جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنی سرکشی پر جمے رہے تو ان پر اللہ پاک کی نشانیاں پے در پے وارد ہونے لگی کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو سزا دلانے اور بعد میں آنے والوں کی عبرت کے لئے اللہ پاک سے دعا کی تھی ۔چنانچہ ان پر پانچ عذابات آئے جن کا ذکر اس آیت میں ہے: فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اورپِسُو(یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔ (پ 9،الاعراف:133)

(1)طوفان: اتنی کثرت سے بارش ہوئی کہ فرعونیوں کے گھروں میں پانی گلے گلے کھڑا ہو گیا ۔جو بیٹھا وہ ڈوب گیا، جو کھڑا رہا اس کے گلے گلے پانی رہا ۔بنی اسرائیل اس سے محفوظ رہے ۔سات دن یہ عذاب رہا ،ہفتے کے دن سے اگلے ہفتے تک۔تب فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے التجاء کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا۔

(2) ٹڈیوں کا عذاب: طوفان ختم ہونے کے بعد ایمان نہ لائے تو صرف ایک مہینے بعد قبطیوں (فرعونیوں) پر ٹڈی کا عذاب آیا ۔جو ان کے کھیت ،گھروں کی چھتیں، سامان اور کیلیں تک کھا گئیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے ایمان کا وعدہ کیا آپ کی دعا سے عذاب دور ہو گیا، سات دن تک ٹڈی کے عذاب میں مبتلا رہے۔

(3)قمل(گھن،جوں،پسو یا کیڑا): ایک مہینہ آرام سے گزرا پھر ایمان نہ لائے تو ان پر گھن یا جوں کا عذاب آیا۔ یہ کیڑے فرعونیوں کے جسم تک چاٹ گئے۔ دس بوری چکی پڑ جاتی تو مشکل سے تین کلو واپس آتا۔ موسیٰ علیہ السلام کے پاس شرمندگی سے گئے، پر عذاب بھی ایک ہفتہ تک رہا۔

(4) مینڈک :وعدہ سے منکر ہوگئے تو ان پر مینڈک کا عذاب آیا کہ جہاں بھی بیٹھتے وہاں مینڈک ہی مینڈک ہو جاتے، کھانوں میں، پانی میں ،چولہوں میں، چکی میں مینڈک ہی مینڈک تھے ۔یہ بھی ایک ہفتہ رہا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس روتے ہوئے آئے ،ایمان کا وعدہ کیا تو عذاب ختم ہوا ۔

(5)خون : مکاروں نے پھر سے وعدہ خلاف کی تب خون کا عذاب آیا اس طرح کے کنویں ،چشمیں، سالن ،روٹی ،سب میں تازہ خون ہو گیا فرعون نے حکم دیا کہ اسرائیلی کے ساتھ ایک برتن میں کھائیں۔ تو اسرائیلی کی طرف شوربہ اور اس کی طرف خون ہوتا۔ اگر اسرائیلی کے برتن سے پانی قبطی کے برتن میں ڈالتے تو آتے ہی خون ہو جاتا یہاں تک کہ اسرائیلیوں سے فرعونیوں نے اپنے منہ میں کلی کروائی تو اسرائیلی کے منہ میں پانی ہوتا تھا قبطی کے منہ میں پہنچ کر خون ہو جاتا تھا۔( تفسیر نور العرفان، زیر آیت سورۃ اعراف: 133)

ہمیں بھی اللہ پاک کی نافرمانیوں سے بچتے ہوئے فرائض و دیگر نیک اعمال کرنے چاہئے تاکہ اللہ پاک و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے بچا جا سکے۔


 فرعون کسی شخص کا نام نہیں بلکہ مصر کے بادشاہ کا لقب تھا۔ اس نے اور اس کے پیروکار نے زمین میں فساد برپا کیا ہوا تھا۔ اور اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی طرف مبعوث فرمایا ۔جب جادوگر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے جب بھی فرعونی اپنی سرکشی سے باز نہ آئے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے خلاف دعا کی :" اے میرے رب فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے۔ اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے لہذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرما لے جو ان کے لئے سزا وار ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے نصیحت ہو"۔

پھر اللہ نے فرعونیوں پر کئی عذابات نازل کئے جسے قرآن پاک میں یوں بیان فرمایا :ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اورپِسُو(یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔ (پ 9،الاعراف:133)

ان عذابات کی تفصیل درجہ ذیل ہے:

1)طوفان: اللہ نے سب سے پہلے طوفان کا عذاب دیا ،کثرت سے بارش برسی۔ پانی سے گھر ڈوب گئے جس کی وجہ سے وہ بیٹھ نہ سکتے تھے جو بیٹھتا تھا وہ ڈوب جاتا تھا ۔

2)ٹڈی: ٹڈیاں کھیتیاں، پھل ،درختوں کے پتے ،مکان کے دروازے یہاں تک کے لوہے کے کیلیں تک کھا جاتیں تھیں۔

