کتاب اللہ سےمراد اللہ کی کتاب یعنی قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید،فرقان حمید  الله پاک کی وہ آخری مکمل کتاب ہے جسے اللہ پاک نے اپنے پیارے محبوبﷺ پرنازل فرمایا۔یہ وہ مقدس کتاب ہے جس نے بھٹکی ہوئی انسانیت کو سیدھے راستے کی طرف چلایا، اس کو دیکھنا، چھونا، پڑھنا سب عبادت ہے مگر افسوس! آج کا مسلمان اس دنیا ئےفانی میں اپنی دنیوی ترقی کے لیے نت نئے علم وفنون سیکھنے سکھانے میں تو ہر وقت مصر وف عمل نظر آتا ہے جبکہ رب کریم کے نازل کردہ قرآن پاک کو پڑھنے، سیکھنے، سمجھنے اور اس پرعمل کرنے میں کوتا ہی اور غفلت کا شکار ہے۔

قرآن کریم میں رب کریم نے خود فرمایا ہے کہ قر آن رحمت اور شفاء ہے۔ آج ہمارا کیا حال ہے؟ ہم بیماروں کے علاج کے لیے طبیبوں (ڈاکٹروں) کے پاس تو جاتے ہیں لیکن قرآن پڑھنے تو کیا کھول کر دیکھتے بھی نہیں جبکہ ہمیں طبیب کی دوا پر پورا یقین ہو تا ہے کہ ہم اس کی دی ہوئی دوا سے ٹھیک ہوں گے۔ ہمیں دوا کے سا تھ تلاوت قرآن سے بھی لازمی برکتیں لینی چاہئیں۔ قرآن دلوں کا سکون ہے۔ قرآن دلوں کا چین ہے۔ قرآن کی تلاوت کرنے سے بیماروں کو شفا ملتی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری ہے اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔(پ15، بنی اسرائیل:82)

کتاب اللہ کے پانچ حقوق:(1)قرآن کا حق ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے(2)اس کی تلاوت کی جائے(3) اس پر ایمان رکھا جائے(4) اس پر عمل کیا جائے(5)اسے دوسروں تک پہنچا یا جائے۔(صراط الجنان، البقرۃ)

قرآن کو درست پڑھنے کے متعلق احادیث:

بہترین شخص:نبی اکرم ﷺ کا فرمان عالیشان ہے:خَيْرُكُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗیعنی تم میں بہترین شخص وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اوردوسروں کو سکھایا۔ (بخاری شریف، 3/410،حدیث 5027) حضرت ابو عبد الرحمن رضی اللہ عنہ مسجد میں قرآن پڑھایا کرتےاورفرماتے: اسی حدیث مبارک نے مجھے یہاں بٹھا رکھا ہے۔

عطا ہو شوق مولا مدرسہ آنے جانے کا خدایا ذوق دے قرآن پڑھنے پڑھانے کا

قرآن شفاعت کرے گا:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم،نور مجسم ﷺ نے فرمایا: جس نے قرآن سیکھا اور سکھایااورجو قرآن میں ہے اس پر عمل کیا قرآن مجید اس کی شفاعت کرے گااور اسےمیں جنت لے جائے گا۔ ( تاریخ دمشق ابن عساکر،3/41)

جیسا کہ آپ نےپڑھا کہ ان روایات میں قرآن سیکھنے اور سکھانے والے شخص کوبہترین کہا گیا ہے اور جو قرآن پر عمل کرے گا قرآن پاک اس کی شفاعت کرے گا اور جنت میں لے جائے گا اس سے ہمیں پہلی یہ بات معلوم ہوئی کہ ہمیں قرآن کو درست مخارج و قواعد کے ساتھ پڑھنا ہے۔ عرف میں دیکھا جاتا ہے کہ اکثر لوگ ایسے ہیں جو قرآن کو بغیر سیکھے بالکل مجہول پڑھ رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نمازیں نہیں ہوتیں جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ غلط پڑھنے کی وجہ سے قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔ (احیاء علوم الدین،1/364 )

قرآن کی روشنی میں قرآن درست پڑھنے کی ترغیب:ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) 29،المزمل:4) ترجمہ کنز الایمان: اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔

امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیاترتیل کے کیا معنی ہیں ؟تو آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: ترتیل حروف کو عمدگی سے مخارج و صفات کے ساتھ ادا کرنے اور وقف کی جگہ کو پہچاننے کا نام ہے۔

ارشادِ باری: ترجمہ کنز الایمان: جنہیں ہم نے کتاب دی وہ جیسی چاہیے اس کی تلاوت کرتے ہیں۔ (پ1، البقرۃ)تفسیر جلا لین میں اس آیت مبارکہ کے تحت ہے: یعنی وہ اسے ایسے پڑھتے ہیں جیسا کہ اسے نازل کیا گیا۔

درست پڑھنے کی ترغیب: قرآن کی تلاوت کرنے والے پر اللہ کی رحمتوں کی بارش بھی اسی وقت ہوگی جبکہ وہ صحیح معنوں میں قرآن کریم پڑھنا جانتا ہو، لوگ دنیوی تعلیم حاصل کرنے کے لئے تو ان سے متعلق اداروں میں بھاری فیسیں جمع کروانے سے نہیں کتراتے مگر افسوس! صد افسوس!علم دین سے دوری کے باعث درست ادائیگی کے ساتھ فی سبیل الله قرآن مجید سیکھنے کی فرصت تک نہیں۔ اگر ہم درست قواعد و مخارج کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے کے خواہشمند ہیں تو مدرسۃ المدينہ (بالغات) میں ضرور شرکت کریں۔

کتاب اللہ کو غلط پڑھنے کا وبال: اگر ہم احادیث کی طرف دیکھیں تو قرآن پاک کے بکثرت فضائل ہیں مگر یاد رہے کہ یہ فضائل اور اجر و ثواب اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے کہ جب قرآن پاک کو درست تلفظ کے ساتھ پڑھا جائے اور غلط و مجہول ادائیگی سے بچا جائے کیونکہ غلط طریقے پرپڑھنابجائے ثواب کے وعید و عذاب کا باعث ہے۔ جیسا کہ ابھی آپ نے پیچھے پڑھا کہ بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ غلط پڑھنے کی وجہ سے قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔ایک مقام پر فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،سر کار مدینہ ﷺ نے فرمایا: جو قرآن کو خوش آوازی سےنہیں پڑھتادہ ہم میں سے نہیں۔

علم تجوید کا حکم: علم تجویدکا حاصل کرنا فرض کفایہ ہے۔میرے آقا، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں: اتنی تجوید سیکھنا کہ ہر حرف د وسرے حرف سے صحیح ممتازہو فرض عین ہے بغیر اس کے نماز قطعاً باطل ہے۔عوام بیچاروں کو تو جانے دیجئے خو اص کہلانے والوں کو دیکھیے کہ کتنے فرض پر عامل ہیں! میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا، کن کو؟ علماء کو،مفتیوں کو،مدرسوں کو، مصنفوں کو قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ(۱) میںاَحَد کی جگہاَھَد پڑھتے ہیں بلکہ ایک صاحب کو الحمد شریف میں صِرَاطَ الَّذِیْنَ کی جگہ صِرَاطَ الظِّيْنَ پڑھتے سنا، کس کی شکایت کیجیئے !یہ حال تو ا کابرکا ہے پھر عوام بیچاروں کی کیا گنتی! اب کیا شریعت ان کی وجہ سے اپنے احکام مسنوخ کردے گی؟نہیں! نہیں! اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِؕ-ترجمۂ کنز الايمان: حکم نہیں مگر اللہ کا۔ اس بات سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہمیں قرآن کو درست تلفظ سے پڑھنا چاہیے تاکہ ہماری عبادات کا ثواب مل سکے۔

صراط الجنان فی تفسیر القرآن:مفتی محمد قاسم عطاری کی قرآنِ مجید کی ارد و تفسیر امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ قرآن کے ساتھ چھپی ہے۔ صراط الجنان فی تفسیر القرآن کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں دو ترجمے شامل ہیں ایک مصنف کا اپنا بھی ہے جس کی وجہ مفتی قاسم صاحب نے یہ بیان کی کہ کنز الایمان 1911ء میں لکھا گیا جس کی اردو آج کے لوگ آسانی سے نہیں سمجھ سکتے۔

1)صراط الجنان میں قرآن مجید کی ہر آیت کے تحت دو ترجمے ذکر کیے گئے ہیں ایک اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان کا ترجمہ کنز الایمان ہےجبکہ دوسرا ترجمہ کنز العرفان ہے۔

2)صراط الجنان کو متوسط رکھا گیا اور اس بات کاخاص طور پرخیال رکھا گیا کہ تفسیر نہ زیادہ طویل ہو کہ پڑھنے والا یہ گمان کر بیٹھے کہ یہ تفسیر کے علاوہ کوئی اور دینی کتاب ہو۔یونہی صراط الجنان اتنی مختصر بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے عام قاری کی تفسیری تشنگی باقی رہے۔

قرآن فہمی بہت بڑی سعادت ہے۔ حضرت ایاس بن معاویہ رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: جو لوگ قرآن مجید پڑھتے ہیں اور اس کی تفسیر نہیں جانتے ان کی مثال ان لوگوں کی طرح ہے جن کے پاس رات کے وقت ان کے بادشاہ کا خط آیا اور ن کے پاس چراغ نہیں جس کی روشنی میں وہ اس خط کو پڑھ سکیں۔ تو ان کے دل ڈر گئے اور ان کو معلوم نہیں کہ اس خط میں کیالکھا ہے اور وہ شخص جو قرآن پڑھتا ہے اور اس کی تفسیر جانتا ہے اس کی مثال اس قوم کی طرح ہے جن کے پاس قاصد چراغ لے کر آیا تو انہوں نے چراغ کی روشنی سے خط میں لکھا ہوا پڑھ لیا اور انہیں معلوم ہو گیا کہ خط میں کیا لکھا ہے؟

