اپنے بندوں پر احسان کیا۔قرآنِ پاک اللہ پاک کا نازل کیا ہو ابہت ہی بابرکت کلام ہے۔ اگر اس کی تلاوت اس طرح کی جائے جس طرح ادا کرنے کا حق ہے تو ایک حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔کچھ  لوگ ایسے ہیں کہ جب وہ تلاوت کرتے ہیں تو قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔ وہ بجائے ثواب کمانے کے گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ قرآنِ پاک کے حق ادا کرنے کے لیے اس کے حقوق جاننا ضروری ہے۔ لہٰذا اس کے حقوق پیشِ خدمت ہیں: (1) کتابِ الٰہی پر ایمان لانا (2)تلاوت کرنا (3)ا حکام سیکھنا(4) عمل کرنا(5)اس کی تبلیغ کرنا۔

کتابِ الٰہی پر ایمان لانا: قرآنِ مجید کی برکتیں اور فضیلتیں حاصل کرنے کے لیے اس پر ایمان لانا شرط ہے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے:اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو اس سے پہلے نازل کی ان سب پر ہمیشہ ایمان رکھو۔(النساء: 136)

مومن ہونے کے لیے اس کتاب پر ایمان لانا ضروری ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر ایمان کامل نہیں ہو سکتا نیز دنیا و آخرت کی کا میابی کی بھلائی کا دارو مدار اسی پر ہے۔ اور یہ اس وقت ممکن ہے جب قرآنِ مجید پر ایمان رکھا جائے۔

تلاوت کرنا:قرآنِ پاک کے حقوق میں سے تلاوت کرنا بھی ہے۔ اس طرح تلاوت کرنا کہ قرآن پاک کا حق ادا ہو جائے،آخرت میں کامیابی کی سند ہے۔ امیر المؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ روزانہ صبح قرآنِ مجید کو چومتے اور فرماتے:یہ میرے رب کا عہد اور اس کی کتاب ہے۔

اجرِ عظیم حاصل کرنے کے لیے تلاوت کرنے کے آداب سیکھنا ضروری ہیں۔ لہٰذا آداب پیشِ خدمت ہیں: (1)تلاوت کرنےوالی کو چاہیے کہ باوضو ہو(2)ادب وسکون کی میں حالت بیٹھی یا کھڑی ہو(3)رُخ قبلہ کی جانب ہو(4) نہ چوکڑی لگائے اور نہ ہی ٹیک لگائے (5) یوں بیٹھے جیسےاستانی کے سامنے بیٹھی ہو(6) سب سے افضل طریقہ نماز کی حالت میں قراءت کرنا ہے۔ (7)تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کرنی چاہیے۔قرآن شریف میں ارشادِ باری ہے۔ وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) (پ 29، المزمل: 4)ترجمہ کنز العرفان:اور قرآن کوٹھہر ٹھہرکر پڑھا کر۔ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا قرآنِ مجید سے ثابت ہے اور زیادہ پڑ ھنا ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے سے مانع ہے اور سمجھنے سے محرومی کا باعث ہے۔حدیثِ پاک میں ہے:جس نے تین دن سے کم میں پڑھا اس نے سمجھا نہیں۔ ( مراٰۃ المناجیح،جلد 3)

احکام سیکھنا:احکام سیکھنا بھی قرآنِ پاک کے حقوق میں سے ہے،چنانچہ یہ حق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے:تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا۔(بخاری، 3/410) قرآنِ پاک زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ کامیاب زندگی گزارنے کا نسخہ قرآنِ پاک کے احکام سیکھنا ہے۔ اللہ پاک خود ارشاد فرماتا ہے: فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۷)
(پ 17، الانبیاء: 7) ترجمہ کنز الایمان: تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہ ہو۔ معلوم ہوا کہ احکام ِقرآن سیکھناقرآن سے ثابت ہے۔

عمل کرنا:عمل کرنا یعنی جو قرآن سے سیکھا اس پر عمل کرنا بھی قرآن کا حق ہے۔قرآنِ پاک کے حقوق ادا کرنے میں در اصل ہمارا فائدہ ہے۔حدیثِ پاک میں ہے:جس نے قرآنِ پاک سیکھا اور سکھایا اور جو کچھ قرآنِ پاک میں ہےاس پر عمل کیا، قرآن شریف اس کی شفاعت کرے گا اور جنت میں لے جائے گا۔ ( طبرانی)

جو قرآنِ پاک کی شفاعت اور جنت میں داخلے کی خواہشمند ہو تو اسے چاہیے کہ قرآنِ پاک پر عمل کرے۔ قرآنِ پاک میں الله پاک فرماتا ہے:بے شک جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔ (بروج:11)

اس کی تبلیغ کرنا:قرآنِ پاک کا ایک حق تبلیغ کرنا بھی ہے۔تبلیغ کرنا آقا کریم ﷺکی سنت بھی ہے۔ ہمیں اس نسبت سے تبلیغ کرنی چاہیئے کہ خود ہمارے نبی ﷺنے قرآن کی تبلیغ کی،اس راہ میں آپ کو سب سے زیادہ ستایا گیا مگر آپ نے دعوت ترک نہ کی۔ حدیث شریف میں ہے: مجھ سے ایک آیت بھی سنو تو اسے آگے پہنچا دو۔ ( مسلم)یعنی اس کی تبلیغ کر دو۔ حدیث شریف پر عمل کرتے ہوئے تبلیغ کرنے کا رجحان بڑھانا چاہیے۔ تبلیغ کرنے والے کو چاہیے کہ اپنا اخلاق سنوارے اور خوبصورت انداز میں دعوت دے۔ قرآنِ مجید میں تو لوگوں کو دین کی طرف دعوت دینے کا بیان کچھ یوں ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ- (پ 14، النحل: 125) ترجمہ کنز الایمان: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکّی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو۔ جو قرآنِ پاک کی ایک آیت بھی سکھاتا ہے جب تک اس کی تلاوت ہوتی رہے گی اسے ثواب پہنچتا رہے گا۔ اللہ پاک ہمیں اپنے کلام کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

عطا ہو شوق مولیٰ! مدرسے میں آنے جانے کا خدایا! ذوق دے قرآن پڑھنے پڑھانے کا