فرعون کون تھا:

فرعون حضرت سیّدنا موسیٰ علیہ السّلام کے دور کا ایک سرکش بادشاہ تھا، دعوتِ اسلام سے قبل فرعون حکومت و سلطنت کی وسعت، مال دولت کی کثرت، عیش و عشرت کی فراوانی اور طاقت و قوت کے نشے میں بےحد مغرور اور بے لگام ہو گیا تھا، بنی اسرائیل کے ہزاروں نادار وبے بس لوگوں کو اس نے اپنا غلام بنا رکھا تھا اور ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتا، چونکہ اس نے خدائی کا دعوی کررکھا تھا، اس لئے ہر کسی کو اپنا مملوک تصور کرتا، ان کے ساتھ ہرسلوک روا (درست) جانتا تھا۔

وقت یونہی گزرتا رہا، عرصے بعد اللہ پاک نے حضرت موسیٰ و ہارون عَلَیْہِمَا السَّلَام کو فرعون اور اس کی قوم کو دعوتِ ہدایت دینے کے لئے مبعوث فرمایا تھا، انہوں نے لوگوں کو باطل معبودوں کی پوجا پاٹ سے روکا اور خدائے واحد کی عبادت کی طرف بلایا، جو سب کا خالق و مالک ہے، لیکن ان ظالموں نے بجائے حق تسلیم کرنے کے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور ان دونوں پیغمبرانِ خدا کی سچائی پر دلالت کرنے والے روشن معجزات دیکھنے کے باوجود کفرو سرکشی پر قائم رہے اور معجزات کے مقابلے کے لئے جادوگروں کو اکٹھا کرنے لگے، لیکن خدائے رحمٰن کی نصرت سے ان جادوگروں کو شکست ہوئی تو وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے ۔( رسالہ فیضانِ حضرت آسیہ رحمۃ اللہ علیھا، صفحہ 3،4 مختصراً)

جب جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر و سرکشی پر جمے رہے تو ان پر اللہ کی نشانیاں پے در پے (مسلسل) وارد ہونے لگیں، کیوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے دعا کی تھی کہ: اے میرے ربّ! فرعون زمین میں بہت سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے، لہذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرمالے، جو ان کیلئے سزاوار ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت ہو۔( روح البیان جلد صفحہ 220 ،پارہ الاعراف 133)

تو اللہ پاک نے طوفان بھیجا، ہوا یوں کے باد ل آیا، اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہوئی، قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا، یہ لوگ کچھ نہ کرسکتے تھے، مسلسل سات روز تک بارش رہی، جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ سے عرض کی: ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔

حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعا سے یہ مصیبت دور ہوئی، ہر طرف سرسبز و شادابی آئی، جو پہلے کبھی نہ تھی، لیکن فرعونی پھر بھی ایمان نہ لائے، ایک مہینہ عافیت سے گزرا، لیکن پھر عذابِ الٰہی نے انہیں جکڑ لیا۔

ٹڈیاں:

پھر اللہ پاک نے ٹڈیاں بھیجیں، وہ کھیتیاں، پھل، درخت، مکان کے دروازے، چھتیں،تختے، سامان، حتی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں، قبطیوں نے دعا کروا کر عذاب سے نجات پائی، لیکن ایمان پھر بھی نہ لائے، ایک مہینہ عافیت سے گزرا، پھراللہ نے قمل بھیجے، قمل یا تو گھن ہے یا جوں، اس کیڑے نے بچے کھچے کھیت اور پھل بھی کھا لئے،حتی کہ فرعونیوں کی بھنویں اور پلکیں بھی چاٹ گئے، ان کے جسم میں چیچک کی طرح بھر جاتے، اس مصیبت سے تنگ آ کر انہوں نے دعائے موسیٰ کے ذریعے نجات پائی، لیکن انہوں نے عہد شکنی کی اور پھر بھی ایمان نہ لائے اور خبیث عمل شروع کر دیئے۔

ایک مہینہ عافیت سے گزرنے کے بعد اللہ نے مینڈک کا عذاب بھیجا اور حال یہ ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے، منہ کھولتا تو مینڈک کود کراندر چلا جاتا، ہانڈیوں، کھانوں میں مینڈک تھے، اس مصیبت سے تنگ آکر فرعونیوں نے حضرت موسیٰ سے دعا کروائی، عذاب ٹلاتو فرعونی پھر ایمان سے منکر ہو گئے۔

پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے دعا کی تو تمام کنوؤں، نہروں، چشموں کا پانی، دریائے نیل کا پانی، غرض ہر پانی ان کے لئے تازہ خون بن گیا، انہوں نے فرعون سے اس کی شکایت کی تو کہنے لگا حضرت موسیٰ (علیہ السّلام)نے جادو سے تمہاری نظر بند کر دی ہے، یہاں تک کہ بنی اسرائیل پانی پیتے تو وہ پانی ہی رہتا، لیکن قبطی پانی پیتے تو وہ خون بن جاتا، سات روز تک فرعون اور اس کے پیروکار اس مصیبت میں مبتلا رہے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے دعا کروائی، لیکن عہد شکنی کرتے ہوئے پھر بھی ایمان نہ لائے۔ (تفسیر صراط الجنان، پ 9، الاعراف ، تحت الایۃ 133)

جیسے کہ اللہ کا ارشاد ہے:تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور گھن اور مینڈک اور خون جداجدانشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔

ان واقعات سے یہ سبق ملتا ہے کہ عہد شکنی اور اللہ کے نبیوں کی تکذیب و توہین کتنا بڑا ہولناک جرم ہے، اللہ پاک ہمیں اپنا اور اپنے رسولوں کا مطیع بنائے۔آمین(عجائب القرآن، صفحہ 100، 101) 


حضرت موسیٰ علیہ السّلام قومِ فرعون کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے، قوم بڑی سرکش تھی، آپ نے انہیں ایمان کی طرف بلایا، لیکن وہ وہ ایمان نہ لائے، اللہ پاک نے ان پر عذابات بھیجے، جب ان پر کوئی عذاب آتا تو حضرت موسیٰ کے پاس حاضر ہوتے، روتے اور دعا کا کہتے کہ اگر یہ عذاب ٹل گیا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے، پھر آپ دعا کرتے، عذاب ٹل جاتا، یہ پھر آپ کو جھٹلانے لگتے، یہاں تک کہ اللہ پاک نے انہیں غرق کر دیا، قومِ فرعون پر مندرج ذیل عذابات آئے:

1. سب سے پہلے جو قومِ فرعون پر عذاب آیا، وہ قحط کا عذاب تھا، اللہ پاک نے انہیں پھلوں اور کھانے پینے کی چیزوں کی کمی میں مبتلا کر دیا، قحط کا یہ عالم تھا کہ ایک کھجور کے درخت پر صرف ایک ہی کھجور لگتی تھی۔( تفسیرصراط الجنان، پ 9، الاعراف، تحت الایۃ: 30)

2. فرعونیوں پر دوسرا عذاب طوفان کا آیا، ہوا یوں بادل آئے، اندھیرا ہوا، کثرت سے بارش ہونے لگی، یہاں تک کہ فرعونیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا، یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی ان کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آ گیا، ان میں جو بیٹھا وہ ڈوب گیا، ان میں نہ کوئی ہِل سکتا تھا، نہ کوئی کام کرسکتا تھا، سات روز تک یہ عذاب ان پر رہا۔(تفسیر صراط الجنان، پ 9، الاعراف ، تحت الایۃ 133)

3. تیسرا عذاب اللہ پاک نے ان پر ٹڈی بھیجی، وہ کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکان کے دروازے، چھتیں، تختے، سامان حتی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں، فرعونیوں کے گھروں میں بھرگئیں۔(تفسیر صراط الجنان، پ 9، الاعراف ، تحت الایۃ 133)

4. چوتھا عذاب اللہ پاک نے ان پر قمل کا عذاب بھیجا، بعض کہتے ہیں قمل گھُن ہے، بعض کہتے ہیں ایک چھوٹا سا کیڑا ہے، اس نے جو کپڑے، کھیتیاں اورپھل باقی رہے تھے، وہ کھا لئے، یہ کیڑا جِلد میں گھس جاتا تھا اور جلد کو کاٹتا تھا، کھانے میں بھر جاتا تھا، اگر کوئی دس بوری گندم چکی پر لے جاتا تھا تو تین سیر واپس لاتا، باقی سب کیڑے کھا جاتے، کیڑے فرعونیوں کے بال، بھنویں، پلکیں چاٹ گئے، ان کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے، ان کا جینا دشوار کر دیا۔(تفسیر صراط الجنان، پ 9، الاعراف ، تحت الایۃ 133)

5. پھر اللہ پاک نے ان پر مینڈک بھیجے اور یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے، منہ کھولتا تو مینڈک کود کر منہ میں چلا جاتا، ہانڈیوں میں مینڈک، کھانوں میں مینڈک، چولہوں میں مینڈک بھر جاتے۔(تفسیر صراط الجنان، پ 9، الاعراف ، تحت الایۃ 133)