آپ کو اس مثال سےسمجھ آیا ہوگا کہ اگر ہم قرآن کو تفسیر کے ساتھ پڑھیں گے تو ہماری مثال بھی اس کی طرح ہوگی جس کے پاس قاصد چراغ لے کر آیا تو اس نے روشنی سے خط پڑھ لیا اور اسے معلوم ہو گیا کہ خط میں کیا ہے اسی طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ قرآن میں الله کی کیا شان بیان ہوئی ہے اور بھی بہت سی چیزوں کا قرآن میں ذکر ہے۔ افسوس صد کروڑ افسوس! ہم اپنا وقت ناول (novel) پڑھنے کے لیے تو نکال لیتے ہیں کیا یہ ناول ہماری آخرت میں کام آئیں گے؟ہمیں اپنے دنیا میں آنے کا مقصد یاد رکھتے ہوئے الله کی رضاوالے کام کرنے چاہئیں۔اللہ کی رضا نماز کی پابندی کرنے، قرآن کی تلاوت تفسیرکے ساتھ کرنے میں ہے۔ یادرکھیے!جسےاللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا مل گئی اسے سب کچھ مل گیا جسے دین مل گیا تو اسے دنیا بھی مل گئی۔ آئیے!آج سے ہم نیت کرتے ہیں کہ جو صراط الجنان ہمارے مفتی قاسم صاحب اور دیگر مفسرین نے اتنی محنت سے لکھی ہم بھی اس کو خوب توجہ اور دل لگا کر پڑھنے کی کوشش کریں گے تا کہ ہم بھی الله کی رضا حاصل کر سکیں اور رسولﷺ کی محبت اپنے دل میں اجاگر کر سکیں۔ الله آپ کو اور مجھے دین سیکھنے اور سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


کتاب اللہ سے مراد ہے اللہ پاک کا کلام یعنی قرآن پاک، قرآن مجید  دلوں کی راحت ہے۔یقیناً قرآن مجید اللہ پاک کی بہت ہی پیاری کتاب،نعمت اور برکتوں اور رحمتوں والی کتاب ہے۔ یہ کلام اللہ ہے (یعنی اللہ پاک کا پیارا کلام ہے)یہ مبارک کتاب ہر اعتبار سے کامل ہے، اسے اتارنےوالارب العالمين ہے تولانے والے روح الامین (یعنی حضرت جبریل علیہ السلام ہیں،جن پر نازل ہوئی وہ رحمۃ للعالمین ہیں۔

قرآن پاک کے بے شمار فضائل ہیں:

· قرآن پاک کی تلاوت کیا کرو کہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کرنے کے لئے آئے گا۔

· قرآن پاک حضور اکرم ﷺکے معجزوں میں سے ایک معجزہ ہے۔

· قرآن پاک بےچین دلوں کے سکون کا ذریعہ ہے۔

· قرآن پاک اللہ پاک کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔

· قرآن پاک ایک نور ہے جس کےپڑھنے سے دل منور ہو جاتا ہے۔

ارشاد باری ہے:ترجمہ کنز الایمان: جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ جیسی چاہیے اس کی تلاوت کرتےہیں وہی اس پر ایمان رکھتے اور جو اس کے منکر ہوں تو وہی زیاں کار ہیں۔( البقرۃ: 121) اس سے یہ معلوم ہو کہ کتاب اللہ کے بہت سے حقوق بھی ہیں۔

قرآن مجید کا حق یہ ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے، اس سے محبت کی جائے، اس کی تلاوت کی جائے، اس پر ایمان رکھا جائے،چنانچہ حدیث مبارکہ ہیں

حدیث مبارکہ:روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے فرماتی ہیں: فرمایارسول الله ﷺ نے: قرآن کا عالم معزز فرشتوں اور محترم و معظم ہستیوں کے ساتھ ہوگا اور جو قرآن پڑھتا ہو کہ اس میں اٹکتا ہو اور قرآن اس پر گراں ہو اس کیلئے ثواب ہے۔( مسلم، بخاری)

شرح حدیث:قرآن کریم کا ماہروہ عالم ہے جو الفاظ قرآن، معانی ورسائل قرآن، اسرار و رموز قرآن کا واقف ہو اس کا بڑا درجہ ہے۔ شیخ نے فرمایا کہ جہاں سفرہ سے فرشتوں کی جماعت مراد ہے اور کرام بررة سے انبیائے کرام علیہم السلام مقصود - مرقات نے فرمایا کہ یہ تینوں صفتیں فرشتوں کی ہیں۔ بعض نے فرمایا کہ تینوں صفتیں صحابہ کرام کی ہیں کہ انہوں نے قرآن جمع بھی کیا اور وہ اللہ کے ہاں مقبول اور گنا ہوں سے محفوظ بھی ہیں۔ سبحان اللہ عالم قرآن کا تو وہ مرتبہ ہے جو ابھی ذکر ہوا اور جو کند ذہن،موٹی زبان والا قرآن پاک سیکھ تو نہ سکے مگر کوشش میں لگا رہے کہ مرتے د م تک کو شش کئے جائے وہ ڈبل ثواب کا مستحق ہے شوق محنت۔ خیال رہے کہ یہ دوگناثواب تو اس عالم قرآن کے مقابلے میں نہیں ہے، عالم قرآن تو فرشتوں نبیوں اور صحابہ کےساتھ ہے بلکہ اس کے مقابلے میں جو بے تکلف قرآن پڑھ کربس کر دے۔( مراٰۃ المناجیح،جلد3، حدیث:2112)

ہمیں چاہئے کہ ہم قرآن پاک کی تلاوت کریں روزانہ کم ازکم آدھا پاره تو لازمی پڑھنا چاہئے کیونکہ جو قرآن سیکھنے کے بعد بھی نہیں پڑھتا تو قرآن پاک اس کی شفاعت کیسے کرے گا! ہمیں چاہیے کہ صراط الجنان سے ترجمہ تفسیر بھی پڑھیں۔ الله پاک ہمیں قرآن کو سیکھ کر پڑھ کر دوسروں کوپڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔


قرآنِ کریم اس رب عظیم  کا بے مثال کلام ہے جو اکیلا معبود و تنہا خالق اور ساری کائنات کا حقیقی ملک ہے اور اس نے اپنا کلام رسولوں کے سردار، دو عالم کے تاجدار،حبیبِ بے مثال ﷺ پر نازل فرمایا تاکہ اس کے ذریعے آپﷺلوگوں کو اللہ پاک پر ایمان لانے اور دینِ حق کی پیروی کرنے کی طرف بلائیں اور شرک وکفر و نافرمانی کے انجام سے ڈرائیں اور ایمان اور اسلام کے روشن اور مستقیم راستے کی طرف ہدایت دیں اور ان کے لیے دنیا آخرت میں فلاح و کامرانی کی راہیں آسان فرمائیں۔ قرآنِ کریم کی شان یہ ہے کہ وہ کسی اور کلام کو حاصل نہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

قرآنِ کریم اللہ کی واضح دلیل او ر اس کا نور ہے:جیسا کہ ارشادِ باری ہے:ترجمۂ کنزالعرفان:اے لوگو! تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آگئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور نازل کیا۔

اس کتاب کی ذمہ داری خود اللہ نےلی ہے: چنانچہ ارشاد فرما یا: ترجمہ کنز العرفان: بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اوربے شک ہم خود اس کی حفاظت کر نے والے ہیں۔ (الحجر:9)

یہ جامع العلوم کتاب ہے: ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے تم پر قرآن اتارا جو ہر روشن چیز کا بیان ہے۔(النحل: 89) ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے اس قرآن میں کسی شے کی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ (الانعام:38)

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا:قرآن پڑھو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے اصحاب کے لیے شفیع ہو کر آئے گا۔

قرآنِ پاک کے حقوق:آئیے !اب قرآنِ پاک کے حقوق سنتے ہیں:

(1)قرآنِ پاک کا پہلا حق اس کے تمام تقاضوں سمیت اس پر ایمان لانا اور اس کے ذریعے ہمیں دنیا و آخرت کی برکتیں نصیب ہوتی ہیں۔ قرآن ِمجید کے ساتھ جو باطنی تعلق ہے جب وہ مضبوط ہوتا ہے توقربِ الٰہی کی دولت نصیب ہوتی ہے اور یہی قرب دل میں روشنی پیدا کرتا ہے۔

(2)اس کا دوسر احق اس کو صحتِ لفظی کے ساتھ پڑھا جائے۔

(3)قرآنِ مجید کا تیسرا حق اس کو سمجھنا ہے کہ ہم اسے سمجھ کر پڑھیں گے تو ہمیں دوسری قوموں پر آنے والے عذاب معلوم ہوں گے۔ ہمیں پڑھنے میں دلچسپی ملے گی اور عمل کا جذبہ بڑھےگا۔

(4)اس کا چوتھاحق اس پر عمل کرنا ہے کہ جب ہم قرآن کو سمجھیں گے تو عمل کا جذبہ اور بڑھے گا اورعمل کرکے دین و دنیا کی بھلائیاں نصیب ہوں گی۔

(5) اس کا پانچواں اور آخری حق یہ ہے کہ اس کی تبلیغ کرنا ہے۔ ہم اس کو سمجھیں گے تو عمل کر سکیں گے۔ عمل کریں گے تو تبلیغ کر سکیں گے۔تبلیغ کرنے کے تو ویسے بھی بہت فضائل ہیں۔ معلومات کےلیے مکتبۃ المدینہ کی کتاب نیکی کی دعوت کا مطالعہ کیجیے۔ہم اس قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھیں گے تو اس کو سمجھیں گے۔

قرآن پاک درست پڑھنے کے لیے مدرسۃ المدینہ بوائز/ گرلز میں اپنے بچوں کاایڈمیشن دلوائیں اور خود بھی بالغات میں ایڈ میشن لیں اور قرآن پاک کو سمجھنے کے لیے صراط الجنان کا مطالعہ بےحد مفید ہے،نہایت آسان الفاظ میں تفسیر بیان کی گئی ہے۔اللہ پاک ہمیں قرآنِ کریم کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہِ النبی الامین ﷺ


