فرعون کسی شخص کا نام نہیں بلکہ مصر کے بادشاہ
کا لقب تھا۔ اس نے اور اس کے پیروکار نے زمین
میں فساد برپا کیا ہوا تھا۔ اور اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی طرف
مبعوث فرمایا ۔جب جادوگر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے جب بھی فرعونی اپنی
سرکشی سے باز نہ آئے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ
السلام نے ان کے خلاف دعا کی :" اے میرے رب فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو
گیا ہے۔ اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے لہذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرما لے جو ان کے لئے
سزا وار ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے
لئے نصیحت ہو"۔
پھر اللہ نے فرعونیوں پر کئی عذابات نازل کئے جسے قرآن پاک
میں یوں بیان فرمایا :ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے ان پر طوفان
اور ٹڈی اورپِسُو(یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو
انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔ (پ
9،الاعراف:133)
ان عذابات کی تفصیل
درجہ ذیل ہے:
1)طوفان: اللہ نے سب سے پہلے طوفان کا عذاب دیا ،کثرت سے بارش برسی۔
پانی سے گھر ڈوب گئے جس کی وجہ سے وہ بیٹھ نہ سکتے تھے جو بیٹھتا تھا وہ ڈوب جاتا تھا ۔
2)ٹڈی: ٹڈیاں کھیتیاں، پھل ،درختوں کے پتے ،مکان کے دروازے یہاں تک
کے لوہے کے کیلیں تک کھا جاتیں تھیں۔
3)قمل: قمل میں اختلاف ہے بعض گھن،
بعض جو ں ،بعض چھوٹا سا کیڑا کہتے ہیں ۔اور یہ کپڑوں میں گھس جاتے اور جلد کو کھا جاتے تھے۔ یہ فرعونیوں کے بھنویں اور
پلکیں بھی چاٹ جاتیں ۔ان کی وجہ سے فرعونیوں کا سونا دشوار ہو گیا تھا۔
4) مینڈک :مینڈک مجلس میں بیٹھ
جاتے ، قبطی منہ کھولتے تو ان کے منہ بھر
جاتے اور لیٹتے تو مینڈک ان پر سوار ہو جاتے تھے۔
5)خون: کنواں ،نہر ،سمندر اور دریا
وغیرہ غرض ہر قسم کا پانی خالص خون ہو گیا ۔یہاں تک کہ بنی اسرائیل والوں کے منہ میں
پانی ہوتا وہ جب قبطیوں کے منہ میں کلی کرتے تو ان کے منہ میں خون ہو جاتا۔ بنی
اسرائیل قبطیوں کے ساتھ رہتے تھے مگر وہ محفوظ رہے ۔جب
قبطیوں کو عذابات پہنچتے تو وہ عاجز ہو کر
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے نجات دلانے کی درخواست کرتے جس کا ذکر قرآن میں یوں ہے:
اور جب ان پر عذاب واقع ہوتا توکہتے، اے موسیٰ!
ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کرو اس
عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے ۔بیشک اگر آپ ہم سے عذاب اٹھادو گے تو ہم ضرور
آپ پر ایمان لائیں گے اور ضرور ہم بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے۔ (پ 9، الاعراف : 133 تا 134)
لیکن عذاب ٹلنے کے
بعد ہر بار سرکشی کرتے پھر اللہ نے انہیں غرق کر دیا جسے یوں بیان کیا : پھر جب ہم ان سے اس مدت تک کے لئے عذاب اٹھالیتے جس
تک انہیں پہنچنا تھا تو وہ فوراً (اپنا عہد) توڑ دیتے۔ تو ہم نے ان سے بدلہ لیا
تو انہیں دریا میں ڈبو دیا کیونکہ انہوں نے ہماری آیتوں کوجھٹلایا اور ان سے
بالکل غافل رہے۔(پ 9، الاعراف : 135تا 136)
درس عبرت:(1) ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد شکنی، ظلم کرنا ،کفر کرنا ،انبیاء کو
جھٹلانا یہ کتنے سنگین جرم ہیں جن سے عذاب الہی نازل ہوتا ہے۔
(2) اس واقعے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے صبر و تحمل کا
بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ نیکی کی
دعوت دینے والے اس سے اللہ کی راہ میں آنے والی مشکلات میں صبر کا درس حاصل کریں۔ یہ
واقعہ اس جملے " شریف کے ساتھ شریف ،بدمعاش کے ساتھ
بدمعاش "کے باطل ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