3)قمل: قمل میں اختلاف ہے بعض گھن، بعض جو ں ،بعض چھوٹا سا کیڑا کہتے ہیں ۔اور یہ کپڑوں میں گھس جاتے اور جلد کو کھا جاتے تھے۔ یہ فرعونیوں کے بھنویں اور پلکیں بھی چاٹ جاتیں ۔ان کی وجہ سے فرعونیوں کا سونا دشوار ہو گیا تھا۔

4) مینڈک :مینڈک مجلس میں بیٹھ جاتے ، قبطی منہ کھولتے تو ان کے منہ بھر جاتے اور لیٹتے تو مینڈک ان پر سوار ہو جاتے تھے۔

5)خون: کنواں ،نہر ،سمندر اور دریا وغیرہ غرض ہر قسم کا پانی خالص خون ہو گیا ۔یہاں تک کہ بنی اسرائیل والوں کے منہ میں پانی ہوتا وہ جب قبطیوں کے منہ میں کلی کرتے تو ان کے منہ میں خون ہو جاتا۔ بنی اسرائیل قبطیوں کے ساتھ رہتے تھے مگر وہ محفوظ رہے ۔جب قبطیوں کو عذابات پہنچتے تو وہ عاجز ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے نجات دلانے کی درخواست کرتے جس کا ذکر قرآن میں یوں ہے: اور جب ان پر عذاب واقع ہوتا توکہتے، اے موسیٰ! ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے ۔بیشک اگر آپ ہم سے عذاب اٹھادو گے تو ہم ضرور آپ پر ایمان لائیں گے اور ضرور ہم بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے۔ (پ 9، الاعراف : 133 تا 134)

لیکن عذاب ٹلنے کے بعد ہر بار سرکشی کرتے پھر اللہ نے انہیں غرق کر دیا جسے یوں بیان کیا : پھر جب ہم ان سے اس مدت تک کے لئے عذاب اٹھالیتے جس تک انہیں پہنچنا تھا تو وہ فوراً (اپنا عہد) توڑ دیتے۔  تو ہم نے ان سے بدلہ لیا تو انہیں دریا میں ڈبو دیا کیونکہ انہوں نے ہماری آیتوں کوجھٹلایا اور ان سے بالکل غافل رہے۔(پ 9، الاعراف : 135تا 136)

درس عبرت:(1) ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد شکنی، ظلم کرنا ،کفر کرنا ،انبیاء کو جھٹلانا یہ کتنے سنگین جرم ہیں جن سے عذاب الہی نازل ہوتا ہے۔

(2) اس واقعے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے صبر و تحمل کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ نیکی کی دعوت دینے والے اس سے اللہ کی راہ میں آنے والی مشکلات میں صبر کا درس حاصل کریں۔ یہ واقعہ اس جملے " شریف کے ساتھ شریف ،بدمعاش کے ساتھ بدمعاش "کے باطل ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔


حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تعارف :حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے پیارے نبی اور رسول ہیں۔ آپ کے ابو کا نام "عمران" جبکہ امی کا نام "یوحانذ" ہے۔ آپ مصر میں پیدا ہوئے اور "بنی اسرائیل" کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے۔ (عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص:176)

فرعون کا تعارف: پیارے بھائیو! پرانے زمانے میں "مصر "کے بادشاہوں کا لقب" فرعون "ہوا کرتا تھا۔ مصر کے جتنے بھی بادشاہ گزرے ان سب میں حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا فرعون سب سے زیادہ بداخلاق ،سخت دل اور ظالم تھا۔ اس کا نام "ولید بن مصعب بن ریان "تھا اور اس کا تعلق قبیلہ قبطیہ سے تھا۔ (فرعون کا خواب ص:3،4)

فرعونیوں پر لگاتار 5 عذابات: پیارے اسلامی بھائیوں جب حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام فرعون کے مظالم سے بہت تنگ دل ہوگئے تو آپ علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی میں اس طرح دعا مانگی :"اے میرے رب فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے۔ اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے لہذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرما لے جو ان کے لئے سزا وار ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت ہو"۔(تفسیر روح البیان، 3/220)اس دعا کے بعد فرعونیوں پر لگاتار پانچ عذاب نازل ہوئے:

(1)طوفان :ہوا یوں کہ بادل آیا اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی قبطیوں کے گھر پانی سے بھر گئے یہاں تک کہ پانی ان کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیا ۔ ان میں سے جو بیٹھتا ڈوب جاتا ،یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے،نہ کچھ کام کر سکتے تھے ۔ سات دن اس مصیبت میں مبتلا رہے پھر ایمان لانے کا وعدہ کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کروائی ۔دعا کی برکت سے مصیبت جاتی رہی اور خوب کھیتیاں اور پھل ہوئے۔ اب کہنے لگے یہ پانی تو نعمت تھا اور ایمان نہ لائے۔