قرآنِ کریم اللہ پاک کی وہ عظیم کتاب ہے جو ایک مسلمان کیلئے مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں پیدائش سے موت تک اور ازل سے ابد تک کے تمام حالات و واقعات اور مرنے کے بعد کے حالات کو بھی تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے۔ طہارت و پاکیزگی،شادی بیاہ، خوشی و غمی،نشست و برخاست، دوسرے کے ساتھ برتاؤ، روزی کمانے اور خرچ کرنے، جہاد، عدالت، سیاست،حکومت وغیرہ کے بارے میں بہترین اصول بیان کر دیئے گئے ہیں۔یہ علوم کا سر چشمہ اور ہدایت کا ایسا مجموعہ ہے جو نہ صرف فرد کو احکام و آداب سکھا کر اس کی شخصیت نکھارتا ہے بلکہ معاشرے کی اصلاح و تربیت کے لئے بھی کئی رہنما اصول اس کتاب ِمبین کا حصہ ہیں۔ قرآنِ کریم کی روشن تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہم ایک ترقی یافتہ، پر امن اور پاکیزہ معاشرہ تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ دونوں جہاں کا سفر فلاح ونجات کے ساتھ طے کر سکتے ہیں۔

قرآنِ کریم کے حقوق: کتاب اللہ کے بہت سے حقوق بھی ہیں۔ قرآن کا حق یہ ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے، اس سے محبت کی جائے جائے۔اس کی تلاوت کی جائے،اسے سمجھا جائے، اس پر ایمان رکھاجائے، اس پر عمل کیا جائے اور اسے دوسروں تک بھی پہنچایا جائے۔ یہاں تلاوتِ قرآن کے چند باطنی آداب ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ مسلمان قرانِ عظیم کی اس طرح تلاوت کریں جیسا کہ تلاوت کرنے کا حق ہے۔

تلاوتِ قرآن کے ظاہری آداب:(1)با وضو ہو کر،قبلہ رو ہو کر،مؤدب ہو کر اور عجز وانکساری کے ساتھ بیٹھیے۔(2) آہستہ پڑھیے اور اس کے معانی میں غور و فکر کیجیے، تلاوتِ قرآن میں جلد بازی سے کام نہ لیجیے۔(3) دورانِ تلاوت رونا بھی چاہیے، اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسی شکل بنا لیں۔(4) اگر قراءت سے ریاکاری کا اندیشہ ہو یا کسی کی نماز میں خلل پڑتا ہو تو آہستہ آہستہ تلاوت کریں۔(5) جہاں تک ممکن ہو قرآنِ پاک کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھیں۔

تلاوتِ قرآن کے باطنی آداب:(1) قرآنِ مجید کی عظمت دل میں بٹھائیں، قرآنِ مجید پڑھنے سے پہلے اللہ پاک کی عظمت دل میں بٹھائیں اور خیال کریں کہ یہ کس عظیم ذات کا کلام ہے اور میں کس بھاری کام کیلئے بیٹھا ہوں۔ (2)قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے وقت دل کو حاضر رکھیں۔ادھر اُدھر خیال نہ کریں، برے خیالات سے دل کو آلودہ نہ کریں اور جو بے خیالی میں پڑھ چکے اسے از سرنو توجہ سے پڑھیں۔ (3) ہر حکم کے معنی میں غور و فکر کریں، اگر سمجھ میں نہ آئے تو اسے بار بار پڑھیں اور اگر کسی آیت کے پڑھنے سے لذت محسوس ہو تو اسے پھر پڑھیں کہ یہ دوبارہ پڑھنا زیادہ تلاوت کرنے سے بہتر ہے۔ (4)جس طرح آیات کا مضمون تبدیل ہوتا رہے اسی طرح مضمون کے مطابق دل کی کیفیت بھی بدلتی رہے اور قرآن کے رنگ میں رنگتی جائے۔(5)قرآنِ مجید کی تلاوت اس طرح کرے کہ گویا یہ قرآن اللہ پاک کی بارگاہ سے سن رہا ہے اور خیال کرے کہ ابھی اس ذات کی جانب سے سن رہا ہوں۔ (کیمیائے سعادت، ص 241 تا247 ملخصاً)

قرآنِ پاک پر عمل کرنا: علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اللہ پاک کی کتابوں سے مقصود ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنا ہے نہ فقط زبان سے بالترتیب ان کی تلاوت کرنا۔اس کی مثال یہ ہے کہ جب کوئی بادشاہ اپنی سلطنت کے کسی حکمران کی طرف کوئی خط بھیجے اور اس میں حکم دے کہ فلاں فلاں شہر میں اس کے لیے ایک محل تعمیر کر دیا جائے اور جب وہ خط اس حکمران تک پہنچے تو اس میں دیے گئے حکم کے مطابق عمل نہ کرے البتہ اس خط کو روزانہ پڑھتا رہے تو جب وہ بادشاہ وہاں پہنچے گا اور محل نہ پائے گا تو ظاہر ہے کہ وہ حکمران عتاب بلکہ سزا کا مستحق ہوگا۔ کیونکہ اس نے بادشاد کا حکم پڑھنے کے باوجود اس پر عمل نہیں کیا تو قرآن بھی اسی خط کی طرح جس میں اللہ پاک نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ وہ دین کے ارکان جیسے نماز اور روزہ وغیرہ کی تعمیر کریں اور بندے فقط قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہیں اور اللہ پاک کے حکم پر عمل نہ کریں تو ان کا فقط قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہنا حقیقی طور پر فائدہ مند نہیں۔(روح البيان، البقرة، تحت الآیۃ:64، 1/155 ملخصاً)

قرآنِ پاک کی قراءت کے چند احکام:(1) تجوید قرآنِ پاک کی آیت،متواتر احادیث،صحابہ کرام، تابعین اور تمام ائمہ کرام کے مکمل اجماع کی وجہ سے حق اور واجب اور الله پاک کے دین اور شریعت کا علم ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) اسے مطلقاً ناحق بتانا کلمہ کفر ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 6/322-323 ملخصا)(2) قرآنِ پاک کو اتنی تجوید سے پڑھنا فرضِ عین ہے جس سے حروف صحیح ادا ہوں اور غلط پڑھنے سے بچے۔( فتاویٰ رضویہ، 6/343ملخصاً)(3) جس سےحروف صحیح ادا نہیں ہوتے اس پر واجب ہے کہ حروف صحیح ادا کرنے کی رات دن پوری کوشش کرے اور اگر نماز میں صحیح پڑھنے والے کی اقتدا کر سکتا ہو تو جہاں تک ممکن ہو اس کی اقتدا کرے یا وہ آیتیں پڑھے جن کے حروف صحیح ادا کر سکتا ہو۔ اور یہ دونوں صورتیں نا ممکن ہوں تو کوشش کے زمانے میں اس کی اپنی نماز ہو جائے گی اور اگر کوشش بھی نہیں کرتا تو اس کی خود بھی نماز نہیں ہوگی۔ دوسرے کی اس کے پیچھے کیا ہوگی۔آج کل عام لوگ اس میں مبتلا ہیں کہ غلط پڑھتے ہیں اور صحیح پڑھنے کی کوشش نہیں کرتے ان کی اپنی نمازیں باطل ہیں۔ (بہار شریعت، 1 /570-571ملخصاً)

صدر الشریعہ، بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمتہ اللہ علیہ اپنے زمانہ کے حفاظ کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:افسوس !صد افسوس !کہ اس زمانہ میں حفاظ کی حالت نہایت نا گفتہ بہ ہے، اکثر ایسا پڑھتے ہیں کہ ”یعلمون“”تعلمون“ کے سوا کچھ پتا نہیں چلتا، الفاظ و حروف کھا جایا کرتے ہیں، جو اچھا پڑھنے والے کہے جاتے ہیں انہیں دیکھیے تو حروف صحیح ادا نہیں کرتے۔ ہمزہ، الف، عین اور ذ،ز،ظ اور ث،س، ص،ت،ط وغیرہا حروف میں فرق نہیں کرتے جس سے قطعا ًنماز ہی نہیں ہوتی۔ فقیر کو انہی مصیبتوں کی وجہ سے تین سال ختمِ قرآنِ مجید سننا نہ ملا۔مولا تمام مسلمان کو توفیق دے کہ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ( یعنی جس طرح اللہ پاک نے قرآن مجید نازل فرمایا اسی طرح )پڑھنے کی کوشش کریں .(بہار شریعت، حصہ چہارم، تراویح کا بیان، 1/691-692)

الله پاک ہمیں صحیح تلفظ، مخارج و قواعد کے ساتھ خشوع و خضوع سے قرآنِ کریم پڑھنے، سمجھنےاور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے کا بہترین طریقہ مع ترجمہ و تفسیر پڑھنا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم روز مرہ کے معمول میں تین آیات مع ترجمہ و تفسیر پڑھنا اپنا معمول بنالیں۔


قرآنِ کریم کی اہمیت بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ لوگ اس کے معانی میں غوروفکر کریں اور اس کے حقائق میں تدبر کریں۔ جب قرآنِ کریم کو نازل فرمانے والا سب سے بڑا عظیم ہے تو اس کی طرف سے بھیجے ہوئے قرآنِ کریم کو سب سے زیادہ توجہ کے ساتھ سننا چاہیے اور اس میں انتہائی غور و فکر کرنا اور کامل طریقے سے اس کے دیئے گئے احکام پر عمل کرنا چاہیے۔

قرآنِ مجید کے حقوق مندرجہ ذیل ہیں:

1- قرآنِ پاک کی تعظیم کی جائے: وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۲۰۴) (پ 9، الاعراف: 204) ترجمہ كنز العرفان: اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو۔

2-قرآنِ پاک کو بے وضو نہ چھوا جائے: لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَؕ(۷۹) (پ 27، الواقعہ: 79)ترجمہ كنز العرفان: اسے نہ چھوئے مگر باوضو۔

3-قرآنِ پاک کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائے: وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) (پ 29، المزمل: 4)ترجمہ كنز العرفان:اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔

4- قرآن ِپاک کی آیتوں میں غور و فکر کرکے نصیحت حاصل کی جائے: كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْۤا اٰیٰتِهٖ وَ لِیَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۲۹) (پ 23، صٓ: 29)ترجمہ کنز العرفان: یہ قرآن ایک برکت والی کتاب ہے جوہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غوروفکر کریں اور عقلمند نصیحت حاصل کریں۔