6. پھر اللہ پاک نے ان پر یہ عذاب بھیجا کہ ان کے کنوؤں کا پانی، نہروں ، چشموں کا پانی اور دریائے نیل کا پانی، غرض ہر پانی ان کے لئے تازہ خون بن گیا، یہاں تک کہ وہ پیاس سے درختوں کی رطوبت چُوسنے لگے، وہ رطوبت منہ میں جاتے ہی خون بن جاتی۔(تفسیر صراط الجنان، پ 9، الاعراف ، تحت الایۃ 133)

جب اتنے عذابات کے بعد یہ ایمان نہ لائے تو اللہ پاک نے انہیں سمندر میں غرق کردیا۔

آج ہمیں اپنی حالت پر غور کرنا چاہئے، جب ہم پر کوئی تکلیف آتی ہے تو ہم اللہ کو یاد کرتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں مگر جیسےہی وہ تکلیف ہم سے دور ہوتی ہے، ہم اللہ کو بھول جاتے ہیں، دنیا کی رنگینیوں میں گم ہوجاتے ہیں۔


فرعونیوں کا یہ طریقہ کار تھا کہ اچھائی کو اپنا کمال اور برائی کو بدشگونی کے طور پر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے۔ اس پر انھیں طوفان، ٹڈیوں، جوؤں، مینڈکوں، خون وغیرہ کے عذابات میں مبتلا کیا گیا۔ جب بھی وہ عذاب میں مبتلا ہوئے تو موسیٰ علیہ السلام سے کہا ہم سے عذاب ٹل جائے تو ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو آزاد کریں گے۔ لیکن موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے عذاب ٹل جانے کے بعد فرعونی اپنے وعدے سے پھر جاتے تو الله پاک نے بھی انھیں سمندر میں غرق فرما دیا۔ الله پاک نے کمزور لوگوں کو مشرق و مغرب کا وارث بنایا اور بنی اسرائیل سے کیا ہوا وعدہ وفا فرمایا۔

1)پانی کا عذاب :اتنی بڑی طوفانی بارش ہوئی کہ کہ فرعونیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا اتنا کہ ان کے گلے گلے جتنا ہوگیا اور جو بھی بیٹھتا وہ ڈوب جاتا درحال کہ بنی اسرائیل والے اس سے محفوظ تھے۔تب فرعون کی قوم نے موسیٰ علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر ایمان لانے کا وعدہ کیا لیکن طوفان ختم ہو جانے کے بعد ایمان نہ لائے۔

2)ٹڈیوں کا عذاب :نافرمانی کے ایک ماہ بعد فرعونیوں پر ٹڈیوں کا عذاب آیا۔ جو فرعونیوں کے کھیت، گھروں کی چھتیں، سامان، کیلیں وغیرہ تک کھا گئیں۔ یہ قوم پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے ایمان لانے کا وعدہ کیا آپ علیہ السلام کی دعا سے یہ عذاب بھی رفع ہو گیا لیکن ایمان نہ لائے۔

3)گھن کا عذاب:ایمان نہ لانے کے ایک ماہ بعد پھر ان پر گھن یا جوں کا عذاب مسلط کیا گیا یہ کیڑے فرعونیوں کے جسم تک چاٹ گئے دس( 10) بوری چکی پر جاتیں تو بمشکل تین (3) کلو آٹا آتا پھر سیدنا موسیٰ کلیم الله علیہ السلام کے پاس نادم ہوکر آئے۔ یہ عذاب بھی رفع گیا۔ لیکن ایمان نہ لائے۔

4)مینڈک کا عذاب :جوؤں کے عذاب کے ماہ بعد مینڈکوں کا عذاب نازل ہوا جہاں بھی فرعونی بیٹھتے وہاں مینڈک ہی مینڈک ہو جاتے کھانوں میں، پانی میں، چولہوں میں، مینڈک ہی مینڈک تھے۔ یہ عذاب بھی ان پر ایک ہفتہ رہا۔ پھر سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام سے وعدہ کیا لیکن وفا نہ کیا اور ایمان نہ لائے۔

5)خون کا عذاب :بعد اس کے ان پر خون کا عذاب آیا کہ کنوئیں، چشمے، سالن،روٹی وغیرہ سب میں تازہ خون پیدا ہوگیا۔ اگر اسرائیلی کے برتن سے پانی قبطیوں کے برتن میں ڈالتے تو خون ہو جاتا۔ (تفسیر نور العرفان صفحہ 263 سورة الأعراف آیت 133 فرید بک ڈپو)

الله پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو انبیاء کرام علیہم السلام کی نافرمانی سے محفوظ فرمائے اور سیدنا خاتم النبيين صلى الله علیہ وسلم کا سچا مطیع اور فرمانبردار بنائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اژدھا بن کر جادوگروں کے سارے سانپوں کو نگل گیا تو وہ جادوگر تو سجدے میں گر گئے اور اللہ پاک نے انہیں ایمان کی دولت عطا فرمائی لیکن فرعون اور اس کی قوم کفر پر اڑی رہی اور حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم کو تکلیفیں پہنچانا شروع کردیں جن سے تنگ دل ہو کر موسٰی علیہ السلام نے یوں دعا فرمائی کہ: اے میرے رب! فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہوگیا ہے اور اس کی قوم نے عہد شکنی(وعدہ خلافی) کی ہے لہذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرمالےجو ان کے لئے سزاوار ہوں، اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت ہوں۔ (صراط الجنان،جلد 3، صفحہ نمبر 414،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

آپ علیہ السلام مستجاب الدعوات تھے، دعا قبول ہوئی اور اللہ پاک نے فرعونیوں پر لگاتار پانچ عذابوں کو مسلّط فرمادیا۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ- فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اورپِسُو(یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔

(پ 9،الاعراف:133)

(1)طوفان: ناگہاں(اچانک)ایک اَبَر(بادل) اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا پھر انتہائی زوردار بارش ہونے لگی یہاں تک کہ طوفان آگیا اور فرعونیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا اور وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی ان کی گردنوں تک آ گیا ان میں سے جو بھی بیٹھا وہ ڈوب کر ہلاک ہو گیا۔

(2) ٹڈیاں: پھر اللہ پاک نے اپنے قہروعذاب کو ٹڈیوں کی شکل میں بھیجا کہ چاروں طرف سے ٹڈیوں کے جُھنڈ(گروہ) کے جُھنڈ آئے جو ان کی کھیتوں اور باغوں یہاں تک کہ ان کے مکانوں کی لکڑیوں تک کو کھا گئیں اور فرعونیوں کے گھروں میں ٹڈیاں بھر گئیں جس سے ان کا سانس لینا مشکل ہو گیا۔

(3) گھن: ٹڈیوں کے بعد قُمّل کا عذاب مسلّط کیا گیا یہ ایک چھوٹا سا کیڑا تھا، جو کھیتوں کی تیار فصلوں کو چٹ کر گیا اور ان کے کپڑوں میں گھس کر ان کے چمڑوں کو کاٹ کاٹ کر انہیں تڑپانے لگا، یہاں تک کہ ان کے سر کے بالوں، داڑھی، مونچھوں، بھنوؤں، پلکوں کو چاٹ چاٹ کر اور چہروں کو کاٹ کاٹ کر انہیں چیچک کی طرح بنادیا۔

(4) مینڈک: اب مینڈکوں کی باری آئی، فرعونیوں کی بستیوں اور گھروں میں اچانک بے شمار مینڈک پیدا ہو گئے ان ظالموں کا حال یہ ہو گیا تھا کہ جو آدمی جہاں بھی بیٹھتا اس کی مجلس میں ہزاروں مینڈک بھر جاتے، کوئی آدمی بات کرنے یا کھانے کے لئے منہ کھولتا تو اس کے منہ میں مینڈک کود کر گھس جاتے، ہانڈیوں میں مینڈک، ان کے جسموں پر سینکڑوں مینڈک سوار رہتے۔

(5) خون: اتنے سخت عذابات کے باوجود بھی جب فرعون اور اس کی قوم نے توبہ نہ کی اور اسلام نہ لاۓ اور کفر پر ڈٹے رہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ان لوگوں کے کے تمام کنوؤں، نہروں کا پانی خون ہو گیا تو ان لوگوں نے فرعون سے فریاد کی، تو اس نے حکم دیا کہ تم لوگ مومنین کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی نکالو! مگر خدا کی شان کہ مومنین اسی برتن سے پانی نکالتے تو نہایت ہی صاف، شفاف اور شیریں پانی نکلتا اور فرعونی جب اسی برتن سے پانی نکالتے تو تازہ خون نکلتا یہاں تک کہ اگر ایک ہی برتن سے منہ لگا کر پانی پیا جاتا تو جو مومنین کے منہ میں جاتا وہ پانی ہوتا اور جو فرعونیوں کے منہ میں جاتا وہ خون ہوتا اور اگر فرعونی درختوں کی جڑیں اور چھالیں چبا چبا کر چوستے تو اس کی رطوبت بھی ان کے منہ میں جاکر خون ہو جاتی تھی۔

(عجائب القرآن مع غرائب القرآن، صفحہ 100-97،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) 


فرعونیو ں پر عذابات کیوں آئے؟:

