کتاب اللہ سےمراد اللہ کی کتاب یعنی قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید،فرقان حمید  الله پاک کی وہ آخری مکمل کتاب ہے جسے اللہ پاک نے اپنے پیارے محبوبﷺ پرنازل فرمایا۔یہ وہ مقدس کتاب ہے جس نے بھٹکی ہوئی انسانیت کو سیدھے راستے کی طرف چلایا، اس کو دیکھنا، چھونا، پڑھنا سب عبادت ہے مگر افسوس! آج کا مسلمان اس دنیا ئےفانی میں اپنی دنیوی ترقی کے لیے نت نئے علم وفنون سیکھنے سکھانے میں تو ہر وقت مصر وف عمل نظر آتا ہے جبکہ رب کریم کے نازل کردہ قرآن پاک کو پڑھنے، سیکھنے، سمجھنے اور اس پرعمل کرنے میں کوتا ہی اور غفلت کا شکار ہے۔

قرآن کریم میں رب کریم نے خود فرمایا ہے کہ قر آن رحمت اور شفاء ہے۔ آج ہمارا کیا حال ہے؟ ہم بیماروں کے علاج کے لیے طبیبوں (ڈاکٹروں) کے پاس تو جاتے ہیں لیکن قرآن پڑھنے تو کیا کھول کر دیکھتے بھی نہیں جبکہ ہمیں طبیب کی دوا پر پورا یقین ہو تا ہے کہ ہم اس کی دی ہوئی دوا سے ٹھیک ہوں گے۔ ہمیں دوا کے سا تھ تلاوت قرآن سے بھی لازمی برکتیں لینی چاہئیں۔ قرآن دلوں کا سکون ہے۔ قرآن دلوں کا چین ہے۔ قرآن کی تلاوت کرنے سے بیماروں کو شفا ملتی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری ہے اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔(پ15، بنی اسرائیل:82)

کتاب اللہ کے پانچ حقوق:(1)قرآن کا حق ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے(2)اس کی تلاوت کی جائے(3) اس پر ایمان رکھا جائے(4) اس پر عمل کیا جائے(5)اسے دوسروں تک پہنچا یا جائے۔(صراط الجنان، البقرۃ)

قرآن کو درست پڑھنے کے متعلق احادیث:

بہترین شخص:نبی اکرم ﷺ کا فرمان عالیشان ہے:خَيْرُكُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗیعنی تم میں بہترین شخص وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اوردوسروں کو سکھایا۔ (بخاری شریف، 3/410،حدیث 5027) حضرت ابو عبد الرحمن رضی اللہ عنہ مسجد میں قرآن پڑھایا کرتےاورفرماتے: اسی حدیث مبارک نے مجھے یہاں بٹھا رکھا ہے۔

عطا ہو شوق مولا مدرسہ آنے جانے کا خدایا ذوق دے قرآن پڑھنے پڑھانے کا

قرآن شفاعت کرے گا:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم،نور مجسم ﷺ نے فرمایا: جس نے قرآن سیکھا اور سکھایااورجو قرآن میں ہے اس پر عمل کیا قرآن مجید اس کی شفاعت کرے گااور اسےمیں جنت لے جائے گا۔ ( تاریخ دمشق ابن عساکر،3/41)

جیسا کہ آپ نےپڑھا کہ ان روایات میں قرآن سیکھنے اور سکھانے والے شخص کوبہترین کہا گیا ہے اور جو قرآن پر عمل کرے گا قرآن پاک اس کی شفاعت کرے گا اور جنت میں لے جائے گا اس سے ہمیں پہلی یہ بات معلوم ہوئی کہ ہمیں قرآن کو درست مخارج و قواعد کے ساتھ پڑھنا ہے۔ عرف میں دیکھا جاتا ہے کہ اکثر لوگ ایسے ہیں جو قرآن کو بغیر سیکھے بالکل مجہول پڑھ رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نمازیں نہیں ہوتیں جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ غلط پڑھنے کی وجہ سے قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔ (احیاء علوم الدین،1/364 )