5 -قرآنِ پاک پر عمل کیا جائے اور دوسروں تک پہنچایا جائے: وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(۴۴) (پ 14، النحل: 44)ترجمۂ كنز العرفان: اور اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن نازل فرمایا تاکہ تم لوگوں سے وہ بیان کرو جوان کی طرف نازل کیا گیا ہے اورتا کہ وہ غوروفکر کریں۔

قرآن کو درست پڑھنے کی ترغیب:حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے روایت ہے، رسول الله ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے جب ہم قرآن پڑھ رہے تھے عربی اور عجمی سب ہی تھے۔ فرمایا: پڑھے جاؤ !سب ٹھیک ہو کچھ قومیں ایسی ہوں گی جو تلاوت کو ایسے درست کریں گی جیسے تیر سیدھا کیا جاتا ہے۔

شرحِ حدیث:قرآن شریف عجمی، عربی،شہری،بدوی سب کے لیے آیا ہے سب ہی تلاوت کیا کرو۔ عجمی یہ خیال نہ کریں چونکہ ہمارا لہجہ عرب کا سا نہیں ہو سکتا لہٰذا ہم تلاوت ہی چھوڑ دیں جو لہجہ بن پڑے اس میں پڑھو۔ہاں !صحیح پڑھو،لہجے کا اعتبار نہیں۔(مراٰۃ المناجیح، 3/ 291)

غلط پڑھنے کا وبال:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں (غلط پڑھنے کی وجہ سے) قرآن ان پرلعنت کرتا ہے۔(احیاء العلوم،1/ 364)

یاد رکھیے!قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والے پر اللہ پاک کی رحمتوں کی بارش بھی اسی وقت ہوگی جبکہ وہ صحیح معنوں میں قرآنِ پاک پڑھنا جانتی ہوگی۔ جو لوگ صحیح مخارج کے ساتھ قرآنِ پاک پڑھنا نہیں جانتے وہ ثواب کمانے کے بجائے گناہ کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔

تفسیر صراط الجنان کی ترغیب:دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والے مسلمانوں کی زبان عربی نہیں بلکہ مختلف علاقوں میں رہنے والے مسلمان اپنی اپنی علاقائی اور مادری زبانوں میں گفتگو کرتے ہیں اور قرآنِ مجید کی تفاسیر کا زیادہ تر ذخیرہ چونکہ عربی زبان میں ہے اس لیے اہلِ عرب کے علاوہ دیگر علاقوں میں مقیم مسلمانوں کی اکثر یت عربی زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ان تفاسیر سےفائدہ نہیں اٹھا سکتی۔ ایسی ضرورت اور حاجت کے پیشِ نظر بے شمار علما نے تفاسیر لکھی ہیں۔ ان میں سے ایک صراط الجنان فی تفسیر القرآن بھی ہے۔ اس میں سب سے پہلے ہر سورۃ کا تعارف بیان کیا گیا ہے۔ اس کے مضامین میں فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ پھر اس کے بعد کنز الایمان اور کنز العرفان سے ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔اس کے بعد اس کی انتہائی آسان اور ساده تفسیر بیان کی گئی ہے جس کو ہر خاص و عام بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ اللہ پاک ہمیں صراط الجنان فی تفسیر القرآن کو پڑھنےاور خوب خوب فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


قرآنِ مجید، فرقانِ حمید کی اہمیت و فضیلت خود رب کریم نے ارشاد فرمائی۔ پارہ 8 سورهٔ انعام میں ارشاد ہوا: وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ(۱۵۵) (پ 8، الانعام:155) ترجمہ کنزالایمان: یہ برکت والی کتاب ہم نے اتاری تو اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری کرو کہ تم پر رحم ہو۔

قرآنِ پاک اللہ پاک کا بہت ہی مبارک کلام ہے۔ قرآن ِکریم ہدایت کا مرکز ہے۔تمام علوم قرآن میں موجود ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ مجید میں پوری کائنات اور سارے عالم کی ہر ہر چیز کا واضح روشن اور تفصیلی بیان ہے۔ قرآنِ مجید تو علوم و معارف کا وہ خزانہ ہے جو کبھی ختم ہی نہیں ہوسکتا۔

قرآنِ مجید کے پڑھنے کے پانچ حق ذکر کیے جاتے ہیں۔ جو درج ذیل ہیں:

(1) قرآنِ پاک کا ایک حق یہ ہے کہ اسے عرب کے لب ولہجے میں پڑھا جائے۔ کیونکہ پیارے آقا ﷺنے فرمایا:اِقْرَءُواالْقُرْاٰنَ بِلُحُوْنِ الْعَرَبِ وَ اَصْوَا تِہا یعنی قرآنِ مجید عربی لہجوں اور عربی آوازوں سے پڑھو۔( مراٰۃ المناجیح، 3 /292، حدیث: 2103)

(2)قرآن کا دوسرا حق قرآنِ پاک کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھنا ہے۔ پیارے آقاﷺ نے فرمایا:حَسِّنُوا الْقُرْاٰنَ بِاَ صْوَاتِکُمْ فَاِنَّ الصَّوْتَ الْحَسَنَ یَزِیْدُ الْقُرْاٰنَ حسنا قرآن کو اپنی آوازوں سے زینت دو کیونکہ اچھی آواز قرآن کا حسن بڑھادیتی ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، 3 /292 ) ایک جگہ ارشاد فرمایا: جو قرآن خوش الحانی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔

(3)قرآن پڑھنے کا تیسرا حق یہ ہے کہ اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام جانے۔ اس بات کا ثبوت بھی حدیثِ مبارکہ سے ملتا ہے۔ پیارے پیارے شہد سے بھی میٹھے آقا ﷺکا فرمان ہے:وہ شخص قرآن پر ایمان ہی نہ لایا جو اس کے محرمات کو حلال جانے۔ (مراٰة المناجیح، 3 / 290 )

تلاوتِ قرآن جب مفیدہے جب اس کے احکام پر ایمان ہو، ایمان کے بغیر نہ تلاوت مفید ہے نہ قرآن ساتھ رکھنا۔ حلال و حرام پر ایمان نہ لانے والا کافر ہے۔ پھر تلاوت کا ثواب کیسے ملے گا! غذا، دوا زندہ کو مفید ہے نہ کہ مردے کو۔

(4)قرآنِ پاک کا چو تھا حق یہ ہے کہ قرآن کی پیروی کریں۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ(۱۵۵) (پ 8، الانعام:155) ترجمہ کنزالایمان: یہ برکت والی کتاب ہم نے اتاری تو اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری کرو کہ تم پر رحم ہو۔

بیان کردہ آیتِ مقدسہ کے تحت صراط الجنان جلد 3 صفحہ نمبر 247 پر لکھا ہے: اس آیت سے معلوم ہوا! قرآنِ مجید کا ایک حق یہ ہے کہ وہ اس مبارک کتاب کی پیروی کریں، اس کے احکام کی خلاف ورزی کرنے سے بچیں۔ ( اسلامی بیانات، 6/ 97)

(5)قرآن کا پانچواں اور اہم حق یہ ہے کہ اس کو باوضو پڑھیں۔ کیونکہ اللہ پاک نے اپنے عظیم کلام میں ارشاد فرمایا: لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَؕ(۷۹) (پ 27، الواقعہ: 79)ترجمہ كنز العرفان: اسے نہ چھوئے مگر باوضو۔یعنی اسے پاکیزگی کی حالت میں ہی چھوا جاسکتا ہے ورنہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

قرآنِ مجید کو سمجھ کر پڑھنے سے دلوں کو سرور اور سکون ملتا ہے۔ روح مسرور ہو جاتی ہے۔ باطن کشادہ ہو جاتا ہے۔ دل منور ہو جاتا ہے۔ چہرہ روشن ہو جاتا ہے۔آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔اللہ واحد و یکتا کی قدرتِ کا ملہ اور رحمتِ عامہ پر مزید یقین پختہ ہو جاتا ہے۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم قرآنِ مجید کو سمجھ کر پڑھیں۔ اس کے احکامات کے بارے میں جاننے کیلئے تفسیرصراط الجنان کا مطالعہ کیا جائے۔ یہ بالکل آسان انداز پر لکھ کرامت کی خیر خواہی کا سامان کیا ہے۔ روزانہ ترجمہ و تفسیرسننے یا سنانے یا پھر انفرادی طور پر پڑھنے کی عادت بنائیں اور ثواب کمائیں۔


قرآنِ کریم اللہ پاک کی آخری کتاب ہے جو اس نے اپنے آخری نبی، محمدِ عربی ﷺ پر نازل فرمائی۔ اس مبارک کتاب کے لوگوں پر بہت سے حقوق ہیں جن میں سے پانچ درج ذیل ہیں:

1-کتاب اللہ پر ایمان رکھا جائے:ارشادِ باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُؕ- (پ 5، النساء:136) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو اس سے پہلے نازل کی (ان سب پرہمیشہ) ایمان رکھو۔

2-درست قواعد کے ساتھ اس کی تلاوت کی جائے:رب کریم فرماتا ہے: وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) (پ 29، المزمل: 4)ترجمہ کنز العرفان: اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کر۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس کا معنی یہ ہے کہ اطمینان کے ساتھ اس طرح قرآن پڑھو کہ حروف جُدا جُدا رہیں، جن مقامات پر وقف کرنا ہے ان کا اور تمام حرکات (اور مَدّات) کی ادائیگی کا خاص خیال رہے۔ آیت کے آخر میں ’’ تَرْتِيْلًا‘‘ فرما کر اس بات کی تاکید کی جا رہی ہے کہ قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے والے کے لئے ترتیل کے ساتھ تلاوت کرنا انتہائی ضروری ہے۔ (تفسیرمدارک، ص1292)

خیال رہے کہ قرآنِ پاک کو اتنی تجوید سے پڑھنا فرضِ عین ہے جس سے حروف صحیح ادا ہوں اور غلط پڑھنے سے بچے۔ (فتاویٰ رضویہ، 6 /343 ملخصاً)

اگر آپ درست تجوید سے قرآنِ پاک نہیں پڑھ سکتیں تو دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام مدرسۃ المدینہ بالغات میں داخلہ لے کر اپنے قواعد ضرور درست کیجیے۔ اس کے علاوہ فیضان آن لائن اکیڈمی گرلزسے گھر بیٹھے صحیح مخارج کے ساتھ قرآنِ کریم کی تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔

3-اس میں غور وفکر کیا جائے:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَؕ- (پ 5، النساء: 82) ترجمہ کنز العرفان: تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: قرآنِ کریم میں غور و فکر کرنا اعلیٰ درجے کی عبادت ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیاء العُلوم میں فرماتے ہیں کہ ایک آیت سمجھ کر اور غور و فکر کر کے پڑھنا بغیر غور و فکر کئے پورا قرآن پڑھنے سے بہتر ہے۔ (احیاء العلوم، 5 /170)

واضح رہے کہ قرآنِ پاک میں وہی غوروفکر معتبر اور صحیح ہے جو صاحبِ قرآن ﷺکے فرامین اور حضور پُرنور ﷺ کے صحبت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان سے تربیت حاصل کرنے والے تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے علوم کی روشنی میں ہو، کیونکہ وہ غور و فکر جو اُس ذات کے فرامین کے خلاف ہو جن پر قرآن اترا اور اس غور و فکر کے خلاف ہو جو وحی کے نزول کا مُشاہدہ کرنے والے بزرگوں کے غوروفکر کے خلاف ہو، وہ یقینا ًمعتبر نہیں۔ اس لئے دورِ جدید کے اُن نت نئے محققین سے بچنا ضروری ہے جو چودہ سو سال کے علما، فقہاء، محدثین ومفسرین اور ساری امت کے فَہم کو غلط قرار دے کر قولاً یا عملاً یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ قرآن اگر سمجھا ہے تو ہم نے ہی سمجھا ہے، پچھلی ساری امت جاہل ہی گزر گئی ہے۔ یہ لوگ یقینا ًگمراہ ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان)

4-جب تلاوتِ قرآن کی جارہی ہو تو خاموش رہ کر توجہ سے سنا جائے:ارشادِ باری ہے: وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۲۰۴) (پ9،الاعراف:204) ترجمہ كنز العرفان: اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو۔

علامہ عبداللہ بن احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس وقت قرآنِ کریم پڑھا جائے خواہ نماز میں یا خارجِ نماز اُس وقت سننا اور خاموش رہنا واجب ہے۔ (مدارک، ص401)

بعض لوگ ختم شریف میں مل کر زور سے تلاوت کرتے ہیں یہ بھی ممنوع ہے۔( تفسیر صراط الجنان)

5:اس کے احکامات پر عمل کیا جائے:علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اللہ پاک کی کتابوں سے مقصود ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنا ہے، نہ کہ فقط زبان سے بِالتَّرتیب ان کی تلاوت کرنا۔

حضرت معاذ جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جو قرآن پڑھے اور اس کے احکام پر عمل کرے تو قیامت کے دن اس کے ماں باپ کو ایسا تاج پہنایا جائے گا، جس کی روشنی سورج کی روشنی سے اچھی ہوگی، جو اگر سورج تم میں ہوتا  تودنیاوی گھروں میں ہوتی، تو اس کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جو اس پر عامل ہو۔ (ابو داؤد،حدیث: 1453)

ہمیں چاہئے کہ کتاب اللہ کے حقوق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان کی ادائیگی میں کوشاں رہیں۔ پابندی کے ساتھ قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے کی عادت بنائیں اور روزانہ کم سے کم تین آیات، ترجمہ و تفسیر کے ساتھ ضرور پڑھیں۔ اس کیلئے دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق مستند تفاسیر کی روشنی میں لکھی گئی تفسیر صراط الجنان کا مطالعہ کریں۔ صراط الجنان کی موبائل ایپلیکیشن بھی پلے اسٹور پر موجود ہے، جبکہ دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے اس کے آڈیو کلپس بھی ڈاؤن لوڈ کرکے سنے جاسکتے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں کتاب اللہ کے حقوق ادا کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ


ہم میں سے تقریباً ہر ایک چاہتا ہے کہ میری زندگی اچھی ،خوبصورت اور کامل واکمل ہو جائے ۔ ذرا دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑائیے ! دنیا میں سب سے کامل زندگی کس کی ہے ۔ یقیناً ایک مسلمان ہی جواب دے گا کہ اس دنیا میں سب سے کامل و اکمل زندگی، مصطفی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بتایا: كان خُلُقُه القُرآنَ یعنی آپ کے مبارک اخلاق قراٰن کریم والے تھے ۔ (المعجم الاوسط ،ص34، حدیث:72)معلوم ہواکہ ہم اپنی زندگی کو خوبصورت اچھی بنانا چاہتے ہیں تواس کا ایک ہی طریقہ ہے ۔ زندگی گزارنے کے اصول قراٰنِ مجید سے سیکھتے جائیں اور ان پر عمل کرنے کا انداز سنتِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سیکھیں ۔قراٰنِ مجید کے پانچ حقوق پڑھیئے :۔

(1) تلاوت کرنا: ہمیں دن، رات تلاوتِ قراٰن کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ (1) تلاوت ِقراٰن افضل عبادت ہے۔ (2) جو صبح کو قراٰن ختم کرتا ہے تو شام تک اور جو شام کو ختم کرتا ہے تو صبح تک فرشتے اس کیلئے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔ (3) قراٰن پڑھنے والا عذابِ الہی سے محفوظ رہتا ہے۔(4) قراٰن پڑھنے والا اس کی برکت سے ترقی کرتا ہے ۔(کنز العمال، ص257 تا 261)) یہ ثوابات اور فائدے اسی وقت حاصل ہوں گے جب ہم تلاوت کریں گے۔ ہمیں چاہیے کہ تلاوت کو اپنے معمولات میں شامل کریں۔ جیسے کھانے کے بغیر ہمارا دن نہیں گزرتا ہے اسی طرح تلاوتِ قراٰن کے بغیر بھی دن نہیں گزرنا چاہیے۔

(2) قراٰن پر عمل کرنا : قراٰنِ مجید کا یہ حق ہے کہ اس کے بیان کردہ آداب زندگی کو اپنایا جائے اور اس کے بتائے ہوئے اخلاق کو اپنے کردار کا حصہ بنایا جائے ۔ الله پاک فرماتا ہے: وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ(۱۵۵) ترجمۂ کنز الایمان : اور یہ برکت والی کتاب ہم نے اتاری تو اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری کرو کہ تم پر رحم ہو ۔(پ8 ، الانعام : 155)

قراٰن مجید کتابِ ہدایت ہے۔ بے شک اسے دیکھنا، چھونا، تلاوت کرنا عبادت ہے۔مگر جب تک عمل نہ کیا جائے، اس وقت تک کما حقہ ہدایت نصیب نہیں ہو سکتی۔

(3) قراٰنِ کریم کی محبت و تعظیم: الحمد للہ قراٰنِ مجید کے ساتھ محبت کرنا سنت مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے ۔ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قراٰن کریم سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے۔ ایک روز آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے گھر مبارک میں تشریف فرما تھے۔ کسی نے بتایا کہ کوئی شخص خوبصورت آواز میں تلاوت قراٰن کر رہا ہے ۔ آپ اٹھے باہر تشریف لے گئے ۔ اور دیر تک تلاوت سنتے رہے ۔ پھر واپس تشریف لائے۔ اور فرمایا: یہ ابوحذیفہ کا غلام سالم ہے۔ تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں۔ جس نے میری امت میں ایسا شخص پیدا فرمایا ۔ (ابن ماجہ ،ص 216 ، حدیث: 1338)

الٰہی رونق اسلام کے سامان پیر کر

دلوں میں مؤمنوں کے اُلفت قراٰن پیدا کر

(4)قراٰن پر ایمان لانا : حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں قراٰنِ کریم شفاعت کرنے والا ہے۔ اور اس کی شفاعت قبول بھی کی جائے گی۔ جو قراٰن کو اپنا امام و پیشوا بنا لے گا ، قراٰن اسے جنت میں لے جائے گا اور جو قراٰن کریم کو پس پشت ڈال دےگا تو قراٰن اسے جہنم میں دھکیل دے گا۔(مصنف عبد الرزاق ، 3/ 229 ، حدیث: 6030) لہذا قراٰنِ کریم پر ایمان لانے کا یہ تقاضا ہے کہ ہم زندگی کے ہر شعبے، ہر مسئلے ، ہر مرحلے پر قراٰن کو اپنا امام و پیشوا مانیں ۔

(5) قراٰنِ مجید سیکھنا : قراٰنِ مجید کا ایک حق اس کو سیکھنا بھی ہے ۔ علامہ قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جو شخص قراٰن سیکھے مگر اس سے غفلت کرے ،قراٰن اس کے خلاف دلیل ہوگا اور اس سے بڑھ کر اس بندے کے خلاف دلیل ہو گا، جو قراٰن کے حق میں کمی کرے اور اس سے جاہل رہے۔ (تفسیر قرطبی، 1/ 19)

گر تو می خواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جز بقرآن زیستن

ازیک آئین مسلمان زنده است پیکر ملت زِ قراٰن زنده است

ترجمہ :اگر مسلمان بن کر زندگی گزارنا چاہتے ہو تو بغیر قراٰن ایسا ہر گز ممکن نہیں ہے۔ اسلام اور مسلمان صرف ایک ہی قانون سے زندہ رہتے ہیں اور قانون کا نام قراٰن ہے ۔


اللہ پاک نے عالَمِ دنیا کو وجود بخشا، اس میں قسم قسم کی مخلوق پیدا فرمائی۔ حضرت انسان کی تخلیق فرما کر پھر اس کی ہدایت کے لئے انبیائے کرام علیہم الصلوة والسلام کو مبعوث فرما تا رہا اور ان پر صحیفوں کو نازل فرماتا رہا تاکہ لوگ انبیائے کرام علیہم الصلوة والسلام کے حکم کی پیروی کر کے اور صحیفوں کے حقوق کو ادا کر کے حقیقی فلاح و کامیابی (اللہ کی رضا، جنت) حاصل کر سکیں اور ہمیشہ کی رسوائی (یعنی اللہ کی ناراضگی اور جہنم) سے بچ سکیں۔ اسی طرح اللہ پاک نے اپنے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر قراٰنِ مجید نازل فرمایا۔ قراٰنِ مجید مسلمانوں کے لئے رشدو ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اسی طرح قراٰنِ پاک کے بھی بہت سے حقوق ہیں، جن میں سے 5 پیشِ خدمت ہیں۔

