جب جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر و سرکشی
پر جمے رہے اور فرعون اور اس کی قوم کی سرکشی یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے حضرت
موسیٰ علیہ السلام سے انہوں نے صاف صاف
کہہ دیا: وَ قَالُوْا
مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰیَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَاۙ-فَمَا نَحْنُ لَكَ
بِمُؤْمِنِیْنَ(۱۳۲) (پ 9، الاعراف
:132)
ترجمہ کنز العرفان: (اے موسیٰ! )تم ہمارے اوپر جادو کرنے کے لئے ہمارے
پاس کیسی بھی نشانی لے آؤ ،ہم ہرگز تم پر ایمان لانے والے نہیں ۔
تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے خلاف دعا کی: "یا
رب ! فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم
نے عہد شکنی کی ہے لہٰذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرمالے جو ان کے لئے سزا
وار ہو۔ اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت ہو۔''
مفسرین کے بیان کے مطابق جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے
فرعونیوں کے خلاف دعا کی تو آپ علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی اور یوں ہوا کہ بادل آیا،
اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی ۔قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا یہاں تک
کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی اُن کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیا، اُن میں سے
جوبیٹھا وہ ڈوب گیا، یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کرسکتے تھے۔ ہفتہ کے دن سے
لے کر دوسرے ہفتہ تک سات روز اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور باوجود اس کے کہ بنی
اسرائیل کے گھر اُن کے گھروں سے متصل تھے اُن کے گھروں میں پانی نہ آیا۔ جب یہ لوگ
عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی: ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو
ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔ حضرت
موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو
طوفان کی مصیبت دور ہو گئی، زمین میں وہ سرسبزی وشادابی آئی جو پہلے
کبھی نہ دیکھی تھی۔ کھیتیاں خوب ہوئیں اور درخت خوب پھلے ۔ یہ دیکھ کر فرعونی کہنے
لگے ’’یہ پانی تو نعمت تھا اور ایمان نہ لائے۔ ایک مہینہ تو عافیت سے گزرا ، پھر اللہ پاک
نے ٹڈی بھیجی وہ کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکان کے دروازے، چھتیں ،تختے،
سامان، حتّٰی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں اور قبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں لیکن
بنی اسرائیل کے یہاں نہ گئیں۔ اب قبطیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست
کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا، اس پر عہد و پیمان کیا ۔سات روز یعنی ہفتہ سے ہفتہ
تک ٹڈی کی مصیبت میں مبتلا رہے،پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے نجات پائی۔ جب کھیتیاں اور
پھلوں کو دیکھا تو کہنے لگے ’’یہ ہمیں
کافی ہیں اور ایمان نہ لائے پھر ایک مہینے
کے بعد عذاب آیا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی کہ دعا
فرمادیں اس طرح ہی کرتے اور بعد میں ایمان نہ لاتے۔
قرآن پاک میں ہے:ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اورپِسُو(یا جوئیں )
اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم
قوم تھی۔ اور جب ان پر عذاب واقع ہوتا توکہتے، اے موسیٰ!
ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے
پاس ہے ۔بیشک اگر آپ ہم سے عذاب اٹھادو گے تو ہم ضرور آپ پر ایمان لائیں گے اور
ضرور ہم بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے۔ پھر جب ہم ان سے اس مدت تک کے لئے
عذاب اٹھالیتے جس تک انہیں پہنچنا تھا تو وہ فوراً (اپنا عہد) توڑ دیتے۔
(پ 9، الاعراف
: 133 تا 135)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :ترجمہ
کنزالعرفان: اور ہم انہیں جو نشانی دکھاتے وہ اپنی مثل (پہلی
نشانی) سے بڑی ہی ہوتی اور ہم نے انہیں مصیبت میں گرفتار کیا تاکہ وہ بازآجائیں ۔ اور انہوں نے کہا: اے
جادوکے علم والے ! ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کر، اُس عہد کے سبب جو اس نے تم سے
کیا ہے ۔بیشک ہم ہدایت پر آجائیں گے۔ پھر جب ہم نے ان سے وہ مصیبت ٹال دی تواسی
وقت انہوں نے عہد توڑدیا۔(پ 9،
الزخرف: 48 تا 50)
فرعونیوں پر قحط اور پھلوں کی کمی کی مصیبت قرآن پاک میں ہے:
ترجمہ کنزالعرفان: اور بیشک ہم نے فرعونیوں کو کئی سال کے قحط اور پھلوں کی کمی
میں گرفتار کردیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔تو جب انہیں بھلائی ملتی توکہتے یہ
ہمارے لئے ہے اور جب برائی پہنچتی تو اسے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار
دیتے۔ سن لو! ان کی نحوست اللہ ہی کے پاس ہے لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے۔(پ 9، الاعراف : 130 تا 131)