قرآن کی روشنی میں قرآن درست پڑھنے کی ترغیب:ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) 29،المزمل:4) ترجمہ کنز الایمان: اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔

امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیاترتیل کے کیا معنی ہیں ؟تو آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: ترتیل حروف کو عمدگی سے مخارج و صفات کے ساتھ ادا کرنے اور وقف کی جگہ کو پہچاننے کا نام ہے۔

ارشادِ باری: ترجمہ کنز الایمان: جنہیں ہم نے کتاب دی وہ جیسی چاہیے اس کی تلاوت کرتے ہیں۔ (پ1، البقرۃ)تفسیر جلا لین میں اس آیت مبارکہ کے تحت ہے: یعنی وہ اسے ایسے پڑھتے ہیں جیسا کہ اسے نازل کیا گیا۔

درست پڑھنے کی ترغیب: قرآن کی تلاوت کرنے والے پر اللہ کی رحمتوں کی بارش بھی اسی وقت ہوگی جبکہ وہ صحیح معنوں میں قرآن کریم پڑھنا جانتا ہو، لوگ دنیوی تعلیم حاصل کرنے کے لئے تو ان سے متعلق اداروں میں بھاری فیسیں جمع کروانے سے نہیں کتراتے مگر افسوس! صد افسوس!علم دین سے دوری کے باعث درست ادائیگی کے ساتھ فی سبیل الله قرآن مجید سیکھنے کی فرصت تک نہیں۔ اگر ہم درست قواعد و مخارج کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے کے خواہشمند ہیں تو مدرسۃ المدينہ (بالغات) میں ضرور شرکت کریں۔

کتاب اللہ کو غلط پڑھنے کا وبال: اگر ہم احادیث کی طرف دیکھیں تو قرآن پاک کے بکثرت فضائل ہیں مگر یاد رہے کہ یہ فضائل اور اجر و ثواب اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے کہ جب قرآن پاک کو درست تلفظ کے ساتھ پڑھا جائے اور غلط و مجہول ادائیگی سے بچا جائے کیونکہ غلط طریقے پرپڑھنابجائے ثواب کے وعید و عذاب کا باعث ہے۔ جیسا کہ ابھی آپ نے پیچھے پڑھا کہ بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ غلط پڑھنے کی وجہ سے قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔ایک مقام پر فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،سر کار مدینہ ﷺ نے فرمایا: جو قرآن کو خوش آوازی سےنہیں پڑھتادہ ہم میں سے نہیں۔

علم تجوید کا حکم: علم تجویدکا حاصل کرنا فرض کفایہ ہے۔میرے آقا، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں: اتنی تجوید سیکھنا کہ ہر حرف د وسرے حرف سے صحیح ممتازہو فرض عین ہے بغیر اس کے نماز قطعاً باطل ہے۔عوام بیچاروں کو تو جانے دیجئے خو اص کہلانے والوں کو دیکھیے کہ کتنے فرض پر عامل ہیں! میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا، کن کو؟ علماء کو،مفتیوں کو،مدرسوں کو، مصنفوں کو قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ(۱) میںاَحَد کی جگہاَھَد پڑھتے ہیں بلکہ ایک صاحب کو الحمد شریف میں صِرَاطَ الَّذِیْنَ کی جگہ صِرَاطَ الظِّيْنَ پڑھتے سنا، کس کی شکایت کیجیئے !یہ حال تو ا کابرکا ہے پھر عوام بیچاروں کی کیا گنتی! اب کیا شریعت ان کی وجہ سے اپنے احکام مسنوخ کردے گی؟نہیں! نہیں! اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِؕ-ترجمۂ کنز الايمان: حکم نہیں مگر اللہ کا۔ اس بات سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہمیں قرآن کو درست تلفظ سے پڑھنا چاہیے تاکہ ہماری عبادات کا ثواب مل سکے۔