(1)قراٰنِ پاک کو سیکھنا: قراٰنِ کریم کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قراٰنِ پاک کو درست تلفظات اور تیم مخارج کے ساتھ سیکھنا جیسا کہ حضورِ اکر م صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے قراٰنِ مجید سیکھا اور سکھایا اور جو کچھ قراٰنِ پاک میں ہے اس پر عمل کیا، قراٰن مجید اس کی شفاعت کرے گا اور جنت میں لے جائے گا۔ (2) قراٰنِ پاک کی تلاوت کرنا۔ قراٰنِ پاک کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے۔ چنانچہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قراٰن پڑھو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے شفیع ہو کر آئے گا۔ (مسلم، ص 403، حديث 202)

(3) غور و فکر کرنا : قراٰنِ کریم کی آیات اور معانی میں غور وفکر کرنا بھی قراٰنِ پاک کا ایک حق ہے۔ جیسا کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان عالی شان ہے: جو کچھ قراٰنِ پاک میں ہے اس پر غور وفکر کرو تا کہ تمہیں فلاح ملے ، اس کے ثواب میں جلدی نہ کرو کیونکہ اس کا ثواب بہت بڑا ہے۔ (شعب الایمان،2/350، حديث : 2007 ) (4)عمل کرنا :قراٰنِ پاک کی تعلیمات اور احکامات پر عمل کرنا بھی قراٰنِ مجید کے حقوق میں سے ایک حق ہے۔ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے قراٰن پڑھا اور جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کیا، اس کے والدین کو قیامت کے دن تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج سے اچھی ہے۔ اگر وہ تمہارے گھروں میں ہوتا ،تو اب خود اس عمل کرنے والے کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔( سنن ابی داؤد ،2/100،حدیث:1453)

(5) اسے دوسروں تک پہنچانا : قراٰنِ کریم کے حقوق میں سے ایک حق بہ بھی ہے کہ اسے دوسروں تک پہنچایا جائے ، دوسروں کو بھی سکھائے جائے۔ جیسا کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں سب سے بہترین شخص وہ ہے جو قراٰن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ ( بخاری، کتاب فضائل القراٰن ، 3/410،حدیث:5027)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! یہ وہی کتاب ہے جس نے بھٹکی ہوئی انسانیت کو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی دی، مسلمانوں کوبلندیاں عطا کیں۔ مگر افسوس! آج کا مسلمان اس فانی دنیا میں اپنی دنیوی ترقی و خوشحالی کے لئے نت نئے علوم و فنون سیکھنے سکھانے میں تو ہر وقت یہ مصروفِ عمل نظر آتا ہے جبکہ رب کریم کے نازل کردہ قراٰنِ پاک کو پڑھنے ، سیکھنے سکھانے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں کوتاہی اور غفلت کا شکار ہے۔ الله پاک ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں قراٰنِ پاک کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دینِ اسلام دینِ فطرت ہے اور یہ تمام انسانوں کے لئے مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ یہیں وہ دین ہے جس نے ہر چیز کے حقوق کو علیحدہ علیحدہ دو بالتفصیل بیان کیا ہے۔ اس نے کتابُ اللہ کے حقوق کو بھی بیان کیا ہے۔ جو لوگوں کے لئے سرچشمۂ ہدایت ہے۔ جس نے لوگوں کو تاریکی سے نکال کر اجالے میں کھڑکیا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب مسلمانوں نے اس کے حقوق کا لحاظ کیا اور اس کے حقوق کو ادا کیا ، تب تک وہ دنیا پر غالب رہے اور جب انہوں نے اس کے حقوق کو پامال کرنا شروع کیا تو ان کا زوال شروع ہو گیا۔ اس کے حقوق کا پاس اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب اس کے بارے میں معلوم ہو، انہی حقوق میں سے چند پیشِ خدمت ہیں:۔

(1)کتاب اللہ پر ایمان لانا: وَ الْمُؤْمِنُوْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ایمان والے ہیں وہ ایمان لاتے ہیں اُس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا۔(پ6،النسآء:162)

(2) کتاب الله کو سیکھنا اور سکھانا : حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قراٰن سیکھے اور سکھائے ۔

(3) کتاب اللہ کو با وضو چھونا : لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَؕ(۷۹) ترجمۂ کنزالایمان : اسے نہ چھوئیں مگر با وضو۔(پ27،الواقعۃ:79)

(4) ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرنا : وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) ترجمۂ کنز الایمان: اور قراٰن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔(پ29،المزمل:4)

(5) اچھی آواز میں تلاوت کرنا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: الله نے اپنے نبی کو جتنا خوش الحانی سے تلاوتِ قراٰن کا حکم دیا اتنا کسی اور چیز کا نہ دیا۔

اللہ ہمیں کتابُ الله کے حقوق جاننے اور ان کو بجالانے کی توفیق عطا عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


کتاب اللہ یعنی قراٰنِ پاک الله پاک کی زندہ جاوید کتاب ہے۔ اس میں بیان کی گئی تعلیمات قیامت تک کے تمام مسائل کے حل کے لئے کافی بھی ہیں اور بہتر بھی ہیں۔ قراٰنِ مجید وہ کتاب ہے جو کسی تعارف کی محتاج نہیں، یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ کتاب تمام آسمانی کتابوں کی سردار ہے۔ جس طرح اس کا مرتبہ بلند وبالا ہے اسی طرح کلامُ اللہ یعنی قراٰنِ کریم کے کچھ حقوق بھی ہیں، جس کا ادا کرنا ہمارے ذمہ لازم ہے۔ قراٰنِ کریم کے حقوق ادا نہ کرنا بھی سنگین جرم ہوگا۔

علمائے کرام نے احادیث رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی روشنی میں کتاب اللہ کے پانچ حقوق بیان فرمائے ہیں۔ جو درج ذیل ہیں:

(1)کتاب اللہ پر ایمان لانا: کتاب اللہ کا پہلا حق ہے : اس پر ایمان لانا۔ یہاں یہ بات یاد رکھئے کہ اللہ پاک نے جتنی بھی کتابیں نازِل فرمائیں ، جتنے صحیفے انبیائے کرام علیہمُ السّلام پر نازِل فرمائے ، ان سب پر ہی ایمان لانا ایک مسلمان پر لازِم ہے ، اللہ پاک کی نازِل کردہ کسی ایک بھی کتاب کا انکار کفر ہے۔ اَلْحَمْدُ کی الف سے لے کر وَ النَّاسُ کی سین تک قراٰنِ کریم کا ایک ایک جملہ ، ایک ایک لفظ ، ایک ایک حرف حق ہے ، سچ ہے ، اللہ پاک کی طرف سے نازِل کردہ ہے ، اس میں ایک حرف کی بھی کمی بیشی نہیں ، جو شخص قراٰنِ کریم کے ایک لفظ کا بھی انکار کرے ، وہ کافِر ہے ، دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ الحمد للہ! ہر مسلمان قراٰنِ پاک کو کتابِ ہدایت تسلیم بھی کرتا ہے۔ مگر اس جگہ ہم نے یہ غور کرنا ہے کہ ہم قراٰنِ کریم کو کتابِ ہدایت تسلیم تو کرتے ہیں لیکن کیا ہم عملی طور پر اس سے ہدایت و رہنمائی لیتے بھی ہیں یا نہیں؟ قراٰنِ مجید کو “ کتابِ ہدایت “ تسلیم تو کریں مگر اسے غلاف میں لپیٹ کر الماری کی زِینت بنا دیں اور تجارت کے اُصُول قراٰن کے دشمنوں سے سیکھیں عدالت کے اُصُول قراٰن کے دشمنوں سے سیکھیں اپنے بچوں کو بڑے بڑے فلسفے تو سکھائیں مگر قراٰنِ مجید کی تعلیم نہ دلوائیں زِندگی کے مسائل کا حل کافِروں کی بڑی بڑی کتابوں سے ڈھونڈتے پھریں۔ کیا جس شخص کی تجوری سونے ، چاندی ، ہیرے جواہرات سے بھری ہوئی ہو ، وہ بھی کبھی بھیک مانگنے کے لئے دوسروں کے دروازے پر جاتا ہے؟ لہٰذا قراٰنِ کریم پر ایمان لانے کا یہ تقاضا ہے کہ ہم اپنی زِندگی کے ہر شعبے میں ، ہر مسئلے میں اور ہر مرحلے پر قراٰنِ کریم کو اپنا امام اور پیشوا بنائیں۔

گَرْ تُومِی خَواہِی مُسَلْمَاں زِیْسْتَنْ نَیْسْت مُمْکِنْ جُزْ بَہ قُرْآں زِیْسْتَنْ

ترجمہ:اگر مسلمان بَن کر زندگی گزارنا چاہتے ہو تو بغیر قراٰن کے ایسا ہر گز ممکن نہیں ہے۔

(2)کتاب اللہ کی محبت وتعظیم: کتاب الله کا دوسرا حق ہے : اس سے محبت کرنا اور دِل سے اس کی تعظیم کرنا۔ الحمد للہ! کتاب اللہ قراٰنِ مجید سے محبت کرنا ، سُنَّتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے۔ ہمارے پیارے آقا ، مکی مدنی مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قراٰنِ مجید سے بہت محبت فرماتے تھے ، ایک روز آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے گھر مبارک میں تشریف فرما تھے ، کسی نے بتایا کہ کوئی شخص بہت خوبصُورت آواز میں قراٰنِ مجید کی تِلاوت کر رہا ہے ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُٹھے ، باہَر تشریف لے گئے اور دیر تک تِلاوت سُنتے رہے ، پھر واپس تشریف لائے اور فرمایا : یہ ابوحذیفہ کا غُلام سالم ہے ، تمام تعریفیں اللہ پاک کے لئے ہیں کہ جس نے میری اُمَّت میں ایسا شخص پیدا فرمایا۔(ابن ماجہ ، کتاب : اقامۃ الصلاۃ ، ص216 ، حدیث : 1338)