(2)ٹڈیاں:طوفان کی مصیبت سے ایک ماہ عافیت میں رہے پھر اللہ پاک نے ٹڈیاں بھیجیں جو کہ کھیتیاں، پھل، درختوں کے پتے ،مکان کے دروازے ،تختے ،سامان حتیٰ کہ لوہے کے کیلے تک کھا گئیں ۔اور قبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں لیکن بنی اسرائیل محفوظ رہیں۔ پھر ایمان لانے کا وعدہ کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کروائی۔ جب نجات مل گئی تو پھر عہد شکنی کی اور ایمان نہ لائے۔

(3)گھن: ٹڈیوں سے نجات کے ایک ماہ بعد اللہ پاک نے ان پر" قمل" کا عذاب مسلط کیا ۔ بعض مفسرین کا بیان ہے کہ یہ گھن تھا جو فرعونیوں کے اناجوں اور پھلوں میں لگ کر سب کچھ کھا گیا ۔جب کہ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ ایک چھوٹا سا کیڑا تھا جو باقی بچی ہوئی کھیتیاں اور پھل کھا گئے۔ یہ کیڑے ان کے کپڑوں میں گھس جاتے اور جلد کو کاٹتے تھے۔ یہ کیڑے فرعونیوں کے بال، بھنویں ،پلکیں چاٹ گئے حتی کہ ان کا سونا دشوار کر دیا۔ یہ مصیبت بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کی برکت سے دور ہوئی ۔

(4) مینڈک: اب اللہ پاک نے مینڈک بھیجے۔ آدمی جہاں بیٹھتا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے ،ہانڈیوں میں مینڈک ،کھانوں میں اور چولہوں میں مینڈک بھر جاتے اور جب لیٹتے تو مینڈک اوپر سوار ہوتے تھے ۔اب پھر ایمان لانے کا پختہ وعدہ کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کروائی۔ جب نجات مل گئی پھر عہد شکنی کی اور ایمان نہ لائے۔

(5)خون:اب اللہ پاک نے ان پر خون کا عذاب نازل کیا۔ تمام کنوؤں کا پانی نہروں اور چشموں کا پانی دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی ان کے لئے تازہ خون بن گیا ۔آخر کار فرعونی عاجز آ گئے اور ایمان لانے کا وعدہ کیا ۔جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے مصیبت دور ہوگئی تو پھر وہ ایمان نہ لائے۔(ملخصا عجائب القرآن مع غرائب القرآن ص:94 تا 101)


قوم قبط و عمالقہ کا بادشاہ "فرعون" کہلاتا  تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں اس قوم کا جو بادشاہ تھا یعنی فرعون اس کا نام ولید بن مصعب بن ریان تھا۔ اس کی عمر 400 سال سے بھی زیادہ ہوئی۔ اسی کے متبعین ( پیروکار )فرعونی کہلاتے ہیں۔

( خزائن العرفان ،بقرہ ،آیت 49 ، ص: 18)

اس قوم کو ہدایت دینے کے لئے اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک کا پیغام فرعون اور اس کے پیروکاروں تک پہنچایا تو فرعون اور اس کے پیروکاروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جھٹلایا اور کہا کہ یہ جادوگر ہیں۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مقابلے کے لئے اس وقت کے 70 ہزار بڑے جادوگروں کو بلایا۔ چنانچہ جب سارے جادوگر اور حضرت موسیٰ علیہ السلام مع بنی اسرائیل کے جب میدان میں اترے تو جادوگروں نے طرح طرح کے شعبدے دکھائے ،اتنے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا مبارکہ زمین پر پھینکا تو وہ ایک اژدہا بن گیا اور جادوگروں کے دکھائے گئے شعبدے نگل گیا ۔یہ دیکھ کر تمام جادوگر بمع اپنے قبائل کے ایمان سے مشرف ہوئے۔ تو جب فرعونیوں نے یہ دیکھا تو آگ بگولا ہو کر کہنے لگے :اے موسیٰ تم ہمارے اوپر جادو کرنے کے لئے ہمارے پاس کیسی ہی نشانی لے آؤ ہم ہرگز تم پر ایمان لانے والے نہیں ۔(پ 9، الاعراف : 132)

اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک سے ان کے خلاف دعا کی تو اللہ پاک نے ان پر پے در پے 5 طرح کے عذابات نازل فرمائے جس کو پارہ نمبر 9 سورہ اعراف آیت 133 میں یوں بیان فرمایا : فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ- فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)

ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اورپِسُو(یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔ (پ 9،الاعراف:133)

طوفان کی شدت ایسی تھی کہ جس سے فرعونیوں کی دل دہل گئے، ٹڈی اتنی کثیر تھیں کہ انہوں نے نہ پھل نہ درخت ،نہ کھیتی ،دروازے، چھتیں کچھ نہ چھوڑا ۔قمل ( جو یا پسو )اتنا ہلاکت خیز کہ کھالوں میں گھس جاتا تھا کپڑے کھا جاتا تھا،کپڑے کھا جاتا، بھنویں، پلکیں سب چاٹ گیا۔