جب فرعون اور اس کی قوم کی سرکشی یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے صاف صاف کہہ دیا ’’ اے موسیٰ! تم ہمارے اوپر جادو کرنے کیلئے کیسی بھی نشانی ہمارے پاس لے آؤ ،ہم ہرگز تم پر ایمان نہیں لائیں گے،جس بات کا ذکر سورۃ الاعراف کی آیت 132 میں کیا گیا ہے چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ قَالُوْا مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰیَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَاۙ-فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ(۱۳۲) (سورۃ الاعراف ،آیت 132)

ترجمہ کنز لایمان: اور بولے تم کیسی بھی نشانی لے کر ہمارے پاس آؤ کہ ہم پر اس سے جادو کرو ہم کسی طرح تم پر ایمان لانے والے نہیں۔

جب فرعونی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ لائے اور ان کی سرکشی بہت زیادہ ہو گئیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن کے خلاف دعا کی کہ یارب! فرعون زمین میں بہت سرکش ہوگیا ہے اور اس کی قوم نے بھی عہد شکنی کی ہے انہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر جو اُن کے لئے سزا ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت و نصیحت ہو، ، آپ علیہ السلام چونکہ مستجابُ الدعوات تھے اس لئے آپ کی دعا قبول ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعائے ضرر کے بعد فرعون اور اس کی قوم پر جو عذاب آئے ان کا ذکر سورۃالاعراف آیت 133 یوں بیان کیا گیا ہےاللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)ترجمہ کنزالایمان:تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اورٹِیڑی اور گھن اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی (پ 9،الاعراف:133)

اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعد اللہ پاک نے فرعونیوں پر لگاتار پانچ عذابوں کو مسلط فرما دیا۔ وہ پانچوں عذاب یہ ہیں۔

(1) طوفان کا عذاب

(2) ٹِڈِّی کا عذاب

(3) گھن (یا کلنی یا جوئیں) کا عذاب

(4) مینڈک کا عذاب

(5) خون کا عذاب

ان پانچ عذابات کی تفصیل درج ذیل ہے:

(1) طوفان کا عذاب: جب جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر وسرکشی پر جمے رہے تو اُن پر اللہ پاک کی نشانیاں پے درپے وارد ہونے لگیں کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تھی تواللہ پاک نے طوفان ور پانی اُن کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیا، اُن میں سے جوبیٹھا وہ ڈوب گیا، یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کرسکتے تھے۔ ہفتہ کے دن سے بھیجا ، ہوا یوں کہ بادل آیا، اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی ۔قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے الے کر دوسرے ہفتہ تک سات روز اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل کے گھر اُن کے گھروں سے متصل تھے اُن کے گھروں میں پانی نہ آیا۔ جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی: ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو طوفان کی مصیبت دور ہو گئی، زمین میں وہ سرسبزی وشادابی آئی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ کھیتیاں خوب ہوئیں اور درخت خوب پھلے ۔ یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے ’’یہ پانی تو نعمت تھا اور ایمان نہ لائے۔

( بغوی/ تفسیر صراط الجنان، الاعراف، تحت الآیۃ: 133)

(2) ٹِیڑی(ٹِڈِّی) کا عذاب:

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعدایک مہینہ تو عافیت سے گزرا جب فرعونی ایمان نہ لائے تو ،پھر اللہ پاک نے ٹڈی بھیجی وہ کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکان کے دروازے، چھتیں ،تختے، سامان، حتّٰی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں اور قبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں لیکن بنی اسرائیل کے یہاں نہ گئیں۔ اب قبطیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا، اس پر عہد و پیمان کیا ۔سات روز یعنی ہفتہ سے ہفتہ تک ٹڈی کی مصیبت میں مبتلا رہے،پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے نجات پائی۔ کھیتیاں اور پھل جو کچھ باقی رہ گئے تھے انہیں دیکھ کر کہنے لگے ’’یہ ہمیں کافی ہیں ہم اپنا دین نہیں چھوڑتے چنانچہ ایمان نہ لائے، عہد وفا نہ کیا اور اپنے اعمالِ خبیثہ میں مبتلا ہوگئے ۔ ( بغوی/ تفسیر صراط الجنان، الاعراف، تحت الآیۃ: 133)

(3) گھن (یا کلنی یا جوئیں) کا عذاب:

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعدایک مہینہ عافیت سے گزرا جب فرعونی ایمان نہ لائے تو ،پھراللہ پاک نے قُمَّل بھیجے، اس میں مفسرین کا اختلاف ہے’’ بعض کہتے ہیں کہقُمَّل گُھن ہے، بعض کہتے ہیں جوں ،بعض کہتے ہیں ایک اور چھوٹا سا کیڑا ہے۔ اس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی رہے تھے وہ کھالئے، یہ کیڑا کپڑوں میں گھس جاتا تھا اور جلد کو کاٹتا تھا، کھانے میں بھر جاتا تھا ،اگر کوئی دس بوری گندم چکی پر لے جاتا تو تین سیر واپس لاتا باقی سب کیڑے کھا جاتے ۔یہ کیڑے فرعونیوں کے بال، بھنویں ،پلکیں چاٹ گئے ،ان کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے حتّٰی کہ ان کیڑوں نے اُن کا سونا دشوار کردیا تھا۔ اس مصیبت سے فرعونی چیخ پڑے اور اُنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی:ہم توبہ کرتے ہیں ، آپ اس بلا کے دور ہونے کی دعا فرمائیے۔ چنانچہ سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے دور ہوئی، لیکن فرعونیوں نے پھر عہد شکنی کی اور پہلے سے زیادہ خبیث تر عمل شروع کر دئیے۔( بغوی/ تفسیر صراط الجنان، الاعراف، تحت الآیۃ: 133)

(4) مینڈک کا عذاب:

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعدجب فرعونی ایمان نہ لائے تو ایک مہینہ امن میں گزرنے کے بعد پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تو اللہ پاک نے مینڈک بھیجے اور یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے، بات کرنے کے لئے منہ کھولتا تو مینڈک کود کر منہ میں چلا جاتا، ہانڈیوں میں مینڈک ،کھانوں میں مینڈک ، چولھوں میں مینڈک بھر جاتے تو آگ بجھ جاتی تھی، لیٹتے تھے تو مینڈک اوپر سوار ہوتے تھے، اس مصیبت سے فرعونی رو پڑے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی: اب کی بار ہم پکی توبہ کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن سے عہد و پیمان لے کر دعا کی تو سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی دور ہوئی ۔( بغوی/ تفسیر صراط الجنان، الاعراف، تحت الآیۃ: 133)

(5) خون کا عذاب:حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعد ایک مہینہ عافیت سے گزرا ،لیکن پھر اُنہوں نے عہد توڑ دیا اور اپنے کفر کی طرف لوٹے ۔پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو تمام کنوؤں کا پانی، نہروں اور چشموں کا پانی، دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی اُن کے لئے تازہ خون بن گیا۔ اُنہوں نے فرعون سے اس کی شکایت کی تو کہنے لگاکہ ’’ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جادو سے تمہاری نظر بندی کردی ہے۔ اُنہوں نے کہا: تم کس نظر بندی کی بات کر رہے ہو؟ ہمارے برتنوں میں خون کے سوا پانی کا نام و نشان ہی نہیں۔ یہ سن کر فرعون نے حکم دیا کہ’’ قبطی بنی اسرائیل کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی لیں۔ لیکن ہوا یوں کہ جب بنی اسرائیل نکالتے توپانی نکلتا ،قبطی نکالتے تو اسی برتن سے خون نکلتا، یہاں تک کہ فرعونی عورتیں پیاس سے عاجز ہو کر بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس آئیں اور اُن سے پانی مانگا تو وہ پانی اُن کے برتن میں آتے ہی خون ہوگیا۔ یہ دیکھ کر فرعونی عورت کہنے لگی کہ’’ تو پانی اپنے منہ میں لے کر میرے منہ میں کلی کردے ۔ مگر جب تک وہ پانی اسرائیلی عورت کے منہ میں رہا پانی تھا، جب فرعونی عورت کے منہ میں پہنچا تو خون ہوگیا ۔فرعون خود پیاس سے مُضْطَر ہوا تواس نے تر درختوں کی رطوبت چوسی ، وہ رطوبت منہ میں پہنچتے ہی خون ہوگئی۔ سات روز تک خون کے سوا کوئی چیز پینے کی میسر نہ آئی تو پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی یہ مصیبت بھی دور ہوئی مگر وہ ایمان پھر بھی نہ لائے۔( بغوی/ تفسیر صراط الجنان، الاعراف، تحت الآیۃ: 133)