سلطان محمودغزنوی اور احترامِ قراٰن: منقول ہے ، سلطان محمود غزنوی رحمۃُ اللہِ علیہ کو وفات کے بعد کسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا : اللہ پاک نے آپ کے ساتھ کیا مُعَامَلہ فرمایا؟ سلطان محمود غزنوی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا : ایک مرتبہ میں کہیں مہمان تھا ، جس کمرے میں مجھے ٹھہرایا گیا ، وہاں قدموں کی جانِب طاق میں قراٰنِ مجید رکھا تھا ، میں نے سوچاکہ قراٰنِ مجید کو باہر بھجوا دوں ، پھر خیال آیا کہ میں اپنے آرام کی خاطر قراٰنِ مجید کو باہَر کیوں نکالوں؟ بس یہ سوچ کر میں نے قراٰنِ مجید کی تعظیم کی اور ساری رات بیٹھا رہا اور اس طرف پاؤں نہیں کئے ، بس اسی وجہ سے اللہ پاک نے مجھے بخش دیا۔(دليل العارفين ، مجلس : 5 ، ص 50)

عشقِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی علامت: قاضِی عیاض مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ نے شِفَا شریف میں “ عشقِ مصطفےٰ “ کی علامات کا شُمار کیا تو ان میں ایک علامت “ محبتِ قراٰن “ لکھی کہ جو شخص قراٰن سے محبت کرتا ہے وہی رسولِ کائنات ، فخرِ موجودات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بھی محبت کرتا ہے۔(کِتَابُ الشِّفَا ، جزء : 2 ، ص 24)

اللہ پاک ہمیں قراٰنِ مجید کی بےپناہ محبت عطا فرمائے اور اس کی عِزَّت کرنے ، اس کی تعظیم کرنے ، ادب سے چومنے ، آنکھوں پر لگانے ، سینے سے لگانے کی توفیق عطا فرمائے۔

الٰہی! رونقِ اسلام کے سامان پیدا کر دِلوں میں مؤمنوں کے الفتِ قراٰن پیدا کر

(3): کتاب اللہ پر عمل کرنا: کتاب الله قراٰنِ مجید کا تیسرا حق ہے : اس پر عمل کرنا۔ اَلتَّاَدُّب بِآدَابِہٖ وَالتَّخَلُّق بِاَخْلَاقِہٖ یعنی قراٰنِ مجید کے بیان کردہ آدابِ زِندگی اپنانا اور اس کے بتائے ہوئے اخلاق کو اپنے کردار کا حصہ بنانا۔

اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کتنے قراٰن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قراٰن اُن پر لعنت کرتا ہے۔(المدخل لابن الحاج ، بیان : فضل تلاوۃ القران ، 1/ 85)

عُلَمائے کرام نے اس حدیثِ پاک کا ایک معنی یہ بھی لکھا ہے کہ اس سے مُراد وہ شخص ہے جو قراٰنِ کریم کی تلاوت تو کرتا ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتا۔ ہم خود ذرا غور کریں ایک شخص قراٰنِ پاک کی تِلاوت کر رہا ہے ، قراٰن کہتا ہے : لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱) ترجمۂ کنز الایمان: تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت۔(پ3 ، اٰل عمرٰن : 61) اگر یہ شخص جھوٹ بولتا ہے تو یہ لعنت یقیناً اس پر بھی آئے گی ، قراٰن کہتا ہے : وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(۸۶) ترجمۂ کنز الایمان : اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا ۔( پ3 ، اٰل عمرٰن: 86) اگر یہ تلاوت کرنے والا خود ظالم ہے ، دوسروں کے حُقوق پامال کرنے والا ہے تو یہ وعید اس کی طرف بھی آئے گی ،قراٰنِ مجید بے نمازی کی سزائیں بیان فرماتا ہے ، اگر یہ تلاوت کرنے والا بھی بے نمازی ہے تو یہ ساری وعیدیں اس کی طرف بھی تو آئیں گی۔ مَعْلُوم ہوا قراٰنِ مجید پر ایمان رکھنے ، اس سے محبت کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنا بھی لازِم و ضروری ہے۔

(4)کتاب اللہ کا چوتھا حق : اس کی تلاوت کرنا: یہ بھی ہمارے مُعَاشرے کا بڑا اَلمیہ ہے کہ ہم لوگ تِلاوت نہیں کرتے۔حالانکہ ہمیں صبح وشام ، دِن رات تِلاوتِ قراٰن کی ترغیب دی گئی ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ تلاوتِ قراٰن افضل عِبَادت ہے۔(کنز العمال ، کتاب : الاذکار ، جزء : 1 ، 1/ 257 ، حدیث : 2261)

جو صبح كو قراٰن ختم کرے تو شام تک اور جو شام کو ختم کرے تو صبح تک فرشتے اس کے لئے رحمت کی دُعا کرتے ہیں۔(کنز العمال ، کتاب : الاذکار ، جزء : 1 ، 1/ 261 ، حدیث : 2316)

قاریٔ قراٰن ، قراٰنِ کریم پڑھتا ہوا جنت کے درجات چڑھتا جائے گا۔(ابو داؤد ، کتاب الوتر ، ص 241 ، حدیث : 1464 ماخوذًا)

ایسے ثوابات ، ایسے فائدے ہیں قراٰنِ مجید کی تِلاوت کرنے کے ، مگر ہم تِلاوت نہیں کرتے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم تلاوتِ قراٰنِ کو اپنے روز کے معمولات میں شامِل کریں ، جیسے کھانے کے بغیر ہمارا دِن نہیں گزرتا ، اسی طرح تِلاوتِ قراٰن بھی رُوح کی غذا ہے ، اس کے بغیر بھی ہمارا دِن نہیں گزرنا چاہئے۔

یہی ہے آرزو تعلیم قراٰن عام ہو جائے

تلاوت کرنا صبح و شام میرا کام ہو جائے

(5) کتاب اللہ کو سمجھنا اور اس کی تبلیغ کرنا: کتاب الله قراٰنِ مجید کا پانچواں حق ہے : قراٰنِ مجید کو سمجھنا اور سمجھ کر دوسروں تک پہنچانا۔

اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قراٰنِ مجید کے بےشُمار اَوْصاف بیان فرمائے ہیں ، اُن میں ایک وَصْف یہ بیان فرمایا کہ اَلْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَکَ اَوْ عَلَیْکَ قراٰنِ مجید دلیل ہے ، یہ یا تو تمہارے حق میں دلیل بنے گا یا تمہارے خلاف دلیل ہو گا۔

علّامہ قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : جو شخص قراٰن سیکھے مگر اس سے غفلت کرے قراٰن اس کے خِلاف دلیل ہو گا اور اس سے بڑھ کر اس بندے کے خِلاف دلیل ہو گا جو قراٰنِ مجید کے حق میں کمی کرے اور اس سے جاہِل رہے۔ (تفسیر قرطبی ، 1/19)

اے عاشقان رسول ! قراٰنِ مجید کو سیکھنا بھی لازمی ہے ، اگر قراٰنِ مجید سیکھیں گے نہیں ، سمجھیں گے نہیں تو اس پر عمل کیسے کر سکیں گے اور دوسروں تک کیسے پہنچائیں گے؟

قراٰنِ مجید سیکھنا کیسے ہے؟ اسے سمجھنا کیسے ہے؟ اس کی تعلیمات عام کیسے کرنی ہیں؟ ان سب سوالوں کا صِرْف ایک ہی جواب ہے : عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہو جائیے! الحمد للہ! دعوتِ اسلامی ہمیں قراٰن پڑھنا بھی سکھاتی ہے ، دعوتِ اسلامی ہمیں قراٰن سمجھنے کے ذرائع بھی فراہم کرتی ہے اور قراٰنِ مجید سمجھ کر اس پر عمل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔

اللہ پاک ہم سب کو قراٰنِ پاک سیکھنے اس کی تلاوت کرنے اس پر عمل کرنے اس کی تعظیم کرنے اور اسے دوسرے کو سکھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حضرت تمیم بِنْ اَوْس داری رضی اللہُ عنہ صحابئ رسول ہیں حدیثِ پاک کی مشہور کتاب ”مسلم شریف “ میں آپ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، سرکارِ عالی وقار ، ہم بےکسوں کے مددگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ دِیْن نصیحت ہے۔(مسلم شریف،حدیث: 55)

عام مُحاورے میں کسی کو اچھی بات کی تلقین کرنے کا نام نصیحت ہے لیکن اس حدیثِ پاک میں لفظ “ نصیحت “ عربی لغت کے اعتبار سے استعمال ہوا ہے ، عربی لغت میں “ نصیحت “ کا معنی ہوتا ہے : خالص ہونا یا خالص کرنا۔ یُوں حدیثِ پاک کا معنی ہو گا : دِین خالص ہونے کا نام ہے۔ صحابۂ کرام علیہم ال نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کس کے لئے خالِص ہونے کا نام دِیْن ہے؟ اس کے جواب میں نبئ رَحْمت ، شفیعِ اُمَّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے 5 باتیں ذِکْر فرمائیں ، ارشاد فرمایا : (1) : لِلّٰہِ یعنی اللہ پاک کے لئے خالص ہونا (2) : وَلِکِتَابِہٖ اور اللہ پاک کی کتاب کے لئے خالص ہونا (3) : وَلِرَسُوْلِہٖ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے خالِص ہونا (4) : وَلِاَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ مسلمانوں کے اَئِمَّہ یعنی علماء کرام و مفتیانِ کرام کے لیے خالص ہونا ۔ (5) : عَامَّتِہِمْ عام مسلمانوں کے لئے خالِص ہو جانے کا نام دین ہے۔

اس حدیث پاک میں نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اللہ پاک و کتاب اللہ وغیرھما کے اجمالاً و مختصر حقوق بیان فرمائے ہیں۔

آج کی ہماری گفتگو قراٰنِ پاک کے حقوق کے متعلق ہے۔ یاد رہے کہ قراٰنِ کریم فرقانِ حمید برھان رشید کے ہم پر پانچ 5 حقوق ہیں :۔