مینڈک اتنے زیادہ تھے کہ بیٹھو تو نیچے آجاتے، منہ کھولو تو کود کر گھس جاتے۔

خون کا عذاب تو اتنی واضح نشانی تھی کہ کرہ ارض پر موجود ہر پانی ان کے لئے خون بن گیا۔ کہ بنی اسرائیل کنویں سے پانی نکالتے تو پانی نکلتا اور فرعونی نکالتے تو خون نکلتا ،بنی اسرائیل کے برتن میں پانی ہوتا مگر جب فرعونی پینے کے لئے منہ قریب کرتا تو خون ہوجاتا۔ الغرض یہ پانچوں عذابات ایک ایک ہفتے کے لئے آتے اور تمام عذابات کے درمیان ایک ایک مہینے کا فاصلہ ہوتا تھا۔ فرعونی ان عذابات سے نجات اس طرح پاتے کہ ہر عذاب کا ایک ہفتہ پورا ہونے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کرتے کہ ہم سے اس عذاب کے دور ہونے کی دعا کریں ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے مگر جب عذاب دور ہو جاتا تو اپنی بات سے مکر جاتے اور ایمان نہ لاتے تھے۔والعیاذ باللہ من ذلک


جب جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر و سرکشی پر جمے رہے اور فرعون اور اس کی قوم کی سرکشی یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے  انہوں نے صاف صاف کہہ دیا: وَ قَالُوْا مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰیَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَاۙ-فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ(۱۳۲) (پ 9، الاعراف :132)

ترجمہ کنز العرفان: (اے موسیٰ! )تم ہمارے اوپر جادو کرنے کے لئے ہمارے پاس کیسی بھی نشانی لے آؤ ،ہم ہرگز تم پر ایمان لانے والے نہیں ۔

تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے خلاف دعا کی: "یا رب ! فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے لہٰذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرمالے جو ان کے لئے سزا وار ہو۔ اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت ہو۔''

مفسرین کے بیان کے مطابق جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعونیوں کے خلاف دعا کی تو آپ علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی اور یوں ہوا کہ بادل آیا، اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی ۔قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی اُن کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیا، اُن میں سے جوبیٹھا وہ ڈوب گیا، یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کرسکتے تھے۔ ہفتہ کے دن سے لے کر دوسرے ہفتہ تک سات روز اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل کے گھر اُن کے گھروں سے متصل تھے اُن کے گھروں میں پانی نہ آیا۔ جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی: ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو طوفان کی مصیبت دور ہو گئی، زمین میں وہ سرسبزی وشادابی آئی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ کھیتیاں خوب ہوئیں اور درخت خوب پھلے ۔ یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے ’’یہ پانی تو نعمت تھا اور ایمان نہ لائے۔ ایک مہینہ تو عافیت سے گزرا ، پھر اللہ پاک نے ٹڈی بھیجی وہ کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکان کے دروازے، چھتیں ،تختے، سامان، حتّٰی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں اور قبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں لیکن بنی اسرائیل کے یہاں نہ گئیں۔ اب قبطیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا، اس پر عہد و پیمان کیا ۔سات روز یعنی ہفتہ سے ہفتہ تک ٹڈی کی مصیبت میں مبتلا رہے،پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے نجات پائی۔ جب کھیتیاں اور پھلوں کو دیکھا تو کہنے لگے ’’یہ ہمیں کافی ہیں اور ایمان نہ لائے پھر ایک مہینے کے بعد عذاب آیا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی کہ دعا فرمادیں اس طرح ہی کرتے اور بعد میں ایمان نہ لاتے۔

قرآن پاک میں ہے:ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اورپِسُو(یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔ اور جب ان پر عذاب واقع ہوتا توکہتے، اے موسیٰ! ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے ۔بیشک اگر آپ ہم سے عذاب اٹھادو گے تو ہم ضرور آپ پر ایمان لائیں گے اور ضرور ہم بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے۔ پھر جب ہم ان سے اس مدت تک کے لئے عذاب اٹھالیتے جس تک انہیں پہنچنا تھا تو وہ فوراً (اپنا عہد) توڑ دیتے۔ 

(پ 9، الاعراف : 133 تا 135)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم انہیں جو نشانی دکھاتے وہ اپنی مثل (پہلی نشانی) سے بڑی ہی ہوتی اور ہم نے انہیں مصیبت میں گرفتار کیا تاکہ وہ بازآجائیں ۔ اور انہوں نے کہا: اے جادوکے علم والے ! ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کر، اُس عہد کے سبب جو اس نے تم سے کیا ہے ۔بیشک ہم ہدایت پر آجائیں گے۔ پھر جب ہم نے ان سے وہ مصیبت ٹال دی تواسی وقت انہوں نے عہد توڑدیا۔(پ 9، الزخرف: 48 تا 50)

فرعونیوں پر قحط اور پھلوں کی کمی کی مصیبت قرآن پاک میں ہے:

ترجمہ کنزالعرفان: اور بیشک ہم نے فرعونیوں کو کئی سال کے قحط اور پھلوں کی کمی میں گرفتار کردیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔تو جب انہیں بھلائی ملتی توکہتے یہ ہمارے لئے ہے اور جب برائی پہنچتی تو اسے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے۔ سن لو! ان کی نحوست اللہ ہی کے پاس ہے لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے۔(پ 9، الاعراف : 130 تا 131)