درسِ عبرت:حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم پر بہت مہربان تھے۔اسی لئے آپ ہر عذاب کے بعد اللہ سے دعا فرماتے اور ان سے عذاب دور ہو جاتا مگر اس کے باوجود بنی اسرائیل ایمان نہ لائے اور سر کشی میں اضافہ کررہے رہے۔ ہمیں پچھلی اُمّتوں  پر آنے والے عذابات سے عبرت حاصل کرنی چاہئے۔بنی اسرائیل کے شریر لوگوں کا شمار بھی اُنہی لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں اللہ پاک نے بے شمار نعمتیں عطا فرمائی تھیں مگر  افسوس!اِس کے باوجود اُنہوں نے اللہ پاک اور اُس کے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دل کھول کر نافرمانیاں کیں،دن رات گناہوں میں لگے رہے جس کے نتیجے میں اُن پر پانچ درد ناک عذابات آتے رہے۔اور آجر کار فرعون اور اس کی قوم کو سمندر میں غرق کر کے ہلاک کر دیا گیا او ر فرعون کی لاش کو قیامت تک کے لوگوں کے لئے عبرت کا نشان بنا کر رکھ دیا۔


پانی کا عذاب:حضرت موسٰی علیہ السلام کے عصا مبارک کا اثددہا بن جانا دیکھ کر فرعون کے خوش نصیب جادوگر حضرت موسٰی علیہ السلام پر ایمان لے آئے۔ لیکن فرعون اور اس کی سرکش قوم اپنے کفر سے باز نہ آئی۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے یہ سر کشی دیکھ کر ان کے حق میں بد دعا فرما دی اور عرض کیا کہ: ”الٰہی فرعون بہت سر کش ہو گیا ہے اور اس کی قوم بھی عہد شکن اور مغرور ہو گئی ہے۔ اس لئے انہیں عذاب میں گرفتار کر جو ان کے لئے سزا ہو۔ اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت۔“

حضرت موسٰی علیہ السلام کی یہ دعا قبول ہو گئی۔ اور اللہ نے فرعونیوں پر ایک طوفان بھیجا۔ ابر آیا۔ اندھیرا چھا گیا اور کثرت سے بارش ہونے لگی۔ فرعونیوں کے گھر میں پانی ان کی گردنوں تک آگیا۔ اس میں جو بیٹھا وہ ڈوب گیا۔ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کر سکتے تھے۔ فرعونی سات دن تک اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور قدرت خدا وندی کا کرشمہ دیکھئے کہ باوجودیکہ بنی اسرائیل کے گھر فرعونیوں کے گھروں سے متصل تھے مگر بنی اسرائیل کے گھروں میں پانی نہ آیا۔ جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسٰی علیہ السلام سے عرض کیا کہ ہمارے لئے اس مصیبت کے ٹل جانے کے لئے اللہ سے دعا کیجئے۔ اب ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئیں گے۔ چنانچہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے دعا فرمائی تو طوفان کی مصیبت رفع ہو گئی۔

ٹڈی دل کا عذاب:فرعون کی قوم نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو ستایا۔ تو حضرت موسٰی علیہ السلام کی بددعا سے ان پر پانی کا عذاب آ گیا۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کی دعا سے ان پر سے پانی کا عذاب ٹل گیا اور وہی بارش کا پانی رحمت کی شکل میں تبدیل ہو کر زمین کی سر سبزی و شادابی کا موجب بن گیا۔ کھیتیاں خوب ہوئیں۔ درخت خوب پھلے اس طرح کی س سبزی پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ فرعونی کہنے لگے کہ یہ پانی تو نعمت تھا، ہمیں موسٰی پر ایمان لانے کی کیا حاجت۔ چنانچہ وہ مغرور ہو گئے اور اپنے وعدے سے پھر گئے تو موسٰی علیہ السلام نے پھر ان کے لئے بد دعا کی تو اللہ تعالٰی نے ان پر ٹڈیوں کا عذاب نازل کر دیا۔ یہ ٹڈیاں کھیتوں اور درختوں کے پھل حتی کہ فرعونیوں کے دروازے اور چھتیں بھی کھا گئیں۔ اللہ کی قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ ٹڈیاں فرعونیوں کے گھروں میں تو گھس گئیں مگر بنی اسرائیل کے گھروں میں مطلق نہ گئیں۔ تنگ آ کر ان سر کش لوگوں نے پھر حضرت موسٰی علیہ السلام سے عذاب کے ٹل جانے کی درخواست کی اور پھر وعدہ کیا کہ یہ بلا ٹل جائے تو ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔ چنانچہ حضرت موسٰی علیہ السلام کی دعا کی برکت سے یہ عذاب بھی ان پر سے ٹل گیا لیکن وہ پھر نا فرمان کفر پر اٹکے رہے۔

جوئیں اور مینڈک کا عذاب:ٹڈیوں کے عذاب ک ٹل جانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر پر قائم رہے اور سر کش ہو رہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے پھر ان کے لئے بد دعا فرمائی اور فرعونیوں پر جوؤں کا عذاب نازل ہو گیا۔ یہ جوئیں فرعونیوں کے کپڑوں میں گھس کر ان کے جسموں کو کاٹتیں اور ان کے کھانے میں بھر جاتیں اور گھن کی شکل میں ان کی گہیوں کی بوریوں میں پھیل کر ان کے گہیوں کو تباہ کرنے لگیں۔ اگر کوئی دس بوری گندم چکی پر لے جاتا تو تو تین سیر واپس لاتا۔ اور فرعونیوں کے جسموں میں اس کثرت سے چلنے لگیں کہ ان کے بال، بھنوئیں، پلکیں چاٹ کر ان کے جسموں پر چیچک کی طرح داغ کر دیتیں اور انہیں سونا دشوار کر دیا۔ یہ مصیبت دیکھ کر پھر انہوں نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور کہا کہ اب کی بار ہم پر سے یہ عذاب ٹل جائے تو ہم ضرور ایمان لے آویں گے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کی دعا سے جوؤں کا عذاب ٹل گیا تو یہ لوگ پھر اپنے وعدے سے پھر گئے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے پھر ان کے لئے بد دعا کی تو اب کے بار ان پر مینڈکوں کا عذاب نازل ہو گیا۔ اور حال یہ ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس کی گود میں مینڈک بھر جاتے تھے۔ بات کرنے کے لئے منہ کھولتے تو مینڈک کود کر منہ میں جا گھستے۔ ہانڈیوں میں مینڈک ، کھانوں میں مینڈک، اور چولہوں میں مینڈک بھر جاتے اور آگ بجھ جاتی تھی۔ لیٹتے تو مینڈک اوپر سوار ہو جاتے۔

اس مصیبت سے فرعونی رو پڑے اور حضرت موسٰی علیہ السلام سے عرض کیا کہ اب کی بار ہم اپنے عہد پر قائم رہیں گے اور پکی توبہ کرتے ہیں، ہم پر سے اس مصیبت کو ٹالئیے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے پھر دعا فرمائی اور ان پر سے یہ عذاب بھی رفع ہوا۔ لیکن وہ لوگ عذاب کے ٹل جانے کے بعد پھر سر کش ہو گئے اور حضرت موسٰی علیہ السلام کے رب پر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ پھر حضرت موسٰی علیہ السلام نے ان کے لئے بد دعا فرمائی تو ان پر خون کا عذاب نازل ہو گیا۔ جس کا ذکر نیچے آ رہا ہے۔

خون ہی خون:حضرت موسٰی علیہ السلام کی بد دعا سے فرعونیوں پر جوؤں اور مینڈکوں کا عذاب نازل ہوا۔ پھر آپ کی دعا سے ان پر سے وہ عذاب بھی دور کر دیا گیا مگر فرعونی ایمان نہ لائے اور اپنے کفر پر قائم رہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے پھر ان کے لئے بد دعا فرمائی تو کنوؤں کا پانی، نہروں اور چشموں کا پانی، دریائے نیل کا پانی، غرض ہر پانی ان کے لئے تازہ خون بن گیا۔ اور وہ اس نئی مصیبت سے بہت ہی پریشان ہوئے۔ جو پانی بھی اٹھاتے ان کے لئے خون بن جاتا۔ اور رب جلیل کی قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ بنی اسرائیل کے لئے پانی پانی ہی تھا مگر فرعونیوں لے لئے ہر پانی خون بن گیا۔

آخر کار تنگ آ کر فرعونیوں نے بنی اسرائیل کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی لینے کا ارادہ کیا۔ تو جب بنی اسرائیل نکالتے تو پانی نکلتا۔ اور جب فرعونی نکالتے تو اسی برتن سے خون نکلتا۔ یہاں تک کہ فرعونی عورتیں پیاس سے تنگ آ کر بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس آئیں اور ان سے پانی مانگا۔ تو وہ پانی ان کے برتن میں آتے ہی خون ہو گیا تو فرعونی عورتوں نے بنی اسرائیل کی عورتوں سے کہا کہ اپنے منہ میں پانی ڈال کر ہمارے منہ میں انڈیل دو، جب تک پانی بنی اسرائیل کی عورت کے منہ میں رہتا تب تک پانی ہی رہتا، جیسے ہی وہ پانی بنی اسرائیل کی عورت کے منہ میں جاتا تو وہ پانی خون بن جاتا۔ فرعون خود پیاس سے لاچار ہوا تو اس نے درختوں کی رطوبت چوسی۔ وہ رطوبت منہ میں پہنچتے ہی خون بن گئی۔ اس قہر الٰہی سے عاجز آ کر فرعونیوں نے پھر حضرت موسٰی علیہ السلام سے التجا کی کہ ایک مرتبہ اور دعا کیجئے۔ اور اس عذاب کو بھی ٹالئیے۔ پھر ہم ضرور کے ضرور ایمان لے آئیں گے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے پھر ان کے لئے دعا فرمائی تو ان پر سے عذاب ٹل گیا مگر وہ بے ایمان پھر بھی اپنے عہد پر قائم نہ رہے۔

فرعون اور اس کی قوم دریا میں غرق ہو گئی:آخر کار اتنی سر کشی اور کفر پر ڈٹے رہنے پر اللہ پاک کے حکم سے سارے فرعونی دریائے نیل میں غرق کر دئیے گئے۔ جب سارے فرعونی اور خود فرعون بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے جب دریائے نیل کے کنارے پہنچے تو حضرت موسٰی نے اللہ کے حکم سے اپنا عصا دریائے نیل کے پانی پر مارا تو دریا میں راستہ بن گیا، کچھ روایتوں میں ہے کہ بارہ راستے بن گئے۔ اور بنی اسرائیل ان راستوں سے دریا کے پار چلی گئی۔ لیکن جن فرعون اور اس کی قوم انہیں راستوں سے دریا پار کرنے لگی تو رب جلیل کے حکم سے دریا کا پانی آپس میں مل گیا اور فرعون اپنی قوم سمیت دریا میں غرق ہو گیا اور دنیا کی عبرت کے لئے دریا نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا۔

سبق: ہمیں ہر حال میں اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہنا چاہئے اور اللہ کی نا فرمانی سے ہر حال میں بچنا چاہئے کیونکہ اس کا عذاب بڑا سخت اور دردناک ہے لیکن ہم یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی نصیحت نہیں پکڑتے۔ اللہ اپنے بندوں پر گزری قوموں کے حالات بیان فرماتا ہے تا کہ لوگ اس کے عذاب سے ڈر کر نصیحت پکڑیں، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اللہ کی آیتوں کو سن کر نصیحت پکڑتے ہیں اور سیدھے راستے پر چل نکلتے ہیں۔ یہی لوگ آخرت میں کامیاب ہونے والے ہیں۔

رب کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمارے پتھر دلوں کو موم کر دے اور ہمیں ہدائیت عطا فرمائے تا کہ اس چند روزہ امتحان کی دنیا میں ہم اللہ کی رحمت اور نظر کرم سے کامیاب ہو جائیں تا کہ آخرت میں اللہ کریم کے عظیم وعدے کے مطابق ہم بخشش پانے والے خوش نصیبوں میں شامل ہو جائیں۔ آمین۔ ثم آمین

(حوالہ: قرآن کریم پارہ 9 ،دیگر کتب: خزائن العرفان ، روح البیان)


فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳) ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اورپِسُو(یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔ (پ 9،الاعراف:133)

جب جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر وسرکشی پر جمے رہے تو اُن پر اللہ پاک کی نشانیاں پے درپے وارد ہونے لگیں کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ یارب! فرعون زمین میں بہت سرکش ہوگیا ہے اور اس کی قوم نے بھی عہد شکنی کی ہے انہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر جو اُن کے لئے سزا ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت و نصیحت ہو، تواللہ پاک نے طوفان بھیجا ، ہوا یوں کہ بادل آیا، اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی ۔قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی اُن کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیا، اُن میں سے جوبیٹھا وہ ڈوب گیا، یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کرسکتے تھے۔

ہفتہ کے دن سے لے کر دوسرے ہفتہ تک سات روز اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل کے گھر اُن کے گھروں سے متصل تھے اُنا کے گھروں میں پانی نہ آیا۔ جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی: ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو طوفان کی مصیبت دور ہو گئی، زمین میں وہ سرسبزی وشادابی آئی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ کھیتیاں خوب ہوئیں اور درخت خوب پھلے ۔

یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے ’’یہ پانی تو نعمت تھا اور ایمان نہ لائے۔ ایک مہینہ تو عافیت سے گزرا ،پھر اللہ پاک نے ٹڈی بھیجی وہ کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکان کے دروازے، چھتیں ،تختے، سامان، حتّٰی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں اور قبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں لیکن بنی اسرائیل کے یہاں نہ گئیں۔ اب قبطیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا، اس پر عہد و پیمان کیا ۔سات روز یعنی ہفتہ سے ہفتہ تک ٹڈی کی مصیبت میں مبتلا رہے،پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے نجات پائی۔ کھیتیاں اور پھل جو کچھ باقی رہ گئے تھے انہیں دیکھ کر کہنے لگے ’’یہ ہمیں کافی ہیں ہم اپنا دین نہیں چھوڑتے چنانچہ ایمان نہ لائے، عہد وفا نہ کیا اور اپنے اعمالِ خبیثہ میں مبتلا ہوگئے ۔

ایک مہینہ عافیت سے گزرا ،پھراللہ پاک نے قُمَّل بھیجے، اس میں مفسرین کا اختلاف ہے’’ بعض کہتے ہیں کہ قُمَّل گُھن ہے، بعض کہتے ہیں جوں ،بعض کہتے ہیں ایک اور چھوٹا سا کیڑا ہے۔ اس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی رہے تھے وہ کھالئے، یہ کیڑا کپڑوں میں گھس جاتا تھا اور جلد کو کاٹتا تھا، کھانے میں بھر جاتا تھا ،اگر کوئی دس بوری گندم چکی پر لے جاتا تو تین سیر واپس لاتا باقی سب کیڑے کھا جاتے ۔یہ کیڑے فرعونیوں کے بال، بھنویں ،پلکیں چاٹ گئے ،ان کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے حتّٰی کہ ان کیڑوں نے اُن کا سونا دشوار کردیا تھا۔ اس مصیبت سے فرعونی چیخ پڑے اور اُنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی:

ہم توبہ کرتے ہیں ، آپ اس بلا کے دور ہونے کی دعا فرمائیے۔ چنانچہ سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے دور ہوئی، لیکن فرعونیوں نے پھر عہد شکنی کی اور پہلے سے زیادہ خبیث تر عمل شروع کر دئیے۔ ایک مہینہ امن میں گزرنے کے بعد پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تو اللہ پاک نے مینڈک بھیجے اور یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے، بات کرنے کے لئے منہ کھولتا تو مینڈک کود کر منہ میں چلا جاتا، ہانڈیوں میں مینڈک ،کھانوں میں مینڈک ، چولھوں میں مینڈک بھر جاتے تو آگ بجھ جاتی تھی، لیٹتے تھے تو مینڈک اوپر سوار ہوتے تھے، اس مصیبت سے فرعونی رو پڑے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی: اب کی بار ہم پکی توبہ کرتے ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن سے عہد و پیمان لے کر دعا کی تو سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی دور ہوئی اور ایک مہینہ عافیت سے گزرا ،لیکن پھر اُنہوں نے عہد توڑ دیا اور اپنے کفر کی طرف لوٹے ۔پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو تمام کنوؤں کا پانی، نہروں اور چشموں کا پانی، دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی اُن کے لئے تازہ خون بن گیا۔ اُنہوں نے فرعون سے اس کی شکایت کی تو کہنے لگاکہ ’’ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جادو سے تمہاری نظر بندی کردی ہے۔ اُنہوں نے کہا: تم کس نظر بندی کی بات کر رہے ہو؟ ہمارے برتنوں میں خون کے سوا پانی کا نام و نشان ہی نہیں۔

یہ سن کر فرعون نے حکم دیا کہ’’ قبطی بنی اسرائیل کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی لیں۔ لیکن ہوا یوں کہ جب بنی اسرائیل نکالتے توپانی نکلتا ،قبطی نکالتے تو اسی برتن سے خون نکلتا، یہاں تک کہ فرعونی عورتیں پیاس سے عاجز ہو کر بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس آئیں اور اُن سے پانی مانگا تو وہ پانی اُن کے برتن میں آتے ہی خون ہوگیا۔ یہ دیکھ کر فرعونی عورت کہنے لگی کہ’’ تو پانی اپنے منہ میں لے کر میرے منہ میں کلی کردے ۔ مگر جب تک وہ پانی اسرائیلی عورت کے منہ میں رہا پانی تھا، جب فرعونی عورت کے منہ میں پہنچا تو خون ہوگیا ۔فرعون خود پیاس سے مُضْطَر ہوا تواس نے تر درختوں کی رطوبت چوسی ، وہ رطوبت منہ میں پہنچتے ہی خون ہوگئی۔ سات روز تک خون کے سوا کوئی چیز پینے کی میسر نہ آئی تو پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی یہ مصیبت بھی دور ہوئی مگر وہ ایمان پھر بھی نہ لائے۔( بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: 133، 2 / 159-161)


اللہ پاک نے قرآن پاک میں گزشتہ امتوں کی نافرمانیوں اور ان پر آنے والے عذابات کو بیان فر مایا ہے تاکہ امت محمدی ان نافرمانیوں سے بچیں جنکی وجہ سے وہ قومیں ہلاک کردی گئیں۔

انہیں قوموں میں سے ایک فرعون اور اسکے متبعین بھی ہیں جنکی طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام وحدانیت باری تعالی کا پیغام لے کر تشریف لائے مگر وہ ایمان نہ لائے اور ظلم وستم اور موسی علیہ السلام کو طرح طرح کی ایذا رسانی کرنے لگے جس سے تنگ دل ہو کر آپ نے انکے حق میں بد دعا فرمائی جسکے سبب پانچ قسم کے عذابات سات سات دن کیلئے ان پر مہینہ کے وقفہ سے آتے گئے۔

جسے اللہ پاک نے قرآن پاک میں کچھ یوں بیان فرمایا:فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)ترجمہ کنزالایمان:تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اورٹِیڑی اور گھن اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی (پ 9،الاعراف:133)

1)طوفان:ان پر زور دار بارش آئی جسکی وجہ سے سخت طوفان آیا اور انکے گھروں میں انکی گردنوں تک پانی کھڑا رہا۔

2)ٹڈیاں:چاروں طرف سے ٹڈیوں کے جھنڈ کے جھنڈ آئے جو انکے کھیتوں،باغوں اور گھروں کی لکڑیوں تک کو کھا گئے۔

3)قُمَّلْ:یہ گُھن نامی ایک کیڑا تھا جو انکے پھلوں اور میووں میں لگ کر انکے تمام غلوں تک کو چٹ کر گیا اور انکے جسموں کو کاٹ کاٹ کر چیچک نما بنا دیا ۔

4)مینڈک:ان پر بے شمار مینڈک مسلط کردیئے گئے جو انکی ہانڈیوں اور کھانے، پینے کے برتنوں میں گھس گئے اور وہ بھوک پیاس سے دو چار ہوگئے۔

5)خون:انکے کنوئیں، نہریں اور کھانے، پینے کے برتن خون سے بھر گئے اور کھانے پینے کے کچھ لائق نا رہا۔(صراط الجنان، 3/414تا 415مفہوماً)

یہ تمام عذابات فرعونیوں پر نازل ہوئے اور انکے ساتھ رہنے والے بنی اسرائیل کے مومنین ان عذابات سے امن میں رہے مگر پھر بھی یہ دیکھ کر توبہ کرنے اور ایمان لانے کے بجائے انکا کفر وشرک اور ظلم و ستم پہلے کی بنسبت اور بڑھ گیا اور اس قدر یہ سرکش ہوگئے کہ معاذاللہ موسی علیہ السلام کے قتل درپے ہوگئے۔ پھر اللہ پاک نے انہیں دریائے نیل میں ڈبو کر ہلاک کردیا۔ بالآخر یہ قوم مسلسل اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے اپنے انجام کو پہنچ کر رہتی دنیا تک کیلئے عبرت کا مقام بن گئی۔

محترم قارئین !دیکھا آپ نے کہ کیسے یہ قوم اللہ پاک کی نافرمانیوں کی وجہ سے دنیاوی عذاب میں مبتلا ہو کر ہلاک کردی گئی۔مگر افسوس ہم اللہ پاک کی نافرمانیاں کرتے وقت ذرا بھی نہیں کتراتے۔ خدارا خود کو عذاب الہی سے ڈرائیں اور رب کے حضور توبہ کریں۔

کرلے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی

قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی


اللہ پاک نے فرمایا : ترجمہ کنزالایمان : تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور قمل اور مینڈک اور خون جداجدانشانیاں ۔(پ9، الاعراف : 133)

فرعونی جب اپنی سرکشی اور کفر پر ڈٹے رہے تواللہ پاک نے ان پر پانچ عذاب نازل کیے ۔ بنی اسرائیل کے گھر جو فرعونیوں کے گھروں سے ملے ہوۓ تھے ان پر ان عذابات کا اللہ پاک کے کرم سےکوئی اثر نا ہوا ۔ جب فرعونی ایک عذاب سے تنگ آجاتے تو حضرتِ موسٰی علیہ السلام سے درخواست کرتے تو آپ علیہ السلام کی دعا سے عذاب ٹل جاتا۔ ہر عذاب ساتویں دن ٹلتا اور دو عذابوں میں ایک ماہ کا فاصلہ ہوتا۔(تفسیرِصاوی،2/803،پ9،الاعراف:133)

1) طوفان : ایک ابر آیا اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا پھر زوردار بارش ہوئی اور طوفان آگیا۔فرعونی اس میں کھڑے رہے جو بیٹھتا ڈوب جاتا ۔ ان کے کھیت اور باغات ہلاک ہوگئے۔

2) ٹڈیاں: جب فرعونیوں کا کفروتکبر اور ظلم وستم بڑھنے لگا تو اللہ پاک کا قہر وغذب ٹڈیوں کی صورت میں نازل ہوا کہ ہر طرف ٹڈیوں کے جھنڈ جو انکے کھیتوں اور باغات یہاں تک کہ گھروں کی لکڑیاں تک کھا گئیں ۔انکے گھروں میں اس قدر ٹڈیاں بھر گئیں کہ ان کا سانس لینا مشکل ہوگیا ۔

3) قمل : قمل کے گھن،جوں یا ایک چھوٹا سا کیڑا ہونے میں اختلاف ہے ۔ یہ کیڑے فرعونیوں کی اناجوں پھلوں،میووں،تیارشدہ فصلوں کوچٹ کر گئے اور انکے بال،داڑھی، مونچھیں،بھنوؤں،پلکیں چاٹ کر اور چہرے کاٹ کر چیچک روبنادیا۔یہ کیڑے کھانے اور پانی میں گھس جاتے جس کی وجہ سے نہ کھا پی سکتے اور نہ ہی ٹھیک سے سو پاتے۔

4) مینڈک : اچانک بےشمار مینڈک پیدا ہوئے کہ جہاں بیٹھتے اس مجلس میں ہزاروں مینڈک جمع ہو جاتے ۔چلتے،پھرتے،اٹھتے،بیٹھتے سینکڑوں مینڈک ان پر سوار رہتے یہاں تک کہ بات کرنے کے لئے منہ کھولتے تو منہ میں مینڈک کودکرگھس جاتا۔

5) خون : اچانک تمام کنوؤں ،نہروں ،چشموں الغرض ہر پانی خون ہوگیا۔ مومنین پراسکا بالکل اثر نا ہوا ۔ فر مومنین اور فرعونی ایک ساتھ پانی نکالتے لیکن پھر بھی فرعونیوں کے برتن میں تازہ خون آتا۔یہانتک کہ ایک پیالے میں ایک ساتھ پیتے یا مومن اپنے منہ سے فرعونی کے منہ میں ڈالتا تو بھی فرعونیوں کی منہ میں جا کر خون بن جتا ۔ گھاس،درختوں کی جڑوں اور چھالیں بھی چوستے تو وہ رس بھی منہ میں پہنچ کر خون بن جاتا۔

(تفسیرِ الصاوی ،2/803،پ9،الاعراف:133)

اللہ پاک ہمیں اپنی اور اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور پسو (یا جوئیں) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور مجرم قوم تھی

(فارسلنا : تو ہم نے بھیجا ) جب جادو گروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر وسر کشی پر جمے رہے تو ان پر اللہ پاک کی نشانیاں پے در پے وارد ہونے لگیں کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے دعا کی تھی کہ:" یا رب عزوجل فرعون زمین میں بہت سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے بھی عہد شکنی کی ہے انہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر جو کے لئے سزا ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت و نصیحت ہو"۔

(صراط الجنان فی تفسیر القران ،پارہ 9 سورت الاعراف آیت نمبر 133)

تو اللہ پاک نے طوفان بھیجا، ہوا یوں کہ بادل آیا اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی ، قبطیوں کے گھروں میں پانی گیا یہاں تک کہ وہ اس میں کھرے رہ گئے اور پانی ان کی گردنوں کی پنڈلیوں تک آگیا ، ان میں سے جو بیٹھا وہ ڈوب گیا ، یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کر سکتے تھے ۔ ہفتہ کے دن سے لے کر دوسرے ہفتہ تک سات روز اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل کے گھر ان کے گھروں سے متصل تھے ان کے گھروں میں پانی نہ آیا ۔ جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام سے عرض کی : ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے ۔ حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے دعا فرمائی تو طوفان کی مصیبت دور ہو گئی ، زمین میں وہ سر سبزی وشادابی آئی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی ۔ کھیتیاں خوب ہوئیں اور درخت خوب پھلے ۔ یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے۔ یہ پانی تو نعمت تھا اور ایمان نہ لائے۔ ایک مہینہ تو عافیت سے گزرا ۔

پھر اللہ پاک نے ٹڈی بھیجی وہ کھیتیاں اور پھل ، درختوں کے پتے ، مکان کے دروازے ، چھتیں ، تختے، سامان، حتیٰ کہ لوہے کی کیلیں تک کھاگئیں اور قبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں لیکن بنی اسرائیل کے یہاں نہ گئیں ۔ اب قبطیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا ، اس عہد وپیمان کیا۔ سات روز یعنی ہفتہ سے ہفتہ تک ٹڈی کی مصیبت میں مبتلا رہے ، پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی دعا سے نجات پائی ۔ کھیتیاں اور پھل جو کچھ باقی رہ گئے تھے انہیں دیکھ کر کہنے لگے : یہ ہمیں کافی ہیں ہم اپنا دین نہیں چھوڑتے چناچہ ایمان نہ لائے ، عہد وفا نہ کیا اور اپنے اعمال خبیثہ میں مبتلا ہو گئے ۔ ایک مہینہ عافیت سے گزا۔

پھر اللہ پاک نے قمل بھیجے ، اس میں مفسرین کا اختلاف ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ قمل گھن ہے ، بعض کہتے ہیں جوں ، بعض کہتے ہیں ایک اور چھوٹا سا کیڑا ہے۔ اس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی رہے تھے وہ کھالئے ، یہ کیڑا کپڑوں میں گھس جاتا تھا جلد کو کاٹتاتھا، کھانے میں بھر جاتا تھا ، اگر کوئی دس بوری گندم چکی پر لے جاتا تو تین سیر واپس لاتا باقی سب کیڑے کھا جاتے ۔ یہ کیڑا فرعونیوں کے بال ، بھنویں ، پلکیں چاٹ گئے، ان کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے حتیٰ کہ ان کیڑوں نے ان کا سونا دشوار کر دیا تھا ۔ اس مصیبت سے فرعونی چیخ پڑے اور انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام سے عرض کی: ہم توبہ کرتے ہیں، آپ اس بلا کے دور ہونے کی دعا فرمائیے۔ چناچہ سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی دعا سے دور ہوئی ، لیکن فرعونیوں نے پھر عہد شکنی کی اور پہلے سے زیادہ خبیث تر عمل شروع کردئیے ۔

ایک مہینہ امن میں گزرنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے دعا کی تو اللہ پاک نے مینڈک بھیجے اور یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے، بات کرنے کے لئیےمنہ کھولتا تو مینڈک کود کر منہ میں چلا جاتا، ہانڈیاں میں مینڈک،کھانوں میں مینڈک،چولھوں میں مینڈک بھر جاتے تو آگ بجھ جاتی تھی، لیٹتے تھے تو مینڈک اوپر سوار ہوتے تھے، اس مصیبت سے فرعونی رو پڑے اور حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام سے عرض کی: اب کی بار ہم پکی توبہ کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے ان سے عہد وپیمان لے کر دعا کی سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی دور ہوئی اور ایک مہینہ عافیت سے گزرا ، لیکن پھر انہوں نے عہد توڑ دیا اور اپنے کفر کی طرف لوٹے ۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے دعا فرمائی تو تمام کنوؤں کا پانی ، نہروں اور چشموں کا پانی، دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی ان کے لئے تازہ خون بن گیا۔ انہوں نے فرعون سے شکایت کی تو کہنے لگا کہ :" حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے جادو سے تمہاری نظر بندی کر دی ہے"۔ انہوں نے کہا: تم کس نظر بندی کی بات کررہے ہو ؟ ہمارے برتنوں میں خون کے سوا پانی کا نام ونشان ہی نہیں۔

یہ سن کر فرعون نے حکم دیا کہ : قبطی بنی اسرائیل کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی لیں ۔ لیکن ہوایوں کہ جب بنی اسرائیل نکالتے تو پانی نکلتا ، قبطی نکالتے تو اسی برتن سے خون نکلتا ، یہاں تک کہ فرعونی عورتیں پیاس سے عاجز ہو کر بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس آئیں اور ان سے پانی مانگا تو وہ پانی ان کے برتن میں آتے ہی خون ہو گیا۔ یہ دیکھ کر فرعونی عورت کہنے لگی کہ تو پانی اپنے منہ میں لے کر میرے منہ میں کلی کردے ۔ مگر جب تک وہ پانی اسرائیل عورت کے منہ میں رہا پانی تھا، جب فرعونی عورت کے منہ میں پہنچا تو خون ہو گیا ۔فرعون خود پیاس سے مضطر ہوا تو اس نے تر درختوں کی رطوبت چوسی ،وہ رطوبت منہ میں پہنچتے ہی خون ہو گئی ۔سات روز تک خون کے سوا کوئی چیز پینے کی میسر نہ آئی تو پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے دعا فرمائی یہ مصیبت بھی دور ہوئی مگر وہ ایمان پھر بھی نہ لائے ۔


سب سے پہلے اللہ پاک نے فرعونیوں کو کئی سال کے قحط ،پھلوں کی کمی اور فقر وفاقہ کی مصیبت میں گرفتار کیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ’’دیہات میں رہنے والے فرعونی قحط کی مصیبت میں گرفتار ہوئے اور شہروں میں رہنے والے (آفات کی وجہ سے) پھلوں کی کمی کی مصیبت میں مبتلا ہوئے۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’ان لوگوں پر ایک وقت ایسا آیا کہ کھجور کے درخت پر صرف ایک ہی کھجور اگتی تھی۔

(تفسیر صاوی،سورۃ الاعراف،الآیۃ:2،130)

اللہ پاک نے ان پر یہ سختیاں اس لئے نازل فرمائیں تاکہ ان سے عبرت حاصل کرتے ہوئے وہ سرکشی اور عناد کا راستہ چھوڑ کر اللہ پاک کی بندگی کی طرف لوٹ آئیں کیونکہ سختی و مصیبت دل کو نرم کر دیتی ہے اور اللہ پاک کے پاس جو بھلائی ہے اس کی طرف راغب کر دیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ’’ فرعون نے اپنی چار سو برس کی عمر میں سے تین سو بیس سال تو اس آرام کے ساتھ گزارے تھے کہ اس مدت میں وہ کبھی درد ،بخار یا بھوک میں مبتلا ہی نہیں ہوا۔ اگر اس کے ساتھ ایسا ہوتا تو وہ کبھی رَبُوبِیَّت کا دعویٰ نہ کرتا۔ (تفسیر کبیر،سورۃ الاعراف،الآیۃ: 5،130)

فرعونی کفر میں اس قدر راسِخ ہوچکے تھے کہ ان تکلیفوں سے بھی ان کی سرکشی بڑھتی ہی رہی، جب انہیں سرسبزی و شادابی، پھلوں ،مویشیوں اور رزق میں وسعت،صحت،آفات سے عافیت و سلامتی وغیرہ بھلائی ملتی تو کہتے یہ تو ہمیں ملنا ہی تھا کیونکہ ہم اس کے اہل اور اس کے مستحق ہیں۔یہ لوگ اس بھلائی کونہ تو اللہ پاک کا فضل جانتے اور نہ ہی اس کے انعامات پر شکر ادا کرتے اور جب انہیں قحط، خشک سالی،مرض،تنگی اور آفت وغیرہ کوئی برائی پہنچتی تو اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے اور کہتے کہ یہ بلائیں اُن کی وجہ سے پہنچیں، اگر یہ نہ ہوتے تویہ مصیبتیں نہ آتیں۔ (تفسیر خازن،سورۃ الاعراف،الآیہ:2،130)

جب فرعون اور اس کی قوم کی سرکشی یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے صاف صاف کہہ دیا کہ ’’ اے موسیٰ! تم ہمارے اوپر جادو کرنے کیلئے کیسی بھی نشانی ہمارے پاس لے آؤ، ہم ہرگز تم پر ایمان نہیں لائیں گے، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن کے خلاف دعا کی، آپ علیہ السلام چونکہ مستجابُ الدعوات تھے اس لئے آپ کی دعا قبول ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعائے ضرر کے بعد فرعون اور اس کی قوم پر جو عذاب آئے ان کا ذکر اللہ پاک قرآن مجید میں فرماتا ہے:

فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)ترجمہ کنزالایمان:تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اورٹِیڑی اور گھن اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی ۔ (پ 9،الاعراف:133)

جب جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر وسَرکشی پر جمے رہے تو اُن پر اللہ پاک کی نشانیاں پے درپے آنے لگیں کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ اےربِّ کریم!فرعون زمین میں بہت سَرکشی کرنے لگ گیا ہے اور اُس کی قوم نے بھی وعدہ خلافی کی ہے،لہٰذا اُنہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر جو اُن کے لئے سزا، میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت و نصیحت ہو، چنانچہ اللہ پاک نے طوفان بھیجا، ہوا یوں کہ بادل آیا، اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی۔ قِبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا، یہاں تک کہ وہ اُس میں کھڑے رہ گئے، پانی اُن کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیااور اُن میں سے جو بیٹھا وہ ڈوب گیا۔یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کرسکتے تھے۔ ہفتے کے دن سے لے کر دوسرے ہفتے تک سات(7) روز اِسی مصیبت میں مُبْتَلا رہے۔ باوجود یہ کہ بنی اسرائیل کے گھر اُن کے گھروں سے ملے ہوئے تھے مگر اُن کے گھروں میں پانی نہ آیا۔

جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی: ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو طوفان کی مصیبت دور ہو گئی، زمین میں وہ ہریالی آئی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ کھیتیاں خوب ہوئیں اور درخت خوب پھلے۔ یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے: یہ پانی تو نعمت تھا اور ایمان نہ لائے۔ ایک مہینا تو عافیت سے گزرا ،پھر اللہ پاک نے ٹڈیاں بھیجیں جو کھیتیاں، پھل، درختوں کے پتے،مکانات کے دروازے، چھتیں، تختے، سامان،حتّٰی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں،حتّٰی کہ قِبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں لیکن بنی اسرائیل کے یہاں نہ گئیں۔