(1)قراٰنِ پاک پر ایمان لانا: قراٰنِ پاک کا پہلا حق اس پر ایمان لانا ہے اور یاد رہے اللہ پاک کی تمام نازل کردہ کتب اور صحیفوں پر ایمان لانا مسلمان پر لازم ہے قراٰنِ پاک پر ایمان لانے اور بقیہ کتابوں اور صحیفوں پر ایمان لانے میں فرق ہے ۔

وہ یہ کہ پچھلی جتنی بھی آسمانی کتابیں ہیں ، صحیفے ہیں ، ان سب پر اجمالی ایمان فرض ہے اور قراٰن کریم پر تفصیلی ایمان فرض ہے۔ اجمالی ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک نے تورات نازِل فرمائی ، زبور نازِل فرمائی ، انجیل نازِل فرمائی ، اس کے عِلاوہ انبیائے کرام علیہم السّلام پر جو صحیفے نازِل فرمائے وہ سب حق ہیں ، سچ ہیں ، ان میں جو کچھ اللہ پاک نے نازِل فرمایا ، وہ سب کاسب سچ ہے اور لوگوں نے جو اپنی خواہش سے اس میں اضافہ کیا وہ باطل ہے جبکہ قراٰنِ کریم پر تفصیلی ایمان لازِم ہے ، یعنی اَلْحَمْدُ کی الف سے لے کر وَ النَّاسُ کی سین تک قراٰنِ کریم کا ایک ایک جملہ ، ایک ایک لفظ ، ایک ایک حرف حق ہے ، سچ ہے ، اللہ پاک کی طرف سے نازِل کردہ ہے ، اس میں ایک حرف کی بھی کمی بیشی نہیں ، جو شخص قراٰنِ کریم کے ایک لفظ کا بھی انکار کرے ، وہ کافِر ہے ۔

(2)قراٰنِ کریم کی تلاوت کرنا: قراٰنِ پاک کا دوسرا حق ہے اس کی تِلاوت کرنا۔ یہ بھی ہمارے مُعَاشرے کا بڑا اَلمیہ ہے کہ ہم لوگ تِلاوت نہیں کرتے ، کتنے حُفَّاظ ایسے ہیں جو صِرْف رمضان ہی میں قراٰنِ مجید کھول کر دیکھتے ہیں ، حالانکہ ہمیں صبح وشام ، دِن رات تِلاوتِ قراٰن کی ترغیب دی گئی ہے۔ تلاوتِ قراٰن افضل عِبَادت ہے۔ (کنز العمال،1/ 257)

قراٰنِ کریم کا ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔(ترمذی ،حدیث: 2910)

قراٰن پڑھنے سے رَحْمَت اُترتی فرشتے پروں سے سایہ کرتے سکینہ نازِل ہوتا ہے۔ (مسلم ،حدیث: 2699)

جو نماز میں کھڑے ہو کر قراٰن کی تلاوت کرے اس کے لئے ہر حرف کے بدلے 100نیکیاں ہیں اور جو نماز میں بیٹھ کر تلاوت کرے اس کے لئے ہر حرف کے بدلے میں 50نیکیاں ہیں اور جو نماز کے علاوہ باوضو تلاوت کرے اس کے لئے 25 نیکیاں ہیں اور جو بغیر وضو تلاوت کرے اس کے لئے10نیکیاں ہیں۔ (احیاء العلوم ،1/ 362)

تو ہمیں چاہیے کہ ان احادیث میں مذکورہ فضائل حاصل کرنے کے لیے روزانہ قراٰنِ پاک کی تلاوت کریں ۔

(3)قراٰنِ پاک کو سمجھنا:قراٰنِ پاک کا تیسرا حق ہے قراٰنِ مجید کو سمجھنا حضور جانِ رحمت ، شمع بزمِ ہدایت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قراٰنِ مجید کے بےشُمار اَوْصاف بیان فرمائے ہیں ، اُن میں ایک وَصْف یہ بیان فرمایا کہ اَلْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَکَ اَوْ عَلَیْکَ قراٰنِ مجید دلیل ہے ، یہ یا تو تمہارے حق میں دلیل بنے گا یا تمہارے خلاف دلیل ہو گا۔

علّامہ قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : جو شخص قراٰن سیکھے مگر اس سے غفلت کرے قراٰن اس کے خِلاف دلیل ہو گا اور اس سے بڑھ کر اس بندے کے خِلاف دلیل ہو گا جو قراٰنِ مجید کے حق میں کمی کرے اور اس سے جاہِل رہے۔ (تفسیر قرطبی،1/19)

تو ہم پر لازم ہے کہ جہاں قراٰن کی تلاوت کریں ساتھ ساتھ قراٰنِ پاک کو سمجھیں۔

(4)قراٰنِ پاک پر عمل کرنا: قراٰنِ مجید کا چوتھا حق ہے: اَلتَّاَدُّب بِآدَابِہٖ وَالتَّخَلُّق بِاَخْلَاقِہٖ یعنی قراٰنِ مجید کے بیان کردہ آدابِ زِندگی اپنانا اور اس کے بتائے ہوئے اخلاق کو اپنے کردار کا حصہ بنانا ۔

پارہ 8 ، سورۂ اَنْعَام ، آیت : 155 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ(۱۵۵) ترجمۂ کنز الایمان : اور یہ برکت والی کتاب ہم نے اتاری تو اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری کرو کہ تم پر رحم ہو ۔(پ8 ، الانعام : 155) معلوم ہوا قراٰنِ مجید کا اَہم اور بنیادی حق اس پر عمل کرنا ، اس کی کامِل اِتِّباع کرنا ، اس کے بتائے ہوئے انداز پر زِندگی گزارنا ہے۔

حضرت امام زَیْنُ العابدین رضی اللہُ عنہ امامِ حُسَین رضی اللہُ عنہ کے شہزادے ہیں ، ایک مرتبہ آپ کی کنیز آپ کووُضو کروا رہی تھی۔ پہلے دَوْر میں لونڈیاں اور غلام باقاعدہ فروخت ہوتے تھے ، ان لونڈیوں سے پردہ فرض نہیں تھا تو امام زین العابدین رضی اللہُ عنہ کی کنیز آپ کو وُضُو کروا رہی تھی ، اچانک اس کے ہاتھ سے برتن (لوٹا وغیرہ) چھوٹ کر گِرا اَور امام زین العابدین رضی اللہُ عنہ کے چہرے پر لگا ، چہرہ زخمی ہو گیا۔ آپ رضی اللہُ عنہ نے سَر اُٹھا کر دیکھا تو کنیز نے قراٰنِ مجید کی آیت پڑھی : وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ ترجمۂ کنز الایمان : اور غصہ پینے والے۔(پ4 ، اٰل عمرٰن : 134) امام زین العابدین رضی اللہُ عنہ آیت سُنتے ہی فرمایا : میں نے اپنا غُصَّہ پی لیا۔ لونڈی نے اسی آیت کا اگلا حصہ پڑھا : وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕترجمۂ کنز الایمان : اور لوگوں سے درگزر کرنے والے۔(پ4 ، اٰل عمرٰن : 134) امام زین العابدین رضی اللہُ عنہ نے فرمایا : میں نے رضائے الٰہی کے لئے تجھے معاف کیا۔ لونڈی نے آیتِ کریمہ کا اس سے اگلا حِصَّہ پڑھا : وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴)ترجمۂ کنز الایمان : اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔(پ4 ، اٰل عمرٰن : 134) امام زین العابدین رضی اللہُ عنہ نے فرمایا : جا! تو اللہ پاک کی رضا کے لئے آزاد ہے۔ (ابن عساکر ،41/ 387)

سُبْحٰنَ اللہ! یہ ہے قراٰنِ مجید پر عمل کا انداز! ادھر قراٰن کی تلاوت ہوئی ، ادھر اس پر عمل کر لیا گیا۔ ہمیں بھی اپنے بڑوں کی اتباع کرتے ہوئے قراٰن کریم پر عمل کرنا چاہیے ۔

(5)قراٰنِ پاک کی تبلیغ (دوسروں تک پہنچانا):قراٰنِ پاک کا پانچواں حق ہے اس کی تبلیغ کرنا یعنی دوسروں تک پہنچانا۔ روایت ہے حضرت عبد اللہ ابن عمرو سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ میری طرف سے لوگوں کو پہنچاؤ اگرچہ ایک ہی آیت ہو۔ (سنن ترمذی ، حدیث: 2669)

آیت کے لغوی معنے ہیں علامت اور نشان، اس لحاظ سے حضور کے معجزات،احادیث،احکام،قراٰنی آیات سب آیتیں ہیں۔ اصطلاح میں قراٰن کے اس جملے کو آیت کہا جاتا ہے جس کا مستقل نام نہ ہو، نام والے مضمون کو سورہ کہتے ہیں۔ یہاں آیت سے لغوی معنے مراد ہیں، یعنی جسے کوئی مسئلہ یا حدیث یا قراٰن شریف کی آیت یاد ہو وہ دوسرے کو پہنچادے، تبلیغ صرف علما پر فرض نہیں ہر مسلمان بقدرِ علم مبلغ ہے اور ہو سکتا ہے کہ آیت کی اصطلاحی معنے مراد ہوں اور اس سے آیت کے الفاظ معنےٰ، مطلب،مسائل سب مراد ہوں یعنی جسے ایک آیت حفظ ہو اس کے متعلق کچھ مسائل معلوم ہوں لوگوں تک پہنچائے۔ تبلیغ بھی بڑی اہم عبادت ہے ۔

تو ہمیں چاہیے کہ ہم قراٰن کی تلاوت بھی کریں اور ساتھ ساتھ قراٰن کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ جب ہم سمجھ لیں تو اسے دوسرے مسلمانوں تک بھی پہنچائیں۔

اس کے لیے میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ دعوت اسلامی کے جامعۃُ المدینہ میں داخلہ لے لیں اور اگر آپ یہ کہیں کہ وقت نہیں ہے تو آپ کے لیے دعوت اسلامی کا شعبہ مدرسۃ المدینہ بالغان موجود ہے روزانہ آپ 35 سے 45 منٹ اپنا وقت دیں اور قراٰنِ پاک کو پڑھنا بھی سیکھئے اور سمجھئے بھی ۔

اللہ پاک ہمیں قراٰنِ پاک کو سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین یا رب العالمین