فرعونیوں پر لگاتار پانچ عذاب آنے کی سبب: جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اژدہا بن کر جادوگروں کے سانپوں کو کو نگل گیا تو جادوگر سجدے میں گر کر ایمان لائے۔ مگر فرعون اور اس کے متبعین اب بھی ایمان قبول نہیں کیا بلکہ فرعون کا کفر اور اس کی سرکشی اور زیادہ بڑھ گئی اور اس نے بنی اسرائیل کے مومنین اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دل آزاری اور ایذارسانی میں بھرپور کوشش شروع کر دی اور طرح طرح سے ستانا شروع کر دیا۔ فرعون کے مظالم سے تنگ دل ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداوند قدوس کے دربار میں اس طرح دعا مانگی کہ''اے میرے رب! فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے لہٰذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرمالے جو ان کے لئے سزا وار ہو۔ اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت ہو۔( عجائب القرآن ،ص 97)

پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعد اللہ پاک نے فرعونیوں پر لگاتار پانچ عذابوں کو مسلط فرما دیا۔ آئیں ان عذابوں کو اللہ پاک نے قرآن میں کس طرح بیان فرمایا: فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اورپِسُو(یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔ (پ 9،الاعراف:133)

طوفان کا عذاب:ہوا یوں کہ بادل آیا، اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی ۔قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی اُن کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیا، اُن میں سے جوبیٹھا وہ ڈوب گیا، یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کرسکتے تھے۔ ہفتہ کے دن سے لے کر دوسرے ہفتہ تک سات روز اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل کے گھر اُن کے گھروں سے متصل تھے اُن کے گھروں میں پانی نہ آیا۔ جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی: ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو طوفان کی مصیبت دور ہو گئی،تو پھر بھی ایمان نہ لائے۔

ٹڈی کا عذاب:ایک مہینہ تو عافیت سے گزرا ،پھر اللہ  پاک نے ٹڈی بھیجی وہ کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکان کے دروازے، چھتیں ،تختے، سامان، حتّٰی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں اور قبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں لیکن بنی اسرائیل کے یہاں نہ گئیں۔ اب قبطیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا، اس پر عہد و پیمان کیا ۔سات روز یعنی ہفتہ سے ہفتہ تک ٹڈی کی مصیبت میں مبتلا رہے،پھر حضرت موسیٰ موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے نجات پائی۔

قمل کا عذاب:فرعونیوں نے عہد وفا نہ کیا اور اپنے اعمالِ خبیثہ میں مبتلا ہوگئے ۔ ایک مہینہ عافیت سے گزرا ،پھراللہ پاک نے قُمَّل بھیجے، اس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی رہے تھے وہ کھالئے، یہ کیڑا کپڑوں میں گھس جاتا تھا اور جلد کو کاٹتا تھا، کھانے میں بھر جاتا تھا ،اگر کوئی دس بوری گندم چکی پر لے جاتا تو تین سیر واپس لاتا باقی سب کیڑے کھا جاتے ۔یہ کیڑے فرعونیوں کے بال، بھنویں ،پلکیں چاٹ گئے ،ان کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے حتّٰی کہ ان کیڑوں نے اُن کا سونا دشوار کردیا تھا۔ اس مصیبت سے فرعونی چیخ پڑے اور اُنہوں نے حضرت موسیٰ موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی:ہم توبہ کرتے ہیں ، آپ اس بلا کے دور ہونے کی دعا فرمائیے۔ چنانچہ سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے دور ہوئی۔

مینڈک کی عذاب: پھر ایک مہینہ امن میں گزرنے کے بعد پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تو اللہ پاک نے مینڈک بھیجے اور یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے، بات کرنے کے لئے منہ کھولتا تو مینڈک کود کر منہ میں چلا جاتا، ہانڈیوں میں مینڈک ،کھانوں میں مینڈک ، چولھوں میں مینڈک بھر جاتے تو آگ بجھ جاتی تھی، لیٹتے تھے تو مینڈک اوپر سوار ہوتے تھے، اس مصیبت سے فرعونی رو پڑے اور حضرت موسیٰ موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی: اب کی بار ہم پکی توبہ کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے یہ مصیبت بھی دور ہوئی۔

خون کا عذاب: ایک مہینہ عافیت سے گزرا ،لیکن پھر اُنہوں نے عہد توڑ دیا اور اپنے کفر کی طرف لوٹے ۔پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو تمام کنوؤں کا پانی، نہروں اور چشموں کا پانی، دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی اُن کے لئے تازہ خون بن گیا۔ اُنہوں نے فرعون سے اس کی شکایت کی تو کہنے لگاکہ ’’ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جادو سے تمہاری نظر بندی کردی ہے۔ اُنہوں نے کہا: تم کس نظر بندی کی بات کر رہے ہو؟ ہمارے برتنوں میں خون کے سوا پانی کا نام و نشان ہی نہیں۔ یہ سن کر فرعون نے حکم دیا کہ’’ قبطی بنی اسرائیل کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی لیں۔ لیکن ہوا یوں کہ جب بنی اسرائیل نکالتے توپانی نکلتا ،قبطی نکالتے تو اسی برتن سے خون نکلتا، یہاں تک کہ فرعونی عورتیں پیاس سے عاجز ہو کر بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس آئیں اور اُن سے پانی مانگا تو وہ پانی اُن کے برتن میں آتے ہی خون ہوگیا۔ یہ دیکھ کر فرعونی عورت کہنے لگی کہ’’ تو پانی اپنے منہ میں لے کر میرے منہ میں کلی کردے ۔ مگر جب تک وہ پانی اسرائیلی عورت کے منہ میں رہا پانی تھا، جب فرعونی عورت کے منہ میں پہنچا تو خون ہوگیا ۔فرعون خود پیاس سے مُضْطَر ہوا تواس نے تر درختوں کی رطوبت چوسی ، وہ رطوبت منہ میں پہنچتے ہی خون ہوگئی۔ سات روز تک خون کے سوا کوئی چیز پینے کی میسر نہ آئی تو پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی یہ مصیبت بھی دور ہوئی مگر وہ ایمان پھر بھی نہ لائے۔

( صراط الجنان 3/414تا416)


جب موسیٰ علیہ السلام   کا عصا ازدہا بن کر جادوگروں کے سانپوں کو نگل گیا تو جادوگر سجدے میں گر کر ایمان لے آئے مگر فرعون اور اس کی پیروی کرنے والوں نے ایمان قبول نہیں کیا ، بلکہ فرعون کا کفر اور سرکشی اور زیادہ بڑھ گئی اور اس نے بنی اسرائیل کے مومنین اور موسیٰ علیہ السلام کی دل آزاری اور ایذا رسانی میں بھرپور کوشش شروع کر دیں اور طرح طرح سے ستانا شروع کر دیا۔ فرعون کے مظالم سے تنگ ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداوند قدوس کے دربار میں اس طرح دعا مانگی:" اے میرے اللہ پاک ! فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے۔ لہذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرما دے جو ان کے لئے سزا وار ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت ہو۔ (تفسیر روح البیان ، 3/220)

چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی اور اللہ پاک نے فرعونیوں پر لگاتار پانچ عذابوں کو مسلط فرمایا۔ جن کا ذکر اللہ پاک نے قرآن مجید میں کچھ یوں ارشاد فرمایا:فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)ترجمہ کنزالایمان:تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اورٹِڈی اور گھن اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔

(پ 9،الاعراف:133)

(1)طوفان :ہوا یوں کہ کالا سیاہ بادل آیا ہر طرف اندھیرا چھا گیا اور زور دار بارش ہونے لگی فرعونیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا اور وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی ان کی گردنوں تک آگیا۔ جو بیٹھا ڈوب کر ہلاک ہو گیا ۔نہ ہل سکتے تھے نہ کوئی کام کر سکتے تھے۔ ان کی کھیتیاں اور باغات پانی سے ہلاک ہوگئے۔ ہفتے کے دن سے لے کر دوسرے ہفتے تک سات روز اسی مصیبت میں مبتلا رہے با وجود اس کے کہ فرونیوں کے گھر بنی اسرائیل کے گھروں کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ لیکن بنی اسرائیل میں گھروں میں پانی نہیں آیا۔ وہ اپنے گھروں میں امن و چین سے رہتے تھے۔ جب یہ لوگ عاجز ہوگئے تو موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی ہمارے لئے دعا فرمائیے یہ مصیبت دور ہو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو طوفان کی مصیبت ٹل گئی۔ اور زمین وہ سر سبزی و شادابی آئی جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی ۔کھیتیاں بہت شانددار ہوئیں۔ پھلو اور غلوں کی پیداوار بے شمار ہوئی یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے یہ طوفان کا پانی ہمارے لئے بہت بڑی نعمت کا سامان تھا۔ اور وہ اپنے عہد سے پھر گئے اور ایمان نہیں لائے اور پھر سرکشی اور ظلم و عصیا ں کی گرم بازاری شروع کر دی ۔

(2)ٹڈیاں: ایک مہینہ عافیت سے گزرا لیکن جب ان کا کفر و تکبر اور ظلم و ستم پھر بڑھنے لگا تو اللہ پاک نے اپنے قہر و عذاب کو ٹڈیوں کی شکل میں بھیجا۔ چاروں طرف سے ٹڈیوں کے غول کے غول آگئے اور کھیتیاں، پھل ،درختوں کے پتے، مکان کے دروازے، چھتیں، تختے، سامان حتی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئے۔ فرعونیوں کے گھر ٹڈیوں سے بھر گئے۔ لیکن بنی اسرائیل کے یہاں ٹڈیاں نہ گئیں۔ یہ دیکھ کر فرعونیوں کو بڑی عبرت ہوئی۔ آخر اس عذاب سے تنگ آکر موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا ۔سات روز تک وہ اسی مصیبت میں مبتلا رہے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے نجات پائی ۔کھیتیاں اور پھل جو باقی رہ گئے انہیں دیکھ کر کہنے لگے یہ ہمیں کافی ہے ہم اپنا دین نہیں چھوڑیں گے اور اعمال خبیثہ میں مبتلا ہوگئے۔ ایک مہینہ عافیت سے گزرا پھر ان لوگوں کے کفر وعصیاں میں اضافہ ہونے لگا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور مومنین کو ایذائیں دینے لگے۔ اور کہنے لگے ہم اپنا دین چھوڑ کر ایمان نہیں لائیں گے۔

(3)قمل (یا جوئیں ):ایک ماہ بعد اللہ پاک نے قمل کا عذاب ان پر مسلط کر دیا ۔اس میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ قمل گھن ہے بعض کہتے ہیں جوئیں ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ ایک چھوٹا سا کیڑا ہے یہ فرعونیوں کے کھیت اور پھل باقی رہ گئے تھے انہیں چاٹ گیا یہ ان کے کپڑوں میں گھس کر ان کی جلد کو کاٹتا تھا جس سے یہ بری طرح تڑپتے تھے یہ کیڑے ان کے کھانوں ،پانیوں اور برتنوں میں گھس جاتے تھے جس سے یہ لوگ نہ کھا سکتے، نہ پی سکتے تھے اور نہ ہی لمحہ بھر کے لئے سو سکتے تھے۔ اگر کوئی دس بوریاں گندم کی چکی پر لے جاتا تو تین کلو واپس لاتا باقی یہ کیڑے کھا جاتے تھے۔ یہاں تک کہ یہ کیڑے فرعونیوں کے بال، مونچھیں، داڑھی ،بھنوؤں کو چاٹ گئے۔ اور ان کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے ۔ سات دن تک یہ اسی عذاب میں گرفتار رہیں اس مصیبت سے فرعونی چیخ پڑے اور موسیٰ علیہ اسلام سے عرض کی کہ ہم توبہ کرتے ہیں آپ اس مصیبت کے دور ہونے کی دعا فرمائیے ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے ۔چنانچہ آپ علیہ السلام نے ان کی گریہ و زاری اور بے قراری پر رحم کھا کر دعا فرمائی۔ جس سے یہ عذاب رفع دفعہ ہو گیا۔ لیکن فرعونیوں نے اپنے عہد کو توڑ ڈالا اور پھر سے زیادہ ظلم و زیادتی پر کمر بستہ ہوگئے۔ ایک ماہ سکون سے گزرا پھر ان پر ایک اور عذاب آیا۔

(4)مینڈک: فرعونیوں کی بستیوں اور گھروں میں اچانک بے شمار مینڈک پیدا ہوگئے۔ اور حال یہ ہوا آدمی بیٹھتا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے، بات کرنے کے لئے منہ کھولتا تو مینڈک کود کر منہ میں چلا جاتا، ہانڈیوں میں مینڈک ،کھانوں میں مینڈک، چولہوں میں مینڈک بھر جاتے تو آگ بجھ جاتی تھی لیٹتے تو مینڈک اوپر سوار ہوتے تھے ۔اس عذاب سے فرعونی رو پڑے اور موسیٰ علیہ السلام کی بارگاہ میں آئے اور بڑی بڑی قسمیں کھا کر عہد و پیمان کرنے لگے کہ ہم ضرور ایمان لائیں گے۔چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی۔ ساتویں دن یہ عذاب بھی ٹل گیا اور ایک ہفتہ راحت سے گزرا ۔یہ مردود قوم راحت و آرام ملتے ہی اپنا عہد و پیمان توڑ دیا اور موسی علیہ السلام کی بے ادبی کی تو عذاب نے ان ظالموں کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔

(5)خون: ایک دم اچانک ان لوگوں کے تمام کنوؤں، نہروں ،چشموں حتی کہ دریائے نیل کا پانی بھی تازہ خون بن گیا۔ انہوں نے فرعون سے اس کی شکایت کی تو وہ کہنے لگا: موسیٰ علیہ السلام نے جادو سے تمہاری نظر بندی کر دی ہے۔ فرعونیوں نے کہا: تم کس نظر بندی کی بات کر رہے ہو؟ ہماری برتنوں میں خون کے سوا کسی چیز کا نام و نشان نہیں۔ فرعون نے حکم دیا کہ فرعونی لوگ بنی اسرائیل والوں کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی نکالیں گے۔ مگر خدا کی شان مومن اسی برتن سے پانی نکالتے تو صاف و شفاف اور میٹھا پانی نکلتا۔ فرعونی جب اسی برتن سے پانی نکالتے تو خالص خون ہوتا ۔یہاں تک کہ فرعونی لوگ پیاسے بے قرار ہو کر مومنین کے پاس آتے اور کہا کہ آپ اپنے منہ میں پانی لے کر ہمارے منہ میں کلی کریں۔ مگر قدرت خداوندی کا عجیب جلوہ نظر آیا کہ جب پانی مسلمانوں کے منہ میں ہوتا تو پانی لیکن جب فرعونی کے منہ میں جاتا تو خون ہو جاتا۔ سات روز تک خون کے سوا انہیں کوئی چیز پینے کو میسر نہیں آئی۔ بلآخر تنگ ہو کر موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا تو آپ نے پیغمبرانہ رحم و کرم فرما کر ان کے لئے دعا کی۔ یہ مصیبت ان سے دور ہوگئی مگر پھر بھی ایمان نہ لائے۔

یہاں تک کہ اللہ پاک کے قہرو غضب کا آخری عذاب آ گیا۔ فرعون اور اس کی پیروی کرنے والے دریائے نیل میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ اور یہ لوگ دنیا سے ایسے نیست و نابود کر دیے گئے کہ روئے زمین پر ان کی قبروں کا نشان بھی باقی نہ رہا۔

( تفسیر صاوی 2/803، تفسیر بغوی 2/159 تا 161)


جب اللہ پاک نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف دعوت و تبلیغ کے لئے بھیجا تو موسی علیہ السلام نے ان تک پیغام باری پہنچایا مگر انہوں نے ان کی ایک نہ سنی اور ایمان نہ لائے۔

اللہ پاک نے انہیں پہلے مہلت دی مگر انکے حد سے بڑھنے کے سبب اللہ پاک نے انہیں اچانک پکڑ لیا اور عذاب میں مبتلا کیا وہ اس طرح کہ”موسیٰ علیہ السلام نے بد دعا کی کہ :اے مولا یہ سرکش قوم ہے ان پر تو بطور سزا عذاب بھیج تاکہ میری قوم اور بعد والوں کو عبرت حاصل ہو "چنانچہ

ان پرجو عذابات پے در پے نازل ہوئے اس کو سورہ الاعراف 133 میں یوں بیان کیا : فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور گھن (یا کلنی یا جوئیں) اور مینڈک اور خون اور جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔

اس آیت میں 5 عذابات کا تذکرہ ہے جو فقط فرعونیوں پر نازل ہوئیں باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل کے گھر ان سے ملے جلے تھے۔

(١)طوفانی بارش: جس سے ان کے گھروں میں پانی بھر گیا اور ہر کھڑے آدمی کے منہ تک پہنچتا تھا جو بیٹھتا وہ ڈوب جاتا تو انہوں نے آکر موسیٰ علیہ السلام سے دعا کے لئے کہا اور وعدہ کیا کہ اگر یہ عذاب ہم سے دور ہو جائے تو ہم ضرور ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ روانہ کر دیں گے موسی علیہ السلام کو ان پر رحم آ گیا اور آپ نے دعا فرما دی جب عذاب دفع ہو گیا تو انہوں نے اپنے وعدے سے منہ پھیر لیا۔

(٢) ٹڈیوں کا عذاب: ان پر ٹڈیوں کا عذاب نازل ہوا جس نے ان کے کھیت، باغ، گھر، مکان سب کچھ برباد کر دیا ان فرعونیوں نے موسی علیہ السلام سے فریاد کی اور وعدہ بھی کیا مگر عذاب دفع ہوتے ہی پھر اعراض کر بیٹھے۔

(٣) جوؤں کا عذاب: ان پر جوؤں کا عذاب نازل ہوا جس نے ان کے کھال بال سب کچھ چاٹ لئے اور بالآخر فرعونیوں نے پریشان ہو کر موسی علیہ السلام کی بارگاہ میں فریاد کیا مگر عذاب ختم ہونے پر اس مرتبہ بھی وہی ہوا جو پہلے ہوا تھا۔

(٤) مینڈک کا عذاب: جس سے ان کے کھانے، پانی ،گھر، کھیت، باغات سب جگہ مینڈک بھر گئے اس مرتبہ بھی انکے گریہ و زاری کرنے کے سبب موسی علیہ السلام نے دعا فرمائی مگر اس بار بھی وہ وعدے پر قائم نہ رہے ۔

(٥) خون کا عذاب: جس کے سبب دریائے نیل کا پانی تازہ خالص خون بن گیا اور وہ پیاس کے سبب مرنے لگے اس مرتبہ بھی ان کی آہ و بکا کرنے پر موسی علیہ السلام نے رحم کھا کر دعا فرمائی مگر یہ ایسی سرکش قوم تھی کہ ہر مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی وعدہ خلافی کیا اور ایمان نہ لائے۔

اب حب ان کا پیالہ گناہوں سے بھر گیا تو اللہ پاک نے ان کے سارے جرموں کا بدلا ایک بار ہی لے لیا کہ انہیں گہرے دریا (بحر قلزم) میں ڈبو دیا ۔

(ماخوذ از تفسیر نعیمی ج۔ 9،3 و تبیان القرآن ج۔ 4،2)

لہذا ہمیں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں سے بچتے ہوئے اپنی زندگی گزارنے اورعمل صالح کی توفیق عطا فرمائے۔