حضرت تمیم بِنْ اَوْس داری رضی اللہُ عنہ صحابئ رسول ہیں حدیثِ پاک کی مشہور کتاب ”مسلم شریف “ میں آپ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، سرکارِ عالی وقار ، ہم بےکسوں کے مددگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ دِیْن نصیحت ہے۔(مسلم شریف،حدیث: 55)

عام مُحاورے میں کسی کو اچھی بات کی تلقین کرنے کا نام نصیحت ہے لیکن اس حدیثِ پاک میں لفظ “ نصیحت “ عربی لغت کے اعتبار سے استعمال ہوا ہے ، عربی لغت میں “ نصیحت “ کا معنی ہوتا ہے : خالص ہونا یا خالص کرنا۔ یُوں حدیثِ پاک کا معنی ہو گا : دِین خالص ہونے کا نام ہے۔ صحابۂ کرام علیہم ال نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کس کے لئے خالِص ہونے کا نام دِیْن ہے؟ اس کے جواب میں نبئ رَحْمت ، شفیعِ اُمَّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے 5 باتیں ذِکْر فرمائیں ، ارشاد فرمایا : (1) : لِلّٰہِ یعنی اللہ پاک کے لئے خالص ہونا (2) : وَلِکِتَابِہٖ اور اللہ پاک کی کتاب کے لئے خالص ہونا (3) : وَلِرَسُوْلِہٖ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے خالِص ہونا (4) : وَلِاَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ مسلمانوں کے اَئِمَّہ یعنی علماء کرام و مفتیانِ کرام کے لیے خالص ہونا ۔ (5) : عَامَّتِہِمْ عام مسلمانوں کے لئے خالِص ہو جانے کا نام دین ہے۔

اس حدیث پاک میں نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اللہ پاک و کتاب اللہ وغیرھما کے اجمالاً و مختصر حقوق بیان فرمائے ہیں۔

آج کی ہماری گفتگو قراٰنِ پاک کے حقوق کے متعلق ہے۔ یاد رہے کہ قراٰنِ کریم فرقانِ حمید برھان رشید کے ہم پر پانچ 5 حقوق ہیں :۔

(1)قراٰنِ پاک پر ایمان لانا: قراٰنِ پاک کا پہلا حق اس پر ایمان لانا ہے اور یاد رہے اللہ پاک کی تمام نازل کردہ کتب اور صحیفوں پر ایمان لانا مسلمان پر لازم ہے قراٰنِ پاک پر ایمان لانے اور بقیہ کتابوں اور صحیفوں پر ایمان لانے میں فرق ہے ۔

وہ یہ کہ پچھلی جتنی بھی آسمانی کتابیں ہیں ، صحیفے ہیں ، ان سب پر اجمالی ایمان فرض ہے اور قراٰن کریم پر تفصیلی ایمان فرض ہے۔ اجمالی ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک نے تورات نازِل فرمائی ، زبور نازِل فرمائی ، انجیل نازِل فرمائی ، اس کے عِلاوہ انبیائے کرام علیہم السّلام پر جو صحیفے نازِل فرمائے وہ سب حق ہیں ، سچ ہیں ، ان میں جو کچھ اللہ پاک نے نازِل فرمایا ، وہ سب کاسب سچ ہے اور لوگوں نے جو اپنی خواہش سے اس میں اضافہ کیا وہ باطل ہے جبکہ قراٰنِ کریم پر تفصیلی ایمان لازِم ہے ، یعنی اَلْحَمْدُ کی الف سے لے کر وَ النَّاسُ کی سین تک قراٰنِ کریم کا ایک ایک جملہ ، ایک ایک لفظ ، ایک ایک حرف حق ہے ، سچ ہے ، اللہ پاک کی طرف سے نازِل کردہ ہے ، اس میں ایک حرف کی بھی کمی بیشی نہیں ، جو شخص قراٰنِ کریم کے ایک لفظ کا بھی انکار کرے ، وہ کافِر ہے ۔

