قرآنِ کریم
اللہ پاک کا کلام ہے۔ اس پر اسلام اور اسلامی احکام کا دارو مدار ہے۔اس کی تلاوت
کرنا،اس کے معنی و مفہوم کو سمجھنا اور اس کے مطالب و معانی میں غور و فکر کرنا
آدمی کو خدا کے قرب کا ذریعہ فراہم کرتا اور اس کی دنیا اور آخرت سنوارتا ہے۔یہی
وہ کتاب ہے جس کا دیکھنا ثواب،چھونا ثواب،پڑھنا اور سمجھنا موجب ِنجات ہے۔ اس موقع
پر 5 حقوق کتاب الله ذکر کئے جاتے ہیں۔
(1)باادب:الله پاک کی کتاب
قرآنِ مجید، فرقانِ حمید کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اسے با ادب قبلہ رو پاک صاف
مقام پر تلاوت کی جائے۔خوشبو لگا کر معطر ہو کر اچھے کپڑے پہن کر اس کی تلاوت کی
جائے۔ خوب ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کی جائے۔ حضور قلبی
کیساتھ اور سکون میں خلل ڈالنے والی تمام چیزوں کو دور ہٹا کر ذوق و شوق سے رضائے
الٰہی کے حصول کی خاطر مؤدبانہ انداز اختیار کیا جائے کہ با ادب با نصیب۔
(2)تجوید
کا خاص خیال رکھا جائے: تجوید کے لغوى معنىٰ:سنوارنا، خوبصورت کرنا اور کسی
کام کو عمدگی سے کرنا۔ اصطلاحی معنی:علمِ تجوید اس علم کا نام ہے جس میں حرفوں کے
مخارج اور ان کی صفات اور حروف کی تصحیح اور تحسین کے بارے میں بحث کی جائے۔
حکم: علمِ
تجوید کا حاصل کرنا فرضِ کفایہ ہے اور
قرآنِ پاک تجوید کے ساتھ پڑھنا فرضِ عین ہے۔
حدیثِ
مبارک ہے:جس
نے قرآنِ مجید سیکھا اور سکھایا جو کچھ قرآنِ پاک میں ہے اس پر عمل کیا قرآن شریف
اس کی شفاعت کرے گا اور جنت میں لے جائے گا۔ (علم التجوید )
(3)خوش
الحانی اور عمدگی سے پڑھنا:قرآنِ پاک کو اچھی آواز سے اور ٹھہر
ٹھہر کر پڑھنا سنت ہے،لیکن حروف کو اتنا زیادہ نہ کھینچے کہ آ واز بدل جائے یا نظمِ
قرآن تبدیل ہو جائے نیز حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قرآنِ پاک کو اپنی آوازوں سے
مزین کرو۔ایک روایت میں ہے کہ اللہ پاک نے جتنا خوش الحانی سے قرآنِ پاک کے پڑھنے
کا حکم دیاا تنا کسی اور چیز کا نہ دیا۔ایک روایت میں ہے کہ جو خوش الحانی سے قرآنِ
پاک نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔ (احیاء العلوم،1/ 80 )
(4)خوب
ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا: قرآن مجید میں اللہ پاک کا فرمانِ عالی شان ہے: وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ
تَرْتِیْلًاؕ(۴) (پ29،المزمل:4) ترجمہ:اور قرآن خوب ٹھہر
ٹھہر کر پڑھو۔
امیر المومنین
حضرت علی المرتضیٰ،شیر ِخدا کرم اللہ وجہہ الکریم سے پوچھا گیا کہ ترتیل کے کیا
معنی ہیں؟تو آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:ترتیل حروف کو عمدگی سے ادا کرنا اور
وقف کی جگہوں پہچاننے کا نام ہے۔ (فیضانِ تجوید، ص9)
(5)تلاوت
میں رونا:حضرت
صالح مری رحمۃ اللہ علیہ بڑے زبردست قاری تھے۔ آپ کی قراءت میں سوز ہی سوز تھا۔ آپ
فرماتے ہیں:ایک بار میں نے خواب میں جنابِ رسالت مآب ﷺ کے سامنے قرآنِ کریم کی
تلاوت کی سعادت پائی توتا جد ارِ رسالت ﷺ نے فرمایا:اے صالح!یہ تو قراءت ہوئی، رونا
کہاں ہے؟
فرمان ِ
مصطفیٰ ﷺ ہے:قرانِ پاک کی تلاوت کرتے ہوئے
روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی سی شکل بناؤ۔
عطا کر
مجھ کو ایسی رقت خدایا کروں
روتے روتے تلاوت خدایا
(نیکی
کی دعوت،ص201)
اللہ کریم ہمیں
قرآنِ مجید،فرقانِ حمید کے حقوق کواحسن انداز سے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے
اور ربُّ الانام کے پاکیزہ کلام قرآن مجید پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور زندگی
کے ہر ہر معاملے پر اس سے ہدایت کے پھول لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی
الامین ﷺ