قرآنِ کریم اللہ پاک کی وہ عظیم کتاب ہے جو ایک مسلمان کیلئے مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں پیدائش سے موت تک اور ازل سے ابد تک کے تمام حالات و واقعات اور مرنے کے بعد کے حالات کو بھی تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے۔ طہارت و پاکیزگی،شادی بیاہ، خوشی و غمی،نشست و برخاست، دوسرے کے ساتھ برتاؤ، روزی کمانے اور خرچ کرنے، جہاد، عدالت، سیاست،حکومت وغیرہ کے بارے میں بہترین اصول بیان کر دیئے گئے ہیں۔یہ علوم کا سر چشمہ اور ہدایت کا ایسا مجموعہ ہے جو نہ صرف فرد کو احکام و آداب سکھا کر اس کی شخصیت نکھارتا ہے بلکہ معاشرے کی اصلاح و تربیت کے لئے بھی کئی رہنما اصول اس کتاب ِمبین کا حصہ ہیں۔ قرآنِ کریم کی روشن تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہم ایک ترقی یافتہ، پر امن اور پاکیزہ معاشرہ تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ دونوں جہاں کا سفر فلاح ونجات کے ساتھ طے کر سکتے ہیں۔

قرآنِ کریم کے حقوق: کتاب اللہ کے بہت سے حقوق بھی ہیں۔ قرآن کا حق یہ ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے، اس سے محبت کی جائے جائے۔اس کی تلاوت کی جائے،اسے سمجھا جائے، اس پر ایمان رکھاجائے، اس پر عمل کیا جائے اور اسے دوسروں تک بھی پہنچایا جائے۔ یہاں تلاوتِ قرآن کے چند باطنی آداب ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ مسلمان قرانِ عظیم کی اس طرح تلاوت کریں جیسا کہ تلاوت کرنے کا حق ہے۔

تلاوتِ قرآن کے ظاہری آداب:(1)با وضو ہو کر،قبلہ رو ہو کر،مؤدب ہو کر اور عجز وانکساری کے ساتھ بیٹھیے۔(2) آہستہ پڑھیے اور اس کے معانی میں غور و فکر کیجیے، تلاوتِ قرآن میں جلد بازی سے کام نہ لیجیے۔(3) دورانِ تلاوت رونا بھی چاہیے، اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسی شکل بنا لیں۔(4) اگر قراءت سے ریاکاری کا اندیشہ ہو یا کسی کی نماز میں خلل پڑتا ہو تو آہستہ آہستہ تلاوت کریں۔(5) جہاں تک ممکن ہو قرآنِ پاک کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھیں۔

تلاوتِ قرآن کے باطنی آداب:(1) قرآنِ مجید کی عظمت دل میں بٹھائیں، قرآنِ مجید پڑھنے سے پہلے اللہ پاک کی عظمت دل میں بٹھائیں اور خیال کریں کہ یہ کس عظیم ذات کا کلام ہے اور میں کس بھاری کام کیلئے بیٹھا ہوں۔ (2)قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے وقت دل کو حاضر رکھیں۔ادھر اُدھر خیال نہ کریں، برے خیالات سے دل کو آلودہ نہ کریں اور جو بے خیالی میں پڑھ چکے اسے از سرنو توجہ سے پڑھیں۔ (3) ہر حکم کے معنی میں غور و فکر کریں، اگر سمجھ میں نہ آئے تو اسے بار بار پڑھیں اور اگر کسی آیت کے پڑھنے سے لذت محسوس ہو تو اسے پھر پڑھیں کہ یہ دوبارہ پڑھنا زیادہ تلاوت کرنے سے بہتر ہے۔ (4)جس طرح آیات کا مضمون تبدیل ہوتا رہے اسی طرح مضمون کے مطابق دل کی کیفیت بھی بدلتی رہے اور قرآن کے رنگ میں رنگتی جائے۔(5)قرآنِ مجید کی تلاوت اس طرح کرے کہ گویا یہ قرآن اللہ پاک کی بارگاہ سے سن رہا ہے اور خیال کرے کہ ابھی اس ذات کی جانب سے سن رہا ہوں۔ (کیمیائے سعادت، ص 241 تا247 ملخصاً)

قرآنِ پاک پر عمل کرنا: علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اللہ پاک کی کتابوں سے مقصود ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنا ہے نہ فقط زبان سے بالترتیب ان کی تلاوت کرنا۔اس کی مثال یہ ہے کہ جب کوئی بادشاہ اپنی سلطنت کے کسی حکمران کی طرف کوئی خط بھیجے اور اس میں حکم دے کہ فلاں فلاں شہر میں اس کے لیے ایک محل تعمیر کر دیا جائے اور جب وہ خط اس حکمران تک پہنچے تو اس میں دیے گئے حکم کے مطابق عمل نہ کرے البتہ اس خط کو روزانہ پڑھتا رہے تو جب وہ بادشاہ وہاں پہنچے گا اور محل نہ پائے گا تو ظاہر ہے کہ وہ حکمران عتاب بلکہ سزا کا مستحق ہوگا۔ کیونکہ اس نے بادشاد کا حکم پڑھنے کے باوجود اس پر عمل نہیں کیا تو قرآن بھی اسی خط کی طرح جس میں اللہ پاک نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ وہ دین کے ارکان جیسے نماز اور روزہ وغیرہ کی تعمیر کریں اور بندے فقط قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہیں اور اللہ پاک کے حکم پر عمل نہ کریں تو ان کا فقط قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہنا حقیقی طور پر فائدہ مند نہیں۔(روح البيان، البقرة، تحت الآیۃ:64، 1/155 ملخصاً)

قرآنِ پاک کی قراءت کے چند احکام:(1) تجوید قرآنِ پاک کی آیت،متواتر احادیث،صحابہ کرام، تابعین اور تمام ائمہ کرام کے مکمل اجماع کی وجہ سے حق اور واجب اور الله پاک کے دین اور شریعت کا علم ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) اسے مطلقاً ناحق بتانا کلمہ کفر ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 6/322-323 ملخصا)(2) قرآنِ پاک کو اتنی تجوید سے پڑھنا فرضِ عین ہے جس سے حروف صحیح ادا ہوں اور غلط پڑھنے سے بچے۔( فتاویٰ رضویہ، 6/343ملخصاً)(3) جس سےحروف صحیح ادا نہیں ہوتے اس پر واجب ہے کہ حروف صحیح ادا کرنے کی رات دن پوری کوشش کرے اور اگر نماز میں صحیح پڑھنے والے کی اقتدا کر سکتا ہو تو جہاں تک ممکن ہو اس کی اقتدا کرے یا وہ آیتیں پڑھے جن کے حروف صحیح ادا کر سکتا ہو۔ اور یہ دونوں صورتیں نا ممکن ہوں تو کوشش کے زمانے میں اس کی اپنی نماز ہو جائے گی اور اگر کوشش بھی نہیں کرتا تو اس کی خود بھی نماز نہیں ہوگی۔ دوسرے کی اس کے پیچھے کیا ہوگی۔آج کل عام لوگ اس میں مبتلا ہیں کہ غلط پڑھتے ہیں اور صحیح پڑھنے کی کوشش نہیں کرتے ان کی اپنی نمازیں باطل ہیں۔ (بہار شریعت، 1 /570-571ملخصاً)

صدر الشریعہ، بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمتہ اللہ علیہ اپنے زمانہ کے حفاظ کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:افسوس !صد افسوس !کہ اس زمانہ میں حفاظ کی حالت نہایت نا گفتہ بہ ہے، اکثر ایسا پڑھتے ہیں کہ ”یعلمون“”تعلمون“ کے سوا کچھ پتا نہیں چلتا، الفاظ و حروف کھا جایا کرتے ہیں، جو اچھا پڑھنے والے کہے جاتے ہیں انہیں دیکھیے تو حروف صحیح ادا نہیں کرتے۔ ہمزہ، الف، عین اور ذ،ز،ظ اور ث،س، ص،ت،ط وغیرہا حروف میں فرق نہیں کرتے جس سے قطعا ًنماز ہی نہیں ہوتی۔ فقیر کو انہی مصیبتوں کی وجہ سے تین سال ختمِ قرآنِ مجید سننا نہ ملا۔مولا تمام مسلمان کو توفیق دے کہ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ( یعنی جس طرح اللہ پاک نے قرآن مجید نازل فرمایا اسی طرح )پڑھنے کی کوشش کریں .(بہار شریعت، حصہ چہارم، تراویح کا بیان، 1/691-692)

الله پاک ہمیں صحیح تلفظ، مخارج و قواعد کے ساتھ خشوع و خضوع سے قرآنِ کریم پڑھنے، سمجھنےاور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے کا بہترین طریقہ مع ترجمہ و تفسیر پڑھنا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم روز مرہ کے معمول میں تین آیات مع ترجمہ و تفسیر پڑھنا اپنا معمول بنالیں۔