(2)قراٰنِ کریم کی تلاوت کرنا: قراٰنِ پاک کا دوسرا حق ہے اس کی تِلاوت کرنا۔ یہ بھی ہمارے مُعَاشرے کا بڑا اَلمیہ ہے کہ ہم لوگ تِلاوت نہیں کرتے ، کتنے حُفَّاظ ایسے ہیں جو صِرْف رمضان ہی میں قراٰنِ مجید کھول کر دیکھتے ہیں ، حالانکہ ہمیں صبح وشام ، دِن رات تِلاوتِ قراٰن کی ترغیب دی گئی ہے۔ تلاوتِ قراٰن افضل عِبَادت ہے۔ (کنز العمال،1/ 257)

قراٰنِ کریم کا ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔(ترمذی ،حدیث: 2910)

قراٰن پڑھنے سے رَحْمَت اُترتی فرشتے پروں سے سایہ کرتے سکینہ نازِل ہوتا ہے۔ (مسلم ،حدیث: 2699)

جو نماز میں کھڑے ہو کر قراٰن کی تلاوت کرے اس کے لئے ہر حرف کے بدلے 100نیکیاں ہیں اور جو نماز میں بیٹھ کر تلاوت کرے اس کے لئے ہر حرف کے بدلے میں 50نیکیاں ہیں اور جو نماز کے علاوہ باوضو تلاوت کرے اس کے لئے 25 نیکیاں ہیں اور جو بغیر وضو تلاوت کرے اس کے لئے10نیکیاں ہیں۔ (احیاء العلوم ،1/ 362)

تو ہمیں چاہیے کہ ان احادیث میں مذکورہ فضائل حاصل کرنے کے لیے روزانہ قراٰنِ پاک کی تلاوت کریں ۔

(3)قراٰنِ پاک کو سمجھنا:قراٰنِ پاک کا تیسرا حق ہے قراٰنِ مجید کو سمجھنا حضور جانِ رحمت ، شمع بزمِ ہدایت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قراٰنِ مجید کے بےشُمار اَوْصاف بیان فرمائے ہیں ، اُن میں ایک وَصْف یہ بیان فرمایا کہ اَلْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَکَ اَوْ عَلَیْکَ قراٰنِ مجید دلیل ہے ، یہ یا تو تمہارے حق میں دلیل بنے گا یا تمہارے خلاف دلیل ہو گا۔

علّامہ قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : جو شخص قراٰن سیکھے مگر اس سے غفلت کرے قراٰن اس کے خِلاف دلیل ہو گا اور اس سے بڑھ کر اس بندے کے خِلاف دلیل ہو گا جو قراٰنِ مجید کے حق میں کمی کرے اور اس سے جاہِل رہے۔ (تفسیر قرطبی،1/19)

تو ہم پر لازم ہے کہ جہاں قراٰن کی تلاوت کریں ساتھ ساتھ قراٰنِ پاک کو سمجھیں۔

(4)قراٰنِ پاک پر عمل کرنا: قراٰنِ مجید کا چوتھا حق ہے: اَلتَّاَدُّب بِآدَابِہٖ وَالتَّخَلُّق بِاَخْلَاقِہٖ یعنی قراٰنِ مجید کے بیان کردہ آدابِ زِندگی اپنانا اور اس کے بتائے ہوئے اخلاق کو اپنے کردار کا حصہ بنانا ۔

پارہ 8 ، سورۂ اَنْعَام ، آیت : 155 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ(۱۵۵) ترجمۂ کنز الایمان : اور یہ برکت والی کتاب ہم نے اتاری تو اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری کرو کہ تم پر رحم ہو ۔(پ8 ، الانعام : 155) معلوم ہوا قراٰنِ مجید کا اَہم اور بنیادی حق اس پر عمل کرنا ، اس کی کامِل اِتِّباع کرنا ، اس کے بتائے ہوئے انداز پر زِندگی گزارنا ہے۔

حضرت امام زَیْنُ العابدین رضی اللہُ عنہ امامِ حُسَین رضی اللہُ عنہ کے شہزادے ہیں ، ایک مرتبہ آپ کی کنیز آپ کووُضو کروا رہی تھی۔ پہلے دَوْر میں لونڈیاں اور غلام باقاعدہ فروخت ہوتے تھے ، ان لونڈیوں سے پردہ فرض نہیں تھا تو امام زین العابدین رضی اللہُ عنہ کی کنیز آپ کو وُضُو کروا رہی تھی ، اچانک اس کے ہاتھ سے برتن (لوٹا وغیرہ) چھوٹ کر گِرا اَور امام زین العابدین رضی اللہُ عنہ کے چہرے پر لگا ، چہرہ زخمی ہو گیا۔ آپ رضی اللہُ عنہ نے سَر اُٹھا کر دیکھا تو کنیز نے قراٰنِ مجید کی آیت پڑھی : وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ ترجمۂ کنز الایمان : اور غصہ پینے والے۔(پ4 ، اٰل عمرٰن : 134) امام زین العابدین رضی اللہُ عنہ آیت سُنتے ہی فرمایا : میں نے اپنا غُصَّہ پی لیا۔ لونڈی نے اسی آیت کا اگلا حصہ پڑھا : وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕترجمۂ کنز الایمان : اور لوگوں سے درگزر کرنے والے۔(پ4 ، اٰل عمرٰن : 134) امام زین العابدین رضی اللہُ عنہ نے فرمایا : میں نے رضائے الٰہی کے لئے تجھے معاف کیا۔ لونڈی نے آیتِ کریمہ کا اس سے اگلا حِصَّہ پڑھا : وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴)ترجمۂ کنز الایمان : اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔(پ4 ، اٰل عمرٰن : 134) امام زین العابدین رضی اللہُ عنہ نے فرمایا : جا! تو اللہ پاک کی رضا کے لئے آزاد ہے۔ (ابن عساکر ،41/ 387)

سُبْحٰنَ اللہ! یہ ہے قراٰنِ مجید پر عمل کا انداز! ادھر قراٰن کی تلاوت ہوئی ، ادھر اس پر عمل کر لیا گیا۔ ہمیں بھی اپنے بڑوں کی اتباع کرتے ہوئے قراٰن کریم پر عمل کرنا چاہیے ۔

(5)قراٰنِ پاک کی تبلیغ (دوسروں تک پہنچانا):قراٰنِ پاک کا پانچواں حق ہے اس کی تبلیغ کرنا یعنی دوسروں تک پہنچانا۔ روایت ہے حضرت عبد اللہ ابن عمرو سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ میری طرف سے لوگوں کو پہنچاؤ اگرچہ ایک ہی آیت ہو۔ (سنن ترمذی ، حدیث: 2669)

آیت کے لغوی معنے ہیں علامت اور نشان، اس لحاظ سے حضور کے معجزات،احادیث،احکام،قراٰنی آیات سب آیتیں ہیں۔ اصطلاح میں قراٰن کے اس جملے کو آیت کہا جاتا ہے جس کا مستقل نام نہ ہو، نام والے مضمون کو سورہ کہتے ہیں۔ یہاں آیت سے لغوی معنے مراد ہیں، یعنی جسے کوئی مسئلہ یا حدیث یا قراٰن شریف کی آیت یاد ہو وہ دوسرے کو پہنچادے، تبلیغ صرف علما پر فرض نہیں ہر مسلمان بقدرِ علم مبلغ ہے اور ہو سکتا ہے کہ آیت کی اصطلاحی معنے مراد ہوں اور اس سے آیت کے الفاظ معنےٰ، مطلب،مسائل سب مراد ہوں یعنی جسے ایک آیت حفظ ہو اس کے متعلق کچھ مسائل معلوم ہوں لوگوں تک پہنچائے۔ تبلیغ بھی بڑی اہم عبادت ہے ۔

تو ہمیں چاہیے کہ ہم قراٰن کی تلاوت بھی کریں اور ساتھ ساتھ قراٰن کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ جب ہم سمجھ لیں تو اسے دوسرے مسلمانوں تک بھی پہنچائیں۔

اس کے لیے میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ دعوت اسلامی کے جامعۃُ المدینہ میں داخلہ لے لیں اور اگر آپ یہ کہیں کہ وقت نہیں ہے تو آپ کے لیے دعوت اسلامی کا شعبہ مدرسۃ المدینہ بالغان موجود ہے روزانہ آپ 35 سے 45 منٹ اپنا وقت دیں اور قراٰنِ پاک کو پڑھنا بھی سیکھئے اور سمجھئے بھی ۔

اللہ پاک ہمیں قراٰنِ پاک کو سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین یا رب العالمین