اب قِبطیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا،اِس پر عہد و پیمان کیا۔سات(7) روز یعنی ہفتے سے ہفتے تک ٹڈی کی مصیبت میں مُبْتَلا رہے،پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے نجات پائی۔ کھیتیاں اور پھل جو کچھ باقی رہ گئے تھے اُنہیں دیکھ کر کہنے لگے: یہ ہمیں کافی ہیں ہم اپنا دِین نہیں چھوڑتے چنانچہ ایمان نہ لائے، عہد وفا نہ کیا اور اپنے بُرے اعمال میں مُبْتَلا ہوگئے۔

ایک مہینہ عافیت سے گزرا، پھر اللہ پاک نے قُمَّل بھیجے،اِس میں مُفَسِّرِیْن رَحْمَۃُ الله عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کا اِختلاف ہے:بعض کہتے ہیں: قُمَّل گُھن ہے، بعض کہتے ہیں: جُوں ،بعض کہتے ہیں: ایک اور چھوٹا سا کیڑا ہے۔ اُس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی رہے تھے وہ کھالئے۔ یہ کیڑا کپڑوں میں گھس جاتا،جِلد کو کاٹتا اور کھانے میں بھر جاتا تھا ۔اگر کوئی دس(10) بوری گندم چکی پر لے جاتا تو تین(3) سیر واپس لاتا باقی سب کیڑے کھا جاتے۔ یہ کیڑے فرعونیوں کے بال، بھنویں ،پلکیں چاٹ گئے،اُن کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے حتّٰی کہ اُن کیڑوں نے اُن کا سونا دُشوار کردیا تھا۔اِس مصیبت سے فرعونی چیخ پڑے اور اُنہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے عرض کی:ہم توبہ کرتے ہیں،آپ اِس بَلا کے دُور ہونے کی دعا فرمائیے۔چنانچہ سات(7) روز کے بعد یہ مصیبت بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے دُور ہوئی، لیکن فرعونیوں نے پھر وعدہ خلافی کی اور پہلے سے زیادہ بد ترین عمل شروع کر دئیے۔

ایک مہینہ امن میں گزرنے کے بعد پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دُعا کی تو اللہ پاک نے مینڈک بھیجے ۔یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اُس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے۔ بات کرنے کے لئے منہ کھولتا تو مینڈک کُود کر منہ میں چلا جاتا۔ ہانڈیوں میں مینڈک ،کھانوں میں مینڈک،چولھوں میں مینڈک بھر جاتے تو آگ بجھ جاتی تھی۔لیٹتے تھے تو مینڈک اُوپر سُوار ہوتے تھے۔

اِس مصیبت سے فرعونی رو پڑے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی:اب کی بار ہم پکی توبہ کرتے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن سے عہد و پیمان لے کر دعا کی تو سات(7) روز کے بعد یہ مصیبت بھی دور ہوئی اور ایک مہینہ عافیت سے گزرا ،لیکن پھر اُنہوں نے عہد توڑ دیا اور اپنے کفر کی طرف لوٹے ۔پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو تمام کنوؤں، نہروں ،چشموں اور دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی اُن کے لئے تازہ خون بن گیا۔ اُنہوں نے فرعون سے اِس کی شکایت کی تو کہنے لگا:حضرت موسیٰ (علیہ السلام)نے جادو سے تمہاری نظر بندی کردی ہے۔ اُنہوں نے کہا: تم کس نظر بندی کی بات کر رہے ہو؟ ہمارے برتنوں میں خون کے سوا پانی کا نام و نشان ہی نہیں۔ یہ سُن کر فرعون نے حکم دیا :”قِبطی بنی اسرائیل کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی لیں۔

لیکن ہوا یوں کہ جب بنی اسرائیل نکالتے توپانی نکلتا، قِبطی نکالتے تو اُسی برتن سے خون نکلتا، یہاں تک کہ فرعونی عورتیں پیاس سے عاجز ہو کر بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس آئیں اور اُن سے پانی مانگا تو وہ پانی اُن کے برتن میں آتے ہی خون ہوگیا۔ یہ دیکھ کر فرعونی عورت کہنے لگی: تُو پانی اپنے منہ میں لے کر میرے منہ میں کلی کردے ۔ مگر جب تک وہ پانی اسرائیلی عورت کے منہ میں رہا پانی تھا، جب فرعونی عورت کے منہ میں پہنچا تو خون ہوگیا ۔فرعون خود پیاس سے بے چین ہوا تو اس نے تَر درختوں کی رَطوبت چُوسی، وہ رَطُوبت منہ میں پہنچتے ہی خون ہوگئی۔ سات (7)روز تک خون کے سوا کوئی چیز پینے کی نہ ملی تو پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی، یہ مصیبت بھی دور ہوئی مگر وہ ایمان پھر بھی نہ لائے۔(تفسیربغوی،سورۃ الاعراف، الآیۃ: 2،133)


اللہ پاک نے انسانوں کو پیدا کیا تو ان کی راہنمائی کے لئے اللہ پاک نے انبیاء و رسل کو بھیجا۔ رب کائنات نے انسان کے سامنےنیکی اور بدی کےدونوں راستے رکھ دیےاور اسے اختیار دے دیا کہ جسے چاہے اختیار کرے۔ شیطان روز ازل سے بنی آدم کا دشمن ہے وہ فرشتوں کا استاد تھا مگر غرور و تکبر کی وجہ سے ملعون قرار پایا اور یہی غرور تکبر فرعون میں بھی تھا فرعون بڑا سرکش تھا۔ باوجود ربوبیت کے دعویٰ کے بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کرواتا تھا اور بنی اسرائیل پر حد سے زیادہ ظلم کرتا رہا تو اللہ پاک نے اُس کو سمجھانے کے لئے موسیٰ علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا۔ لیکن اس نے ایمان لانے سے انکار کردیا اورحضرت موسی علیہ السلام سے باقاعدہ اُس نے مقابلہ کیا، مناظرہ کرایا۔

فرعون کے مظالم سے تنگ دل ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک سے دعا مانگی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعد اللہ پاک نے فرعونیوں پر لگاتار پانچ عذابوں کو مسلط کیا۔وہ پانچوں عذاب یہ ہیں:۔

1)طوفان: بادل آیا ہر طرف اندھیرا چھا گیا پھر موسلادار بارش ہوئی۔ یہاں تک کہ طوفان آگیا اور فرعونیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا۔ جب فرعونیوں کو اس مصیبت کے برداشت کرنے کی طاقت نہ رہی اور وہ بالکل ہی عاجز ہو گئے

2)ٹڈیاں: اللہ پاک نے اپنے عذاب کو ٹڈیوں کی صورت میں بھیجا چاروں طرف سے ٹڈیوں کے جھنڈ آگئے جو ان کی کھیتیوں اور باغوں کو یہاں تک کہ ان کے مکانوں کی لکڑیاں کو کھا گئیں ۔

3)گھن:غرض ایک ماہ کے بعد پھر ان لوگوں پر ”قمل ” کا عذاب مسلط ہوگیا۔ بعض مفسرین کا بیان ہے کہ یہ گھن تھا جو ان فرعونیوں کے اناج میں لگ کر تمام اناج کو کھا گیا اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ ایک چھوٹا سا کیڑا تھا، جو کھیتوں کی تیار فصلوں کو چٹ کر گیا ۔

4)مینڈک:فرعونیوں کی بستیوں اور ان کے گھروں میں اچانک بے شمار مینڈک پیدا ہو ئے جو آدمی جہاں بھی بیٹھتا ادھر ہزاروں مینڈک بھر جاتے تھے۔ کوئی آدمی بات کرنے یا کھانے کے لئے منہ کھولتا تو اس کے منہ میں مینڈک کود کر گھس جاتے۔ ہانڈیوں میں مینڈک بلکہ اٹھتے، بیٹھتے، لیٹتے کسی حالت میں بھی مینڈکوں سے نجات نہ ملی۔

5)خون: ایک دم بالکل اچانک ان لوگوں کے تمام کنوؤں، نہروں کا پانی خون ہو گیا تو ان لوگوں نے فرعون سے فریاد کی، تو اس سرکش نے کہا کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جادوگری اور نظربندی ہے۔ فرعونی جب برتن سے پانی نکالتے تو خون نکلتا۔

اسی طرح ان پر جوؤں اور قحط سالیوں کا بھی عذاب آیا۔فرعون اور قوم فرعون نے ہر مرتبہ اپنا عہد توڑا۔ یہاں تک کہ اللہ پاک کے غضب کا آخری عذاب آیاکہ سب دریائے نیل میں غرق ہو کر ہلاک ہو کر نشان عبرت بن گئے۔فرعون کی طرح قارون بھی خدائی عذاب میں گرفتار ہوا، اور اُسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ دنیا و آخرت دونوں تباہ ہوگئی۔