صراط الجنان فی تفسیر القرآن:مفتی محمد قاسم عطاری کی قرآنِ مجید کی ارد و تفسیر امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ قرآن کے ساتھ چھپی ہے۔ صراط الجنان فی تفسیر القرآن کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں دو ترجمے شامل ہیں ایک مصنف کا اپنا بھی ہے جس کی وجہ مفتی قاسم صاحب نے یہ بیان کی کہ کنز الایمان 1911ء میں لکھا گیا جس کی اردو آج کے لوگ آسانی سے نہیں سمجھ سکتے۔

1)صراط الجنان میں قرآن مجید کی ہر آیت کے تحت دو ترجمے ذکر کیے گئے ہیں ایک اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان کا ترجمہ کنز الایمان ہےجبکہ دوسرا ترجمہ کنز العرفان ہے۔

2)صراط الجنان کو متوسط رکھا گیا اور اس بات کاخاص طور پرخیال رکھا گیا کہ تفسیر نہ زیادہ طویل ہو کہ پڑھنے والا یہ گمان کر بیٹھے کہ یہ تفسیر کے علاوہ کوئی اور دینی کتاب ہو۔یونہی صراط الجنان اتنی مختصر بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے عام قاری کی تفسیری تشنگی باقی رہے۔

قرآن فہمی بہت بڑی سعادت ہے۔ حضرت ایاس بن معاویہ رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: جو لوگ قرآن مجید پڑھتے ہیں اور اس کی تفسیر نہیں جانتے ان کی مثال ان لوگوں کی طرح ہے جن کے پاس رات کے وقت ان کے بادشاہ کا خط آیا اور ن کے پاس چراغ نہیں جس کی روشنی میں وہ اس خط کو پڑھ سکیں۔ تو ان کے دل ڈر گئے اور ان کو معلوم نہیں کہ اس خط میں کیالکھا ہے اور وہ شخص جو قرآن پڑھتا ہے اور اس کی تفسیر جانتا ہے اس کی مثال اس قوم کی طرح ہے جن کے پاس قاصد چراغ لے کر آیا تو انہوں نے چراغ کی روشنی سے خط میں لکھا ہوا پڑھ لیا اور انہیں معلوم ہو گیا کہ خط میں کیا لکھا ہے؟

آپ کو اس مثال سےسمجھ آیا ہوگا کہ اگر ہم قرآن کو تفسیر کے ساتھ پڑھیں گے تو ہماری مثال بھی اس کی طرح ہوگی جس کے پاس قاصد چراغ لے کر آیا تو اس نے روشنی سے خط پڑھ لیا اور اسے معلوم ہو گیا کہ خط میں کیا ہے اسی طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ قرآن میں الله کی کیا شان بیان ہوئی ہے اور بھی بہت سی چیزوں کا قرآن میں ذکر ہے۔ افسوس صد کروڑ افسوس! ہم اپنا وقت ناول (novel) پڑھنے کے لیے تو نکال لیتے ہیں کیا یہ ناول ہماری آخرت میں کام آئیں گے؟ہمیں اپنے دنیا میں آنے کا مقصد یاد رکھتے ہوئے الله کی رضاوالے کام کرنے چاہئیں۔اللہ کی رضا نماز کی پابندی کرنے، قرآن کی تلاوت تفسیرکے ساتھ کرنے میں ہے۔ یادرکھیے!جسےاللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا مل گئی اسے سب کچھ مل گیا جسے دین مل گیا تو اسے دنیا بھی مل گئی۔ آئیے!آج سے ہم نیت کرتے ہیں کہ جو صراط الجنان ہمارے مفتی قاسم صاحب اور دیگر مفسرین نے اتنی محنت سے لکھی ہم بھی اس کو خوب توجہ اور دل لگا کر پڑھنے کی کوشش کریں گے تا کہ ہم بھی الله کی رضا حاصل کر سکیں اور رسولﷺ کی محبت اپنے دل میں اجاگر کر سکیں۔ الله آپ کو اور مجھے دین سیکھنے اور سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین