قوم
قبط و عمالقہ کا بادشاہ "فرعون" کہلاتا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں اس
قوم کا جو بادشاہ تھا یعنی فرعون اس کا
نام ولید بن مصعب بن ریان تھا۔ اس کی عمر 400 سال سے بھی زیادہ ہوئی۔ اسی کے متبعین ( پیروکار )فرعونی کہلاتے ہیں۔
( خزائن العرفان ،بقرہ ،آیت 49 ،
ص: 18)
اس قوم کو ہدایت دینے کے لئے اللہ پاک نے حضرت
موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک کا پیغام
فرعون اور اس کے پیروکاروں تک پہنچایا تو
فرعون اور اس کے پیروکاروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جھٹلایا اور کہا کہ یہ
جادوگر ہیں۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مقابلے کے لئے
اس وقت کے 70 ہزار بڑے جادوگروں کو بلایا۔
چنانچہ جب سارے جادوگر اور حضرت موسیٰ
علیہ السلام مع بنی اسرائیل کے جب میدان میں اترے تو جادوگروں نے طرح طرح کے شعبدے
دکھائے ،اتنے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا مبارکہ زمین پر پھینکا تو وہ
ایک اژدہا بن گیا اور جادوگروں کے دکھائے گئے شعبدے نگل گیا ۔یہ دیکھ کر تمام جادوگر بمع اپنے
قبائل کے ایمان سے مشرف ہوئے۔ تو جب فرعونیوں نے یہ دیکھا تو آگ بگولا ہو کر کہنے
لگے :اے موسیٰ تم ہمارے اوپر جادو کرنے کے لئے
ہمارے پاس کیسی ہی نشانی لے آؤ ہم ہرگز تم
پر ایمان لانے والے نہیں ۔(پ 9، الاعراف
: 132)
اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک سے
ان کے خلاف دعا کی تو اللہ پاک نے ان پر پے در پے 5 طرح کے عذابات نازل فرمائے جس
کو پارہ نمبر 9 سورہ اعراف آیت 133 میں یوں بیان فرمایا : فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ
الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ- فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا
مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)
ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی
اورپِسُو(یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے
تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔ (پ
9،الاعراف:133)
طوفان
کی شدت ایسی تھی کہ جس سے فرعونیوں کی دل دہل گئے، ٹڈی اتنی کثیر تھیں کہ انہوں نے نہ پھل نہ درخت ،نہ کھیتی ،دروازے، چھتیں
کچھ نہ چھوڑا ۔قمل ( جو یا پسو )اتنا ہلاکت خیز کہ کھالوں میں گھس جاتا تھا کپڑے کھا
جاتا تھا،کپڑے کھا جاتا، بھنویں، پلکیں سب چاٹ گیا۔
مینڈک اتنے زیادہ تھے کہ
بیٹھو تو نیچے آجاتے، منہ کھولو تو کود کر گھس جاتے۔
خون
کا عذاب تو اتنی واضح نشانی تھی کہ کرہ ارض پر موجود ہر پانی ان کے لئے خون
بن گیا۔ کہ بنی اسرائیل کنویں سے پانی نکالتے تو پانی نکلتا اور فرعونی نکالتے تو
خون نکلتا ،بنی اسرائیل کے برتن میں پانی ہوتا مگر جب فرعونی پینے کے لئے منہ قریب کرتا تو خون ہوجاتا۔ الغرض یہ
پانچوں عذابات ایک ایک ہفتے کے لئے آتے
اور تمام عذابات کے درمیان ایک ایک مہینے کا فاصلہ ہوتا تھا۔ فرعونی ان عذابات سے نجات اس طرح پاتے کہ ہر عذاب کا ایک ہفتہ پورا ہونے
کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کرتے کہ ہم سے اس عذاب کے دور ہونے کی دعا
کریں ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے مگر جب عذاب دور ہو جاتا تو اپنی بات سے مکر جاتے
اور ایمان نہ لاتے تھے۔والعیاذ
باللہ من ذلک